اسلام کی تفہیم و تشریح کا تاریخی جائزہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
اسلام کی تفہیم و تشریح کا تاریخی جائزہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اقامت ِ دین اور نفاذِ شریعت - ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

اقامت ِ دین اور نفاذِ شریعت -
 ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی 
 اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے اپنے رسولوںؑ کے ذریعے جو تعلیمات اور ہدایات بھیجی ہیں، ایک مسلمان سے مطلوب یہ ہے کہ بے کم و کاست انھیں اختیارکرے، ان پر خود عمل کرے اور اللہ کے دوسرے بندوں تک انھیں پہنچائے۔ یہ عمل انفرادی طور سے بھی انجام دیا جاسکتا ہے اور اجتماعی طور سے بھی۔ہرمسلمان کی ذمہ داری ہے کہ اپنی زندگی میں اس کا جن انسانوں سے بھی سابقہ پیش آئے اور وہ اس ہدایت ِ ربانی سے محروم ہوں، انھیں اس سے باخبر کرے اور اپنے قول اور عمل سے ’حق‘ کی شہادت دے۔ مسلمانوں سے اجتماعی طور پر بھی مطلوب ہے کہ ان میں سے ایک یا ایک سے زائد گروہ ایسے ضرور رہنے چاہییں جو اس کام کو اپنا مشن بنالیں اور منصوبہ بندی کے ساتھ اسے انجام دیں۔ قرآن و سنت کے بکثرت نصوص اس پر دلالت کرتے ہیں۔

جماعت اسلامی اور اقامتِ دین

اس دینی فریضے کی انجام دہی کے لیے بیسویں صدی عیسوی میں برصغیر کی مشہور دینی تحریک ’جماعت اسلامی‘ کا قیام عمل میں آیا۔ تحریک کے اکابر نے اس کام کی اہمیت، ضرورت اور وجوب پر قابلِ قدر لٹریچر تیار کیا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ اس کام کے واجب اور مطلوب ہونے پر قرآن و سنت کی متعدد تعبیرات دلالت کرتی ہیں، مثلاً دعوت، تبلیغ، وصیت، شہادتِ حق، امربالمعروف ونہی عن المنکر، انذار و تبشیر اور اقامت ِ دین وغیرہ۔

خدا کا وجود (4/4)، جاويد احمد غامدى


 

خدا کا وجود(3/4)، جاويد احمد غامدى


 

خدا کا وجود (2/4)، جاويد احمد غامدى


 

خدا کا وجود (1/4) ، جاويد احمد غامدى


 

معتزلہ اور فتنۂ خلق قرآن

معتزلہ اور فتنہ خلق قرآن 
جب یونانی اور سریانی اور قدیم فارسی  کتابوں کے تراجم مسلم ممالک میں منتقل ہوئے اور مسلمانوں کا  دیگر مذاہب کے افکار اور علماء سے سابقہ ہوا  توجلد مسلمانوں کا ایک گروہ ان سے متاثر ہوئے اس کے نتیجے میں اللہ تعالی کی ذات و صفات،  کلام الہی،  رویت باری تعالی ، اللہ تعالی کی صفت عدل و تقدیر اور مسئلہ جبر و اختیار زیر بحث آیا ۔ یہ مسائل ایسے تھے جن کا ذریعہ علم  صرف وحی الہی ہے ، انسانوں کو ان کے بارے میں کوئی علم حاصل نہیں تھا ۔ لیکن یونانی فلسفہ اور منطق سے متاثرین  نے ان مسائل کے بارے میں  سوالات اٹھائیے ۔ 

عباسی دور میں اس گروہ کی قیادت معتزلہ کررہے تھے ۔ انھوں نے ان مسائل کو کفر وایمان کا معیار بنادیا ۔ان کے مقابلہ میں محدثین اور آئمہ فقہ کا گروہ تھا  جو صحابہ کرام اور تابعین کے مسلک پر قائم تھے ۔ 

خلیفہ مامون کے زمانہ میں معتزلہ کو خوب عروج حاصل ہوا۔ قاضی ابن ابی داؤد جو معتزلہ تھا دولت عباسیہ کا قاضی القضاۃ بن گیا۔ اس طرح  معتزلہ کے مسلک کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہوگئی ۔ حکومتی سرپرستی میں معتزلہ نے مسئلہ خلق قرآن  پر پوری توجہ مرکوز کردی ، یہاں تک کہ مامون نے والی بغداد اسحق بن ابراہیم کے نام ایک مفصل فرمان جاری کیا۔  مسئلہ خلق قرآن  سے اختلاف کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کا حکم دیا کہ جو لوگ اس مسئلہ کے قائل نہ ہوں ان کو سرکاری عہدوں سے معزول کردیا جائے اور خلیفہ کو اس کی اطلاع دی جائے۔  

اس کی نقلیں تمام اسلامی صوبوں کو بھیجی گئی  اور گورنروں کو ہدایت کی گئی کہ وہ  ہر قاضی کا اس مسئلہ میں امتحان لیں جو اس سے متفق نہ ہو اس کو عہد ہ سے معزول کردیا جائے۔ 

اسلامی عقائد کے باب میں مسلم فلاسفہ اور متکلمین کی غلطی - ابوالبشر احمد طیب

اسلامی عقائد کے باب میں مسلم فلاسفہ اور متکلمین کی غلطی 
فلسفہ یونان کا اصل موضوع ، ان کے غور و فکر کا اصل میدان طبیعات اور ریاضیات ہے۔  لیکن جس میدان میں ان کو ٹھوکر لگی وہ عقائد یا الہیات ہے۔ لیکن  ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو آج بھی عقائد کے مسائل میں  ان کو قرآن وحدیث کے مقابل لاتے ہیں ۔ حالانکہ جن  غیبی حقائق کی انبیاء علیہ السلام نے خبر دی  ان سے یونانی فلاسفر بالکل ناآشنا تھے ۔ 

 انسان محدود عقل اور مشاہدات سے ان موجودات کا مشاہدہ کسیے کرسکتا ہے جن تک اس کی رسائی نہیں ہے ۔ ان کا حال تو ایسا تھا جیسے قرآن نے بیان کیا" بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ ۚ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ (یونس : 39) 

انھوں نے ان چیزوں کو جھٹلا دیا جن کا ان کو پورا علم حاصل نہیں تھا حالانکہ ابھی تک ان پر ان کی پوری حقیقت  واضح نہیں ہوئی۔اسی طرح ان سے پہلے والوں نے کیا ۔ 

اللہ کی ذات و صفات  کے بارے میں ایمان لا نے حکم تھا اس لئے یہ کسی علمی موشگافیوں اور قیاس آرائیوں کا مسئلہ  نہیں تھا ، اس بارے میں انسانی کا ذریعہ علم صرف انبیاء کرام کی اطلاع اور وحی الہی ہے ۔ اسی سے ہی اللہ کی  معرفت حاصل ہو سکتی ہے ۔ مسلمانوں کے پاس عقائد کی تفصیلات معلوم کرنے  کےلئے  قرآن و حدیث کی صورت میں  سب سے محکم بنیاد موجود ہے ۔ اس باب میں ان کو یونانی فلسفہ کی ذہنی موشگافیوں کی قطعا ضرورت نہیں ہے ۔ صحابہ کرام ، تابعین ، ائمہ کرام ، اور محدثین  اسی مسلک پر قائم تھے۔

عباسی دور میں یونان کا جو فلسفہ ترجمہ ہوکر عالم اسلام میں منتقل ہوا، پھر اس کے ذریعے پورپ تک پہنچا ، وہ اپنے قدیم مشرکانہ اعتقادات و تصورات کے ساتھ  منطق کی  ثقیل فرضی اصطلاحات میں منتقل ہواتھا۔  مسلم فلاسفر اور مترجمین  ابتدا میں اس حقیقت سے واقف نہیں تھے۔ پہلی دفعہ دو ٹوک  انداز میں  امام غزالی اور ابن تیمیہ نے اس نکتہ کو فاش کیا،  یونان کے فلسفہ الہیات  اور علم الاصنام کے اصل راز سے بردہ اٹھایا ۔