(اصل عنوان : امریکی ڈروں حملوں میں ہلاکتیں ، اداریہ نیویارک ٹائمز )
پینٹاگون کا کہنا ہےکہ آج سے دو سال قبل جب سے صدر ٹرمپ نے صومالیہ میں شباب کے عسکریت پسندوں کے خلاف فضائی حملے تیز کرنے کا حکم دیا تھا کسی بھی سویلین کی ہلاکت نہیں ہوئی ۔ ایمینیسٹی انٹرنیشنل نے 2017ء کے بعد صومالیہ میں 100 سے زائد ڈرون اور فضائی حملوں میں صرف پانچ کے بارے میں تحقیقات کی ہیں اور اتنے کم حملوں میں بھی چودہ افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں ۔
![]() |
امریکہ کو ڈرون حملوں کے نتائج کی سنگینی کا زیادہ سے زیادہ ادارک کرنے کی ضرورت ہے ( نیویارک ٹائمز) |
پینٹاگون کے مطابق جنوری کے اواخر سے لے کر اب تک امریکہ کی زیر قیادت اتحادی افواج کی عراق اور شام میں داعش کے خلاف جاری جنگ میں 1257 جنگجومارے جا چکے ہیں ۔ ایک یونیورسٹی گروپ (Air wars ) کے تخمینے کے مطابق ، ان ممالک میں اب تک 7500 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں ۔
اعداد و شمار کے اتنے بڑے فرق سے یہ پتا چلتا ہے کہ ریموٹ کنڑول ڈرون حملوں میں انسانی جانوں کے زیاں کے حوالے سے امریکی عوام کس حدتک بے خبر ہیں ۔ پچھلے ایک عشرے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ڈرون سب سے بڑا اور موثر ہتھیار ثابت ہوا ہے ۔ یہ امریکی فوجیوں کی زندگی خطرے میں ڈالے بغیر شدت پسندوں کی موت کے گھاٹ اتاردیتا ہے ، چنانچہ امریکہ کے داخلی محاذ پر زیادہ رد عمل دیکھنے میں نہیں آتا ، مگر ان حملوں میں ہونے والی سویلین ہلاکتوں کی پردہ پوشی کی جاتی ہے اور انہیں خفیہ رکھا جاتا ہے ۔
صدر ٹرمپ نے اس پردہ پوشی کو اور بھی موثر بنادیا ہے اور سی آئی اے کو اجازت دے دی ہے کہ وہ افغانستان، عراق اور شام کی جنگوں سے باہر یمن ، پاکستان کے قبائلی علاقوں اور شمالی افریقہ میں سی آئی کے ڈرون حملوں میں مارے جانے والے افراد کی تعداد کو خفیہ رکھ سکتی ہے ۔ صدر براک اوبامہ نے ان فضائی حملوں میں ڈرون طیاروں کا بڑے پیمانے پر استعمال شروع کیاتھا مگر وہ ان حملوں کے حوالے سے شفافیت اورخود احتسابی کی اہمیت سے بھی بخوبی آگاہ تھے اور انہوں نے دباؤ میں آکر ان حملوں کے بارے میں بعض معقول قسم کے حفاظتی اقدامات بھی کئے تھے ۔
صدر ٹرمپ نے گزشتہ ماہ وہ حکم منسوخ کردیاتھا۔ ان کی نیشنل سکیورٹی کونسل نے اس حکم کو غیر ضروری قراردیا تھا ، کیونکہ کانگرس نے ایک ایسا قانون پاس کردیا ہے ، جس کے تحت پینٹا گون کے لئیے لازمی ہوگا کہ وہ اپنی کسی بھی جنگی کاروائی میں مارے جانیوالے سویلین افراد کے بارے میں عوامی سطح پر رپورٹ پیش کرے ، مگر یہ قانون صرف پینٹا گون کی کاروائیوں پر لاگو ہوتا ہے ، سی آئی کے ڈرون حملوں پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا ، جس میں صدر ٹرمپ نے توسیع کردی ہے ۔ ماہرین کے مطابق صدر ٹرمپ کے دور صدارت میں افغانستان،عراق اور شام کے ساتھ ساتھ صومالیہ میں بھی فضائی حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔ یمن کے معاملے میں یہ بات واضح نہیں ہے کہ سعودی اماراتی اتحاد کے حملوں سے ہٹ کر امریکی کس حدتک ان میں ملوث ہیں ۔
افغانستان میں ایک سال پہلے ڈرون حملوں میں مارے جانے والے افراد کی تعداد کے جواب میں 2018ء میں امریکی فضائی حملوں میں مارے جانے یا زخمی ہونے والے افغانیوں کی تعداد دگنا ہوچکی ہے۔ اورافغانستان میں اقوام متحدہ کے(Assistance Mission ) کے مطابق ان ہلاکتوں کی تعداد 150 سے زائد ہوگئی ہے ۔ مزید یہ کہ صدر ٹرمپ نے سویلین افراد کی ہلاکتوں پر عائد پابندیاں بھی حتم کردی ہیں ۔
جب سے ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا ہے، انہوں نے وہ قوانین ختم کردیئے ہیں جو افغانستان اور عراق جیسے سر گرم محاذوں سے باہر فوج اور سی آئی کو اس امر کا پابند کرتے تھے کہ وہ اپنے ٹارگٹ عام جنگجوؤں کی بجائے ہائی لیول عسکریت پسندوں تک محدود رکھیں۔ انہوں نے انٹر ایجنسی منظوری کے واضح اور شفاف عمل کو ختم کرکے فوجی کمانڈروں کے ڈرون حملوں کا حکم دینے کے اختیارات میں اضافہ کردیا ہے ۔
تاہم سابقہ قوانین کے مطابق بھی ہتھیار خواہ کتنے ہی اعلی کیوں نہ ہوں ، منصوبہ بندی خواہ کتنی ہی محتاط کیوں نہ ہو اور پائلٹ خواہ کیسے ہی ماہر کیوں نہ ہوں ۔ غلطیوں ، ناقص انٹیلی جینس اطلاعات حتی کہ نپے تلے فیصلوں کے باوجود سویلین افراد ان حملوں میں مارے جاتے ہیں ۔ اس حوالے سے یا اعداد و شمار دستیاب ہی نہیں یا وہ بہت مبہم ہوتے ہیں اور سویلین ہلاکتوں کی تعداد کم سے کم رکھنے کے لئے کئے گئے اقدامات ناکافی ہیں ۔ صدر اوباما کے دور میں فوج نے سویلین ہلاکتوں کو کم سے کم رکھنے کے لئے ایک واضح نظام تشکیل دے رکھا تھا ، جس میں ایک یہ تھا کہ فورسز اس امر کو ہر ممکن حد تک یقینی بنائیں گی کہ کوئی عام شہری ان حملوں میں ہلاک یا زخمی نہ ہو ، مگر 2017 ء میں تائمز اور دیگر اداروں کی رپورٹنگ کے مطابق پینٹاگون جتنی تعداد کا اعتراف کرتا ہے عراق میں اس سے کہیں زیادہ سویلین افراد ہلاک ہوئے ہیں ۔
اوباما کے دونوں ادوار میں بڑے جنگکی زونز سے باہر 542 ڈرون حملے ہوئے تھے ، جن میں ایک ٹرم میں 64 اور دوسری ٹرم میں 116 سویلین ہلاک ہوئے تھے ۔ Clear and Present Safety کے شریک مصنف میکاز ینکو کے مطابق ان ہلاکتوں کی تعداد 324 ہے ۔ B-52 طیارے یا کسی بھی دوسرے ہتھیار کے مقابلے میں ڈرون اپنے تمام تر نقائص کے باوجود پھر بھی سویلین افراد کی زیادہ پہنچان کرلیتا ہے مگر وہ زیادہ دلفریب ہتھیار ہے جو صدر اور فوجی کمانڈروں کو یادہ پسند اس لئے ہے کیونکہ یہ زیادہ سے زیادہ نقصان کرتا ہے اور اس میں بہت زیادہ پیشگی سوچ بچار کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ سویلین افراد کی ہلاکتوں کے معاملے میں شفافیت اور خود احتسابی کے فقدان کی وجہ سے دشمن کو جھوٹے بیانیے گھڑ نے کا موقع مل جاتا ہے اور اتحاد یوں کے لئے امریکہ کا دفاع کرنا مشکل تر ہوجاتا ہے ۔ اس طرح ان ممالک کے لئے ایک بری مثال قائم ہوتی ہے جو اپنے اسلحہ خانے میں تیزی سے ڈرون طیاروں کا اضافہ کرہے ہیں ۔ بعض ناقدین کے خیال میں اس طرح جنگی جرائم میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔
یہ کانگرس کا فرض ہے کہ جب پینٹاگون کے انسپکٹر جنرل سویلین افراد کی ہلاکتوں کی تحقیقات کی رپورٹ پیش کریں تو وہ ان سے بہتر اورشفاف اعداد و شمار کا تقاضا کرے ۔
دنیا میں کوئی بھی جنگی حملہ خطرات سے خالی نہیں ہوتا ، مگر ڈرون حملوں میں غلطی کا خمیازہ زیادہ تر بے گناہ سویلین کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ امریکہ کو ان غلطیوں اور خطرات کی قیمت اور نتائج کی سنگینی کا زیادہ سے زیادہ ادراک کرنے کی ضرورت ہے ۔
------------------
انتخاب : 4 اپریل 2019 ء ، روز نامہ دنیا، ریسرچ سیل ، مترجم: زاہد حسین رامے
(بلاگر کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا لازمی نہیں )