3 جون 1947: برطانوی حکومت کے انڈیا میں منتقلی اقتدار اور تقسیم ہند کا اہم فیصلہ کیسے ہوا ؟

برطانوی حکومت کے انڈیا میں منتقلی اقتدارکے اعلان پر (قاعد اعظم) محمد علی جناح کا رد عمل  

بی بی سی اردو 

تاریخ اشاعت : 3 جون 2017 

نو آبادیاتی ہندوستان کا نقشہ 1911ء

70 پرس پہلے 3 جون 1947 کو برطانوی حکومت نے انڈیا میں اقتدار کی منتقلی اور ملک کی تقسیم کا اعلان کیا۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی اور وائس رائے لارڈ ماؤٰنٹ بیٹن کی تقریر کے بعد اپنے رد عمل میں کہا کہ برطانوی حکومت کے اس اعلان پر انتہائی تحمل اور ٹھنڈے دل سے غور کرنا ہوگا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ منصوبہ کچھ اہم پہلوؤں میں ہماری توقعات پر پورا نہیں اترتا لیکن اس پر حتمی فیصلہ آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل میں لیا جائے گا۔

محمد علی جناح کے بیان کا اردو ترجمہ:

ہِز میجسٹی کی حکومت کا ہندوستان کے لوگوں کے لیے انتقال اقتدار کے منصوبے کے بارے میں بیان نشر کیا جا چکا ہے، اور انڈیا اور بیرون ملک ذرائع ابلاغ میں کل اشاعت کے لیے پریس کو ریلیز کر دیا جائے گا۔

اس بیان میں اِس منصوبے کے خد و خال بیان کیے گئے ہیں جس پر ہمیں پوری سنجیدگی سے غور کرنا ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس منصوبے کا جائزہ ٹھنڈے دماغ اور غیر جذباتی انداز میں لیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیں اس عظیم برصغیر کے سیاسی مسائل کے حل کے لیے، جس میں چالیس کروڑ لوگ رہتے ہیں، نہایت اہم اور گمبھیر فیصلے کرنا ہیں۔ جس قدر بھاری ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ اور اس حوالے سے سب سے بڑی ذمہ داری ہندوستان کے سیاسی رہنماؤں کے کاندھوں پر ہے۔ ہمیں اپنی تمام تر توانائیاں اس بات پر صرف کرنی چاہئیں کہ انتقالِ اقتدار کا یہ مرحلہ مؤثر اور پر امن انداز میں پایہ تکمیل کو پہنچے۔

میری تمام طبقات خاص طور پر مسلمانوں سے مخلصانہ اپیل ہے کہ وہ نظم و ضبط قائم رکھیں۔ ہمیں اس منصوبے کی روح کو سمجھتے ہوئے کسی نتیجے پر پہنچنا ہو گا۔

میں اس فیصلہ کن مرحلے پر خدا کی رہنمائی طلب کرتا ہوں تاکہ ہم اپنی ذمہ داری منصوبے کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے سمجھداری سے اور معتبرانہ انداز میں پوری کر سکیں۔

یہ تو واضح ہے کہ یہ منصوبہ کئی اہم پہلوؤں میں ہماری توقعات پر پورا نہیں اترتا۔ اور اس میں کچھ ایسے معاملات ہیں جن کے بارے میں ہم یہ کہہ یا محسوس نہیں کر سکتے کہ ہم ان سے مطمئن ہیں یا اتفاق کرتے ہیں۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہز میجسٹی کی حکومت کی طرف جو منصوبہ پیش کیا گیا ہے ہم نے اس سے سمجھوتے کے طور پر قبول کرنا ہے یا سیٹلمنٹ۔ میں یہ فیصلہ نہیں کروں گا بلکہ آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل ہی اس پر ہمارے آئین اور روایات کے مطابق حتمی فیصلہ کر سکتی ہے، جس کا اجلاس پیر نو جون کو طلب کیا گیا ہے ۔ لیکن اب تک جو میں سمجھ سکا ہوں دلی میں مسلم لیگ کے حلقے پرامید ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی حتمی فیصلے سے پہلے اس منصوبے کے منفی اور مثبت پہلوؤں پر غور کیا جانا چاہیے۔

میں یہ ضرور کہوں گا کہ میرے خیال میں وائسرائے نے کئی قوتوں کا بہادری سے مقابلہ کیا ہے۔ اور میرا ان کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ وہ انصاف اور غیر جانبداری کے جذبے سے کام کر رہے تھے اور ہمیں چاہیے کہ ہم ان کام آسان بنائیں۔

3 جون 1947: کیا انڈیا اور پاکستان کی آزادی کی تاریخ کا اچانک فیصلہ کیا گیا؟

بی بی سی ہندی کے لیے 
تاریخ اشاعت : 12 اگست 2022

کوئی نہیں جانتا تھا کہ 3 جون 1947 کو انڈیا کی آزادی کی تاریخ طے کی جائے گی۔

ویسے 3 جون 1947 کو وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ہندوستان کی آزادی اور تقسیم دونوں کا باقاعدہ اعلان کرنا تھا لیکن کون سی تاریخ ہوگی اس کا فیصلہ نہیں ہوا۔

وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن اس دن ’3 جون پلان‘ یعنی ’ماؤنٹ بیٹن پلان‘ کا اعلان کرنے والے تھے۔

اپنے اعلان سے ایک رات پہلے، ان کی کانگریس اور مسلم لیگ کے رہنماؤں سے دو ملاقاتیں ہوئیں، جن کا ذکر ڈومینک لاپیئر اور لیری کولنز کی کتاب 'فریڈم ایٹ مڈ نائٹ' میں موجود ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ پھر اس رات وائسرائے ہاؤس کے لمبے برآمدوں میں اندھیرا اور خاموشی تھی۔

3 جون کی رات کیا ہوا


لاپیئر اور کولنز لکھتے ہیں کہ 2 جون 1947 کو سات ہندوستانی رہنما لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے کمرے میں معاہدے کے کاغذات پڑھنے اور سننے کے لیے وائسرائے سے ملنے گئے۔ کانگریس کے رہنما جواہر لعل نہرو، سردار پٹیل اور آچاریہ کرپلانی تھے۔

اسی وقت مسلم لیگ سے محمد علی جناح، لیاقت علی خان اور عبدالرب نشتر وہاں موجود تھے، جب کہ بلدیو سنگھ سکھوں کے نمائندے کے طور پر وہاں پہنچے تھے۔ اس پہلی ملاقات میں مہاتما گاندھی شامل نہیں تھے۔

ماؤنٹ بیٹن نے فیصلہ کیا تھا کہ اس میٹنگ میں کوئی بحث نہیں ہونی چاہیے۔

لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پھر ایک ایک کرکے اپنا منصوبہ بیان کیا:

  • پنجاب اور بنگال میں، جو ہندو اور مسلم اکثریتی اضلاع ہیں، ان کے اراکین کا علیحدہ اجلاس بلایا جائے گا۔
  • اگر کوئی جماعت صوبے کی تقسیم چاہتی ہے تو ہو جائے گی۔
  • دو ڈومینین اور دو آئین ساز اسمبلیاں بنائی جائیں گی۔
  • صوبہ سندھ اپنا فیصلہ خود کرے گا۔
  • وہ ہندوستان کے کس حصے کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اس پر آسام کے شمال مغربی سرحد اور سلہٹ میں ریفرنڈم کرایا جائے گا۔
  • ہندوستانی ریاستوں کو آزاد رہنے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔ انھیں انڈیا یا پاکستان میں شامل ہونا پڑے گا۔
  • حیدرآباد پاکستان میں شامل نہیں ہوگا۔
  • تقسیم میں کوئی مشکل پیش آئی تو باؤنڈری کمیشن بنایا جائے گا۔

اپنی بات ختم کرتے ہوئے، ماؤنٹ بیٹن نے کہا، 'میں چاہتا ہوں کہ آپ سب آدھی رات تک اس منصوبے پر اپنا جواب دیں'۔

انھوں نے امید ظاہر کی کہ آدھی رات سے پہلے مسلم لیگ، کانگریس اور سکھ سبھی اس منصوبے کو قبول کرنے پر راضی ہو جائیں گے۔

دوسری ملاقات، گاندھی اور خاموشی


مہاتما گاندھی نے پہلی میٹنگ میں شرکت سے انکار کر دیا، کیونکہ وہ کانگریس کے کسی عہدے پر نہیں تھے۔ لیکن ان کا وجود ساری ملاقات پر چھایا ہوا تھا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن گاندھی کا بہت احترام کرتے تھے۔

لیکن آدھی رات کو ایک اور میٹنگ تھی اور گاندھی اس میں آئے۔ ماؤنٹ بیٹن کو ڈر تھا کہ گاندھی ایسی بات کہہ دیں کہ دونوں کے درمیان دراڑ پڑ جائے۔

لاپیئر اور کولنز لکھتے ہیں کہ ماؤنٹ بیٹن اپنی کرسی سے اٹھے اور مہاتما گاندھی کے استقبال کے لیے تیزی سے آگے بڑھے، لیکن اچانک وہ درمیان میں رک گئے۔ گاندھی نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر انھیں روکا۔ وائسرائے سمجھ گئے کہ آج گاندھی کا خاموشی کا روزہ ہے۔

اس کے بعد ماؤنٹ بیٹن نے اپنے پورے منصوبے کی وضاحت کی۔ گاندھی نے ایک لفافہ لیا اور اس کی پشت پر کچھ لکھنا شروع کیا۔ لکھتے لکھتے انھوں نے پانچ پرانے لفافے بھر ڈالے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ان لفافوں کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کیا۔

گاندھی نے لکھا، ’مجھے افسوس ہے کہ میں بول نہیں سکتا۔ میں پیر کو’مون ورت‘ خاموشی کا روزہ رکھتا ہوں۔ خاموشی کا عہد لیتے ہوئے، میں نے اسے صرف دو صورتوں میں توڑنے کی اجازت دی ہے۔ ایک، جب کوئی فوری مسئلہ ہو اور دیگر جب کسی بیمار کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ آپ نہیں چاہتے کہ میں آج اپنی خاموشی توڑوں۔ مجھے ایک دو باتوں کے بارے میں کچھ کہنا ہے لیکن آج نہیں۔ اگر میں دوبارہ ملا تو ضرور کہوں گا۔‘

اس کے بعد گاندھی وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔

(قاعد اعظم) محمد علی جناح کا  انکار


لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے وقت کی حد کے اندر کانگریس اور سکھوں سے رضامندی حاصل کر لی تھی لیکن محمد علی جناح اس پر راضی نہیں تھے۔ ڈومینک لاپیئر اور لیری کولنز نے اس واقعے کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔


لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا کہ ’اس کے بعد میں یہ کہوں گا کہ میری جناح صاحب کے ساتھ کل رات بہت دوستانہ بات چیت ہوئی اور ہم نے اس پلان پر تبادلہ خیال کیا اور جناح صاحب نے ذاتی طور پر مجھے یقین دلایا کہ وہ اس پلان سے متفق ہیں۔‘

تقسیم کا اعلان


اور پھر وہی ہوا جیسا کہ فیصلہ کیا گیا تھا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم اور آزادی کی رسمی قبولیت کے لیے ہندوستانی لیڈروں کے ساتھ ایک میٹنگ کی جس میں سب کچھ اسی طرح ہوا جیسا کہ اس نے ایک رات پہلے محمد علی جناح کو بتایا تھا۔

3 جون 1947 کو شام سات بجے کے قریب تمام سرکردہ لیڈروں نے دو الگ ملک بنانے پر رضامندی کا باقاعدہ اعلان کیا۔

لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے سب سے پہلے بات کی۔ اس کے بعد نہرو نے ہندی میں کہا، ’درد اور اذیت کے درمیان، ہندوستان کا عظیم مستقبل تعمیر ہو رہا ہے۔‘

پھر محمد علی جناح کی باری آئی انھوں نے انگریزی میں تقریر کی اور پاکستان زندہ باد کے نعرے کے ساتھ اپنی تقریر کا اختتام کیا۔ ان کی تقریر بعد میں ریڈیو کے اناؤنسر نے اردو میں پڑھی۔ ریڈیو کے ذریعے تقسیم کی رضامندی کا اعلان کیا جا رہا تھا۔

اگلے دن لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو پیغام ملا کہ مہاتما گاندھی کانگریسی لیڈروں سے تعلقات توڑ کر دعائیہ جلسہ کرنے والے ہیں اور جو لوگ ایک رات پہلے میٹنگ میں نہیں کہہ سکتے تھے، وہ آج کہیں گے۔

لاپیئر اور کولنز لکھتے ہیں کہ دعائیہ میٹنگ ہوئی، لیکن گاندھی نے کہا، ’وائسرائے کو تقسیم کے لیے مورد الزام ٹھہرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اپنے آپ کو دیکھو، اپنے دماغ کو ٹٹولیں، پھر آپ کو معلوم ہوگا کہ کیا ہوا؟‘

کیا اچانک آزادی کی تاریخ طے ہو گئی؟


اگلے دن لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور اپنے منصوبے کے بارے میں بتایا، جو ہندوستان کا جغرافیہ بدلنے والا تھا۔ ہر کوئی وائسرائے کی تقریر کو غور سے سن رہا تھا۔ اور سوالات کی بوچھاڑ ہو رہی تھی۔

پھر ایک سوال آیا جس کا جواب طے نہیں تھا۔ سوال یہ تھا کہ ’اگر سب اس بات پر متفق ہیں کہ اقتدار جلد از جلد سونپ دیا جائے، جناب، کیا آپ نے تاریخ کا بھی سوچا ہے؟‘

ڈومینک لاپیئر اور لیری کولنز ’فریڈم ایٹ مڈ نائٹ‘ میں لکھتے ہیں، ’ماؤنٹ بیٹن نے اپنے دماغ کی دوڑ شروع کردی، کیونکہ اس نے کوئی تاریخ طے نہیں کی تھی۔ لیکن اس کا خیال تھا کہ یہ کام جلد از جلد ہو جانا چاہیے۔ ہر کوئی اس تاریخ کو سننے کا انتظار کر رہا تھا۔ ہال میں خاموشی چھا گئی۔

لاپیئر اور کولنز نے لکھا کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے بعد میں اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہا، ’میں ثابت کرنے کے لیے پرعزم تھا کہ سب کچھ میرا ہے۔‘

اچانک ماؤنٹ بیٹن نے اس وقت پریس کانفرنس میں کہا کہ میں نے اقتدار سونپنے کی تاریخ طے کر دی ہے۔ یہ کہہ کر اس کے ذہن میں کئی تاریخیں گھومنے لگیں۔

لیپیئر اور کولنز لکھتے ہیں، ’ماؤنٹ بیٹن کی آواز اچانک گونجی اور انھوں نے اعلان کیا کہ 15 اگست 1947 کو اقتدار ہندوستانی ہاتھوں میں دے دیا جائے گا۔‘

اچانک ایک دھماکہ ہوا لندن سے ہندوستان تک آزادی کی تاریخ کا فیصلہ کیا گیا اور اپنی مرضی سے اعلان کیا گیا۔ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان میں برطانیہ کی تاریخ پر اس طرح پردہ ڈالیں گے۔

آخر کار 14 اور 15 اگست کی درمیانی رات کو ہندوستان تقسیم ہوا اور پاکستان ایک نئے ملک کے طور پر معرض وجود میں آیا۔ اب دونوں ملک آزاد تھے لیکن ایک نہیں۔