اقبال کا امتیاز، ڈاکٹرمحمد رفیع الدین ؒ

اقبال کا امتیاز
اس کے جواب میں شاید یہ کہا جائے گا کہ آج تک کوئی غیر مسلم فلسفی ایسا نہیں ہوا کہ جو نبوت کاملہ کے تصور حقیقت پر اپنے فلسفہ کی بنیاد رکھتا ہو تویہ بات آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے لیکن اگر اقبال سے پہلے بھی کوئی ایک بھی مسلمان فلسفی گزرا ہے تو اس کے فلسفے کی بنیاد لازماً خدا کے اسلامی تصور پر ہو گی تو پھر اقبال کی خصوصیت کیا ہے پھر کیوں نہ اس مسلمان فلسفی کو نوع بشر کا آخری فلسفی اور آئندہ کے عالمگیر ذہنی انقلاب کا بانی قرار دیا جائے اور پھر اس سلسلہ میں شاید شاہ ولی اللہ اور محی الدین عربی ایسے اکابر اسلا م کا نام لیا جائے لیکن اس زمانے کے خاص ذہنی حالات اور خاص علمی ماحول اور مقام کی بنا پر اقبال کے فلسفہ کو جو خصوصیات حاصل ہوئی ہیں وہ آج سے پہلے کسی مسلمان فلسفی کے فلسفہ کو حاصل نہیں ہو سکتی تھیں اور نہ حاصل ہو سکی ہیں۔
اقبال کے امتیازی مقام کی وجوہات
پہلی بات تو یہ ہے کہ اقبال کے اس زمانہ میں حکمائے مغرب کی تحقیق و تجسس کی بدولت علم کے تینوں شعبوں یعنی طبیعیات حیاتیات اور نفسیات میں علمی حقائق نے اس سرعت سے ترقی کی ہے کہ اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی یہ ترقی سائنس کے ایک خاص اسلوب تحقیق کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے جو اشیا کے خواص و اوصاف کے مشاہدہ کی بنا پر پوری احتیاط کے ساتھ صحیح صحیح علمی نتائج مرتب کرنے پر زور دیتا ہے۔ یہ اسلوب تحقیق سب سے پہلے خود مسلمانوں نے قرآن کی راہ نمائی میں ایجاد کیاتھا لیکن محققین یورپ نے اس سے متواتر کام لیا ہے اور اس کو اس کا میٹھاپھل علمی حقائق کے ایک بیش بہا ذخیرہ کی صورت میں جسے ہم سائنس کہتے ہیں دستیاب ہوا ہے۔ پھر اس دور میں علمی تحقیق و تجسس کی کامیاب تحریک انسان اور کائنات کو ایک کل یا وحدت کی حیثیت سے سمجھنے کی مختلف کوششوں میں نمودار ہوتی ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اس زمانہ میں بہت سے فلسفے وجود میں آئے ہیں جن میں سے ہر ایک نے دریافت شدہ علمی حقیقتوں کو حقیقت عالم کے کسی تصور کے ساتھ ان کے مرکز یا محور کے طور پروابستہ کر نے کی کوشش کی ہے یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے حقیقت عالم کا غلط تصور قائم کیا ہے اور اس کے اردگرد حقائق علمی کی تنظیم بھی غلط طور پر کی ہے۔ سائنس کے خاص اسلوب تحقیق کی وجہ سے فلسفہ کی دنیا میں ایک نیا طرز استدلال وجودمیں آیا ہے جس میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ کوئی حقائق نظر انداز نہ ہونے پائیں حقائق کا معائنہ کامل احتیاط سے کیا جائے اور نتائج وہی اخذ کیے جائیں جو ناگزیر ہوں اور یہ طرز استدلال علمی دنیا میں آئندہ کے لیے ایک مستقل حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اقبال نے ایک عرصہ تک یورپ میں رہ کر تعلیم پائی ہے اور اس دوران میں جیسا کہ وہ خود کہتا ہے کہ وہ یورپ کی علمی ترقیات اور حکمت مغرب کی خصوصیات سے پوری طرح متاثر ہوا ہے۔
خرد افروز مرا درس حکیمان فرنگ
سینہ افروخت مرا صحبت صاحب نظراں
علمی تحقیق و تجسس کی اروپائی تحریک نے اقبال کو بھی آمادہ کیا کہ وہ انسان اور کائنات کو ایک کل کے طور پر سمجھے لیکن اقبال کی یہ آمادگی اس کے مخصوص نفسیاتی ماحول کی وجہ سے مغرب کے باطل فلسفوں میں ایک اور غلط مشرقی فلسفہ کے اضافہ کا موجب نہیںہوئی بلکہ ان باطل فلسفوں کے خلاف اور ان فلسفوں کے زہر سے انسانیت کو بچانے کے لیے مہربان قدرت کے مفید ارو کامیاب ردعمل کی صورت اختیار کر گئی ہے بالکل اسی طرح جیسے کہ ایک جسم حیوانی کے اندر ایک مہلک مرض کے جراثیم کے داخل ہونے ترقی پانے اور زہر پیدا کرنے کے بعد جسم حیوانی کے نمو اور تحفظ کے لیے کارفرما ہونے والی قوت حیات ایک رد عمل کرتی ہے۔ اور ضد سرایت(Anti-Toxin) مواد پیدا کر کے جراثیم کی ہلاکت اور جسم انسانی کی صحت کا اہتمام کرتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اقبال کے ذریعہ سے قدرت نے ایک ایسے فلسفہ کو نمودار کیا ہے جس کی روشنی میں نہ صرف مغرب کے موجودہ غلط فلسفوں کا کافی اور شافی جواب اور ابطال بالقوہ موجود ہے لہٰذا یہی فلسفہ ہے جو آگے چل کر پوری نوع انسانی کا فلسفہ بننے والا ہے قدرت کی عادت ہے کہ جب انسانوں کی قدرتی بدنی یا روحانی ضروریات کی تشفی میں کوئی شدید رکاوٹ پرورش کے لوازمات مہیا کرنے کے لیے ایک معجزانہ قدم اٹھاتی ہے اسی عادت کی وجہ سے جسم حیوانی مرض کے خلاف رد عمل کر کے صحت مند ہوتا ہے اور اسی کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے کہ جب غلط نظریات اور تصورات اشاعت پذیر ہو کر عالم انسانی کو غلط راہوں پر لیے جا رہے ہوں تو اس میں ایسے دانائوں مفکروں اور راہنمائوں کا ظہور ہوتا ہے جو ان غلط تصورات کا ابطال کر کے انسانیت کو زندگی کے صحیح راستوں پر واپس لاتے ہیں۔
اقبال کا مخصوص نفسیاتی ماحول
اقبال کے مخصوص نفسیاتی ماحول نے ممکن بنا یا ہے کہ وہ اپنے فلسفہ کی بنیاد حقیقت کائنات کے صحیح تصور پر رکھے اور اس نفسیاتی ماؤحول میں اس کا مسلمان ہونا اور پھر مسلمانوں میں بھی تصوف زہد اور ریاضت کا ذوق رکھنے والے ایک خاندان کا ہونا ارباب نظر اور اہل دل بزرگوں کی سحبت سے شغف رکھنا اور اس کی جستجو کرنا حتیٰ کہ اس کے حصول کے لیے کسی موقع کو نظر انداز نہ کرنا اس سے متواتر مستفید ہوتے رہنا عربی اور فارسی کے علوم اور اسلام کے علماء اور حکماء اور صوفیا کی کتابوں کا مطالعہ کا ذوق رکھنا اسے عناصر شامل ہیں جو اس ماحول نے اسے نبوت کے عطا کیے ہوئے صحیح تصور کائنات کے وجدان سے آشناسی نہیںکیا بلکہ اس تصور کے حسن و جمال کے ایک طاقت ور قلبی احساس یا عشق کو بھی پروان چڑھایا ہے۔
خرد افروز مرا درس حکیمان فرنگ
سینہ افروخت مرا صحبت صاحب نظراں
یہی سبب ہے کہ وہ کہتا ہے:
مے نہ روید نحم دل از آب و گل

بے نگاہے از خداوندان دل