اسکرین ٹائم: بچوں کی ذہنی ساخت میں تبدیلی

اسکرین ٹائم کا موضوع اکثر الجھاؤ کا شکار نظر آتا ہے۔ اس موضوع سے متعلق نئے اعداد وشمار سامنے آئے ہیں۔ ان میں کچھ بالکل سامنے کی چیزیں ہیں اور کچھ کی نوعیت عجب ہے۔

جرنل جاما (JAMA) میں دو تحقیقات شائع ہوئی ہیں جن میں سرویز سے حاصل ہونے والی معلومات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ان سرویز کا مقصد یہ تھا کہ کیا پری اسکولرز اسکرین ٹائم سے متعلق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ہدایات پر عمل کررہے ہیں؟ ان ہدایات میں اس عمر کے بچوں کے لیے ایک گھنٹے کا اسکرین ٹائم تجویز کیا گیا ہے۔ ان سرویز سے پتا چلا ہے کہ ۸۰ فیصد دو سال اور۹۰فیصد تین سال کے بچے ایسے ہیں جو ایک گھنٹے سے زیادہ اسکرین پر اپنا وقت گزارتے ہیں۔ مائیں جو اسکرین پر اپنا کثیر وقت گزارتی ہیں وہ یہ چاہتی ہیں کہ اُن کے بچے بھی اسی دھندے میں لگے رہیں۔



نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ نے اپنی تحقیقات میں یہ بتایا ہے کہ کس طرح بچے اسکرین سے متعلق عادتوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ایک سے تین سال اور ۸ سال کی عمر کے ۳ ہزار ۸۹۵ بچوں پر مبنی معلومات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ جائزہ اس لیے لیا گیا ہے تاکہ ان عوامل کا پتا چلایا جائے جو اسکرین ٹائم کے تعلق سے ان بچوں پر اثرانداز ہورہے ہیں۔ بچوں کے بھائی بہن، ماں باپ کی ماہانہ آمدنی، تعلیمی قابلیت اور ماں کے پاس اسکرین کے استعمال کا اختیار (maternal screen use) جیسے عوامل شامل ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جن ماؤں کے ایک سے زیادہ بچے ہیں وہ بچے زیادہ اسکرین پر وقت گزارتے ہیں۔ آٹھ سال کی عمر کے بچے اپنے سے کم عمر بچوں کے مقابلے میں اسکرین پر کم وقت گزارتے ہیں کیونکہ دن کا ایک حصہ ان کا اسکول میں گزرتا ہے۔بچوں کا اسکرین کے ساتھ وقت گزارنا ان کی ذہنی ساخت (structure of brain) کو تبدیل کررہا ہے۔ اس لیے ان تحقیقات میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ بچوں کو اپنے والدین کے ساتھ زیادہ اور اسکرین کے ساتھ کم وقت گزارنا چاہیے۔ بچوں کے لیے اسکرین پر وقت گزارنے کو کباڑ غذا (junk food) کھلانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کی حدسے بڑھی ہوئی خوراک کے بُرے نتائج ہوں گے۔مالی مسائل میں گھری ہوئی مائیں اپنے بچوں کے لیے نگہداشت پر مامور افراد (babysitters) کے اخراجات اٹھانے کے بجائے وہ اپنے بچوں کو آئی پیڈ فراہم کرتی ہیں۔


=============================
(ترجمہ: جاوید احمد خورشید)

“Humans and Technology”. (“technologyreview.com”. Nov.25, 2019)