" آج دنیا کے پاس وسائل کی کمی نہیں اگر کمی ہے تو اخلاق اور مقاصد زندگی کی ، یہ صرف انبیاء کرام اور آسمانی کتب میں ہیں ۔ آج دنیا کی تعمیر نو صرف اس طرح ممکن ہے کہ جو وسائل و زرائع جدید دور میں انسانوں نے پیدا کرلیے ان کی مدد سے اور انبیاء اور آسمانی کتب میں موجود انسانیت کے اخلاق اور مقاصد زندگی کی مدد سے دنیا کی تعمیر نو کی جائے ۔" (مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )
خیام کی رباعیات
فارسی زبان وادب کی قدامت، پختگی اور ہمہ گیریت
فارسی زبان کی قدامت
فارسی
زبان کی تمدنی روایات صدیوں پرانی ہیں۔اس تمدنی قدامت کے اعتبار سے دنیا کی بہت کم
زبانیں فارسی کی ہم پلہ کہلاسکتی ہیں۔حیرت کی بات ہے کہ سیکڑوں سال گزرنے پر ان
روایات میں کہنگی یا افسردگی کے آثار پیدا نہیں ہوئے بلکہ اس کے برعکس ہر مرحلے پر
ان میں شگفتگی اور تازگی آتی رہی اور اس کے ساتھ ساتھ زبان کے خدوخال بھی سنورتے
گئے۔گذشتہ صدیوں میں سرزمین ایران میں کئی انقلابات آئے۔یونانیوں کے حملے اور
سکندر کے فاتحانہ اقدامات نے ہخامنشی دور کا خاتمہ کر دیا۔اشکانیوں کی شان و شوکت
ساسانی عظمت کے آگے جھک گئی۔عربوں کی پیش قدمی نے ساسانی اقتدار کو پامال
کرڈالا۔خود اسلامی دور حکومت میں تاتاریوں اور ترکوں کی یلغار نے ہزارہا تہذیبی
نقوش مٹادیے لیکن ان تمام حادثات کے باوجود ایران نے اپنے تمدنی ذخائر کو محفوظ
رکھا۔
فارسی زبان و ادب کی قدامت |
فارسی زبان و ادب کی پختگی
ایرانی تمدن کی بنیاد اتنی محکم اور استوار تھی کہ شدید سے شدید انقلاب بھی اسے متزلزل نہ کرسکا۔سکندر بجائے اس کے کہ ایران کو یونان بنادیتا خود ایرانی بن کر رہ گیا۔ایرانیوں نے عربوں کو لبیک کہا انھوں نے فقط اسلام ہی کو قبول نہیں کیا بلکہ عربی زبان ،اس کے رسم الخط اس کے قواعد صرف و نحو اور علم بیان و عروض کو بھی اپنالیا۔یہ سب کچھ ہوا لیکن ایرانی تمدن کے تسلسل میں فرق نہ آیا بلکہ ہر مرحلے پر اس کی تنومندی اور بھی بڑھ گئی ایرانی افکار ایک نئی قوت کے ساتھ ابھرے اور اپنے اثرو نفوذ سے تمام دنیائے اسلام پر چھاگئے۔تاریخ میں ایسی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں۔خود خلفائے عباسی کا دربار ان کا نظام سلطنت یہاں تک کہ ان کی بیشتر تمدنی روایات دور ساسانی کاہی نقش ثانی تھی۔عرب تمدن کے مقابلے میں اس دور کے تمدن کو ایرانی کہنا موزوں ہوگا۔
فارسی
زبان و ادب کے اثرات
ایرانی تمدن کی تنومندی کے زیر اثر فارسی زبان، فارسی ادبیات اور ایرانی علوم و فنون میں ہمی گیر قوتیں پیدا ہوئیں۔ازمنہ وسطی میں فارسی زبان وسط ایشیا کی تجارتی اور تمدنی زبان تھی اور اس کے اثرات ایک طرف بخارا سے پیکن اور دوسری طرف شیراز سے بنگال اور دکن اور پھر بحداد سے لے کر ایشیائے جوچک تک نمایاں تھے۔ہندوپاکستان کے برصغیر میں تو فارسی زبان و ادب یہاں کے تمدن کا بنیادی جزو تھے۔تیموری شہنشاہوں کادور حکومت فارسی ادبیات کے عروج کادور ہے۔تیموری عہد کی ادبی روایات، فن تعمیر، نقاشی ومصوری بیشتر ایران کی ہی مرہون منت ہے اور ان احسان مندیوں کے نقوش ابھی تک ماند نہیں پڑے۔یہ نقوش صرف یہیں کی سرزمین تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے مختلف گوشوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ فارسی زبان آریائی السنہ کے خاندان سے متعلق ہے اور اس اعتبار سے یہ زبان یورپ کی ان تمام زبانوں سے وابستہ ہے جن کارشتہ اس نسل اور خاندان سے جاملتاہے۔ا س طرح فارسی زبان ہندوستان، افغانستان، وسط ایشیااور یورپین ممالک کے درمیان میں ایک مستحکم ربط و اتحاد کا مرکز ہے۔