اصلاح و تجدید کی ضرورت اور تاریخ اسلام میں ان کا تسلسل - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی

 زندگی متحرک ہے اور تغیر پذیر ہے:

 اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے، اور کامل و مکمل طور پر دنیا کے سامنے آچکا ہے، اور اعلان کیا جاچکا ہے کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ (المائدہ-3)ترجمہ: آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور دین کی حیثیت سے اسلام کو تمہارے لیے پسند کرچکا۔ ایک طرف تو اللہ کا دین مکمل ہے، دوسری طرف یہ حقیقت ہے کہ زندگی متحرک اور تغیر پذیر ہے، اور اس کا شباب ہر وقت قائم ہے۔               

جاوداں، پیہم دواں، ہردم جواں ہے زندگی

اس رواں دواں اور سداجواں زندگی کا ساتھ دینے اور اس کی رہنمائی کے لئے اللہ تعالٰے نے آخری طور پر جس دین کو بھیجا ہے، اس کی بنیاد اگرچہ"ابدی عقائدوحقائق"پر ہے مگر وہ زندگی سے پُر ہے، اور حرکت اسکی رگ و پے میں بھری ہوئی ہے، اس میں اللہ تعالٰی نے یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ ہر حال میں دنیا کی رہنمائی کرسکے، اور ہر منزل میں تغیر پذیر انسانیت کا ساتھ دے سکے، وہ کسی خاص عہد کی تہذیب یا کسی خاص دور کا فن تعمیر نہیں ہے جو اس دور کی یادگاروں کے اندر محفوظ ہو اور اپنی زندگی کھوچکا ہو، بلکہ ایک زندہ دین ہے جو علم و حکیم صانع کی صنعت کا

بہترین نمونہ ہے۔

 ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴿الانعام:٩٦﴾

یہ ہے اندازہ غالب اور علم رکھنے والے کا۔

صُنْعَ اللَّـهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ۚ  ﴿النمل:٨٨﴾

کاریگری اللہ کی جس نے ہر چیز کو محکم کیا۔

اُمتِ اسلامیہ کا زمانہ سب سے زیادہ پُر از تغیرات ہے

یہ دین چونکہ آخری اور عالمگیر دین ہے اور یہ امت آخری اور عالمگیر اُمت ہے اس لئے یہ بالکل قدرتی بات ہے کہ دنیا کے مختلف انسانوں اور مختلف زمانوں سے اس امت کا واسطہ رہے گا اور ایسی کشمکش کا اس کو مقابلہ کرنا ہو گا، جو کسی دوسری امت کو دنیا کی تاریخ میں پیش نہیں آئی۔ اس امت کو جو زمانہ دیا گیا ہے، وہ سب سے زیادہ پُر از تغیرات اور پُر از انقلابات ہے اور اس کے حالات میں جتنا تنوع ہے، وہ تاریخ کے کسی گذشتہ دور میں نظر نہیں آتا۔

اسلام کے بقا اور تسلسل کے لئے غیبی انتظامات

ماحول کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لئے اور مکان و زمان کی تبدیلیوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لئے دو انتظامات فرمائے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان سے جناب رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو ایسی کامل و مکمل اور زندہ تعلیمات عطا فرمائی ہیں جو ہر کشمکش اور ہر تبدیلی کا باآسانی مقابلہ کر سکتی ہیں اور ان میں ہر زمانہ کے مسائل و مشکلات کو حل کرنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ دوسرے اس نے اس کا ذمہ لیا ہے (اور اس وقت کی تاریخ اس کی شہادت دیتی ہے) کہ وہ اس دین کو ہر دور میں ایسے زندہ اشخاص عطا فرماتا رہے گا جو ان تعلیمات کو زندگی میں منتقل کرتے رہیں گے۔ اور مجموعاً یا انفراداً اس دین کو تازہ اور اس امت کو سرگرم عمل رکھیں گے۔ اس دین میں ایسے اشخاص کے پیدا کرنے کی جو صلاحیت و طاقت ہے اس کا اس سے پہلے کسی دین سے اظہار نہیں ہوا۔ اور یہ امت تاریخ عالم میں جیسی "مردم خیز" ثابت ہوئی ہے دنیا کی قوموں اور امتوں میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ یہ محض اتفاقی بات نہیں ہے۔

بلکہ انتظام خداوندی ہے کہ جس دور میں جس صلاحیت و قوت کے آدمی کی ضرورت تھی اور زہر کو جس "تریاق"کی حاجت تھی وہ اس امت کو عطا ہوا ۔

اسلام کے قلب و جگر پر حملے

شروع ہی سے اسلام کے قلب و جگر اور اس کےاعصاب پر ایسے حملے ہوئے ہیں کہ دوسرا مذہب ان کی تاب نہیں لا سکتا دنیا کے دوسرے مذاہب جنہوں نے اپنے اپنے وقت میں دنیا فتح کرلی تھی اس سے کم درجہ کے حملوں کو سہ نہیں سکے اور انہوں نے اپنی ہستی کو گم کر دیا ،لیکن اسلام نے اپنے ان سب حریوفوں کو شکست دی ،اور اپنی اصلی شکل میں قائم رہا ایک طرف باطنیت اور اس کی شاخیں ،اسلامی روح،اور اسکے نظام عقائد کے لئے سخت خطرہ تھیں ،دوسری طرف مسلمانوں کو زندگی سے بے دخل کرنے کے لئے ،صلیبیوں کی یورش اور تاتاریوں کا حملہ بلکل کافی تھا ،دنیا کا کوئی دوسرا مذہب ہوتا تو وہ اس موقع پر اپنے سارے امتیازات کھو دیتا ،اور ایک تاریخی داستان بن کر رہ جاتا لیکن اسلام ان سب داخلی وخارجی حملوں کو برداشت کر لے گیا،اور اس نے نہ صرف اپنی ہستی قائم رکھی بلکہ زندگی کے میدان میں نئی نئی فتوحات حاصل کیں تحریفات و تاویلات ،بدعات ،عجمی اثرات،مشرکانہ اعمال،و رسوم ،مادیت،نفس پرستی،تعیشات،الحاد و لادینیت،اور عقلیت پرستی کا اسلام پر بار ہا حملہ ہوا اور کبھی کبھی محسوس ہونے لگا کہ شائد اسلام ان حملوں کی تاب نہ لاسکے اور ان کے سامنے سپر ڈالدے،لیکن امت مسلمہ کے ضمیر نےصلح کرنے سے انکار کردیا ،اور اسلام کی روح نے شکست نہیں کھائی ،ہر دور میں ایسے افراد پیدا ہوئے جنہوں نے تحریفات و تاویلات کا پردہ چاک کر دیا ،اور حقیقت اسلام اور دین خالص کو اجاگر کیا ،بدعات اور عجمی اثرات کے خلاف آواز بلند کی ،سنت کی پر زور حمایت کی عقائد باطلہ کی بے باکانہ تردید اور مشرکانہ اعمال و رسوم کے خلاف علانیہ جہاد کیا ، مادیت اور نفس پرستی پر کاری ضرب لگائی ،تعیشات اور اپنے زمانے کے "مترفین"( متکبر دولت مندوں اور مستغنی آسودہ حال اور فارغ البال لوگوں کو قرآن مجید"مترفین"کے نام سے یاد کرتا ہے ) کی سخت مذمت کی،اور جابرانہ سلاطین کے سامنے کلمہ حق بلند کیا ، عقلیت پرستی کا بت توڑا اور اسلام میں نئی قوت وحرکت اور مسلمانوں میں نیا ایمان اور نئی زندگی پیدا کردی ، یہ افراد دماغی علمی ، اخلاقی اور روحانی اعتبار سے اپنے زمانہ کے ممتاز ترین افراد تھے اور طاقتور اور دلآویز شخصیتوں کے مالک تھے ، جاہلیت اور ضلالت کی ہر نئی ظلمت کے لئے ان کے پاس کوئی نہ کوئی ید بیضاء تھا جس سے انہوں نے تاریکی کا پردہ چاک کردیا ، اور حق روشن ہو گیا،اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کو اس دین کی حفاظت اور بقاءمنظور ہے ، اور دنیا کی راہنمائی کا کام اسی دین اور اسی امت سے لینا ہے ، اور جو کام وہ پہلے تازہ نبوت اور انبیاء سے لیتا تھا اب رسول اللہ ﷺ کے نائبین اور امت کے مجددین ومصلحین سے لے گا۔

دوسرے مذاہب کی تاریخ میں تجدیدی شخصیتوں کی کمی

اس کے برخلاف دنیا کے دوسرے مذاہب میں ایسی ہستیوں کی نمایاں کمی نظر آتی ہے ، جو ان مذاہب میں نئی روح اور ان کے ماننے والوں میں نئی زندگی پیداکردیں ، ان کی تاریخ میں صدیوں اور ہزاروں برس کے ایسے خلاء نظر آتے ہیں ، جن میں اس دین کا کوئی مجدد دکھائی نہیں دیتا ، جو اس دین کو تحریفات وبدعات کے نرغہ سے نکالے ، اس کی حقیقت واضح کرے، اصل دین اور حقیقت ایمان کی  طرف پوری قوت سے دعوت دے ، رسوم کے خلاف پرزور صدائے احتجاج بلند کرے ، مادیت ونفس پرستی کی تحریک ورجحانات کے خلاف جہاد کرنے کے لئے کمر بستہ ہو کر میدان میں آجائے ، اوراپنے یقین ، سچی روحانیت اور قربانیوں سے اس مذہب کے پیروؤں میں نئی روح اورنئی زندگی پیدا کردے۔  اس کی سب سے بڑی مثال مسیحیت ہے ، وہ اپنے عہد کے آغاز یعنی پہلی صدی مسیحی کے نصف ہی میں ایسی تحریف کا شکار ہوئی ، جس کی نظیر اس دور کی تاریخ مذاہب میں کہیں نہیں ملتی وہ ایک صاف اور سادہ توحیدی مذہب سے ایک ایسے مشرکانہ مذہب میں تبدیل ہو گئی جس کو یونانی اور بودھ افکار وخیالات کا مجموعہ کہا جاسکتا ہے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس کے سب سے بڑے داعی اور پیرو سینٹ پال (10/65ء ) کے ہاتھوں ہوا ۔ یہ تبدیلی دراصل ایک روح سے دوسری ، ایک شکل سے دوسری شکل اور ایک نظام سے دوسرے نظام کی طرف ایک ایسی جست یا چھلانگ کے مترادف تھی جس میں پہلی شکل سے صرف نام اور بعض رسوم کا اشتراک باقی رہ گیا تھا ، ایک مسیحی فاضل (Eroset De Bunsen) اس تغیر و انقلاب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے :

‘‘ جس عقیدے اور نظام کا ذکر ہمیں انجیل میں ملتا ہے ، اس کی دعوت حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے قول و عمل سے کبھی نہیں دی تھی ، اس وقت عیسائیوں اور یہودیوں و مسلمانوں کے درمیان جو نزاع قائم ہے اس کی ذمہ داری حضرت مسیح علیہ السلام کے سر نہیں ہے بلکہ یہ سب اس یہودی ، عیسائی بے دین پال کا کرشمہ ہے ، نیز صحف مقدسہ کی تمثیل و تجسیم کے طریقہ پر تشریح اور ان صحیفوں کو پیش گوئیوں اور مثالوں سے بھر دینے کا نتیجہ ہے ، پال نے اسٹیفن (stephen) کی تقلید میں جو مذہب ایسانی (essenio) کا داعی ہے ، حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ بہت سی بودھ رسوم وابستہ کر دیں ، آج انجیل میں جو متضاد کہانیاں اور واقعات ملتے ہیں ، اور جو حضرت مسیح علیہ السلام کو ان کے مرتبہ سے بہت فروتر شکل میں پیش کرتے ہیں ، وہ سب پال کے وضع کیے ہوئے ہیں ، حضرت مسیح علیہ السلام نے نہیں بلکہ پال اور انکے بعد آنے والے پادریوں اور راہبوں نے اس سارے عقیدہ ونظام کو مرتب کیا ہے جس کو آرتھوڈکس مسیحی دنیا نے اٹھارہ صدیوں سے اپنے عقیدہ کی اساس قرار دے رکھا ہے ۔’’ (islam or true christianity - p. 128)

مسیحیت نے طویل صدیوں تک اور آج بھی پال کی اس روح اور اس کے ورثہ کو سینہ سے لگائے رکھا ، اور اس پوری مدت میں مسیحی دنیا میں کوئی ایسا آدمی پیدا نہیں ہوا جو مسیحیت کے اس بیرونی مستعار اور غیر حقیقی نظام کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کرے ، اور اس نقطہ کی طرف واپسی کی کوشش کرے ، جس نقطہ پر حضرت مسیح علیہ السلام اور ان کے مخلص خلفاء اور متبعین چھوڑ کرگئے تھے ، صدیوں پر صدیاں بیت گئیں اور کوئی ایسا شخص پیدا نہ ہوا جو مسیحیت کے ان بیرونی اجزاء کو علیٰحدہ کرسکے ، آخرکار پندرہویں صدی عیسوی میں مارٹن لوتھر (m.luther) جرمنی میں پیدا ہوا اور اس نے بعض جزئی مسائل میں کچھ محدود قسم کی اصلاح کی ، یہ کوئی جوہری یا عمومی اصلاح نہ تھی اور نہ مسیحیت کے غلط رخ اور اس کے انحراف کے خلاف کوئی بغاوت ، گویا مسیحیت کی تاریخ کی تقریباً پندرہ صدیاں انقلاب انگیز بنیادی اور کامیاب اصلاح مذہب کی تحریکوں سے خالی رہیں ، اور اس عرصہ میں کوئی کوشش بھی پورے طور پر بار آور اور نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی ، مسیحی فضلاء کو بھی اس کا اعتراف ہے کہ اس طویل مدت میں مسیحی دنیا میں کوئی شخصیت یا تحریک رونما نہیں ہوئی جو مسیحت کی اصلاح یا تجدید میں نمایاں کامیابی حاصل کر سکے۔

انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کا مقالہ نگار (J. BASSMULLINGER) لکھتا ہے :

"اگر ہم اس کے اسباب تلاش کریں کہ سولہویں صدی سے قبل اصلاح زہب (ریفارمیشن) کی کوششوں میں جزوی کامیابی بھی کیوں نہ ہوئی تو بلا کسی دشواری کے کہہ سکتے ہیں کہ سب سے بڑا سبب قرونِ وسطیٰ کے ذہن کی ماضی کی شالوں کی غلامی تھی (ENC. BRITTANICS-ED IX VOL. XX P.320, ARTICLE BY J. B. MULLINGER )۔

دوسری جگہ لکھتا ہے :

"چرچ کے اصلاح کی کوئی جامع تجویز بروئے کار لانے کی ان کی مسلسل کوششوں کی ناکامی یورپین تاریخ کی ایک جانی بوجھی حقیقت ہے (ایضاً ص ۳۲۱۔)۔

یہی مقالہ نگار آگے لکھتا ہے :

"سولہویں صدی سے قبل اصلاح مذہب کی چند نہیں، متعدد اور بعض بہت یادگار قسم کی کوششیں کی جا چکی تھیں لیکن بلا استثنا ان سب کو کلیسا کی لعنت و ملامت کا شکار ہو جانا پڑا تھا۔" (ایضاً ص ۳۲۱۔)

اس کے بعد کوئی دوسرا شخص ایسا پیدا نہیں ہوا جو کلیسا کے خرافات و اوہام اور اس کی زبردستیوں کے خلاف اپنی آواز بلند کرتا اور کم از کم اتنا ہی کرتا جتنا لوتھر نے (اپنے مخصوس دائرہ عمل اور کمزوری کے باوجود) کیا تھا۔

غرض اس طرح مسیحت اس راستہ پر مسلسل چلتی رہی جس کو اس نے اپنے لئے انتخاب کیا تھا۔ یا زیادہ صحیح الفاظ میں اس کے سر تھوپ دیا گیا تھا۔ کلیسا کا اثر کم پڑ گیا اور بعد میں اس کا اقتدار بالکل ختم ہو گیا۔ یورپ میں مادّیت کی حکومت قائم ہوئی۔ اور اس نے اس اصل مذہب کی جگہ لے لی اور مغرب کے ہر مذہب کو اس نے اپنے پیچھے چھوڑ دیا اور مسیحت میں کوئی ایسا انسان پیدا نہ ہو سکا جو اس مادیت کا مقابلہ کرتا اور اس کو اپنے صحیح مرکز پر واپس لاتا، یا عیسائیوں میں اپنے مذہب پر اعتماد کو بحال کرتا۔ ان سب میں وہ روحانی و اخلاقی قوت پیدا کرتا جو ان کو مادّیت کے ان زبردست تھپیڑوں اور ایمان سوز ترغیبات کے سامنے ثابت قدم رکھ سکے، اور ان کو ایسی زندگی گزارنے پر مجبور کر سکے، جو علم و اخلاق اور صحیح عیسائی عقائد پر قائم ہو اور جہاں نئے زمانہ کے سوالات، عصر جدید کے مسائل کا حل، اس کی روشنی میں ممکن ہو۔ اس کے برعکس یہ ہوا کہ عیسائی مفکرین، مصنفین مسیحت کے مستقبل سے خود مایوس ہو گئے اور لادینی مادّیت کے مقابلہ میں ان کے اندر احساس کمتری پیدا ہو گیا۔

یہی قصہ مشرق کے مذاہب کے ساتھ بھی پیش آیا۔ ہندو مذہب بھی اپنی اصل راہ سے بالکل ہٹ گیا۔ اس نے اپنی سادگی اور خالقِ کائنات سے براہِ راست روحانی نسبت بالکل کھو دی، اخلاقی قوت بھی مفقود ہو گئی اور اپنی پیچیدگی کی وجہ سے وہ محض ایک دقیق اور غیر عملی فلسفہ بن کر رہ گیا۔ اور رفتہ رفتہ عقائد میں توحید خالص اور معاملات میں مساوات دونوں اہم چیزوں کا سررشتہ اس کے ہاتھ سے بالکل چھوٹ گیا۔ اور یہی وہ دو اہم بنیادیں تھیں، جن پر کوئی ایسا مذہب قائم ہو سکتا ہے، جس کی جڑیں باطن میں مضبوط ہوں، اور شاخیں ظاہر میں پھیلی ہوئی ہوں۔

اپنیشد کے مصنفین نے بہت کوشش کی کہ اس فساد کا تدارک کریں، چنانچہ انہوں نے ان رسوم کو جو ہندو مذہب اور ہندو سماج پر پوری طرح چھا گئی تھیں، مسترد کر دیا اور اس کی جگہ ایک ایسے فلسفیانہ اور تصوراتی نظام کو پیش کیا، جو کثرت میں وحدت کے نظریہ پر قائم تھا۔ یہ نئی تصویر ہندو مذہب کے علمی حلقوں میں تو ضرور پسند کی گئی، اس لئے کہ ان کا رحجان شروع ہی سے وحدت الوجود ہمہ اوست کی طرف تھا، لیکن عوام نے جن کی فکری سطح پست تھی، اور جو عملی نظام اور عملی تعلیمات کے خواہشمند تھے، اس بات کو قبول نہ کیا اور اس طرح ہندو مذہب رفتہ رفتہ اپنی قوت و تاثیر کھوتا رہا۔ اس کی طرف سے بے اعتمادی اور بے اطمینانی روز بروز بڑھنے لگی، ہندو سماج کی یہی بے اطمینانی اور بے چینی تھی جس نے آگے چل کر بودھ کی شخصیت میں جنم لیا۔ یہ مرحلہ چھٹی صدی قبل مسیح میں سامنے آیا۔

بودھ نے ایک نیا فکر یا ایک نیا مذہب (اگر اس موقع پر لفظ مذہب کا استعمال درست ہو) پیش کیا جو ترک دنیا، تہذیب نفس، خواہشات سے مقابلہ، رحم دلی و ہمدردی، خدمت و عمل اور رسوم و عادات اور طبقاتی کشمکش

کی تردید و مخالفت پر قائم تھا، جو ہندو سماج میں آخر زمانہ میں بهت نمایاں ہو گئی تھی، یہ فکر یا یہ مذہب (بودھ مت کے لیے لفظ مذہب کے استعمال میں مجھے تردد اسلئے ہے کہ اس میں خالق اور مبدا و معاد کے سلسلہ میں کوئی عقیدہ یا نظریہ نہیں ملتا، اور اکثر مصنفین و مؤرخین کی یہی رائے ہے، دیکھئے انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا لفظ بودھ : BUDDHA) بہت سرعت کے ساتھ پهیلا، اور ایشیا کے جنوبی اور مشرقی حصہ پر جو بحر ہند اور بحر الکاہل کے درمیان واقع ہے، اس کا تسلط قائم ہوگیا لیکن کچھ ہی عرصہ کے بعد یہ زبردست مذہبی تحریک بھی اپنے راستہ سے ہٹ گئی، اور تحریف کا شکار ہو گئی، مورتیاں اور رسوم وغیرہ جن کے خلاف اس مذہب نے علم بغاوت بلند کیا تها، اس پر پھر سے حملہ آور ہوئے، یہاں تک کہ اس کے آخر دور میں وہ بھی شرک اور مورتی پوجا کا مذہب بن کر رہ گیا، جو اپنے پیشرو ہندو مذہب سے مورتیوں کی اقسام اور انکی تعداد کے سوا کسی اور چیز میں مختلف اور بہتر نہ تھا، اسکی اخلاقیات کو بھی زوال ہوا، افکار و خیالات میں پیچیدگی اور بڑه گئی، نئے نئے فرقے اور مذہبی گروہ قائم ہو گئے، پروفیسر ایشورا ٹوپا اپنی کتاب "ہندوستانی تمدن " میں لکھتے ہیں:-

           "بودھ مت کے سایہ میں ایسی حکومت قائم ہوئی، جس میں اوتاروں کی بھرمار اور مورت پرستی کا دور دورہ دکھلائی دینے لگا، سنگھوں کی فضا بدل رہی تھی، اس میں بدعتیں اور جدتیں یکے بعد دیگرے نظر آرهی تھیں" ( ہندوستانی تمدن (اردو ) ایشورا ٹوپا)

پنڈت جواہر لال نہرو اپنی کتاب "تلاش ہند" DISCOVERY OF INDIA" میں بدھ مت کے بگاڑ اور تدریجی زوال کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:-

      "برهمنیت نے بودھ کو اوتار بنایا، اور بودھ مت نے بھی یہی کیا،  سنگھ بہت دولتمند ہوگئے، اور ایک خاص جماعت کے مفاد کے مرکز بن کر رہ گئے، اور ان میں ضبط و قاعده بالکل نہیں رہا، عبادات کے طریقوں میں سحر اور اوہام داخل ہو گئے، اور ہندوستان میں ایک ہزار سال تک باقاعدہ رائج رہنے کے بعد بودھ مت کا تنزل شروع ہوگیا، اس عہد میں اس کی جو مریضانہ کیفیت تھی، (MRS RMYS DAYIS) نے اس کا ذکر اس طرح کیا ہے:-

         "ان مریضانہ خیالات کے گہرے سایہ میں آکر گوتم کی اخلاقی تعلیم نظر سے اوجھل ہو گئی، ایک نظریہ پیدا ہوا اور اس نے فروغ پایا، اس کی جگہ دوسرے نے لے لی، اور ہر ایک قدم پر ایک نیا نظریہ پیدا ہونے لگا، یہاں تک کہ ساری فضا میں  ذہن کی ان پُر فریب تخلیقوں سے گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا اور بانی مذہب کے سادہ اور بلند اخلاقی درس ان الہیاتی موشگافیوں کے انبار کے نیچے دب کر رہ گئے ۔

مجموعی حیثیت سے بودھ مت اور برہمنیت دونوں میں گراوٹ پیدا ہوگئی اور ان میں اکثر مبتذل رسوم داخل ہو گئیں دونوں میں امتیاز کرنا مشکل ہو گیا اس وسیع بودھ دنیا میں اور اس کی حکمرانی کی اس طویل مدت میں کوئی ایسا مصلح سامنے نہ آیا جو حقیقی بودھ مت کی طرف دعوت دے اور اس جدید اور منحرف مذہب کا پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کرے اور اس کا گذشتہ دور شباب اور اس کی گم شدہ سادگی اورصفائی پھر سے واپس لے آئے ۔

غرض قدیم ہندو مذہب ،بودھ مت کے سامنے بالکل پنپ نہ سکا یہاں تک کہ آٹھویں صدی مسیحی میں شنکر آچاریہ نے بودھ مت کی مخالفت اور قدیم ہندو مذہب کی اشاعت کا علم بلند کیا اور آخر کار اس کو اس ملک سے تقریباً باہر ہی کردیا یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کی حیثیت ہندوستان کے بہت سے مذاہب میں ایک قدیم روبزوال اور محدود مذہب کی رہ گئی ،شنکر آچاریہ نے اپنی ذہانت,مذہبی جرات اور جوشِ عمل سے یہ تو کیا کہ بودھ مت کو بالکل زندگی سے بے دخل کر دیا لیکن وہ اس باب میں کامیاب نہ ہوئے ( بلکہ اس کا انھوں نے سرے سے ارادہ ہی نہیں کیا تھا ) کہ قدیم ہندو مذہب کو اس کی پہلی اور حقیقی شکل پہ واپس لے آئیں اس میں توحید کا عقیدہ خالقِ کائنات سے براہِراست اتصال،بندہ اور خدا کے مذہب کے درمیان واسطوں کی نفی ،اجتماعی انصاف اور طبقاتی مساوات کی روح پیدا کر دیں چنانچہ آج تک یہ دونوں ہندوستانی مذاہب اپنی بدلی ہوئی ہیئت پر قائم ہیں اور دور انحطاط کی میراث رسوم و عادات اور مورتیوں کو اپنے سینہ سے لگائے ہوئے ہیں مذاہب واخلاق کے انسائیکلویڈیا (Encyclopedia of Religion and ethics) کے مقالہ نگار (v.s ghate) جو الفسٹن کالج بمبئی میں سنسکرت کے پروفیسر تھے اور ہندوستان کے قدیم مذاہب و فلسفوں پر گہری نظر رکھتے ہیں شنکر آچاریہ (شکرآچاریہ آٹھویں صدی کے نصف آخر میں گزرا ہے، 32 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔) کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

"ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد اس نظام مذہب اور فلسفہ کا زنددہ کرنا تھا جس کی اوپنشید میں تعلیم دی گئی۔۔ اس نے مطلق وحدة الوجود کے عقیدہ کو رائج کردیا ۔ اس کا اصلی مقصد یہ تھا کہ وہ یہ بتائے کہ اوپنشید اور بھگوت گیتا میں قانون پیش نہیں کیا گیا ہے ، بلکہ مکمل وحدة الوجود کی تعلیم ہے ۔ شنکر آچاریہ نے بت پرستی کی نہ مخالف کی ، نہ حملہ کیا ۔ ان کے نزدیک بت ایک رسم اور مظہر ہے ۔ شنکر آچاریہ نے رسمیت (RITUALISM) اور کرما کی مذمت کی ، لیکن مقبول عام دیوتاؤں کی پرستش کی طرف سے مدافعت کی " اپنے نشو و نما کی ایک خاص منزل میں بت پرستی ہماری فطرت کی ایک ضرورت ہے ؛ جب مذہبی روح پختہ اور بالغ ہو جاتی ہے ، تو بت پرستی کی ضرورت نہیں رہتی علامتوں اور رموز کو ترک کر دینا چاہیے جب مذہبی روح پختہ اور بالغ ہو جاتی ہے ۔ " شنکر نے بتوں کی اجازت دی بحیثیت ایک علامت کے ان لوگوں کے لئے جو ایسے برہمنوں کے مرتبے تک نہ پہنچ سکے جو صفات سے آزاد اور ناقابل تبدیل ہوں " ۔( ماخوذ از مقالہ شنکر آچاریہ باختصار و انتخاب ملاحظہ ہو ۔END OF RELIGION AND ETHICS - FOURTH EDITION. 1958 ARTICLE SHANKARACHARYA)  بہرحال وہ تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں جو شنکر آچاریہ سے لے کر دیانند سرسوتی اور گاندھی جی تک کی گئیں ، اور جن کا مقصد اس مذہب کا اس کی ان صحیح بنیادوں پر احیاء تھا ، جو نبوت کی دعوت انسان کی فطرت سلیم اور تغیر پذیر عہد سب کے ساتھ ہم آہنگ ہوں ۔ ان دونوں مذاہب نے آخر کار مادیت و لادینیت کے سامنے سپر ڈال دی ہے ، اور زندگی سے کنارہ کش ہو کر عبادت گاہوں اور تیرتھ گاہوں میں پناہ لی ہے ، اور رسوم و عادات اور ظاہری اشکال میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں ۔ ہندوستان میں اس وقت کوئی ایسی طاقتور دعوت نہیں جس کا نعرہ اور جس کا منشور یہ ہو ( پھر سے مذہب کی طرف آؤ ) اس کے برعکس ایسی تحریکیں بہت بیدار اور طاقتور ہیں جن کا نعرہ اور اصول یہ ہو کہ اپنی پرانی تہذیب کو زندہ کرو ، ہندوستان کی قدیم تاریخی زبان " سنسکرت " کو پھر سے ملک میں رائج کرو ۔

مذہب کو زندہ اشخاص کی ضرورت :

      دراصل کوئی مذہب اس وقت تک زندہ نہیں رہ سکتا ، ان خصوصیات کو زیادہ دنوں تک برقرار نہیں رکھ سکتا اور بدلتی ہوئی زندگی پر اثر نہیں ڈال سکتا ۔ جب تک وقتاً فوقتاً اس میں ایسے اشخاص نہ پیدا ہوتے رہیں، جو اپنے غیر معمولی یقین، روحانیت، بے غرضی و ایثار اور اپنی اعلٰی دماغی اور قلبی صلاحیتوں سے اس کے تن مردہ میں زندگی کی نئی روح پھونک دیں، اور اس کے ماننے والوں میں نیا اعتماد اور جوش اور قوتِ عمل پیدا کر دیں، زندگی کے تقاضے ہر وقت جواں ہیں، مادّیت کا درخت سدا بہار ہے، نفس پرستی کی تحریک اور اس کے مذہب کو حقیقۃً کسی تجدید کی ضرورت نہیں کہ اس کی ترغیبات اور اس کے محرکات قدم قدم پر موجود ہیں، پھر بھی اس کی تاریخ اس کے پُرجوش داعیوں اور کامیاب مجدّدوں سے کبھی خالی نہیں رہی، جنہوں نے اس کی جوانی کو قائم اور اس کی دعوت کو اس وقت تک زندہ رکھا ہے : ع

اگرچہ پیر ہے مومن جواں ہیں لاتؔ و مناؔت

اس کا مقابل جب ایک نئی زندگی اور نئی طاقت کے ساتھ میدان میں نہیں آئے گا، اور وقتاً فوقتاً اس کی تجدید نہیں ہوتی رہے گی، تازہ دم مادّیت کے مقابلہ میں اس کا زندہ رہنا مشکل ہے۔

ہر فتنہ اور نئے خطرے کے لئے نئی شخصیت و طاقت

          اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اسلام کے اس طویل اور پُرآشوب تاریخ میں کوئی قلیل سے قلیل مدت ایسی نہیں پائی جاتی، جب اسلام کی حقیقی دعوت بالکل بند ہو گئی ، حقیقتِ اسلام بالکل پردہ میں چھپ گئی ہو۔ امّت اسلامیہ کا ضمیر بالکل بے حس ہو گیا ہو اور تمام عالم اسلام پر اندھیرا چھا گیا ہو۔ یہ تاریخی واقعہ ہے کہ جب کبھی اسلام کے لئے کوئی فتنہ نمودار ہوا، اس کی تحریف اور اس کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی، یا اس کو غلط طریقہ پر پیش کیا گیا، مادیت کا کوئی سخت حملہ ہوا، کوئی طاقتور شخصیت ایسی ضرور میدان میں آ گئی، جس نے اس فتنہ کا پوری طاقت سے مقابلہ کیا، اور اس کو میدان سے ہٹا دیا، بہت سی دعوتیں اور تحریکیں ایس ہیں جو اپنے وقت میں بڑی طاقتور تھیں، لیکن آج ان کا وجود صرف کتابوں میں رہ گیا ہے۔ ان کی حقیقیت کا سمجھنا بھی آج مشکل ہے۔ کتنے آدمی ہیں جو قدریت ، جہمیوحدۃ الوجود اور اکبر کے دین الہی کی حقیقت اور تفصیلات سے واقف ہیں، حالانکہ یہ اپنے اپنے وقت کے بڑے اہم عقائد ومذاہب تھے، ان میں سے بعض کی پشت پر بڑی بڑی سلطنتیں تھیں، اور اپنے زمانہ کے بعض بڑے ذہین اور لائق اشخاص ان کے داعی اور علمبردار تھے، لیکن بالآخر حقیقت اسلام نے ان پر فتح پائی، اور کچھ عرصہ کے بعد یہ زندہ تحریکیں اور سرکاری مذاہب علمی مباحث بن کر رہ گئے، جو صرف علم کلام اور تاریخ عقائد کی کتابوں میں محفوظ ہیں، دین کی حفاظت کی یہ جدوجہد ، تجدید وانقلاب کی کوشش اور دعوت واصلاح کا یہ سلسلہ اتنا ہی پرانا ہے ، جتنی اسلام کی تاریخ اور ایسا ہی مسلسل ہے جیسی مسلمانوں کی زندگی۔

تاریخ کے گم شدہ مآخذ

لیکن اس کی ذمہ داری صرف مورخین پر عائد نہیں ہوتی اس کے ذمہ دار وہ تمام لوگ ہیں جو تاریخ کی اصطلاحی اور سرکاری حیثیت کے سوا کوئی اور حیثیت ماننے پر تیار نہیں، اور کسی ایسی کتاب کو لائق اعتبار نہیں سمجھتے جو کسی کتب خانہ میں تاریخ کی الماری کے اندر نہ ہو یا فن تاریخ کے تحت درج نہ ہو، حالانکہ ایسی بہت سی کتابیں اپنے اندر تاریخ کا بہت قیمتی ذخیرہ رکھتی ہیں، اور ان کو بہت اہم مآخذ قرار دیا جاسکتا ہے، یہ وہ ادبی اور دینی کتابیں ہیں، جن میں ان داعیوں اور مصلحین امت نے اپنے دلی احساسات وکیفیات کو بے نقاب کیا ہے، اور اپنی زندگی کے اہم واقعات اور تجربے درج کیے ہیں، یہ وہ کتابیں ہیں جن میں شاگردوں اور مریدوں نے اپنے اساتذہ وشیوخ کے نصائح وملفوظات اور حقائق ومعارف قلم بند کیے ہیں، اور ان کی پر اثر اور بابرکت مجلسوں کی روئیداد پیش کی ہے، یہ مکتوبات اور مواعظ کے وہ مجموعے ہیں جن سے ان کے خیالات وافکار اور جذبات وکیفیات کا صحیح اندازہ ہوتا ہے، یا وہ کتابیں جو احتسابِ سوسائٹی پر تنقید اور بدعات ومنکرات کے رد وابطال میں لکھی گئی ہیں، اگر ہمارا مطالعہ اپنی مقرر کردہ حدود سے آگے بڑھ کر ان اہم اور گم شدہ تاریخی مآخذ تک وسیع ہوسکتا اور کوئی وسیع النظر نکتہ رس اور باہمت محقق اس موضوع پر جم کر کام کرسکتا تو ایک مربوط ومکمل تاریخ اصلاح وتجدید پیش کرنے میں کامیاب ہوجاتا، اور ہمیں صاف نظر آتا کہ دعوت وعزیمت دونوں چیزیں اس امت کے ہر دور اور ہر مرحلہ میں اس کا ساتھ دیتی رہیں اور انھوں نے کبھی اس کو مایوس اور محروم نہیں کیا۔

اسلام کی میراث

یہ میراث جو ہمارے ہاتھ میں پہنچی ( اور جس کو ہم میراث ) کے معنی میں نہیں بول رہے ہیں جو اہل مغرب کا مفہوم ہے اس لیے کہ اسلام ایک زندہ جاوید دین ہے، ہم میراث سے وہ دولت اور ثروت مراد لیتے ہیں جو ہمارے اسلاف سے ہماری طرف منتقل ہوئی ہے، علم راسخ، محفوظ ومضبوط عقائد، طاقتور ایمان، سنت سنیہ، اخلاق عالیہ، فقہ وشریعت اور شاندار اسلامی ادب کی ثروت، اس میراث میں ہر اس فرد کا پورا حصہ ہے، جس نے اسلام کے کسی دور میں بھی منہاج خلافت پر حکومت قائم کی، جاہلیت اور مادیت کا مقابلہ کیا، اللہ تعالی کی طرف دعوت دی، اسلام کے خصائص مٹ گئے تھے، ان کو اجاگر کیا، امت میں ایمانی روح پیدا کی، اس لازوال ثروت میں ہر اس شخص کا اضافہ تسلیم کیا جائے گا جس نے اس دین پر اس کے مآخذ اور اس کی تعبیرات پر اعتماد کو از سر نو استوار کیا، نووارد فلسفوں کا ابطال کیا، اسلام کی حقیقی فکر کی حفاظت کی، اور اس امت کو کسی نئے فتنہ میں پڑنے سے باز رکھا، جس نے اس امت کے لیے اس کے دین اور مصادر دین کی حفاظت کی، حدیث وفقہ کی تدوین جدید کا کام انجام دیا، اجتہاد کا دروازہ کھولا، اور امت کو تشریح کا خزانہ عامرہ اور زندگی ومعاشرہ کا منظم قانون عطا کیا، جس نے معاشرہ میں احتساب کا فرض اداکیا ، اور اس کے انحراف اور کج روی پر کھل کر تنقید کی، اور صحیح وحقیقی اسلام کی برملا وآشکارا دعوت دی، جس نے شکوک وشبہات کے دور اور اضطراب عقائد کے زمانہ میں علمی طرز استدلال اختیار کرکے دماغوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی،اور ایک نئے علم کلام کی بنیاد ڈالی ، جس نے دعوت وتذکیر اور انداز تبشیر میں انیباء علیہم السلام کی نیابت کی، اور ایمان کی دبی ہوئی چنگاریوں کو شعلہ جوالہ کی حرارت وحرکت بخشی، جس نے مادہ پرستی کے تندوتیز دھارے کے سامنے کھڑے ہوکر اس کی تیزی وبلاخیزی کم کی، اور خدا کی مخلوق کو اس دھارے میں بہہ جانے یا اس میں دب جانے سے محفوظ رکھا، جس نے اس امت کی سیاسی قوت کی حفاظت کی اور اس کو پے درپے خارجی حملوں کو سہار لینے کی قوت عطا کی، جس نے اپنی حکیمانہ دعوت اور اپنے دامِ محبت سے اس دشمن کو شکار کیا جو زورِ شمشیر اور نوک خنجر سے بھی زیر نہ ہو سکا تھا، اور جس نے عالم اسلام کو اس سرے سے اس سرے تک زیروزبر کر کے رکھ دیا تھا جس نے اپنے طاقتور ایمان اور اپنی روحانی قوت سے ایسے دشمنوں کو خطیرہ اسلام میں داخل کیا اور محمد عربی علیہ الصلٰوۃ والسلام کی غلامی کا شرف بخشا، جس نے اپنے طاقتور ادب اور دل گداز و بلیغ اشعار سے ان ذہنوں کو اسیرِ دام کیا جو علمی مباحث اور مذہبی فلسفوں سے مطمئن ہونے والے نہیں تھے۔ یہ پورا ایک سلسلہ ہے، اور اس میں ہر شخصیت کا ایک خاص حصّہ اور مرتبہ ہے، تاریخ دراصل امانت کی ادائیگی اور حق شناسی اور اعترافِ حقیقت کا نام ہے ان میں ہر شخص اسلام کی کسی نہ کسی سرحد کا محافظ اور اسلام کے ترکش کا ایک قیمتی تیر تھا، اگر ان لوگوں کی مخلصانہ کوششیں نہ ہوتیں، جن کو آج ہم تاریخ کی دوربین سے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، تو ہم تک یہ مجموعہ نہ پہونچ پاتا جس میں ہمارے لئے عزت، عبرت اور موعظت کا وافر سامان موجود ہے، اور جس کی موجودگی میں ہم اقوام عالم کے سامنے بجا طور پر اپنا سر بلند رکھ سکتے ہیں۔

( تاریخ دعوت و عزیمت جلد اول مقدمہ  از مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی )

------------------

نوٹ : اس مسلک اور ان خطوط پر جو مصنف کے نزدیک منصفانہ اور عادلانہ مسلک ہے، انہوں نے ان اہم شخصیتوں کی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے، جنھوں نے دعوت و عزیمت اور اصلاح و تجدید کے میدان میں کوئی بڑی خدمت انجام دی ہے۔  "تاریخ دعوت و عزیمت"  کے عنوان سے ان کی یہ کتاب چھ جلدوں پر محیط ہے۔ مجلس نشریات اسلام کراچی ناظم آباد نے خوبصورت انداز میں اس کو شائع کیا ہے ۔