بی بی سی اردو ۱۸ اگست ۲۰۲۳
مشہور مقولہ ہے کہ احتیاط، علاج سے کہیں بہتر ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی اس پر عمل بھی کرتے ہیں اور کیا ہمیں اپنی صحت کی کوئی فکر بھی لاحق رہتی ہے؟
آج کے دور میں 30 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے اولاد خاندانی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانا شروع کر دیتی ہے۔ اس کے ساتھ اُن پر کام کا بوجھ بھی ہوتا ہے۔ اس طرح کے مشکل حالات میں ہمارے لیے اپنی صحت پر توجہ دینے کے لیے وقت نکالنا ایک مشکل معاملہ بن جاتا ہے۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ 30 سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد آپ کو اپنے جسم کا خیال رکھنا شروع کر دینا چاہیے۔
اپنے جسم پر توجہ دے کر ہم ان بیماریوں سے بچ سکتے ہیں جو عمر بڑھنے اور ہمارے طرز زندگی میں تبدیلی کی وجہ سے ہمیں لاحق ہو سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق 30 کی دہائی میں طرز زندگی کی بیماریاں جیسے دل کی بیماری، ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، موٹاپا اور کینسر کا خطرہ ہوتا ہے۔ کھانے پینے کی عادات میں تبدیلی اور جسم کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہم ایسی بیماریوں کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔
ان ماہرین کے مطابق ماضی میں دل کے دورے کا خطرہ صرف پچاس سال کی عمر کے لگ بھگ رہتا تھا مگر اب 30 سال کی عمر کے افراد میں بھی یہ خطرہ عام ہو گیا ہے۔
ڈاکٹر سنویدا چمیل کے مطابق ایسے میں بہتر ہے کہ بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد ہسپتالوں کا رخ کرنے کے بجائے احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔ ان کے مطابق بروقت اور درست تشخیص سے بیماری سے بچا جا سکتا ہے اور اس مقصد کے لیے طبی معائنے کی ضرورت ہے۔
کون سے ٹیسٹ کروائے جائیں؟
ڈاکٹر سنویدا نے ہمیں تشخیصی ٹیسٹ جیسے خصوصی ٹیسٹ، بلڈ ٹیسٹ، میڈیکل ٹیسٹ کے بارے میں بتایا ہے۔
بلڈ پریشر چیک کریں: ڈاکٹر کے پاس جاتے وقت سب سے پہلے اپنا بلڈ پریشر چیک کرنا ضروری ہوتا ہے۔ 120-80 کا بی پی نارمل ہے۔ ہائی بلڈ پریشر دل کی بیماری کے خطرے کی علامت ہے۔ اس لیے 30 سال کی عمر کے بعد وقتاً فوقتاً اپنا بلڈ پریشر چیک کرواتے رہنا چاہیے۔
ماہرین گھر میں ڈیجیٹل بلڈ پریشر مانیٹر رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ یہ کام گھر پر ہی کر لیا جائے۔
خون کا ٹیسٹ: آپ نے اس کے بارے میں کئی بار سنا ہو گا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سی بی سی کروائیں۔ سی بی سی کا مطلب ہے مکمل خون کے خلیوں کی گنتی۔ یہ ایک بہت عام ٹیسٹ ہے۔ یہ خون میں موجود خلیات کے بارے میں مکمل تفصیلات فراہم کرتا ہے۔
یہ ٹیسٹ خون کی کمی، انفیکشن اور کینسر کی بعض اقسام کا پتہ لگا سکتا ہے۔
پاکستان اور انڈیا میں خواتین میں خون کی کمی جیسی بیماری کافی عام ہے۔ خون کی کمی خون کے سرخ خلیوں میں ہیموگلوبن کی شرح کو کم کرتی ہے جس کی وجہ سے خلیات کو مناسب مقدار میں آکسیجن نہیں ملتی۔
اس لیے ماہرین اس ٹیسٹ کو سال میں کم از کم ایک بار کروانے کا مشورہ دیتے ہیں۔
بلڈ شوگر ٹیسٹ (خون میں ذیابیطس کی سطح): اسے شوگر ٹیسٹ کہا جاتا ہے۔ اس ٹیسٹ سے 12 گھنٹے پہلے کچھ کھانا پینا نہیں چاہیے۔ 99 سے کم خون میں ذیابطیس کی سطح کو نارمل سمجھا جاتا ہے۔
100 اور 125 کے درمیان خون میں ذیابطیس کی سطح کو ’پری‘ ذیابیطس سمجھا جاتا ہے۔ 126 سے اوپر اس کی تشخیص ذیابیطس کے طور پر کی جاتی ہے۔
اگر بلڈ شوگر زیادہ ہو تو HbA1c ٹیسٹ کرانا چاہیے۔ یہ عام طور پر پچھلے تین مہینوں میں آپ کے بلڈ شوگر کی اوسط سطح کو ظاہر کرتا ہے۔
لپڈ پروفائل: یہ اہم طبی معائنہ ہوتا ہے۔ اس سے ہی پتا چلتا ہے کہ آپ کا دل کیسے کام کرتا ہے اور تفصیلاب بھی معلوم ہو جاتی ہیں۔
یہ سیرم ٹرائگلیسرائڈز اور کولیسٹرول کی سطح کو چیک کرتا ہے۔
ایچ ڈی ایل (ہائی ڈینسٹی لیپو پروٹین) کولیسٹرول جسم کے لیے بہت اچھا ہے۔ ہائی ایچ ڈی ایل کی سطح والے لوگوں میں دل کا دورہ پڑنے، فالج اور دیگر صحت کے مسائل کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ یہ کم از کم 60 سے اوپر ہونا چا
ایل ڈی ایل (کم کثافت لیپو پروٹین) کولیسٹرول بُرا کولیسٹرول ہے۔ یہ آپ کی شریانوں میں رکاوٹ کا سبب بن سکتا ہے اور آپ کے دل کی بیماری کا خطرہ بڑھا سکتا ہے۔ یہ 130 سے کم ہونا چاہیے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹیسٹ دو سال میں کم از کم ایک بار کرانا چاہیے۔ موٹاپے اور ذیابیطس جیسی بیماریوں میں مبتلا افراد کے لیے سال میں ایک بار کرنا بہتر ہے۔
ای سی جی: اگر دل کی دھڑکن میں اتار چڑھاؤ ہو تو ڈاکٹر اس ٹیسٹ کا مشورہ دیتے ہیں۔
ای سی جی ٹیسٹ بتا سکتا ہے کہ آیا دل ٹھیک سے کام کر رہا ہے۔
لیور فنکشن ٹیسٹ: کیا جگر ٹھیک سے کام کر رہا ہے؟ یا جگر کے فنکشن ٹیسٹ جگر کی ناکامی کا پتا لگا سکتے ہیں۔
اس ٹیسٹ کے ذریعے آپ جان سکتے ہیں کہ کیا آپ کو ہیپاٹائٹس-بی، ہیپاٹائٹس-سی، فیٹی لیور وغیرہ ہے۔
باڈی ماس انڈیکس: طبی طور پر اسے موٹاپا کہتے ہیں۔ غلط طرز زندگی کی وجہ سے دنیا بھر میں موٹاپے کے شکار افراد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ موٹاپا دل کی بیماری، ذیابیطس اور دوسری بیماروں کا باعث بنتا ہے۔
انسان کا وزن کتنا ہونا چاہیے اس کی پیمائش اس کے قد سے ہوتی ہے۔ باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) ٹیسٹ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے جسم میں کتنی چربی ہے۔ ڈاکٹروں نے خبردار کیا ہے کہ زیادہ بی ایم آئی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔
پیشاب کا ٹیسٹ: آج کل بہت سے لوگ کم مقدار میں پانی پی رہے ہیں۔ سفر کے دوران عوامی بیت الخلا کا بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے حالات پیشاب کی نالی کے انفیکشن کا باعث بن سکتے ہیں۔ لہٰذا، یہ معلوم کرنے کے لیے پیشاب کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے کہ آیا پیشاب کی نالی میں انفیکشن ہے یا نہیں۔
سگریٹ پینے والوں میں مثانے کا کینسر ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ پیشاب میں خون آنا مثانے کے کینسر کی علامات میں سے ایک ہے۔ اس ٹیسٹ کے ذریعے پیشاب میں پروٹین، شوگر اور خون کی سطح معلوم کی جا سکتی ہے۔
گردے کے فنکشن ٹیسٹ: گردے ہمارے جسم سے فضلہ نکالنے کے لیے ذمہ دار ہیں۔ سیرم کریٹینائن ٹیسٹ یہ دیکھنے کے لیے کیا جاتا ہے کہ آیا گردے ٹھیک سے کام کر رہے ہیں۔ سیرم کریٹائن کی اعلیٰ سطح کا مطلب ہے کہ گردے ٹھیک سے کام نہیں کر رہے ہیں۔
تائرواڈ ٹیسٹ: زیادہ تر لوگوں کو 30 اور 40 سال کی عمر کے درمیان تھائرائیڈ کی بیماری ہوتی ہے۔ نتیجے کے طور پر جسم کا وزن یا تو بڑھتا ہے یا کم ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تھائرائیڈ کے معائنے کے ذریعے اس کا پتا چلایا جائے۔ آپ خون کے ٹیسٹ کے ذریعے تھائرائیڈ کے بارے میں جان سکتے ہیں۔
ڈاکٹروں کا مشورہ ہے کہ یہ ٹیسٹ سال میں کم از کم ایک بار کرایا جائے۔
وٹامن ڈی ٹیسٹ: عمر کے ساتھ ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کو 30 اور 40 کی دہائی میں وٹامن ڈی کی کمی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ کمزور ہڈیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں اور آسٹیوپوروسس جیسی بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔ اس لیے وٹامن ڈی ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے۔
ماہر امراض نسواں پرتیما دھمگے کا کہنا ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی والی خواتین کو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
پیپ سمیر ٹیسٹ: یہ سروائیکل ٹیسٹ ہے۔ خواتین میں چھاتی کے کینسر کے بعد رحم کے کینسر کے امکانات روز بروز بڑھ رہے ہیں۔
یہ ٹیسٹ بچہ دانی میں کسی بھی مسئلے کا کینسر میں بدلنے سے پہلے پتہ لگا سکتا ہے۔ 21 سال سے زیادہ عمر کی خواتین کو ان ٹیسٹوں سے گزرنا چاہیے۔ یہ ٹیسٹ پانچ سال میں ایک بار کروانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
چھاتی کا خود معائنہ: ڈاکٹر چھاتی کے کینسر کا پتہ لگانے کے لیے اس ٹیسٹ کا مشورہ دیتے ہیں۔
خواتین گھر پر اپنے سینوں کا خود معائنہ کر سکتی ہیں اور پھر مزید ٹیسٹ کے لیے ہسپتال کا رُخ کیا جا سکتا ہے۔
ماہواری کے مسائل: ماہواری کے دوران خون بہت زیادہ آتا ہو یا درد ناقابل برداشت ہو تو اس کے لیے خواتین کو چیک کرانا چاہیے۔ ضرورت پڑنے پر سونوگرافی کی جا سکتی ہے۔