پاکستان اور سعودی عرب تعلقات - اعزاز سید (پندرہ روزہ معارف فیچر 1 تا 16 مئی 2019)

پاکستان اور سعودی عرب تعلقات
اعزاز سید معروف تحقیقی نامہ نگارہیں، ان کا شمار پاکستانی صحافت کی تاریخ کے چند نمایاں تحقیقی صحافیوں میں ہوتا ہے۔ ان کے تحقیقی موضوعات پاکستان میں سول فوجی تعلقات، ان کے اندر اتار چڑھاؤ، پاکستان میں عسکریت پسندی کی تاریخ اور علاقائی تعلقات کا احاطہ کرتے ہیں۔ مختلف قومی و بین الاقوامی اخبارات میں ان کے کالم باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں اور وہ پاکستان کے سب سے بڑے نیوز چینل ’جیو‘ سے وابستہ ہیں۔ ان کے زیرنظر مضمون میں پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تعلقات پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ پاک سعودی تعلقات کی حیثیت اور اس کی جہات اگرچہ پوشیدہ نہیں ہیں لیکن پچھلے دوسال سے پاکستان میں سیاسی کشمکش نے سعودیہ کے ساتھ تعلقات کو بھی نیا رخ دیا ہے، جس میں شہزادہ محمد بن سلمان کا کردار انتہائی اہم ہے۔ اس مضمون میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریکِ انصاف کے سعودیہ اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کا جائزہ لیا گیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دسمبر ۲۰۱۷ء میں پاکستان کی کچھ اہم شخصیات خاموشی سے سعودی عرب گئیں۔ کچھ دن بعد سعودی حکومت کی طرف سے بھیجا گیا ایک طیارہ لاہور ایئرپورٹ پر موجود تھا۔ یہ طیارہ خصوصی طور پر سا بق وزیراعظم نوازشریف اور ان کے بھائی، اس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کو سعودی عرب لے جانے آیا تھا۔ سعودی خاندان کے شریف خاندان سے رابطے ہوئے اور دونوں بھائی ۲جنوری ۲۰۱۸ء کو شاہی طیارے پر سوار ہوکر سعودی عرب روانہ ہوگئے۔


ان دنوں نوازشریف ایک اقامے کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے عدالتی حکم سے وزارت عظمیٰ سے برطرف ہوچکے تھے۔ ان کی اہلیہ بیمار تھیں اور انہیں اقتدار سے بے آبرو کرکے نکالے جانے کا بہت رنج تھا۔ نوازشریف پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت بیانات دے رہے تھے۔ ملک میں آئندہ عام انتخابا ت قریب آرہے تھے، لہٰذا سول ملٹری تصادم کا سڑکوں پر آنے کا خطرہ بھی تھا۔ اسی خطرے کو ٹالنے کے لیے شریف برادران کو سعودی شہزادے محمد بن سلمان نے اپنے ہاں بلایا تھا۔

جب نوازشریف اقتدار میں تھے تو انہوں نے یمن کے معاملے پر ازخود کوئی فیصلہ کرنے کی بجائے معاملہ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا اور بعد میں سعودی حکومت کو اپنی مسلح افواج بھیجنے سے انکار کیا تھا۔ اس پس منظر میں سعودی حکومت بھی نوازشریف کے اقتدار کے آخری دنوں میں ان سے خوش نہیں تھی۔ مگر پاکستان کے اندر ایک پیدا ہوتے تنازعے کو ٹالنے کے لیے شہزادہ محمد بن سلمان میدان میں تھے۔ شہزادے سے ملاقات میں نوازشریف کو پیشکش کی گئی کہ وہ برطانیہ چلے جائیں اور پارٹی امور بھائی کے حوالے کردیں، ان کے تمام عدالتی مسائل حل ہوجائیں گے۔

مجھے نوازشریف کے ایک قریبی ساتھی نے بتایا کہ شہزادہ محمد بن سلمان کی پیشکش کے جواب میں نواز شریف نے اپنی سیاسی مجبوریوں کا تذکرہ کیا اور شکریے کے ساتھ انکار کردیا۔ یہ ملاقات ختم ہوئی تو اس کے بعد نوازشریف اور شہباز شریف شہزادے کے خصوصی طیارے پرمدینہ گئے، جہاں انہوں نے روزہ رسولؐ پر حاضری دی اور وطن واپس آگئے۔ اس دورے کے بعد نوازشریف احتساب عدالت اسلام آباد کے چکر لگانے لگے اور کچھ عرصے بعد جب ان کی اہلیہ کلثوم نواز کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو وہ مریم نواز کے ہمراہ لندن چلے گئے۔ احتساب عدالت سے سزا کا اعلان ہوا تو پاکستان میں کلثوم نواز کی بیماری کو سیاسی رنگ دے دیا گیا، اس پر نوازشریف نے بیٹی کے ہمراہ وطن واپسی کا فیصلہ کرلیا۔

اسی دوران ایک سرکاری افسر ملاقات کے لیے شہباز شریف کے لاہور میں واقع گھر پہنچ گئے۔ شہباز شریف کو کہا گیا کہ نواز شریف کو برطانیہ رہنے کے لیے کہا جائے، ان کے تمام مسائل حل کرلیے جائیں گے۔ ظاہر ہے یہ وہی حل تھا جو شہزادہ محمد بن سلمان پہلے ہی دونوں بھائیوں کو پیش کرچکے تھے۔ شہباز شریف نے بڑے بھائی کو دوبارہ کی گئی پیشکش سے آگاہ کیا، مگر بڑا بھائی عدالت کی آواز پر بیمار اہلیہ کو برطانیہ میں چھوڑ کر بیٹی کے ہمراہ لاہور آدھمکا اور دونوں باپ بیٹی نے گرفتاری دے دی اور جیل چلے گئے۔ اس کے بعد جوکچھ ہوا سب تاریخ کا حصہ ہے۔

ظاہر ہے ہر کڑے وقت میں پاکستان کی مالی امداد کرنے والے سعودی عرب کو اس پیشکش کو نظر انداز کرنے کا رنج ضرور ہوا ہوگا۔ اس موقع پر شہزادہ محمد بن سلمان نے جو کردار ادا کرنے کی کوشش کی تھی اس میں بظاہر ان کی نیک نیتی شامل تھی۔ جسے سیاسی مجبوریوں کے تحت نظر انداز کیا گیا۔ دراصل نوازشریف کے اقتدار سے نکلنے کی ایک وجہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے تعلقات میں کمزوری بھی تھی۔ سعودی عرب یمن کے بارے میں نواز شریف سے مایوس ہوا جبکہ متحدہ عرب امارات کے دل میں ایکسپو ۲۰۲۰ء کروانے کے لیے پاکستان کی طرف سے خود پر ترکی کو برتری دینے اور اسے ووٹ دینے کا دکھ تھا۔ ایک طرف سعودی شہزادہ محمد بن سلمان تھے تو دوسری طرف ان کے قریبی دوست متحدہ عرب امارات میں ابوظہبی کے ولی عہد محمد بن زید۔ دونوں کو دنیا بھر میں ایم بی ایس (محمد بن سلمان) اورایم بی زیڈ (شہزادہ محمد بن زید) کے طور پر جانا جاتا ہے۔ نوازشریف کا اقامہ متحدہ عرب امارات نے جاری کیا تھا، اگر اس وقت نوازشریف اور متحدہ عرب امارات میں رابطہ ہو جاتا یا غلط فہمیاں دور ہوجاتیں تو شاید اقامے کی قانونی حیثیت بھی متنازع ہو جاتی مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ لیکن اس سارے واقعے سے ایک بات ضرور واضح ہوئی کہ سعودی عرب اور شہزادہ محمد بن سلمان نہ صرف پاکستان بلکہ پاکستان کے اندر کے معاملات میں دلچسپی اور آگہی ضرور رکھتے ہیں۔ ان کی پاکستانیوں سے گہری وابستگی ہے اور وہ پاکستان میں کسی تنازعے میں اپنا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔

نوازشریف کے بعد اب عمران خان ملک کے نئے وزیراعظم ہیں۔ عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا تو ملک کو سب سے پہلے معاشی بحران کا سامنا تھا۔ اس معاشی بحران اورکڑے وقت میں مدد کے لیے سعودی عرب نہ صرف کھل کرسامنے آیا بلکہ اس نے پاکستان کی گرتی معیشت کوسہارا دینے کے لیے فوری طور پر تین ارب ڈالر کمزور معیشت میں غیر ملکی ذخائر کی مد میں رکھے۔ ظاہر ہے اس سارے معاملے میں سعودی حکومت کے ساتھ ساتھ شہزادہ محمد بن سلمان کا بڑا کلیدی کردار تھا۔

شہزادہ محمد بن سلمان جب عالمی سیاسی افق پر نمودار ہوئے تو دنیا بھر میں وہ ایک بہتر تاثر کے ساتھ سامنے آئے انہوں نے سعودی عرب کے اندر مثبت تبدیلیاں متعارف کروائیں۔انہیں دنیا بھر میں سراہا گیا تاہم جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے پر انہیں کڑی تنقید کا بھی سامنا رہا۔

سعودی عرب اور شہزادہ محمد بن سلمان کے پاکستان کے سیاستدانوں سے ہی نہیں اصل فیصلہ سازوں سے بھی قریبی تعلقات ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف ہوں یا عمران خان، سعودی عرب کے پاکستان سے تزویراتی تعلقات ہیں جو ذاتی دوستی سے مبرا ہیں۔ بہرحال اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بعض معاملات میں ذاتی تعلقات اور شناسائی بھی ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ بحیثیت ملک ہماری جیب خالی ہے لیکن ہمارے پاس ایٹم بم ہے اور مستعد فوج بھی۔ سعودی عرب کو جب بھی پاکستان کی ضرورت پڑتی ہے، ہماری حکومتیں اور ریاستی ادارے سب سعودی عرب کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی اسی سلسلے کی ایک مثال ہیں۔

اس پس منظر میں شہزادہ محمد بن سلمان کا ۱۷ فروری ۲۰۱۹ء کو دو روزہ دورہ پاکستان انتہائی اہم رہا۔ ان کی پاکستان آمد پر پاکستان کی کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں نے تہنیتی بیانات دیے۔

سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان ایک ایسے ماحول میں ہوا، جب چار پانچ اہم ترین معاملات پاکستان کو گھیرے ہوئے تھے۔ اول یہ کہ پاکستان ایک شدید معاشی بحران کا شکار تھا، دوم، پاکستان افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کو حتمی شکل دینے میں مصروف تھا اور سوم، بھارتی مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ہونے والے حالیہ حملے کے بعد بھارت ایک بار پھر پاکستان پر اس حملے کی ذمہ داری عائد کرکے محدود نوعیت کے حملوں کی سوچ بچار کررہا تھا۔ ایران میں بھی ایک حملہ ہو چکا تھا، جس کا پاکستان پر الزام عائد کیا گیا تھا۔ ظاہر ہے سفارتی سطح پر پاکستان اس ساری صورتحال سے خاموشی سے نمٹ رہا تھا۔

بظاہر یہ تمام امور الگ الگ تھے مگر میر ے ذاتی خیال میں یہ سب موضوعات کسی نہ کسی حوالے سے سعودی عرب سے جڑے ہوئے تھے۔ شہزادے کی آمد کے بعد سعودی حکومت کی طرف سے پاکستان کے ساتھ ۲۰؍ارب ڈالر کے ابتدائی معاہدے کیے گئے۔ جس سے فوری طور پر پاکستانی معیشت کی بہتری اور سرمایہ کاروں کے لیے ماحول کے سازگار ہونے کی امید بندھی۔

وزیراعظم اور سعودی شہزادے کے درمیان گرم جوش تعلقات کی بنا پر وزیراعظم کی درخواست پر سعودی عرب کی جیلوں میں پاکستانی قیدیوں کی رہائی بھی عمل میں لائی گئی۔ پتا چلا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان سزا یافتہ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ بھی تیار کرلیا گیا۔ اس دورے میں پاکستان نے سعودی شہزادے کے عالمی رہنماؤں کے ساتھ قریبی تعلقات کو استعمال کرنے کے لیے کیا بات چیت کی، اگرچہ ابھی تک اس کی تفصیلات سامنے نہیں آسکیں۔ تاہم یہ ضرور دیکھا گیا کہ سعودی عرب کے شہزادے نے بھارت کے دورے کے دوران اپنے وزیرخارجہ کے ذریعے پاکستان سے محبت کے حوالے سے ایک واضح موقف اختیار کیا۔

بھارت نے سعودی شہزادے کا دورہ مکمل ہونے کے بعد ۲۶ فروری کو پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور اگلے روز پاکستان نے بھارتی طیارے مارگرانے کے ساتھ ساتھ بھارتی پائلٹ بھی حراست میں لیا۔

اس سارے ماحول میں متحدہ عرب امارات میں منعقد ہونے والی مسلم ممالک کی تنظیم کے اجلاس سے پاکستان نے تو بھارت کو مدعو کرنے کے خلاف احتجاجی طور پر اس اجلاس سے بائیکاٹ کا اعلان کیا مگر اس اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں وزیراعظم عمران خان کی طرف سے بھارتی پائلٹ کو چھوڑنے یا رہا کرنے کے اقدام کو سراہا گیا۔ یہ سب کچھ سعودی بیک ڈور کردار کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ پلوامہ کے پس منظر میں پاکستان میں افغان طالبان کے مذاکرات تو نہ ہوئے لیکن دونوں ممالک کے درمیان امن کے لیے سعودی عرب اور امریکا سمیت کچھ پس پردہ رابطے ضرور ہوئے جس کی وجہ سے جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ممالک کے درمیان ممکنہ جنگ کے خطرے کو ٹالا گیا۔ یہ واقعی بہت بڑی کامیابی تھی۔

سعودی شہزادے کے دورے سے دو تین باتیں واضح ہوگئیں۔ اول یہ کہ سعودی عرب اور پاکستان کی موجودہ حکومتوں کے مستقبل قریب میں مل کر چلنے کی راہ ہموار ہوئی، دوسرا یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ عالمی فورمز پر سعودی عرب اب پاکستان کی بھرپور حمایت کرے گا، تیسرا یہ کہ اس دورے نے پاکستان کے اندرجمہوریت کو مستحکم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اس دورے میں عمران خان بطور وزیراعظم ایک مضبوط رہنما کے طور پر سامنے آئے۔

اس دورے نے پاکستان کے لیے جہاں معاشی سطح پر کچھ امیدیں قائم کی ہیں وہاں پاک بھارت تنازعے کے بعد معاشی سطح پر سعودی عرب کی معاونت کی امید بھی سامنے آئی ہے۔ اگر پاکستان سعودی عرب سے قریبی تعلقات رکھتے ہوئے بھارت، ایران اور افغانستان سے تعلقات میں بہتری لے آتا ہے تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ سعودی عرب سے تعلقات کا مطلب بالواسطہ امریکا سے تعلقات بھی ہے۔ دونوں ممالک قریبی اور گہرے روابط کے حامل ہیں۔ اس لیے ہمیں سعودی عرب سے تعلقات کو مزید فروغ دے کر مکمل طور پر استعمال کرنا ہوگا۔ مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم باقی ممالک سے آنکھیں بند کرلیں۔ تعلقات کے باہمی فروغ کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے اندرونی حالات کو بہتر بنانا ہوگا اور وہ اقدمات کرنا ہوں گے جن کے باعث عالمی سطح پر ہمارا تاثر ایک مثبت، امن پسند اور ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں آئے۔