احساسات و اشارات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
احساسات و اشارات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ترکی میں حدیث کی تدوین جدید – جاوید احمد غامدی

حدیث سے متعلق کسی کام کو سمجھنے کے لیے اِس حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے کہ دین کا تنہا ماخذ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہے۔ آپ سے یہ دین دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے: ایک قرآن، دوسرے سنت۔ یہ بالکل یقینی ہیں اور اپنے ثبوت کے لیے کسی تحقیق کے محتاج نہیں ہیں۔ اِنھیں مسلمانوں نے نسلاً بعد نسلٍ اپنے اجماع اور تواتر سے منتقل کیا ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کی ہرنسل کے لوگوں نے بغیر کسی اختلاف کے پچھلوں سے لیا اور اگلوں تک پہنچا دیا ہے اور زمانۂ رسالت سے لے کر آج تک یہ سلسلہ اِسی طرح قائم ہے۔

پورا دین اِنھی دو میں محصور ہے اور اُس کے تمام احکام ہم اِنھی سے اخذ کرتے ہیں۔ اِس میں بعض اوقات کوئی مشکل پیش آجاتی ہے۔ پھر جن معاملات کو ہمارے اجتہاد کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے، اُن میں بھی رہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ اِس کے لیے دین کے علما کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے پیغمبر تھے، اِس لیے دین کے سب سے پہلے اور سب سے بڑے عالم، بلکہ سب عالموں کے امام بھی آپ ہی تھے۔ دین کے دوسرے عالموں سے الگ آپ کے علم کی ایک خاص بات یہ تھی کہ آپ کا علم بے خطا تھا، اِس لیے کہ اُس کو وحی کی تائید و تصویب حاصل تھی۔ یہ علم اگر کہیں موجود ہو تو ہر مسلمان چاہے گا کہ قرآن و سنت کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے اِسی سے رہنمائی حاصل کرے۔

ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہ علم موجود ہے اور اِس کا ایک بڑا حصہ ہم تک پہنچ گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ علم آپ کے صحابہ نے حاصل کیا تھا، لیکن اِس کو آگے بیان کرنا چونکہ بڑی ذمہ داری کا کام تھا، اِس لیے بعض نے احتیاط برتی اور بعض نے حوصلہ کر کے بیان کر دیا۔ اِس میں وہ چیزیں بھی تھیں جنھیں وہ آپ کی زبان سے سنتے یا آپ کے عمل میں دیکھتے تھے اور وہ بھی جو آپ کے سامنے کی جاتی تھیں اور آپ اُن سے منع نہیں فرماتے تھے۔ یہی سارا علم ہے جسے 'حدیث' کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سوانح کو جاننے کا سب سے بڑا ذریعہ یہی ہے۔ اِس سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا اضافہ نہیں ہوتا۔ یہ اُسی دین کی شرح و وضاحت اور اُس پر عمل کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کا بیان ہے جو آپ نے قرآن و سنت کی صورت میں اپنے ماننے والوں کو دیا ہے۔

جديد دور میں علماء اسلام کی اصل ذمہ داری

علماء کی ذمہ داری
"علما کے لیے اب یہ وقت نہیں ہے کہ وہ الہیات اور مابعد الطبیعیات اور فقہی جزئیات کی بحثوں میں لگے رہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب تھا یا نہ تھا؟ خدا جھوٹ بول سکتا ہے یا نہیں؟ رسولؐ کا نظیر ممکن ہے یا نہیں؟ ایصالِ ثواب اور زیارتِ قبور کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ آمین بالجہر و رفع یدین کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ مسجد میں منبر و محراب کے درمیان کتنا فاصلہ رکھا جائے؟ یہ اور ایسے ہی بیسیوں مسائل جن کو طے کرنے میں آج ہمارے پیشوایانِ دین اپنی ساری قوتیں ضائع کر رہے ہیں‘ دنیا کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور ان کے طے ہو جانے سے ہدایت و ضلالت کی اس عظیم الشان لڑائی کا تصفیہ نہیں ہوسکتا جو اس وقت تمام عالم میں چھڑی ہوئی ہے۔ آج اصلی ضرورت ان مسائل کے سمجھنے کی ہے جو ناخدا شناسی اور لا دینی کی بنیاد پر علم اور تمدن کے صدیوں تک نشو و نما پاتے رہنے سے پیدا ہوگئے ہیں۔ ان کی پوری پوری تشخیص کر کے اصول اسلام کے مطابق ان کا قابل عمل حل پیش کرنا وقت کا اصلی کام ہے۔ اگر علمائے اسلام نے اپنے آپ کو اس کام کا اہل نہ بنایا‘ اور اسے انجام دینے کی کوشش نہ کی تو یورپ اور امریکہ کا جو حشر ہوگا، سو ہوگا، خود دنیائے اسلام بھی تباہ ہو جائے گی، کیونکہ وہی مسائل جو مغربی ممالک کو درپیش ہیں تمام مسلم ممالک اور ہندستان میں پوری شدت کے ساتھ پیدا ہو چکے ہیں اور ان کاکوئی صحیح حل بہم نہ پہنچنے کی وجہ سے مسلم اور غیر مسلم سب کے سب ان لوگوں کے الٹے سیدھے نسخے استعمال کرتے چلے جارہے ہیں جو خود بیمار ہیں۔ اب یہ معاملہ صرف یورپ اور امریکہ کا نہیں بلکہ ہمارے اپنے گھر اور ہماری آئندہ نسلوں کا ہے۔"

کشمیری حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی

بزرگ حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی کی شخصیت
 سید علی شاہ گیلانی(29 ستمبر 1929ء – 1 ستمبر 2021ء)، جموں و کشمیر کے  سیاسی رہنما تھے،  ان کا تعلق ضلع بارہ مولہ کے قصبے سوپور سے تھا۔  وہ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے حامی تھے۔ اوریئنٹل کالج پنجاب یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں ۔ انہوں نے بھارتی قبضے کے خلاف جدوجہد کا آغاز جماعت اسلامی کشمیر کے پلیٹ فارم سے کیا تھا-  جبکہ انہوں نے جدوجہد آزادی کے لیے ایک الگ جماعت "تحریک حریت" بھی بنائی تھی جو کل جماعتی حریت کانفرنس کا حصہ ہے۔ وہ  معروف عالمی مسلم فورم "رابطہ عالم اسلامی" کے بھی رکن تھے۔  یہ رکنیت حاصل کرنے والے پہلے کشمیری حریت رہنما ہیں۔ ان سے قبل سید ابو الاعلیٰ مودودی اور سید ابو الحسن علی ندوی جیسی شخصیات برصغیر سے "رابطہ عالم اسلامی" فورم کی رکن رہ چکی ہیں۔ مجاہد آزادی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ علم و ادب سے شغف رکھنے والی شخصیت بھی تھے اور علامہ اقبال کے بہت بڑے مداح تھے۔ انھوں نے اپنے دور اسیری کی یادداشتیں ایک کتاب کی صورت میں تحریر کیں جس کا نام "روداد قفس" ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ بھارتی جیلوں میں گزارا۔ 29 ستمبر 1929 کو پیدا ہونے والے 88 سالہ سید علی گیلانی مقبوضہ کشمیر پر 72 سال سے جاری بھارتی قبضے کے خلاف جدوجہد کی توانا آواز ہیں۔ ۔ پاکستان کے 73یوم آزادی کے موقع پر بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی کو نشانِ پاکستان کا اعزاز دیا گیا۔ یہ اعزاز پاکستان کے صدر عارف علوی نے ایوان صدر میں ایک خصوصی تقریب میں عطا کیا۔ یہ اعزاز اسلام آباد میں حریت رہنماؤں نے وصول کیا۔ان کا انتقال یکم ستمبر 2021ء کو سری نگر میں اپنی حیدر پورہ رہائش گاہ پر ہوا۔ 

آغا حسن عابدی : ورلڈ بینک کے طرز پر ایک عالمی اسلامی بینک قائم کرنے کا خواب اور اس کا انجام

مضمون نگار : عقیل عباس جعفری ،  محقق و مورخ، کراچی 
 اشاعت : بی بی سی اردو 5 اگست 2020 

آغا حسن عابدی 
آغا حسن عابدی: بی سی سی آئی کی بنیاد رکھنے والے پاکستانی بینکار جن پر ایٹمی پروگرام اور فلسطینی حریت پسندوں کی معاونت کا الزام لگایا گیا ۔ 

لکھنؤ یونیورسٹی میں آغا حسن عابدی کے سب سے قریبی دوست عبادت یار خان تھے، جو ادبی دنیا میں عبادت بریلوی کے نام سے معروف ہوئے۔ وہ اپنی کتاب 'غزالان رعنا' میں آغا حسن عابدی کا ایک بہت خوبصورت خاکہ لکھتے ہیں:

آغا حسن عابدی لکھنؤ یونیورسٹی میں انگریزی زبان میں ایم اے اور ایل ایل بی ساتھ ساتھ کر رہے تھے۔

ایک دن آغا حسن عابدی نے عبادت بریلوی سے کہا 'نہ میں لیکچرر شپ کرسکتا ہوں، نہ وکالت، دونوں پیشے میرے مزاج کے نہیں۔ سوچتا ہوں محمود آباد اسٹیٹ میں ،جہاں میرے والد ملازم ہیں ،کوئی چھوٹی موٹی ملازمت کر لوں۔‘

عبادت بریلوی نے ان سے کہا 'اتنا پڑھ لکھ کر محمود آباد ریاست کی ملازمت تمہارے شایان شان نہیں ہوگی۔ ایک بات میرے ذہن میں آتی ہے۔ حبیب بینک نیا نیا کھلا ہے، یہ مسلمانوں کا بینک ہے۔ اگر راجہ صاحب محمود آباد، حبیب سیٹھ کو سفارشی خط لکھ دیں گے تو اس بینک میں تمہیں آفیسر کی جگہ مل جائے گی۔ لیکن یہ سوچ لو کہ اس کے لیے تمہیں بمبئی جانا ہو گا، لکھنؤ سے باہر رہنا ہو گا۔'

آغا حسن عابدی نے کہا 'یار! کیسی باتیں کرتے ہو؟ میں بینک کی ملازمت کروں گا! تم میرے مزاج سے اچھی طرح واقف ہو۔ یہ ملازمت میرے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی۔‘

عبادت بریلوی نے کہا 'میاں صاحبزادے! حالات بہت سنگین ہیں۔ مسلمانوں کے لیے ملازمتوں کے دروازے بند ہیں، مجھے تو صرف یہی دروازہ کھلا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ راجہ صاحب سے حبیب سیٹھ کے نام خط لکھوالو اور چپ چاپ بمبئی چلے جاؤ۔ اس ملازمت میں آئندہ ترقی کے امکانات بہت ہیں۔‘
آغا حسن عابدی کو عبادت بریلوی کی یہ تجویز پسند نہیں آئی، لیکن وہ اس کے بارے میں سوچتے رہے۔ عبادت بریلوی لکھتے ہیں: 'بالآخر انھوں نے میری تجویز پر عمل کیا اور راجہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر حبیب سیٹھ کو خط لکھنے کی درخواست کی۔ راجہ صاحب نہایت شریف انسان تھے۔ انھوں نے آغا حسن عابدی کے لیے خط لکھ دیا اور کہا کہ 'یہ خط لے کر آپ بمبئی چلے جائیے، انشااللہ کام ہو جائے گا۔'

اردو زبان کا خون کیسے ہوا؟

یہ ہماری پیدائش سے کچھ ہی پہلے کی بات ہے جب مدرسہ کو اسکول بنا دیا گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔۔ 
لیکن ابھی تک انگریزی زبان کی اصطلاحات دورانِ تعلیم استعمال نہیں ہوتی تھیں۔ صرف انگریزی کے چند الفاظ ہی مستعمل تھے، 
مثلا": 
ہیڈ ماسٹر، 
فِیس، 
فیل، 
پاس وغیرہ
 "گنتی" ابھی "کونٹنگ" میں تبدیل نہیں ہوئی تھی۔ اور "پہاڑے" ابھی "ٹیبل" نہیں کہلائے تھے۔

60 کی دھائی میں چھوٹے بچوں کو نام نہاد پڑھے لکھے گھروں میں "خدا حافظ" کی جگہ "ٹاٹا" سکھایا جاتا اور مہمانوں کے سامنے بڑے فخر سے معصوم بچوں سے "ٹاٹا" کہلوایا جاتا۔
زمانہ آگے بڑھا، مزاج تبدیل ہونے لگے۔ 
 عیسائی مشنری سکولوں کی دیکھا دیکھی کچھ نجی (پرائیوٹ) سکولوں نے انگلش میڈیم کی پیوند کاری شروع کی۔
 سالانہ امتحانات کے موقع پر کچھ نجی (پرائیویٹ) سکولوں میں پیپر جبکہ سرکاری سکول میں پرچے ہوا کرتے تھے۔ پھر کہیں کہیں استاد کو سر کہا جانے لگا- اور پھر آہستہ آہستہ سارے اساتذہ ٹیچرز بن گئے۔ 
 پھر عام بول چال میں غیر محسوس طریقے سے اردو کا جو زوال شروع ہوا وہ اب تو نہایت تیزی سے جاری ہے۔

اب تو یاد بھی نہیں کہ کب جماعت، کلاس میں تبدیل ہوگئی- اور جو ہم جماعت تھے وہ کب کلاس فیلوز بن گئے۔

ہمیں بخوبی یاد ہے کہ 50 اور 60 کی دھائی میں؛ اول، دوم، سوم، چہارم، پنجم، ششم، ہفتم، ہشتم، نہم اور دہم، جماعتیں ہوا کرتی تھیں، اور کمروں کے باہر لگی تختیوں پر اسی طرح لکھا ہوتا تھا۔ 
پھر ان کمروں نے کلاس روم کا لباس اوڑھ لیا-
اور فرسٹ سے ٹینتھ کلاس کی نیم پلیٹس لگ گئیں۔ 
 تفریح کی جگہ ریسیس اور بریک کے الفاظ استعمال ہونے لگے۔

سید ابوالاعلی مودودی کی شخصیت کا پس منظر

سید  ابوالاعلی مودودی ؒ کی شخصیت کا پس منظر 
عبد الحی عابد 

انیسویں صدی کا آخری حصہ اور بیسویں صدی کے آغاز کا زمانہ دنیا کی تاریخ میں نہایت اہمیت کا حا مل ہے۔ اس زمانے میں انسانی علوم و افکار نے نہایت سرعت سے ارتقاء کی منازل طے کیں۔ یورپ کی جدید علمی و فکری تحقیق سے عیسائی متکلمین کے مذہبی عقائد اور بائبل کے تصور کائنات کو ٹھیس پہنچی۔ علمی بیداری کے نتیجے میں حریت فکر کے علمبرداروں اور کلیسا کے درمیان چھڑنے والی لڑائی مذہب اور آزاد خیالی کے درمیان جنگ کی صورت میں بدل گئی۔ اس تحریک کی کامیابی کے نتیجے میں جو طرز فکر وجود میں آیا اس کے بنیادی اصولوں میں یہ بات شامل تھی کہ مذہب کو سیاست، معیشت، اخلاق، قانون، علم و فن، غرض اجتماعی زندگی کے کسی بھی شعبے میں دخل دینے کا حق نہیں، وہ محض افراد کا شخصی معاملہ ہے۔ ( مودودی، ابوالاعلیٰ، تنقیحات، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، ص ۹۔) 

اس دور میں ہندوستان پر انگریزی حکومت اور مغربی ثقافتی یلغار کے نتیجے میں یہ طرز فکر جدید تعلیم کی آڑ میں ہندوستان میں داخل ہوا۔ اس کے نتیجے میں کئی ردِ عمل سامنے آئے۔ ایک گروہ نے انگریزی تعلیم کے ذریعے آنے والے مغربی افکار، اقدار، ڈارون، فرائڈ اور کارل مارکس کے نظریات، مغربی نظام تعلیم، تہذیب، سیاسی نظریات اور تصورِ معیشت کو اپنا لیا۔ جبکہ دوسرے گروہ نے یہ فرض کر لیا کہ جدید تہذیب کی اس یلغار کے سامنے مزاحمت نہ تو مسلمانوں کے لیے مفید ہے اور نہ ہی اس کا مقابلہ ممکن ہے۔ اس دوسرے گروہ کے سربراہ سرسید احمد خاں تھے۔ انھوں نے تہذیب الاخلاق میں سماجی، علمی، ادبی موضوعات پر مضامین لکھ کر تہذیب اور ’’سویلائزیشن‘‘ کا درس دیا فکری اور تہذیبی میدان میں مسلمانوں کو تہذیب مغرب سے سمجھوتا کرنے کے لیے اپنا زور قلم صرف کر دیا۔ سرسید نے اس بات پر زور دیا کہ اسلام عقل، سائنس اور تہذیب و شائستگی کا مخالف نہیں لیکن انھوں نے اپنے اس دعوے کے لیے مغربی افکار کو ہی رہنما بنایا اور اسلامی اقدار و نظریات کو معیار بنا کر اصلاح کام انجام نہیں دیا بلکہ قدم قدم پر اسلام ہی کی قطع و برید کی۔ [خورشید احمد، پروفیسر، ’’تحریک اسلامی شاہ ولی اللہ اور ان کے بعد‘‘، چراغ راہ، تحریک اسلامی نمبر ‘‘، ص ۴۹۔ ، ص ۵۷۔] سرسید کی کوششوں سے قوم کے سیاسی، سماجی اور ادبی خیالات میں خاصی تبدیلی آئی۔ 

مسلمان کون؟۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

مسلمان کون ہے؟ خدا کا قانون بتاتاہے کہ وہی جو سارے جہانوں کے رب کا کہنا مانے۔ کام تو یہ کچھ بڑا اور کٹھن نہیں ہے، پر دیکھو اور دل کو ٹٹولو تو جان جاؤ گے کہ رب کاکہنا ماننے والے کتنے ہیں اور نہ ماننے ولے کتنے۔ مگر جو کہنا مانتے ہیں وہ بھی مسلمان کہتے جاتے ہیں اور جو نہیں مانتے لوگ ان کو بھی مسلمان ہی جانتے ہیں۔شاید رب کا کہنا ماننے کا مطلب لوگوں نے نہیں سمجھا۔

رب کا کہنا ماننے کا کیا مطلب ہے؟ یہی کہ رب نے جو قانون بھیجا ہے اس کے موافق سب کام کئے جائں۔ بات تو یہ بھی بڑی سہل ہے مگر مشکل یہ آن پڑی ہے کہ لوگ اپنے رب کے قانون کو اٹھاکر دیکھے ہی نہیں۔ اور بنتے ہیں بڑے پکے مسلمان۔ اگر تمہارے ماں باپ ، دادادادی ، نانا نانی، میں سے کوئی مسلمان تھا اور اس کی اولاد ہونے کی وجہ سے تم بھی مردم شماری میں مسلمان لکھ دئیے گئے ، نام بھی تمہارا مسلمانوں کاساہے، اور دنیا تم کو کہتی بھی مسلمان ہے، تو کیا تم سچ مچ مسلمان ہوگئے؟نہیں۔ لوہار کا بیٹا یا پوتا کہاجاتاہے لوہار ہی، مگر جب تک وہ ہتوڑا چلانا نہیں سیکھتا لوہار نہیں ہوتا۔ سنار، بڑھئی، دھوبی، نائی، قصائی، سب کا یہی حال ہے۔ پھر کوئی مسلمان کیسے ہوسکتاہے اگر اپنے رب کا کہا نہ مانے۔ اور رب کا کہا وہی مان سکتاہے جو اس کے حکم کو بجائے۔ اور حکم اس کا لکھا ہے اس کے قانون یعنی قرآن میں۔ تو جو مسلمان کہاجاتاہے اس کو چاہئے کہ قرآن پڑھے۔ اور جو آپ نہیں پڑھ سکتا وہ کسی سے پڑھوا کرسنے۔ جیسے کسی کے پاس کوئی چٹھی پتر آئے اور وہ پڑھنا نہ جانتاہو تو کسی پڑھے لکھے کے پاس جاکر پڑھوالیتاہے ، ویسے ہی اگر خدا کی بھیجی ہوئی چٹھی کوئی آپ نہیں پڑھ سکتا تو کسی سے پڑھوا کر سنے۔ اور جو اس میں لکھاہے اس کے موافق کرے۔ کہ یہی مسلمان کی پہچان ہے۔

غلطیوں کا ازالہ ۔۔۔ : مولانا عبد الماجد دریابادی

مسلمانوں کی جنتری میں اس مبار ک مہینہ کا نام شعبانؔ ہے۔ اسے مبارک اس لئے کہاگیاہے ، کہ رسول خدا ﷺ نے اسے ایک خاص عبادت، روزہ کے لئے چن لیاتھا۔ صحیح حدیثوں میں اس مہینے کے روزوں کی بڑی فضیلتیں اور برکتیں وارد ہوئی ہیں۔ اور بعض میں آیاہے ، کہ بعد رمضان کے فرض روزوں کے، رسول خداﷺ جس ماہ میں سب سے زیادہ روزہ رکھتے تھے، وہ یہی ماہ شعبان ہے۔ اسی ماہ کے وسط میں ایک رات ایسی آتی ہے، جس کی بابت یہ روایت آئی ہے ، کہ آپ اس میں اٹھ کر قبرستان تشریف لے جاتے، اور مُردہ مسلمانوں کے حق میں دعائے مغفرت فرماتے تھے۔

غلطیوں کا ازالہ - عبد الماجد دریابادی 
یہ عمل تھا رسول خداؐ کا۔ یہ تعلیم تھی ہمارے سب سے بڑے پیشواکی۔ لیکن آج اس رسولؐ کی امت کا، اس کے نام کا کلمہ پڑھنے والوںکا، اس کی محبت کے دعویداروں کا کیا حال ہے؟ کتنے مسلمان ایسے ہیں ، جو اس ماہ میں خدا کی خوشنودی کے لئے دن بھر کھانے پینے ، اور دیگر خواہشات نفس سے اپنے تئیں روکے رہتے ہیں؟ کتنے ایسے ہیں، جو اپنے اوردوسرے مسلمانوں کے حق میں دعائے خیر واستغفار کرتے رہتے ہیں؟ یہ بھی نہ سہی ، تو کتنے ایسے ہیں، جو اس مہینے میں اپنا روپیہ آگ میں پھونکنے، آتشبازی دیکھنے، اور حلوے وغیرہ میں اسراف کرنے سے باز رہتے ہیں؟ کیا رسول خدا ﷺ ۱۴؍شعبان کے دن حلوہ نوش فرماتے اور اس کی تقسیم میں صرف فرماتے؟ کیا صحابۂ کرام (نعوذ باللہ) یہ رات آتشبازی کے تماشوں میں بسر کرتے تھے؟ کیا اسلام نے اس نادانی کو، ان فضولیات کو، اس اسراف کو کسی صورت میں بھی جائز رکھاہے؟ کیا ائمہ فقہ، واکابر طریقت کی کسی تعلیم سے ’’شبرات‘‘ کی موجودہ رسموں کی تائید میں کوئی دلیل پیش کی جاسکتی ہے؟

شادی کی رسومات ۔۔۔: مولانا عبد الماجد دریابادی

شادی کی رسومات -- عبد الماجد دریابادی
آپ کو اپنے خاندان ، وطن، اور برادری کی شادیوں میں شرکت کا بارہا موقع ملاہوگا۔ آپ نے کبھی یہ خیال کیا، کہ مسلمان لڑکے یا لڑکی کی شادی کا یہی طریقہ ہوناچاہئے؟ آپ کے رسول مقبولؐ، حبیب کبریا، جنہیں ہمارے اورآپ کے عقیدے میںد ونوں جہاں کی عزت ودولت، سرداری وبادشاہی سب کچھ حاصل تھی، بن بیاہے نہ تھے، باقی سب نکاح مرتبۂ رسالت پر فائز ہوچکنے کے بعد ہی کئے تھے، مگر حضورؐ کے کسی نکاح میں وہ دھوم دھام، وہ طویل سلسلۂ رسوم، اور وہ جشن منایاگیا ، جسے آج ہم میں سے ہرمعمولی شخص بھی شادی کے وقت ، اپنے عزیزوں کے لئے ضروری سمجھتا ہے؟ پھر کیا نعوذ باللہ آپ یہ عقیدہ رکھتے ہیں، کہ آپ کی عزت اورآن اس سردار دوعالم سے بڑھ چڑھ کرہے؟ رسول خداﷺ کی ذات مبارک کے علاوہ ، جن جن ہستیوں کی ہم سب مسلمان عزت کرتے ہیں، جن کے نام ہم ادب سے لیتے ہیں، جن کے طریقہ پر چلنا ہم اپنی نجات کا ذریعہ جانتے ہیں، وہ سب کے سب بیاہے ہوئے تھے۔ رسول خداﷺ کے چاروں سچے دوست، ابو بکرصدیقؓ، عمر فاروق، عثمان غنیؓ، وعلی مرتضیؓ، اور آپ کی نور نظر بیوی فاطمہؓ اور آپ کے جگر کے ٹکرے امام حسنؓ اور امام حسینؓ، اورآپ کی دوسری صاحبزادیاں یہ سب بیاہے ہوئے مرد، اور بیاہی ہوئی بیویاں تھیں۔ 

علّامہ اقبال کا حکم جس کی تعمیل نہ ہو سکی- محمد اظہار الحق

(تاریخ اشاعت : 9 مارچ 2020 ، روزنامہ دنیا )
علامہ اقبال کا حکم جس کی تعمیل نہ ہوسکی - محمد اظہار الحق

ہلکی ہلکی بارش تھی۔ مارچ کے ابتدائی دنوں کا گلابی جاڑا بہار کی خبر دے رہا تھا۔ میں اور بیگم لائونج میں بیٹھے چائے پی رہے تھے اور ٹی وی پر ایک ٹاک شو کی لڑائی سے لطف اندوز ہو رہے تھے!

اچانک لائونج میں روشنی بھر گئی۔ جیسے دن نکل آیا ہو۔ پھر یہ روشنی‘ دیکھتے دیکھتے‘ ایک بے پناہ قسم کے نور میں بدلنے لگی۔ ایسا نور آج تک جو دیکھا نہ تصوّر میں آیا۔ ایک نورانی مخلوق ہمارے سامنے کھڑی تھی۔ لائونج کے ارد گرد کی دیواریں اپنا وجود کھو چکی تھیں یا ہماری نظریں ان دیواروں سے ماورا دیکھنے لگی تھیں۔ اس مخلوق کے پَر‘ ایک افق سے دوسرے افق تک احاطہ کر رہے تھے۔

ایک پُر سکون‘ پیار بھری آواز‘ اس نورانی ہستی کے منہ سے نکلی:

''اٹھیے! ہمارے ساتھ چلیے‘‘

''میری بیگم چیخی۔ نہیں‘ نہیں! آپ انہیں نہیں لے جا سکتے!‘‘

''نہیں!! بی بی! گھبرائو مت! میں فرشتہ ہوں مگر موت کا فرشتہ نہیں! تمہارے میاں کو غالبؔ اور اقبالؔ نے عالمِ بالا میں بلایا ہے۔ ان سے ملاقات کر کے واپس آ جائیں گے! میں خود چھوڑ جائوں گا!‘‘

ایک غیبی قوت میرے اندر بھر گئی۔ میں فرشتے کے ساتھ‘ اڑنے لگا۔ کیسے؟ نہیں معلوم! ثانیے تھے یا دن! ہفتے تھے یا مہینے! کچھ پتہ نہ چلا۔ وقت ماپنے کا موجودہ پیمانہ‘ ہماری زمین اور ہماری اس عارضی زندگی ہی سے وابستہ ہے؎

بچا کر بھی کہاں لے جا سکیں گے وقت کو ہم

یہیں رہ جائیں گے ہفتے مہینے سال سارے

نئی نسل سے مکالمہ - خورشید ندیم

نئی نسل سے مکالمہ خورشید ندیم 
(تاریخ اشاعت : روزنامہ دنیا  20 فروری 2020)

خیال ہوا کہ اہلِ دانش کو اس جانب متوجہ کیا جائے۔ ان کے قلم اس موضوع کے لیے رواں ہوں اور ان کی خوش گفتاری اس کام آئے مگر 'یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے‘۔ لکھنے اور بولنے والوں کی اپنی ترجیحات ہیں۔ ان کے نزدیک کچھ دیگر موضوعات زیادہ توجہ طلب تھے۔ کسی نے اس موضوع کو اگر اہم جانا تو وہ سجاد میر تھے۔

جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار

پچھلی اور اگلی نسلوں کے مابین مکالمہ ناگزیر ہو چکا۔ نوجوان سرفروشی کی تمنا کے ساتھ نکلے تو ان کا جس طرح استقبال ہوا، ہمارے سامنے ہے۔ ان پر بغاوت کے مقدمات قائم ہوئے اور سماج لا تعلق رہا یا پس پردہ کچھ تلاش کرتا رہا۔ اُن کے اضطراب کو سمجھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہو ئی۔ ان سے کوئی مکالمہ نہ ہو سکا۔ ہر نئی نسل کو پچھلی نسل سے ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ اس کو سمجھا نہیں گیا۔ بد قسمتی سے ہماری نسل بھی اس دستورِ زمانہ کو بدل نہیں سکی۔
میں نے حسبِ توفیق ایک کوشش کی۔ اہل دانش نے پذیرائی بخشی اور نئی نسل کے ساتھ مکالے کی ایک بھرپور نشست کا انعقاد ہو سکا۔ نوجوانوں کی اس تحریک کے روحِ رواں عمار سے کہا گیا کہ وہ اپنا مقدمہ پیش کریں۔ انہوں نے نوجوانوں کی بے چینی کے اسباب بیان کیے۔ علی عثمان قاسمی بھی تھے جنہوں نے نئی کے مسائل کا عالمگیر نظریاتی پس منظر سامنے رکھا۔

پاک بھارت تعلقات ـــــــ جناب جاوید احمد غامدی کا اصولی موقف سید منظور الحسن

[پاک بھارت تعلقات میں مستقل کشیدگی کے حوالے سے بعض سوالات  کے جواب میں استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کی گفتگو سے ماخوذ]

سب سے پہلے اِس حقیقت کو جاننا چاہیے کہ وطن سے محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے۔یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ رشتوں سے وابستہ ہو کر زندگی بسر کرتا ہے۔ پیدایش سے لے کر زندگی کے آخری مرحلے تک وہ رشتوں ناتوں کے ساتھ اپنی خوشیاں اور اپنےغم محسوس کرتا ہے۔یہی رشتے ناتے اُس کے اندر وطن کی محبت کو جنم دیتے ہیں۔ میں ایک جگہ پیدا ہوا ، ایک فضا میں آنکھ کھولی، کسی زمین میں چلا پھرا،کسی گھر میں پلا بڑھا، کچھ گلیوں بازاروں میں کھیلا، کچھ کھیتوں کھلیانوں میں گھوما؛ میرے گردوپیش میں کچھ لوگ تھے؛ اُن میں میرے والدین تھے، چچا تایا تھے، استاد تھے، دوست احباب تھے۔ اِن سب نے مل کر میری فطرت میں ایک رشتے کا احساس پیدا کیا ہے۔ یہ وطن کی محبت کا احساس ہے۔یہ ویسا ہی فطری احساس ہے، جیسا ہم انسانی رشتوں میں محسوس کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جس طرح ہم دور دراز جگہوں پر جانے کے بعد بھی اپنے آپ کو ماں باپ ، بہن بھائیوں ، اعزہ و اقربا اور دوست احباب سے الگ نہیں کر پاتے،بالکل اُسی طرح اپنے وطن سے بھی الگ نہیں کر پاتے۔

اِس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کی فطرت میں اِن رشتوں کی بنا پر مخاصمت اور عداوت کے جذبات ودیعت ہیں۔وہ جب کسی کے ساتھ دوستی محسوس کرتا ہے تو محبت کے جذبات میں اُس کو ایک رومانی صورت دے لیتا ہے اور پھر اُسی میں جیتا ہے اور اُسی میں مرتا ہے۔ اِن رشتوں پر جب کوئی زد پڑتی ہے تو اُس کے اندر دشمنی اور مخاصمت کے داعیات پیدا ہوتے ہیں جو بسا اوقات نفرت میں تبدیل ہو کر جھگڑے اور فساد کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ 

زکوٰۃ: ایک مطالعہ نو؛ فقہی قیود اور ان کے نتائج (قسط دوم ) - عرفان شہزاد

ماہنامہ اشراق ، تاریخ اشاعت : جون 2018ء 

مصارف زکوٰۃ

سورۂ توبہ کی آیت ۶۰ میں جو لفظ ’الصَّدَقٰت‘ استعمال ہوا ہے۔ اس میں عام صدقات کے علاوہ زکوٰۃ بھی شامل ہے۔ یہ دراصل مملکت کا وہ تمام ریوینیو ہے جو مملکت کو حاصل ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے زکوٰۃ اور دیگر صدقات کے مصارف میں کوئی فرق نہیں ہے۔

i۔ فقیر و مسکین

مصارف زکوٰۃ میں فقیر اور مسکین کی تعریف میں اہل علم نے اختلاف کیا ہے، لیکن یہ بات مشترک ہے کہ دونوں سے مراد سماج کے حاجت مند طبقات ہیں۔ ہمارے نزدیک اس کی سادہ تعریف یہ ہے:

’’فقیر سے وہ لوگ مراد ہوتے ہیں جو کمانے، ہاتھ پاؤں مارنے، زندگی کے لیے جدوجہد کرنے کا دم داعیہ تو رکھتے ہیں، لیکن مالی احتیاج ان کے راستہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہوتی ہے۔ اور مسکین سے وہ طبقہ مراد ہوتا ہے جو مسلسل غربت اور احتیاج کا شکار رہنے کے سبب سے جدوجہد کرنے اور مشکلات پر قابو پانے کا حوصلہ ہی کھو بیٹھتا ہے اور اس کے اوپر دل شکستگی اور مسکنت طاری ہو جاتی ہے۔

خدا کا وجود ، جاوید احمد غامدی

خدا کا وجود۔ جاوید احمد غامدی 
(نوٹ: یہ تقریر انگریزی زبان میں 9مئی 2009کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں کی گئی۔)

آج کی شام کے لیے جو موضوع ہے، وہ یہ ہے خدا کی دریافت کس طرح کی جائے:

How to discover God?

خدا کی دریافت کا معاملہ کوئی اکیڈمک معاملہ نہیں، یہ ہر انسان کا ایک ذاتی سوال ہے۔ ہر عورت اور مرد فطری طور پر اُس ہستی کو جاننا چاہتے ہیں جس نے اُن کو وجود دیا۔ میں بھی دوسروں کی طرح، اس سوال سے دوچار ہوا ہوں۔ میری پیدائش ایک مذہبی ماحول میں ہوئی۔ اِس کے اثر سے میں روایتی طور پر خدا کو ماننے لگا۔ بعد کو جب میرے شعور میں پختگی (maturity)آئی تو میں نے چاہا کہ میں اپنے عقیدے کو ریزن آؤٹ (reason out) کروں۔ اِس معاملے کی تحقیق کے لیے میں نے تمام متعلق علوم کوپڑھا۔ جیسا کہ معلوم ہے، خدا کا موضوع تین شعبوں سے تعلق رکھتا ہے فلسفہ، سائنس اور مذہب۔ یہان میں فلسفہ اور سائنس کی نسبت سے اپنے کچھ تجربات بیان کروں گا۔

سب سے پہلے مجھے فلسفہ میں اِس سوال کا ایک جواب ملا۔ مطالعہ کے دوران میں نے فرانس کے مشہور فلسفی رینے ڈیکارٹ (وفات: 1650) کو پڑھا۔ وہ انسان کے وجود کو ثابت کرنا چاہتا تھا۔ اُس نے کہا کہ میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں:
I think, therefore I am.
ڈیکارٹ کا یہ فارمولا جس طرح انسان کے وجود پر منطبق ہوتا ہے، اُسی طرح وہ خدا کے وجود کے لیے قابل انطباق (applicable) ہے۔ میں نے اِس قول پر اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ انسان کا وجود خدا کے وجود کو قابل فہم بناتا ہے:
Existence of man makes the existance of God understandable

خدا کے وجود کے بارے میں یہ میرا پہلا فلسفیانہ استدلال تھا۔ میں نے کہا کہ میرا وجود ہے، اس لیے خدا کا بھی وجود ہے:
I am, therefoe God is.
فلسفہ کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تقریباً تمام فلسفی کسی نہ کسی طور پر ایک برتر ہستی کا اقرار کرتے تھے۔ اگرچہ انھوں نے ’’خدا‘‘ کا لفظ استعمال کرنے سے احتراز کیا، لیکن کچھ دوسرے الفاظ بول کر وہ خدا جیسی ایک ہستی کی موجودگی کا اعتراف کرتے رہے۔ مثلاً جرمنی کے مشہور فلسفی فریڈرک ہیگل (وفات: 1831) نے اِس برتر ہستی کو ورلڈ سپرٹ (world spirit)کا نام دیا، وغیرہ۔

صدی کا تھپڑ( فلسطین کی آزادی اور بیت المقدس کا تنازعہ) ۔ معروف وکیل اور سیاست دان بابر اعوان

صدی کا تھپڑ:( فلسطین کی آزادی اور بیت المقدس کا تنازعہ )
فلسطین کی آزادی اور بیت المقدس کا تنازعہ اس ہفتے پھر اُبھر کر سامنے آ گیا۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ روح فرسا تفصیل بھی جان لیں کہ 1948 ء سے لے کر آج تک 5.1 ملین یعنی 51 لاکھ فلسطینی بیٹے اور بیٹیاں ارضِ فلسطین پر قربان ہو چکے ہیں۔ 

اس ہفتے دو مغربی مُلکوں کے بڑوں نے صدی کے اس پُرانے تنازعہ پر اپنے اپنے انداز میں بات کی۔ برطانیہ کے شہزادے چارلس نے اسرائیل کے دو روزہ دورے (22-23 جنوری) کے دوران 2 اہم خیال ظاہر کیے۔ پہلا یہ کہ فلسطینی عوام کو حقِ خود ارادی ملنا چاہیے۔ دوسرا، فلسطینی عوام کی ''مستقبل میں آزادی، انصاف اور برابری‘‘ کی خواہش (Wish) ہے۔ اس کے چند دن بعد 28 جنوری 2020ء‘ منگل کے روز امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے الفاظ میں مڈل ایسٹ کا long awaited پلان پیش کر دیا۔ ٹرمپ کے خیال میں یہ ''ڈیل آف سینچری‘‘ ہے۔ اس ڈیل کے غاصب فریق، اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے صدر ٹرمپ نے کہا ''میرا ویژن دونوں پارٹیوں کے لئے وِن-وِن (Win-win) سلیوشن پیش کرتا ہے‘‘۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس موقع پر مظلوم فریق سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ پھر کس بات کی وِن-وِن۔

" ففتھ جنریشن وار فیئر" کی اصطلاح اور پاکستان میں اس کی حقیقت ! علی احمد ڈھلوں

عراق پر امریکی جنگی طیاری کی بمباری کا  ایک منظر  
( روزنامہ ایکسپریس ، 24 جنوری 2020ء )

پاکستان میں آج کل ’’ففتھ جنریشن وار فیئر‘‘ کی اصطلاح کا استعمال کافی عام ہو گیا ہے۔ مختلف مواقع پر  دہرایا ہے کہ ہمیں ففتھ جنریشن وار فیئر کا مقابلہ کرنا ہوگا۔اس اصطلاح کو سمجھنے کے سادہ الفاظ میں یہ سمجھ لیں کہ اب جنگیں لڑنے کا اسٹائل بدل گیا۔

کسی زمانے میں فوجیں ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتی تھیں، جس کی فوجی تعداد زیادہ ہوتی وہ جیت جاتا تھا۔ پھر ہتھیار اہم ہوئے، جدید ہتھیار، ٹیکنالوجی والے میدان مار لیتے۔ پھر معیشت زیادہ اہم ہوئی۔یہ سب اصطلاح کے مطابق فرسٹ جنریشن وار فیئر، سیکنڈ جنریشن وارفیئر ، تھرڈ جنریشن وار فیئر تھے۔ فورتھ جنریشن وار فیئر میں دہشت گردی کے ہتھیار کو برتا گیا۔ مختلف ممالک میں دہشت گرد تنظیمیںپیدا ہوئیں یا کی گئیں۔

بعض ماہرین کے خیال میں روس کو زچ کرنے کے لیے ان ڈائریکٹ طریقے سے چیچن مسلح مزاحمت کو بھی سپورٹ کیا گیا۔ یہاں پر چلتے چلتے سمجھ لیں کہ جنریشن سے مراد زیادہ جدید ، ایڈوانس معاملہ ہے۔ خیر عالمی قوتوں کو یہ محسوس ہوا کہ تھرڈجنریشن اور فورتھ جنریشن وار فیئر کے امتزاج کے باوجود بعض جگہوں پر کامیابی نہیں ہو رہی۔ یہ محسوس کیا گیا کہ کہیں کہیں پر خراب معیشت ، کم عسکری قوت کے باوجود مکمل شکست نہیں ہو پا رہی۔

وہاں قوم کا اتحاد اور یک جہتی رکاوٹ تھی،وطن پرستی اور ایک قوم ہونے کی وجہ سے مزاحمت جاری ہے۔ تب نیا فیز آیا، جسے ففتھ جنریشن وار فیئر کہا جا رہا ہے۔یہ نظریات کی جنگ ہے۔مختلف نظریاتی، مسلکی، فکری ایشو کھڑے کر کے کسی بھی قوم کو تقسیم کرنا۔ان کے مابین ایسی نفرتیں پیدا کر دینا، جس سے کوئی خاص مسلکی، لسانی، علاقائی گروہ یا آبادی اس قدر ناخوش، بیزار اور ناراض ہوجائے کہ ملکی سالمیت کی جنگ اس کے لیے اہم نہ رہے۔ مختلف جگہوں پر اس کے مختلف ماڈل آزمائے گئے۔