علامہ ڈاکٹر يوسف قرضاوى کى شخصیت

مشاہیر اسلام
علامہ ڈاکٹر یوسف قرضاوی کی شخصیت

ابتدائی زندگی 

یوسف قرضاوی کی پیدائش 9 ستمبر 1926ء کو مصر کے  مغربی صوبے کا علاقہ  المحلہ الکبری کے ایک گاؤں "صفط تراب" میں ہوئی- 

اور 26 ستمبر 2022 کو 96 سال کى عمر ميں قطر کى دار الحکومت دوحہ ميں ان کی وفات ہوئى- انا للہ و ان الیہ راجعون !

علامہ یوسف القرضاوی کی کم سنی میں ان کے والد فوت ہوگئے تھے، ان کی پرورش چچا نے کی، گھر والوں کی خواہش تھی کہ آپ بڑھئی یا دکان دار بنیں۔ لیکن انہوں نے قرآن کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور صرف 9 سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کر لیاتھا۔

تعلیم اور خدمات

 قرآن کے حفظ کے بعد جامع ازہر میں داخل ہوئے اور وہاں سے ثانویہ  کے امتحان میں پورے مصر میں دوسرى پوزيشن حاصل کی۔  پھر جامع ازہر کے کلیہ اصول الدین میں داخلہ لیا اور وہاں  1953ء میں بی ایس اسلامیات کی سند حاصل کی، جس میں وہ اپنے ایک سو اسی ساتھیوں میں اول درجے سے کامیاب ہوئے۔ پھر 1954ء میں کلیہ اللغہ سے اجازتِ تدریس کی سند حاصل کی اور اس میں پانچ سو طلبائے ازہر کے درمیان اول درجے سے کامیاب ہوئے۔ 

اس کے بعد 1958ء میں انھوں نے عرب لیگ کے ملحقہ "معہد دراسات اسلامیہ" سے عربی زبان و ادب میں ڈپلوما کیا، ساتھ ہی ساتھ 1960ء میں جامع ازہر کے کلیہ اصول الدین سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی، 

1973ء میں وہیں سے اول  درجے سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی،  مقالہ کا موضوع تھا "زکوٰۃ اور معاشرتی مشکلات میں اس کا اثر" ۔

 تعلیم سے فراغت کے بعد وہ کافی عرصہ مصر کی وزارت مذہبی امور سے  وابستہ رہے ۔ 

علامہ یوسف القرضاوی علامہ ابن تیمیہ ، علامہ ابن قیم ،شیخ حسن البنا ، سید قطب ، مولانا ابو الحسن ندوی اور مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی فکر سے متاثر تھے ، مولانا ابو الاعلیٰ مودودی پر انہوں نے کتاب بھی لکھی ہے ۔

علامہ قرضاوی علماء اسلام کی عالمی تنظیم کے سربراہ تھے، موتمر عالمی اسلامی سمیت متعدد فورمز کے رکن اور عہدے دار تھے ۔ اور دنیا کے مختلف ملکوں میں ان کے پیروکاروں اور شاگردوں کی کثیر تعداد ہے۔

اس کے علاوہ 2004 سے قائم مسلم اسکالرزکی بین الاقوامی یونین کے چیئرمین  تھے اور 14 سال تک اس عہدے پر فائز رہے ۔

 القرضاوی اپنے وکالت کے کام کے علاوہ تصنیف و تالیف میں بھی مصروف رہے ہیں، وہ کئی بلند پایہ کتب کے مصنف ہیں۔ انھوں نے اسلامی ثقافت کے مختلف پہلوؤں سے متعلق درجنوں کتابیں تصنیف کی ہیں، جنہیں دانشور مذہبی گفتگو کی تجدید کی مسلسل کوششوں کے طور پر درجہ بندی کرتے ہیں۔

 علامہ یوسف القرضاوی نے قرآن ،حدیث، تفسیر ،سیرت ،فقہ ،معاشیات اور جدید موضوعات پر سینکڑوں کتابیں تصنیف کیں ،ان کے فتاویٰ کا مجموعہ کئی جلدوں میں چھپ چکا ہے ۔ ان کی اکثر کتابوں کا دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے ۔

یوسف القرضاوی نے زندگی کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے بہت سے فتوے جاری کیے جن میں سے کچھ متنازعہ بھی تھے اور وہ قطری  چینل الجزیرہ کے ایک مذہبی پروگرام میں باقاعدہ مہمان تھے۔

علامہ یوسف القرضاوی کے افکار اور ان کے ناقدین

علامہ یوسف القرضاوی مصر کی اسلام پسند جماعت “الاخوان المسلمون” کے حامی علماء میں شمار ہوتے تھے اخوان کی خواہش کے باوجود وہ کبھی اس جماعت کے عہدے دار نہیں رہے، اخوان کی حمایت کی پاداش میں 1949 میں انہیں جیل بھی جانا پڑا ۔ وہ کئی مرتبہ مصری حکم رانوں کے عتاب کا نشانہ بنے اور جیل گئے ۔

وہ دنیا بھر میں پر امن اسلامی تحریکات کے پر زور حامی تھے فلسطین کے مسلمانوں اور ان کی تحریک کی غیر مشروط حمایت کرتے تھے، وہ فلسطینیوں کی مسلح جدو جہد کو کسی لگی لپٹی کے بغیر جائز سمجھتے تھے۔

جب مصر میں ان جیسے حق گو عالم کے لئے مصر میں قیام مشکل بنا دیا گیا تو 1961 کو انہوں نے قطر کو اپنا مسکن بنایا، وہ قطر یونیورسٹی کی شریعہ فیکلٹی کے ڈین بھی رہے، 1968 میں قطر نے ان کو شہریت دی تھی، انہوں نے مصری فوج کے ہاتھوں اخوان المسلمون کی منتخب حکومت کے خاتمے کی کھل کر مخالفت کی جس کی وجہ سے مصری اور سعودی حکومت کے زیر عتاب بھی رہے ۔

اپنی زندگی میں، القرضاوی نے کئی عوامی بغاوتوں کے لیے اپنے حمایتی موقف کی وجہ سے بہت سارے تنازعات کو جنم دیا  ان میں سے ایک عرب بہار کے نام سے جانا جاتاہے۔

جہاں کچھ لوگوں نے انہیں سیاسی آزادی کے حامی کے طور پر دیکھا، وہیں ایک اور گروہ نے  انتہا پسند مذہبی گروہوں کا حامی سمجھا۔

سنہ 2015 میں مصر میں ان کی عدم موجودگی میں ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا تھا اورعدالت نے انھیں کالعدم مذہبی سیاسی جماعت الاخوان المسلمون سے تعلق کے الزام میں سزائے موت سنائی تھی۔ انھیں مصر کی کالعدم مذہبی سیاسی جماعت اخوان المسلمون کا روحانی قائد سمجھا جاتا تھا، ان کے لیکچرز اور جمعہ کے خطبات الجزیرہ ٹیلی ویژن چینل پر نشر کیے جاتے رہے ہیں۔ وہ مصر کے موجودہ صدرعبدالفتاح السیسی کے سخت ناقد ہیں اور ان کی تنقید کی وجہ سے قطر اور دوسرے خلیجی ممالک کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔

مصری عدالت نے علامہ قرضاوی، ڈاکٹر محمد مرسی اور اخوان کے دوسرے کارکنان کو سنہ 2011ء کے اوائل میں سابق مطلق العنان صدر حسنی مبارک کے خلاف عوامی احتجاجی تحریک کے دوران دارالحکومت قاہرہ کے شمال میں واقع ایک جیل کو توڑنے کے جرم میں سزائے موت سنائی تھى- علامہ صاحب نے اس واقعے میں اپنے کسی قسم کے کردار کی تردید کی  اور فرمايا تھا کہ جب اس جیل کو توڑا گیا تھا تو اس وقت وہ قطر میں مقیم تھے۔

القرضاوی نے 11 ستمبر کے حملوں اور بالی بم دھماکوں کی مذمت کی تھی اور طالبان کی جانب سے افغانستان میں بدھ کے مجسموں کو تباہ کرنے پر بھى تنقید کی تھی۔

انہوں نے 2003 میں عراق پر امریکی حملے کی بھی مذمت کی، اور فتویٰ جاری کیا کہ امریکی فوجیوں کی مزاحمت کرنی چاہیے۔

اور اسی طرح انہوں نے ایک فتویٰ جاری کیا جس میں یروشلم کے قبضے کے دوران جانے سے منع کیا گیاتھا، یہ فتویٰ جس پر یروشلمیوں نے تنقید کی، اور فلسطینی اتھارٹی نے اسے یروشلم کو یہودیانے کے اسرائیلی منصوبے سے ہم آہنگ قرار دیاتھا ، اور القرضاوی سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ واپس لے۔

القرضاوی کو اسرائیلی فوجیوں کو نشانہ بنانے والی خودکش کارروائیوں کی حمایت کی وجہ سے امریکہ اور برطانیہ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا، جسے انہوں نے "شہادت کی کارروائیوں" سے تعبیر کیا تھا۔

2011 میں ان کے خلاف پھوٹنے والے انقلاب کے دوران معمر قذافی کو قتل کرنے کا ان کا مطالبہ بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنا تھا، کیونکہ بہت سے لوگ ان کی گرفتاری اور مقدمے کا مطالبہ کر رہے تھے-

وہ 2011 میں کچھ عرصے کے لیے مصر واپس آئے تھے، اور جنوری 2011 میں عوامی بغاوت کے سب سے نمایاں شخصيات میں سے ایک تھے، جس نے صدر حسنی مبارک کی حکومت کا تختہ الٹ دیا، اور اس عرصے کے دوران وسطی قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں جمعہ کے کئی خطبات دیے۔

مصری حکام القرضاوی پر اخوان المسلمون کے روحانی رہنما ہونے کا الزام لگاتے ہیں، ان پر مصر میں 2013 سے پابندی عائد ہے، صدر عبدالفتاح السیسی نے، جب وہ فوج کے سربراہ تھے، اسی سال جولائی میں اس گروپ کو معزول کر دیا تھا۔ 

2015 میں، قاہرہ کی فوجداری عدالت نے سابق اسلام پسند صدر محمد مرسی کے خلاف اس مقدمے میں سزائے موت کی توثیق کی جسے میڈیا میں "جیل میں طوفان" کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اور اس مقدمے میں 129 ملزموں پر مقدمہ چلایا تھا جن میں 27 گرفتار ہوئے تھے  اور 102 مفرور جن میں فلسطینی تحریک حماس اور لبنانی حزب اللہ کے ارکان بھی شامل تھے۔ عدالت نے غیر حاضری میں القرضاوی سمیت 90 سے زائد مفرور ملزمان کو پھانسی دینے کا فیصلہ سنایاتھا۔

انٹرپول نے مصر کی درخواست پر 2014 میں ان کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تھا، اس سے پہلے کہ چار سال بعد وارنٹ واپس لے لیے گئے تھے۔

 سعودی عرب اور دیگر خلیجی اور عرب ممالک نے انہیں ان شخصیات کی فہرست میں شامل کیا تھا جن کو ۔ دہشت گرد" کہا گیا ہے۔

قطر میں ان کی موجودگی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے کئی سالوں تک دوحہ کا بائیکاٹ کرنے کی ایک وجہ تھی۔

علامہ یوسف قرضاوی ؒ کی تصنیفات کی فہرست: 

1 الحلال والحرام في الإسلام

2 فتاوى معاصرة

3 تيسير الفقه للمسلم المعاصر

4 تيسير فقه الصيام

5 فقه اللهو والترويح

6 الاجتهاد في الشريعة الإسلامية

7 المدخل لدراسة الشريعة الإسلامية

8 من فقه الدولة في الإسلام

9 الفتوى بين الانضباط والتسيب

10 في فقه الأقليات المسلمة

11 فقه الزكاة

12 فوائد البنوك هي الربا الحرام

13 دور الزكاة في علاج المشكلات الاقتصادية وشروط نجاحها

14 كيف نتعامل مع القرآن العظيم

15 الحياة الربانية والعلم

16 النية والإخلاص

17 الإخوان المسلمون سبعون عاما في الدعوة والتربية والجهاد

18 الوقت في حياة المسلم

19 الصحوة الإسلامية وهموم الوطن العربي والإسلامي

20 أولويات الحركة الإسلامية في المرحلة القادمة

21 في فقه الأولويات دراسة جديدة في ضوء القرآن والسنة

22 الإسلام والعلمانية وجها لوجه

23 ملامح المجتمع المسلم الذي ننشده

24 غير المسلمين في المجتمع الإسلامي

25 شريعة الإسلام صالحة للتطبيق في كل زمان ومكان

26 الصحوة الإسلامية بين الجحود والتطرف

27 الصحوة الإسلامية بين الاختلاف المشروع والتفرق المذموم

28 من أجل صحوة راشدة تجدد الدين وتنهض بالدنيا

29 تاريخنا المفترى عليه

30 نحن والغرب

31 الدين والسياسة

32 الحلول المستوردة

33 الحل الإسلامي فريضة وضرورة

34 بينات الحل الإسلامي وشبهات العلمانيين والمتغربين

35 موقف الإسلام من الإلهام والكشف والرؤى والتمائم والكهانة والرقي

36 الإيمان والحياة

37 العبادة في الإسلام

38 الخصائص العامة للإسلام

39 مدخل لمعرفة الإسلام

40 الإسلام .. حضارة الغد

41 جيل النصر المنشود

42 خطب الشيخ القرضاوي

43 كلمات في الوسطية ومعالمها

44 الإمام الغزالي بين مادحيه وناقديه

45 الشيخ أبو الحسن الندوي كما عرفته

46 عالم وطاغية

47 الإسلام والفن

48 الأقليات الدينية والحل الإسلامي

49 القدس قضية كل مسلم

50 ظاهرة الغلو في التكفير

51 مع أئمة التجديد ورؤاهم في الفكر والإصلاح

52 البابا والإسلام

53 السنة والبدعة

54 لماذا الإسلام

55 لكي تنجح مؤسسة الزكاة في التطبيق المعاصر

56 الحكم الشرعي في ختان الإناث

57 خطابنا الإسلامي في عصر العولمة

58 رعاية البيئة في شريعة الإسلام

59 اقرأ أيضاً

60 المصادر

61 وصلات خارجية

--------------------

علامہ یوسف قرضاوی ؒ کے بارے میں مزید جاننے کیے دیکھیں :  ویپ سائٹ 

علامه يوسف قرضاوي ؒ کی تصنیفات آن لائن مطالعہ  کیلے دیکھیدں