محمد کاظم کی پیدائش 14 اگست 1926ء کو احمد پور شرقیہ (ضلع بہاولپور) میں ہوئی ، ان کی وفات 9 اپریل 2014ء کو لا ہور میں ہوئی۔
محمد کاظم صاحب کے بارے میں ان کے دوست مسعود اشعر معروف کالم نگار کا یہ کالم پڑھیں !
میں انہیں سیّد محمد کاظم کہتا تو فوراً میری اصلاح کرتے ’’میں اپنے نام کے ساتھ سیّد نہیں لکھتا۔‘‘ بہت ہی شریف آدمی تھے ،اور ہر شریف آدمی کی طرح شرمیلے بھی ۔
بہت بڑے عالم تھے ،اور بڑے عالموں کی طرح منکسرالمزاج بھی ۔ شہرت کے پیچھے کبھی نہیں بھاگے ۔محفل باز نہیں تھے مگر محفلوں میں خوش بھی ہو تے تھے ۔البتہ ادبی تقریبوں سے بچتے تھے۔
جب تک ان کی صحت نے اجازت دی وہ ہر منگل کو گھر سے نکلتے ۔ پہلا پڑائوگارڈن ٹائون میں مشعل کا دفتر ہو تا ۔ گھنٹہ آدھ گھنٹہ یہاں بیٹھتے۔ نہایت بے تکلفی سے ہر موضوع پر باتیں ہو تیں ۔اردو ادب ، عربی ادب، انگریزی ادب ،اسلام کی فکری اور علمی تاریخ، نئی اور پرانی کتابیںاور موسیقی۔ہاں،موسیقی بھی مغرب کی کلاسیکی موسیقی ۔ شایدمغرب کی کلاسیکی موسیقی کا چسکا انہیں اپنے جرمنی کے قیام میں لگا تھا ۔
لیکن وہ اس موسیقی کا ذکر کرتے ہوئے اپنے بھانجے اقبال مصطفےٰ کا ذکر کرتے اور افسردہ ہو جا تے ۔ کہتے اقبال مصطفےٰ کی پر اسرار موت کے بعدان کے ساتھ موتزارٹ اور بیتھو ون سننے والا کو ئی نہیں رہا ۔ مشعل سے اٹھتے توفیروز پور روڈ پر سید بھائیز کے ضمیر احمد خاں کے پاس چلے جا تے ۔ضمیر احمد خاں سے واپڈا کے زمانے کی دوستی تھی ۔
واپڈا کے ہی ایک اور ریٹائرڈ انجینئر جمیل صاحب کے پاس بھی ہفتے میںایک بار ضرور جاتے۔ کہتے جمیل صاحب کو کتا بیں پڑھنے کا بہت شوق ہے ۔ میں ان کے لئے کتابیں لے کر جا تا ہوں۔ احمد ندیم قاسمی صاحب حیات تھے تو ہم ہفتے دو ہفتے میں مشعل سے اٹھ کر مجلس ترقی ادب کے دفتر چلے جا تے ۔وہاں بھی ادب اور کتابیں ۔
لیکن یہ اس وقت کی باتیں ہیں جب وہ واپڈا سے ریٹائر ہو گئے تھے ۔ اس سے پہلے تو قریب قریب ہر شام گلبرگ میںانجینئر ہاشم خاں کے فلیٹ میں محفل جمتی تھی۔ شہر کی کون ایسی نامور شخصیت ہے جو اس فلیٹ پر جمع نہیں ہوتی تھی ۔ وہاں بھی کتابوںاور موسیقی کی باتیں ہوتیں۔
جب اسلامی تاریخ یا عربی ادب پر بات ہوتی تو سب کاظم صا حب سے ہی رجوع کرتے ۔ اپنی طرز کے منفرد شاعر اور ادیب صلاح الدین محمود بھی واپڈا میں انجینئر تھے ۔ مگر ان سے کاظم صا حب کی گہری دوستی اسی فلیٹ میں ہوئی ۔ اور صلاح الدین محمود کے اشاعتی ادارے نقش اوّل کتاب گھر نے ہی ان کے مضامین کا پہلا مجموعہ شائع کیا ۔
پہلی بار اردو قاری کو اخوان الصفا ،معتزلہ اور الف لیلہ کے بارے میں ایسی باتیں پڑھنے کو ملیں جن سے وہ بالکل ہی لا علم تھے۔ خلیل جبران ہمارے ہاں رومانوی حد تک مقبول تھا ۔ کاظم صاحب نے اپنے مضمون میں اس کی تحریروں کا جائزہ لے کر اس کی رومانویت کا خول بھی اتارا۔واپڈا میں جہاں وہ چیف انجینئر اور بین الاقوامی معاہدوں کے انچارج تھے وہاں بھی ان کا کمرہ فرصت کے اوقات میں علمی اور ادبی تکیہ بن جاتا تھا ۔ کاظم صاحب نے وہاں عربی پڑھانا شرع کی تھی ۔
ان کے شاگردوں میں صلاح الدین محمود، خالد اختر، رشید ملک اور واپڈا کے چند اور اصحاب تھے۔ اس تجربے کے بعد انہوں نے عربی کا قاعدہ بھی لکھا۔عربی سیکھنے کے لئے یہ بہترین قاعدہ ہے۔حالانکہ وہ انجینئر تھے۔ انجینئرنگ کی ڈگری انہوں نے مسلم یو نیورسٹی علی گڑھ سے حاصل کی تھی مگر عربی سے ایسا شغف تھا کہ یہ زبان انہوں نے اپنے شوق سے پڑھی ۔اوراتنی مہارت حاصل کر لی کہ1966 میں جب انہوں نے پنجاپ یونیورسٹی سے ایم اے عربی کا امتحان درجہ اوّل میں پاس کیا تو اس سے پہلے وہ چند کتابوں اور رسالوں کا اردو سے عربی میں ترجمہ کر چکے تھے۔ ان کے یہ ترجمے عرب ملکوں میں شائع ہو ئے ۔ عرب رسالوں میں ان کے مضامین بھی چھپے۔
لیکن ان کے علمی تبحر کا اندازہ تو قاسمی صاحب نے لگایا تھا ۔ اور اس کا اعتراف کاظم صاحب خود بھی کرتے تھے ۔ قاسمی صاحب نے ہی سب سے پہلے ’’فنون ‘‘ میں ان کے مضامین چھاپنا شروع کئے۔بلکہ قاسمی صاحب نے فرمائش کر کر کے ان سے مضامین لکھوائے۔
ان مضامین سے اردو پڑھنے والوں کو اندازہ ہوا کہ ہمارے درمیان ایک ایسا نابغہء روزگار بھی موجود ہے جو عربی کے قدیم اور جدید ادب پر نہایت ہی گہری نظر رکھتا ہے ۔اور جب قاسمی صاحب نے ان سے کتابوں پر تبصرے کرائے تو معلوم ہوا کہ اس سے پہلے اتنی غیر جا نب داری اور لاتعلقی کے ساتھ شاید ہی کسی نے تبصرے لکھے ہوں۔فنون میںایسے تبصرے کرنے والے دو تھے، محمد کا ظم اورمحمد خالد اختر، دونوں کا تعلق بہاولپور سے تھا ۔اور دونوں ہی بہت گہرے دوست تھے ۔
قاسمی صاحب نے ہی ان سے جرمنی کا سفر نامہ بھی لکھوایا ۔ یہ سفر نامہ ہمارے مروجہ سفر ناموں سے اتنا مختلف ہے کہ ہم اسے سفر ناموں کی ایک اور ہی قسم میں شمار کر سکتے ہیں ۔ ایک بہت ہی پڑھے لکھے اور صاحب نظر آدمی کا سلیس زبان میں سفر نامہ ۔جب تک قاسمی صاحب حیات تھے کاظم صاحب نے فنون میں ہی لکھا۔
قاسمی صاحب کے بعد انہوں نے رسالوں میں لکھنا بند ہی کر دیاتھا ۔ اور کتا بوں کی طرف راغب ہو گئے تھے ۔آ خر،ہم دوستوں نے بہت اصرار کیا تو انہوں نے رسالہ الحمرا میں اپنی علی گڑھ کی یادیں لکھنا شروع کی تھیں جو نامکمل رہ گئیں۔
انہوں نے طبع زاد کتابوں کے علاوہ مشعل کے لئے ڈاکٹر فضل الرحمٰن کی دو کتابوں ’’اسلام اور جدیدیت ‘‘ اور ’’ قرآن کے بنیادی مو ضوعات ‘‘ کا ترجمہ بھی کیا ۔ پھر مشعل کے لئے ہی’’ مسلم فکر و فلسفہ ۔عہد بعہد‘‘ جیسی کتاب بھی لکھی جس میں قدیم مسلم فلاسفہ سے لے کر اقبال کی فکراو ر ان کے فلسفے کاتنقیدی جائزہ لیا گیا ہے ۔
جب انہوں نے قرآن پاک کا ترجمہ شروع کیا تو دوسرے کاموں سے بالکل ہی منہ موڑ لیا ۔ اور ساری توجہ اس ترجمے پر مرکوز کر دی۔یہ ترجمہ آج کی سلیس اور رواں زبان میں کیا گیا ہے ۔ہرصفحے پر دوکالم ہیں۔ایک طرف عربی متن اور دوسری طرف اردو ترجمہ ۔یہ ترجمہ اس حالت میں کیا جب شوگر نے انہیں بالکل ہی کمزور کر دیا تھا ۔اب ان کا گھر سے نکلنا ہی بند ہو گیا تھا ۔
اب ہماری بات ٹیلی فون پر ہی ہوتی تھی ۔یا پھر میں اور اکرم االلہ ان کے گھر چلے جاتے تھے ۔ دو مہینے پہلے میں اور اکرام اللہ ان سے ملنے گئے تو انہیں دیکھ کر پریشان ہو گئے ۔ کمزوراتنے ہو گئے تھے کہ بات کر نے میں بھی دشواری محسوس ہو تی تھی۔ مگر کتابوں سے شغف کا عالم وہی تھا۔انہوں نے محمودالحسن سے خوشونت سنگھ کا ناول ’’ٹرین ٹو پاکستان‘‘لا نے کی فرمائش کی تھی ۔ بیماری کی اطلاع ملی تو میں، اکرام اللہ اور محمود الحسن اسپتال پہنچے۔تاروں میں جکڑے ہوئے بستر پر لیٹے تھے۔ ہمیں پہچان لیا ۔ اوراپنے بڑے بیٹے طیب سے ، جو امریکہ سے فورا آگیاتھا، ہمارا تعارف کرایا ۔محمود الحسن نے کہا میں آپ کے لئے کتابیں لے آیا ہوں ۔آپ گھر جائیں گے توپہنچا دوں گا ۔ بہت خوش ہوئے ۔ مگر افسوس یہ کتابیں پہنچانے کا موقع نہیں آیا ۔ ایک دن پہلے تک ڈاکٹر تسلی دے رہے تھے کہ کل گھر لے جانا۔اور ہم بھی پر امید تھے ۔
مگر اچانک نمونیہ ہوا اور وہ ہمہ جہت ، ہمہ گیر اور خوش باش شخص ہم میں نہ رہا۔ایسی عالم و فاضل شخصیت کی موت پر ہی تو کہا جا تا ہے ۔ ’’ موت العالم موت العالم‘‘۔عالم کی موت ایک زمانے کی موت ہو تی ہے ۔کاظم صاحب کے ساتھ ایک عالم اورایک زمانہ ختم ہو گیا ۔اور میں ایک بے لوث دوست اور ایک مشفق استاد سے محروم ہو گیا ۔ جب بھی مجھے کوئی علمی الجھن ہو تی تو میں انہی سے تورجوع کیا کرتا تھا۔
---------------------------------------------------
عربی زبان کس طرح ان کے دل میں گھر گئی؟
عربی زبان کس طرح ان کے دل میں گھر گئی ان کے بقول: ’’انسان کی زندگی میں کوئی ایک ایسا واقعہ پیش آتا ہے جو اس کی زندگی کا دھارا ہی بدل کے رکھ دیتا ہے۔ایسا واقعہ مجھے اس وقت پیش آیاجب میں آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کرکے نویں جماعت میں داخل ہوا۔ہمارا سکول واقع احمد پورشرقیہ میں آٹھویں جماعت کا امتحان ریاست بہاولپورکا ایک بورڈ لیتا تھا۔میں اس امتحان میں اونچے نمبر لے کرکامیاب ہوا تھااور اپنی کلاس میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔نویںجماعت میں اختیاری مضمون کے طورپرمیں نے عربی کا انتخاب کیا۔
انھی دنوں میرے گھروالوں کو کسی وجہ سے بہاولپورجانا پڑا۔آٹھویں جماعت میں میری اعلیٰ کارکردگی کی اطلاع وہاں میرے بزرگوں کو پہلے ہی مل چکی تھی۔میرے اہل خانہ مجھے ایک ماموں سے ملانے کے لیے لے گئے جو بہاولپورکی عدالت میں جج کے عہدے پر فائز تھے۔ ماموں نے میری پیٹھ تھپکی اورمجھے شاباش دی۔ساتھ ہی انھوں نے مجھ سے پوچھا،اچھا تواب نویں جماعت میں کون سا مضمون لینے کا ارادہ ہے؟میں نے کہا عربی کا مضمون میں نے لے بھی لیا ہے۔ اس پروہ جلال میں آگئے اور سرائیکی میں اپنی گونج دارآوازمیں پکارے، ’’کیناں کیناں(بالکل نہیں، بالکل نہیں)تمھیں سائنس کا مضمون لینا ہوگا۔اب براہ مہربانی واپس جاکرعربی کے بجائے سائنس کا مضمون لو۔تمھیں آگے بھی سائنس ہی پڑھنی ہے۔‘‘
میرے یہ ماموں بڑے دبدبے والے تھے۔انھوں نے جس طرح مجھے عربی کا مضمون لینے سے روکا مجھے یوں لگاجیسے میرے متعلق یہ حکم ان کی عدالت سے صادرہوا ہے، جس سے سرتابی کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔میں نے احمد پورشرقیہ واپس آکرمیٹرک میں سائنس کا مضمون لے لیا۔ میٹرک کرنے کے بعد ایف ایس سی کے امتحان میں میری فرسٹ ڈویژن نہ آسکی۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انجینئرنگ میں داخلے کے لیے بہاولپور میں جو مقابلہ ہوامیںاس میں کامیاب نہ ہوسکا۔میرے بزرگ مجھے انجینئرنگ میں بھیجنے پربضد تھے۔
انھوں نے مجھے علی گڑھ یونیورسٹی بھیج دیاتاکہ وہاں انجینئرنگ میں داخلے کے لیے امتحان میں شامل ہوکراپنی قسمت آزمائی کروں۔ اس امتحان میں خوش قسمتی سے میری کارکردگی اچھی رہی اوراس پرمیں انجینئرنگ کی کلاس میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوگیا۔اب میں سوچتاہوں کہ اگرہم لوگ ان دنوں ماموں سے ملنے نہ جاتے اورمیٹرک میں اختیاری مضمون کے بارے میں ان کا حکم نہ سنتے تو یہی ہونا تھاکہ میں میٹرک اورایف اے اوراس کے بعدبی اے میں عربی پڑھتاچلا جاتا اورشاید بی اے یا ایم اے کے بعد کسی سکول کا ہیڈ ماسٹریاکسی کالج میں لیکچرارکے عہدے پرتعینات ہو جاتا۔ اس ایک واقعہ نے میری زندگی کا دھاراہی بدل دیااورمجھے ایک ٹیچر کے بجائے انجینئر بنا دیا۔
ایک عجیب اتفاق ہے اور اتفاق سب عجیب ہی ہوتے ہیں۔ میرے عربی زبان سیکھنے کی ابتدا علی گڑھ سے ہوئی۔ یہ اتفاق یوں ہوا کہ ہمارے انجینئرنگ کورس کے دوسرے سیشن میں ہمیں موسم گرما کی صرف دس چھٹیاں دی گئیں۔ میں نے سوچا کہ اتنی محدود تعطیلات میں دور دراز کا سفر کرکے بہاولپور جانا اور واپس آنا، اس میں زحمت زیادہ ہوگی اور گھر والوں کے ساتھ چند ہی روز گزارنے میں کوئی زیادہ طمانیت حاصل نہیں ہوگی۔ چناں چہ میں نے ان چھٹیوں میں ہوسٹل ہی میں رہنے کا فیصلہ کرلیا۔
انہی دنوں میں نے کسی اخبار میں ندوۃ العماء لکھنؤ کے کسی ادارے کی طرف سے عربی سکھانے کے لیے ایک کتابچے کا اشتہار دیکھا۔ کتابچے کا نام تھا ’’عربی زبان کے دس سبق‘‘ میں فارغ تو تھا ہی، سوچا کہ لاؤ ان دنوں میں عربی کے یہ دس سبق ہی پڑھ لیتے ہیں۔ کتابچہ میں نے منگوا لیا، اور اس کے ہاتھ میں آتے ہی اسے تن دہی سے پڑھنا شروع کردیا۔ میں نے دو دو سبق روزانہ پڑھ کے اور ان کی مشقیں حل کرکے اسے پانچ ہی روز میں ختم کردیا۔
یہ رسالہ ختم کرکے میں نے اپنے اندر ایک عجیب چیز محسوس کی۔ میں نے محسوس کیا کہ عربی زبان میرے لیے کسی طرح بھی اجنبی نہیں ہے۔ اس کے جراثیم میرے اندر کہیں موجود ہیں۔ چناں چہ اسے پڑھتے ہوئے مجھے لگتا ہے جیسے میں اپنی مقامی زبان میں سے کوئی زبان پڑھ رہا ہوں۔ اس رسالہ کی پشت پر چند دوسری کتابوں کا اشتہار تھا۔ قرآن مجید کی پہلی کتاب، قرآن مجید کی دوسری کتاب اور تسہیل العربیہ وغیرہ۔ میں نے یہ کتابیں بھی منگوالیں اور انہیں پڑھنا شروع کردیا۔
یہ تین چار کتابیں پڑھنے کے بعد تھوڑے ہی عرصے میں میرے اندر اتنی استعداد پیدا ہوگئی کہ میں یونیورسٹی لائبریری میں جاکر خلیجی ریاستوں کا ایک رسالہ ’’العرب‘‘ پڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ میں اسے پوری طرح سمجھ تو نہیں پاتا تھا، لیکن اس میں سے بعض خبریں اور فیچر میں عربی اردو لغت کی مدد سے پڑھ کر سمجھ لیتا تھا، اور خوش ہوتا تھا کہ میں ایک عربی رسالہ پڑھنے کے قابل ہوگیا ہوں۔ انہی دنوں مولانا ابوالحسن علی ندوی کا ایک سلسلۂ کتب ’’قصص النبین الاطفال‘‘ (بچوں کے لیے انبیاء کے قصے) بہت ہی آسان زبان میں لکھا ہوا میرے ہاتھ لگا۔ میں نے یہ سلسلہ بھی بڑے شوق اور انہماک سے پڑھ ڈالا۔
اب عربی زبان میرے دل میں گھر کرگئی تھی اور میں اسے کسی حال میں نہ چھوڑ سکا۔ انجینئرنگ کے آخری امتحان کے دنوں میں بھی میرا دستور العمل یہ رہا کہ جب میں ایک پرچہ دے کر ہوسٹل آتا، تو سب سے پہلے ایک دو گھنٹے عربی پڑھتا اور اس کے بعد اگلے دن کے پرچے کی تیاری شروع کرتا۔ ایک دن میرے روم میٹ نے حیران ہوکر پوچھا کہ اس امتحان میں کامیاب ہونے کے بارے میں آپ کا کیا ارادہ ہے؟ میں نے کہا جب تک واپس آکر میں کچھ دیر کے لیے عربی نہ پڑھوں اگلے مطالعے کے لیے میرا ذہن ہی نہیں کھلتا۔
وہ میری عجیب سی منطق سن کر حیران ہوا اور خاموش ہوگیا۔ میں اگر چھٹیوں میں علی گڑھ یونیورسٹی سے گھر چلا جاتا تو نہ تو عربی سیکھنے سے متعلق اشتہار میری نظر سے گزرتا اور نہ ہی شاید عربی زبان میں میری دلچسپی قائم ہوتی۔‘‘
بعد ازاں وہ جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے اور جالندھر منتقل ہوگئے تھے جہاں انھوں نے1944 میں جماعت اسلامی کی دعوت عالمِ عرب میں پھیلانے کے لیے ایک ادارہ بھی قائم کیا تھا جس کا نام دارالعروبۃ للدّعوۃ الاسلامیۃ تھا۔تقسیم کے بعد وہ پاکستان منتقل ہو گئے تھے۔ ان سے متعلق یہ بھی علم ہوا کہ پورے پاکستان میں وہ بالکل تنہا تھے کیونکہ ان کے قریبی رشتے داروں میں صرف ان کے والد ہندوستان میں مقیم تھے اور کوئی رشتے دار اُن کا یہاں نہیں تھا۔اس کے علاوہ قیام ہندوستان کے دوران ہی ان کا عقد ہوچکا تھا جو وہیں علیحدگی پر منتج ہواپھر انھوں نے عقد ثانی تاوقت آخر نہیں کیا۔ مولانا مسعود عالم نے ۔ اس ادارے میں مولانا نہ صرف مولانا مودودیؒ کی اردو کتب کے عربی تراجم کراتے ،ان تراجم کی اصلاح کرتے بلکہ نوجوانوں کو عربی زبان کی تعلیم بھی دیتے تھے۔ مولانا کے زیر تربیت نوجوان بہت کم وقت میں عربی زبان سیکھ لیتے تھے ۔عربی زبان سکھانے کے اس طریقے کی تفصیلات انھوں نے اپنے مضمون ’’عربی زبان اور اس کی تعلیم کا صحیح طریقہ‘‘ میں کیا تھا جو ان کی کتاب ’’الترجمۃ العربیۃ ‘‘ کے ابتدا میں شایع ہوا۔تقسیم کے بعد مولانا مسعود عالم ندوی نے یہ ادارہ پہلے کراچی میں قائم کیا۔ پھر وہ کراچی سے حیدرآباد، حیدرآباد سے لاہور، لاہور سے گوجرانوالہ اور بالآخر گوجرانوالہ سے راولپنڈی منتقل ہوئے، اور اس طرح یہ ادارہ بھی ان کے ساتھ ساتھ منتقل ہوتا گیا۔ مولانا مسعود عالم کی ایک سے دوسرے شہر میں منتقلی کی اصل وجہ یہ تھی کہ دمے کے مرض نے انہیں کہیں چین نہ لینے دیا اور راولپنڈی کی آب و ہوا انہیں کسی حد تک راس آگئی تھی، لیکن جب وہ راولپنڈی میں اقامت گزیں ہوئے تو ان کی مہلتِ عمر کم ہی رہ گئی تھی۔ مولانا مسعود عالم ندوی کے شاگردوں میں عاصم الحداد، مولانا وصی مظہر ندوی، مولانا جلیل احسن ندوی، طہٰ یٰسین اور محمد کاظم سبّاق شامل تھے۔دراصل یہی وہ ادارہ تھا جس کے تحت مولانا مودودی کی اردو کتب کے عربی تراجم کاظم صاحب نے کیے تھے اور جو مولانا مسعود عالم کی نظر ثانی کے بعد شائع ہوئے۔
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی چھ کتابوں کو انھوں نے اردو سے عربی میں ترجمہ کیا، جن کو عرب دنیا میں بھی پذیرائی ملی۔ سید سلیمان ندوی،مسعود عالم ندوی، مولانا مودودی، ابو الخیر مودودی اور خورشید رضوی جیسے عالموں نے عربی میں ان کی دستگاہ کو مانا۔ ان کے اردو مضامین کی داد اس زبان کے جید ادیبوں نے دی۔ ’’مغربی جرمنی میں ایک برس‘‘ کو اردو کے بہترین سفرناموں میں شمارکیا جا سکتا ہے۔
زندگی کے آخری برسوں میں قرآن مجید کے ترجمے میں منہمک رہے، جس کی اشاعت میں تاخیرنے انھیں خاصا بے چین کئے رکھا۔صد شکرکہ قرآن پاک کا ان کے قلم سے ہونے والاسلیس اور رواں ترجمہ ان کی زندگی میں ہی چھپ کرسامنے آگیا۔
محمد کاظم کی کتابیں:
1- عربی ادب میں مطالعے (مضامین ، الف لیلہ، امراؤ القیس، ابونواس، محمود درویش وغیرہ)
2- مغربی جرمنی میں ایک برس (سفرنامہ)
3- مسلم فکر و فلسفہ عہد بہ عہد (مسلمانوں کی فکری تاریخ کا ایک جائزہ)
4- اخوان الصفاء اور دوسرے مضامین (ابوالعلاء معرّی، قصیدہ بردہ، اخوان الصفاء، خلیل جبران، محمود درویش وغیرہ)
5- عربی ادب کی تاریخ (دَور جاہلیت سے موجودہ دَور تک)
6- کچھ یادیں کچھ باتیں
7- جنیدِ بغداد: سوانح، نظریات ،
8- رسائل تصنیف ڈاکٹر علی حسن عبدالقادر (الازہر یونیورسٹی، مصر)
9- اسلام اور جدیدیت تصنیف: ڈاکٹر فضل الرحمٰن ، (شکاگو یونیورسٹی، امریکا)
10- قرآن کے بنیادی موضوعات،تصنیف: ڈاکٹر فضل الرحمٰن (شکاگو یونیورسٹی ، امریکا)
11- اسلام، تصنیف: ڈاکٹر فضل الرحمٰن (شکاگو یونیورسٹی ، امریکا)
12- ’’ابنِ خلدون: حیات و آثار‘‘ (مقدمہ اور تاریخ ابنِ خلدون سے اقتباسات)
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی کتابوں اور رسائل کے عربی میں تراجم:
1۔نظریۂ الاسلام الخلقیہ (اسلام کا اخلاقی نقطۂ نظر)
2۔المصطلحات الاربعتہ فی القرآن (قران کی چار بنیادی اصطلاحیں)
3۔موجز تاریخ تجدید الدین و احیاء (تجدید و احیائے دین)
4۔الحجاب (پردہ)
5۔حقوق اھل الذمۃ فی الاسلام (اسلام میں ذمیّوں کے حقوق)
6۔نحن و الحضارۃ الغربیہ (تنقیحات)
------------------