عالم اسلام کے حالات اور واقعات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
عالم اسلام کے حالات اور واقعات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اہم مسلم ممالک کے قومی ترانوں کا اردو ترجمہ

جمہوریہ  ترکی کا قومی ترانہ 
جمہوریہ ترکی کا قومی ترانہ (اردوترجمہ )


“استقلال مارشی” یعنی ترانۂ آزادی ترکی کا قومی ترانہ ہے جو جمہوریہ ترکی کے قیام (29 اکتوبر 1923ء) سے دو سال قبل 12 مارچ 1921ء کو ترک جنگ آزادی میں شریک افواج کے جذبات کو مہمیز دینے کے لیے عسکری نغمے اور بعد از قیامِ جمہوریہ قومی ترانے کی حیثیت سے باضابطہ طور پر اختیار کیا گیا۔

اس ترانے کے خالق ترکی کے شاعرِ اسلام محمد عاکف ارصوی ہیں جبکہ اس کی مروجہ دھن عثمانی ذکی اونگور نے تیار کی ہے۔ استقلال مارشی اس وقت تحریر کیا گیا جب جنگ عظیم اول کے بعد ملک پر بیرونی قوتیں قابض تھیں اور مصطفی کمال کی قیادت میں ملکی فوجیں اُن سے نبرد آزما تھیں۔ قومی ترانے کے انتخاب کے لیے جب ملک بھر میں ایک مقابلہ کرایا گیا جس میں کل 724 شعرا نے حصہ لیا۔ ان ترانوں میں ایک سے بڑھ کر ایک شاندار ترانے موجود تھے لیکن قومی کمیٹی کو جو مطلوب تھا وہ ترانہ نہ مل سکا۔ اُس وقت کے ترک وزیر تعلیم حمد اللہ صبحی نے دیکھا کہ محمد عاکف نے اس مقابلے میں حصہ نہیں لیا۔ انہوں نے اس سلسلے میں عاکف سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ نہ مقابلے میں حصہ لینا پسند کرتے ہیں اور نہ 500 لیرا کا وہ انعام حاصل کرنا چاہتے ہیں جو جیتنے والے کے لیے رکھا گیا تھا۔ انہیں بڑی مشکل سے ترانہ لکھنے پر آمادہ کیا گیا اور جب یکم مارچ 1921ء کو حمد اللہ صبحی نے یہ ترانہ مجلس کبیر ملی کے اجلاس میں پڑھ کر سنایا تو اراکین مجلس پر ایک جوش اور کیف طاری ہو گیا اور کمیٹی نے رائے دی کہ اب دوسرے ترانے سنے بغیر عاکف کے ترانے کو منتخب کر لیا جائے اور 12 مارچ 1921ء کو باضابطہ طور پر استقلال مارشی ترکی کا قومی ترانہ قرار دیا گیا۔

افغان طالبان اور امریکہ "امن معاہدہ " 2020 م

افغان طالبان اور امریکہ امن معاہدہ 2020م 
یاد رہے کہ ہفتہ 29 فروری 2020م  کو امریکہ اور افغان طالبان نے طویل عرصے سے جاری امن مذاکرات کے بعد ایک معاہدے پر دستخط کیے  جس کے تحت افغانستان میں گذشتہ 18 برس سے جاری جنگ کا خاتمہ ممکن ہو پائے گا۔

امن معاہدے پر دستخط کے بعد اب توقع ہے کہ اگلے مرحلے میں افغانستان کی حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کا آغاز ہو گا۔ جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اتحادی افواج افغانستان میں موجود اپنے دستے اگلے 14 ماہ میں نکال لیں گی بشرطیکہ طالبان اپنے وعدوں پر قائم رہیں۔

امریکہ نے نائن الیون کے واقعات کے چند ہفتوں بعد افغانستان پر حملہ کیا تھا جہاں شدت پسند گروپ القاعدہ موجود تھا۔

اس کے بعد سے اب تک 2400 سے زیادہ امریکی فوجی، ہزاروں طالبان جنگجو اور عام لوگ اس لڑائی میں ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اس وقت بھی 12000 اتحادی فوجی وہاں تعینات ہیں۔

صدی کا تھپڑ( فلسطین کی آزادی اور بیت المقدس کا تنازعہ) ۔ معروف وکیل اور سیاست دان بابر اعوان

صدی کا تھپڑ:( فلسطین کی آزادی اور بیت المقدس کا تنازعہ )
فلسطین کی آزادی اور بیت المقدس کا تنازعہ اس ہفتے پھر اُبھر کر سامنے آ گیا۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ روح فرسا تفصیل بھی جان لیں کہ 1948 ء سے لے کر آج تک 5.1 ملین یعنی 51 لاکھ فلسطینی بیٹے اور بیٹیاں ارضِ فلسطین پر قربان ہو چکے ہیں۔ 

اس ہفتے دو مغربی مُلکوں کے بڑوں نے صدی کے اس پُرانے تنازعہ پر اپنے اپنے انداز میں بات کی۔ برطانیہ کے شہزادے چارلس نے اسرائیل کے دو روزہ دورے (22-23 جنوری) کے دوران 2 اہم خیال ظاہر کیے۔ پہلا یہ کہ فلسطینی عوام کو حقِ خود ارادی ملنا چاہیے۔ دوسرا، فلسطینی عوام کی ''مستقبل میں آزادی، انصاف اور برابری‘‘ کی خواہش (Wish) ہے۔ اس کے چند دن بعد 28 جنوری 2020ء‘ منگل کے روز امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے الفاظ میں مڈل ایسٹ کا long awaited پلان پیش کر دیا۔ ٹرمپ کے خیال میں یہ ''ڈیل آف سینچری‘‘ ہے۔ اس ڈیل کے غاصب فریق، اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے صدر ٹرمپ نے کہا ''میرا ویژن دونوں پارٹیوں کے لئے وِن-وِن (Win-win) سلیوشن پیش کرتا ہے‘‘۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس موقع پر مظلوم فریق سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ پھر کس بات کی وِن-وِن۔

مصری کیسے لوگ ہیں ۔ جاوید چوہدری

(تاریخ اشاعت : 28 جنوری 2020ء روزنامہ ایکسپیریس )

جامعہ الازھر 
قاہرہ طلسماتی شہر ہے‘ مصر کی آبادی دس کروڑ ہے‘ آبادی کا بیس فیصد یعنی دو کروڑ لوگ قاہرہ شہر میں رہتے ہیں‘ مصری خوش گمان لوگ ہیں‘ یہ مصر کو پورا جہاں اور قاہرہ کو دنیا کا سب سے بڑا شہر سمجھتے ہیں‘ شہر ماضی اور حال کا خوبصورت ملاپ ہے‘ اس کے ایک بازو پر ماضی کی شوکت رکھی ہے اور دوسرے پر دمکتا چمکتا حال اور آپ ان دونوں کے درمیان کھڑے ہو کر حیرت سے سوچتے ہیں ماضی کی حیرتوں کا تجزیہ کیاجائے یا حال کی چکا چوند پر توجہ دی جائے اور آپ کنفیوژ ہو جاتے ہیں۔ یہ شہر صرف شہر نہیں طلسم ہے‘ دریائے نیل پر کشتیاں چلتی ہیں اور قدیم قاہرہ میں تاریخ کی موجیں بے رحم وقت کے قلعے سے ٹکراتی رہتی ہیں۔



قاہرہ کا پہلا طلسم جامعہ الازہر ہے‘ یہ تاریخ اسلام کی دوسری قدیم ترین یونیورسٹی ہے‘ یہ فاطمی خلافت کے دور میں 972ء میں بنی‘ یونیورسٹی مسجد میں قائم کی گئی تھی‘ جامعہ الازہر اب شہر کے دوسرے حصوں میں منتقل ہو چکی ہے اور قدیم درس گاہ اب بطور مسجد استعمال ہوتی ہے‘ آپ مسجد کے اندر داخل ہوتے ہیں تو آپ کو ہال کے چاروں اطراف درمیانے سائز کے کمرے ملتے ہیں‘ یہ قدیم دور میں کلاس رومز اور ہاسٹل ہوتے تھے‘ تمام کمرے اسلامی ریاست کے مختلف ممالک کے نام منسوب تھے‘ کسی پر شام لکھا ہے‘ کسی پر المغرب (مراکش) اور کسی پر ہندوستان۔ یہ نشان ظاہر کرتے ہیں کمروں میں ان ان ممالک کے طالب علم قیام کیا کرتے تھے‘ مسجد کے اندر درجنوں ستون ہیں‘ صبح کی نما زکے بعد ہر ستون کے ساتھ ایک استاد بیٹھ جاتا تھا‘ طالب علم اس کے گرد جمع ہو جاتے تھے اور استاد انھیں چشمہ علم سے سیراب کرتا جاتا تھا۔

Dawn of Islam , بابر اعوان, معروف وکیل اور سیاست دان


Dawn of ISLAMبابر اعوان معروف وکیل اور سیاست دان
صفی لکھنوی کی نظم ''رجزِ مسلم‘‘ کے یہ اشعار ایک مسلسل آفاقی حقیقت کو آشکار کرتے ہیں۔؎

اسلام   زمانے   میں  دبنے  کو   نہیں   آیا
تاریخ سے یہ مضموں ہم تم کو دکھا دیں گے

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اُتنا ہی یہ اُبھرے گا‘ جتنا کہ   دبا   دیں گے

مغرب کی کولڈ وار (Cold War) کے بعد ''تہذیبوں کے تصادم‘‘ کا نظریہ تخلیق کیا گیا۔ اس تھیوری کو سیموئل پی ہنٹنگٹن (Samual P. Huntington) نے سال 1992ء میں ایک لیکچر کے دوران پیش کیا تھا‘ جو درحقیقت صلیبی جنگوں (Crusades) کا ہی کاپی پیسٹ تھا؛ چنانچہ اس کا نتیجہ بھی ویسا ہی رہا۔ خونِ مسلم کی ارزانی لاکھوں کروڑوں کا قتلِ عام فصلوں‘ شہروں‘ آبادیوں‘ درختوں اور انسانوںکو Flora and Fauna سمیت توسیع پسندی کی قربان گاہ پر بَلی چڑھا دیا گیا۔ یوں ثابت ہوا کہ کنگڈم آف ہیون کا تصور تھوڑا مدہم ہوا تھا‘ رخصت نہیں۔ فلسطینیوں کی زمینوں پر امپورٹڈ غیر ملکیوں کی بستیاں‘پھر سانحہ نائن الیون کی تخلیق کاری‘ جس پر امریکی افواج نے 9/11 سے پہلے تحریری رپورٹ دے کر صیہونی ایجنٹوں کی جانب سے Twin Towers کو گرانے کا الرٹ جاری کیا تھا۔ 9/11 کے سانحے سے ایک روز قبل موساد کے بارے میں امریکن آرمی سکول آف ایڈوانس سٹڈیز کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا: موساد کے صیہونی ایجنٹ امریکن فورسز پر حملہ کریں گے اور اس حملے کو ایسا پینٹ کریں گے کہ امریکن یہ سمجھنے پر مجبور ہو جائیں‘ اُن پر کسی اور نے نہیں عرب/ مسلمانوں نے حملہ کیا ہے۔ عملی طور پر نائن الیون مسلمانوں کے لئے بہت خون آشام کروسیڈ ثابت ہوا۔

" فکر فراہی کے دور جدید پر متوقع اثرات" مدرسۃ الاصلاح سہ روزہ سیمنار 2019 ء سے جناب جاوید احمد غامدی کا خطاب

مدرسۃ الاصلاح سہ روزہ سیمنار 2 تا 4 نومبر 2019 سے جناب غامدی صاحب کا خطاب 

’’مدرسۃ الاصلاح‘‘ سرائے میر، اعظم گڑھ (بھارت) میں ۲؍ نومبر ۲۰۱۹ء کو ایک سہ روزہ عالمی سیمینار منعقد ہوا۔ سیمینار کا عنوان ’’تاریخ مدرسۃ الاصلاح سرائے میر‘‘ تھا۔ سیمینار کا افتتاح مولانا سید جلال الدین عمری نے کیا۔ مختلف نشستوں میں ساٹھ سے زیادہ علمی مقالات پیش کیے گئے۔ جن مقررین نے خطاب کیا، اُن میں ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلی، ڈاکٹر عنایت اللہ سبحانی اور محمد جمیل صدیقی شامل ہیں۔ اِس موقع پر استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کو بھی خطاب کی دعوت دی گئی۔ اُنھوں نے ویڈیو لنک پر اپنے مختصر خطاب میں امام حمید الدین فراہی کے علمی کام اور دور حاضر میں اُس کے متوقع اثرات کو بیان کیا۔ استاذ گرامی کا یہ خطاب درج ذیل ہے:

الحمد للہ، الحمد للہ رب العٰلمین والصلوٰة والسلام علیٰ محمد الأمین، فأعوذ باللہ من شیطان الرجیم. بسم اللہ الرحمٰن الرحیم.
میں آپ حضرات کا شکرگزار ہوں کہ آپ نے اِس طالب علم کی عزت افزائی فرمائی اور اہل علم کے اِس اجتماع میں اِسے بھی چند حرف کہنے کی سعادت بخشی۔

آپ حضرات اِس بات سے واقف ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے ہدایت کا جو اہتمام کیا ہے، اُس میں قرآن مجید کی اب قیامت تک کے لیے ایک خاص حیثیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بطور اصول فرمایا ہے کہ جب لوگوں کے مابین اختلافات ہوئے تو نبیوں کا سلسلہ جاری کیا گیا :’فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ ‘اور پھر اُن کے ساتھ کتاب نازل کی گئی: ’وَاَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ ‘ تاکہ وہ لوگوں کے درمیان دین اور مذہب سے متعلق اختلافات کا فیصلہ کر دے۔ یہی حقیقت قرآن مجید نے بعض دوسرے اسالیب میں بھی بیان کی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ اللہ نے یہ کتاب ایک میزان کی حیثیت سے نازل کی ہے ’لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ‘ تاکہ لوگ دین کے معاملے میں ٹھیک انصاف پر قائم ہو جائیں۔

مسلم معاشرے اور سیکولرازم - خورشید ندیم

مسلم معاشرہ اور سیکولر ازم - خورشید ندیم 
مشکل کی اس گھڑی میں کون ہے جو بھارت کے مظلوم مسلمانوں کا ہاتھ تھام سکتا ہے؟ ہر سمت سے ایک ہی آواز ہے: ''سیکولرازم‘‘۔

ہمیں تو بتایا گیا ہے کہ سیکولرازم 'لادینیت‘ ہے۔ مذہب کے خلاف اُٹھنے والا سب سے بڑا فتنہ۔ پھر وہ مسلمانوں کی مدد کو کیوں آئے گا؟ ان کی مذہبی شناخت کی حفاظت کیوں کرے گا؟ اب ان دو مقدمات میں سے ایک ہی درست ہو سکتا ہے: یا تو ہم نے سیکولرازم کو سمجھنے میں غلطی کی یا پھر تجزیے میں۔ یا تو سیکولرازم لادینیت نہیں ہے یا پھر یہ مسلمانوں کا نجات دہندہ نہیں۔ میرا احساس ہے کہ آج یہ مسلم دنیا کا سب سے بڑا فکری مخمصہ ہے۔ اس نے ایک فکری پراگندگی کو جنم دیا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی اور لبرل ازم اس کے نتائج ہیں۔

24 دسمبر کو ''نیو یارک ٹائمز‘‘ میں ایک ترک دانشور مصطفیٰ اخول کا ایک بہت اہم مضمون شائع ہوا ''اسلام میں جدید سیکولرازم کا ظہور‘‘ (A New Secularism is Appearing in Islam) ۔ یہ مضمون عالم اسلام میں آنے والی بعض اہم تبدیلیوں کی نشان دہی کر رہا ہے۔ مصطفیٰ نے گزشتہ سالوں میں بہت اہم تحقیقی کام کیا ہے۔ ان کی کتاب 'اسلام کا مسیحؑ‘ (The Islamic Jesus) بین المذاہب ہم آہنگی کے باب میں غیر معمولی اضافہ ہے۔ اس میں انہوں نے بتایا ہے کہ یہودی مسیحی (Jewish Christians)، یعنی وہ یہود جو حضرت مسیحؑ پر ایمان لائے، وہ انہیں اللہ کا پیغمبر اور مسیحا مانتے تھے اور حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں ان کے عقائد وہی تھے جو قرآن مجید نے چھٹی صدی عیسوی میں بیان کیے۔ یوں اخول نے ابراہیمی ادیان میں فکری ربط، یہودی و مسیحی علمی تاریخ کے ابتدائی ماخذات سے ثابت کیا ہے۔
مصطفیٰ نے پرنسٹن اور میشیگان یونیورسٹی کے ایک مشترکہ ریسرچ پروجیکٹ 'عرب بیرومیٹر‘ کے ایک سروے کا ذکر کیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب دنیا میں مذہب بیزاری روز افزوں ہے۔ بہت سرعت کے ساتھ تو نہیں لیکن لوگوں میں مذہب سے دوری بڑھ رہی ہے۔ 2013ء میں چھ عرب ممالک میں مذہب بیزار افراد کی تعداد آٹھ فیصد تھی۔ 2018ء میں یہ تیرہ فیصد ہو چکی۔

مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش ۔ مفکر اسلام مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی ؒ

مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش

  یعنے  وقت کے سب سے بڑے چیلنج " مغربی تہذیب کی کامل پیروی، زندگی کی شرط اور ترقی و طاقت کی واحد راہ ہے" کو دنیائے اسلام نے کس طرح قبول کیا، اور مختلف اسلامی ممالک نے کیا کیا موقف اختیار کئے اور عالم اسلام کے لئے اس بارہ میں صحیح راہ عمل کیا ہے؟  

O جائزہ O محاسبہ O مشورہ  


یہ بات کتنی ہی تلخ اور ناخوشگوار ہو، لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ موجودہ عالم اسلامی مجموعی طور پر خود شناسی اور خود اعتمادی کی دولت سے محروم ہے، اس وسیع (اسلامی) دنیا میں جو ملک آزاد ہیں، (خواہ وہ صدیوں سے آزاد چلے آ رہے ہوں یا انہوں نے ماضی قریب میں آزادی حاصل کی ہو) وہ بھی ذہنی اور علمی حیثیت سے مغرب کے اسی طرح سے غلام ہیں، جس طرح ایک ایسا پسماندہ ملک غلام ہوتا ہے جس نے غلامی ہی کے ماحول میں آنکھیں کھولیں اور ہوش سنبھالا ہے۔ بعض اوقات ان ملکوں کے سربراہ سیاسی میدان میں قابل تعریف اور بعض اوقات خطرناک حد تک جرات و ہمت کی بات کرتے ہیں، اور بعض اوقات مہم جوئی اور اپنے ملک کی بازی تک لگا دینے سے باز نہیں آتے، لیکن فکری، تہذیبی اور تعلیمی میدان میں ان سے اتنی بھی خود اعتمادی، انتخاب کی آزادی اور تنقیدی صلاحیت کا اظہار نہیں ہوتا، جتنی کہ کسی ایک عاقل بالغ انسان سے توقع کی جاتی ہے۔ حالانکہ فلسفہ تاریخ کا یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ فکری، تہذیبی اور تعلیمی غلامی، سیاسی غلامی سے زیادی خطرناک، عمیق اور مستحکم ہوتی ہے اور اس کی موجودگی میں ایک حقیقت پسند  فاتح قوم کے نزدیک سیاسی غلامی کی ضرورت باقی نہیں رہتی، اس بیسویں صدی عیسوی کی آخری دہائیوں میں جب دنیا دو عظیم عالمگیر جنگوں سے گزر چکی ہے اور تیسری جہاں سوز جنگ کے بادل امنڈ رہے ہیں، اور کسی ملک کا کسی ملک کو غلام بنانا اور اس کی مرضی کے خلاف اس پر قبضہ رکھنا ایک ناقابل فہم اور ناممکن العمل سی بات سمجھی جانے لگی ہو ((۱) لیکن افغانستان پر روس کے فوجی تسلط نے اس کلیہ کو مجروح و مشکوک بنا دیا ہے۔)، دنیا کی بڑی طاقتیں اب روز بروز سیاسی اقتدار کے بجائے ذہنی و تہذیبی اقتدار اور یکسانی و ہم رنگی پا قانع ہوتی چلی جائیں گی۔

کوالالمپور سمٹ کیا ہے؟

کوالالمپور سمٹ کیا ہے ؟ 
اس سال 18 تا 21 دسمبر کو ملائیشیا کے شہر کوالالمپور میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں مسلم رہنما، دانشور اور دنیا بھر سے سکالر مسلم دنیا کو درپیش مسائل اور ان ممالک کے باہمی دلچسپی کے امور کے بارے میں تبادلہ خیال کے لیے ایک بین الاقوامی پلیٹ فارم پر اکھٹے ہوئے ہیں۔

اس کا پہلا اجلاس نومبر 2014 میں کوالالمپور میں ہوا تھا، جس میں معروف مسلم شخصیات کے درمیان مسلم دنیا کو درپیش مسائل کے لیے نئے اور قابل قدر حل تلاش کرنے پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔

ملائیشیا کے وزیر اعظم 94 سالہ ڈاکٹر مہاتیر محمد اس سربراہی اجلاس کے چیئرمین ہیں جنھوں نے اس کا قیام اس مقصد کے تحت کیا تھا کہ مسلم رہنماؤں، دانشوروں اور علمائے کرام کو جمع کر کے مسلم دنیا کو درپیش مسائل کی نشاندہی اور ان کا حل تلاش کیا جاسکے۔

اس سربراہی اجلاس کے رکن ممالک میں ملائیشیا، ترکی، قطر، موریطانیہ اور الجیریا شامل ہیں۔

ملائیشین ماڈل‘ کیا ہے؟


یونیورسٹی آف لیڈز برطانیہ میں شعبہ عمرانیت سے منسلک جنید سیرت احمد کا کہنا ہے کہ مہاتیر کے ملائیشین ماڈل کے تحت ملائیشیا بھر میں تعلیم، صحت اور عوامی فلاح کے منصوبوں سمیت تمام کاروباروں میں حکومتی سطح پر سرمایہ کاری کی گئی۔ مہاتیر کے اس ماڈل کا مقصد ملک میں موجود تمام طبقوں میں مساوات لانا اور خاص طور پر نچلے طبقے کی فلاح تھا۔

جنید سیرت نے بتایا کہ اس ماڈل کے نتائج یہ نکلے کہ اب ملائیشیا کی شرح خواندگی 100 فیصد ہے اور صحت کی بہترین سہولیات ملک کے تمام طبقات کو میسر ہیں۔ اسی ماڈل کی بدولت اب ملائیشیا کی معشیت کا شمار مسلم دنیا کی سب سے متنوع معیشت میں ہوتا ہے۔


جبکہ اس برس  ہونے والے سربراہی اجلاس میں پاکستان، ایران، انڈونیشیا کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔

خدا کی ضرورت ہے !

(بلاگر کا مضمون نگار کے خیالات سے اتفاق لازمی نہیں )

اس موضوع پر طویل بحث کی ضرورت ہے کہ عمومی سطح پر زندگی میں مذہب کی کیا اہمیت ہے اور فطری علوم و فنون سے اس کا کیا تعلق ہے۔ بحث اُسی انداز سے کی جانی چاہیے کہ جو یونانی فلسفی سقراط نے اختیار کیا تھا۔ بحث حسن نیت کے ساتھ کی جائے اور تکلم میں شائستگی کا بھی خیال رکھا جائے۔ سقراط مخالفین کی بات نہایت سکون اور سنجیدگی سے سنتا اور انہیں اپنا موقف بیان کرنے کا موقع دیتا۔ اس کے بعد وہ ان کی دلائل کا مرحلہ وار ابطال کرتا چلا جاتا مگر اس خوبصورتی سے کہ مخالفین بھی اس کے موقف کے قائل ہوئے بغیر نہ رہتے۔ سقراط کا موقف تھا کہ بحث دلائل کے ساتھ ہونی چاہیے اور اس عمل میں کسی بھی نوع کی بدنیتی کا دخل نہیں ہونا چاہیے۔

جب میں تعلیم حاصل کر رہی تھی تب مجھے سکھایا گیا تھا کہ بحث کے دوران سوال کے ہر پہلو پر غور کروں، دلائل کا غیر جانب داری سے جائزہ لوں اور حقائق و شواہد کی موجودگی میں کوئی بھی بات قبول کرنے کے لیے تیار رہوں۔ میری زندگی کے بیشتر سال ایسی حالت میں گزرے کہ مذہب سے بیزاری سی ہوگئی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ مذاہب کی تعلیمات اور اُن سے متعلق تاریخ کے مطالعے نے میری سوچ بدل دی۔

ڈاکٹر مہاتیر محمد وزیر اعظم ملائشیا کے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی 2019ء میں خطاب کا اردو ترجمہ

 اقوام متحدہ 2019ء میں مہاتر محمد کا خطاب 
’’ محترم صدرِ مجلس۔لگ بھگ پچھتر برس پہلے پانچ ممالک نے دوسری عالمی جنگ کے فاتح ہونے کا دعویٰ کیا اور اس دعویٰ کی بنیاد پر انھوں نے خود کو ویٹو کا اختیار دے کر باقی دنیا پر حکمرانی کا حق اپنے تئیں اپنے نام کر لیا۔یہ حق اس تنظیم ( اقوامِ متحدہ ) کو قائم کرتے ہوئے حاصل کیا گیا جس کا منشور ہی جنگوں کا خاتمہ اور تنازعات کا پرامن حل ڈھونڈنا قرارپایا۔یہ ممالک بھول گئے کہ جن انسانی حقوق اور مساوات کے وہ چیمپئن ہیں۔ ویٹو پاور بذاتِ خود ان کے اس دعویٰ کی کتنی بڑی نفی ہے۔

ویٹو پاور کا نتیجہ یہ نکلا کہ نظریاتی بنیادوں پر بٹی ان طاقتوں نے نہ صرف عالمی مسائل کے پرامن حل کا دروازہ بند کر دیا بلکہ تنظیم کے رکن باقی دو سو ارکان کی خواہشات کے احترام سے بھی انکار کر دیا۔مگر ان ویٹو پاورز کی ڈھٹائی ملاخطہ کیجیے کہ وہ دیگر ممالک کو کہتی ہیں کہ وہ مناسب حد تک جمہوری نہیں۔یہ پانچوں اپنے ویٹو کے حق کو برقرار رکھنے کے لیے اسلحے کی دوڑ اور جنگوں کے فروغ کو جائز سمجھتے ہیں۔  لڑائی کی وجوہات ایجاد کرتے ہیں تاکہ کاروبار پھلتا رہے اور کوئی انھیں چیلنج نہ کر سکے۔کیا یہی مقصد تھا اقوامِ متحدہ کے قیام کا ؟ کیا یہ ڈھانچہ تاحیات اسی طرح رہے گا ؟

کشمیر اور امت مسلمہ - خورشید ندیم

flag of Jummu Kashmir
دارالعلوم دیوبند برِ صغیر کا تاریخ ساز مدرسہ ہے۔ بھارتی حکومت نے جب اپنے آئین کی دفعہ 370 کو ختم کیا تو مجھے جستجو ہوئی کہ میں اس ادارے کا ردِ عمل معلوم کروں۔ میں نے جب دارالعلوم کی ویب سائٹ کو دیکھا تو مجھے مکمل خاموشی دکھائی دی۔ میں نے خیال کیا کہ یہ ایک تعلیمی ادارہ ہے اور ممکن ہے کہ اس نے خود کو سیاسی امور سے لا تعلق رکھنے کا فیصلہ کیا ہو۔ بعد میں اس کی تصدیق ہوئی جب ادارے کے نائب مہتمم کا موقف سامنے آیا۔ موقف یہی تھا کہ یہ ادارہ سیاسی معاملات میں کلام کرنے سے گریز کرتا ہے۔

یہ موقف ایک پہلو سے قابلِ فہم تھا۔ مسلک دیوبند نے اپنے ہاں کچھ اس طرح تقسیمِ کار کا اصول اپنایا ہے کہ تعلیم و تدریس کے لیے دارالعلوم اور ذیلی مدارس، دعوت کے لیے تبلیغی جماعت اور سیاست کے لیے جمعیت علمائے ہند کے فورمز مختص ہیں۔ یہ تقسیم آج سے نہیں، کم و بیش ایک صدی سے ہے۔ اب میں نے جمعیت علمائے ہند کی ویب سائٹ کی طرف رجوع کیا۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ یہاں بھی کشمیر کے معاملے میں مکمل خاموشی کو روا رکھا گیا ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کا ذکر ہے۔ فلسطین کی تازہ ترین صورتِ حال پر جمعیت کا موقف موجود ہے لیکن اگر کسی موضوع پر زباں بندی ہے تو وہ کشمیر ہے۔

خانہ کعبہ (بیت اللہ )

حج کے موسم میں خانہ کعبہ کا ایک منظر 
دنیا بھر کے مسلمان نماز ادا کرتے ہوئے اپنا رُخ خانہ کعبہ کی سمت کرتے ہیں۔ عمرے اور حج کے مناسک کی ادائیگی کے دوران خانہ کعبہ کے گرد (گھڑی کی سُوئیوں کے مخالف رُخ) سات چکر لگاتے ہیں۔

اس گھر کو پہلی مرتبہ کس نے تعمیر کیا، اس حوالے سے متعدد روایات ملتی ہیں ۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پہلی مرتبہ حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہما السلام نے اللہ کے حکم سے تعمیر کیا ہے۔

خانہ کعبہ کی موجودہ عمارت بھی وہ نہیں ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں تعمیر ہوئی تھی ۔ مختلف ادوار میں نئے سِرے سے تعمیر ہوئی ۔ تاریخ کتب میں درجِ ذیل ادوار کا ذکر آتا ہے :

1- اسلام سے قبل کے زمانے میں قریش نے خانہ کعبہ کی تعمیرِ نو کی.

2- صحابیِ رسول حضرت عبداللہ بن الزبیر کے ہاتھوں اس کی تعمیرِ نو ہوئی.

3- اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دور میں حجاج بن یوسف نے تعمیر کروایا۔

4- آخری مرتبہ خلافتِ عثمانیہ کے سلطان مراد چہارم نے 1630ء میں تعمیر کروائی۔ یہی خانہ کعبہ کی موجودہ عمارت ہے۔

موجودہ خانہ کعبہ کی اونچائی 15 میٹر ہے تاہم اس کی چوڑائی ہر جانب مختلف پیمائش رکھتی ہے۔ مغربی جانب اس کی چوڑائی 12 میٹر اور گیارہ سینٹی میٹر ہے۔ مشرقی جانب اس کی چوڑائی 12 میٹر اور 84 سینٹی میٹر ہے۔ جنوبی جانب خانہ کعبہ کی چوڑائی 11 میٹر اور 52 سینٹی میٹر اور شمالی جانب 11 میٹر اور 20 سینٹی میٹر ہے۔

اسی طرح خانہ کعبہ کے چار کونے ہیں ، ہر کونے کا ایک خاص نام ہے۔ رکن یمانی ، رُکنِ عراقی ، رکن شامی اور رکن حجرِ اسود ہیں اُس کونے میں جنّت کا مبارک پتھر حجر اسود نصب ہے۔ اسی کے قریب بیت اللہ کا دروازہ ہے جو سال میں دو بار کھولا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ حطیم ہے جو خانہ کعبہ کا ہی حصّہ شمار کیا جاتا ہے۔



خانہ کعبہ کے بنیادی حصوں کے نام 
خانہ کعبہ کے بنیادی حصوں کی فہرست یہ ہے : 

1 - حجر اسود
2 - باب کعبہ 
3 - پرنالہ 
4 - بنیادیں 
5 - حطیم
6 - ملتزم 
7 - مقام ابراہیم
8 - رکن حجر اسود
9 - رکن یمانی
10 - رکن شامی
11 - رکن عراقی
12 - غلاف کعبہ
13 - چاروں طرف سے سنگ مرمر سے ڈھانپا ہوا حصہ
14 - مقام جبرائيل

شہید قدسی، محمد مرسی - عبد الغفار عزیز

شہید قدسی محمد مرسی 

جب سے مصر کے واحد منتخب صدر پروفیسر ڈاکٹر محمد مرسی کی شہادت کی خبر ملی، تو دنیا میں ان کے آخری لمحات کی تفصیل کا انتظار تھا۔ الحمدللہ، شہید کی اہلیہ محترمہ نجلاء محمد مرسی سے فون پر گفتگو ہوئی، اور پھر ان کے صاحبزادے احمد محمد مرسی سے بھی رابطہ ہوا،وہ بتارہے تھے کہ:

’’ ہمیں والد صاحب کی وفات کے دس گھنٹے بعد جیل میں ان کی میت کے پاس لے جایا گیا اور چہرے پر پڑی چادر ہٹائی گئی، تو ہم سب کو ایک دھچکا لگا، اور چہرے پر شدید تناؤ، غصّے اور بیماری کے اثرات نمایاں تھے۔ ہم نے مغفرت کی دُعائیں کرتے ہوئے، وہاں بڑی تعداد میں موجود فوجی اور پولیس افسروں سے کہا کہ وہ تجہیز و تکفین کے لیے اہل خانہ کو ان کے ساتھ اکیلے چھوڑ دیں، جسے انھوںنے مان لیا۔ اس ربّ کی قسم! جس نے یہ کائنات پیدا کی جیسے ہی جنرل سیسی کے      وہ گماشتے کمرے سے نکلے، ہم سب حیران رہ گئے کہ ابّو کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہونا شروع ہوگئے۔ تناؤ کی بجاے سکون اور پیلاہٹ کے بجاے نور طاری ہونے لگا۔ یہ کوئی ابّو کی کرامت نہیں، اللہ کی طرف سے ہم سب کے لیے بشارت اور ڈھارس کا سامان تھا۔ گویا ابّو نے صرف  اپنی حیات ہی میں ان جابروں کے سامنے جھکنے سے انکار نہیں کیا تھا، اپنی وفات کے بعد بھی وہ ان کے مظالم پر احتجاج کررہے تھے‘‘۔

صدی کی بدترین سودے بازی - عبد الغفار عزیز

  ہزاروں سال گزر گئے، شیطان رجیم نے جس پھندے کا شکار اوّلیں انسان کو کیا تھا، آج تک اسی جال میں اس کی اولاد کو پھانس رہا ہے۔ اقتدار کا لالچ، ہمیشہ باقی رہنے کی خواہش، حسد، نفرت، خوں ریزی، دلوں میں شکوک و شبہات، وسوسے، بے لباسی اور بے حیائی پہلے دن سے شیطانی ہتھیار ہیں۔کہنے لگا:

يٰٓاٰدَمُ ہَلْ اَدُلُّكَ عَلٰي شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلٰى۝۱۲۰ (طٰہٰ ۲۰:۱۲۰) ’’اے آدم میں آپ کو وہ درخت بتاؤں جس سے ابدی زندگی اور لازوال سلطنت حاصل ہوتی ہے‘‘۔

 فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّيْطٰنُ لِيُبْدِيَ لَہُمَا مَا وٗرِيَ عَنْہُمَا مِنْ سَوْاٰتِہِمَا  (الاعراف۷:۲۰) ’’شیطان نے وسوسہ انگیزی کرتے ہوئے انھیں بہکایا تاکہ ان کی شرم گاہیں جو ایک دوسرے سے چھپائی گئی تھیں، ان کے سامنے کھول دے‘‘۔

 خود ربِّ کائنات کے بارے میں شکوک پیدا کرتے ہوئے مزید کہا: مَا نَہٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَيْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِيْنَ۝۲۰ (الاعراف۷:۲۰) ’’تمھارے ربّ نے تمھیں جو اس درخت سے روکا ہے اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تمھیں ہمیشگی کی زندگی حاصل نہ ہوجائے‘‘۔

 کائنات کا سب سے پہلا اور فرشتوں سے بھی زیادہ علم و مرتبہ رکھنے والا انسان بالآخر اس کے جال میں آگیا۔ چوں کہ رب کا برگزیدہ انسان تھا، اس لیے فوراً ہی غلطی کے اقرار اور استغفار میں لگ گیا۔ خالق نے سایۂ عفو و رحمت میں جگہ دے دی، لیکن اب جنت کے بجاے زمین پر بسیرا تھا۔ مکار دشمن نے اب ان کی اولاد پر ڈورے ڈالنا شروع کردیے۔ دو بیٹے تھے، دونوں نے اللہ کے حضور قربانی پیش کی۔ ایک کے دل میں کھوٹ تھا، اس کی قربانی مسترد کردی گئی: اِذْ قَرَّبَا  قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِہِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ۝۰ۭ (المائدہ۵: ۲۷) ’’جب اُن دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی ، اور دوسرے کی نہ کی گئی‘‘۔ بجاے اس کے کہ خود کو سدھارتا، اپنے ہی بھائی سے حسد کی آگ میں جلنے لگا۔ اس نے بہتیرا سمجھایا لیکن کچھ اثر نہ ہوا: فَطَوَّعَتْ لَہٗ نَفْسُہٗ قَتْلَ اَخِيْہِ فَقَتَلَہٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۝۳۰ (المائدہ۵: ۳۰) ’’آخرکار اس کے نفس نے اپنے بھائی کا قتل اس کے لیے آسان کردیا اور وہ اسے مار کر ان لوگوں میں شامل ہوگیا جو نقصان اُٹھانے والے ہیں‘‘___ یہ کائنات کا پہلا قتل تھا۔

 پور ی انسانی تاریخ میں جب اور جو افراد و اقوام بھی ان شیطانی پھندوں میں پھنستے گئے، یا پھنسیں گے، تباہ ہوتے گئے اور تباہ ہوں گے۔ جو فرد یا قوم ان سے بچ گئے، عروج و خوش حالی اور کامیابی نے اس کے قدم چومے، کہ یہی اللہ کا وعدہ ہے اور اس کا وعدہ ابدی ہے۔   

پاکستان اور سعودی عرب تعلقات - اعزاز سید (پندرہ روزہ معارف فیچر 1 تا 16 مئی 2019)

پاکستان اور سعودی عرب تعلقات
اعزاز سید معروف تحقیقی نامہ نگارہیں، ان کا شمار پاکستانی صحافت کی تاریخ کے چند نمایاں تحقیقی صحافیوں میں ہوتا ہے۔ ان کے تحقیقی موضوعات پاکستان میں سول فوجی تعلقات، ان کے اندر اتار چڑھاؤ، پاکستان میں عسکریت پسندی کی تاریخ اور علاقائی تعلقات کا احاطہ کرتے ہیں۔ مختلف قومی و بین الاقوامی اخبارات میں ان کے کالم باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں اور وہ پاکستان کے سب سے بڑے نیوز چینل ’جیو‘ سے وابستہ ہیں۔ ان کے زیرنظر مضمون میں پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تعلقات پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ پاک سعودی تعلقات کی حیثیت اور اس کی جہات اگرچہ پوشیدہ نہیں ہیں لیکن پچھلے دوسال سے پاکستان میں سیاسی کشمکش نے سعودیہ کے ساتھ تعلقات کو بھی نیا رخ دیا ہے، جس میں شہزادہ محمد بن سلمان کا کردار انتہائی اہم ہے۔ اس مضمون میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریکِ انصاف کے سعودیہ اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کا جائزہ لیا گیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دسمبر ۲۰۱۷ء میں پاکستان کی کچھ اہم شخصیات خاموشی سے سعودی عرب گئیں۔ کچھ دن بعد سعودی حکومت کی طرف سے بھیجا گیا ایک طیارہ لاہور ایئرپورٹ پر موجود تھا۔ یہ طیارہ خصوصی طور پر سا بق وزیراعظم نوازشریف اور ان کے بھائی، اس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کو سعودی عرب لے جانے آیا تھا۔ سعودی خاندان کے شریف خاندان سے رابطے ہوئے اور دونوں بھائی ۲جنوری ۲۰۱۸ء کو شاہی طیارے پر سوار ہوکر سعودی عرب روانہ ہوگئے۔

امریکہ کو ڈرون حملوں کے نتائج کی سنگینی کا زیادہ سے زیادہ ادراک کرنے کی ضرورت ہے ۔ (نیویارک ٹائمز)

(اصل عنوان : امریکی ڈروں حملوں میں ہلاکتیں  ، اداریہ نیویارک ٹائمز )

پینٹاگون کا کہنا ہےکہ آج سے دو سال قبل جب سے صدر ٹرمپ نے صومالیہ میں شباب کے عسکریت پسندوں کے خلاف فضائی حملے تیز کرنے کا حکم دیا تھا کسی بھی سویلین کی ہلاکت نہیں ہوئی ۔ ایمینیسٹی انٹرنیشنل نے 2017ء کے بعد صومالیہ میں 100 سے زائد ڈرون اور فضائی حملوں میں صرف پانچ کے بارے میں تحقیقات کی ہیں اور اتنے کم حملوں میں بھی چودہ افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں ۔
امریکہ کو ڈرون حملوں کے نتائج کی سنگینی کا
زیادہ سے زیادہ ادارک کرنے کی ضرورت ہے
 ( نیویارک ٹائمز)

پینٹاگون کے مطابق جنوری کے اواخر سے لے کر اب تک امریکہ کی زیر قیادت اتحادی افواج کی عراق اور شام میں داعش کے خلاف جاری جنگ میں 1257 جنگجومارے جا چکے ہیں ۔ ایک یونیورسٹی گروپ (Air wars ) کے تخمینے کے مطابق ، ان ممالک میں اب تک 7500 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں ۔ 

اعداد و شمار کے اتنے بڑے فرق سے یہ پتا چلتا ہے کہ ریموٹ کنڑول ڈرون حملوں میں انسانی جانوں کے زیاں کے حوالے سے امریکی عوام کس حدتک بے خبر ہیں ۔ پچھلے ایک عشرے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ڈرون سب سے بڑا اور موثر ہتھیار ثابت ہوا ہے ۔ یہ امریکی فوجیوں کی زندگی خطرے میں ڈالے بغیر شدت پسندوں کی موت کے گھاٹ اتاردیتا ہے ، چنانچہ امریکہ کے داخلی محاذ پر زیادہ رد عمل دیکھنے میں نہیں آتا ، مگر ان حملوں میں ہونے والی سویلین ہلاکتوں کی پردہ پوشی کی جاتی ہے اور انہیں خفیہ رکھا جاتا ہے ۔ 

پاکستان عالمی توجہ کا مرکز

پاکستان کے اُمید افزا اقتصادی امکانات، عالمی برادری سے روابط کی صلاحیتوں، بے مثل جیو اسٹریٹجک محل وقوع کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ معیاری فوج اور دہائیوں پر مبنی تجربہ کار سفارت کاری نے جنوبی ایشیا کے اس ملک کو اکیسویں صدی کی عالمی توجہ کی حامل ریاست بنادیا ہے۔
پاکستان عالمی توجہ کا مرکز


اہل بصیرت کے لیے یہ حیران کن بات ہوگی کہ اکیس ویں صدی میں دنیا کی توجہ کا مرکز چین، امریکا یا روس نہیں پاکستان ہوگا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ امریکا اور بھارت نے کئی دہائیوں پر محیط سائبروار کے ذریعے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا، لیکن جنوبی ایشیا کی اس ریاست کی جیواسٹریٹجک اور داخلی صلاحیتیں اس بات کا مظہر ہیں کہ پاکستان آنے والی صدی کے خدوخال ڈھالنے کی بہترین حالت میں ہے۔ اس لیے یہ حیران کن نہیں کہ چین نے اپنے دیرینہ دوست کی قابلیت کا کسی اور ملک سے پہلے ادرا ک کیا اور اب دوسری عالمی قوتوں جیسے روس نے بھی پاکستان کی اہمیت کو سمجھ لیا ہے۔ اس طرح پاکستان عالمی منظرنامے پر تزویراتی اہمیت کا حامل ملک بنتا جارہا ہے۔

اسلامی دنیا میں سائنس کا احیا ۔۔۔ لیکن کیسے ؟ سہیل یوسف

(روزنامہ ایکسپریس ، 11 فروری 2019 ) 

مختلف اسلامی ممالک میں وسیع فرق کے باوجود ایک چیز مشترک ہے کہ سب سائنس و ٹیکنالوجی میں انتہائی پسماندہ ہیں۔ اس ضمن میں 2016 میں مسلم ممالک میں سائنس و ٹیکنالوجی بالخصوص اعلیٰ تعلیم اور تحقیق پر بعض تنظیموں نے ٹاسک فورس رپورٹ پیش کی جس سے انتہائی پریشان کن حقائق سامنے آئے ہیں جنہیں میں خطرے کی گھنٹی کہتا ہوں۔

ایک ارب سے زائد آبادی والے اسلامی ممالک میں صرف تین ماہرین ہی نوبل انعام حاصل کرچکے ہیں جن میں پاکستان سے آنجہانی ڈاکٹرعبدالسلام (1979 میں طبیعیات)، مصر کے پروفیسر احمد زویل مرحوم (1999 میں کیمیا) اور ترکی کے عزیز سنکار (2015 میں کیمیا) شامل ہیں ۔ لیکن اپنا تمام تحقیقی کام انہوں نے اپنے ملک کے بجائے ترقی یافتہ ممالک کی تجربہ گاہوں میں انجام دیا تھا۔