پاکستان کے اُمید افزا اقتصادی امکانات، عالمی برادری سے روابط کی صلاحیتوں، بے مثل جیو اسٹریٹجک محل وقوع کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ معیاری فوج اور دہائیوں پر مبنی تجربہ کار سفارت کاری نے جنوبی ایشیا کے اس ملک کو اکیسویں صدی کی عالمی توجہ کی حامل ریاست بنادیا ہے۔
پاکستان عالمی توجہ کا مرکز |
اہل بصیرت کے لیے یہ حیران کن بات ہوگی کہ اکیس ویں صدی میں دنیا کی توجہ کا مرکز چین، امریکا یا روس نہیں پاکستان ہوگا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ امریکا اور بھارت نے کئی دہائیوں پر محیط سائبروار کے ذریعے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا، لیکن جنوبی ایشیا کی اس ریاست کی جیواسٹریٹجک اور داخلی صلاحیتیں اس بات کا مظہر ہیں کہ پاکستان آنے والی صدی کے خدوخال ڈھالنے کی بہترین حالت میں ہے۔ اس لیے یہ حیران کن نہیں کہ چین نے اپنے دیرینہ دوست کی قابلیت کا کسی اور ملک سے پہلے ادرا ک کیا اور اب دوسری عالمی قوتوں جیسے روس نے بھی پاکستان کی اہمیت کو سمجھ لیا ہے۔ اس طرح پاکستان عالمی منظرنامے پر تزویراتی اہمیت کا حامل ملک بنتا جارہا ہے۔
چین پاک اقتصادی راہداری (CPEC) بیجنگ کے وژن ’’ایک خطہ ایک سڑک‘‘ کا منصوبہ ہے، اس کی مدد سے عوامی جمہوریہ چین کے لیے بحیرہ جنوبی چین اور آبنائے ملاکا کے بحری راستے سے گریز کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ اور افریقا تک رسائی کا قابل اعتبار راستہ ممکن ہوسکا ہے۔ ساتھ ساتھ چین کی معیشت کے لیے توانائی کے ذرائع اور چینی مصنوعات کے لیے بڑی منڈی بھی حاصل ہوئی ہے۔ ’’ایک خطہ ایک سڑک منصوبہ‘‘ عالمی تجارتی راستوں کا رخ مغرب سے مشرق کی جانب موڑ رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی کثیر قطبی عالمی نظام کی بنیاد رکھ رہا ہے۔ سی پیک میں پاکستان کے اہم کردار کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ چین کا یہ شراکت دار مستقبل کے لیے بیجنگ کے عالمی منظر نامے کا لازمی جْز ہو۔ اس سے پاکستان کی مرکزی حیثیت کا اندازہ ہوتا ہے لیکن معاملہ یہاں تک محدود نہیں۔
چین پاک اقتصادی راہداری منصوبہ سنکیانگ سے بحیرہ عرب تک صرف ہائی وے نہیں ہے، یہ میگا پروجیکٹس پر مشتمل ایک سلسلہ ہے، جس کے ذریعے پاکستان بین الاقوامی تعلقات میں اپنی غیرمتحرک حیثیت کو تبدیل کرکے تیزی سے بدلتے عالمی نظام میں اہم مقام حاصل کرسکتا ہے۔ پاکستان اگر اس مرکزی راہداری کو عمدگی سے وسعت دے کر ’’یوریشیا‘‘ یورپ اور ایشیا کو جوڑنے کا ذریعہ بن جائے تو اسے مرکزی حیثیت حاصل ہوسکتی ہے۔ بیس کروڑ سے زیادہ آبادی رکھنے والے پاکستان کے معاشی امکانات بہت امید افزا ہیں اور یہ ریاست جنوب میں چین کے متوقع تجارتی راستے پر واقع ہے۔ اسی وجہ سے وزیراعظم عمران خان نے متحدہ عرب امارات میں ورلڈ گورنمنٹ سمٹ سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ عالمی برادری موقع ہاتھ سے جانے نہ دے اور پاکستان کی متوقع پیداواری صلاحیت سے فائدہ حاصل کرنے کا موقع نہ گنوائے۔
اس میں کچھ تعجب نہیں کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے بڑے سرمایہ کار ملک اپنے حریفوں سے پہلے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے میدان میں آئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ مسابقت کے اس دور میں وہ پاکستان میں اپنے قدم جمالیں، کیوں کہ پاکستان ان کی معیشتوں اور چین کے درمیان مختصر ترین تجارتی راہداری بن گیا ہے۔ یہی نہیں، پاکستان سی پیک کو شمال، مغرب اور جنوب میں وسعت دے کر خود کو وسط ایشیا، روس، مغربی ایشیا (ایران، ترکی) اور افریقا سے جوڑ رہا ہے، جو تہذیبوں کے ارتکاز کا سبب بن سکتا ہے اور ساتھ ہی دنیا کے مشرقی حصے کے لیے ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ پر مبنی امریکی پولیٹکل سائنس دان سیموئل ہنٹنگٹن (Samuel Huntington) کے نظریے ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ کا تریاق یعنی زہر ختم کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
چین پاک اقتصادی راہداری، تہذیبی اور جغرافیائی روابط کے امکانات کو یقینی بناکر پاکستان ’’یوریشیا‘‘ (یورپ اور ایشیا) کو جوڑنے میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے، اس کے لیے دو فریقوں یعنی ایران، ترکی کے ساتھ کثیر قطبی تنظیم CENTO اور چین و روس کے ساتھ اپنے سہ فریقی اتحاد کو ایک پلیٹ فارم پر لانا ہوگا۔ عالمی طاقتوں پر مبنی یہ ’’گولڈن رنگ‘‘ یوریشیا کے وسط میں قائم ہوگا۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد اسلام آباد کا کردار اس سلسلے میں بہت معاون ثابت ہوگا۔ پاکستان اس سارے عمل کو کامیابی سے چلا سکتا ہے۔ چاہے امریکا اور چین ہوں یا سعودی عرب اور ایران، اسلام آباد سفارت کاری کے ذریعے کئی طاقتوں سے تعلقات میں توازن قائم رکھنے کا کامیاب تجربہ رکھتا ہے اور پاکستان کی بہترین صلاحیتوں کی حامل اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس فوج کے بھی ان ملکوں سے اچھے تعلقات ہیں۔
سادہ سی زبان میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان وہ مرکزی ریاست ہے جس پر چین کے مستقبل کے منصوبوں کا انحصار ہے، اسی لیے اِسے نئی سرد جنگ اور اکیس ویں صدی میں تیزی سے پروان چڑھتی کثیر قطبی دنیا کا بادشاہ گر بنایا جارہا ہے۔ پاکستان اپنی ذات میں بھی مرکزی حیثیت رکھتا ہے، جو یوریشیا کی کئی قوتوں کو جوڑنے اور مشرقی کرہ کی مختلف تہذیبوں کو ایک جگہ جمع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ قوتیں گولڈن رنگ کے فریم ورک یا سانچے میں منظم کی جاسکتی ہیں۔
بانی پاکستان، قائد اعظم محمد علی جناح نے ۱۹۴۸ء میں امریکی صحافی مارگریٹ بورک وائٹ کو انٹرویو میں یہ پیش گوئی کردی تھی کہ ’’پاکستان دنیا میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے، اس کا محل وقوع ایسے مقام پر ہے جہاں دنیا کے مستقبل کا انحصار ہوگا‘‘ اور ہر گزرتا دن یہ ثابت کررہا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی بات درست تھی۔
نوٹ؛ قائد اعظم محمد علی جناح کا یہ انٹرویو امریکی جریدے ’’لائف‘‘ (LIFE) کے جنوری ۱۹۴۸ء کے شمارے میں شائع ہوا۔
----------------------
“Pakistan: The Global Pivot State”. (“eurasiafuture.com”. Feb.14, 2019)
(ترجمہ: معین اﷲ خان)
اشاعت: پندرہ روزہ معارف فیچر کراچی ، جلد نمبر: 12، شمارہ نمبر: 6