اقبال کا مقام عظیم، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

اقبال کا مقام عظیم
تعلیم نبوت اور افلسفہ کا یہ اتصال انسان کے علمی ارتقا کا ایک بہت بڑا واقعہ ہے جو نوع انسانی کو ترقی کے ایک نئے دو رمیں داخل کرتا ہے اور اقبال اس دور کا نقیب ہے اس واقعہ سے اس عالمگیر ذہنی انقلاب کا آغاز ہوتا ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے اور جس کے نتیجہ کے طور پر مسلمان قوم دنی امیںغالب ہو گی اور عالم انسانی امن اور اتحاد کی دولت سے مالا مال ہو گا۔ اس واقعہ سے حقیقت انسان کا علم جس پر انسان کے دائمی امن اور اتحاد کا دارومدار ہے۔ پہلی دفعہ ایسی منظم صورت میں سامنے آیا ہے جو دور حاضر کے انسان کو مطمئن کر سکتی ہے اور جو اس کی عالم گیر مقبولیت کی ضامن ہے۔ اقبال مسلمانوں کو نہایت زور دار الفاظ میں ’’عشق‘‘ اور ’’زیرکی‘‘ کی جس آمیزش کی دعوت دیتا ہے وہ خود ہی اس کا آغاز کرتا ہے اور اس طرح سے خود ہی ’’عالم دیگر]‘ کی بنیاد رکھتا ہے۔ گویا اقبال آئندہ کے لی اس عالمگیرذہنی انقلا ب کا نقیب ہی نہیں بلکہ بانی بھ ہے جس کے بعد اور کوئی ذہنی انقلاب نہیں آ سکے گا لہٰذا اقبال آئندہ کی مستقل عالمگیر ریاست(World State)کا وہ ذہنی اور نظریاتی بادشاہ ہے جس کی بادشاہت کو زوال نہین ایک معمولی آدمی کیلیے جو رسول نہیں بلکہ رسولؐ  کا ایک ادنیٰ غلام ہے عظمت کایہ مقام اس قدر بلند ہے کہ اس سے بلند تر مقام ذہن میں نہیں آ سکتا۔ اقبال اپنے اس مقام سے آگاہ ہے یہی سبب ہے کہ وہ بار بار اپنے اشعارمیں یہ کہتا ہے کہ اسے زندگی کے راز سے آشنا کیا گیا ہے آج تک کسی شخص نے کائنات کے وہ اسرا ر ورموز بیان نہیں کیے ہیں جو اس نے بیان کیے ہیں۔ اس کی حکمت معانی اور ھقائق کے بیش قیمت موتیوں کی ایک لڑی ہے جس کی کوئی نظیر آج تک پیش نہیں کی گئی ۔ اگرچہ وہ ایک ذرہ ہے لیکن سورج کی روشنی سے ہم کنار ہے ۔ علم و حکمت کے نور کی سینکڑوں صبحیں اس کے گریبان میں روشن ہیں۔ اس کی خاک جام جم سے زیادہ منور ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ آنے والے دور میں کیا ہونے والا ہے۔ اس کے فکر کی رسائی ان حقائق تک ہوتی ہے جو ابھی دوسرے لوگوں پر آشکار نہیں ہوتے۔
چشمہ حیواں براتم کردہ اند
محرم راز حیاتم کردہ اند
ہیچ کس رازے کہ من گوتم نگفت
ہمچو فکر من در معنی نہ سفت
ذر ام مہر میز آن من است
صد سحر اندر گریبان من است
خاک من روشن ترا از جام جم است
محرم از نازاد ہائے عالم است
فکرم آں آہو سرفتراک بست
کو ہنوز از نیستی بیرون نجست
٭٭٭
برآمد روزگار ایں فقیرے
دگرد انائے راز آید نہ آید
٭٭٭
عمرہا در کعبہ و بت خانے مے نالد حیات
تاز بزم عشق یک دانائے راز آید بروں
٭٭٭
وہ جانتا ہے کہ اگر چہ آج کا انسان اپنی علمی بے مائیگی اورروحانی پس ماندگی کی وجہ سے پوری طرح اس کی قدردانی نہ کر سکے گا تاہم مستقبل میں پوری نو ع بشر اس کے افکار کو اپنائے گی اور اس کی فکری قیادت کو قبو ل کرے گی وہ تنہا نہیں رہے گا بلکہ سینکڑوں کارواں اس کے ہمراہ ہوں گے‘ وہ صبح عنقریب نمودا ر ہونے والی ہے جب لوگ جہالت کی نیند سے اٹھیں گے اور محبت کی اس آگ کے گرد جو اس نے روشن کی ہے آگ کے پجاریوں کی طرح ذوق و شوق سے جمع ہوں گے وہ مستقبل کے شاعر کی آواز ہے اور ایسا نغمہ ہے جسے زخمہ در کی حاجت نہیں اور جو ہر حالت میں بلند ہو کر رہے گا۔ اس کا کلام ایک عالم گیر انقلاب اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے جب یہ انقلاب آئے گا تو لوگ ا س کے اشعار پڑھ پڑ کر جھومیں گے اور کہیں گے کہ یہ وہ مرد خود آگاہ ہے جس نے دنیا کو بدل دیا ہے:
عصر من دا نندہ اسرار نیست
یوسف من بہر ایں بازار نیست
نغمہ من از جہان دیگر است
ایں جرس را کاروانے دیگر است
نغمہ ام از زخمہ بے بروا ستم
من نوائے شاعر فردا ستم
بچشم کم مبین تنہا میم را
کہ من صد کارواں گل درکنارم
قلزم یاراں چو شبنم بے خروش
شبنم من مثل یم طوفان فروش
انتظار صبح خیزاں مے کشم
اے خوشا زر دشتیان آتشم
٭٭٭
پس از من شعر من خوانند دمے رقضد و می گوئند
جہانے راہ دگرگوں کودیک مرد خود آگاہ ہے
اقبال کی خود ستائی ٹھوس علمی حقائق ہیں

اس سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ اقبال کے اس قسم کے اشعار محض خودستائی کے جذبات یا شاعرانہ تعلیات پر مشتمل نہیں بلکہ ایسے ٹھوس حقائق کو بیان کرتے ہیں کہ جو مضبوط علمی اور عقلی بنیادوں پر قائم ہیں جو اس کے فلسفہ کا جزو لاینفک ہیں اور جن کا اظہار اس کے لیے خود اپنے فلسفہ کی تشریح کے لیے ضروری تھا کہ اگر اقبال ان کا اظہار نہ کرتا تو اس کا فلسفہ ناتمام رہ جاتا اور یہ ایک ایسی فروگزاشت ہوتی جس کی وجہ سے اقبال کی قوم ایک حد تک اس کے فکر کی معقولیت اوراہمیت سے نا آشنا رہ جاتی۔