وقت کی غربت‘ کا مشکل چکر

وقت کی غربت‘ کا مشکل چکر جس کا شکار اکثر والدین ہیں

وقت کی غربت‘ کا مشکل چکر 
5 فروری 2022  (bbc urdu)


اپنے لیے وقت، اپنے بچوں کے ساتھ گزارنے کے لیے وقت یا اپنے گھر کے کاموں کے لیے وقت۔۔۔ آپ کسی بھی بچوں والے شخص سے بات کریں گے تو ایک مسئلے کی کوئی نہ کوئی شکل سامنے آئے گی، کہ وقت ناکافی ہے۔


‘وقت کی غربت‘ کے نام سے جانی جانے والی صورتحال کی تعریف بہت سادہ ہے جس میں لوگوں کو متواتر یہی لگے کہ کرنے کو بہت کچھ ہے اور اس کے لیے وقت ناکافی ہے اور وقت کی غربت بڑھ رہی ہے۔

تحقیق کے مطابق زیادہ تر لوگ متواتر وقت کے تناظر میں غریب ہوتے ہیں اور یہی وقت کی غربت کافی شدید ہو سکتی ہے اور اس کے دیر پا اثرات میں قدرے ابتر جسمانی صحت اور قدرے کم پیداواری صلاحیت شامل ہیں۔

مگر یہ مسئلہ والدین میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ برطانیہ میں سنہ 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق جن لوگوں کے بچوں کی عمر 14 سال سے کم ہے، ان کے پاس اوسطً ہر ہفتے 14 گھنٹے فارغ ٹائم کم ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق کسی اور کی بنیادی دیکھ بھال کرنے والوں، خاص کر کم آمدنی والی ماؤں، ان لوگوں میں وقت کا دباؤ زیادہ ہوتا ہے۔

مگر اس کی اہمیت یہ ہے کہ جو لوگ وقت کی غربت میں مبتلا ہوتے ہیں وہ عموماً سماجی اور معاشی غربت کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا نے معاملات زیادہ بگاڑ دیے ہیں تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ اس امتزاج کو کم کرنے کے طریقے ہیں۔

وقت کی غربت کے اہم ترین اثرات


ہم ایک ایسے دور میں رہتے ہیں جہاں پیداواری صلاحیت کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ‘آل ویز آن‘ کی اصطلاح ایک ایسے کلچر کی عکاسی کرتی ہے جہاں کام اکثر ہماری ذاتی زندگی میں مداخلت کر رہا ہوتا ہے۔ بچے پالنا زیادہ مشکل ہوتا جا رہا ہے اور ہمارے دوست، شوق اور دلچسپیاں 24 گھنٹے ساتوں دن ہمارے فون پر صرف ایک کلک یا سوائپ دور ہیں۔


لندن سکول آف اکناومکس میں انکلوشن انیشیٹیو کے ڈائریکٹر گریس لورڈن کہتے ہیں کہ ‘آپ کو شاید ہی کوئی انسان ایسا ملے جو یہ نہ کہتا ہو کہ وہ وقت کے حوالے سے غریب نہیں۔ لوگوں کو زیادہ یہی لگتا ہے کہ کام کے لیے، فیملی یا دوستوں کے لیے انھیں ہر وقت تیار رہنا ہوتا ہے کیونکہ ہم ہر وقت ٹیکنالوجی سے منسلک ہیں۔ ماضی کے مقابلے میں بچوں کے لیے اب بہت ساری منظم سرگرمیاں ہیں تو آپ کا سنیچر اب وہ دن نہیں رہا کہ بس دروازہ کھولا اور بچوں سے کہا کہ وہ باہر جا کر کھیلیں۔ ان تبدیلیوں نے بنیادی طور پر وقت کے بارے میں ہمارے تاثرات اور احساسات بدل دیے ہیں۔‘


گذشتہ چند دہائیوں میں کچھ لوگوں نے تو زیادہ بہتر انداز میں کام کرنے کے فوائد اٹھائے ہیں مگر دیگر لوگوں میں بغیر اجرت کے ذمہ داریوں اور علمی محنت میں لگے وقت میں اضافے کی وجہ سے دباؤ زیادہ بڑھا ہے اور عموماً ایسے مسائل کا شکار زیادہ تر خواتین ہوتی ہیں۔ وقت کی غربت میں شاید اضافہ نہ ہو رہا ہو مگر وقت کے حوالے سے عدم مساوات بڑھ رہی ہے۔

بوسٹن کالج میں محکمہِ معاشیات کے ایسوسیٹ ڈین ایلکزینڈر ٹومک کا کہنا ہے کہ ‘وقت کی غربت ان لوگوں کو زیادہ متاثر کرتی ہے جو کسی کی دیکھ بھال کر رہے ہوں اور یہ غیر متناسب طور پر غریبوں پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ جو خاندان بچوں، یا بڑی عمر کے لوگوں یا بیماروں کی دیکھ بھال کے لیے ملازم نہیں رکھ سکتے، ان کی ان ذمہ داریوں میں بہت زیادہ وقت لگ جاتا ہے اور دیکھ بھال کے کام عموماً عورتوں کو ہی کرنے پڑتے ہیں چاہے وہ کسی ساتھی کے ساتھ بھی رہتی ہوں۔‘

خاص طور پر ایسی خواتین جن کے بچے ہوں، وقت کی کمی ایک شدید مسئلہ ہے۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں خواتین بغیر اجرت کے کاموں جیسے کہ صفائی، بچوں کی دیکھ بھال، کھانا پکانا، ان سب پر دو گنا وقت گزارتی ہیں جبکہ ترقی پزیر ممالک میں یہ 3.4 گنا ہو جاتا ہے۔


کچھ معاملات میں، اس کی وجہ واضح عدم مساوات اور خواتین کو کیا کام کرنا چاہیے اس بارے میں صنفی توقعات ہیں۔ دوسروں میں، یہ عدم مساوات زیادہ نظر نہیں آتی۔

بہت سی خواتین کے لیے، ایک ‘پوشیدہ بوجھ‘ اضافی وقت لے جاتا ہے جیسے کھانے کی پلاننگ کرنا یا بچوں کے لیے سرگرمیوں کی تیاری کرنا اور یہ سب کام معاشی ترقی اور پیداواری صلاحیتوں کے اعداد و شمار میں تو سامنے نہیں آتا۔ گھر کے کام کے پوشیدہ بوجھ کی وجہ سے پیدا ہونے والی وقت کی غربت اکثر خواتین کو اور خاص طور پر دیکھ بھال کرنے والی خواتین کو افرادی قوت سے باہر کر دیتی ہے یا انھیں کم تنخواہ والی ملازمتوں کی طرف جانا پڑتا ہے۔

وقت کی غربت کا مشکل چکر


امریکی شہر پورٹ لینڈ میں مقیم ایک پیشہ ور تھراپسٹ نکول ولیگاس اکثر ایسے مریض دیکھتی ہیں جو ان کے پاس شکایت کرتے ہوئے آتے ہیں کہ ان کے پاس دن میں کافی وقت نہیں ہوتا۔


وہ کہتی ہیں کہ زیادہ تر لوگ اس کا تجربہ بہت تیزی سے گزرنے والے دنوں کے احساس کے طور پر کرتے ہیں اور انھوں نے دیکھا ہے کہ وقت کی غربت خراب نیند، افسردگی کا باعث بنتی ہے۔


کچھ لوگوں کے لیے، صحت کے اثرات اور بھی زیادہ اہم ہو سکتے ہیں۔ گھریلو ذمہ داریوں سے پریشان ہونے کا احساس خواتین کو طبی مدد کے حصول میں تاخیر کا سبب بن سکتا ہے۔

ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ایک چوتھائی سے زیادہ امریکی خواتین نے وقت کی کمی کی وجہ سے گذشتہ 12 ماہ میں اپنی صحت کی دیکھ بھال کو یا تو ملتوی کیا یا بالکل حاصل ہی نہیں کیا۔ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ وقت کی غربت غیر صحت بخش کھانے کی عادات اور ورزش میں کمی کو فروغ دیتی ہے اور یہ کہ جو لوگ وقت کی کمی کا شکار ہیں، ان کی صحت کی سطح بہت کم ہوتی ہے۔

ولیگاس کہتی ہیں کہ ‘وقت کی غربت ان لوگوں کے لیے رکاوٹیں پیدا کرتی ہے جو کام یا خاندان کی دیکھ بھال جیسی ذمہ داریوں سے ہٹ کر اپنی دلچسپیاں تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ جب لوگ وقت کی غربت کے ساتھ رہتے ہیں تو وہ اکثر تفریحی سرگرمیوں سے محروم رہتے ہیں جو زندگی کے معیار کو بہتر کر سکتی ہیں۔‘

لیکن یہ صرف اضافی وقت نہیں اور نئی دلچسپیوں کو تلاش کرنے کا ایک موقع نہیں جو وقتی طور پر غریب لوگ کھو رہے ہیں۔ زندگی کے حالات کو بہتر بنانے کے مواقع بھی ان کے راستے سے ہٹ جاتے ہیں۔

بچوں والے طلبہ جو کالج میں ہوتے ہیں ان کے کالج مکمل کرنے کے لیے اپنے بے اولاد ساتھیوں کے مقابلے میں کم امکان ہیں اور 13 سال سے کم عمر کے بچوں والے افراد اپنی تعلیم پر بہت کم وقت صرف کرتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ وقت کی غربت کو اس کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہیں۔

ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ وقت کی غربت بہتر روزگار کی تلاش میں بھی رکاوٹ ہے اور ایسے لوگوں میں اکثر بہتر مالیاتی فیصلے کرنے کے لیے ذہنی سکون نہیں ہوتا۔ اس کے نتیجے میں وہ جس معاشی غربت کا شکار ہوتے ہیں وہ اور بھی زیادہ وقت کی غربت پیدا کرتی ہے۔

مثلاً اگر کسی گھر میں قابل اعتماد انٹرنیٹ تک رسائی نہیں تو کسی بھی کام کو مکمل کرنے میں انھیں زیادہ وقت لگے گا یا اگر آپ پیاروں کی دیکھ بھال کے کسی ملازم کو نہیں رکھ سکتے تو اس میں آپ کا وقت لگے گا یا اگر کوئی شخص کسی بڑے شہری کے مرکزی علاقے میں رہنے کا متحمل نہیں ہو سکتا تو اس کا سفر میں زیادہ وقت لگے گا۔

لوگ پھر ایک ایسے چکر میں پھنس جاتے ہیں جہاں ان کے مسائل مزید مسائل کو جنم دیتے ہیں۔ ان کی کم آمدنی انھیں وقت کا غریب بنا دیتی ہے لیکن یہی وقت کی کمی انھیں اپنے معاشی حالات کو بہتر کرنے سے بھی روکتی ہے۔

ٹامک کہتے ہیں کہ ‘معاشی نقطہ نظر سے، وقت کی غربت کم پیداواری صلاحیت میں ظاہر ہوتی ہے اور آخر کار ترقی کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ یہ بالآخر اجرت کے فرق کی صورت میں نکلتا ہے۔‘

اس فرق کو کم کیسے کیا جائے؟

کورونا وائرس کی وبا نے موجودہ مسائل کو بڑھاوا دیا ہے۔ لاک ڈاؤن کے ابتدائی مراحل میں دن میں کام کے دورانیہ میں اوسطً 48 منٹ کا اضافہ ہوا اور خواتین کی طرف سے کیے جانے والے بلامعاوضہ کام کے تناسب میں ہوم سکولنگ کے ساتھ کافی بڑھاوا ہوا۔

پریشانی اور ڈپریشن والدین میں حد سے زیادہ پھیل گیا اور امریکہ میں،خواتین کی لیبر مارکیٹ میں شرکت 30 سال میں کم ترین سطح پر آگئی کیونکہ کام اور اپنے گھروں کے درمیان پھنسی خواتین نے نوکریاں چھوڑنا شروع کر دیں۔

امریکہ میں کلیمسن یونیورسٹی میں کالج آف بہیویورل، سوشل، اینڈ ہیلتھ سائنسز کی اسسٹنٹ پروفیسر ارینا شرائیویسکا کہتی ہیں کہ ‘کورونا وائرس کی وبا نے والدین کے پاس موجود بہت سے سپورٹ سسٹمز کو ختم کر دیا اور کچھ معاملات میں اضافی ذمہ داریاں شامل کر کے وقت کی غربت میں اضافہ کیا، جیسے کہ کسی بزرگ پڑوسی کے لیے روز مرہ کی اشیا کی خریداری۔‘

یہ اضافی ذمہ داریاں بنیادی طور پر خواتین کے کندھوں پر آ گئیں جبکہ بہت سے لوگوں کو اپنے کام کے اوقات کم کرنے پڑے۔ غیر سفید فام خواتین، کالج ڈگری کے بغیر خواتین اور کم آمدنی والی خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوئیں۔‘

شرائیویسکا کو خدشہ ہے کہ مستقبل میں وقت کی غربت مزید بڑھے گی۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘ایک معاشرے کے طور پر ہم پیداواری صلاحیت اور کارکردگی اور والدین کے طور پر مصروفیت اور ذمہ داری کے لیے اپنی توقعات میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ‘ہم ان لوگوں کی تعریف کرتے ہیں جو سب کچھ کرتے ہیں۔ ایسی مائیں جن کے پاس سب ہو انھیں ’سپر ماں‘ کے طور پر مسلسل میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک ہدف کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس کے لیے کوشش کی جاتی ہے۔ یہی تاثر حکومت کی جانب سے حمایت کی کمی کو معمول کا حصہ بناتی ہے، ذمہ داری واپس ماؤں پر ڈالتا ہے۔


وہ کہتی ہیں کہ وقت اور غربت کے فرق کو کم کرنے کے لیے حکومتوں اور کمپنیوں دونوں کی طرف سے حقیقی تبدیلی کی ضرورت ہے، جس میں ماؤں اور بنیادی دیکھ بھال کرنے والوں کی مدد کے لیے واضح پالیسیوں کی ضرورت ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘حکومت کو ایسی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے جو والدین کو سپورٹ کرتی ہوں، جیسے والدین کے لیے بامعاوضہ تعطیلات کی ضمانت، فیملی تعطیلات جسے ’زندگی میں ایک بار‘ کے موقع کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔‘

’بغیر ساتھی کے والدین کو مزید مدد دی جانی چاہیے، کم آمدنی والے خاندانوں اور دیہی علاقوں میں خاندانوں کے لیے اضافی مدد فراہم کی جانی چاہیے۔ کمپنیوں کو ایسا ماحول بنانا چاہیے جہاں ملازمین اپنی ملازمتوں کے کھو جانے کے خوف کے بغیر اپنی ضروریات کا خیال رکھ سکیں۔‘