خودی کی حقیقت ، ڈاکٹرمحمد رفیع الدین ؒ

خودی کی حقیقت
خودی کیا ہے؟
اقبال کی حکمت میں خودی سے مراد وہ شعور ہے جو خود شناس اور خود آگا ہ ہو اور اپنی ذات اور اپنے مقاصد کا احساس یا شعور رکھتا ہو لیکن یہاں شعور کا مطلب ہو ش یا تمیز نہیں بلکہ وہ چیز ہے جس کا خاصہ ہو ش یا تمیز رکھنا ہے جس کی وجہ سے ایک انسان تمیز یا ہوش رکھتا ہے انسان میں یہی چیز ہے جو خود شناس یا خود آگاہ ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو ’’میں‘ کہتی ہے اس لیے اقبال کو ’’انا‘‘ یا ’’ایغو‘‘ یا ’’من‘‘ بھی کہتا ہے اور پھر یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے انسان زندہ ہے اور جب مرتا ہے تو یہی وہ چیز ہے جو اس کے جسم سے رخصت ہو جاتی ہے۔ اس لیے اقبال کے لیے ’’روح‘‘اور ’’جان‘‘ کے الفاظ بھی استعمال کرتا ہے اور اس کو ’’زندگی‘‘ اور ’’حیات‘‘ کے ناموں سے بھی تعبیر کرتا ہے۔
عقل مدت سے ہے اس پیچاک میں الجھی ہوئی
روح کس جوہر سے خاک تیرہ کس جوہر سے ہے
٭٭٭
ارتباط حرف و معنی اختلاف جان و تن
جس طرح اخگر قبا پوش اپنے خاکستر سے ہے
٭٭٭
زندگی بغیر شعور کے نہیں ہوتی لہٰذا ان معنوں میں کہ شعور زندگی ہے ایک خاص سطح کا شعورحیوان میں بھی موجود ہے ۔ لیکن حیوان کا شعور آزاد نہیںبلکہ قدرت کی پیدا کی ہوئی ناقابل تغیر جبلتوں کے ماتحت کام کرتا ہے اس کے برعکس انسان کا شعور جبلتوں سے آزاد ہو کر اور ان کی مخالفت میں بھی عمل کرتا ہے  اس لیے وہ خو د شناس اور خود شعور ہے اور اپنے مقاصد کو جانتا ہے۔ حیوان اپنے شعور کی وجہ سے فقط سوچتا جانتا اور محسوس کرتا ہے لیکن انسان اپنے شعور کی وجہ سے نہ صرف جانتا ہے سوچتااور محسوس کرتا ہے بلکہ جب وہ ایسا کرتا ہے تو وہ جانتا بھی ہے کہ وہ جانتا سوچتا ور محسوس کرتا ہے۔ اس لیے ہم انسان کے شعور کو خود شناس اور خو دآگاہ کہتے ہیں۔ اسے شعور نہیں بلکہ خود شناسی خود شعوری یا خود آگاہی کہنا چاہیے اقبال اسی کو خودی کہتا ہے۔
خودی کے اوصاف و خواص…خود آگاہی
خود آگاہی خودی کا ایک حیر ت انگیز خاصہ ہے اسی خاصہ کی وجہ سے کائنات برپا ہے او ر انسان ساری تگ و دو اور جدوجہد اسی خاصہ کی وجہ سے ہے اسی کی وجہ سے خودی اپنے آپ کو بغیر آنکھوں کے دیکھتی ہے اور بغیر کانوںسے سنتی ہے بلکہ اپنے آپ کو کسی حس کی مدد سے بغیر براہ راست پوری طرح سے جانتی ہے میں جانتا ہوں کہ میں ہوں کیونکہ میں سو چ رہا ہوں جان رہا ہوں اور خوشی یا غم محسوس کر رہا ہوں لیکن میری کوئی حس مجھے اپنے آپ کو جاننے میں مدد نہیں دے رہی اگرچہ میں اپنی خودی کو ان آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا لیکن اس کے باوجود بغیر ان آنکھوں کے ا س طرح سے دیکھ رہا ہوں کہ میرے لیے اپنے آپ کا علم ان چیزوں کے علم سے بدرجہا زیادہ یقینی ہے جن کو میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر جانتا ہو ںان کا جاننا میرے لیے اسی وجہ سے ممکن ہے کہ میں اپنی خودی کو جانتاہوں کیونکہ ان کا علم وہی ہے جس کو میری خودی جانتی ہے اور میری خودی سے باہر ان کا کوئی علم نہیں لہٰذا اگر میں اپنی خودی کو نہ جانوں تودنیاکی کسی چیز کو دیکھنے کے باوجود نہیں جان سکتا اگر دنیا بھر میں کسی چیز کا یقینی علم ہمیں حاصل ہے تو وہ فقط اپنی خودی کا علم ہے ہم اپنی خودی کے علم سے ہی اپنے دوسرے غیر خودی کے علم کو پرکھتے ہیں۔
خودی کا وجود فریب یا وہم نہیں
خارج کی دنیا کے متعلق ہمارا علم قیاسی ہے اور ہمارا قیاس حواس پر مبنی ہوتا ہے۔ حواس کے تاثرات کے بدلنے سے خواہ اس کا کوئی سبب خارج میں ہو یا نہ ہو ہمارا علم بد ل جاتا ہے ۔ اس لیے کوئی شخص کائنات کے متعلق تو کہہ سکتاہے کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں اور زمین اور آسمان درحقیقت موجود نہیںہیں یا ان کی حیثیت ایک ایسے خواب یا وہم سے زیادہ نہیں جو خالق کائنات کی ہستی کے لیے ایک پردہ کا کام دے رہا ہے لیکن کوئی شخص خود ی کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں اور وہ ایک وہم ہے خودی کا وجود محسوس دنیا خارجی دنیا یا مادی دنیا کی چیز نہیں یہی سبب ہے کہ ہمارے حواس او رہمارے قیاسات اس کو جاننے کاوسیلہ نہیں بنتے۔
فروغ دانش ما از قیاس است
قیاس ماز تقدیر حواس است
چو حس دیگر شد ایں عالم دگر شد
سکون و دیر و کیف و کم دگر شد
توان گفتن جہان رنگ و بو نیست
زمین و آسمان و کاخ و کو نیست
خودی از کائنات رنگ و کو نیست
حواس ماجہان ماو او نیست
اگر کوئی کہے کہ میں اپنی خودی کے وجود کا دھوکا یا وہم ہو رہا ہے اور درحقیقت ایسی کوئی چیز موجود نہیں جو اپنے آپ کو ’’میں‘‘ کہہ سکتی ہو تو اس سے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ اس دھوکے یا وہم کا علم یا احساس کس کو ہو رہا ہے۔ اگر اس دھوکے یا وہم کا علم یا احساس ایک حقیقت ہے اور خو د ایک دھوکا اور وہم نہیں وہ چیز کیونکر ایک دھوکا یا وہم ہو سکتی ہے جس کو یہ علم یا احسا س ہو رہا ہے اور یہی چیز خودی ہے جو اپنے آپ کو ’’من ‘‘ کہتی ہے۔
اگر گوئی کہ ’’من‘‘ وہم و گمان است
نمودش چوں نمود ایں و آن است
بگو با من کہ دارائے گمان کیست
یکے در خود نگر آں بے نشان کیست
یہ بات کس قدر عجیب ہے کہ خارج کی دنیا تو آشکار موجود ہو لیکن اس کے باوجود اس کا وجود مشکوک اور دلیل اور ثبوت چاہتا ہو اور اس کے اسرار ورموز پر کوئی جبریل بھی حاوی نہ ہو سکے اور خودی نظروں سے اوجھل ہو اور اس کے باوجود اس کا ہونا یقینی ہو اور ثبوت یا دلیل سے بے نیاز ہو بلکہ تمام دعاوی اور مسائل اور تمام براہین اور دلائل اس کے ہونے پر مبنی ہوں۔ اس سے زیادہ خودی کے حقیقی ہونے کا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے لہٰذا خود ی حق ہے اور باطل نہیں وہ موجود ہے اور غیر موجود نہیں اور اس کا وجود بے مقصد اور بے سود نہیں۔
جہاں پیدا و محتاج دلیلے
نمی آید بفکر جبرئیلے
خودی پنہاں ز حجت بے نیاز است
یکے اندیش و وریاب ایں چہ راز است
خودی را حق بداں باطل پندار
خودی را کشت بے حاصل پندار
زمان و مکان سے بے نیازی
اس کے باوجود کہ خودی انسان کے جسد عنصری میں جاگزین ہے جو سلسلہ لیل و نہارکی پابندیوں سے گھرا ہوا ہے وہ خود زمان و مکان کی حدود و قیود سے آزاد ہے کیونکہ وہ اپنے خیال کے ذریعہ سے ادھر ماضی اور مستقبل کی انتہائی تک اور ادھر کائنات کے دور دراز گوشوں تک جہاں روشنی بھی کروڑوں برس میں آتی ہے آن واحد میں جا پہنچتی ہے۔
بخاک آلود و پاک از مکان است
بہ بند روز و شب پاک از زمان است
خیال اند کف خاکے چنان است
کہ سیرش بے مکان و بے زمان است
چونکہ ہم خود ی کو کسی حالت میں بھی نہ ان آنکھو ں سے دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہاتھو ں سے چھو سکتے ہیں اور غیر کی خودی اپنی خودی نہیں ہوتی کہ ہم حواس کی مدد کے بغیر براہ راست اسے دیکھ سکیں ہم غیر کی خودی کا علم خواہ وہ خودی ہو یا انسان کی فقط اس کے مظاہر اور اثرات اور اعمال اور افعال کے مطالعہ سے ہی حاصل کر سکتے ہیں۔
خودی ایک نورانی قوت یا قوت نور ہے
خودی ایک نور ہے لیکن مادی روشنیوں میں سے کوئی روشنی ایسی نہیں جو اس کی مماثل ہو اور پھر خودی ایک قوت ہے لیکن مادی قوتوں میں سے کوئی قوت ایسی نہیں جس کے ساتھ ا س کو مشابہت دی جا سکے یہی وہ نورانی قوت یا قوت نور ہے جس کا انسان میں اور دنیا کی ہر چیز میں ظہور ہے ۔ یہی زندگی ہے۔
وا نمودن خویش را خوئے خودیست
خفتہ ور ہر ذرہ تیروئے خودیست
نکتہ نورے کہ نام او خودیست
در وجود ما شرار زندگی است
اقبال کے الفاظ میں خودی ’’شعور کا وہ روشن نکتہ ہے جس سے تمام انسانی تخیلات و جذبات و تمینات مستیز ہوتے ہیں وہ یہ ایک لازوال حقیقت ہے جو فطرت انسانی کی منتشر اور غیر محدود کیفیتوں کی شیرز بند ہے‘‘اور اس کا خاصا یہ ہے کہ وہ عمل اور خو د نمائی کے لے بے تاب رہتی ہے۔
قوت خاموش و بیتاب عمل
از عمل پابند اسباب و علل
مشکلات پر غالب آنے کی خواہش خودی کا خاصہ ہے
لفظ خودی کی اس تشریح سے ظاہر ہے کہ اقبال نے اس لفظ کو استعمال انگریزی لفظ (Self or Self-Conscousness) کا جو مدت سے فلسفہ کی ایک اصطلاح کے طور پراستعمال ہو رہا ہے۔ فارسی یا اردو ترجمہ کیا ہے لیکن افسوس ہے کہ خودی کی اس سادہ اورمعروف فلسفیانہ اصطلاح کو سمجھنے میں بالعموم اقبال کے ایسے معتقدین کو بھی دقت پیش آئی ہے جو اس کے بہت قریب رہے ہیں اس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ خودی کا لفظ اب تک فارسی اور اردو می ایک اور معنوں میں استعمال ہوتا رہا ہے یعنی خود پرستی ‘ خود مختاری ‘ خود سری‘ خود آرائی‘ خود غرضی غرور نخوت اور تکبر کے معنوں میں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ خود اقبال نے بھی اپنی قوم کی موجودہ حالت کے پیش نظر خودی کی گوناگوں فطری صفات سے ہے اس صفت پر خاص زور دیا ہے جس کا ایک پہلو خود نمائی یا حب استیلا یا حب تفوق (Self-Assertion)ہے۔
زندگانی قوت پیداستے
اصل او از ذوق استیلاستے
اس صفت کی رو سے خودی کا ایک مقصد کا تصور کرتی ہے پھر اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی پوری قوت سعی و عمل صرف کرتی ہے اور اس عمل سے اسے اپنے مقصد میں حائل ہونے والی مخالف قوتوں پر غلبہ حاصل ہوتا ہے اور وہ اپنے آپ کا یعنی اپنی قوتوں کا اظہار کرتی ہے اور اس خودی اظہاری یا وانمودن خویش سے اسے اطمینان حاصل ہوتا ہے اس بنا پر بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ خودی کی فلسفیانہ اصطلاح روزمرہ کی زبگان میں استعمال ہونے والی لفظ خودی کے ساتھ معنی اشتراک کا رکھتی ہے ان کا خیال ہے کہ اقبال کے نزدیک جذبہ خود نمائی یا ذوق استیلا کے جائز اور ناجائز استعمال میں کوئی خاص خوبی ہے اور اقبال کی تعلیم یہی ہے کہ جس طرح سے ممکن ہو اس جذبہ کا اظہار کیا ائے یہ بات قطعاً غلط ہے ک اس کی وجہ پوری تفصیل کے ساتھ آگے تو چل کر بیان کی جائے گی لیکن یہاں اس غلط فہی کو رفع کرنے کے لیے دو گزارشات ضروری ہیں ایک تو یہ کہ خودی کے مقاصد اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی اور صحیح بھی ہوتے ہیں اور غلط بھی جدوجہد یا عمل سے خودی کو مستقل اور مکمل اطمینان (جو اس کی پیہم ترقی اور ترفع کا ضامن ہے) اسی صورت میں حاصل ہوتا ہے کہ جب ا سکا مقصد اس کی فطرت کے مطابق ہو۔ غلط مقصد کی پیروی سے خودی کو عارضی تسلی ہو تو لیکن آخر کار اسے بے اطمینانی اور ناکامی کا احساس ہوتا ہے ایسی صورت میں اس کی جدوجہد آخر کار خود اس کے اندر رونی فطرتی مقصد کو شکست دے دیتی ہے اور دوسری گزارش یہ ہے کہ عمل یا جدوجہد احساس کا مدعا لازمی نتیجہ ہے۔ اور خودی ہر آن کوئی نہ کوئی مدعا افچھا یا برا صحیح یا غلط رکھنے پر مجبور ہے اور لہٰذا ہر وقت عمل یا جدوجہد کرنے پر بھی مجبورہے۔ غلط مدعا غلط عمل پیدا کرتا ہے اور صحیح مدعا صحیح عمل پیدا کرتا ہے ۔ اقبال صرف اسی عمل کی تلقین کرتا ہے جو خودی کی فطرت کے مطابقت رکھتا ہو اور لہٰذا صحیح ہو اور اس کے نزدیک صحیح مدعا اور لہٰذا صحیح عمل مومن کا امتیاز ہے۔ گویا اقبال نے جو عملی جدوجہد اور خودنمائی پر زور دیا ہے اس کی بنیادی شرط یہ ہے کہ ہم اپنے مقصد یا مدعا کو درست کریں اور اسی کو وہ یقین محکم یا ایمان کہتا ہے اگر مدعا نقائص سے پاک اور شکوک و شبہات سے آزاد ہوکر درست ہو جائے تو وہ ایک طاقتور عزم یا ارادہ عمل بن جاتا ہے۔
اقبال کی وضاحت
اقبال نے خود اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ خودی سے اس کی مراد غرو ر یا تکبر نہیں چنانچہ اسرار خودی کے دیباچہ میں اس نے لکھا ہے :
’’ہاں لفظ خودی کے متعلق ناظرین کو آگاہ کر دینا ضروری ہے کہ یہ لفظ اس نظم میںبمعنی غرور استعمال نہیں کیا گیاہے کہ عام طور پر اردو میں مستعمل ہے اس کا مفہوم محض احساس نفس یا یقین ذات ہے‘‘۔
قاضی نذیر احمد کے نام اپنے ایک مکتوب میں لکھا ہے:
’’اسرار خودی اور رموز بے خودی دونوں کا موضوع یہی مسئلہ خودی ہے ان کتابوں کے پڑھنے سے آ پ کو اطمینان ہو جائے گا کہ اگر ان دونوں میں یا کسی اور کتاب میں آپ کو کوئی ایسا شعر ملے جس میں خودی کامفہوم تکبر یا نخوت لیا گیا ہو تو اس سے مجھے آگا ہ کیجیے‘‘۔
مطلب یہ تھا کہ میں نے اپنی کسی کتاب میں بھی لفظ خودی کو تکبر یا نخوت کے معنوں میں استعمال نہیں کیا۔ نیٹشے (Nietzche)پر اقبال کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک نوٹ اقبال اکادمی کے پاس محفوظ ہے اس نوٹ میں لفظ خودی کی تشریح کرتے ہوئے اقبال نے لکھا ہے:
’’لفظ خودی کو بڑی مشکل سے اور بادل نخواستہ چنا گیا ہے ادبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس کے اندر بہت سی خامیاں ہیں اور اخلاقی نقطہ نظر سے اسے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں ہمیشہ برے معنوں میں ہی استعمال کیا جاتا رہا ہے اور دوسرے الفاظ میں جو ’’میں‘‘ کی مابعدالطبیعیاتی حقیقت کوبیان کرنے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں اتنے ہی ناموزوں ہیں مثلاً انا‘ شخص‘ نفسانیت‘ انانیت۔
ضرورت درٓصل اس بات کی ہے کہ میں یا ’’اخو‘‘ کے لیے ایک ایسا لفظ مل جائے جو بے رنگ ہو اور کسی اخلاقی مفہوم کے بغیر ہو۔ جہاں تک مجھے معلمو ہے فارسی یا اردو میں کوئی لفظ ایسا موجود نہیں فارسی لفظ ’’من‘‘ بھی اتنا ہی اموزوں ہے تاہم شعر کی ضروریات کا لحاظ کرتے ہوئے بھی میں نے یہ سمجھا ہے کہ لفظ خودی سب سے زیادہ موزوں ہے۔ فارسی زبان میں کسی قدر اس بات کی شہادت بھی موجود ہے کہ لفظ خودی ایغو کے سادہ مفہوم یعنی ’’من‘‘ کے بے رنگ معنوں میں استعمال کیا گیا ہے گویا مابعد الطبیعیاتی نقطہ نظر سے خودی کا لفظ ’’من‘‘ کے اس ناقابل بیان احسا س کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو ہرفرد انسانی کی بے مثل انفرادیت کی بنیاد ہوتا ہے‘ مابعد الطبیعیاتی طور پر اس لفظ کا کوئی مفہوم ایسے لوگوں کے لیے نہیں جو اس کے اخلاقی مفہوم سے نجات نہیں پا سکتے میں زبور عجم میں پہلے کہ چکا ہوں :
گرفتم ایں کہ شراب خودی بسے تلخ است
بد رو خویش نگر زہر ما بدر مان کش
ترجمہ: خود ی کی شراب بے شک تلخ ہے لیکن اپنے مرض پر نگاہ رکھو اور اپنی صحت کی خاطر میرے زہر کو پی لو۔
جب میں نفی خودی کی مذمت کرتا ہوں ت ومیرا مطلب اس سے اخلاقی معنوںمیں ایثاریا نفس کشی کی مذمت نہیں ہوتا۔ نفی خودی کی مذمت میں ایسے افعال کی مذمت کرتا ہوں جن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ’’میں‘‘ کو ایک مابعد الطبیعیاتی قوت کی حیثیت سے مٹا دیا جائے کیونکہ اسے مٹانے کے معنی یہ ہیں کہ اس کے اجزا بکھر جائیں وہ حیات بعد ممات کے قابل نہ رہے جہاں تک میں سمجھ سکتا ہوں اسلامی تصوف کا نصب العین خودی کا مٹانا نہیں۔ اسلامی تصوف میں فنا سے مراد انسانی ایغو کا مٹانا نہیں بلکہ اس کا مکمل طور پر خدا کی ذات کے سپر د کر دینا ہے اسلامی تصوف کا نصب العین ایک ایسا مقام ہے جو فنا کے مقام سے بھی آگے ہے یعنی مقام بقا جو میرے نقطہ نظر سے اثبات خودی کا بلند ترین مقام ہے جب میں کہتا ہوں کہ لعل کی طرح سخت ہو جائو تو میری مراد نیتشے کی طرح یہ نہیں ہوتی کہ بے رحم ارو بے درد ہو جائے بلکہ یہ ہوتی ہے کہ خودی کے عناصر کو مجتمع کرو تاکہ وہ بعد از مرگ زندہ رہنے کے لیے فنا کا مقابلہ کر سکے۔
اخلاقی نقطہ نظر سے لفظ خودی(جیسا کہ اسے میں نے استعمال کیا ہے) کا مطلب ہے خود اعتمادی خودداری اپنی ذات پر بھروسہ  حفاظت ذات بلکہ اپنے آ پ کو غالب کرنے کی کوشش جبکہ ایسا کرنا زندگی کے مقاصد کے لیے اور صداقت انصاف اور فرض کے تقاضوں کو پورا کرنے کی قوت کے لیے ضروری ہو اس قسم کا کردار میرے اخلاق میں اخلاقی ہے کیونکہ وہ خود ی کو اپنے قویٰ کے مجتمع کرنے میں مدد دیتا ہے ۔ اور ا س طرح تخیل اور انتشار کی قوتوں کے خلاف خودی کو سخت کر دیتا ہے عملی طور پر مابعد الطبیعیاتی ایغو دو بڑے حقوق کا علم بردار ہے اول زندہ رہنے کا حق او ر دوئم آزا د رہنے کا حق جیساکہ خداوندی قانون نے مقرر کیا ہو‘‘۔
خودی ذہنی کیفیتوں کو منظم کرتی ہے
خودی کے اوصاف میں سے ایک وصف یہ ہے کہ وہ ہماری ذہنی حالتوں میں وحدت پیدا کرتی ہے اقبال نے لکھا ہے:
’’خودی ذہنی حالتوں کی ایک وحدت کی صورت میں اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے ذہنی حالتیں ایک دوسرے سے الگ تھلگ نہیں ہوتیں وہ ایک دورے کو شامل ہوتی ہیں اور حقیقتاً ایک دوسرے کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں وہ ایک مرکب کل کی جسے ہم ذہن کہتے ہیں بدلی ہوئی کیفیتوں کے طور پر ہوتی ہیں آپس میں تعلق رکھنے والی ان حالتو ں کی وحدت یا یوں کہیے کہ واقعات کی عضویاتی وحدت ایک مخصوص طرز کی وحدت ہوتی ہے یہ ایک مادی شے کی وحدت سے بنیادی طور پر مختلف ہوتی ہے کیونکہ ایک مادی چیز کے اجزا ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہ سکتے ہیں ذہنی وحدت قطعی طور پر بے مثال ہے ہم نہیں کہہ سکتے کہ میرا فلاں اعتقاد میرے دوسرے اعتقاد کے دائیں یا بائیں طرف پڑا ہے اورنہ ہی یہ کہنا ممکن ہے کہ روضہ تاج محل کے حسن کا احساس جو میرے دل میں ہے آگرہ سے میری دوری کی نسبت سے بدلتا رہتا ہے‘ میرا گنجائش کا تصور گنجائش کی دنیا میں گنجائش سے متعلق نہیں ہوتا۔ درحقیقت خودی گنجائش کی ایک سے زیادہ دنیائوں کا تصور پیداکر سکتی ہے۔ بیدار شعور کی گنجائش اور عالم خواب کی گنجائش آپس میں کوئی تعلق نہیں رکھتیں وہ نہ ایک دوسرے سے مزاحمت کرتی ہیں ارو نہ ایک دوسرے پر منطبق ہوتی ہیں۔ جسم کے لیے صرف ایک ہی قسم کی گنجائش ہو سکتی ہے لہٰذا خودی جسم کی طرح گنجائش کی پابند نہیں‘‘۔
خودی کی تنہائی اور انفرادیت
خودی کا ایک وصف اس کی تنہائی ہے جس کی وجہ سے ہر خودی بے چگوں اور بے نظیر ہوتی ہے اقبال خودی کے اس وصف کی تشریح کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’’ایک خاص نتیجہ پر پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک منطقی قضیہ کے تمام بنیادی مفروضات ایک ہی خودی کے اعتقادات میں شامل ہوں اگر میں اس مسئلہ پر یقین رکھوں کہ تمام انسان فانی ہیں اور ایک اور خودی اس مسئل پر یقین رکھتی ہے کہ ارسطو ایک انسان ہے تو اس حالت میں کوئی نتیجہ ممکن نہیں ہوتا۔ نتیجہ اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے کہ دونوں مسئلوں پر میں خود یقین کروں پھر کسی چیز کے لیے میری خواہش بنیادی طور پر میری ہی ہوتی ہے اس کی تشفی سے میری ذاتی تسکین ہوتی ہے اگر اتفاقاً تمام بنی نو ع انسان اییک ہی چیز کی خواہش مند ہے تو ان سب کی خواہش کی تسکین سے بھی میر ذاتی تسکین ہوتی ہے۔ اگر اتفاقاً تمام نو ع انسانی ایک ہی چیز کی خواہش مند ہو تو ان سب کی خواہش کی تسکین سیبھی میری خواہش کی تسکین نہ ہو گی جب تک کہ وہ چیز خود مجھے میسر نہ آئے دندان ساز میرے دانت کے درد کے لیے مجھ سے ہمدردی کا اظہار کر سکتا ہے۔ لیکن میرے درد کو محسوس نہیں کر سکتا۔ میری راحتیں میری کلفتیں اورمیر ی خواہشیں فقط میری ہی ہوتی ہیں اور میر ی ہی مخصوص خود ی کے اجزا و عناصر شمار کی جا سکتی ہیں جب میرے اس عمل کی ایک سے زیادہ راہیں کھلی ہوئی ہیں تو ان میں سے ایک راہ کو اختیار کرنے کے لیے مجھے ہی محسوس کرنافیصلہ کرنا یا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ خود خدا بھی ظاہری طور پر اور براہ راست میرے لیے یہ کام نہیںکرتا۔ اسی طرح سے آپ کو پہچاننے کے لیے ضروری ہے کہ میں ماضی میں آپ سے متعارف ہو چکا ہوں میرا کسی مقام یا شخص کو پہچان لینا میرے ماضی کے کسی جربہ کی بنا پر ہی ہو سکتا ہے اور کسی دوسری خودی کے ماضی کے تجربہ کی بنا پر نہیں ہو سکتا اپنی ذہنی حالتوں کے اس عجیب و غریب و باہمی تعلق کو ہم فقط ’’میں‘‘ کے لفظ سے ظاہر کرتے ہیں اور یہی وہ مقام ہے جہاں نفسیات کا سب سے بڑا عقدہ ہمارے سامنے نمودار ہونے لگتا ہے۔ اس’’میں‘‘ کی حقیقت کیا ہے‘‘۔
خودی کے اوصاف
خودی کوئی ایسی چیز نہیں جو مکان (Space)میں کہیں پڑی ہوئی ہو بلکہ اس کی اصل ایک فعلیت ہے وہ انسان کے فکر و عمل کی ایک قوت ہے جو ایک مقصد اختیار کرتی ہے ۔ اور جس کا مقصد انسان کے افعال کو مربوط کرنا ہے اور ان کے اندر ایک وحدت پیدا کرنا ہے یہ انسان کی وہی اندرونی قوت ہے جو فیصے کرتی ہے اندازے قائم کرتی ہے اور معلومات حاصل کرتی ہے۔ انسان کے رجحانات فکر و عمل طے کرتی ہے اور اس کی آرزوئوں اور امیدوں کا اور اس کے عزائم اور مقاصد کا اور اس کے اندرونی احساسات و جذبات کا سرچشمہ ہے۔
اقبال لکھتے ہیں:
’’جہاں اندرونی احساس موجود ہو وہاں خودی گویا اپنا کام کر رہی ہے خود خودی کو ہما س وقت جانتے ہیں جب وہ کچھ معلوم کر رہی ہو‘ فیصلہ کر رہی ہو یا عزم کر رہی ہو‘ خودی یا روح کی زندگی ایک قسم کا تنائو ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب خودی اپنے ماحول پر اثر انداز ہو رہی ہو اور ماحول خودی پر اثر انداز ہو رہاہو خودی  باہمی اثر اندازی کے اس میدان سے باہر کھڑی نہیں رہتی بلکہ اس کے اندر ایک حکمران قوت کی حیثیت سے موجود رہتی ہے اور اپنے تجربات کے ذریعہ سے اپنی تعمیر اور تربیت کرتی ہے۔ اور اس موضوع پر قرآن کا ارشاد واضح ہے:
یسئلوک عن الروح قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلاً
(یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں کہیے روح خدا کے حکم کی پیداوار ہے اور تم لوگ کم ہی علم دیے گئے ہو)۔
لفظ امر کا مطلب سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن نے خلق اور امر کے درمیان جو فرق کیا ہے ہم اس کی طرف رجو ع کریں خلق کے معنی ہیں پیدا کرنا اور امر کے معنی ہیں حکم کرنا جیسا کہ قرآن میں ہے الخلاق والامر (اسی کے لیے پیدا کرنا اور حکم کرنا بھی) اوپرنقل کی ہوئی آیت کا مطلب یہ ہے کہ روح بنیادی فطرت حکم ہے کیونکہ وہ خدا کی حکمران قوت سے پیدا ہوتا ہے اگرچہ ہم یہ نہیں جانتے کہ کس طرح سے خدا کا حکم ان وحدتوں کی شکل میں ظہور پذیر ہوتا ہے جن میں سے ہر ایک ایک خودی ہے۔ ضمیر متکلم جو لفظ ربی میں ہے خودی کی فطرت اور اس کے کردار پر مزید روشنی ڈالتی ہے اس میں یہ اشارہ موجود ہے کہ روح کو ایک ایسی چیز سمجھا جائے کہ جو منفرد اور معین ہو اور تمام اختلافات کے سمیت جو اس کی وسعت میں اس کے توازن میں اور اس کی وحدت کی اثر اندازی میں پائے جاتے ہیں۔
کل یمعل علی شاکلتہ وربکم اعلم بمن ھوا اھلی سبیلا
(ہر شخص اپنے طریق کار پر کام کرتا ہے اور تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے کہ کون ہے جس کی راہ سب سے زیادہ صحیح ہے)
اس طرح سے میری اصل شخصیت ایک چیز نہیں کہ بلکہ ایک فعل قرار پاتی ہے میرا تجربہ ایسے افعال کاایک سلسلہ ہے جو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور جن کو ایک حکمران مقصد کی وحدت ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ کیے ہوئے ہے میری ساری حقیقت میرے حکمران جذبہ فکر و عمل کے اندر موجود ہے آپ میرا تصور اس طرح سے نہیں کر سکتے کہ گویا میں کوئی چیز ہوں جو فاصلہ کے اندر کہیں پری ہے یا گویا میں مادی دنیا کے اندر موجود تجربات کا ایک سلسلہ ہوں بلکہ آپ کو چاہیے کہ آپ میری تشریح تفہیم یا تعریف میرے اندازوں اور فیصلوں کی بنا پر میرے رجحانات فکر و عمل کی بنا پر میرے عزائم اور مقاصد اور میری آرزوئوں اور امیدوں کی بنا پر کریں‘‘(ضمناً اس اقتباس سے یہ بات بھی آشکار ہو جاتی ہے کہ جس چیز کے لیے قرآن نے روح کا لفظ استعمال کیا ہے اسی کو اقبال خودی کہتا ہے)۔
خودی مادہ سے پیدا نہیں ہوئی
مغرب کے بعض حقیقت ناشناس حکمانے یہ سمجھا ہے کہ انسان کا شعور یا اس کی خودی فقط مادہ کی ایک ترقی یافتہ حالت کا وسٖ ہے جب مادہ کے ذرات ترق کر کے حیوان کے دماغ کی صورت میں ایک خاص قسم کی طبیعیاتی اور کیمیائی ترکیب حاصل کر لیتا ہے تو اس میں شعور کا جوہر پیدا ہو جتا ہے اور جب یہ ترتیب اور ترکیب ختم ہو جاتی ہے تو یہ جوہر بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اقبال ایسے حکماء مادیین سے یکسر اختلاف کرتا ہے جو لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں وہ کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ اس زندگی کے بعد ایک اور زندگی بھی ہو سکتی ہے لہٰذا ہمیشہ موت کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں وہ جب تک وہ مر نہیں جاتے ممکن نہیں کہ وہ موت کے غم سے نجات پا سکیں‘ چنانچہ اقبال مادہ پرست حکیم کے پیرو سے خطاب کر کے کہتا ہے :
تیری نجات غم مرگ سے نہیں ممکن
کہ تو خودی کو سمجھتا ہے پیکر خاکی
اقبال کے نزدیک خودی مادہ کی کسی ترقی یافتہ حالت کا نام نہیںبلکہ مادہ کی ہر حالت کا وجو د اس کا مرہون منتہے وہ مادہ سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس نے مادہ کو پید اکیا ہے روح کی خاصیت یہ ہے کہ وہ خدا کی محبت کی شراب سے مست ہوتی ہے گویا روح سے محبت ہے اور انسانی جسم جو مادہیا خاک سے بنا ہے اس مے کا ساغر ہے۔ اقبال ان لوگوں سے جو مدت سے جسم اور جان کے باہمی تعلق کے متعلق الجھن میںپڑے ہیں اور نہیںجانتے کہ آیا روح جسم (خاک تیرہ) سے ہے یا جسم رو سے خطاب کر کے کہتا ہے کہ اصل مشکل یہ نہیں کہ مے ساغر سے ہے یا ساغر مے سے یعنی جسم روح سے ہے یا روح جسم سے بلکہ یہ سار مے سے کیسے بھرا جائے یعنی محبت کاکممال جو روح کی بالیدگی کے لیے ضروری ہے کیسے حاصل کیا جائے تاہم یو سمجھ لینا چاہیے کہ جان کا تعلق بدن سے ایسا ہی ہے جیسا کہ معنی کا حرف سے جان یا روح معنی ہے اور جسم حرف جان تن کا جامہ اس طرح سے اوڑھ لیتی ہے جس طرح سے انگارہ نے بھی اپنا قبائے خاکستر خود تیار کیاہے جس طرح حرف معنی سے پیدا ہوتا ہے معنی حرف سے پیدا نہیں ہوتا اور خاکستر انگارہ سے بنتا ہے انگارہ خاکستر سے پیدا نہیں ہوتا اسی طرح سے انسانی جسم اپنی جبلتوں یا حیوان قسم کی خواہشوں کے سمیت خودی سے پیدا ہوتا ہے اور خودی جسم سے پیدا نہیں ہوتی۔ :
عقل مدت سے ہے اس پیچاک میں الجھی ہوئی
روح کس جوہر سے خاک تیرہ کس جوہر سے ہے
میری مشکل مستی و سوز و سرور و درد داغ
تیری مشکل مے سے ہے ساغر کہ مے ساغر سے ہے
ارتباط حرف و معنی اختلاط جان و تن

جس طرح اخگر قبا پوش اپنی خاکستر سے ہے