فلسفہ خودی کائنات کا آخری فلسفہ ہے، ڈاکٹرمحمد رفیع الدین ؒ

فلسفہ خودی کائنات کا آخری فلسفہ ہے
حکمت اقبال کی یہی خصوصیات ہیں جو اسے کائنات کا وہ آخری فلسفہ بنا دیتی ہیں جو ہر دور کے باطل فلسفوں کا مسکت اور تسلی بخش جواب ہو۔ شاہ ولی اللہ اور محی الدین ابن عربی کے زمانہ میں اس قسم کے فلسفہ کا وجود میں آنا ممکن نہیں تھا۔ آج اگر مسلمان یاکوئی اور قوم جدلی مادیت (Dialectiacal Materialism)کا معقول علمی جواب دینا چاہے جسے دور حاضر کا انسان سمجھ سکے تو وہ صرف اقبال کے نظام حکمت سے ہی پیداکیا جا سکتا ہے۔ کسی اور فلسفہ سے پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ انسان اور کائنات کی سچی حقیقت کو سمجھنے کے لیے جس قسم کی ذہنی رکاوٹیں کسی زمانہ میں پیدا ہوتی ہیں قدرت ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے علاج بھی ویسا ہی کرتا ہے۔ اقبال کا فلسفہ خودی اپنے مزاج کے لحاظ سے اپنے دور کے فلسفوں کی تمام ظاہری خصوصیات سے حصہ لیتا ہے تاکہ ان کا تسلی بخش جواب بن سکے۔ شاہ ولی اللہ اور محی الدین ابن عربی ایسے اکابر کے فلسفے اپنے زمانہ میں باطل فلسفوں کا جواب تھے۔ لیکن اس زمانہ کے یا آنے والے زمانہ کے باطل فلسفوں کا جواب نہیں اورنہ بتائے جاسکتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کے اسلامی تصور پر مبنی ہونے کے باوجود وہ جدید علمی حقائق کی عقلی او رمنطقی حدود کے کسی نکتہ پر بھی نہ ان سے اتصال پیدا کرتے ہیں اورنہ ٹکراتے ہیں لہٰذا ان میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ ایک ایسے جدید نظام حکمت کی سورت اختیار کر سکیں جو عقلی اور منطقی طور پر مسلسل ہو اور جس میں حال اور مستقبل کے تمام علمی حقائق سموئے جا سکیں۔ اقبال کے علاوہ دوسرے تمام مسلمان فلسفیوں کے فلسفے فلسفہ اسلام کے ارتقاء کے وہ مراحل ہیں جو گزر چکے ہیں اقبال کا فلسفہ ان تمام مراحل سے آگے کافلسفہ ہے جو گزشتہ مراحل کے تمام حاصلات کو بھی اپنے اندر جمع کرتا ہے لیکن اب گزشتہ مرحلوں میں سے کوئی مرحلہ اس کو ہٹا کر اس کی جگہ نہیں لے سکتاکیونکہ ان میں کوئی فلسفہ ایسا نہیں جو اپنے اندرونی استدلال کو وسعت دے کر ایک جدید انسانی اور اجتماعی فلسفہ بن سکے اور آئندہ عالمگیر ریاست کو اپنے سیاسی یا اقتصادی یا اخلاقیاتی تعلیمی یا قانونی یا معاشرتی یا اطلاعاتی نظام کے لیے قابل فہم علمی تصورات بہم پہنچا سکے۔ یہ نکتہ نہایت ہی اہم ہے اور جس قدر جلد اس پر ہم حاوی ہو جائیں ہمارے لیے اتنا ہی اچھا ہو گا کیونکہ اتنا ہی ہم اپنی قوتوں کو اور فلسفوں کی جستجو یا نشر و اشاعت پر صرف کرنے کے بجائے اس فلسفہ کی تفہیم اور نشر و اشاعت کے لیے آزاد کرسکیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہمیں قدیم اسلامی فلسفوں کا بھی مکمل مطالعہ کرنا چاہیے لیکن اس کے لیے دیکھا جائے کہ ان کے اندر کون سے تصورات ایسے ہیں جن کے مضمرات یا نتائج جدید فلسفہ اسلام یعنی فلسفہ خودی کی تنظیم اور ترتیب کے خلائوں کو پر کرنے کے لیے عمدہ اور دل نشین طرزبیان مہیا کر سکتے ہیں لیکن ضروری ہے کہ ہم ان قدیم فلسفوں کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ مستقبل میں پوری نوع انسانی کو اپنے دامن میں لینے والا اور زندگی کے نظری اور عملی پہلوئوں کے لیے پوری روشنی پہنچانے والا فلسفہ اسلام صرف ایک ہی ہے اور وہ فلسفہ خودی ہے یہی وہ حقیقت ہے کہ جس کی بنا پر اقبال کو یہ کہنا زیب دیتا ہے :
ہیچ کس رازے کہ می گوئم نہ گفت
ہمچو فکر من در معنی نہ سفت
اقبال کے افکار حکمت مغرب سے ماخوذ نہیں
بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اقبال نے اپنے تصورات حکمائے مغرب سے مستعار لیے ہیں۔ لہٰذا ان لوگوں کی نگاہ میں اقبال پر لکھنے یا ریسرچ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اقبال کے ماخذ کو حکمت مغرب میں تلاش کیا جائے اور اسے وہ ایک نہایت ہی ضروری اور بڑا عظیم الشان کام سمجھتے ہوں جو لوگوں کو اقبال پر کرنا چاہیے دراصل یہ لوگ مادی علوم میں مغرب کے تفوق سے مرعوب ہو کر یہ سمجھتے ہیں کہ ان انسانی علوم میں بھی جس کو اقبال نے اپنے غور و فکر کا موضو ع بنایا ہے۔ کہاں کوئی مشرق کا آدمی مغرب سے الگ راہیں پیدا کر سکتا ہے۔ حالانکہ حکمائے مغرب کو خود اعتراف ہے کہ وہ انسانی علوم میں کوئی ترقی نہیں کر سکے یہ لوگ اس بات کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ تما م حکیمانہ افکار کسی نہ کسی تصور حقیقت کے اجزاء و عناصر کے ہوتے ہیں اس کی تشریح اور تفسیر کرتے ہیں اور اس کے اردگرد ایک نظام حکمت بناتے ہیں اقبال کا تصور حقیقت اسلام کا خدا ہے جس کے لیے وہ خودی عالم کی فلسفیانہ اصطلاح کام میں لاتا ہے اور مغرب میں ایک بھی فلسفی ایسا نہیں ہے جس کا تصور حقیقت اسلام کا خدا ہو لہٰذا ممکن ہی نہیں کہ کسی مغربی حکیم کا کوئی تصور اپنی اصلی حالت میں اقبال کے کام آ سکے اس میں شک نہیں کہ خودی (Self)کی فلسفیانہ اصطلاح بعض حکمائے مغرب میں بھی استعمال کی ہے لیکن ان میں کسی کے ہاں اس اصطلاح کے معنی وہ نہیں لیے گئے ہیں جو اقبال نے لیے ہیں اور جس کے منطقی یا عقلی مضمرات یا نتائج اسلام کے خدا کی صفات کے ساتھ مطابقت رکھتے ہوں اگر اقبال کے فلسفہ کا مرکزی تصور خودی کا اپنا تصورہے جو کسی اور فلسفی کے ہاں موجود نہیں تو پھر ضروری ہے کہ اقبال کے اس مرکزی تصور کے مضمرات اورمتضات بھی اس کے اپنے تصورات ہوں اگرچہ ان میں سے بعض ایسے ہوں جو کچھ مغربی فلسفیوں کے تصورات سے مشابہت رکھتے ہوں اور بظاہر ان سے مستعار نظر آتے ہوں۔
ظاہر ہے کہ ایک فلسفی جب اپنے تصور حقیقت کی تشریح یا ترجمانی کرے گا اور اس کے نتائج اور مضمرات پر بحث کرے گا تو اس غرض کے لیے ان ہی حقائق کو کام میں لائے گا جو اس کی تعلیم و تربیت اور مطالعہ اور مشاہدہ نے اس کے دائرہ علم میں داخل کر رکھے ہوں گے لیکن یہ حقائق ا س کے تصور حقیقت کے رشتہ میں منسلک ہوتے وقت اس تصور کے رنگ میں اس طرح سے رنگے جائیں گے کہ وہ عقلی اور منطقی طورپر اسی کے مضمرات بن جائیں گے اقبال کے معلوم حقائق اسے اپنے تصور حقیقت کے نتائج کے استخراج اور استباط میں اس کی مدد کرتے ہیں اس کے لیے ایک اکساہٹ کا کام دیتے ہیں اس کی توجہ ضروری سمتوں کی طرف مبذول کرتے ہیں لیکن خو د ہی اپنی اصلی حالت میں اس کے تصور حقیقت کے نتائج نہیں بن سکتے ۔ بظاہر نظر آئے گا کہ وہ ان حقائق کو پوری طرح سے استعمال کر رہا ہے لیکن درحقیقت وہ ان کو صرف اسی حد تک استعمال کرتا ہے جس حد تک کہ وہ اس کے تصور حقیقت کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں اور اس کی تشریح اور تفسیر کا درجہ اختیار کر سکتے ہیں کہا جاتا ہے کہ اقبال کا تصور اترقا برگسان سے اس کا تصور خودی فشتے اور نیتشے سے اس کا تصور وجدان جیمز وارڈ سے اور اس کا تصور ریاست ہیگل سے ماخوذ ہے لیکن درحقیقت ظاہری مشابہت کے باوجود اقبال کے یہ تصورات ان فلسفیوں کے متوازی نظریات سے یکسر مختلف ہیں اور اقبا ل اور مغرب پر لکھنے والوں کے لیے بڑ اعظیم الشان کام دراصل یہی ہے کہ کس طرح سے اقبال کے تصورا ت ان فلسفیوں کے تصورات سے مختلف ہیں اور ان سے زیادہ معقول اور مدلل ہی نہیں بلکہ صحت اور درستی کے تمام معیاروں پر پورا اترتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اقبال نے پورے غور و فکر کے ساتھ مغربی فلسفہ کا مطالعہ کیا ہے ۔ یہاں تک کہ اقبال اس کی رگ رگ سے باخبر ہو گیا ہے اور وہ اس کے آب و گل میں سرایت کر گیا ہے۔
ہے فلسفہ مرے آب و گل میں
پوشیدہ ہے ریشہ ہائے دل میں
اقبال اگرچہ بے ہنر ہے
اس کی رگ رگ سے باخبر ہے
لیکن مغربی فلسفہ نے اقبال پر کوئی اثر نہیں کیا اس لیے کہ وہ حقیقت کے غلط تصورات پر قائم ہے۔ اسی فلسفہ کے متعلق وہ کہتا ہے:
انجام خرد ہے بے حضوری
ہے فلسفہ زندگی سے دوری
تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا!
زناری برگساں نہ ہوتا!
ہیگل کا صدف گہر سے خالی
ہے اس کا طلسم سب خیالی
حکمائے مغرب کے تصورات سے متاثر اور مرعوب ہونا تو درکنار اقبال ان تصورات کو اپنے وجدان حقیقت کی روشنی میں پرکھتا ہے اور جانتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کہاں تک درستہے اور کہاں تک غلط جس حد تک کوئی تصوردرست ہوتا ہے وہ اسے اپنے حکیمانہ موقوف کی تشریح اور تفسیر کے لیے کام میں لاتا ہے اور جس حد تک وہ غلط ہوتا ہے وہ اسے نظر انداز کرتا ہے بلکہ اس کے خلاف تنبیہ کرتا ہے۔ حکمت مغرب کا طلسم اس پر کام نہیںکرتا۔ وہ جانتا ہے کہ حکمت مغرب میں دانہ بھی ہے اور دام بھی اور وہ دانہ کو لے لیتا ہے اور دم کو توڑ دیتا ہے اس طرح سے حکمت مغرب کی آگ اس کے لیے گلزار ابراہیم بن جاتی ہے:
طلسم عصر حاضر را شکستم
ربودم دانہ و دامش گستم
خدا داندکہ مانند ابراہیم
بنار اوچہ بے پروا نشستم
فلسفہ خودی کی آسان اور مختصر تشریح کا مطالبہ درست نہیں
پھر بعض لوگو ں کا خیال ہے کہ اقبال کے فلسفہ خودی کی تشریح کو آسان اور مختصر ہونا چاہیے لیکن اس مطالبہ جو دراصل فلسفہ خودی کی نوعیت کو نظر انداز کرنے سے پیدا ہوتا ہے ‘ درست نہیں فلسفہ خودی کوئی قصہ یا داستان نہیں کہ ہم چاہیں تو اسے مختصر بھی کر سکیں اور آسان بھی یہ مطالبہ ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی شخص کہہ دے کہ علم طلب کویا طبیعیات کو یا حیاتیات کویا نفسیات کو آسان اور مختصر ہونا چاہیے ظاہر ہے کہ ان علوم میں سے کوئی بھی اپنی قدرتی حدود سے زیادہ نہ آسان ہو سکتا ہے اور نہ مختصر ان میں سے ہر ایک اشیاء کے اوصاف و خواص کا علم ہے اور اشیاء کے اوصاف و خواص تو وہی ہو سکتے ہیں جو قدرت نے ان کو دیے ہیں۔ ہم ان کو تعداد میں کم نہیں کر سکتے۔ لہٰذاان کے علم کو آسان یا مختصر کیسے بنا سکتے ہیں۔ فلسفہ خودی بھی روح انسانی کے اوصاف و خواص کا علم ہے چونکہ روح انسانی کے اوصاف و خواص  وہی ہیں جو قدرت نے اسے دیے ہیں لہٰذ ا ہم روح انسانی کے علم کو بھی اس کی قدرتی حدود سے زیادہ آسان یا مختصر نہیں بنا سکتے۔ اگر ہم ریاضیات یا طبیعیات کے علم میں سے بی اے یا بی اے کے اوپر کے معیار کے مسائل یا حقائق کو حذف کر کے صرف انٹرمیڈیٹ کے معیار کی ایک کتاب لکھ دیں تو ہمارا یہ دعویٰ غلط ہو گا کہ ہم نے ریاضیات یا طبیعیات کو آسان اور مختصر کر دیا ہے درآں حالیکہ دوسروں نے اسے خواہ مخواہ طویل اور مشکل بنا دیا تھا اور پھر علم کے متعلق انسان اپنی فطرت سے مجبور ہے ۔ کہ وہ علم کو برابر وسعت دیتا رہے اور اس غرض کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کرے۔ اور کسی خطرے کو زیادہ نہ سمجھے کہ علمی ریسرچ جس پر کروڑوں روپیہ دنیا بھر میں صرف ہو رہا ہے اور ہزاروں فضلا اور حکماء کام کر رہے ہیں انسان کی فطرت کے اسی پہلو کو مطمئن کرتاہے اور پھر روح انسانی کے اوصاف و خواص کا علم تو تمام علوم سے زیادہ ضروری اور مفید ہے بلکہ یہ علم تو انسان کی زندگی اور موت کا سوا ل ہے۔ اس کے بغیر اس وقت انسانیت ہلاکت کے دروازے پر کھڑی ہے۔ کیا ایسے مطالبے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کے متعلق کم جانے اور زیادہ تر تاریکی میں رہے تاکہ اس کے اعمال میں راہ وانی کا عنصر کم ہو اور بے راہ روی کا عنصر زیادہ ہو جس طرح سے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے جسمانی اعمال اور وظائف کو زیادہ سے زیادہ سمجھیں تاکہ جسمانی بیماریوں کے عوامل اور معالجات کو زیاد ہ سے زیادہ جانیں اور صحت اور تندرسی سے زندگی بسر کر سکیں اسی طرح سے ہمارے لیے یہ ضرور ہے کہ ہم اپنی خودی کے اعمال اور وظائف کو زیادہ سے زیادہ سمجھیں تاکہ خودی کی بیماریوں کے عوامل اورمعالجات کو زیادہ سے زیادہ جانیں اور اپنی ساری زندگی کو خوشگوار بنا سکیں۔ دور حاضر میں انسانی سوسائٹی کی تمام خرابیوں اور بدحالیوں(جب میں جنگ‘ مفلسی‘ بداخلاقی‘ بے اطمینانی‘ ظلم اور تشدد شامل ہیں) اور انسانی علوم کے اندرونی انتشار اور بے ربطی کا باعث خودی کے علم کی کمی ہے۔ ہر علم ترقی کرتاہے یہ علم کی ایک خصوصیت ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف سے انسا ن علم کا پیاسا ہے اور دوسری طرف سے اشیا کے خواص کی ایک خصوصیت ہے و اوصاف کے علم کی کوئی حد نہیں اور پھر علم جب وسیع ہو گا اور ترقی کرے گا تو اسی نسبت سے اس کو حاصل کرنا بھی مشکل ہوتا جائے گا تو پھر کیا ایک علم ایسا ہونا چاہیے کہ جسے ہم بہ تکلف آسان اور مختصر رکھیں اور وہ علم بھی جوہر انسانی کا علم ہو جو سب سے زیادہ ضروری ہے ہم اپنے کسی عزیز کو جو پھیپھڑے کی بیماری میں مبتلا ہو کسی ایسے ڈاکٹر ک پاس نہیں لے جا سکتے جس کا علم انسانی پھیپھڑوں کے متعلق آج سے پچاس سال پہلے کی تحقیقات تک محدود ہو یا جس کے متعلق ہمیں معلوم ہو کہ پھیپھڑوں کے متعلق جو علم انسان کو آج تک حا؟صل ہو سکا ہے وہ اس کا نصف ہی جانتا ہے تو پھر جوہر انسانی کے متعلق محدود واقفیت کی خواہش کرنے میں کون سی حکمت ہے ہاں یہ درست ہے کہ خودی کا علم تو زیادہ سے زیادہ مبسوط اور مفصل بنایا جائے لیکن مبتدیوں کے لیے آسان اور مختصر کتابیں بھی ہوں پھر جو لوگ علم خودی کے ماہرین بننا چاہیں وہ ایسی کتابوں کا مطالعہ کریں جو علم خودی کی ان انتہائی تفصیلات پر مشتمل ہوں جو آج تک انسان کے دائرہ علم میں آ چکی ہیں تاکہ وہ ان تفصیلات کی گہرائیوں میں اورجائیں اور ان میں اضافہ کریں اور اس طرح سے خودی کا علم ترقی کرتا رہے اور پھر اس بات پر بھی غور فرمائیے کہ مشکل اور آسان کے اوصاف محض اضافی ہیں جو علم ایک شخص کے لیے مشکل ہے وہ دوسرے کے لیے آسان ہو جاتاہے جو اسے محنت سے حاصل کرتا ہے مشکل علوم میں سے کون سا علم ایسا ہے جس کے ماہرین ضروری تعداد میں موجود نہ ہوں اگر علم حاصل کرنے کی خواہش نہ ہو توکوئی علم آسان نہیں ہوتا۔ قرآن کا دعویٰ ہے کہ وہ آسان ہے لیکن خود عربی دانوںمیں ایسے ایسے لوگوں کی تعداد کم نہ ہو گی جن کے لیے بغیر کوشش اور محنت کے قرآن کا سمجھنا مشکل ہے دراصل قرآن کے اس دعویٰ کی بنیاد یہ ہے کہ قرآن صداقت ہے اور صداقت چونکہ پہلے ہی انسان کے دل کے اندر موجود ہوتی ہے لہٰذا جو شخص اپنے آ پ کو یا اپنے دل کو جانتا ہو اس کے لیے اس کا سمجھنا اور باور کرنا آسان ہوتا ہے۔
بل ہو ایت بینات فی صدور الذین اوتو العلم
(بلکہ وہ روشن یعنی واضح اور قابل فہم آیات ہیں جو پہلے ہی ان لوگوں کے دلوں میں موجود ہیں جن کو اپنے آپ کا علم دیا گیا ہے)
فلسفہ خودی بھی چونکہ سچا فلسفہ ہے اور انسان کادل اس کے نکات کی صحت کی شہادت دیتا ہے لہٰذا وہ آسان ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مطالعہ یا کوشش یا محنت کے بغیر سمجھ میں آ سکتا ہے۔ قدرت کا قانون ہے کہ انسان کوشش کے بغیر کوئی چھوٹی یابڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔
لیس للانسان الا ماسعی
انسان وہی کچھ حاصل کر سکتا ہے جس کے لیے کوشش کرے۔
کیا اقبال پر مزید لکھنے کا دور ختم ہو چکا ہے
پھر بعض لوگوں کاخیال ہے کہ اقبا ل پر لکھنے کا زمانہ اب ختم ہو گیا ہے کیونکہ اس پر جو کچھ لکھا جا چکا ہے لکھا جا چکاہے اقبال کی تحریروں کو اور نچوڑنے سے کیانکلے گا۔ آخر اقبال پر کہاں تک کوئی لکھ سکتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جو لوگ یہ کہتے ہیں وہ بھی فلسفہ خودی کی نوعیت پر اور اس کی توسیع پر اور تنظیم پر ممکنات پر اور ان تصورات کی کمیت اورکیفیت پر غور نہیں کرتے جو اس میں مضمر ہیں۔ اقبال نے خودی پر لکھا ہے لہٰذا اقبال پر لکھنے کے معنی یہ ہیں کہ اقبال کے افکار کی روشنی میں خود کے موضوع پر لکھا جائے اور خودی کے موضوع کی وسعت کا اندازہ کرنے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ خودی حقیقت کائنات ہے۔ ساری کائنات خودی کا کرشمہ ہے اور کائنات کی ہر چیز کا باعث خودی ہے۔
پیکر ہستی ز آثار خودی است
ہر چہ بینی ز اسرار خودی است
لہٰذا جو کچھ آج تک مادی کائنات میں یا حیوانات کی دنیا میں یا انسانوں کی دنیا پر ہوتا رہا ہے یا آئندہ ہو گا وہ خودی کے اعمال و افعال اور تصرفات و اثرات کا ہی نتیجہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام قوانین قدرت خودی کے اوصاف و خواص کے مظاہر ہیں سارا علم خودی کاعلم ہے خودی کا تصور علم کی ابتدا اورانتہا ہے اور حال اور مستقبل کے تمام حقائق علمی تصور خودی کے مضمرات ہیں اور اس کے اندر بالقوہ موجود ہیں لہٰذا جوں جوں علم اپنے تینوں شعبوںمیں یعنی مادہ حیوان اور انسان کے شعبوں میں ترقی کرے گا تصور خودی کی تشریح کانت نیا سامان پیدا ہوتا رہے گا اور ظاہر ہے کہ یہ عمل تا قیامت جاری رہے گا۔ اقبال پر لکھنے کا پہلا اہم قدم یہ ہے کہ ہم اقبال کے افکار کو ایک منطقی یا عقلی سلسلہ کی شکل دے کر یہ بتائیں کہ کس طرح سے طبیعیات حیاتیات اور نفسیات کے تمام سچے حقائق جو آج تک دریافت ہو سکے ہیں۔ تصور خودی کے اجزاو عناصر ہیں۔یہ اقبال کے فلسفہ خودی کی پہلی تشریح اور تفسیر ہو گی جسے فلسفہ خودی کے ماہرین ہی نہیں بلکہ تمام تعلیم یافتہ لوگ بھی آسانی سے سمجھ لیں گے۔ جب اقبال کی اس قسم کی تشریح وجود میں آئے گی تواس وقت صاف طور پر نظر آجائے گا کہ اقبال کے کئی تصورات دور حاضر کے تمام انسانی اور نفسیاتی علوم یعنی عمومی فلسفہ انسان و کائنات فلسفہ سیاست فلسفہ اخلاق‘ فلسفہ تعلیم‘ فلسفہ قانون‘ فلسفہ اقتصادیات‘ فلسفہ تاریخ ‘ فلسفہ ہنر ‘ فلسفہ نفسیات‘ انفرادی اور اجتماعی فلسفہ وغیرہ وغیرہ کے ساتھ کئی نقطوں سے ٹکرائے ہیں۔ لہٰذا ان علوم میں سے کسی پر قلم اٹھانے والا اقبال کے ان تصورات کی تردید یا توثیق کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ اور اقبا ل کے تصورات کی بنیاد اس قدر مضبوط ہے اور وہ تصورات اس قدر صحیح ہیں کہ رفتہ رفتہ یہ معلوم ہو جائے گا کہ ان کی معقول تردید ممکن نہیں اور ان کی توثیق کے بغیر چارہ نہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اقبال پر لکھنے کا دوسرا اہم قد م یہ ہو گا کہ تصور خودی کی بنیادوں پر ان تمام علوم کی تدوین اور تعمیر نئے سرے سے کی جائے گی جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے اور ان علوم کی تعمیر نو کے سلسلہ میں بتایا جائے گا کہ کس طرح سے ان علوم کی موجودہ تدوین عقلی اور علمی نقطہ نظر سے غلط ہے اور اس طرح سے ان تمام علوم کو فلسفہ خودی کی شاخوں کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ گویا اقبال پر لکھنا اور اس زمانہ میں بھی اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا جب تک کہ ہم انسانی‘ حیاتیاتی اور طبیعیاتی علوم کو نئے سرے سے اس طرح مدون نہ کر لیں کہ تصور خودی ان علوم کی روح کے طور پر نظر آنے لگے پھر اس ابتدائی کام کے بعد جوں جوں علم ترقی کرتا جائے گا فلسفہ خودی کی مزید تشریح اور توسیع ہوتی رہے گی۔
فلسفہ خودی کی تشریح ہمیشہ ترقی کرتی رہے گی
شارحین اقبال کا کام لوگو ں کو یہ سمجھانا ہے کہ اقبال نے یہ کہا ہے لیکن جب تک وہ یہ نہ بتائیں گے کہ اقبال نے جو کچھ کہا ہے وہ معلوم اور مسلم عقلی اور علمی معیاروں کے مطابق صحیح اور درست ہے وہ اس کام کو پوری طرح انجام نہیں دے سکتے۔ اگر ہمارے نزدیک اقبال کے افکار قابل قدر یا قابل قبول ہیں تو اس لیے ہیں کہ وہ علم او رعقل کے پیمانوں کے مطابق معیاری اور درست ہیں اور معیاری اور درست ثابت کیے جا سکتے ہیں اور درست ثابت ہو کر رہیں گے۔ اقبال کسی الہام کا مدعی نہیں اس کا دعویٰ فقط یہ ہے کہ وہ جو کچھ کہتا ہے وہ علمی اور عقلی طور پر صحیح ہے اور کسی تصور کا عقلی طور پر درست ہونا اس کے سوائے اور کوئی معنی نہیںرکھتا کہ وہ ان تصورات کے ساتھ مناسبت و مطابقت رکھتا ہے جو عقلی و علمی طور پر درست مانے جا سکتے ہیں۔ صحیح تصورات کا امتیازی وصف یہ ہے کہ وہ عقلی نقطہ نظر سے ایک دوسرے کے موید ہوتے ہیں لہٰذا وہ تصورات کا ایک ایسا مجموعہ بناتے ہیں جس کے اندر کوئی تصور داخل نہیں ہو سکتا ہم اس مجموعہ سے کوئی تصور نکال کراس کی جگہ کسی غلط تصور کو نہیں رکھ سکتے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو وہ تصور اس مجموعہ سے غیر متعلق اور الگ تھلگ نظر آئے گا اور اس ی وجہ سے مجموعہ کے منطقی تسلسل میں دراڑ پیدا ہو جائے گا جو آشکار طور پرنظر آئے گا لہٰذا کسی تصور کے درست ہونے کا معیار یہ ہے کہ ہم بتا سکیں کہ وہ فی الواقع دوسرے تمام درست تصورات کے ساتھ علمی اور عقلی مناسبت یا مطابقت رکھتا ہے اور اس کی جگہ لینے والا کوئی دوسرا تصور ان کے ساتھ اس قسم کی کوئی مطابقت یا مناسبت نہیںرکھتا۔ اقبال کے تصورات‘ صحت اور معقولیت کے اس معیار پر پورا اترتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ انسانی حیاتیاتی اور طبیعیاتی علو م آخر کار اقبال کے تصور خود ی پر مبنی ہو جائیں اور خودی کی تشریح اور تفسیر قرا  ر پائیں تصور خودی کی یہ تشریح اور تفسیر علم کی آج تک ٹھوکروں کا مداوا اور آج تک کی بے راہ روی کا علاج ہو گی جس کے لیے نوع انسانی ہمیشہ کے لیے اقبال کی شکر گزا ر ہو گی بعدمیں حقیقت انسان وکائنات کے متعلق ہمیں جو کچھ معلوم ہوتا جائے گا وہ خواہ اس کا تعلق علم کے کسی شعبہ سے ہو خود بخود اس نظام افکار کا جزو بنتا چلا جائے گا یہی مطلب اقبال کا ہے جب وہ لکھتا ہے:
’’تاہم یہ یاد رہے کہ تحقیق علم و حکمت کی کوئی انتہا نہیں ہو سکتی۔ جوں جوں علم ترقی کرتا جائے گا اور فکر کے نئے نئے راستے کھلتے جائیں گے  ان ہی مطالب کی تشریح کے لیے اور تصورات اور غالباً بہتر تصورات میسر آتے جائیںگے۔ ہمارافرض ہے کہ ہم انسانی علمی ترقیوں کا جائزہ لیتے رہیں اور اپنے نظریہ حیات پر قائم رہتے ہوئے ان پر تنقیدی نگاہ ڈالتے رہیں‘‘۔
ان معروضات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نہ صر ف اقبال پر لکھنا ابھی ختم نہیںہوا بلکہ ابھی تک پوری طرح سے اس پر لکھنے کا آغاز بھی نہیںہوا۔ اور جب اس پر لکھنے کا آغاز ہوگا تو پھر اس پر لکھنا صڑف اس وقت ختم ہو جائے گا جب ہم انسان اور کائنات کے متعلق کسی پہلو سے بھی اور کچھ جاننے سے مجبور ہوجائیں گے اور ظاہر ہے کہ جب تک انسان اس کرہ ارض پر موجود ہے یہ وقت کبھی نہیں آسکتا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جوں جوں وقت گزرتاجائے گا اقبال کے فلسفہ خودی کی معقولیت اور جاذبیت زیادہ سے زیادہ آشکار ہوتی جائے گی۔ لہٰذا مستقبل کا انسان جس قدر اقبال کی عظمت کا معترف ہو گا آج کا انسان نہیںہو سکتا۔ ایک سچے تصور حقیقت پر قائم ہونے والے نظام حکمت کی ہر ترقی ا س کی اگلی ترقی کو آسان کرتی ہے اور اس طرح سے اس کی غیر متناہی ترقیوں کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ جب اقبال کے فلسفہ خودی کی ایک اور ترقی یافتہ صورت اس کی منظم تشریح کی شکل میں ہمارے سامنے آئے گی تو پھر وہ اور ترقی کرے گا اور لوگ تاقیامت ا س پر لکھتے رہیں گے اور اس کی ترقیوں کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہو گا کیونکہ علم کے تینوں شعبوں میں دریافت ہونے والے تمام حقائق صرف اسی کے اجزا و عناصر شمار ہوں گے۔
فلسفہ خودی کے مقابل تمام فلسفے مٹ جائیں گے
فلسفہ خودی کی پہلی منظم تشریح کے ظہور سے کچھ عرصہ کیبعد اس کی تشریح کی اور توسیع کی ضرورت پیش آئے گی اور پھر کچھ مدت کے بعد اس کی دوسری مزید توسیع کی ضرورت لاحق ہو گی۔ علی ہذ القیاس اوپر ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح ایک سچا فلسفہ ترقی کرتا رہتا ہے اور اس کی ترقیاں کبھی ختم نہیں ہوتیں اس کے برعکس چونکہ علمی حقائق ایک غلط فلسفہ کے ساتھ جو غلط تصور حقیقت پر مبنی ہوتا ہے مطابقت نہیں رکھتے لہٰذا ان حقائق کی ترقی کی وجہ سے زود یا بدیر ایک ایسا وقت خود بخود آ جاتا ہے جب غلط فلسفہ کی فرضی معقولیت کا پردہ چاک ہوتا ہے اور وہ اپنا دم توڑ دیتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ فکر اقبال کی اس قسم کی منظم تشریح ایک اسے دور کو قریب لائے گی جب دنیامیں صرف ایک ہی فلسفہ باقی رہ جائے گا اور وہ اقبال کا فلسفہ خودیہو گا اور دوسرے تمام فلسفے یا تو کلیتاً مٹ جائیں گے یا پھر نوع انسانی کے ادوار جہالت کی یادگار کے طور پر باقی رہیں گے یہی سبب ہے کہ اقبال دور حاضر کے انسان سے نہیں بلکہ مستقبل کے انسان سے امید رکھتا ہے کہ وہ پوری طرح سے اس کی عظمت کا اعتراف کرے گا اور اس کے فکر کو اپنی عملی زندگی کی بنیاد بنائے گا یہی وجہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اس کے فکر نے وہ آہوئے تاتار فتراک میں باندھا ہے جو ابھی عام سے وجود میں نہیں آیا اس کے باغ کی زینت وہ سبزہ ہے جو ابھی اگا نہیں اور اس کا دامن پھولوں سے بھرا ہوا ہے جو ابھی شاخ ہی میں پوشیدہ ہیں۔
فکرم آں آہو سر فتراک بست
کو ہنوز از نیستی بیروں نجست
سبزہ نا روئیدہ زیب گلستم
گل شاخ اندر نہاں درواہنم
اور یہی وہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو شاعر فردا کہتا ہے اور اپنے آپ کو ایسا نغمہ سمجھتاہے جسے زخمہ ور کی حاجت نہیں ہے اور جو ساز کائنات سے خود بخود بلند ہونے والا ہے وہ کسی آنے والے زمانہ میں اپنی روشن کی ہوئی آگ’’نار عشق‘‘ کے ان پجاریوں کا منتظر ہے جو ابھی سو رہے ہیں اور نیند سے اس وقت اٹھیں گے جب جہالت کی تاریکیوں کی رات کٹ جائے گی اور سچی حکمت کی صبح کا نور پھیلنے لگے گا چونکہ اقبال کو معلوم ہے کہ اس کا فلسفہ خودی نوع بشر کی علمی ترقیوں کے ایک خاص دور میں ہی پوری طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ پوری قبولیت حاصل کر سکتا ہے اور اپنی پوری شان و شوکت سے جلوہ گر ہو سکتا ہے لہٰذا وہ اپنے تمام ہم عصروں سے یہ امید نہیںرکھتا ک وہ اس کی قدر کر سکیں گے چونکہ اس کی نے کی سر نرالی ہے۔ اس کا ہم عصر اس کا نغمہ کو سمجھ نہیں سکتا اس کے زمانہ کے لوگ رموز حیات سے ناواقف ہیں لہٰذا دور حاضر وہ بازور ہی نہیں جہاں اس کے یوسف کے خریدار پائے جا سکیں اس کا نغمہ کسی اور جہان سے تعلق رکھتا ہے جو ابھی پید انہیں ہوا اور اس کی جرس کسی اور ہی کاروان کو حرکت میں لانے والی ہے۔
بسکہ عود فطرتم نادر نواست
ہم نشین از نغمہ ام نا آشنا است
نغمہ ام ز زخمہ بے پرواستم
من نوائے شاعر فرداستم
انتظار صبح خیزاں مے کشم
اے خوشا زروشتیان آشتم
عصر من دانندہ اسرار نیست
یوسف من بہر ایں بازار نیست
نا امیدستم زیاران قدیم
طورے سوزو کہ مے آید کلیم
نغمہ من از جہاں دیگر است
ایں جرس را کاروانے دیگر است
٭٭٭
فلسفہ خودی کی اہمیت اور عظمت کا دعویٰ صحیح ہے
اپنے فکر کی اہمیت اور عظمت کا یہ دعویٰ اقبال نے بار بار اپنے اس قسم کے اشعار میں کیا ہے درحقیقت خودی یا جوہر انسانی کے اوصاف کا ایک علمی اور عقلی نتیجہ ہے جس سے گریز کرنا ممکن ہے اقبال جوہر انسانی کے اوصاف کو معنی آدم کہتا ہے اور بتاتا ہے کہ کس طرح سے جب وہ ارتقا کی قوتوں کے نہ رکنے والے عمل سے انسان کی عملی زندگی میں آشکار ہوں گے تو انسان کی زندگی جس کی موجودہ غیر متوازن حالت دل میں کھٹکتی ہے ہر لحاظ سے موزوں اور تسلی بخش ہو جائے گی‘ یہاں تک کہ نوع انسانی اپنے حسن و جمال کی اس انتہا پر پہنچ جائے گی کہ جس کا ہم اس وقت تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہم اقبال سے کیا پوچھیں خود فطرت انسانی کے دعویٰ کی صداقت پر گواہ ہے۔
یکے در معنی آدم نگر از ماچہ مے پرسی
ہنوز اندر طبیعت مے خلد موزوں شود روزے
لہٰذااقبال کا یہ دعویٰ اس کے فلسفہ یا جزو لا ینفک ہے اگر اقبال اپنے فلسفہ کے اس جزو کے متعلق اس لیے خاموش رہتا کہ اس کے اظہار سے اس کی ستائش کا پہلو نکلتا ہے تو وہ گویا اپنے تصور خودی کی حقیقت کو بہ تمام و کمال بیان کرنے سے قاصر رہ جاتا ہے جو اسے کسی قیمت پر قابل قبول نہ ہو سکتا تھا لہٰذا جو لوگ اقبال کے اس دعویٰ کو بے کار اور بے معنی نہیں سمجھتے وہ حق بجانب ہیں لیکن آج تک جو کچھ اقبال پر لکھا گیا ہے اس سے اقبال کے اس دعویٰ کی عقلی اور عملی بنیادیں آشکار نہیں ہوتیں یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ موجودہ اقبالی ادب کے حاصلات سے مطمئن نہیںَ قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی اپنی کتاب ’’اقبالیات کا تنقیدہ جائزہ‘‘ میں جو 1955 ء میں چھپی تھی لکھتے ہیں:
’’فلسفہ خودی پر اب تک کوئی جامع اور مبسوط کتاب نہیں لکھی گئی۔ اقبال کی وفا ت کو آج 17 سال ہوئے ہیں مگر اب تک ان پر جو کام ہونا چاہیے تھا وہ نہیںہوا‘‘۔
ڈاکٹر سید عبداللہ نے لکھا تھا:
’’گو کلام اقبال کے متعلق مضامین کی فہرست بظاہر طویل ہے لیکن اس کی عظمت اور بلندی کی نسبت سے اب بھی بہت تشنہ اورمختصر ہے۔‘‘
اس پر قاضی احمد میاں اختر لکھتے ہیں:
’’ہر وہ شخص جس نے اقبالیات کی تعداد کے ساتھ ہی ان کی نوعیت اور قدر و قیمت کا اندازہ کر لیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کے ساتھ اتفاق کرے گا کہ اب تک اقبالیات کے نام سے جو ذخیرہ ادب تیار ہو چکا ہے وہ اس پایہ کا نہیں جیسا کہ ہونا چاہیے اور جس سے اقبال کے مطالعہ میں کافی مدد مل سکے اکثر تحریرات ایک دوسرے کی نقل ہیں یہی وجہ ہے کہ ناقدین اقبال کو ان پر اعتراض کرنے کا موقع مل گی اہے اب ضرورت اس بات کی مقتضی ہے کہ مطالعہ اقبال کے سلسلہ میں کوئی عملی اور ٹھوس کام کیا جائے اور ا س میں ایسے اصحاب فکر و نظر حصہ لیں جو اقبال شناسی میں امتیازی درجہ رکھتے ہوں‘‘۔
لیکن اگر اقبال کا یہ دعویٰ صحیح ہے تو ان لوگوں کے اقوال اقبال نافہمی کے ایک مضحکہ خیز مظاہرہ سے کم نہیں جو کہتے ہیں ک اب ہمیں سوچنا چاہیے کہ اقبال کے افکار میں سے کون سے مر گئے ہیں اور کون سے زندہ ہیں یا جو یہ کہتے ہیں کہ اقبال پر لکھنے کا زمانہ اب ختم ہو گیا ہے۔
فلسفہ خودی کی منظم اور مکمل تشریح کی خصوصیات
ان حقائق کی روشنی میں ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ضروری ہے کہ فلسفہ اقبال کی منظم اور مکمل تشریح خصوصیات ذیل کی حامل ہوں:
اولضروری ہے کہ وہ ایک ایسے مسلسل اور مربوط نظام حکمت کی شکل میں ہو جس میں اقبال کے تمام تصورات جو اس وقت اس کی نظم یا نثر کی کتابوں میںبکھرے  پڑے ہیں خواہ وہ کسی موضوع یا مطالعہ سے تعلق رکھتے ہوں ایک زنجیر کی کڑیوں کی طرح آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اور اقبال کے مرکزی تصور خودی کے ساتھ عقلی اور عملی رشتہ میں منسلک ہوں۔
دوئمضروری ہے کہ ان کے اندر طبیعیات‘ حیاتیات اورنفسیات کے تمام ایسے حقائق جن کو آج تک سائنس دانوںاور فلسفیوں نے دریافت کیا ہے اور جو اقبال کے تصورات کے ساتھ مناسبت اور مطابقت رکھتے ہیں اپنے مناسب نتائج اور مضمرات کے سمیت اقبال کے تصورات کی تائید اور توثیق اور تشریح اور توسیع کے لیے سموئے ہوئے موجود ہوں۔
سوئمضروری ہے کہ اس کا مرکزی اور بنیادی تصور اقبا ل کا تصور خودی ہو جس کی اصل خدا کا وہ تصور ہے جو نبوت کاملہ کی تعلیمات نے پیش کیا ہے اوراس کے بعد دوسرے تمام تصورات خدا کے اسلامی تصور کی تشریح اور تفسیر کے طور پر ہوں لہٰذا س میں جا بجا قرآن کی آیات اور احادیث کو اقبال کے تصورات کی تائید اور توضیح کے لیے پیش کیا گیا ہو۔
چہارمضروری ہے کہ وہ تمام متداول اور رائج الوقت غلط قسم کے طبیعیاتی‘ حیاتیاتی اور نفسیاتی فلسفوں کی ایسی تردید پر مشتمل ہو جو صحیح حقائق کو غلط حقائق سے الگ کر کے اور غلط حقائق کو درست حقائق بنا کر اقبال کے فلسفہ خودی کے اندر سموتی ہو گویا وہ فلسفہ طبیعیات فلسفہ حیاتیات اور فلسفہ نفسیات کی تعمیر جدید کی شکل میں ہو۔
اقبال کا فلسفہ عالم انسانی کے عالم گیر نظریاتی مرض کا صحت بخش رد عمل ہے
جب ایک جسم حیوانی میں کسی مرض کے جراثیم داخل ہو کر بڑھتے ہیں اور ترقی کرتے ہیں یہاں تک کہ اس میںمرض کی حالت پید اکر دیتے ہیں تو زندگی کے رو رو حیوان کے اندر بہہ رہی ہوتی ہے(جو درحقیقت اسے پیدا کرتی ہے اور نشوونما کے سارے مرحلوں سے گزار کر جسمانی یا حیاتیاتی کمال تک پہنچاتی ہے) فوراً ان جراثیم کے خلاف ایک رد عمل کرتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا  ہے کہ حیوان کے جسم کے اندر جراثیم کے زہر کا تریاق یا فاد زہر پیداہونا شروع ہوتا ہے جسے ماہرین علم الابدان انٹی ٹاکسنز (Anti-Toxins)یا اینتی باڈیز (Anti Bodies) کہتے ہیں ٰہ فادر زہر متواتر پیدا ہوتا اور ترقی کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ جراثیم ختم ہو جاتے ہیں اور ان کا زہر بھی باقی نہیں رہتا اور ان کی بجائے یہ تریاق جسم میں باقی رہ جاتا ہے جس کی وجہ سے مرض کا دوسرا فوری حملہ ممکن نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ ا ب یہ بات عام طور پر تسلیم کی جاتی ہے کہ کسی مرض کے خلاف کوئی حفاظتی یا مدافعتی تدبیر اس سے زیادہ کارگر اور موثر نہیںہو سکتی کہ بدن میں مرض کی حالت مصنوعی طورپر پیدا کر کے قدرت کو اس کے خلاف رد عمل کرنے اور اس کا تریاق پیدا کرنے کا موقع دیا جائے بعض امر اض کے حفاظتی ٹیکے اسی اصول پر ایجاد کیے گئے ہیں پوری نوع انسانی کی صورت میں بھی یہی اصول کام کرتا ہے۔ زندگی کی رو جس نے حضرت انسان کو ایک جونک کی حالت سے ترقی دے کر جسماتی اور حیاتیاتی کمال تک پہنچایا ہے اور اس کی نسل کو لاتعداد خطرات سے بچا کر اور ترقی اور فروغ دے کر دنیا کے کناروں تک پھیلایا ہے وہی اس کو نفیساتی اور نظریاتی کمال کے اس مقام تک پہنچانے کی ذمہ دار ہے جو درحقیقت ا س کی ساری کاوشوں اور محنتوں کامدعا اور مقصود ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے انبیاء کے ایک طویل سلسلہ کے ذریعے نوع بشر کی روحانی اور نظریاتی حفاظت و تربیت کا ایک نہایت ہی معقول اور تسلی بخش انتظام کیاتھا جس کے اثرات چاروں طرف کرہ ارض پر پھیل گئے تھے۔ لیکن اب جب کہ نبوت ختم ہوئے ایک زمانہ گزر گیا ہے ‘ مغرب کے غلط حکیمانہ تصورات تعلیم نبوت کے اثر کو جو اب تک نوع انسانی کی نظریاتی اور روحانی صحت کا ضامن تھا ختم کر رہے ہیں۔ ان غلط تصورات نے خطرناک نفسیاتی جراثیم کی طرح نو ع انسانی کے شعور میں گھس کر ایک عالمگیر جسمانی وبائی مرض کی طرح ایک نفسیاتی یا نظریاتی وبائی مرض پیداکر دیا ہے اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب نوع انسانی اس مرض کی وجہ سے نظریاتی طورپر ہمیشہ کے لیے مردہ ہو جائے گی لیکن ایسا ہرگز نہیںہو سکتا اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے کہ زندگی کے رو جو درحقیقت خدا کے ارادہ کے عمل کا نام ہے اپنے مقاصد کے حصول پر قادر ہے اور انہیں ضرور پا کر رہتی ہے۔
واللہ غالب علی امرہ ولا کن اکثر الناس لا یعلمون
(خدا اپنے مقصد پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے)
ارتقا کی پوری سرگزشت بتاتی ہے کہ بڑی سے بڑی رکاوٹ بھی زندگی کے مقاصد میں حائل نہیں ہو سکتی ۔ ذرا ن بے شمار خطرناک آسمانی حادثات اور ہولناک زمینی تباہیوں کو ذہن میں لائے جن کا سامنا زندگی کو سب سے پہلے ایک خلیہ کے حیوان سے لے کر آج تک کے مہذب انسان کے ظہور تک کرنا پڑاہے ۔ ہر آن یہ گمان رہتا ہے کہ زندگی ہمیشہ کے لیی کرہ ارض سے نیست و نابودہوجائے گی لیکن ایسا نہیںہوا خود غاروں کے اندر اور درختوں کے اوپر پناہ لینے والے کمزور نہتے اور بے بس انسان کی نسل کا جنگلی درندوں کے لشکر سے بچ نکلنا قدرت کا ایک معجزہ ہے جو اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ زندگی اپنے مقاصد کے حصول میںسے کسی سے شکست نہیں کھا سکتی۔ چونکہ نوع انسانی نے نہ صرف کرہ ارض پر زندہ رہنا ہے بلکہ اپنے روحانی کمال کو بھی پہنچنا ہے لہٰذا ممکن نہیںتھا  کہ زندگی کی رو عالم انسانی کے اس ہمہ گیر نظریاتی مرض کے خلاف کاممیاب رد عمل نہ کرتی جو مغرب کے غلط تصورات نے پیدا کردیا ہے زندگی کا یہ رد عمل حکمت اقبال کی صورت میں نمودار ہوا ہے ۔ ضروری ہے کہ جسم حیوانی کے صحت بخش ردعمل کی طرح یہ رد عمل بھی برابر ترقی کرتا رہے یہاں تک کہ کرہ ارض سے غلط تصورات کا زہر نیست و نابود ہو جائے اورنوع انسانی اپنی نظریاتی صحت کی طرف پوری طرح سے لوٹ آئے ۔ زندگی کا روکا نہ ٹلنے والا تقاضا یہ ہے کہ عالم انسانی نظریاتی موت سے بچ جائے اور صحت یاب ہو کر پھر ارتقا کی راہوں پر چل نکلے اس وقت آدم خاکی زوال میں ہے کیونکہ وہ غلط نظریات کے زیر اثر ارتقا کی راہوں سے ہٹ گیا ہے اور نہایت سرعت کے ساتھ پستی کی طرف لڑھکتا چلا جا رہا ہے ۔ اسے فوری علاج کی ضرور ت تھی۔ جو زندگی نے خود اپنے صحت بخش رد عمل کے ذریعہ سے اقبال کے فلسفہ خودی کی صورت میں پیدا کر لیا ہے ضروری ہے کہ یہ رد عمل باربار بڑھتا او ر ترقی کرتا چلا جائے اور اس سے پیدا ہونے والے صحت بخش مواد(Anti Bodies)جو اقبال کے سچے معقول اوریقین افروز تصورات کی شکل میں ہیں یہاں تک ترقی کریں کہ انسانی سوسائٹی کے جہنم کے کونے کونے میںپھیل جائیں اور مضر اورمہلک تصورات کے اثر کو ناکام بنا دیں لہٰذا نہ صرف یہ ضرور ی ہے کہ خود قدرت کے اپنے اہتمام کے ساتھ فلسفہ اقبال کی پہلی مکمل اور منظم تشریح وجود میں آئے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ تشریح متواتر ترقی اور توسیع پاتی رہے یہاں تککہ تمام نفسیاتی حیاتیاتی اور طبیعیاتی حقائق علمی کو اپنے اندر جذب کر لے اور اپنی معقولیت کی کشش کی وجہ سے آخر کار پورا علم انسانی کے شعور پر حاوی ہو جائے۔ اقبال کو بجا طور پر اس بات کا یقین ہے کہ ایسا ہی ہو گا یہی سبب ہے کہ وہ کہتا ہے:
پس از من شر من خوانند دمے رقصند دمے گویند

جہانے را دگرگوں کردیک مرد خود آگاہے