فارسی شاعری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
فارسی شاعری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

فارسی زبان وادب کی قدامت، پختگی اور ہمہ گیریت

 فارسی زبان کی قدامت

فارسی زبان کی تمدنی روایات صدیوں پرانی ہیں۔اس تمدنی قدامت کے اعتبار سے دنیا کی بہت کم زبانیں فارسی کی ہم پلہ کہلاسکتی ہیں۔حیرت کی بات ہے کہ سیکڑوں سال گزرنے پر ان روایات میں کہنگی یا افسردگی کے آثار پیدا نہیں ہوئے بلکہ اس کے برعکس ہر مرحلے پر ان میں شگفتگی اور تازگی آتی رہی اور اس کے ساتھ ساتھ زبان کے خدوخال بھی سنورتے گئے۔گذشتہ صدیوں میں سرزمین ایران میں کئی انقلابات آئے۔یونانیوں کے حملے اور سکندر کے فاتحانہ اقدامات نے ہخامنشی دور کا خاتمہ کر دیا۔اشکانیوں کی شان و شوکت ساسانی عظمت کے آگے جھک گئی۔عربوں کی پیش قدمی نے ساسانی اقتدار کو پامال کرڈالا۔خود اسلامی دور حکومت میں تاتاریوں اور ترکوں کی یلغار نے ہزارہا تہذیبی نقوش مٹادیے لیکن ان تمام حادثات کے باوجود ایران نے اپنے تمدنی ذخائر کو محفوظ رکھا۔

فارسی زبان و ادب کی قدامت 

فارسی زبان و ادب کی پختگی            

ایرانی تمدن کی بنیاد اتنی محکم اور استوار تھی کہ شدید سے شدید انقلاب بھی اسے متزلزل نہ کرسکا۔سکندر بجائے اس کے کہ ایران کو یونان بنادیتا خود ایرانی بن کر رہ گیا۔ایرانیوں نے عربوں کو لبیک کہا انھوں نے فقط اسلام ہی کو قبول نہیں کیا بلکہ عربی زبان  ،اس کے رسم الخط اس کے قواعد صرف و نحو اور علم بیان و عروض کو بھی اپنالیا۔یہ سب کچھ ہوا لیکن ایرانی تمدن کے تسلسل میں فرق نہ آیا بلکہ ہر مرحلے پر اس کی تنومندی اور بھی بڑھ گئی ایرانی افکار ایک نئی قوت کے ساتھ ابھرے اور اپنے اثرو نفوذ سے تمام دنیائے اسلام پر چھاگئے۔تاریخ میں ایسی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں۔خود خلفائے عباسی کا دربار ان کا نظام سلطنت یہاں تک کہ ان کی بیشتر تمدنی روایات دور ساسانی کاہی نقش ثانی تھی۔عرب تمدن کے مقابلے میں اس دور کے تمدن کو ایرانی کہنا موزوں ہوگا۔

فارسی زبان و ادب کے اثرات

ایرانی تمدن کی تنومندی کے زیر اثر فارسی زبان، فارسی ادبیات اور ایرانی علوم و فنون میں ہمی گیر قوتیں پیدا ہوئیں۔ازمنہ وسطی میں فارسی زبان وسط ایشیا کی تجارتی اور تمدنی زبان تھی اور اس کے اثرات ایک طرف بخارا سے پیکن اور دوسری طرف شیراز سے بنگال اور دکن اور پھر بحداد سے لے کر ایشیائے جوچک تک نمایاں تھے۔ہندوپاکستان کے برصغیر میں تو فارسی زبان و ادب یہاں کے تمدن کا بنیادی جزو تھے۔تیموری شہنشاہوں کادور حکومت فارسی ادبیات کے عروج کادور ہے۔تیموری عہد کی ادبی روایات، فن تعمیر، نقاشی ومصوری بیشتر ایران کی ہی مرہون منت ہے اور ان احسان مندیوں کے نقوش ابھی تک ماند نہیں پڑے۔یہ نقوش صرف یہیں کی سرزمین تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے مختلف گوشوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ فارسی زبان آریائی السنہ کے خاندان سے متعلق ہے اور اس اعتبار سے یہ زبان یورپ کی ان تمام زبانوں سے وابستہ ہے جن کارشتہ اس نسل اور خاندان سے جاملتاہے۔ا س طرح فارسی زبان ہندوستان، افغانستان، وسط ایشیااور یورپین ممالک کے درمیان میں ایک مستحکم ربط و اتحاد کا مرکز ہے۔

پیمبرانہ حکمت کے شاعر سعدی شیرازی اور ان کی شاعری اور تصنیفات

 سعدی شیرازی جوسومنات مندر کے کرشمے کا راز جاننے کے لیے برہمن بھی بنے

مرزا اے بی بیگ
بی بی سی اردو، نئی دہلی
31 مئ 2023
پیمبرانہ حکمت کے شاعر سعد شیرازی اور ان کی شاعری 


دنیا بھر میں ایک زمانے سے کسی کی علمی صلاحیت اور لیاقت کا اظہار اس کی ڈگریاں یا اسناد رہی ہیں لیکن آج سے کوئی سو سال قبل اسی برصغیر میں کسی کی تعلیمی قابلیت اس بات سے جانچی جاتی تھی کہ کیا اس نے ’گلستان‘ اور ’بوستان‘ پڑھ رکھی ہیں۔

یہ دو کتابیں کسی سند سے کم نہیں تھیں اور بہت سی اہم شخصیات کی سوانح میں اس کا فخریہ ذکر بھی ملتا ہے کہ انھوں نے سن بلوغت تک پہنچتے پہنچتے گلستان اور بوستان پڑھ لی تھی، یا کہیں کہیں تو یہ بھی ملتا ہے کہ انھیں یہ کتابیں ازبر تھیں۔

یہ دونوں کتابیں لگ بھگ 750 سال قبل 13ویں صدی میں ابو محمد مصلح الدین بن عبداللہ شیرازی (سعدی شیرازی) نے تصنیف کی تھیں، جن کا سکہ آج تک قائم ہے۔

گلستان کی ایک نظم ’بنى آدم اعضای یکدیگرند‘ (یعنی انسان ایک دوسرے کے اعضا ہیں) کا فقرہ نہ صرف ایران کے سکّے پر کندہ اور رقم ہے بلکہ سنہ 2005 میں نیو یارک میں قائم اقوام متحدہ کے صدر دفتر کو ایران کی جانب سے ایک قالین پیش کیا گیا جس پر یہ پوری نظم تحریر ہے۔

اس کے بارے میں اقوام متحدہ کے سابق صدر بان کی مون نے کہا تھا کہ 'اقوام متحدہ کے داخلی دروازے پر ایک شاندار قالین آویزاں ہے، جو اقوام متحدہ کی دیوار کو مزین کرتا ہے۔ یہ اہل ایران کی طرف سے ایک تحفہ ہے جس پر فارسی کے عظیم شاعر سعدی کے لاجواب الفاظ رقم ہیں۔‘