دنیا کے عظیم موسیقاروں میں سے ایک لوڈویگ وین بیتھوون کو ریاضی میں جمع کے سوال حل کرنے میں مشکل پیش آتی تھی اور انھوں نے کبھی ضرب یا تقسیم کرنا نہیں سیکھا تھا۔
ہسپانوی پینٹر پابلو پیکاسو کو حروف کی سمجھ نہیں تھی اور والٹ ڈزنی کلاس روم میں خواب خرگوش میں پائے جاتے تھے۔ برطانوی مصنفہ کو تو سکول ہی جانے نہیں دیا گیا مگر ان کے بھائیوں نے کیمبرج سے تعلیم حاصل کی۔
چارلس ڈارون کی سکول کی کارکردگی اتنی بُری تھی کہ ان کے والد انھیں خاندان کے لیے باعثِ شرمندگی سمجھتے تھے۔
ایلبرٹ آئن سٹائن کو اپنے دور میں فزکس کے امتحان میں چوتھے نمبر پر آنے کا اعزاز حاصل ہے، ہاں مگر جماعت میں طالب علم صرف پانچ ہی تھے۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج کے تعلیمی معیار پر ان میں سے شاید کوئی بھی پورا نہ اتر پاتا۔ مگر یہ تمام لوگ تاریخ میں ذہین یا جینیئس مانے جاتے ہیں کیونکہ آرٹس اور سائنس کے میدانوں میں ان کی خدمات عظیم ہیں۔
آج کے دور کی بھی کئی معروف شخصیات جیسے بِل گیٹس، باب ڈیلن اور اوپرا ونفری نے ہائی سکول کی تعلیم مکمل نہیں کی مگر اس کے باوجود اپنے اپنے شعبوں میں بے انتہا کامیاب رہے۔
ڈاکٹر کریگ رائٹ کا کہنا ہے کہ ’آئی کیو کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔‘ انھوں نے اپنی زندگی میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ تاریخ اور حاضر دور کے ذہین ترین لوگوں کو سمجھنے میں گزارا ہے۔
اپنی تین کتابوں میں انھوں نے ایسی شخصیات میں 14 مشترکہ عادات کا تعین کیا ہے۔ اس فہرست میں ان افراد کے ٹیلنٹ یا خاص ہنر کو شامل نہیں کیا گیا بلکہ روزمرہ کی عام عادات کو حصہ بنایا گیا ہے۔
پروفیسر رائٹ کے مطابق ذہین شخص کون ہے، ہر کسی کے لیے اس کی تعریف مختلف ہوسکتی ہے۔ لیکن ان کے مطابق اس کا مطلب ہے کہ ’ذہین فرد میں ذہانت کی غیر معمولی قوت ہوتی ہے۔ ان کے کارناموں سے وقت کے ساتھ معاشرے میں اچھی یا بُری تبدیلی واقع ہوتی ہے۔‘
رائٹ سمجھتے ہیں کہ زیادہ ذہین وہ ہے جس کے کارناموں نے بڑے پیمانے پر لوگوں کو طویل دورانیے تک متاثر کیا ہے۔
انھوں نے کئی برسوں تک ییل یونیورسٹی میں ’جینیئس کورس‘ پڑھایا ہے۔ کئی طالب علم ان کے خیالات سے متفق نہیں ہوتے جب وہ بتاتے ہیں کہ امریکی گلوکارہ لیڈی گاگا جینیئس ہیں جبکہ اولمپکس میں سب سے زیادہ سونے کے تمغے جیتنے والے سوئمر مائیکل فیلپس جینیئس نہیں ہیں۔
وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ پہلی کلاس میں کئی طلبہ جینیئس بننے کے لیے ہاتھ کھڑے کرتے ہیں اور آخر میں ان کی تعداد بہت کم وہ جاتی ہے۔
بی بی سی نے ان سے ایک انٹرویو میں مزید جاننے کی کوشش کی ہے۔
سوال: رائل سپینش اکیڈمی کے مطابق جینیئس سے مراد غیر معمولی ذہنی قابلیت یا نئی ایجادات کی صلاحیت رکھنا ہے۔ کیا آپ اس تعریف سے مطمئن ہیں؟
جواب: یہ تعریف محدود ہے۔ میرے خیال میں اس سے مراد ایسے افراد ہیں جو جینیئس بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن ابھی جینیئس ہوتے نہیں۔
یہ تعریف دینے والی ادبی شخصیات چاہتی ہیں کہ آپ اپنا ذہن استعمال کریں اور نئے خیالات کو تشکیل دیں۔ یعنی تخلیق کاروں کے لیے یہ خیالات بدلتے رہتے ہیں۔
ہم اس پر بحث کر سکتے ہیں اور میرے ذہن میں آئن سٹائن آتے ہیں جو فرض کریں کہ کسی جزیرے پر تنہا ہیں۔ وہاں وہ اپنا فارمولا (ای = ایم سی سکوئر) سوچ سکتے ہیں، وہ تھیوری آف جنرل ریلٹیوٹی اور مزید بہت کچھ سوچ سکتے ہیں۔ لیکن اس دوران وہ کسی سے رابطہ نہیں کر پاتے اور ہمیں کبھی کسی آئن سٹائن کی خبر ہی نہیں ہوتی۔
اکیڈمی کی تعریف کے مطابق آئن سٹائن اب بھی جینیئس ہوں گے لیکن میری تعریف کے مطابق ایسا نہیں ہوگا کیونکہ وہ دنیا میں کوئی تبدیلی نہیں لائے ہوں گے۔
سوال: تو آپ کو کیا لگتا ہے کہ جینیئس کون ہوتا ہے؟
جواب: میں اپنی کتاب میں بتا چکا ہوں کہ آئی کیو یعنی ذہانت کے معیار کو ضرورت سے زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔
کسی عام آئی کیو ٹیسٹ میں ایسی صلاحیت جانچی جاتی ہے جو انسان کو وراثت میں ملی ہوتی ہے۔
کئی دہائیوں کے لیے ان عظیم شخصیات کے بارے میں مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ وہ ذہین تھے لیکن آئی کیو ٹیسٹ میں ان کے سکور غیر معمولی طور پر زیادہ نہیں تھے، جیسے 200 میں سے 140 یا 150 کا سکور۔
میں نوبیل انعام جیتنے والوں کی بھی مثال دیتا ہوں کہ ان میں سے کچھ کے آئی کیو سکور 115 یا 120 تھے۔
آئی کیو کے علاوہ ایسے کئی عناصر ہیں جو یہ طے کرتے ہیں کہ طویل دورانیے تک کوئی کیسے اپنی مہارت سے دنیا کو بدل سکتا ہے۔
میں نے قریب 13، 14 اور 16 سال کی عمر کے تین نوجوانوں کے ساتھ پانچ سنہرے دن گزارے ہیں۔ ان تینوں کی تعلیمی کارکردگی اچھی ہے اور وہ ایسے امتحانات کے لیے تیاری کر رہے ہیں جن کی مدد سے وہ بہتر تعلیمی اداروں میں جا سکتے ہیں۔
میں نے انھیں بتایا کہ شاید نوٹس کی اتنی اہمیت نہیں اور انھیں دنیا کا مطالعہ کرنا چاہیے، مختلف سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہیے، غلطیاں کرنی چاہییں اور گِر کر دوبارہ اٹھنا چاہیے۔
لیکن ان کے والدین (میرا بیٹا اور اس کی اہلیہ) نے بتایا کہ میں انھیں غلط پیغام دے رہا ہوں اور مجھے انھیں بہتر کارکردگی پر ابھارنا چاہیے۔
تو اب یہ والدین مجھے غلط صحبت سمجھتے ہیں۔
مگر سچ یہ ہے کہ آج کل نوجوانوں پر بہت دباؤ ہے اور شاید لوگوں کی قابلیت جانچنے کے لیے موجود طریقۂ کار ٹھیک نہیں۔
سوال: اپنے بچوں کو جینیئس بنانے یا خود بننے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
جواب: میرے خیال سے سب سے اہم چیز کوشش ہے۔ لیکن سخت محنت کے لیے کیا درکار ہوتا ہے؟
کیونکہ کوشش خود سے وجود میں نہیں آتی بلکہ یہ اندرونی قوت سے بیرونی طور پر واقع ہوتی ہے۔
جنون پیدا ہونے سے سخت محنت کا حوصلہ ملتا ہے اور اس کی بنیاد محبت ہوسکتی ہے یا ذہن میں کسی چیز کا بار بار خیال آنا۔
میں کہوں گا کہ اپنے جنون کو شہہ دینا اہم ہے۔
ایک اور چیز جو میں نے عظیم ذہنوں میں دیکھی وہ یہ ہے کہ وہ خود میں ایک سکالر یا محقق ہوتے ہیں اور انھیں مختلف شعبوں کا علم ہوتا ہے۔
اپنی کتاب کے ایک باب میں، میں نے لکھا ہے کہ آپ کو لومڑی اور ہیج ہاگ میں فرق دیکھنا چاہیے۔ لومڑی کو مختلف چیزوں کا علم ہوتا ہے جبکہ ہیج ہاگ صرف ایک چیز کے بارے میں جانتا ہے۔
تو آپ کس طرح کے انسان ہیں: جو ہزاروں میل سفر کرے یا ہزاروں میل نیچے گِرے؟
مختلف تجربات ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ الگ الگ چیزوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔ جبکہ دوسری قسم کے لوگ کم تجربات کی وجہ سے محض کچھ ہی چیزوں کے بارے میں سوچ پاتے ہیں۔
بچوں کی پرورش کے دوران یہ اہم ہے کہ آپ انھیں مختلف قسم کے تجربات دیں۔ اگر انھیں سائنس پسند ہے تو آپ انھیں ناول پڑھنے کا کہیں۔ اگر انھیں سیاست میں دلچسپی ہے تو آپ انھیں پینٹنگ کرنا سکھائیں۔
وہ والدین جو اپنے بچوں کو صرف ایک طرح کی سرگرمیوں میں شریک کر رہے، جیسے اولمپکس کا سوئمر بنانے کی کوشش یا فزکس میں نوبیل انعام دلوانے کی کوشش، وہ غلط ہیں۔
ہمیں یہ معلوم نہیں ہوسکے گا کہ ان کا جنون کیا ہے، جب تک یہ مختلف تجربات سے نہیں گزر جاتے۔
جیسے ایک قول ہے کہ اگر آپ اپنے کام سے محبت کرتے ہیں تو آپ کو زندگی میں ایک دن بھی یہ کام محسوس نہیں ہوگا۔
سوال: جدید دور میں ذہین شخصیات کون سی ہیں اور کس مثال پر طالب علم حیران ہوتے ہیں؟
جواب: ایلون مسک ایک جدید دور کے جینیئس ہیں جنھوں نے بظاہر اپنے دیوانے پن میں مختلف شعبوں میں عظیم کارنامے سرانجام دیے ہیں جیسے ٹیسلا اور سپیس ایکس جیسی کمپنیوں کا قیام۔
ان کی مثال ایک سکالر کی سی ہے جو ایک ہی وقت میں مختلف شعبوں میں انقلاب لا رہا ہے۔
لیکن غیر متوقع جینیئس افراد میں کانیے ویسٹ، ڈولی پارٹن اور لیڈی گاگا جیسے نام ہیں۔ ان ناموں پر کچھ لوگ سر ہلا کر نفی میں جواب دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ میں مذاق کر رہا ہوں۔
ڈولی پارٹن ایک دلچسپ مثال ہے کیونکہ وہ بہت ذہین ہیں مگر انھیں سیلی بلانڈ (احمق شخص) سمجھا جاتا ہے۔ یہ ان کی طاقت ہے۔
انھوں نے خود کے لیے ایک عظیم کمپنی بنائی ہے اور وہ تفریح کی صنعت میں کامیاب کاروباری خاتون کے طور پر ہر کسی کے لیے ایک مثال ہیں۔ وہ ایسے گانے گاتی اور لکھتی ہیں جو جدید دور میں کافی پذیرائی حاصل کرتے ہیں۔
تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ڈولی پارٹن کی کافی اہمیت ہے، خاص کر امریکہ میں غریب سفید فام خواتین کے لیے۔ ان کی موسیقی کئی افراد کی زندگیوں کو متاثر کرتی ہے۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ یہ اثر کب تک قائم رہتا ہے۔
لیکن یہاں سوئمر مائیکل فیلپس کی بھی مثال ہے جنھوں نے اولمپکس میں سب سے زیادہ گولڈ میڈل جیتے ہیں۔
فرانس میں کسی نے ماضی کے یونان کی نوعیت کے اولمپکس شروع کیے اور اس میں سوئمنگ کا کھیل شامل کیا۔ یہاں سو اور دو سو میٹر کی ریس ہوتی ہے اور فری سٹائل، بیک سٹروک، بریسٹ سٹروک اور بٹر فلائی جیسے ہنر آزمائے جاتے ہیں۔
مائیکل سوئمنگ پول میں داخل ہوتے ہیں اور دوسروں کی نسبت زیادہ تیزی سے تیر سکتے ہیں۔
لیکن مستقبل میں کوئی ان سے بھی تیز تیر سکے گا کیونکہ اس کے لیے جسم کی خاص بناوٹ درکار ہے، آہستہ آہستہ غذائی عادات بہتر ہو رہی ہیں اور ٹریننگ سے مزید بہتر نتائج مل سکتے ہیں۔
لیکن اس مثال کے لیے سپینش اکیڈمی کی مثال درست ہے: یہاں کوئی ذہانت کے عنصر نہیں۔ یہ کسی جانور کی طرح ہے جو پنجرے میں تیز سے تیز تر کرتب دکھا سکتا ہے۔
میرے خیال سے کسی جینیئس کو اس سے بہتر کام کرنا چاہیے۔
سوال: ییل کے طلبہ آپ کی کلاس پڑھ کر جینیئس کیوں نہیں بننا چاہتے؟
جواب: عظیم ذہنوں کے ساتھ یہ مسئلہ پیش آتا ہے کہ وہ اکثر اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے کافی تباہ کن ہوتے ہیں کیونکہ وہ جنون سے اتنے بھرے ہوئے ہوتے ہیں کہ وہ ایک ہی چیز کے بارے میں بار بار سوچتے ہیں۔
ان کی توجہ صرف اپنے ذہنی مقصد کو پورا کرنے کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا کو بدل سکتے ہیں۔ وہ کسی چیز کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں اور ان کے مطابق صرف وہ ہی ایسا کر سکتے ہیں۔
ان لوگوں کے بہت سارے خواب ہوتے ہیں جن سے وہ خود پر اور اپنے اردگرد لوگوں پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ وہ دوسرے کے لیے مشکل رویہ اختیار کر سکتے ہیں اور انھیں کمتر سمجھ سکتے ہیں۔
تو ان کے لیے کام کرنا اچھا نہیں بھی ہوسکتا ہے۔
جیف بیزوس، ایلون مسک اور بِل گیٹس اس کی مثالیں ہیں۔
جینیئس کورس کے دوران لوگ خود سے پوچھ سکتے ہیں کہ ’کیا میں واقعی یہ کرنا چاہتا ہوں؟ کیا میں بڑے پیمانے پر لوگوں کے لیے دنیا کو بدلنا چاہتا ہوں یا محض اپنے اردگرد کا ماحول؟ تاکہ میرے قریبی لوگ بہتر محسوس کر سکیں۔۔۔‘
اور میری کتاب کا بھی عنوان یہی ہے۔ اس کتاب کا راز یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ کسی معنی خیز انداز میں دنیا کو تبدیل کرنے والے نہیں ہیں۔
تاہم اس سے ہم عملی طور پر اہم چیزیں سیکھ سکتے ہیں، جیسے لوگوں سے اپنے تعلقات کیسے رکھے جاسکتے ہیں اور اپنی پیداوار یا تخلیقی صلاحیت کیسے بہتر کی جاسکتی ہے۔
کیونکہ جینیئس افراد اپنے جنون میں پہلے سے مبتلا ہوتے ہیں اور وہ کبھی بھی اُڑان بھر سکتے ہیں۔
دریں اثنا ہم باقی لوگ اس سے یہ موقع حاصل کر سکتے ہیں کہ اپنی زندگیاں کیسے گزارنی ہیں اور کیسے اس میں تبدیلی لانی ہے۔
کریگ رائٹ کے مطابق ذہین افراد میں مندرجہ ذیل 14 عادات پائی گئی ہیں:
کام کے آداب۔
لچک، یعنی مشکلات سے گھرنے کے باوجود جلد بحالی۔
نیا کام۔
بچے جیسا تخیل۔
ختم نہ ہونے والا تجسس۔
جنون۔
اردگرد کے ماحول سے الگ تخلیقی صلاحیت۔
بغاوت کا جذبہ۔
ایسی سوچ جو حد پار کر دے۔
باقی لوگوں سے مختلف عمل یا سوچ۔
تیاری۔
بار بار ایک چیز کے بارے میں سوچنا۔
آرام۔
توجہ۔