عزیز الرحمان ابن مفتی محمد کلیم۔
آپ مفسرِ قرآن و مفتیِ اعظم پاکستان حضرت مفتی شفیع صاحبؒ کے فرزندِ ارجمند ، شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کے بڑے بھائی اور عارف باللہ حضرت ڈاکٹر عبد الحی عارفیؒ کے ممتاز اور اخص الخواص خلفا میں سے ہیں ، آپ اپنے ملک و بیرونِ ملک کی جانی پہچانی علمی اور روحانی شخصیت ہیں۔
*نام*:- محمد رفیع ابن مفتی محمد شفیع ابن مولانا محمد یاسین عثمانی ، آپ حضرت عثمان غنیؓ کی اولاد میں سے ہیں ، آپ کو یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ آپ کا نامِ مبارک حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے رکھا۔
*ولادت*:- آپ والا کی ولادت ۲۳ ربیع الثانی ۵۵۳۱ مطابق ۱٦ جولائی ۱۹۳٦ء کو ہندوستان کی مردم خیز سر زمین قصبہ دیوبند ضلع سہارنپور یوپی میں ہوئی۔
*ابتدائی تعلیم*:- آپ نے قاعدہ بغدادی اپنے والدِ ماجد سے پڑھ کر دار العلوم دیوبند کے شعبۂ حفظ میں داخلہ لیا ، پندرہ پارے مکمل کیے تھے کہ آپ کو بھی اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ہم رکاب ہجرت کر کے کراچی منتقل ہونا پڑا ، وہیں "جامع مسجد جیکب لائن" میں حفظِ قرآن کا سلسلہ جاری رہا پھر "مسجد باب الاسلام" آرام باغ میں حفظِ قرآن کی تکمیل کی اور یہ عظیم سعادت بھی آپ نے حاصل کی کہ ختمِ قرآن مفتیِ اعظم فلسطین الحاج امین الحسینی نے کرایا۔
*دارالعلوم کراچی میں داخلہ*: اس کے بعد آپ نے ۲۷۳۱ مطابق ۱۹۵۱ء میں دار العلوم کراچی نانک واڑہ کے درسِ نظامی میں داخلہ لیا ، جن طلبہ سے دار العلوم کراچی کا آغاز و افتتاح ہوا آپ ان میں پیش پیش تھے ، بالآخر آپ ۹۷۳۱ مطابق ۱۹٦۰ء میں درسِ نظامی سے فارغ التحصیل ہوئے ، نیز اسی دورانِ طالب علمی میں آپ نے ٨٧٣١ میں پنجاب یونیورسٹی سے "مولوی فاضل" کا امتحان بھی پاس کیا۔
*تخصص فی الفقہ*:- آپ نے اپنے والد ماجد کے زیرِ نگرانی برِ صغیر میں سب سے پہلے قائم ہونے والے شعبے "تخصص فی الافتاء" میں داخلہ لیا اور ساتھ میں درسِ نظامی کے ابتدائی درجات کے تین اسباق کی تدریس بھی آپ کے سپرد ہوئی۔
*اساتذہ*:- آپ کے اساتذۂ کرام کی ایک لمبی فہرست ہے ، جن میں درجِ ذیل گرامی قدر شخصیات بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں:
قاری فتح محمد صاحب مہاجر مدنیؒ ، قاری رحیم بخش صاحبؒ ، مفتی رشید احمد لدھیانویؒ ، مفتی ولی حسنؒ ، مولانا سبحان محمود صاحبؒ ، مولانا اکبر علی سہارنپوریؒ ، مولانا قاری رعایت اللہ صاحبؒ ، مولانا سلیم اللہ خان صاحبؒ اور مولانا محمد حقیق صاحبؒ۔
*مشائخ سے اجازت حدیث*:- ان کے علاوہ آپ کو مندرجہ ذیل مشائخ سے اجازتِ حدیث حاصل ہے : سابق مدرس مسجد حرام شیخ محمد حسن ابن محمد مَشَّاط مکی مالکی ، مولانا ادریس صاحب کاندھلویؒ ، شیخ زکریا کاندھلویؒ ، علامہ ظفر احمد عثمانیؒ ، مولانا قاری طیب صاحبؒ ، شیخ ابو زاہد محمد سرفراز خان صفدرؒ ، شیخ یاسین فادانی مکیؒ ، شیخ احمد کَفتارُوؒ مفتی جمہوریہ سوریہ ، شیخ عبد اللہ ابن احمد ناخبی۔
*تدریسی خدمات کا آغاز*:- درسِ نظامی سے باقاعدہ فراغت کے بعد آپ عالمِ اسلام کی عظیم دینی درس گاہ "جامعہ دار العلوم کراچی" میں تدریس کی عظیم مسند پر جلوہ افروز ہو کر علمی ضیا پاشی میں مصروف ہوگئے ، اور اس ذمے داری کو آپ نے نہایت جانفشانی اور عرق ریزی سے نبھایا ، آپ نے ۹۷۳۱ سے ۰۹۳۱ تک کی قلیل مدت میں اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت درسِ نظامی کے تقریبا تمام علوم و فنون کی کتابوں کی تدریس کا مرحلہ بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ طے کیا ، ١٩٣١ سے آپ خالصۃً علمِ حدیث و اصولِ افتا کی تعلیم و تدریس کی طرف متوجہ ہوئے۔
*درس کی خصوصیات*:- آپ اپنی قوتِ تفہیم کی بدولت مشکل ترین اور دقیق ترین مباحث کو ایسے آسان اور عام فہم انداز میں بیان کرتے کہ ہر طالب علم بخوبی مستفید ہو جاتا ؛ حلِ کتاب پر خاص توجہ ، غیر ضروری نکات و مباحث سے اجتناب ، صحتِ عبارت و تلفظ پر خصوصی نظر ، متنِ حدیث سے متعلق قدیم و جدید فقہی مسائل اور ان کے پسِ منظر کے ساتھ موجودہ حالات کے تناظر میں مختلف فکری ، سیاسی اور معاشی تحریکات اور جدت پسندانہ نظریات کا ٹھوس ، مدلل اور سنجیدہ علمی انداز میں تجزیہ ، موقع بموقع اپنے مخصوص دلکش انداز میں مختلف علمی و تفریحی نشاط آفریں لطائف سے طلبہ کو محظوظ کرنا آپ کے درس کی خصوصیات ہیں۔
*آپ کا دوران درس ایک قابلِ تقلید عمل*:- کتاب میں مصنف یا کسی بزرگ کا اسمِ گرامی آئے تو نہایت احترام کے ساتھ ان کا نام لیتے ، خصوصا نبیِ کریمﷺ کا نامِ نامی آنے پر یہ تعظیمی کیفیت مزید بڑھ جاتی ، واضح تلفظ کے ساتھ پورا "صلی اللہ علیہ وسلم" ہر مرتبہ خود پڑھتے اور طلبہ کو بھی صحیح تلفظ کے ساتھ اس کے پڑھنے کی تلقین کرتے اور اس میں فرو گزاشت (بھول چوک) نہیں ہونے دیتے ، اس معاملے میں آپ نہایت حساس اور بے لچک تھے۔
*مفتیِ اعظم کا لقب*:- ویسے تو آپ مدظلہٗ تمام علومِ اسلامیہ پر تحقیقی عبور اور دسترس رکھتے ہیں مگر بنیادی طور پر آپ کے ذہن و مذاق اور فکر و نظر پر فقہ و افتا کی حکمرانی رہی ، اللہ تعالی نے علمِ فقہ میں آپ کو جو دقتِ نظر ، سلامتِ ذوق ، وسعتِ مطالعہ ، علمی تعمق ، فکری جولانی ، قوتِ استدلال و استنباط اور فقیہانہ فہم و بصیرت عطا کی ہے وہ کم ہی کسی علمی شخصیت کے نصیب میں آتی ہے ؛ آپ کی ان صلاحیتوں کو تسلیم کرتے ہوئے عصرِ حاضر کے علماے کرام کی چار سو سے زائد تعداد نے حضرت مولانا یوسف لدھیانویؒ کی صدارت میں منعقدہ "عالمی مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت" کے ایک نمائندہ اجلاس میں بالاتفاق آپ کو "مفتیِ اعظم پاکستان" کا خطاب دیا ، حضرت مفتی شفیع صاحبؒ اور مفتی ولی حسن ٹونکیؒ کے بعد آپ تیسری شخصیت رہے جنھیں اس خطاب سے نوازا گیا۔
*فتوی دینے میں آپ والا کا طریقہ*:- فتوی دینے میں آپ کا طریقۂ کار وہی تھا جو آپ کے عظیم والدِ ماجد کا تھا ، افتا میں آپ نہایت محدثانہ احتیاط اور اعلی درجے کی فقیہانہ روا داری سے کام لیتے ، جواب قرآن وسنت اور فقہاے کرام کی تعبیر کے مطابق واضح عبارت کے ساتھ دیتے ، جواب میں نہایت غور و فکر سے کام لیتے ، یہی وجہ ہے کہ کبھی ایک ایک فتوے میں کئی دن لگ جاتے ، آپ نے ہزارہا فتویٰ جاری فرمائے ہیں ، ٠٢٤١ مطابق ۱۹۹۹ کے اعداد و شمار کے مطابق آپ کے خود نوشت فتاوی کی تعداد ٣٤١١ اور تصدیق کردہ فتاویٰ کی تعداد ٤٢٦٧ اور مجموعی تعداد ٧٦٧٨ ہیں۔
*تصوف و سلوک*:- فقہِ ظاہر میں ممتاز مقام حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ آپ فقہِ باطن میں بھی بہت اہتمام سے مشغول رہے ، چنانچہ حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے خلیفۂ خاص عارف باللہ حضرت ڈاکٹر عبدالحی عارفیؒ سے آپ کا اصلاحی تعلق رہا اور شیخ کے فیوض و برکات اور ان کے ارشادات اور اصلاحی مشوروں پر مکمل عمل پیرا ہو کر آپ نے سلوک کے منازل طے کیے اور اپنے شیخ کی نظر میں خصوصی مقام پا کر خلعتِ خلافت سے نوازے گئے ، اس نعمت کو آگے منتقل کرنے کے لیے دیگر علمی و انتظامی مصروفیات کے باوجود عامۃ الناس کی اصلاح و تربیت کی ذمے داری بھی آپ بڑے حوصلے اور تدبر کے ساتھ انجام دی۔
*حضرت والاؒ کے اوصاف*:- آپ طبعی طور پر نہایت رقیق القلب تھے ، ہر رقّت آمیز منظر ، واقعہ اور خبر پر آپ کا آبدیدہ ہو جانا آپ کی طبعی خاصیت رہی ، اسی وجہ سے آپ ہر عام و خاص اور خصوصاً طلبہ کے ساتھ نہایت شفقت کا معاملہ فرماتے ، اسی طرح فطری طور پر آپ شگفتہ مزاج ، ہشاش بشاش اور ظریفانہ طبیعت کے مالک تھے ، اعتدال و توسط ، وقار ومتانت ، حسنِ انتظام اور نفاستِ طبع ، مردم شناسی اور اہلیت کی قدردانی ، اصول و قوانین کی پاسداری ، اصابتِ رائے اور فکری استقلال آپ کی امتیازی خصوصیات ہیں ، ہر شعبے میں اتباعِ سنت کا اہتمام ، ورع وتقویٰ اور بطورِ خاص حقوق العباد اور مالی معاملات میں آپ کا تقوی گفتن کے بجاے دیدن سے تعلق رکھتا ہے۔
*حضرت والاؒ کی قابلِ تقلید ایک خاص عادت*:- آپ کی خاص عادت یہ ہے کہ آپ اپنے تمام بزرگوں اور علمی و دینی محسنوں سے بے پناہ محبت کرتے ، خصوصاً حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ ، حضرت ڈاکٹر عبد الحی عارفیؒ اور اپنے والدِ ماجد سے آپ کی والہانہ محبت قابلِ رشک ہے ، یہی وجہ ہے کہ آپ اپنے بزرگوں اور اساتذہ کو ایصالِ ثواب کا خصوصی اہتمام فرماتے ، ہر مہینے کم از کم ایک ختمِ قرآن کر کے اپنے والدین کے لیے ایصالِ ثواب کرتے ہیں ، اس کے علاوہ رمضان ، تراویح وغیرہ میں جتنی تلاوت ہوتی ہے اس کا اپنے مرشدوں کو ایصالِ ثواب کرتے ، جب بھی حج و عمرہ کرنے جاتے تو ایک عمرہ والد صاحب اور ایک والدہ صاحبہ کی طرف سے کرتے ، اور تمام اساتذہ و مشائخ اور محسنین کی طرف سے طواف کرتے۔
*حضرت والاؒ کی عبادت کا حال*:- آپ ان برگزیدہ ہستیوں میں سے تھے جنھیں اللہ رب العزت نے عبادت کا خاص ذوق عطا فرمایا تھا ، بڑھاپے کی حالت میں بھی جس خشوع و خضوع اور بے نظیر اہتمام کے ساتھ آپ طویل قیام و قراءت پر مشتمل نوافل ادا کرتے وہ قابلِ دید ہونے کے ساتھ قابلِ رشک بھی ہے ، ہر وقت زبان پر ذکر و اوراد کے کلمات جاری رہتے ، روزانہ کے معمولات ، تلاوت ، مناجات ، تسبیحات اور خصوصاً ادعیۂ مأثورہ کی بڑی پابندی فرماتے ، سفر ہو یا حضر کسی بھی صورت میں ناغہ نہیں ہونے دیتے۔
*حضرت والاؒ کا قلم اور تصنیفات*:- آپ اعلیٰ درجے کی ادبی اور تحریری صلاحیتوں سے مالا مال تھے ، محتاط قلم کے مالک اور صاحبِ طرز مصنف تھے ، آپ کے قلم میں حسنِ ترتیب اور موضوع کا بہتر احاطہ پایا جاتا ہے ، آپ کی ہر تحریر اعتدال وتوازن ، جچے تلے اندازِ بیان ، دلائل اور حقائق کے بالترتیب بیان کا حسین اور عمدہ نمونہ تھا ، قدیم و جدید بیشتر موضوعات پر آپ کی تصنیفات ہیں : "عقائد میں مسئلۂ تقدیر کا آسان حل ، علاماتِ قیامت اور نزولِ مسیح ؛ حدیث شریف میں درسِ مسلم شریف ، کتابتِ حدیث عہدِ رسالت و عہدِ صحابہ میں ، التعليقات النافعة على فتح الملهم ؛ فقہ و اصول فقہ میں درسِ شرح عقود رسم المفتی ، فقہ میں اجماع کا مقام ، نوادر الفقہ ، احکامِ زکوۃ ، رفیقِ حج ، بیع الوفاء ، المقالات الفقہیۃ فی مجال التداوي ، الاخذ بالرخص وحكمه ، سیاست و معیشت میں دینی جماعتیں اور موجودہ سیاست ، عورت کی سربراہی کا شرعی حکم ، یورپ کے تین معاشی نظام ، اسلام میں غلامی کا تصور ، دینی مدارس اور نفاذِ شریعت ، دو قومی نظریہ ، اسلامی معیشت کی خصوصیات اور صنعتی تعلقات ؛ اصلاح و ارشاد میں متعدد کتب ؛ سفرناموں میں یہ تیرے پراسرار بندے ، انبیا کی سرزمین میں ، گلگت کے پہاڑوں میں یادگار آپ بیتی ؛ سوانح میں حیاتِ مفتیِ اعظم ، میرے مرشد حضرت عارفی ؛ انگریزی میں
The three systems of economics in Europe اور
Signs of qiyamah and the arrival of Maseeh
؛ اس کے علاوہ متفرقات میں علم الصیغہ مع اردو تشریحات ، الفضل الرباني في اسانيد محمد رفيع العثماني ، دوسرا جہادِ افغانستان ، فقہ و تصوف ، خدمتِ خلق وغیرہ کی تعبیر" قابلِ ذکر ہیں۔
آپ والا جامعہ دارالعلوم کراچی میں منصبِ صدارت کے ساتھ ساتھ درسِ مسلم شریف اور تخصص فی الافتاء کے شرکا کو وقت دیتے رہے نیز اہم مسائل اور استفتاءات کے جوابات دینا اور ان کی تصدیق اور تصویب کرنا بھی آپ کے اہم مشاغل میں سے رہا ، ان سب کے علاوہ آپ کئی اصلاحی و تعلیمی تنظیموں کے سرپرست اور کئی اداروں کے مجلسِ شوریٰ کے فعّال رکن بھی رہے۔
اپنے ملک و ملت کے لیے سیاست و انتظام ، عدالت و قضا ، معیشت واقتصاد اور تعلیم کے میدان میں آپ نے قابلِ قدر خدمات انجام دی ہیں ، آپ نے متعدد سرکاری و غیر سرکاری عہدوں پر رہ کر گراں مایہ خدمات انجام دی ہیں۔
*حضرت والاؒ کا ذوقِ مطالعہ اور خطابت*:- آخرِ عمر میں بھی طلبِ علم میں انہماک اور ذوقِ مطالعہ کی صفت درجۂ کمال کو پہنچی ہوئی نظر آئی ، اکثر و بیشتر مطالعے میں رات کے ایک دو بج جاتے اور بسا اوقات رات کی طوالت کا بالکل پتہ نہیں چلتا ، اچانک اذانِ فجر کی آواز رات کے ختم ہونے کا احساس دلاتی ، ان تمام خوبیوں کے ساتھ اللہ تعالی نے آپ کو حسنِ خطاب سے بھی نوازا تھا ، آپ کے خطبات و بیانات شریعت و طریقت کا حسین امتزاج ہوتے ہیں جن میں عالمانہ تحقیق ، فقیہانہ نکتہ وری کے ساتھ ساتھ ایک بلند پایا صوفی ، مصلح اور مربی کی سوچ بھی جلوہ نما ہوتی۔
*حضرت والاؒ کا فیض*:- آپؒ کے علم و فضل سے دنیا کے بہت سے ممالک کے مسلمان کو استفادے کا موقع ملا ، وقتا فوقتا آپ کو جن علاقوں میں دورہ کرنے کا موقع ملا ان میں برِ اعظم ایشیا ، برِ اعظم افریقہ ، برِ اعظم یورپ ، برِ اعظم امریکا کے تقریباً ۵۰ ممالک شامل ہیں۔
*انتقال پر ملال* : ١٨ نومبر ٢٠٢٢ مطابق ٢٣ ربیع الآخر ٢٢٤١ شنبہ کی شب میں آپؒ نے داعیِ اجل کو لبیک کہا۔
(بحوالہ مقدمہ فتاویٰ دار العلوم کراچی (امداد السائلین) و مقدمہ نوادر الفقہ)