اقبال بنیادی طور پر ایک صوفی یا درویش ہے شاعر یا فلسفی نہیں
افسو س ہے کہ اقبال کے غیر مبہم الفاظ میں بار بار کہنے کے باوجود ہم بالعموم اس بات کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ گویا اقبال ایک شاعر بھی ہے اور ایک فلسفی بھی تاہم بنیادی طور پر وہ نہ فلسفی ہے اور نہ شاعر بلکہ ایک درویش یا صوفی ہے اس کا شاعرانہ کمال اور اس کا حکیمانہ جوہر دونوں اس کے وجدان یا عشق کے خدمت گزار ہیں۔ اس کی ساری ذہنی کاوشوں کا حاصل یہ ہے کہ اس نے فلسفہ کی معروف اور دور حاضر کے انسان کے لیے قابل فہم زبان میں اپنے روحانی تجربہ یا عشق کی ترجمانی کی ہے اور اس عمل کے دوران میں جو فلسفیانہ افکار و تصورات اس کے ہاتھ لگے ہیں ان کو شعر کے زوردار اور پرا ثر طرز بیان کا جامہ پہنایا ہے۔ دوسرے شاعروں کی طرح محبت مجاز کی داستانوں اور غزلوں سے سننے والوں کا دل لبھانا اس کا مدعا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شاعر کے لقب کو جو بعض وقت اس کے نادان دوست اس پر چسپاں کرتے ہیں بڑے زور سے رد کرتاہے:
نہ پنداری کہ من بے بادہ مستم
مثال شاعراں افسانہ بستم
٭٭٭
مدار امیدز ان مرد فرو دست
کہ برمن تہمت شعر و سخن بست
٭٭٭
نغمہ کجا و من کجا ساز سخن بہاز ایست
سوئے قطارے کشم ناقہ بے زمام را
٭٭٭
او حدیث دلبری خواہد زمن
رنگ و آب شاعری خواہد زمن
کم نظر بے تانبے جانم ندید
آشکارم دید و پنہانم نہ دید
اقبال مولانا سلیمان ندوی کو اپنے ایک خط میں مورخہ 14 اگست 1913ء میں لکھتے ہیں:
’’میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھا ۔ فن شاعری سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہاں بعض مقاصد خاص رکھتا ہوں جن کے بیان کے لیے اس ملک کے حالات اور روایات کی رو سے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کر لیا ہے:
نہ بینی خیر ازاں مرد فرو دست
کہ برمن تہمت شعر و سخن بست‘‘
اسی طرح اپنے ایک خط مورخہ 27 ستمبر 1913ء میں خواجہ حسن نظامی کو لکھتے ہیں:
’’آپ کو معلوم ہے کہ میں اپنے آپ کوشاعر تصور نہیں کرتا اور نہ کبھی بحیثیت فن کے اس کا مطالعہ کیا ہے۔ پھر میرا کیا حق ہے کہ میں صف شعرا میں بیٹھوں‘‘۔
اوپر یہ ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح سے اقبال اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ تمام ایسے فلسفے جو خدا کی محبت یا بالفاظ دیگر حقیقت کائنات کے صحیح تصور سے عاری ہوں اور لہٰذا حقیقت کے غلط یا ناقص تصورات پر مبنی ہوں بے ہودہ اور بیکار ہیں اگر اقبال خود خدا کی محبت سے بہرہ ور نہ ہوتا تو ممکن نہیں تھا کہ وہ کبھی اس قیمتی حکیمانہ نتیجے پر پہنچ سکتا۔ اور یہ ہمارا قیاس ہی نہیں بلکہ خود اقبال کا دعویٰ بھی ہے کہ اسے روحانیت کا ایک درجہ اور معرفت حق تعالیٰ کا ایک مقام عطا کیا گیا ہے اس درجہ معرفت اور مقام محبت کو وہ افروزش سینہ سو دروں‘ ذو ق نگاہ‘ بادہ ناب وغیرہ الفاظ سے تعبیر کرتاہے اور اپنے لیے درویش فقیر ‘ قلندر ایسے القاب استعمال کرتا ہے جو صوفیا کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں:
خرد افزد و مرا درس حکیمان فرنگ
سینہ افروخٹ مرا صحبت صاحب نظراں
٭٭٭
درویش خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر میرا نہ دلی نہ صفاہان نہ سمرقند
٭٭٭
سر آمد روزگار ایں فقیرے
دگرد انائے راز آید نہ آید
٭٭٭
قلندر جزو حرف لالہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہ شہر قارون ہے لغت ہائے مجازی کا
٭٭٭
اے پسر ذوق نگاہ از من بگیر
سوختن در لا الہ از من بگیر
٭٭٭
مرے کدو کو غنیمت سمجھ کہ بادہ ناب
نہ مدرسہ میں ہے باقی نہ خانقاہ میں ہے
٭٭٭
از تب و تابم نصیب خود بگیر
بعد من ناید چومن مرد فقیر
٭٭٭
عصر حاضر را خرد زنجیر پاست
جان بیتابے کہ من دارم کجاست
٭٭٭
اعجمی مردے چہ خوش شعرے سرود
سوز و از تاثیر او جان در وجود