مشاہیر اسلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مشاہیر اسلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

مولانا مفتی رفیع عثمانی رحمۃ اللہ عليہ

عزیز الرحمان ابن مفتی محمد کلیم۔

تعارف*:-
مفتي رفيع عثمانى رحمۃ اللہ عليہ

 آپ مفسرِ قرآن و مفتیِ اعظم پاکستان حضرت مفتی شفیع صاحبؒ کے فرزندِ ارجمند ، شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کے بڑے بھائی اور عارف باللہ حضرت ڈاکٹر عبد الحی عارفیؒ کے ممتاز اور اخص الخواص خلفا میں سے ہیں ، آپ اپنے ملک و بیرونِ ملک کی جانی پہچانی علمی اور روحانی شخصیت ہیں۔

*نام*:- محمد رفیع ابن مفتی محمد شفیع ابن مولانا محمد یاسین عثمانی ، آپ حضرت عثمان غنیؓ کی اولاد میں سے ہیں ، آپ کو یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ آپ کا نامِ مبارک حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے رکھا۔

علامہ ڈاکٹر يوسف قرضاوى کى شخصیت

مشاہیر اسلام
علامہ ڈاکٹر یوسف قرضاوی کی شخصیت

ابتدائی زندگی 

یوسف قرضاوی کی پیدائش 9 ستمبر 1926ء کو مصر کے  مغربی صوبے کا علاقہ  المحلہ الکبری کے ایک گاؤں "صفط تراب" میں ہوئی- 

اور 26 ستمبر 2022 کو 96 سال کى عمر ميں قطر کى دار الحکومت دوحہ ميں ان کی وفات ہوئى- انا للہ و ان الیہ راجعون !

علامہ یوسف القرضاوی کی کم سنی میں ان کے والد فوت ہوگئے تھے، ان کی پرورش چچا نے کی، گھر والوں کی خواہش تھی کہ آپ بڑھئی یا دکان دار بنیں۔ لیکن انہوں نے قرآن کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور صرف 9 سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کر لیاتھا۔

تعلیم اور خدمات

 قرآن کے حفظ کے بعد جامع ازہر میں داخل ہوئے اور وہاں سے ثانویہ  کے امتحان میں پورے مصر میں دوسرى پوزيشن حاصل کی۔  پھر جامع ازہر کے کلیہ اصول الدین میں داخلہ لیا اور وہاں  1953ء میں بی ایس اسلامیات کی سند حاصل کی، جس میں وہ اپنے ایک سو اسی ساتھیوں میں اول درجے سے کامیاب ہوئے۔ پھر 1954ء میں کلیہ اللغہ سے اجازتِ تدریس کی سند حاصل کی اور اس میں پانچ سو طلبائے ازہر کے درمیان اول درجے سے کامیاب ہوئے۔ 

اس کے بعد 1958ء میں انھوں نے عرب لیگ کے ملحقہ "معہد دراسات اسلامیہ" سے عربی زبان و ادب میں ڈپلوما کیا، ساتھ ہی ساتھ 1960ء میں جامع ازہر کے کلیہ اصول الدین سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی، 

1973ء میں وہیں سے اول  درجے سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی،  مقالہ کا موضوع تھا "زکوٰۃ اور معاشرتی مشکلات میں اس کا اثر" ۔

 تعلیم سے فراغت کے بعد وہ کافی عرصہ مصر کی وزارت مذہبی امور سے  وابستہ رہے ۔ 

علامہ یوسف القرضاوی علامہ ابن تیمیہ ، علامہ ابن قیم ،شیخ حسن البنا ، سید قطب ، مولانا ابو الحسن ندوی اور مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی فکر سے متاثر تھے ، مولانا ابو الاعلیٰ مودودی پر انہوں نے کتاب بھی لکھی ہے ۔

علامہ قرضاوی علماء اسلام کی عالمی تنظیم کے سربراہ تھے، موتمر عالمی اسلامی سمیت متعدد فورمز کے رکن اور عہدے دار تھے ۔ اور دنیا کے مختلف ملکوں میں ان کے پیروکاروں اور شاگردوں کی کثیر تعداد ہے۔

ڈاکٹر محمد رفيع الدين


ڈاکٹر محمد رفیع الدّین (مرحو
ڈاکٹر محمد رفيع الدين


شخصیت …… فکر

ایک جائزہ

پروفیسر محمد عارف خان

ڈاکٹر محمد رفیع الدین ان نابغہ روزگار ہستیوں میں سے ہیں، جنہوں نے علم و فکر کی دنیا میں ایک ممتاز مقام حاصل کیا ہے۔ علامہ محمد اقبال کے بعد علم و فکر کے افق پر جن چند افراد کا نام نمایاں ہے، ڈاکٹر صاحب ان میں سرفہرست ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کی ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کی جدوجہد میں ڈاکٹر صاحب کا شمار اہم ترین مفکرین میں ہوتا ہے۔

حالاتِ زندگی

ڈاکٹر محمد رفیع الدین (۱) ۱۹۰۴ء میں ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم یہیں حاصل کی۔ ایف ایس سی نان میڈیکل میں، بی۔ اے فارسی میں آنرز اور ۱۹۲۴ء میں ایم اے عربی میں کیا۔ ۱۹۲۷ء سے ۱۹۳۲ء تک سری پر تاپ کالج سری نگر میں عربی اور فارسی کے پروفیسر رہے۔ پرنس آف ویلز کالج جموں میں بھی ۱۲ سال تک تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہے۔ اس دوران (۱۹۴۲ء) میں انگریزی کتاب ‘‘آئیڈیالوجی آف دی فیوچر’’ لکھی۔ ڈاکٹر صاحب کا ڈاکٹریٹ کا موضوع بھی یہی تھا۔ ۱۹۴۵ء سے ۱۹۴۷ء تک ڈاکٹر صاحب سری کرن سنگھ جی انٹر کالج میرپور جموں کشمیر کے پرنسپل رہے۔ تقسیم ہند کے ہنگاموں کی وجہ سے گورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج میرپور بند ہو گیا تو ڈاکٹر صاحب لاہور منتقل ہو گئے۔ یہیں سے پاکستان کے حلقہ علم و ادب میں ان کا سفر شروع ہوتا ہے۔ ۱۹۴۸ء تا ۱۹۵۳ء لاہور میں محکمہ اسلامک ری کنسٹرکشن و انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک کلچر میں ریسرچ آفیسر رہے۔ ۱۹۵۳ء سے ۱۹۶۵ء تک اقبال اکیڈمی کراچی کے ڈائریکٹر رہے۔ ۱۹۶۵ء میں ‘‘فرسٹ پرنسپلز آف ایجوکیشن’’ پر مقالہ پیش کر کے ڈاکٹر آف لٹریچر کا اعزاز حاصل کیا۔ ۱۹۶۶ء سے ۱۹۶۹ء تک ‘‘ڈائریکٹر آل پاکستان اسلامک ایجوکیشن کانگرس لاہور’’ کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ ۱۹۶۹ء میں ۶۵ برس کی عمر میں کراچی میں ٹریفک کے ایک حادثے میں داعی اجل کو لبیک کیا۔ اور سیالکوٹ میں دفن کیے گئے۔

ڈاکٹر صاحب درویش مزاج انسان تھے۔ طبیعت میں سوز و گداز تھا۔ ذکر خدا پر بہت زور دیتے تھے۔ سلسلہ طریقت میں مفتی محمد حسنؒ سے بیعت تھے۔ اپنی اصلاح و روحانی ترقی کے لیے اپنے مرشد سے باقاعدہ ہدایات لیا کرتے تھے۔ خود فرمایا کرتے کہ ذکر کی برکت سے بہت اچھے اچھے خیالات خود بخود سوجھتے ہیں اور معمولی سی کوشش سے علمی حقائق منکشف ہو جاتے ہیں اور انسان کے لیے تھوڑا سا مطالعہ بھی کفایت کر جاتا ہے۔

کشمیری حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی

بزرگ حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی کی شخصیت
 سید علی شاہ گیلانی(29 ستمبر 1929ء – 1 ستمبر 2021ء)، جموں و کشمیر کے  سیاسی رہنما تھے،  ان کا تعلق ضلع بارہ مولہ کے قصبے سوپور سے تھا۔  وہ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے حامی تھے۔ اوریئنٹل کالج پنجاب یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں ۔ انہوں نے بھارتی قبضے کے خلاف جدوجہد کا آغاز جماعت اسلامی کشمیر کے پلیٹ فارم سے کیا تھا-  جبکہ انہوں نے جدوجہد آزادی کے لیے ایک الگ جماعت "تحریک حریت" بھی بنائی تھی جو کل جماعتی حریت کانفرنس کا حصہ ہے۔ وہ  معروف عالمی مسلم فورم "رابطہ عالم اسلامی" کے بھی رکن تھے۔  یہ رکنیت حاصل کرنے والے پہلے کشمیری حریت رہنما ہیں۔ ان سے قبل سید ابو الاعلیٰ مودودی اور سید ابو الحسن علی ندوی جیسی شخصیات برصغیر سے "رابطہ عالم اسلامی" فورم کی رکن رہ چکی ہیں۔ مجاہد آزادی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ علم و ادب سے شغف رکھنے والی شخصیت بھی تھے اور علامہ اقبال کے بہت بڑے مداح تھے۔ انھوں نے اپنے دور اسیری کی یادداشتیں ایک کتاب کی صورت میں تحریر کیں جس کا نام "روداد قفس" ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ بھارتی جیلوں میں گزارا۔ 29 ستمبر 1929 کو پیدا ہونے والے 88 سالہ سید علی گیلانی مقبوضہ کشمیر پر 72 سال سے جاری بھارتی قبضے کے خلاف جدوجہد کی توانا آواز ہیں۔ ۔ پاکستان کے 73یوم آزادی کے موقع پر بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی کو نشانِ پاکستان کا اعزاز دیا گیا۔ یہ اعزاز پاکستان کے صدر عارف علوی نے ایوان صدر میں ایک خصوصی تقریب میں عطا کیا۔ یہ اعزاز اسلام آباد میں حریت رہنماؤں نے وصول کیا۔ان کا انتقال یکم ستمبر 2021ء کو سری نگر میں اپنی حیدر پورہ رہائش گاہ پر ہوا۔ 

مولانا وحيد الدين خان کى وفات پر جاويد احمد غامدى کے تاثرات



یکم جنوری، 1925ء کو بڈھریا اعظم گڑھ، اتر پردیش بھارت میں پیدا ہوئے ۔ مدرسۃ الاصلاح اعظم گڑھ کے فارغ التحصیل عالم دین، مصنف، مقرر اورمفکر جو اسلامی مرکز نئی دہلی کے چیرمین، ماہ نامہ الرسالہ کے مدیررہے ہیں اور1967ء سے 1974ء تک الجمعیۃ ویکلی(دہلی) کے مدیر رہ چکے ہیں۔ آپ کی تحریریں بلا تفریق مذہب و نسل مطالعہ کی جاتی ہیں، پانچ زبانیں جانتے تھے، (اردو، ہندی، عربی، فارسی اور انگریزی) ان زبانوں میں لکھتے اور بیان بھی دیتے تھے، ٹی وی چینلوں میں آپ کے پروگرام نشر ہوتے تھے۔ مولانا وحیدالدین خاں، عام طور پر دانشور طبقہ میں امن پسند مانے جاتے ہیں۔ ان کا اصل مشن تھا مسلمان اور دیگر مذاہب کے لوگوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا۔ اسلام کے متعلق غیر مسلموں میں جو غلط فہمیاں پائى جاتى ہيں انہیں دور کرنا۔ مسلمانوں میں مدعو قوم (غیر مسلموں) کی ایذا وتکلیف پر یک طرفہ طور پرصبر اور اعراض کی تعلیم کو عام کرنا  ۔  ہے جو ان کی رائے میں ۔دعوت دین کے لیے ضروری ہے

علامہ محمد على الصابونى


 إنا لله و إنا إليه راجعون

ملک شام کے مشھور عالم دین شیخ التفسیر و الحدیث علامہ محمد علی الصابونی 91 سال کی بھر پور علمی و روحانی زندگی گذارنے کے بعد19 مارچ   2021 کو ، ترکی میں وصال فرما گئے ۔ 

اللہ کریم انکے درجات بلند فرمائے ۔ شیخ محترم کی زندگی قابل رشک ہے ۔ 30 سال حرمین شریفین میں مقیم رہے اور وہاں تفسیر قرآن کا درس دیتے رہے ۔

ان کی مشھور زمانہ کتاب " صفوۃ التفاسیر"  بہت مفید اور جامع ہے ۔ یہ کتاب بھیرہ شریف میں الکرم یونیورسٹی کے نصاب کا حصہ بھی ہے ۔ 

آپ کی کتابوں کے نام ملاحظہ فرمائیں ؛ 

صفوة التفاسير، وهو أشهر كُتُبه.

المواريث في الشريعة الإسلامية.

من كنوز السّنّة.

روائع البيان في تفسير آيات الأحكام.

قبس من نور القرآن

جامعہ بنوریہ العالمیہ کراچی کے مہتم مفتی محمد نعیم کا انتقال (بی بی سی اردو )

مفتی محمد نعیم
پاکستان کے نامور عالم دین اور جامعہ بنوریہ العالمیہ کراچی کے مہتم مفتی محمد نعیم ہفتے کے روز (20 جون ، 2020م) انتقال کر گئے ۔ ان کی عمر 62 برس تھی اور وہ گذشتہ کچھ عرصے سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے۔

جامعہ بنوریہ العالمیہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مطابق سنیچر کی شام مفتی نعیم کی طبیعت اچانک خراب ہونے پر انھیں ہسپتال منتقل کیا جارہا تھا کہ وہ راستے میں ہی انتقال کر گئے۔

مفتی نعیم کے آباؤ اجداد کا تعلق پارسی مذہب سے تھا جو بھارتی گجرات کے علاقے سورت میں آباد تھے۔ مفتی نعیم کے دادا نے اسلام قبول کیا اور اُس وقت ان کے والد قاری عبد الحلیم کی عمر چار برس تھی۔

قاری عبد الحلیم تقسیم ہند سے قبل ہی پاکستان آ گئے تھے۔

مہاتير محمد کی لمبي عمر کا راز

مہاتیر محمد کی لمبی عمر کا راز  
موجودہ دنیاکے معمرترین منتخب حکمران رہنے والے ڈاکٹر مہاتیر محمد آخرکار اپنی بہترین صحت اورلمبی عمر کاراز منظرِعام پر لاکر دنیاکو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔  ۹۴سالہ مہاتیرمحمدکے بارے میں پوری دنیامیں حیرت واستعجاب کا مظاہرہ کیا جارہا تھا۔ 

مہاتیر محمد ۱۹۶۴ء میں سیاست میں آنے سے پہلے اپنی آبائی ریاست کیدہ میں ایک معالج کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ انہوں نے حال ہی میں ملائیشیا کے ممتازترین اخبار ’’نیوسٹریٹ ٹائمز‘‘ میں دومضامین کے ذریعے بتایا کہ ان کی صحت کا راز کھانے پینے اوربودوباش پر کنٹرول کرنے کی عادات کو پختہ کرنے میں پوشیدہ ہے۔ 

مہاتیرمحمد نے اپنے مضامین میں بتایا کہ یہ بات ایک آفاقی حقیقت کے طورپر تسلیم کی جاتی ہے کہ اچھی صحت کے لیے اصول یہ اپنایاجاناچاہیے کہ زندہ رہنے کے لیے کھایاجائے نہ کہ کھانے کے لیے زندہ رہاجائے۔

 ڈاکٹرمہاتیرمحمد نے مزیدبتایاکہ موٹاپا جو چربی کی زیادتی کے باعث جنم لیتا ہے، وہ انسانی صحت کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ ایک اچھی صحت کے لیے کھانے کی مقدار میں ایک چوتھائی یا ایک تہائی تک کمی کرکے موٹاپے اورچربی کی زیادتی پر قابوپایاجاسکتاہے۔ اسی طرح چاول اورتیل دار غذاؤں سے بھی پرہیز کرکے اس مشکل کوختم کیاجاسکتاہے۔

شیخ الاسلام کا عہدہ تاریخ کے آئینہ میں اور شیوخ کی فہرست

سلطنت عثمانی کا  شیخ الاسلام
محمد جمال الدین آفندی وفات 1917ء
سلطنت عثمانیہ ، یا خلافت عثمانیہ 1299ء سے 1923ء  تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔


مؤرخین کا اتفاق ہے کہ شیخ الاسلام کے عہدہ کا آغاز سلطان محمد فاتح کے عہد میں ہوا تھا۔ اس عہدہ کو سب سے پہلے سلطان محمد فاتح نے سنہ 1451ء میں قائم کیا تھا، شیخ الاسلام کا لقب سلطنت عثمانیہ کے مفتی اعظم کے لیے بولا جاتا تھا۔ یہ سلطنت کا اہم عہدہ تھا جس کا مرکز آستانہ (استنبول) میں تھا۔  حالانکہ اِس سے قبل صرف اناطولیہ اور روم ایلی کے قاضی
مقرر ہوا کرتے تھے۔ پھر سلطان سلیم اول کے عہد میں خاصا اہم اور باوزن منصب بن گیا اور سلطان سلیمان کے عہد میں یہ عہدہ حکومت کا ایک اہم سرکاری و قانونی ادارہ اور شعبہ بن گیا، جس کے فتاوی اور اجتہادات کے روشنی میں سلطنت کے سیاسی اور دینی امور طے پاکر نافذ ہوتے تھے۔ 

سید ابوالاعلی مودودی کی شخصیت کا پس منظر

سید  ابوالاعلی مودودی ؒ کی شخصیت کا پس منظر 
عبد الحی عابد 

انیسویں صدی کا آخری حصہ اور بیسویں صدی کے آغاز کا زمانہ دنیا کی تاریخ میں نہایت اہمیت کا حا مل ہے۔ اس زمانے میں انسانی علوم و افکار نے نہایت سرعت سے ارتقاء کی منازل طے کیں۔ یورپ کی جدید علمی و فکری تحقیق سے عیسائی متکلمین کے مذہبی عقائد اور بائبل کے تصور کائنات کو ٹھیس پہنچی۔ علمی بیداری کے نتیجے میں حریت فکر کے علمبرداروں اور کلیسا کے درمیان چھڑنے والی لڑائی مذہب اور آزاد خیالی کے درمیان جنگ کی صورت میں بدل گئی۔ اس تحریک کی کامیابی کے نتیجے میں جو طرز فکر وجود میں آیا اس کے بنیادی اصولوں میں یہ بات شامل تھی کہ مذہب کو سیاست، معیشت، اخلاق، قانون، علم و فن، غرض اجتماعی زندگی کے کسی بھی شعبے میں دخل دینے کا حق نہیں، وہ محض افراد کا شخصی معاملہ ہے۔ ( مودودی، ابوالاعلیٰ، تنقیحات، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، ص ۹۔) 

اس دور میں ہندوستان پر انگریزی حکومت اور مغربی ثقافتی یلغار کے نتیجے میں یہ طرز فکر جدید تعلیم کی آڑ میں ہندوستان میں داخل ہوا۔ اس کے نتیجے میں کئی ردِ عمل سامنے آئے۔ ایک گروہ نے انگریزی تعلیم کے ذریعے آنے والے مغربی افکار، اقدار، ڈارون، فرائڈ اور کارل مارکس کے نظریات، مغربی نظام تعلیم، تہذیب، سیاسی نظریات اور تصورِ معیشت کو اپنا لیا۔ جبکہ دوسرے گروہ نے یہ فرض کر لیا کہ جدید تہذیب کی اس یلغار کے سامنے مزاحمت نہ تو مسلمانوں کے لیے مفید ہے اور نہ ہی اس کا مقابلہ ممکن ہے۔ اس دوسرے گروہ کے سربراہ سرسید احمد خاں تھے۔ انھوں نے تہذیب الاخلاق میں سماجی، علمی، ادبی موضوعات پر مضامین لکھ کر تہذیب اور ’’سویلائزیشن‘‘ کا درس دیا فکری اور تہذیبی میدان میں مسلمانوں کو تہذیب مغرب سے سمجھوتا کرنے کے لیے اپنا زور قلم صرف کر دیا۔ سرسید نے اس بات پر زور دیا کہ اسلام عقل، سائنس اور تہذیب و شائستگی کا مخالف نہیں لیکن انھوں نے اپنے اس دعوے کے لیے مغربی افکار کو ہی رہنما بنایا اور اسلامی اقدار و نظریات کو معیار بنا کر اصلاح کام انجام نہیں دیا بلکہ قدم قدم پر اسلام ہی کی قطع و برید کی۔ [خورشید احمد، پروفیسر، ’’تحریک اسلامی شاہ ولی اللہ اور ان کے بعد‘‘، چراغ راہ، تحریک اسلامی نمبر ‘‘، ص ۴۹۔ ، ص ۵۷۔] سرسید کی کوششوں سے قوم کے سیاسی، سماجی اور ادبی خیالات میں خاصی تبدیلی آئی۔ 

مولانا عبد الماجد دریابادی ؒ

مولانا عبد الماجد دریابادی ؒ 
عبد الماجد دریابادی 16 مارچ 1892 کو دریا آباد، ضلع بارہ بنکی، بھارت میں ایک قدوائی خاندان میں پیدا ہوئے۔ اُن کے دادا مفتی مفتی مظہر کریم کو انگریز سرکار کے خلاف ایک فتویٰ پر دستخط کرنے کے جرم میں جزائر انڈومان میں بطور سزا کے بھیج دیا گیاتھا۔ آپ ہندوستانی مسلمان محقق اور مفسر قرآن تھے۔ آپ بہت سے تنظیموں سے منسلک رہے۔ اِن میں تحریک خلافت، رائل ایشیاٹک سوسائٹی،لندن، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، ندوۃ العلماء، لکھنؤ، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ کے علاوہ اور بہت سی اسلامی اور ادبی انجمنوں کے رکن تھے۔ عبد الماجد دریابادی نے انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی ایک جامع تفسیر قرآن لکھی ہے۔ اُن کی اردو اور انگریزی تفسیر کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ تفاسیر اسلام پر مسیحیت کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات کو سامنتے رکھتے ہوئے لکھی ہے، مزید ان تفاسیر میں مسیحیت کے اعتراضات رد کرتے ہوئے بائبل اور دوسرے مغربی مستشرقین کی کتابوں سے دلائل دیے ہیں۔ آپ نے 6 جنوری 1977 کو وفات پائی۔ آپ نے تفسیر ماجدی میں سورۃ یوسف کے آخر میں لکھا ہے کہ اٹھاونویں پشت پر جا کر آپ کا شجرہ نسب لاوی بن یعقوب سے جا ملتا ہے۔ 
انہوں نے شبلی نعمانی سے ملاقات کے بعد اُن کی سیرت النبی کی تصنیف میں اُن کے ساتھ کام کیا۔

سلطنتِ عثمانیہ: تین براعظموں کے سلطان

( ظفر سید ،  بی بی سی اردو ڈاٹ کام،  18 نومبر 2017 )
سلطنت عثمانیہ : تین بر اعظموں کے سلطان 

(عام خیال کے مطابق 1517 میں خلافتِ عثمانیہ کا آغاز ہوا تھا۔ اس بات کے 500 سال مکمل ہونے کے موقعے پر یہ خصوصی تحریر لکھی گئی تھی)

ظہیر الدین بابر کو اچھی طرح احساس تھا کہ اس کی فوج دشمن کے مقابلے پر آٹھ گنا کم ہے، اس لیے اس نے ایک ایسی چال چلی جو ابراہیم لودھی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔

اس نے پانی پت کے میدان میں عثمانی ترکوں کا جنگی حربہ استعمال کرتے ہوئے چمڑے کے رسوں سے سات سو بیل گاڑیاں ایک ساتھ باندھ دیں۔ ان کے پیچھے اس کے توپچی اور بندوق بردار آڑ لیے ہوئے تھے۔ اس زمانے میں توپوں کا نشانہ کچھ زیادہ اچھا نہیں ہوا کرتا تھا لیکن جب انھوں نے اندھا دھند گولہ باری شروع کی تو کان پھاڑ دینے والے دھماکوں اور بدبودار دھویں نے افغان فوج کو حواس باختہ کر دیا اور اس ناگہانی آفت سے گھبرا کر جس کا جدھر منھ اٹھا، ادھر کو بھاگ کھڑا ہوا۔
یہ پانی پت کی پہلی لڑائی تھی اور اس کے دوران ہندوستان میں پہلی بار کسی جنگ میں بارود استعمال کیا گیا۔

50 ہزار سپاہیوں کے علاوہ ابراہیم لودھی کے پاس ایک ہزار جنگی ہاتھی بھی تھے لیکن سپاہیوں کی طرح انھوں نے بھی کبھی توپوں کے دھماکے نہیں سنے تھے، اس لیے پورس کے ہاتھیوں کی تاریخ دہراتے ہوئے وہ جنگ میں حصہ لینے کی بجائے دم دبا کر یوں بھاگ کھڑے ہوئے کہ الٹا لودھی کی صفیں تتر بتر کر دیں۔

بابر کے 12 ہزار تربیت یافتہ گھڑسوار اسی لمحے کا انتظار کر رہے تھے، انھوں نے برق رفتاری سے پیش قدمی کرتے ہوئے لودھی کی فوج کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور کچھ ہی دیر بعد بابر کی فتح مکمل ہو گئی۔