" آج دنیا کے پاس وسائل کی کمی نہیں اگر کمی ہے تو اخلاق اور مقاصد زندگی کی ، یہ صرف انبیاء کرام اور آسمانی کتب میں ہیں ۔ آج دنیا کی تعمیر نو صرف اس طرح ممکن ہے کہ جو وسائل و زرائع جدید دور میں انسانوں نے پیدا کرلیے ان کی مدد سے اور انبیاء اور آسمانی کتب میں موجود انسانیت کے اخلاق اور مقاصد زندگی کی مدد سے دنیا کی تعمیر نو کی جائے ۔" (مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )
1958 کا مارشل لا: پاکستانی تاریخ کی ’تاریک ترین‘ رات
اردو ادب میں صنعتِ تلازم یا متلازمہ سے کیا مراد ہے ؟
ادب میں اس سے مراد ہے لفظوں يا فقروں کے معانى کا ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻻﺯﻡ ﻭ ﻣﻠﺰﻭﻡ ہونا ۔ جیسے شاعرنے کہا :
" ﮨﻮﺍﺅﮞ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﭘﺘﮧ ﭘﻮﭼﮫ ﻟﯿﮟ ﮔﮯ
ﻣﮩﮏ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﮔﯽ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮔﺎ"
ﯾﮩﺎﮞ " ﻣﮩﮏ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ " ﻣﺘﻼﺯﻡ ﮨﯿﮟ. ﻟﻔﻆ ﻣﺘﻼﺯﻡ ﻋﺮﺑﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺛﻼﺛﯽ ﻣﺰﯾﺪ ﻓﯿﮧ ﺑﮯ ﮨﻤﺰﮦ ﻭﺻﻞ ﮐﮯ ﺑﺎﺏ ﺗﻔﺎﻋﻞ ﺳﮯ ﺍ ﺳﻢ ﻓﺎﻋﻞ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﺑﻄﻮﺭ ﺻﻔﺖ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺑﺎﺏ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺻﯿﺖ ﺗﺸﺎﺭﮎ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺏ ﮐﺎ ﻓﻌﻞ Word ﺩﻭ ﺍﺳﻤﺎﺀ Nouns ﮐﮯ ﻣﺎﺑﯿﻦ ﺍﺷﺘﺮﺍﮎ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﺘﻼﺯﻡ ﮐﺎ ﻣﺼﺪﺭ ﺗﻼﺯﻡ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺎﮨﻢ ﻻﺯﻡ ﮨﻮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺘﻼﺯﻡ ﺍﺳﻢ ﻓﺎﻋﻞ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽٰ ﮨﮯ ﺑﺎﮨﻢ ﻻﺯﻡ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﻻﺯﻡ ﮨﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺷﺮﯾﮏ ﮨﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ ﺁﮒ ﺍﻭﺭ ﺩﮬﻮﺍﮞ ﻣﺘﻼﺯﻡ ﮨﯿﮟ ( ﺁﮒ ﺟﻠﮯ ﮔﯽ ﺗﻮ ﻻﺯﻣﺎ ﺩﮬﻮﺍﮞ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮔﺎ ) ۔ ﺑﮭﻮﮐﺎ ﺭﮨﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ ﻣﺘﻼﺯﻡ ﮨﯿﮟ ( ﺑﮭﻮﮐﮯ ﺭﮨﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﻻﺯﻣﺎ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ ﺑﮭﯽ ﺁﺋﮯ ﮔﯽ ) ۔ ﻇﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﭘﮑﮍ ﻣﺘﻼﺯﻡ ﮨﯿﮟ ( ﻇﻠﻢ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﮐﮯ ﺗﻮ ﻻﺯﻣﺎ ﭘﮑﮍ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ ) ۔ ﺧﻠﻮﺹ ﺍﻭﺭ ﻗﺒﻮﻟﯿﺖ ﻣﺘﻼﺯﻡ ﮨﯿﮟ ( ﺍﺧﻼﺹ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﺗﻮ ﻻﺯﻣﺎ ﻗﺒﻮﻟﯿﺖ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ )
ﺍﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﺎﺏ ﺗﻔﺎﻋﻞ ﺳﮯ ﺗﻘﺎﺗﻞ ﻣﺼﺪﺭ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻢ ﻓﺎﻋﻞ ﻣﺘﻘﺎﺗﻞ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺎﮨﻢ ﻗﺘﺎﻝ ﮐﺮﻧﺎ ( ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳرﮯ ﮐﻮ مارنا )، ﺗﺒﺎﺩﻝ ﻣﺼﺪﺭ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻢ ﻓﺎﻋﻞ ﻣﺘﺒﺎﺩﻝ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺎﮨﻢ ﺑﺪﻝ ( ﺍﻟﮓ ﺍﻟﮓ ) ﮨﻮﻧﺎ ( ﺑﺮﻋﮑﺲ ) ، ﺗﺒﺎﺭﮎ ﻣﺼﺪﺭ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻢ ﻓﺎﻋﻞ ﻣﺘﺒﺎﺭﮎ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺎﮨﻢ ﺑﺮﮐﺖ ﻭﻻ ﮨﻮﻧﺎ ( ﺑﺮﮐﺖ ﻭﺍﻟﯽ ﭼﯿﺰ ﮐﮯ ﺳﺒﺐ ﺑﺮﮐﺖ ﻭﺍﻻ ﮨﻮﻧﺎ )
ﻣﺰﯾﺪ ﺗﻔﺼﯿﻞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻋﻠﻢ ﺻﺮ ﻑ ﮐﯽ ﮐﺘﺐ ﻣﻼﺣﻈﮧ ﮐﯽ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﯿﮟ ﮨﯿﮟ.
ﺍﺩﺑﯽ ﺗﻨﻘﯿﺪﯼ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻟﻔﻆ ﺑﮩﺖ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ : ’’ ﺗﻼﺯﻣﮧ ‘‘
ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻻﺯﻡ ﻭ ﻣﻠﺰﻭﻡ ﻭﺍﻟﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﺣﺘﻤﯿﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﻮﻧﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ، ﺗﺎﮨﻢ ﯾﮧ ﺿﺮﻭﺭﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﺎﮨﻢ ﺑﮩﺖ ﻗﺮﯾﺒﯽ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﺳﻤﺎﺀ ، ﺍﻓﻌﺎﻝ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻻﮔﻮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
مثاﻝ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﯾﮧ ﺷﻌﺮ ﺩﯾﮑﮭﺌﮯ :
ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺑﺮ ﺗﮭﺎ ، ﮐﮧ ﻭﮦ ﺟﮭﯿﻞ ﺗﮭﯽ ، ﮐﮧ ﺳﺮﺍﺏ ﺗﮭﺎ
ﺳﻮ ﺑﺘﺎﺋﯿﮯ ، ﮐﮩﯿﮟ ﭘﺎﺋﯿﮯ ﺟﻮ ﺳﺮﺍﻍِ ﺩﻝ
محمد کاظم : عربی زبان و ادب کی معروف شخصیت کون ہیں؟
صحت کی حفاظت کے لیے کون سے طبی ٹیسٹ کروانے ضروری ہیں؟
10 وہ ملازمتیں جن میں سنہ 2023 اور 2027 کے درمیان ترقی کی سب سے زیادہ صلاحیت ہے۔
قربانی کی عبادت : چند اہم سوالات- محمد عمار خان ناصر
اسلام میں جذبہ عبودیت کے اظہار کے لیے جو مخصوص طریقے اور مراسم
مقرر کیے گئے ہیں، ان میں جانوروں کی قربانی بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس حوالے سے
دور جدید میں پائے جانے والی ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ قربانی صدقہ اور انفاق کی
ایک صورت ہے اور جانور قربان کرنے کے بجائے اگر اس رقم کو اہل احتیاج کی عمومی
ضروریات پر صرف کیا جائے تو یہ رقم کا بہتر مصرف ہے۔قربانی کی عبادت : چند اہم سوالات - عمار خان ناصر
تاہم شرعی دلائل پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ قربانی، صدقہ وانفاق
کی ذیلی صورت نہیں، بلکہ ایک مستقل اور بذات خود مطلوب رسم عبادت ہے۔ سیدنا ابراہیم
علیہ السلام نے اللہ کے حکم پر بیٹے کو قربان کرنے کا فیصلہ کر کے جس جذبہ اطاعت
کا اظہار کیا تھا، قربانی اسی کی یادگار اور اس جذبے کا ایک علامتی اظہار ہے۔
قربانی کے گوشت سے فقرا اور محتاجوں کی امداد، اس کا ایک ضمنی اور اضافی پہلو ہے،
ورنہ پہلی شریعتوں میں قربانی کی ایک بڑی قسم ”سوختنی قربانی“ ہوتی تھی جس میں
جانور کو ذبح کر کے گوشت کو جلا دیا جاتا تھا اور اسے کھانے کی اجازت نہیں تھی۔
اس امت پر اللہ نے خاص عنایت کرتے ہوئے قربانی کا گوشت بھی کھانے کی اجازت دی ہے۔
اس سے واضح ہے کہ اس عمل میں اصل چیز جانور کو اللہ کے نام پر ذبح کرنا ہے، جبکہ
محتاجوں کی مدد اور اعانت ایک زائد پہلو ہے۔ اس وجہ سے ان مخصوص دنوں میں تقرب
الٰہی کے لیے جانور ہی ذبح کرنا شریعت کا مطلوب ہے۔ یہ رقم بطور صدقہ فقرا پر صرف
کرنے سے شریعت کا منشا پورا نہیں ہوگا۔
قربانی سے متعلق دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ شریعت میں عید الاضحی کے موقع پر قربانی ، فقہی طور پر کیا درجہ رکھتی ہے؟ کیا اس کا درجہ، وجوب کا ہے اور کیا یہ ہر اس شخص پر واجب ہے جو ایک مخصوص مالی نصاب کا مالک ہو؟ اس ضمن میں امت کے اہل علم کے مواقف مختلف ہیں۔ جمہور صحابہ وتابعین اور جمہور فقہائے امت کی رائے یہ ہے کہ قربانی ایک مسنون اور مستحب عمل ہے، یعنی واجب نہیں ہے۔ یہ قول صحابہ میں سے سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن عمر، عقبة بن عمرو، ابو مسعود انصاری، شعبی اور بلال رضی اللہ عنہم سے جبکہ تابعین میں سے علقمہ، عطا اور سعید بن المسیب وغیرہ سے منقول ہے (جصاص، احکام القرآن، ۳/۲۴۸۔ مصنف عبد الرزاق، ۸۱۳۴، تا ۸۱۵۶) اور ان میں سے ابو مسعود، عقبہ بن عمرو، اور علقمہ اس امر کی باقاعدہ تصریح کرتے ہیں کہ ان کے قربانی نہ کرنے کا باعث یہ ہے کہ لوگ کہیں اس کو واجب نہ سمجھ لیں۔
پیمبرانہ حکمت کے شاعر سعدی شیرازی اور ان کی شاعری اور تصنیفات
سعدی شیرازی جوسومنات مندر کے کرشمے کا راز جاننے کے لیے برہمن بھی بنے
طیب اردوغان: لیموں پانی اور بیگل بریڈ فروخت کرنے والا نوجوان ترکی کا طاقتور سربراہ کیسے بنا؟
طیب اردوغان ترکی کا طاقتور سربراہ کیسے بنا ؟ |
3 جون 1947: برطانوی حکومت کے انڈیا میں منتقلی اقتدار اور تقسیم ہند کا اہم فیصلہ کیسے ہوا ؟
برطانوی حکومت کے انڈیا میں منتقلی اقتدارکے اعلان پر (قاعد اعظم) محمد علی جناح کا رد عمل
بی بی سی اردو
تاریخ اشاعت : 3 جون 2017
نو آبادیاتی ہندوستان کا نقشہ 1911ء |
70 پرس پہلے 3 جون 1947 کو برطانوی حکومت نے انڈیا میں اقتدار کی منتقلی اور ملک کی تقسیم کا اعلان کیا۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی اور وائس رائے لارڈ ماؤٰنٹ بیٹن کی تقریر کے بعد اپنے رد عمل میں کہا کہ برطانوی حکومت کے اس اعلان پر انتہائی تحمل اور ٹھنڈے دل سے غور کرنا ہوگا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ منصوبہ کچھ اہم پہلوؤں میں ہماری توقعات پر پورا نہیں اترتا لیکن اس پر حتمی فیصلہ آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل میں لیا جائے گا۔
محمد علی جناح کے بیان کا اردو ترجمہ:
ہِز میجسٹی کی حکومت کا ہندوستان کے لوگوں کے لیے انتقال اقتدار کے منصوبے کے بارے میں بیان نشر کیا جا چکا ہے، اور انڈیا اور بیرون ملک ذرائع ابلاغ میں کل اشاعت کے لیے پریس کو ریلیز کر دیا جائے گا۔
اس بیان میں اِس منصوبے کے خد و خال بیان کیے گئے ہیں جس پر ہمیں پوری سنجیدگی سے غور کرنا ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس منصوبے کا جائزہ ٹھنڈے دماغ اور غیر جذباتی انداز میں لیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیں اس عظیم برصغیر کے سیاسی مسائل کے حل کے لیے، جس میں چالیس کروڑ لوگ رہتے ہیں، نہایت اہم اور گمبھیر فیصلے کرنا ہیں۔ جس قدر بھاری ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ اور اس حوالے سے سب سے بڑی ذمہ داری ہندوستان کے سیاسی رہنماؤں کے کاندھوں پر ہے۔ ہمیں اپنی تمام تر توانائیاں اس بات پر صرف کرنی چاہئیں کہ انتقالِ اقتدار کا یہ مرحلہ مؤثر اور پر امن انداز میں پایہ تکمیل کو پہنچے۔
میری تمام طبقات خاص طور پر مسلمانوں سے مخلصانہ اپیل ہے کہ وہ نظم و ضبط قائم رکھیں۔ ہمیں اس منصوبے کی روح کو سمجھتے ہوئے کسی نتیجے پر پہنچنا ہو گا۔
میں اس فیصلہ کن مرحلے پر خدا کی رہنمائی طلب کرتا ہوں تاکہ ہم اپنی ذمہ داری منصوبے کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے سمجھداری سے اور معتبرانہ انداز میں پوری کر سکیں۔
اصلاح و تجدید کی ضرورت اور تاریخ اسلام میں ان کا تسلسل - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی
زندگی متحرک ہے اور تغیر پذیر ہے:
اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے، اور کامل و مکمل طور پر دنیا کے سامنے آچکا ہے، اور اعلان کیا جاچکا ہے کہ الْيَوْمَ
أَكْمَلْتُ
لَكُمْ
دِينَكُمْ
وَأَتْمَمْتُ
عَلَيْكُمْ
نِعْمَتِي
وَرَضِيتُ
لَكُمُ
الْإِسْلَامَ
دِينًا
ۚ
(المائدہ-3)ترجمہ: آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور دین کی حیثیت سے اسلام کو تمہارے لیے پسند کرچکا۔ ایک طرف تو اللہ کا دین مکمل ہے، دوسری طرف یہ حقیقت ہے کہ زندگی متحرک اور تغیر پذیر ہے، اور اس کا شباب ہر وقت قائم ہے۔
جاوداں،
پیہم
دواں،
ہردم
جواں
ہے
زندگی
اس رواں دواں اور سداجواں زندگی کا ساتھ دینے اور اس کی رہنمائی کے لئے اللہ تعالٰے نے آخری طور پر جس دین کو بھیجا ہے، اس کی بنیاد اگرچہ"ابدی عقائدوحقائق"پر ہے مگر وہ زندگی سے پُر ہے، اور حرکت اسکی رگ و پے میں بھری ہوئی ہے، اس میں اللہ تعالٰی نے یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ ہر حال میں دنیا کی رہنمائی کرسکے، اور ہر منزل میں تغیر پذیر انسانیت کا ساتھ دے سکے، وہ کسی خاص عہد کی تہذیب یا کسی خاص دور کا فن تعمیر نہیں ہے جو اس دور کی یادگاروں کے اندر محفوظ ہو اور اپنی زندگی کھوچکا ہو، بلکہ ایک زندہ دین ہے جو علم و حکیم صانع کی صنعت کا
بہترین نمونہ ہے۔
ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ
﴿الانعام:٩٦﴾
یہ ہے اندازہ غالب اور علم رکھنے والے
کا۔
صُنْعَ اللَّـهِ الَّذِي أَتْقَنَ
كُلَّ شَيْءٍ ۚ ﴿النمل:٨٨﴾
کاریگری اللہ کی جس نے ہر چیز کو محکم
کیا۔
اُمتِ اسلامیہ کا زمانہ سب سے زیادہ
پُر از تغیرات ہے
یہ دین چونکہ آخری اور عالمگیر دین ہے اور یہ امت آخری اور عالمگیر اُمت ہے اس لئے یہ بالکل قدرتی بات ہے کہ دنیا کے مختلف انسانوں اور مختلف زمانوں سے اس امت کا واسطہ رہے گا اور ایسی کشمکش کا اس کو مقابلہ کرنا ہو گا، جو کسی دوسری امت کو دنیا کی تاریخ میں پیش نہیں آئی۔ اس امت کو جو زمانہ دیا گیا ہے، وہ سب سے زیادہ پُر از تغیرات اور پُر از انقلابات ہے اور اس کے حالات میں جتنا تنوع ہے، وہ تاریخ کے کسی گذشتہ دور میں نظر نہیں آتا۔