تعلیم و تربیت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
تعلیم و تربیت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بچے کو سمارٹ فون کس عمر میں دینا چاہیے؟

کیلی اوکس
بی بی سی، فیوچر

یہ مخمصہ جدید دور کا ہے۔ کیا اپنے بچوں کو سمارٹ فون دینا چاہیے یا جب تک ممکن ہو انھیں اس سے دور رکھا جائے؟

اگر آپ ماں باپ ہیں اور یہ سوچ رہے ہیں کہ بچے کو سمارٹ فون دینا ایسا ہے جیسے اسے ایک ایسی پوٹلی تھما دی جائے جس کے ذریعے دنیا بھر کی تمام برائیاں کُھل کر آپ کے بچے کے سامنے آ جائیں گی اور آپ کے بچے کی پوری زندگی متاثر ہو جائے گی، تو آپ کو معاف کیا جا سکتا ہے۔

بچوں پر سمارٹ فونز اور سوشل میڈیا کے ممکنہ بُرے اثرات کے حوالے سے آئے روز شائع ہونے والی حیران کن شہ سرخیاں کسی بھی ماں باپ کو قائل کرنے کے لیے کافی ہیں کہ بچوں کو سمارٹ فون بالکل نہیں دینا چاہیے۔

بظاہر بہت سی مشہور شخصیات بھی جدید دور کے اس مسئلے سے دوچار ہیں کہ بچوں کو سمارٹ فون دیا جائے یا نہیں۔ مثلاً معروف گلوکارہ میڈونا کا کہنا تھا کہ انھیں پچھتاوا ہے کہ انھوں نے اپنے بچوں کو 13 برس کی عمر میں فون استعمال کرنے کی اجازت کیوں دی۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر انھیں معلوم ہوتا تو وہ ایسا نہ کرتیں۔

دوسری جانب، شاید یہ بھی سچ ہے کہ خود آپ کے پاس سمارٹ فون موجود ہے اور آپ اسے اپنی زندگی کا ایک ضروری حصہ سمجھتے ہیں۔ ای میلز اور آن لائن شاپنگ سے لے کر ویڈیو کال اور اپنے بچوں کی تصویروں تک، آپ ہر چیز اپنے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ اور اگر آپ کے بچوں کے ہم جماعت اور دوست، تمام سمارٹ فونز خرید رہے ہیں تو اگر آپ کے بچوں کے پاس فون نہ ہوا تو وہ اس کسی چیز سے محروم ہونے جیسا محسوس کریں گے۔

سافٹ سکلز کيا ہے؟

اپنا کام مؤثر انداز میں کرنے کے لیے آپ کو ’ہارڈ سکِلز‘ کی ضرورت ہوتی ہے یعنی وہ خصوصی مہارت اور علم جس کے ذریعے آپ اپنی ذمہ داری نبھا سکیں۔
سافٹ سکلز کيا ہے؟


مگر دنیا بھر میں اب کام کاج کے طریقے بدل رہے ہیں اور ممکنہ طور پر ’سافٹ سکِلز‘ بھی اتنے ہی اہم ہو سکتے ہیں جتنے کہ ہارڈ سکِلز۔


یہ ہنر اکثر اوقات اتنے نمایاں نہیں ہوتے: مثال کے طور پر وہ ذاتی خصوصیات اور رویہ جو کسی شخص کو ایک اچھا لیڈر یا ٹیم کا رکن بناتے ہیں۔


خاص طور پر ایسے وقت میں جب گھروں سے کام کرنا معمول بنتا جا رہا ہے، جہاں کئی لوگوں کا مل کر ایک کام کرنا اور نت نئے طریقوں سے یہ کام انجام دینا بالکل مختلف روپ اختیار کر چکا ہے، وہاں کمپنیاں زیادہ متنوّع اور کامیاب ٹیمیں بنانے کے لیے اس طرح کی خصوصیات کی اہمیت کو سمجھنے لگی ہیں۔


ماہرین کے مطابق نتیجتاً اب کمپنیاں ملازمت کے امیدواروں کے سافٹ سکِلز کو بھی اتنے ہی غور سے پرکھتی ہیں جتنا کہ ان کی واضح تکنیکی صلاحیتوں اور تجربے کو۔

رشتے اور محبت: مخالف مزاج کے افراد میں محبت اور جسمانی کشش قدرے کم کیوں ہوتی ہے؟

جیسیکا کلین

بی بی سی اردو تاریخ اشاعت : 12 مارچ 2022 ء

ایک عرصے سے لوگ یہ کہتے آئے ہیں کہ 'مخالف مزاج کے افراد ایک دوسرے کی جانب کشش رکھتے ہیں۔' جیسا کہ کم گو شخص، کھل کے اظہار کرنے والے شخص کی جانب کھچ سکتا ہے، یا ایک لائق طالب علم کو آوارہ لڑکا بھی پسند آ سکتا ہے۔ دنیا بھر کے معاشروں میں اس مقبول خیال کو برسوں سے مانا جاتا ہے۔


اگرچہ بہت سے افراد کا یہی ماننا ہے کہ مخالف مزاج رکھنے والے ایک دوسرے کو پسند کرتے یا ان کی جانب راغب ہوتے ہیں اور بعض افراد تو اپنی زندگیوں سے اس کی مثال بھی نکال لائے گے مگر سائنسدان نے برسوں کی تحقیق کے دوران اس خیال کو رد کیا ہے۔


برے تعلقات اور رشتوں کے معاملات کو حل کرنے کے ماہر کیلیفورنیا میں مقیم ماہر نفسیات رامانی درواسولا کہتے ہیں کہ 'تحقیق اس بارے میں بہت واضح ہے کہ یہ بات درست نہیں ہے۔'


ان کا کہنا ہے کہ 'ایسے افراد جن کی ایک جیسی دلچسپیاں ہوں، ایک جیسا مزاج ہو ان کے درمیان تعلق قائم ہونے یا ڈیٹ کرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔'


درحقیقت مختلف مقالوں میں بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ دوستوں اور محبت کے ساتھیوں کے ایک جیسے خیالات، اقدار اور مشاغل ہوتے ہیں۔


لوگ ایک جیسی جسمانی خصوصیات رکھنے والوں کی جانب کشش محسوس کرتے یا بھروسہ کرتے ہیں اور بعض اوقات تحقیق سے بھی پتا لگتا ہے کہ ایک جیسی شخصیت کے حامل افراد میں بھی تعلق قائم ہوتا ہے۔

کم عمر میں تعلیم شروع کرنا بہتر ہے یا نسبتاً زیادہ عمر میں؟

ملیسا ہوجنبوم

بی بی سی اردو  7 مارچ 2022ء

میں سات سال کی تھی جب میں نے پڑھنا سیکھنا شروع کیا جیسا کہ میرے سکول میں معمول تھا۔ میری بیٹی ایک معیاری انگریزی سکول میں پڑھتی ہے جہاں تعلیم چار سال کی عمر سے شروع ہوتی ہے۔

اس عمر میں اپنی بچی کو حروف کو یاد کرتے ہوئے اور الفاظ کو سنتے ہوئے دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہماری تعلیم کا تجربہ کتنا مختلف تھا۔

ہم اس عمر میں درختوں پر چڑھنا اور چھلانگ لگانا سیکھ رہے تھے۔ میں سوچتی ہوں کہ کیا اسے ایک ایسا آغاز مل رہا ہے جو اسے زندگی بھر کام آنے والے فوائد فراہم کرے گا؟ یا کیا اس پر ممکنہ طور پر مناسب مقدار سے زیادہ تناؤ اور دباؤ ہے، اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب اسے اپنی آزادی اور بے فکری کا مزا لینا چاہیے؟

یا پھر کیا میں یوں ہی بہت زیادہ پریشان ہو رہا ہوں، اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم کس عمر میں پڑھنا لکھنا شروع کرتے ہیں؟ٹر، بی بی سی ریل

اس میں کوئی شک نہیں کہ زبان اپنی تمام تر شکلوں میں، خواہ وہ لکھنا، بولنا، بلند آواز سے پڑھنا یا گانا ہو ہماری ابتدائی نشوونما میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔

بچے اس زبان میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں جو رحم مادر میں سنتے ہیں۔ والدین کی اس بات کے لیے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ان کے پیدا ہونے سے پہلے ہی بلند آواز سے پڑھ کر سنائیں۔

شواہد سے پتا چلتا ہے کہ بچوں سے کتنا کم یا کتنا زیادہ بات کی جاتی ہے اس بات کا اس کی مستقبل کی تعلیمی کامیابیوں پر دیرپا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

کتابیں اس بھرپور لسانی تجربات کا خاص طور پر اہم پہلو ہیں، کیونکہ تحریری زبان میں اکثر روزمرہ کی بولی جانے والی زبان سے زیادہ وسیع اور زیادہ باریک اور مفصل الفاظ شامل ہوتے ہیں۔

وقت کی غربت‘ کا مشکل چکر

وقت کی غربت‘ کا مشکل چکر جس کا شکار اکثر والدین ہیں

وقت کی غربت‘ کا مشکل چکر 
5 فروری 2022  (bbc urdu)


اپنے لیے وقت، اپنے بچوں کے ساتھ گزارنے کے لیے وقت یا اپنے گھر کے کاموں کے لیے وقت۔۔۔ آپ کسی بھی بچوں والے شخص سے بات کریں گے تو ایک مسئلے کی کوئی نہ کوئی شکل سامنے آئے گی، کہ وقت ناکافی ہے۔


‘وقت کی غربت‘ کے نام سے جانی جانے والی صورتحال کی تعریف بہت سادہ ہے جس میں لوگوں کو متواتر یہی لگے کہ کرنے کو بہت کچھ ہے اور اس کے لیے وقت ناکافی ہے اور وقت کی غربت بڑھ رہی ہے۔

تحقیق کے مطابق زیادہ تر لوگ متواتر وقت کے تناظر میں غریب ہوتے ہیں اور یہی وقت کی غربت کافی شدید ہو سکتی ہے اور اس کے دیر پا اثرات میں قدرے ابتر جسمانی صحت اور قدرے کم پیداواری صلاحیت شامل ہیں۔

مگر یہ مسئلہ والدین میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ برطانیہ میں سنہ 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق جن لوگوں کے بچوں کی عمر 14 سال سے کم ہے، ان کے پاس اوسطً ہر ہفتے 14 گھنٹے فارغ ٹائم کم ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق کسی اور کی بنیادی دیکھ بھال کرنے والوں، خاص کر کم آمدنی والی ماؤں، ان لوگوں میں وقت کا دباؤ زیادہ ہوتا ہے۔

مگر اس کی اہمیت یہ ہے کہ جو لوگ وقت کی غربت میں مبتلا ہوتے ہیں وہ عموماً سماجی اور معاشی غربت کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا نے معاملات زیادہ بگاڑ دیے ہیں تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ اس امتزاج کو کم کرنے کے طریقے ہیں۔

وقت کی غربت کے اہم ترین اثرات


ہم ایک ایسے دور میں رہتے ہیں جہاں پیداواری صلاحیت کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ‘آل ویز آن‘ کی اصطلاح ایک ایسے کلچر کی عکاسی کرتی ہے جہاں کام اکثر ہماری ذاتی زندگی میں مداخلت کر رہا ہوتا ہے۔ بچے پالنا زیادہ مشکل ہوتا جا رہا ہے اور ہمارے دوست، شوق اور دلچسپیاں 24 گھنٹے ساتوں دن ہمارے فون پر صرف ایک کلک یا سوائپ دور ہیں۔

گفتگو کے پانچ گُر جو آپ کی سماجی زندگی سنوار سکتے ہیں


ڈیوڈ رابسن
بی بی سی ورک لائف
گفتگو کے پانچ گر


مصنفہ اور ناول نگار ریبیکا ویسٹ اپنی کہانیوں کے ایک مجموعے ’دی حارش وائس‘ میں لکھتی ہیں کہ دو طرفہ گفتگو جیسی کوئی چیز موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک دھوکہ ہے اور اصل میں یہ خود کلامی کا عمل ہے جو کہ دونوں طرف سے چل رہا ہوتا ہے۔

ان کے مطابق ہمارے الفاظ دوسرے شخص کے لفظوں کے اوپر سے گزر رہے ہوتے ہیں اور کوئی معنی خیز گفتگو نہیں ہو رہی ہوتی۔
ہر شخص کو زندگی میں کبھی نہ کبھی ایسا ضرور محسوس ہوا ہوگا۔ چاہے پھر وہ آپ کی کافی بنانے والی بیریسٹا ہو یا پھر آپ کسی قریبی دوست سے مل رہے ہوں۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم ایک تعلق بنا سکیں لیکن پھر ہم گفتگو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے خیالات آپس میں نہیں ملتے۔

کووڈ کی وجہ سے بھی ان احساسات میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک لمبے عرصے تک اکیلے رہنے کے بعد ہماری سماجی رابطوں کی ضرورت میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اور ایسے میں یہ بات اور بھی مایوس کن ہے کہ ہمارے اور دوسروں کے درمیان اب بھی ایک خلا موجود ہے۔ حالانکہ ایک دوسرے سے ملنے پر پابندی بھی ختم ہوچکی ہے۔

تاریخ کا سب سے زیادہ ماہر ریاضی دان پال اردیش

بی بی سی اردو، 24 مئی 2021

 پال اردیش: دنیاوی آسائشوں سے ماورا ’خانہ بدوش‘ ریاضی دان جنھیں کبھی امریکی جاسوس کہا گیا کبھی روسی ۔ 

تاریخ کا  سب سے  زیادہ ماہر ریاضی دان پال اردیش

اگر آپ پال اردیش سے اُس وقت ملے ہوتے جب اُن کی عمر فقط چار یا پانچ برس تھی تو یہ ملاقات آپ کو حیران کر دینے کے لیے کافی ہوتی کیونکہ وہ آپ سے آپ کی تاریخِ پیدائش اور ولادت کا وقت پوچھتے اور ذہن ہی ذہن میں کچھ جمع تفریق کے آپ کو چند ہی لمحوں میں بتا دیتے کہ آپ کی عمر سیکنڈز کے حساب سے کتنی ہو چکی ہے۔

اور اگر آپ پال ادریش سے اس وقت ملے ہوتے جب ان کی عمر سات برس کے لگ بھگ تھی تو وہ آپ کے کچھ مسائل حل کرنے میں آپ کی مدد کر سکتے تھے جیسا کہ اگر آپ سورج تک بذریعہ ٹرین جانا چاہیں تو یہ سفر کتنے گھنٹوں یا دنوں میں طے ہو گا اور کس رفتار پر چلتے ہوئے آپ کب تک سورج پر پہنچ سکتے ہیں۔

مگر اب ایک دلچسپ بات اگر آپ پال سے اس وقت ملے ہوتے جب ان کی عمر 14 برس تھی اور آپ انھیں کہتے کہ وہ اپنے جوتوں کے تسمے باندھ کر دکھائیں تو شاید وہ ایسا نہ کر پاتے کیونکہ بڑی عمر میں پہنچنے کے باوجود وہ یہ نہیں سمجھ پائے تھے کہ تسمے کیسے باندھے جاتے ہیں۔

جوتے کے تسمے باندھنا واحد چیز نہیں تھی جسے وہ نہیں کر سکتے تھے۔

مجھے وہ وقت بہت اچھے سے یاد ہے کہ جب میں انگلینڈ پڑھنے گیا تھا۔ چائے کا وقت تھا اور انھوں نے چائے کے ساتھ کھانے کے لیے بریڈ (ڈبل روٹی) پیش کی۔ وہاں موجود طلبا کے سامنے اس بات کا اقرار کرتے ہوئے مجھے بہت شرمندگی محسوس ہوئی کہ میں نے کبھی بریڈ پر مکھن نہیں لگایا تھا۔‘ (یعنی بریڈ پر مکھن کیسے لگایا جاتا ہے وہ اس بات سے ناواقف تھے۔)

تندرستی کے پانچ ٹوٹکے جو 400 سال بعد بھی کارآمد ہیں

بی بی سی اردو ، 10 مئی 2021 

رابرٹ برٹن کی کتاب دی اناٹومی آف میلنکولی، جس میں کلینیکل ڈپریشن کی وجوہات اور علاج کے بارے میں بات کی گئی ہے، انھوں نے ڈیموکریٹس جونیئر کے فرضی نام سے لکھی تھی ۔ 

تندرستی کے پانچ ٹوٹکے جو 400 سال بعد بھی کار آمد ہیں 
جب بات تندرستی کے ٹوٹکوں سے متعلق کتابوں کی ہو تو آپ شاید سوچتے ہوں کہ جتنی زیادہ نئی کتاب ہو تو اتنا ہی بہتر ہے۔ لیکن سنہ 1620 میں لکھی جانے والی ایک کتاب 'دی اناٹومی آف میلنکولی' اگر آپ کی نظر سے گزرے تو آپ کی یہ سوچ تبدیل ہو جائے گی۔ اس غیر معمولی کتاب نے انسانی فطرت کو سمجھنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا اور یہ کتاب آج بھی حیرت انگیز طور پر جدید ہے.

دی ’اناٹومی آف میلنکولی‘ یا ’اداسی کا علم‘ کے مصنف روبرٹ برٹن ہیں جنھوں نے یہ کتاب سنہ 1621 میں لکھی تھی۔ انسانی فطرت اور حالات کے بارے میں ان کی سمجھ اتنے برس گزر جانے کے باوجود آج بھی قابلِ عمل اور جدید ہے۔

برٹن ایک برطانوی راہب اور سکالر تھے۔ انھوں نے قدیم یونانی فلسفے اور 17ویں صدی میں علم طب پر ہونے والے کام کو اپنی کتاب میں سمو دیا۔ ان کی کتاب میں دو ہزار سال کے علمی کام سے استفادہ حاصل کیا گیا ہے۔

علامہ محمد على الصابونى


 إنا لله و إنا إليه راجعون

ملک شام کے مشھور عالم دین شیخ التفسیر و الحدیث علامہ محمد علی الصابونی 91 سال کی بھر پور علمی و روحانی زندگی گذارنے کے بعد19 مارچ   2021 کو ، ترکی میں وصال فرما گئے ۔ 

اللہ کریم انکے درجات بلند فرمائے ۔ شیخ محترم کی زندگی قابل رشک ہے ۔ 30 سال حرمین شریفین میں مقیم رہے اور وہاں تفسیر قرآن کا درس دیتے رہے ۔

ان کی مشھور زمانہ کتاب " صفوۃ التفاسیر"  بہت مفید اور جامع ہے ۔ یہ کتاب بھیرہ شریف میں الکرم یونیورسٹی کے نصاب کا حصہ بھی ہے ۔ 

آپ کی کتابوں کے نام ملاحظہ فرمائیں ؛ 

صفوة التفاسير، وهو أشهر كُتُبه.

المواريث في الشريعة الإسلامية.

من كنوز السّنّة.

روائع البيان في تفسير آيات الأحكام.

قبس من نور القرآن

ذہین ترین لوگوں کی عادات کے بارے میں پروفیسرکریگ رائٹ کے خیالات

ڈاکٹر کریگ رائٹ  نے اپنی زندگی میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ ماضی اور حاضر دور کے ذہین ترین لوگوں کو سمجھنے میں گزارا ہے۔

ذہین ترین لوگوں کے بارے میں 
پروفیسرکریگ رائٹ کے خیالات

اپنی تین کتابوں میں انھوں نے ایسی شخصیات میں 14 مشترکہ عادات کا تعین کیا ہے۔ اس فہرست میں ان افراد کے ٹیلنٹ یا خاص ہنر کو شامل نہیں کیا گیا بلکہ روزمرہ کی عام عادات کو حصہ بنایا گیا ہے۔ جب کہ ذہانت کے جائزہ کيلئے ’آئی کیو کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔‘  کریگ رائٹ کے مطابق ذہین افراد میں مندرجہ ذیل 14 عادات پائی گئی ہیں:

1- کام کے آداب۔

2- لچک، یعنی مشکلات سے گھرنے کے باوجود جلد بحالی۔

3-نیا کام۔

4-بچے جیسا تخیل۔

5- ختم نہ ہونے والا تجسس۔

6-جنون۔

7-اردگرد کے ماحول سے الگ تخلیقی صلاحیت۔

8-بغاوت کا جذبہ۔

9-ایسی سوچ جو حد پار کر دے۔

10-باقی لوگوں سے مختلف عمل یا سوچ۔

11-تیاری۔

12-بار بار ایک چیز کے بارے میں سوچنا۔

13-آرام۔

14-توجہ۔

-------------

 ذہین شخص کون ہے؟ پروفیسر رائٹ کے مطابق ہر کسی کے لیے اس کی تعریف مختلف ہوسکتی ہے۔ لیکن ان کے مطابق اس کا مطلب ہے کہ ’ذہین فرد میں ذہانت کی غیر معمولی قوت ہوتی ہے۔ ان کے کارناموں سے وقت کے ساتھ معاشرے میں اچھی یا بُری تبدیلی واقع ہوتی ہے۔‘ ان کے نزدیک  زیادہ ذہین وہ ہے جس کے کارناموں نے بڑے پیمانے پر لوگوں کو طویل دورانیے تک متاثر کیا ہے۔  

غیر معمولی ذہانت کے مالک افراد کی مشترکہ 14 عادات ۔

 دنیا کے عظیم موسیقاروں میں سے ایک لوڈویگ وین بیتھوون کو ریاضی میں جمع کے سوال حل کرنے میں مشکل پیش آتی تھی اور انھوں نے کبھی ضرب یا تقسیم کرنا نہیں سیکھا تھا۔

ہسپانوی پینٹر پابلو پیکاسو کو حروف کی سمجھ نہیں تھی اور والٹ ڈزنی کلاس روم میں خواب خرگوش میں پائے جاتے تھے۔ برطانوی مصنفہ کو تو سکول ہی جانے نہیں دیا گیا مگر ان کے بھائیوں نے کیمبرج سے تعلیم حاصل کی۔

چارلس ڈارون کی سکول کی کارکردگی اتنی بُری تھی کہ ان کے والد انھیں خاندان کے لیے باعثِ شرمندگی سمجھتے تھے۔

 ایلبرٹ آئن سٹائن کو اپنے دور میں فزکس کے امتحان میں چوتھے نمبر پر آنے کا اعزاز حاصل ہے، ہاں مگر جماعت میں طالب علم صرف پانچ ہی تھے۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج کے تعلیمی معیار پر ان میں سے شاید کوئی بھی پورا نہ اتر پاتا۔ مگر یہ تمام لوگ تاریخ میں ذہین یا جینیئس مانے جاتے ہیں کیونکہ آرٹس اور سائنس کے میدانوں میں ان کی خدمات عظیم ہیں۔

آج کے دور کی بھی کئی معروف شخصیات جیسے بِل گیٹس، باب ڈیلن اور اوپرا ونفری نے ہائی سکول کی تعلیم مکمل نہیں کی مگر اس کے باوجود اپنے اپنے شعبوں میں بے انتہا کامیاب رہے۔

ڈاکٹر کریگ رائٹ کا کہنا ہے کہ ’آئی کیو کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔‘ انھوں نے اپنی زندگی میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ تاریخ اور حاضر دور کے ذہین ترین لوگوں کو سمجھنے میں گزارا ہے۔

اپنی تین کتابوں میں انھوں نے ایسی شخصیات میں 14 مشترکہ عادات کا تعین کیا ہے۔ اس فہرست میں ان افراد کے ٹیلنٹ یا خاص ہنر کو شامل نہیں کیا گیا بلکہ روزمرہ کی عام عادات کو حصہ بنایا گیا ہے۔

پروفیسر رائٹ کے مطابق ذہین شخص کون ہے، ہر کسی کے لیے اس کی تعریف مختلف ہوسکتی ہے۔ لیکن ان کے مطابق اس کا مطلب ہے کہ ’ذہین فرد میں ذہانت کی غیر معمولی قوت ہوتی ہے۔ ان کے کارناموں سے وقت کے ساتھ معاشرے میں اچھی یا بُری تبدیلی واقع ہوتی ہے۔‘

رائٹ سمجھتے ہیں کہ زیادہ ذہین وہ ہے جس کے کارناموں نے بڑے پیمانے پر لوگوں کو طویل دورانیے تک متاثر کیا ہے۔

انھوں نے کئی برسوں تک ییل یونیورسٹی میں ’جینیئس کورس‘ پڑھایا ہے۔ کئی طالب علم ان کے خیالات سے متفق نہیں ہوتے جب وہ بتاتے ہیں کہ امریکی گلوکارہ لیڈی گاگا جینیئس ہیں جبکہ اولمپکس میں سب سے زیادہ سونے کے تمغے جیتنے والے سوئمر مائیکل فیلپس جینیئس نہیں ہیں۔

وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ پہلی کلاس میں کئی طلبہ جینیئس بننے کے لیے ہاتھ کھڑے کرتے ہیں اور آخر میں ان کی تعداد بہت کم وہ جاتی ہے۔

بی بی سی نے ان سے ایک انٹرویو میں مزید جاننے کی کوشش کی ہے۔

سوال: رائل سپینش اکیڈمی کے مطابق جینیئس سے مراد غیر معمولی ذہنی قابلیت یا نئی ایجادات کی صلاحیت رکھنا ہے۔ کیا آپ اس تعریف سے مطمئن ہیں؟

جواب: یہ تعریف محدود ہے۔ میرے خیال میں اس سے مراد ایسے افراد ہیں جو جینیئس بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن ابھی جینیئس ہوتے نہیں۔

یہ تعریف دینے والی ادبی شخصیات چاہتی ہیں کہ آپ اپنا ذہن استعمال کریں اور نئے خیالات کو تشکیل دیں۔ یعنی تخلیق کاروں کے لیے یہ خیالات بدلتے رہتے ہیں۔

ہم اس پر بحث کر سکتے ہیں اور میرے ذہن میں آئن سٹائن آتے ہیں جو فرض کریں کہ کسی جزیرے پر تنہا ہیں۔ وہاں وہ اپنا فارمولا (ای = ایم سی سکوئر) سوچ سکتے ہیں، وہ تھیوری آف جنرل ریلٹیوٹی اور مزید بہت کچھ سوچ سکتے ہیں۔ لیکن اس دوران وہ کسی سے رابطہ نہیں کر پاتے اور ہمیں کبھی کسی آئن سٹائن کی خبر ہی نہیں ہوتی۔

اکیڈمی کی تعریف کے مطابق آئن سٹائن اب بھی جینیئس ہوں گے لیکن میری تعریف کے مطابق ایسا نہیں ہوگا کیونکہ وہ دنیا میں کوئی تبدیلی نہیں لائے ہوں گے۔

سوال: تو آپ کو کیا لگتا ہے کہ جینیئس کون ہوتا ہے؟

جواب: میں اپنی کتاب میں بتا چکا ہوں کہ آئی کیو یعنی ذہانت کے معیار کو ضرورت سے زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔

کسی عام آئی کیو ٹیسٹ میں ایسی صلاحیت جانچی جاتی ہے جو انسان کو وراثت میں ملی ہوتی ہے۔

کئی دہائیوں کے لیے ان عظیم شخصیات کے بارے میں مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ وہ ذہین تھے لیکن آئی کیو ٹیسٹ میں ان کے سکور غیر معمولی طور پر زیادہ نہیں تھے، جیسے 200 میں سے 140 یا 150 کا سکور۔

میں نوبیل انعام جیتنے والوں کی بھی مثال دیتا ہوں کہ ان میں سے کچھ کے آئی کیو سکور 115 یا 120 تھے۔

آئی کیو کے علاوہ ایسے کئی عناصر ہیں جو یہ طے کرتے ہیں کہ طویل دورانیے تک کوئی کیسے اپنی مہارت سے دنیا کو بدل سکتا ہے۔

میں نے قریب 13، 14 اور 16 سال کی عمر کے تین نوجوانوں کے ساتھ پانچ سنہرے دن گزارے ہیں۔ ان تینوں کی تعلیمی کارکردگی اچھی ہے اور وہ ایسے امتحانات کے لیے تیاری کر رہے ہیں جن کی مدد سے وہ بہتر تعلیمی اداروں میں جا سکتے ہیں۔

میں نے انھیں بتایا کہ شاید نوٹس کی اتنی اہمیت نہیں اور انھیں دنیا کا مطالعہ کرنا چاہیے، مختلف سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہیے، غلطیاں کرنی چاہییں اور گِر کر دوبارہ اٹھنا چاہیے۔

لیکن ان کے والدین (میرا بیٹا اور اس کی اہلیہ) نے بتایا کہ میں انھیں غلط پیغام دے رہا ہوں اور مجھے انھیں بہتر کارکردگی پر ابھارنا چاہیے۔

تو اب یہ والدین مجھے غلط صحبت سمجھتے ہیں۔

مگر سچ یہ ہے کہ آج کل نوجوانوں پر بہت دباؤ ہے اور شاید لوگوں کی قابلیت جانچنے کے لیے موجود طریقۂ کار ٹھیک نہیں۔

سوال: اپنے بچوں کو جینیئس بنانے یا خود بننے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

جواب: میرے خیال سے سب سے اہم چیز کوشش ہے۔ لیکن سخت محنت کے لیے کیا درکار ہوتا ہے؟

کیونکہ کوشش خود سے وجود میں نہیں آتی بلکہ یہ اندرونی قوت سے بیرونی طور پر واقع ہوتی ہے۔

جنون پیدا ہونے سے سخت محنت کا حوصلہ ملتا ہے اور اس کی بنیاد محبت ہوسکتی ہے یا ذہن میں کسی چیز کا بار بار خیال آنا۔

میں کہوں گا کہ اپنے جنون کو شہہ دینا اہم ہے۔

ایک اور چیز جو میں نے عظیم ذہنوں میں دیکھی وہ یہ ہے کہ وہ خود میں ایک سکالر یا محقق ہوتے ہیں اور انھیں مختلف شعبوں کا علم ہوتا ہے۔

اپنی کتاب کے ایک باب میں، میں نے لکھا ہے کہ آپ کو لومڑی اور ہیج ہاگ میں فرق دیکھنا چاہیے۔ لومڑی کو مختلف چیزوں کا علم ہوتا ہے جبکہ ہیج ہاگ صرف ایک چیز کے بارے میں جانتا ہے۔

تو آپ کس طرح کے انسان ہیں: جو ہزاروں میل سفر کرے یا ہزاروں میل نیچے گِرے؟

مختلف تجربات ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ الگ الگ چیزوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔ جبکہ دوسری قسم کے لوگ کم تجربات کی وجہ سے محض کچھ ہی چیزوں کے بارے میں سوچ پاتے ہیں۔

بچوں کی پرورش کے دوران یہ اہم ہے کہ آپ انھیں مختلف قسم کے تجربات دیں۔ اگر انھیں سائنس پسند ہے تو آپ انھیں ناول پڑھنے کا کہیں۔ اگر انھیں سیاست میں دلچسپی ہے تو آپ انھیں پینٹنگ کرنا سکھائیں۔

وہ والدین جو اپنے بچوں کو صرف ایک طرح کی سرگرمیوں میں شریک کر رہے، جیسے اولمپکس کا سوئمر بنانے کی کوشش یا فزکس میں نوبیل انعام دلوانے کی کوشش، وہ غلط ہیں۔

ہمیں یہ معلوم نہیں ہوسکے گا کہ ان کا جنون کیا ہے، جب تک یہ مختلف تجربات سے نہیں گزر جاتے۔

جیسے ایک قول ہے کہ اگر آپ اپنے کام سے محبت کرتے ہیں تو آپ کو زندگی میں ایک دن بھی یہ کام محسوس نہیں ہوگا۔

سوال: جدید دور میں ذہین شخصیات کون سی ہیں اور کس مثال پر طالب علم حیران ہوتے ہیں؟

جواب: ایلون مسک ایک جدید دور کے جینیئس ہیں جنھوں نے بظاہر اپنے دیوانے پن میں مختلف شعبوں میں عظیم کارنامے سرانجام دیے ہیں جیسے ٹیسلا اور سپیس ایکس جیسی کمپنیوں کا قیام۔

ان کی مثال ایک سکالر کی سی ہے جو ایک ہی وقت میں مختلف شعبوں میں انقلاب لا رہا ہے۔

لیکن غیر متوقع جینیئس افراد میں کانیے ویسٹ، ڈولی پارٹن اور لیڈی گاگا جیسے نام ہیں۔ ان ناموں پر کچھ لوگ سر ہلا کر نفی میں جواب دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ میں مذاق کر رہا ہوں۔

ڈولی پارٹن ایک دلچسپ مثال ہے کیونکہ وہ بہت ذہین ہیں مگر انھیں سیلی بلانڈ (احمق شخص) سمجھا جاتا ہے۔ یہ ان کی طاقت ہے۔

انھوں نے خود کے لیے ایک عظیم کمپنی بنائی ہے اور وہ تفریح کی صنعت میں کامیاب کاروباری خاتون کے طور پر ہر کسی کے لیے ایک مثال ہیں۔ وہ ایسے گانے گاتی اور لکھتی ہیں جو جدید دور میں کافی پذیرائی حاصل کرتے ہیں۔

تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ڈولی پارٹن کی کافی اہمیت ہے، خاص کر امریکہ میں غریب سفید فام خواتین کے لیے۔ ان کی موسیقی کئی افراد کی زندگیوں کو متاثر کرتی ہے۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ یہ اثر کب تک قائم رہتا ہے۔

لیکن یہاں سوئمر مائیکل فیلپس کی بھی مثال ہے جنھوں نے اولمپکس میں سب سے زیادہ گولڈ میڈل جیتے ہیں۔

فرانس میں کسی نے ماضی کے یونان کی نوعیت کے اولمپکس شروع کیے اور اس میں سوئمنگ کا کھیل شامل کیا۔ یہاں سو اور دو سو میٹر کی ریس ہوتی ہے اور فری سٹائل، بیک سٹروک، بریسٹ سٹروک اور بٹر فلائی جیسے ہنر آزمائے جاتے ہیں۔

مائیکل سوئمنگ پول میں داخل ہوتے ہیں اور دوسروں کی نسبت زیادہ تیزی سے تیر سکتے ہیں۔

لیکن مستقبل میں کوئی ان سے بھی تیز تیر سکے گا کیونکہ اس کے لیے جسم کی خاص بناوٹ درکار ہے، آہستہ آہستہ غذائی عادات بہتر ہو رہی ہیں اور ٹریننگ سے مزید بہتر نتائج مل سکتے ہیں۔

لیکن اس مثال کے لیے سپینش اکیڈمی کی مثال درست ہے: یہاں کوئی ذہانت کے عنصر نہیں۔ یہ کسی جانور کی طرح ہے جو پنجرے میں تیز سے تیز تر کرتب دکھا سکتا ہے۔

میرے خیال سے کسی جینیئس کو اس سے بہتر کام کرنا چاہیے۔

سوال: ییل کے طلبہ آپ کی کلاس پڑھ کر جینیئس کیوں نہیں بننا چاہتے؟

جواب: عظیم ذہنوں کے ساتھ یہ مسئلہ پیش آتا ہے کہ وہ اکثر اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے کافی تباہ کن ہوتے ہیں کیونکہ وہ جنون سے اتنے بھرے ہوئے ہوتے ہیں کہ وہ ایک ہی چیز کے بارے میں بار بار سوچتے ہیں۔

ان کی توجہ صرف اپنے ذہنی مقصد کو پورا کرنے کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا کو بدل سکتے ہیں۔ وہ کسی چیز کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں اور ان کے مطابق صرف وہ ہی ایسا کر سکتے ہیں۔

ان لوگوں کے بہت سارے خواب ہوتے ہیں جن سے وہ خود پر اور اپنے اردگرد لوگوں پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ وہ دوسرے کے لیے مشکل رویہ اختیار کر سکتے ہیں اور انھیں کمتر سمجھ سکتے ہیں۔

تو ان کے لیے کام کرنا اچھا نہیں بھی ہوسکتا ہے۔

جیف بیزوس، ایلون مسک اور بِل گیٹس اس کی مثالیں ہیں۔

جینیئس کورس کے دوران لوگ خود سے پوچھ سکتے ہیں کہ ’کیا میں واقعی یہ کرنا چاہتا ہوں؟ کیا میں بڑے پیمانے پر لوگوں کے لیے دنیا کو بدلنا چاہتا ہوں یا محض اپنے اردگرد کا ماحول؟ تاکہ میرے قریبی لوگ بہتر محسوس کر سکیں۔۔۔‘

اور میری کتاب کا بھی عنوان یہی ہے۔ اس کتاب کا راز یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ کسی معنی خیز انداز میں دنیا کو تبدیل کرنے والے نہیں ہیں۔

تاہم اس سے ہم عملی طور پر اہم چیزیں سیکھ سکتے ہیں، جیسے لوگوں سے اپنے تعلقات کیسے رکھے جاسکتے ہیں اور اپنی پیداوار یا تخلیقی صلاحیت کیسے بہتر کی جاسکتی ہے۔

کیونکہ جینیئس افراد اپنے جنون میں پہلے سے مبتلا ہوتے ہیں اور وہ کبھی بھی اُڑان بھر سکتے ہیں۔

دریں اثنا ہم باقی لوگ اس سے یہ موقع حاصل کر سکتے ہیں کہ اپنی زندگیاں کیسے گزارنی ہیں اور کیسے اس میں تبدیلی لانی ہے۔

کریگ رائٹ کے مطابق ذہین افراد میں مندرجہ ذیل 14 عادات پائی گئی ہیں:

کام کے آداب۔

لچک، یعنی مشکلات سے گھرنے کے باوجود جلد بحالی۔

نیا کام۔

بچے جیسا تخیل۔

ختم نہ ہونے والا تجسس۔

جنون۔

اردگرد کے ماحول سے الگ تخلیقی صلاحیت۔

بغاوت کا جذبہ۔

ایسی سوچ جو حد پار کر دے۔

باقی لوگوں سے مختلف عمل یا سوچ۔

تیاری۔

بار بار ایک چیز کے بارے میں سوچنا۔

آرام۔

توجہ۔

کانوے ناٹ: ریاضی کا 50 سال پرانا سوال ایک ہفتے سے کم وقت میں حل کرنے والی طالبہ

ریاضی کا 50 سال پرانا سوال ایک ہفتے میں حل کرنی والی طالبہ
(بی بی سی اردو 24 جون 2020م )

امریکہ میں پی ایچ ڈی کی طالبہ نے ریاضی کا 50 سال پرانا ایک سوال اپنے فالتو وقت میں ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں حل کر دیا ہے۔

لیزا پکاریلو نامی طالبہ یونیورسٹی آف ٹیکساس میں اپنے مقالے پر کام کر رہی تھیں جب انھوں نے کانوے ناٹ یا کانوے گانٹھ کا مسئلہ حل کیا۔ جب وہ یونیورسٹی میں ریاضی کے ماہر پروفیسر کیمرون گورڈن سے بات کر رہی تھیں تو انھوں نے بلا ارادہ اس مسئلہ کے متعلق اپنے حساب کا ذکر ان سے کیا۔

لیزا پکاریلو نے سائنسی خبروں کی ویب سائٹ قوانٹا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’انھوں نے زور سے کہا کہ تمھیں تو بہت خوش ہونا چاہئے۔ وہ تو جیسے دیوانے ہو گئے تھے۔‘

کانوے ناٹ کا مسئلہ سب سے پہلے برطانوی ریاضی دان جان ہورٹن کانوے نے 1970 میں پیش کیا تھا، مگر لیزا پکاریلو کو پہلی بار اس معمے کا علم سنہ 2018 میں ایک سمینار کے دوران ہوا تھا۔

پروفیسر گورڈن کہتے ہیں کہ ’میرا نہیں خیال کہ انھیں اس بات کا احساس تھا کہ یہ کتنا پرانا اور مشہور مسئلہ ہے۔‘

سی ایس ایس امتحان کی تیاری

سی ایس ایس امتحان کی تیاری 
سول سروس کا امتحان پاس کرنا ہر باصلاحیت طالب علم کا خواب ہوتا ہے۔ اس امتحان میں کامیابی کیلئے وہ سخت محنت کرتے ہیں لیکن کامیابی چند ایک کے ہی قدم چومتی ہے۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن (FPSC) کی رپورٹ کے مطابق 2016ء میں 20 ہزار 717 امیدواروں میں سے12ہزار 176 افراد امتحان میں شریک ہوئے اور ان میں سے صرف379امیدوارہی تحریری امتحان میں کامیاب ہوئے جبکہ 2017ء میں 9391 امیدواروں میں سے 310 نے کامیابی کا مزہ چکھا۔

ان نتائج سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر آپ سول سروس کے امتحان میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتےہیں تو یہ بات ذہن میں رکھیں کہ آپ کو ہزاروں طلبہ سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ سول سروس کے امتحان کا اہل ہونا کوئی مشکل نہیں بشرطیکہ اگر آپ صحیح خطوط پر ا س کی تیار ی کریں۔ بہت سے طالبعلم تمام تر محنت و مشقت کے بعدبھی امتحان میں بیٹھنے کے اہل نہیں ہوپاتے کیونکہ ان کی تیاری صحیح نہیں ہوتی۔ وہ نہیں جانتے کہ کیا پڑھنا ہے اورکیسے تیاری کرنی ہے۔ محنت و مشقت اسی وقت رنگ لاتی ہے، جب اس کی سمت درست ہو ۔

بارھویں جماعت کے بعد کیا کریں ؟

بارھویں جماعت کے بعد کیا کریں ؟
نوجوان طلبہ و طالبات مقصدِ زندگی کو متعین کیے بغیر اور  تمام ممکنہ راستوں کوذہن میں رکھے بغیر پڑھے چلے جاتے ہیں
ندیم کا تعلق ایک پڑھے لکھے گھرانے سے ہے۔ بارہویں جماعت کا امتحان انھوں نے اوّل درجے (فرسٹ ڈویژن) سے کامیاب کیا لیکن اتنے نمبر نہیں آسکے کہ میڈیکل میں داخلہ ملتا۔ بھائی کے مشورے سے انھوں نے بی ایس سی میں داخلہ لے لیا، اس سال انھوں نے بی ایس سی بھی اوّل درجے سے کامیاب کرلیا۔ اب ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں؟ پڑھیں تو کیا پڑھیں اور اگرتعلیم چھوڑ کر عملی زندگی میں داخل ہوں تو کون سا پیشہ اختیار کریں؟ ذاتی طور پر ان کی خواہش یہ ہے کہ ڈاکٹربنیں لیکن اس خواہش کی تکمیل کے لیے انھیں جتنی محنت کرنی چاہیے تھی، وہ نہیں کرسکے۔ ایک دن ان کے بڑے بھائی نے مجھ سے کہا کہ آپ ندیم کے لیے فلاں ملک کے قونصل خانے سے یہ معلومات حاصل کرکے لا دیجیے کہ وہاں میڈیکل کی تعلیم کے اخراجات کیا ہیں اورداخلے کا طریقہ کار وغیرہ کیا ہے ؟ ان سے عرض کیا کہ اس کام کے لیے نہ آپ مجھ سے کہیے اور نہ کسی اور سے بلکہ ندیم کو خود بھیجئے کہ وہ قونصل خانے جاکر مطلوبہ معلومات حاصل کریں۔ انھوں نے جواب دیا کہ وہ راستوں سے واقف نہیں۔ میں نے پوچھا کہ اگر آپ کا بھائی اپنے شہر میں دس بارہ میل کے فاصلے پر جاکر چند معلومات حاصل نہیں کرسکتا تو ہزاروں میل دورایک اجنبی ملک میں جاکر تعلیم کیسے حاصل کرے گا؟

پیشے کے انتخاب کی تیاری آٹھویں جماعت سے

 کیریر پلاننگ 
کیریر پلاننگ

 یعنی مستقبل کی زندگی کے لیے پیشے کے انتخاب کی تیاری آٹھویں جماعت سے شروع کر دینی چاہیے۔ یہ تیاری کیسے کی جائے؟ اس مضمون میں ان اہم نکات پر توجہ دلائی گئی ہے جو اس تیاری کا حصہ ہیں۔
اچھے طالب علم بنیں اور امتحان میں نمایاں کامیابی کے لیے خوب محنت کریں
شاید آپ سوال کریں کہ آٹھویں جماعت کے امتحان میں اچھے نمبر لانے سے آپ کے مستقبل کے پیشے کا کیا تعلق ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ تعلیمی زندگی کا یہ مرحلہ طالب علم کے لیے نہایت اہم ہوتا ہے۔ آپ امتحانات میں جو نمبر حاصل کرتے ہیں، کالج میں داخلے، فنی تربیت اور ملازمت کے وقت__ داخلہ کمیٹی اور ملازمت دینے والا ان ہی نمبروں کی بنیاد پر آپ کی کارکردگی جانچتا ہے۔ مڈل اسکول کی کارکردگی سے یہ پتا چلتا ہے کہ آپ کس قسم کے طالب علم ہیں اور وہ کون سے شعبے ہیں، جہاں آپ کو اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ جانچ اور جائزہ ہر ایک کے لیے مفید ہوتا ہے ۔ اس کا سب سے زیادہ فائدہ طالب علم کو ہوتا ہے کہ وہ ان مضامین اور شعبوں پر توجہ دے کر اور محنت کرکے ان میں اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی کوشش کرسکتا ہے جو شعبے کمزور نظر آرہے ہیں، آپ اپنے والدین اور اساتذہ سے مشورہ کرسکتے ہیں کہ ان مضامین میں اچھے نمبر حاصل کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ اگر کمزور مضامین کو بہتر بنانے کے لیے آپ سیکنڈری کلاسوں کا انتظار کریں گے تو اس وقت خاصی دیر ہو چکی ہوگی۔ اس لیے ابھی سے تیاری شروع کردیں۔

زندگی کے راستے - رفیع الزمان زبیری

زندگی کے راستے 
بچپن میں جب قائد اعظم کے اسکول جانے کا وقت آیا تو ان کے والد نے ان سے کہا: دیکھو بیٹے! کچھ سیکھنے کے دو طریقے ہیں۔ انھوں نے پوچھا بابا! وہ کیا؟والد نے کہا ایک یہ کہ اپنے بڑوں کی عقل و سمجھ پر بھروسہ کرو اور وہ جو مشورہ دیں اس پر عمل کرو۔ قائد اعظم نے سوال کیا: اور دوسرا طریقہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا اپنا راستہ خود بناؤ اور اپنی غلطیوں سے سیکھو۔

قائد اعظم نے توجہ سے یہ بات سنی اور فیصلہ کیا کہ وہ اپنی غلطیوں سے سیکھیں گے اور اپنے راستے پر چلیں گے۔ مگر ہر شخص محمد علی جناح نہیں ہوتا۔ بڑوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا اس سے بہتر ہے کہ آدمی غلطیاں کرے اور راستہ تلاش کرنے میں ٹھوکریں کھائے۔ عبدالسلام سلامی نے اس موضوع پر ایک مفید کتاب لکھ دی ہے۔ زندگی کے راستے جینے کے ہنر وہ لکھتے ہیں

ابتدائی مدرسے کے بعد ثانوی مدرسے یا سیکنڈری اسکول بچے کی تعلیمی زندگی کا تیسرا اور اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ عمر کے اس دور میں اس کا شعور پختگی کے بالکل ابتدائی مرحلے میں پہنچ رہا ہوتا ہے۔

اسکرین ٹائم: بچوں کی ذہنی ساخت میں تبدیلی

اسکرین ٹائم کا موضوع اکثر الجھاؤ کا شکار نظر آتا ہے۔ اس موضوع سے متعلق نئے اعداد وشمار سامنے آئے ہیں۔ ان میں کچھ بالکل سامنے کی چیزیں ہیں اور کچھ کی نوعیت عجب ہے۔

جرنل جاما (JAMA) میں دو تحقیقات شائع ہوئی ہیں جن میں سرویز سے حاصل ہونے والی معلومات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ان سرویز کا مقصد یہ تھا کہ کیا پری اسکولرز اسکرین ٹائم سے متعلق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ہدایات پر عمل کررہے ہیں؟ ان ہدایات میں اس عمر کے بچوں کے لیے ایک گھنٹے کا اسکرین ٹائم تجویز کیا گیا ہے۔ ان سرویز سے پتا چلا ہے کہ ۸۰ فیصد دو سال اور۹۰فیصد تین سال کے بچے ایسے ہیں جو ایک گھنٹے سے زیادہ اسکرین پر اپنا وقت گزارتے ہیں۔ مائیں جو اسکرین پر اپنا کثیر وقت گزارتی ہیں وہ یہ چاہتی ہیں کہ اُن کے بچے بھی اسی دھندے میں لگے رہیں۔