اردو ادب میں صنعتِ تلازم یا متلازمہ سے کیا مراد ہے ؟

ادب میں اس سے مراد ہے لفظوں يا فقروں کے معانى کا  ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻻﺯﻡ  ﻭ ﻣﻠﺰﻭﻡ ہونا ۔ جیسے شاعرنے  کہا : 

" ﮨﻮﺍﺅﮞ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﭘﺘﮧ ﭘﻮﭼﮫ ﻟﯿﮟ ﮔﮯ

ﻣﮩﮏ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﮔﯽ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮔﺎ" 

ﯾﮩﺎﮞ " ﻣﮩﮏ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ " ﻣﺘﻼﺯﻡ ﮨﯿﮟ. ﻟﻔﻆ ﻣﺘﻼﺯﻡ ﻋﺮﺑﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺛﻼﺛﯽ ﻣﺰﯾﺪ ﻓﯿﮧ ﺑﮯ ﮨﻤﺰﮦ ﻭﺻﻞ ﮐﮯ ﺑﺎﺏ ﺗﻔﺎﻋﻞ ﺳﮯ ﺍ ﺳﻢ ﻓﺎﻋﻞ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﺑﻄﻮﺭ ﺻﻔﺖ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺑﺎﺏ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺻﯿﺖ ﺗﺸﺎﺭﮎ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺏ ﮐﺎ ﻓﻌﻞ Word ﺩﻭ ﺍﺳﻤﺎﺀ Nouns ﮐﮯ ﻣﺎﺑﯿﻦ ﺍﺷﺘﺮﺍﮎ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﺘﻼﺯﻡ ﮐﺎ ﻣﺼﺪﺭ ﺗﻼﺯﻡ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺎﮨﻢ ﻻﺯﻡ ﮨﻮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺘﻼﺯﻡ ﺍﺳﻢ ﻓﺎﻋﻞ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻌﻨﯽٰ ﮨﮯ ﺑﺎﮨﻢ ﻻﺯﻡ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﻻﺯﻡ ﮨﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺷﺮﯾﮏ ﮨﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ ﺁﮒ ﺍﻭﺭ ﺩﮬﻮﺍﮞ ﻣﺘﻼﺯﻡ ﮨﯿﮟ ( ﺁﮒ ﺟﻠﮯ ﮔﯽ ﺗﻮ ﻻﺯﻣﺎ ﺩﮬﻮﺍﮞ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮔﺎ ) ۔ ﺑﮭﻮﮐﺎ ﺭﮨﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ ﻣﺘﻼﺯﻡ ﮨﯿﮟ ( ﺑﮭﻮﮐﮯ ﺭﮨﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﻻﺯﻣﺎ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ ﺑﮭﯽ ﺁﺋﮯ ﮔﯽ ) ۔ ﻇﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﭘﮑﮍ ﻣﺘﻼﺯﻡ ﮨﯿﮟ ( ﻇﻠﻢ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﮐﮯ ﺗﻮ ﻻﺯﻣﺎ ﭘﮑﮍ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ ) ۔ ﺧﻠﻮﺹ ﺍﻭﺭ ﻗﺒﻮﻟﯿﺖ ﻣﺘﻼﺯﻡ ﮨﯿﮟ ( ﺍﺧﻼﺹ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﺗﻮ ﻻﺯﻣﺎ ﻗﺒﻮﻟﯿﺖ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ )

ﺍﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﺎﺏ ﺗﻔﺎﻋﻞ ﺳﮯ ﺗﻘﺎﺗﻞ ﻣﺼﺪﺭ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻢ ﻓﺎﻋﻞ ﻣﺘﻘﺎﺗﻞ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺎﮨﻢ ﻗﺘﺎﻝ ﮐﺮﻧﺎ ( ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳرﮯ ﮐﻮ مارنا  )،  ﺗﺒﺎﺩﻝ ﻣﺼﺪﺭ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻢ ﻓﺎﻋﻞ ﻣﺘﺒﺎﺩﻝ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺎﮨﻢ ﺑﺪﻝ ( ﺍﻟﮓ ﺍﻟﮓ ) ﮨﻮﻧﺎ ( ﺑﺮﻋﮑﺲ ) ، ﺗﺒﺎﺭﮎ ﻣﺼﺪﺭ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻢ ﻓﺎﻋﻞ ﻣﺘﺒﺎﺭﮎ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺎﮨﻢ ﺑﺮﮐﺖ ﻭﻻ ﮨﻮﻧﺎ ( ﺑﺮﮐﺖ ﻭﺍﻟﯽ ﭼﯿﺰ ﮐﮯ ﺳﺒﺐ ﺑﺮﮐﺖ ﻭﺍﻻ ﮨﻮﻧﺎ )

ﻣﺰﯾﺪ ﺗﻔﺼﯿﻞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻋﻠﻢ ﺻﺮ ﻑ ﮐﯽ ﮐﺘﺐ ﻣﻼﺣﻈﮧ ﮐﯽ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﯿﮟ ﮨﯿﮟ.

 ﺍﺩﺑﯽ ﺗﻨﻘﯿﺪﯼ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻟﻔﻆ ﺑﮩﺖ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ : ’’ ﺗﻼﺯﻣﮧ ‘‘

ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻻﺯﻡ ﻭ ﻣﻠﺰﻭﻡ ﻭﺍﻟﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﺣﺘﻤﯿﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﻮﻧﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ، ﺗﺎﮨﻢ ﯾﮧ ﺿﺮﻭﺭﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﺎﮨﻢ ﺑﮩﺖ ﻗﺮﯾﺒﯽ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﺳﻤﺎﺀ ، ﺍﻓﻌﺎﻝ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻻﮔﻮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔

مثاﻝ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﯾﮧ ﺷﻌﺮ ﺩﯾﮑﮭﺌﮯ :

ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺑﺮ ﺗﮭﺎ ، ﮐﮧ ﻭﮦ ﺟﮭﯿﻞ ﺗﮭﯽ ، ﮐﮧ ﺳﺮﺍﺏ ﺗﮭﺎ

ﺳﻮ ﺑﺘﺎﺋﯿﮯ ، ﮐﮩﯿﮟ ﭘﺎﺋﯿﮯ ﺟﻮ ﺳﺮﺍﻍِ ﺩﻝ

ﺍﺱ ﺷﻌﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﻼﺯﻣﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﺘﻌﺎﺭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﯿﮏ ﻭﻗﺖ ﭘﺎﺋﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺑﺮ ﺯﻟﻔﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ، ﺟﮭﯿﻞ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺮﺍﺏ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ؛ ﮐﮧ ﺩﻝ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﻢ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﺼﺮﻋﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻝ ﮐﺎ ﺳﺮﺍﻍ ، ﭘﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺘﺎﻧﺎ ﺑﺎﮨﻢ ﻣﺘﻼﺯﻡ ﮨﯿﮟ۔

ﻭﮦ ﻧﮕﺎﮦِ ﻧﺎﺯ ﮨﮯ ﻣﮩﺮﺑﺎﮞ ، ﺭﮨﮯ ﺍﺣﺘﯿﺎﻁ

ﺍﮮ ﻭﻓﻮﺭِ ﺷﻮﻕ ! ﭼﮭﻠﮏ ﻧﮧ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﯾﺎﻍِ ﺩﻝ

ﻧﮕﺎﮦِ ﻧﺎﺯ ، ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ﮨﻮﻧﺎ ، ﺩﻝ ﮐﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﻣﮉﻧﺎ ، ﺷﻮﻕِ ﻭﺻﺎﻝ ، ﺍﺱ ﮐﺎ ﻭﻓﻮﺭ ، ﺩﻝ ﮐﯽ ﭘﯿﺎﻟﮯ ﺳﮯ ﺗﺸﺒﯿﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﭼﮭﻠﮏ ﺟﺎﻧﺎ ، ﺍﺣﺘﯿﺎﻁ ﮐﯽ ﺗﻠﻘﯿﻦ ، ﯾﮧ ﺳﺎﺭﮮ ﻋﻨﺎﺻﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ کے تلازم ہيں-

اس  کی دریافت امریکی "سکالرولیم جیمس" نے کی تھی۔ اس کے نظریے کے مطابق انسانی شعور ایک سیّال مادے کی مانند ہوتا ہے. کبھی کبھی انسان کے ذہن میں کوئی خیال پیدا ہوتا ہے اور پھر خیالات و تصورات فلم کے پردے کی طرح چلنے لگتے ہیں، ایک خیال کسی دوسرے خیال یا واقعے سے ذرا سی مناسبت کے سہارے آگے بڑھتا ہے اور یہ عمل کسی نقطے پر اختتام پزیر ہوتا ہے، اس علم میں شعور کے موج در موج بہاﺅ کو قلمبند کرنے کا تجربہ کیا ہے. آزاد تلازمۂ خیال کی تکنیک ایک ایسا موضوع ہے جس پر معمولی سا لکھا گیا ہے. تلازمۂ خیال کی ماہیت میں اس کا ذکر بایں وجہ ہے کہ اصلاً ماورائی سطح پر ان کے تانے بانے آپس میں یکجا ہیں. ماہیت یہی ہے کہ نُقطۂ شعور کا انسلاک کسی ایک ذہنی نکتے پر ہو جائے،چاہے یہ انسلاک دو اشخاص کے ذہنی رابطے کے مابین ہو یا ایک ہی ذہن کی تخلیقی قوت میں معانی کا باہم متناسب ہونا ہو، ہر دو طرح سے ماہیت پرکھی جا سکتی ہے۔ 

اُردو ادب، بالخصوص شاعری میں شعراء نے’’ تلازماتِ شعری ‘‘ کے تحت سُنّتِ ابراہیمی کی پیروی میں جانور ذبح کرنے کے سلسلے میں ’’چُھری‘‘،’’خنجر‘‘،’’شمشیر‘‘(اونٹ کو نحر کرتے وقت شمشیر یا تلوار کا استعمال کیا جاتا ہے) ’’قُربانی‘‘، ’’سَر‘‘،گلا‘‘،’’گردن‘‘،’’ذبح‘‘،’’بسمل‘‘،دمِ نزع‘‘تڑپنا‘‘ اورچند دیگر الفاظ استعمال کیے ہیں۔

عید الاضحی کے سلسلے میں یہ شعر تو بہت مشہور ہے۔ ؎ یہ عجیب ماجرا ہے کہ بروزِ عیدِ قُرباں…وہی ذبح بھی کرے ہے،وہی لے ثواب اُلٹا(منسوب :انشا اللہ خاں انشاؔ)۔ میں عجب یہ رَسم دیکھی مجھے روزِ عیدِ قُرباں…وہی ذبح بھی کرے ہے،وہی لے ثواب اُلٹا(منسوب: غلام ہمدانی مصحفیؔ)۔شعر کا مفہوم اس خیال پر مبنی ہے کہ قُربانی کا جانور اپنے ذبح کیے جانے پر مُلول ہے اور یہ شکوہ کرتا نظر آتا ہے کہ جو مجھے ذبح کر رہا ہے، اُسے تو ثواب سے نوازا جا رہا ہے اور میں غریب جو ذبیحہ ہوں، کسی شمار میں نہیں ۔اس مشہور شعر کو دو اساتذۂ سخن، میر انشااللہ خاں انشاؔ اور مصحفیؔ سے منسوب کیا جاتا ہے۔اسی تسلسل میں ایک اور شعر بھی بہت مشہور ہے، جو کچھ یوں ہے۔؎ سر بوقتِ ذبح اپنا ،اُس کے زیرِ پائے ہے…یہ نصیب اللہ اکبر، لوٹنے کی جائے ہے(ذوقؔ) ۔ذوقؔ دہلوی جیسے مسلّم الثبوت استاد کا یہ شعر، اگرچہ براہِ راست عیدِ قُرباں سے متعلق نہیں اور کہا یہ جا رہا ہے کہ مُحب اپنے کو بہت خوش نصیب متصوّر کر رہا ہے کہ محبوب نے اُسے اپنی راہ کا کانٹا سمجھتے ہوئے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اُسے ذبح کرنے کے لیے اپنا پیر اُس پر رکھا ہے، مگر یہ مُحب کے لیے مقامِ آسودگی ہے۔ تاہم، ’’تلازماتِ شعری‘‘ اُسے کیفیتِ قُربانی کا حامل شعر بناتے ہیں۔ استاد ذوقؔ دہلوی کے مزید دو اشعار بھی اسی رنگ کی عکّاسی کرتے ہیں، یعنی’’تلازماتِ شعری‘‘کے تحت اُنھیں عیدِ قُرباں پر یوں محمول کیا جا سکتا ہے کہ’’تڑپنا‘‘،’’دمِ ذبح‘‘،آنکھ پِھر جانا‘‘،’’ گلے پر خنجر پِھرنا‘‘مخصوص منظر نامے کو اُجاگر کرتے نظر آتے ہیں، مگر شعری حیثیت کے تحت اشعار غزلیہ ہیں۔؎ ’’مَیں نہ تڑپا دمِ ذبح، تو یہ باعث تھا…کہ رہا مدِ نظر ،عشق کا آداب مجھے۔‘‘ ’’ پِھرتے ہی آنکھ کے، پھیریں گے گلے پر خنجر…ہو چکا آپ کا معلوم ہے، ایما ہم کو۔‘‘ البتہ ذوقؔ نے اس شعر میں براہِ راست عید الضحیٰ کا لفظ استعمال کیا ہے۔؎ عیدِ اضحیٰ تجھے ہر سال مبارک ہووے…تجھ پہ ہو سایۂ حق اور ترے سائے میں جہاں۔

امیرؔ مینائی کہنہ مشق شاعر اور داغؔ کے ہم عصر تھے۔ درج ذیل شعر اگرچہ براہِ راست عیدِ قُربانی کی عکّاسی کرتا نظر نہیں آتا، تاہم ’’پُتلیاں بدل جانا،’’دمِ نزع‘‘ اُسی تلازماتِ شعری کا حصّہ ہیں جو ایک مخصوص صورت کواُجاگر کرتے ہیں۔ شعر کا مفہوم یہ ہے کہ جب وقتِ آخر آتا ہے، تو آنکھوں کی پُتلیاں بھی ساتھ چھوڑ دیتی ہیں اور اجنبی بن جاتی ہیں۔اب اُن کا شعر پڑھیے۔ ؎ پُتلیاں بھی بدل گئیں دمِ نزع…قت پہ کوئی آشنا نہ ہوا۔بحرؔ کا درج ذیل شعر ’’چُھری‘‘،’’گلے‘‘،’’عید‘‘ کے الفاظ کے ساتھ اُسی منظر نامے کو اُجاگر کرتا نظر آتا ہے، جو قُربانی کے دن سے منسوب ہے اور جسے عیدِ الاضحیٰ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ہم عاشقوں سے رُتبہ عبادت کا پوچھیے…جس دَم چُھری گلے سے ملی،ہم نے عید کی۔اب خواجہ حیدر علی آتشؔ کا شعر پڑھیے اور دیکھیے کہ انہوں نے کیسے تلازماتِ شعری کو استعمال کرتے ہوئے قُربانی کے دن کی تصویر کھینچی ہے۔؎ بے چُھری کرتے ہیں کافر عاشقوں کو اپنے ذبح…جوہرِ قصّاب کسی طفلِ برہمن میں نہیں۔

’’چُھری پڑھنا‘‘ محاورہ ہے اور جس کا مطلب یہ ہے کہ مفعول پرسورۂ یٰس یا دُعائے ذبح پڑھی جائے۔اس لیے یہ شعر بھی اُسی مخصوص منظر نامے کی عکّاسی کرتا ہے ،جو عیدِ قُرباں سے منسوب ہے۔؎ عیاں ہے جنبشِ اُبرو سے ذ،بح کی نیّت…پڑھی چُھری ہے، کسے دیکھیے حلال کریں(مُنیرؔ) ۔اسیرؔ لکھنوی اور اُس کے نیچے قلقؔ دونوں کے اشعار مخصوص لفظیات کے استعمال کے ساتھ عیدِ قُربانی کا تصوّر لیے ہیں۔؎’’ قیامت ہے ،بندھی ہے ذبح کے دَم آنکھ پر پٹی…رہا دل میں تلاطم حسرتِ دیدارِ قاتل کا(اسیرؔ)۔‘‘ ’’ دیکھنا قسمت کی خوبی نیم جاں میں رہ گیا…ذبح کرنے کا نہ کچھ ڈھب تھا مرے جلّاد کو(قلقؔ)۔‘‘برقؔ کا یہ شعر تو واضح طور پر قُربانی کے ذبیحے سے تعلق رکھتا ہے، لہٰذا کسی تشریح کا متقاضی نہیں ہے۔؎ ’’ نہ پھیر گردنِ مجروح پر چُھری ظالم…زبانِ صبر و رضا گوسفند رکھتا ہے۔‘‘دیکھیے مرزا غالبؔ اس عنوان کو کیسے بیان کرتے ہیں ؎’’ شہادت تھی مری قسمت میں جو دی تھی یہ خُو مجھ کو…جہاں تلوار کو دیکھا جھکا دیتا تھا گردن کو۔‘‘ ’’شہادت‘‘،’’تلوار‘‘،’’گردن‘‘ کے تلازماتِ شعری کے ساتھ اس شعر کا اطلاق قُربانی کے گوسفند پر یوں نظر آتا ہے کہ وہ چُھری کو دیکھتے ہی گردن جھکا دیتا ہے۔ شعری مفہوم کے تحت غالبؔ بیان کرتے ہیں کہ جب آسمانوں پر تقدیر کے فیصلے لکھے جا رہے تھے، تو کاتبِ ازل نے میری قسمت کے خانے میں شہید تحریر کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں کہیںمیں نے تلوار یا شمشیر دیکھی، اپنی گردن جھکا دی۔میر تقی میرؔ نے اس عنوان کو دوسرے رُخ سے بیان کیا ہے۔ اُن کا مشہور ترین شعر ہے ؎’’ زیرِ شمشیرِ ستم میرؔ تڑپنا کیسا…سر بھی تسلیمِ محبت میں ہلایا نہ گیا۔‘‘شعر کی لفظیات پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ تلازماتِ شعری اُسے پورے طور پر قُربانی سے منسوب کرتے نظر آ رہے ہیں،جیسے’شمشیر‘‘،’’ستم‘‘،’’تڑپنا‘‘،’’سر ہلانا‘‘۔تاہم اس شعر کا اصل اطلاق، واقعہ کربلا پر ہوتا ہے کہ جہاں نواسۂ رسولﷺ ،جگر گوشۂ علیؓ و بتولؓ، حسینؓ ابنِ علیؓ نے اسلام کو بچانے کے لیے اپنی جان اس طرح جانِ آفریں کے سُپرد کر دی کہ شمشیرِ ستم کے نیچے دمِ آخر لب پر پروردگار کی کبریائی اور یک تائی کا مسلسل اعلان تھا۔

آزاد تلازمہ خیال کے شعری اسلوب پر اثرات کے حوالے سے يہ ہے کہ آزاد تلازمہ کے ابلاغ کا قاری کے لیے مسئلہ ہے... کیونکہ یہاں شاعر جو بات کر رہا ہوتا ہے اس تک پہنچنے کے لیے قاری کو بہت دقت ہوتی ہے.. ایک ابہام کی سی کیفیت رہتی ہے

تلازمہ قائم کرنے کی ممکنہ صورتیں کیا ہو سکتی ہیں تو اس سلسلے میں یہ بات اہم ہے کہ ہر شاعر کی اپنی اپروچ ہے وہ کتنا مختلف سوچتا ہے یہ بات معنی رکھتی ہے.. اپنے مضمون کے حوالے سے کتنی متبادل صورتیں مع ان کے تلازمہ اس کے پاس ہیں.. میرے خیال میں جس شاعر کے سوچنے کا انداز سب سے الگ ہو گا اس کے استعمال کردہ تلازمے بھی بالکل الگ سے برتے ہوں گے..