خودی حقیقت کائنات ہے
یہ کہنا کہ انسانی خودی نے انسانی جسم اور انسانی جسم کی خواہشات کو خود پیدا کیاہے اوروہ جسم کے پیدا نہیں ہوئی اس لیے درستہے کہ کائنات کی آخری حقیقت بھی ایک خودی ہے جس کو اقبال فلسہ کی زبان میں کائناتی خودی کہتا ہے اور جس کو مذہب کی زبان میں خدا کہا جاتا ہے کائناتی خودی کے مقصد نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے اور یہی اس کا مقصد شعور کی صورت میں اس کائنات کے اندر نمودار ہوا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کائناتی خودی کا یہی مقصد ہے کہ جو انسان کے جسم کو پیدا کر کے اس کے اندر انسانی خودی یا انا کی صورت میں آشکار ہوا ہے ان معنوں میں یہ کہنا بجا ہے کہ انسان کی خودی نے ہی انسان کے جسم کو پیدا کیا ہے:
قالب از ماست شد مانے ازو
ساغر از مے مست شد نے مے ازو
اگر پوچھا جائے کہ ایک کرسی کی حقیقت کیا ہے تو اس کا جواب یہ دیا جائے گا کہ لکڑی لیکن لکڑی کی حقیقت کیا ہے؟ سائسن کا طالب علم بجا طور پر اس کا جواب دے گا کاربن لیکن کاربن کی حقیقت بھی کچھ ہے اور وہ ایک خاص قسم کے غیر مرئی ذرات ہیں جن کو جواہر (Atoms) کہ اجاتا ہے پھر ان سالمات کی حقیقت برقی توانائی ہے لیکن کیا برقی توانائی کائنات کی آخری حقیقت ہے یا اس کے پیچھے کوئی اور حقیقت ایسی نہیں کہ جس کی پھر کوئی حقیقت نہ ہو۔ اقبال اپنی انگریزی کتاب (Reconstruction of Religious Thoughts in Islam)میں ایک طویل بحث کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہے:
The Ultimate Nature of Reality is Spiritual and must be considered as in Ego.
(ترجمہ) کائنات کی آخری حقیقت فطرت روحانی ہے اور ضروری ہے کہ اسے ایک خودی یا ایغو تصور کیا جائے ) اس کا مطلب یہ ہے کہ قدرت کے تمام مظاہر کا اور پوری کائنات کے وجود کا باعث خودی ہے۔
یہ عالم یہ بت خانہ شش جہات
اسی نے تراشا ہے یہ سومنات
چمک اس کی بجلی میں تارے میں ہے
یہ چاندی میں سونے میں پارے میں ہے
اسی کے بیاباں اسی کے ببول
اسی کے ہیں کانٹے اسی کے ہیں پھول
٭٭٭
پیکر ہستی ز آثار خودیست
ہر چہ مے بینی ز اسرار خودیست
خویشتن را چوں خودی بیدار کرد
آشکارا عالم پندار کرد
یونانی حکما کے قیاسات
جب سے حضرت انسان نے کائنات پر غور و فکر کا آغاز کیا ہے اس حقیقت کا ایک غیر متزلزل اور سکون پرور وجدانی احساس اس کا شریک کار رہا ہے کہ گویہ کائنات ایک بے حد و حساب کثرت کی صورت میں ہے تاہم یہ کثرت کسی ایک ہی چیز کے ایسے مختلف مظاہر پر مشتمل ہے جو بالاخر پھر اسی کی طرف لوٹ جاتے ہیں اور اس میں مل جاتے ہیں لیکن وہ ایک ہی چیز فی الواقع کون سی ہے یہ مسئلہ ہمیشہ اس کی ذہنی کاوشوں کا موضوع بنا رہا ہے۔ سب سے پہلے چھٹی صدی قبل مسیح میں یونانی فلسفیوں نے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوششیں کیں۔ یونانی فلسفی تھیلز (Thales) کا خیال تھا کہ دنیا پانی سے بنی ہے اور تماما شیاء پانی ہی کی مختلف شکلیں ہیں، انیکسی مینز (Anaxemeanes) نے پانی کی بجائے ہوا کو تمام اشیاء کا ہیولیٰ قرار دیا۔ انیکسی مینڈر (Anaxemander) کا یہ خیال تھا کہ پانی، ہوا، آگ، مٹی ایسے عناصر دراصل کسی اور ہی چیز سے الگ ہو کر صورت پذیر ہوئے ہیں جو غیر محدود اور غیر متشکل ہے۔ دیماکر یطس (Demacritus) نے جسے موجودہ علم طبیعات کا بانی کہا جاتا ہے یہ نظریہ قائم کیا کہ دنیا کی آخری حقیقت جواہر (Atoms) ہیں جو حجم اور صورت میں مختلف ہوتے ہیں۔ تمام مرکب اجسام ان ہی سے بنے ہیں اور مرکب اجسام کے اندر جو اختلاف پایا جاتا ہے اس کا باعث کچھ تو یہ ہے کہ جن جواہر سے وہ بنتے ہیں وہ حجم اور صورت میں مختلف ہوتے ہیں اور کچھ یہ کہ ان کے جواہر کی ترتیب الگ الگ ہوتی ہے۔
حقیقت کائنات کے متعلق قدیم حکمائے یونان کے ان نظریات میں یہ بات قدر مشترک ہے کہ اس حقیقت کی نوعیت مادی ہے اس لحاظ سے یہ نظریات دور حاضر کے حکمائے مادیین کے نظریات سے مختلف نہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ مادہ کے اوصاف و خواص کے متعلق آج کے حکمائے ماویین کے تصورات زیادہ واضح ہیں تاہم ہمارے ان جدید حکماء کے نظریات اس بات کی تسلی بخش وضاحت کرنے سے قاصر رہے ہیں کہ مادہ کے اندر زندگی اور شعور کے اوصاف کیونکر نمودار ہو گئے ہیں۔