جوہر انسانی کے اوصاف و خواص
جہاں اقبال کے نفسیاتی ماحول نے اسے خدا کی محبت سے بہرہ ور کیا ہے وہاں اس کے جدید علمی ماحو ل نے اسے اس قابل بنایا ہے کہ انسان کے انفرادی اور اجتماعی افعال و اعمال کے متعلق اپنے ان نظریات اور معتقدات کی علمی اور عقلی بنیادوں کو معلوم کر سکے جو اسے قرآن سے دستیاب ہوئے ہیں۔ اس علمی ماحول کی وجہ سے اس پر یہ بات منکشف ہوئی ہے کہ یہ نظریات اور معتقدات جوہر انسانی کے قدرتی اوصاف و خواص پر مبنی ہیں۔ وہ جوہرانسانی کو خودی کی حکیمانی اصطلاح سے تعبیر کرتا ہے اور ایک سائنس دان کی طرح روز مرہ کے مشاہدات کی روشنی میں اس کے عملی اثرات و نتائج کا جائزہ لیتاہے اور ان کی روشنی میں اس کے قدرتی و ازلی اور ابدی اوصاف و خواص کی تشریح کرتا ہے۔ یہ محض اتفاق کی بات ہے اور یہ اتفاق علمی اور عقلی نقطہ نظر سے قرآن حکیم کی صداقت کی دلیل ہے کہ یہ اوصاف و خواص قرآن کی تعلیمات کے عین مطابق ہیں یہی وجہ ہے کہ اقبال کا فلسفہ خود ی ایک طرف انسان کی سائنس ہے اور دوسری طرف سے قرآن حکیم کی تفسیر ہے جس طرح سے ہم کارل مارکس کے فلسفہ کو اس تصور سے الگ نہیں کر سکتے کہ کائنات کی حقیقت مادہ ہے۔ خدا کی ان صفات کے ساتھ جو نبوت کاملہ کی تعلیمات بیان کی گئی ہیں اقبال کی حکمت میں خدا کا اسلامی تصور جو اسے اس مخصوص نفسیاتی ماحول سے تھا محض ایک عقیدہ کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک ایسی علمی حقیقت کے طور پر پیش ہو اہے جو انسانی جوہر کے اوصاف و خواص سے ایک ناگریز نتیجہ کے طور پر اخذ ہوتی ہے اور جس کے ڈانڈے تمام دوسرے علمی اور عقلی تصورات یعنی طبیعات ، حیاتیات اور نفسیات کے حقائق سے جا ملتے ہیں، نتیجہ یہ ہو ا ہے کہ اقبال کے ہاں حقیقت انسان کا مسئلہ فقط وحی کی روشنی میں ہی نہیں بلکہ جدید علمی حقائق کی روشنی میں اور جدید طرز استدلال کی مدد سے حل ہوا ہے۔ اقبال کی حکمت میں یہ بات پہلی دفعہ آشکار ہوئی ہے کہ خدا کا تصور تمام علمی حقائق کے ساتھ انسان کی زندگی کے تمام ضروری شعبوں کے ساتھ کیا علمی او ر عقلی مناسبت رکھتا ہے اوراس تصور کی یہ مخفی استعداد کہ صرف وہی کائنات کے تمام موجودہ اور آئندہ حقائق کی معقول تشریح اور مکمل تنظیم کر سکتا ہے۔ علمی تحقیق و تجسس کے دائرہ میں آگئی ہے اور یہ مذہب اور علم دونوں کی بہت بڑی ضرورت ہے۔
مذہب ایک سائنس کب بنتا ہے؟
مذہب انسان و کائنات کے متعلق کچھ معتقدات کو ضروری سمجھتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہ معتقدان کون سے ہیں اور کیوں ضروری ہیں اور کون سے اور کیسے اعمال کا تقاضا کرتے ہیں۔ مذہبی معتقدات کے لیے جس حد تک کہ وہ صرف مذہبی معتقدات ہیں یہ ضروری نہیں کہ علمی حقائق کے ساتھ مطابقت بھی رکھیں یا علمی اور عقلی معیاروں کی رو سے درست بھی ثابت ہو سکیں۔ سائنس بھی حقیقت انسان و کائنات کے متعلق کچھ معتقدات پیش کر تی ہے اور ہم جان لیتے ہیں کہ یہ معتقدات ہماری زندگی کے مقاصد کے پیش نظر کون سے اور کیسے اعمال کا تقاضا کرتے ہیں لیکن سائنس کے معتقدات اشیا کے قدرتی اوصاف و خواص پر مبنی ہوتے ہیں اور تجربات ومشاہدات سے معلوم کیے جاتے ہیں۔ لہٰذا وہ علمی حقائق کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں اور علمی اور عقلی معیاروں کے مطابق درست تسلیم کیے جاتے ہیں۔ اگر کسی وقت اشیاء کے اوصاف اور خواص کے علم کی ترقی کی وجہ سے کسی مذہب پر ایک دور ایسا آ جائے گا کہ اس کے معتقدات بھی اشیا کے قدرتی اوصاف اور خواص پر مبنی ہو جائیں تو پھر وہ مذہب سائنس بن جاتا ہے اور اس میں اور سائنس میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا ۔ اقبال پہلا مسلمان فلسفی ہے جس نے بتایا کہ مذہب اسلام کے معتقدات ایک خاص چیز کے قدرتی اوصاف وخواص پر مبنی ہیں جن کے علم کی طرف انسانی زندگی کے وہ حقائق جو مشاہدات پر مبنی ہیں راہ نمائی کرتے ہیں اور وہ چیز انسانی انا یا خودی ہے لہٰذا اقبال کے فلسفہ میں مذہب اسلام ایک سائنس کی صورت اختیار کر گیاہے اور یہی اقبال کی سب سے بڑی خدمت ہے۔ اسلا م کا یہ قدم جو آگے کو اٹھ چکا ہے اب واپس نہیں آ سکتا بلکہ اسی سمت میں اس سے بھی اگلے قد موں کی طرف راہ نمائی کرے گا۔ اب آئندہ جو بھی حقائق علمی دریافت ہو تے جائیں گے۔ اسلام کی سائنس کے عناصر بنتے جائیں گے۔ ا ب اس بات کی ضرورت نہیں رہی کہ اسلام کو ایک نظام افکار کی شکل دینے کے لیے تصوف کے ان مفروضات کا سہارا لیا جائے جو قرون وسطیٰ کے صوفیوں نے ایجاد کیے تھے اور جنہیں اب تک حکمت اسلام کے عناصر خیال کیا جاتا رہا ہے اقبال خود لکھتے ہیں:
’’اب اسلام قرون وسطیٰ کے اس تصوف کی تجدید کو روانہ رکھے گا جس نے اس کے پیروئوں کے صحیح رجحانات کو کچل کر ایک مبہم تفکر کی طرف اس کا رخ پھیر دیا ہے اس تصوف نے گزشتہ چند صدیوں میں مسلمانوں کے بہترین دماغوں کو اپنے اندر جذب کر کے سلطنت کو معمولی آدمیوں کے ہاتھوں میں چھوڑ دیا تھا۔ جدید اسلام اس تجربہ کو دہرا نہیں سکتا۔ اسلام جدید تفکر اور تجربہ کی روشنی میں قدم رکھ چکا ہے اور اب کوئی ولی یا پیغمبر اس کو قرون وسطیٰ کے تصوف کی تاریکیوں کی طرف واپس نہیں لے جا سکتا‘‘۔
اصلاح خودی کی برکتیں
جوہر انسانی کے لیے خودی حکیمانہ اصطلاح کو کام میں لانے سے فطرت انسانی کے صحیح اسلامی تصور کے ساتھ علمی حقائق کی مطابقت علمی تحقیق اور عقلی محاکمہ کے دائرہ میں آ گئی ہے اوراقبال کے فلسفہ میں یہ صلاحیت پیدا ہو گئی ہے کہ حال اور مستقبل کے تمام صحیح علمی حقائق کو اپنے اندر جذب کر سکے چونکہ خودی کا تصور صحیح ہے اور سائنسی حقائق کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جن حقائق کو سائنس دان تجربات اور مشاہدات کے ایک طویل عمل کے بعد دریافت کرتا ہے اقبال ان کو بلا دقت اور نہایت آسانی کے ساتھ خودی کی فطرت سے اخذ کرتاہے اس قسم کے تصورات میں سے ایک ارتقا کا تصور ہے جس کا سبب (Cause)اقبال کے ہاں خودی کی فطرت سے ماخوذ ہے اور جس کا طریقہ بھی ہم نہایت آسانی سے خودی کی فطرت سے اخذ کر سکتے ہیں۔
اس بیسویں صدی میں علم کے ہر شعبہ میں سچی علمی حقیقتوں کی تعداد یہاں تک ترقی کر گئی ہے کہ جب ہم حکمت اقبال کے اندرونی تصورات کو ایک عقلی یا منطقی ترتیب کے ساتھ آراستہ کرنے کی کوشش کریں اور اس سلسلہ میں ان حقیقتوں کو اس ترتیب کے خلائوں کو پر کرنے کے لیے کام میں لانا چاہیں تو علمی حقیقتوں کی کوئی ایسی کمی محسوس نہیں کرتے جو ہماری کوششوں کو کامیابی سے باز رکھ سکے۔ بلکہ ہماری کوششیں یہاں تک کامیاب ہوتی ہیں اور خلائوں کی تعداد اور طوالت یہاں تک کم ہوتی ہے کہ ترتیب سچ مچ ایک مسلسل عقلی یا منطقی نظام کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور پھر یہ کام اس بنا پر اور آسان ہو جاتا ہے کہ سچی علمی حقیقتوں کے موجودہ ترقی یافتہ مواد ہی سے بعض ضروری علمی حقیقتیں اقبال کی حکمت کے اندر خود اقبال کے ہاتھوں سے پہلے ہی داخل کر دی گئی ہیں۔ ان اندرونی حقیقتوں کی وجہ سے اقبال کی حکمت کے ساتھ بیرونی علمی حقیقتوں کی علمی اور عقلی مناسبت اور مطابقت نہایت آسانی کے ساتھ واضح ہو گئی ہے جس سے اس حکمت کے اندرونی حصوں کو بیرونی حصوں کے ساتھ جوڑنے کا کام آسان ہو گیا ہے۔