" آج دنیا کے پاس وسائل کی کمی نہیں اگر کمی ہے تو اخلاق اور مقاصد زندگی کی ، یہ صرف انبیاء کرام اور آسمانی کتب میں ہیں ۔ آج دنیا کی تعمیر نو صرف اس طرح ممکن ہے کہ جو وسائل و زرائع جدید دور میں انسانوں نے پیدا کرلیے ان کی مدد سے اور انبیاء اور آسمانی کتب میں موجود انسانیت کے اخلاق اور مقاصد زندگی کی مدد سے دنیا کی تعمیر نو کی جائے ۔" (مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )
سورج رکنے سے متعلق روایت کی تحقیق
متن حدیث میں ہمارے تصرفات (حصہ چہارم )۔ ساجد حمید
متن حدیث میں ہمارے تصرفات (حصہ سوم ) ۔ ساجد حمید
انضمام المتون
متن حدیث میں ہمارے تصرفات (حصہ دوم ) ۔ ساجد حمید
(گذشتہ سے پیوستہ)
تمہید
میں نے اس مضمون کا عنوان ’’متنِ حدیث میں علما کے تصرفات‘‘ باندھا تھا۔ لفظ ’تصرف‘ کے معنی معاملہ کرنا، الٹنا پلٹنا، استعمال میں لانا وغیرہ کے آتے ہیں۔ دورِ تدوین سے آج تک حدیث کے ساتھ ہم نے جو کچھ کیا ہے، تصرف ہی اس کے بیان کے لیے ایک اچھا لفظ ہے، لیکن بعض لوگوں نے میرا پہلا مضمون پڑھ کر یہ تاثر بیان کیا ہے کہ اس لفظ میں ایک سختی ہے، وہ یہ کہ اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ شایدعلما نے جانتے بوجھتے ایسا کیا ہے۔لغوی اعتبار سے یہ لفظ نہ منفی ہے اور نہ مثبت۔ان مضامین میں میرا مقصد علما کی تنقیص نہیں ہے، نہ میں نے اسے اس قسم کے کسی منفی مقصد کے لیے لکھا ہے ۔ اس لیے میں نے اس مضمون کا عنوان تبدیل کردیا ہے، اور عنوان میں سے ’علما‘ کا لفظ نکال دیا ہے۔
میں نے اپنے مضمون کی پہلی قسط اور اس قسط میں بھی یہی بات عرض کی ہے کہ یہ تصرفات بیان و حکایت کا فطری تقاضا ہیں، راویوں اور علما نے یہ جان بوجھ کر نہیں کیے۔ ’علما‘ کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا تھا کہ اس میں رواۃِ حدیث کے ساتھ ساتھ صوفیہ، محدثین ، فقہا، شارحین، مفسرین اور مصنفین سب شامل تھے، ان کے لیے علما ہی کی تعبیر سب سے زیادہ موزوں تھی۔بہرحال کسی بھی قسم کی غلط فہمی کو زائل کرنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ میں اس کے عنوان میں تبدیلی کردوں۔ اب یہ مضمون اسی عنوان سے چھپے گا تاآنکہ اس میں کسی قسم کی کوئی خطا سامنے آجائے۔
اس سلسلے کے مضامین کے دو حصے ہیں: ایک تصرفات کے بیان کا اور دوسرا مسئلے کی توجیہ کا۔ واضح رہے کہ یہ دوسرا حصہ میرے ان مضامین کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ اس دوسرے حصے، یعنی توجیہ و توضیح کے لیے ان مضامین میں میرا اصول یہ ہے کہ اگر میں مختلف درجے کی احادیث سے اخذ و استفادہ کروں گا، تو اس میں کوئی بھی حدیث حسن یا حسن لغیرہ کے درجے سے نیچے کی نہ ہو، یعنی یہ کہ ان احادیث کو میں اس اصول پر لوں کہ کم ازکم صحیح تر احادیث میں ان مضامین کی تائید اور بنیاد موجود ہو، اوریہ بھی میری کوشش ہوگی کہ اسی حدیث سے استشہاد کروں جسے کسی نہ کسی محدث نے قابلِ احتجاج قرار دیا ہو، میں اپنی راے پر اس کو منحصر نہیں کروں گا۔ البتہ تصرفات کے بیان میں صحیح و ضعیف کا امتیاز میرے خیال میں ضروری نہیں ہے،اس لیے کہ یہ بھی تصرف ہی کی ایک صورت ہے۔اور اس لیے بھی کہ ان ضعیف حدیثوں کو حدیث کی حیثیت نہ بھی دیں، ایک تاریخی دستاویزی حیثیت تو انھیں حاصل ہے ہی، اس لیے تصرف کے تحت تو اسے لایا جاسکتا ہے ۔مزید یہ کہ ضعیف روایات کا وجود اور ان کو کتابوں میں لکھنا بذات خود ایک تصرف ہے،یعنی باوجود ضعفِ سند کے اسے کسی مجموعۂ حدیث میں درج کرناوغیرہ اقوال رسول پر ایک تصرف ہی تو ہے۔ اسی طرح اس میں بھی شبہ نہیں ہے کہ امت کا ایک بڑا طبقہ ضعیف احادیث سے اخذو استفادہ کرتا ہے۔۱ جس مضمون پر ’’اشراق‘‘ کے اداریے میں تبصرہ ہوا، اس میں بحمد اللہ ایک بھی روایت اس اصول سے ہٹی ہوئی نہیں ہے، جسے میں نے اوپر بیان کیا ہے ۔
اسی طرح بعض احباب نے کہا کہ تمھارا مضمون جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے خاصا مشکل تھا، ان کی آسانی کے لیے میں نے حسب ضرورت مشکل الفاظ کے انگریزی مترادف دے دیے ہیں۔
متن حدیث میں لفظی و معنوی ادراج
تجزۂ حدیث کے بعد اگلا اہم تصرف ادراج ہے ۔ ادراج سے ہماری مراد راوی کا عمداً یا سہواً کلام نبوی میں اپنی بات شامل کرنا ہے۔اس سے دو قسم کی چیزیں متنِ حدیث میں شامل ہوئی ہیں:
ایک الفاظ ،یعنی راوی نے اپنے یا کسی اور راوی کے الفاظ و جمل کو اس طر ح سے بیان کردیا کہ وہ حدیث کے متن کا حصہ قرار پا گئے ۔
دوسری راے ، اس کی دو صورتیں ہیں،
۱۔ ایک یہ کہ کسی صحابی یا راوی کی راے یا فتویٰ قول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر حدیث کی حیثیت پاگیا، قطع نظر اس کے کہ یہ عمل عمداً ہوا ہو یا سہواً۔
۲۔ دوسرے یہ کہ احادیث کا معتد بہ حصہ روایت بالمعنیٰ۲ کے طریقے پر منتقل ہوا ہے،اور فقیہ (prudent) سے فقیہ آدمی بھی جب کسی بات کو سمجھ کردوسروں کواپنے لفظوں میں سناتا ہے، تو وہ دراصل متکلم کا نہیں، بلکہ اپنا فہم آگے بیان کررہا ہوتا ہے ۔۳
متن حدیث میں علما کے تصرفات ۔ ساجد حمید
ترکی میں حدیث کی تدوین جدید – جاوید احمد غامدی
حدیثِ نبوی ﷺ کے حوالہ نمبروں میں اختلاف کا مسئلہ -
ڈاکٹر محمد عامر گزدر
کتبِ حدیث کے تمام اصلی مراجع عربی زبان میں ہیں جو زیادہ تر عرب دنیا سے شائع ہوتے ہیں۔صحیح بخاری ہو یا صحیح مسلم یا حدیث کی دوسری کوئی بھی کتاب؛ یہ سب کتب مختلف زمانوں میں متفرق شہروں اور پبلشرز کی خدمات سے عربی زبان میں بار با ر شائع ہوتی رہتی ہیں۔اِن اصل کتابوں کے مختلف ایڈیشنز میں احادیث کے نمبروں کا کچھ نہ کچھ فرق بھی قارئین کے سامنےآتا ہے۔
در اصل اِن کتابوں میں احادیث کو اِس طرح نمبر دینا خود ائمۂ محدثین کا کام نہیں ہے۔ بلکہ یہ خدمت بعد میں لوگوں نے پرنٹنگ پریس کے دور میں آکر اِن کتابوں کی طباعت کرتے ہوئے حدیثوں کا حوالہ دینے کے لیے قارئین کی سہولت کے پیش نظر انجام دی ہے۔ اِس کام میں بھی اہلِ علم کی مدد لی گئی ہے۔ کتابوں کی اشاعت کے لیے روایتوں کو گننے کے طریقوں میں علما کا طرزِ عمل مختلف ومتنوع رہا ہے۔ بعض حضرات کتاب میں وارد ہونے والی ہر ہر روایت کو بالترتیب شمار کرتے ہیں۔ بعض نے مکرر روایتوں کو شمار نہیں کیا۔ بعض مرسل احادیث کو بھی گنتی میں شمار کرتے ہیں، جب کہ دوسرے ایسا نہیں کرتے۔ بعض حضرات صرف مرفوع احادیث، یعنی نبی ﷺ کے قول وفعل کی روایتوں کو شمار کرتے چلے جاتے ہیں، جب کہ بعض موقوف ومقطوع روایتوں، یعنی صحابہ وتابعین کے آثار کو بھی گنتی میں شمار کرتے ہیں۔ چنانچہ اِسی بنا پر اصل مؤلفات کے مطبوعہ مختلف نسخوں میں احادیث کے نمبر ہمیں مختلف بھی ملتے ہیں۔
علم حدیث کی نوعیت اور اُس کی جمع و تدوین (۲)
سید منظور الحسن
احادیث اور صحابہ کے بعد کا زمانہ
صحابۂ کرام سے آگے یہ احادیث تابعین، تبع تابعین ، تبع تبع تابعین اور بعد کے محدثین کے سلسلۂ روایت سے ہم تک پہنچی ہیں۔ ۱۱؎
دوسری صدی ہجری میں، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے کم و بیش ایک سو سال بعد علما میں حدیث کی جمع و تدوین کا شوق نمایاں ہونا شروع ہو گیا۔چنانچہ انھوں نے احادیث کو حاصل کرنے کے لیے دور دراز کے سفر بھی کیے۔ لوگوں میں اس علمی رحلت کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ ۱۲؎
حدیث کے طالب علموں کے یہ سفر جہاں اُن کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم سے اکتساب فیض کے شوق کو نمایاں کرتے ہیں، وہاں اِس حقیقت کو بھی واضح کرتے ہیں کہ محدثین کی یہ کاوشیں اصل دین کے حصول کے لیے نہیں تھیں۔ وہ اُن کے پاس قرآن و سنت کی صورت میں موجود تھا۔ ان کا مقصد ازدیادعلم تھا، دین کی تفہیم مزید تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر عمل، یعنی اسوۂ حسنہ سے فیض یاب ہونا تھا۔ اگر اصل دین کے حصول کو ان کاوشوں کا محرک سمجھا جائے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے رخصت ہونے کے سو ڈیڑھ سوسال تک مکمل دین یا اُس کی ضروری معلومات معاذ اللہ لوگوں تک نہیں پہنچ سکی تھیں۔ یہ ماننا، ظاہر ہے کہ قرآن مجید کےبھی خلاف ہے اور تاریخی شہادت کے بھی مطابق نہیں ہے۔
احادیث کی جمع و تدوین کا اہتمام
حکومت و ریاست کی سرپرستی میں احادیث کی جمع و تدوین کا کام سب سے پہلے حضرت عمر بن عبدالعزیز نے انجام دیا۔ وہ تابعی تھے اور خود بھی محدث تھے۔ اُن کا شمار حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے تلامذہ میں ہوتا ہے۔ وہ ۹۹ھ میں خلیفہ بنے اور اُنھوں نے مختلف علاقوں کے علما و محدثین کو احادیث جمع کرنے کےکام پر مامور کیا۔ اُنھیں ڈر تھا کہ کبار تابعین کی وفات سے حدیث کا علم ضائع نہ ہو جائے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جن شخصیات کو اس کام پر مقرر کیا ،اُن میں سب سے نمایاں نام ابن شہاب زہری کا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز صرف دو سال اقتدار میں رہنے کے بعد ۱۰۱ ھ میں وفات پا گئے۔ ۱۳؎
علم حدیث کی نوعیت اور اُس کی جمع و تدوین (۱)
سید منظور الحسن
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر وتصویب کے اخبارآحاد کو ’’حدیث‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ وہ روایات ہیں جو خبر واحد کے ذریعے سے اور روایت بالمعنیٰ کے طریقے پر ہم تک پہنچی ہیں، یعنی لوگوں نے اِنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی سماعت کی حد تک سنا ہے ، اپنی یادداشت کی حد تک یاد رکھا ہے ، اپنے فہم کے مطابق سمجھا ہے ، اپنے الفاظ میں ترتیب دیا ہے اوراپنی صواب دید سے منتقل کیا ہے۔اِس طریقے سے حاصل ہونے والے علم کے بارے میں مسلم ہے کہ یہ درجۂ یقین کو نہیں پہنچتا۔ اِس سے ظن غالب یا قوی گمان حاصل ہوتا ہے، جسے یقینیات کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا ۔ درجۂ یقین کو وہی علم پہنچتا ہے جو اجماع و تواتر سے منتقل ہوا ہو۔ قرآن مجید اور سنت کا یہی معاملہ ہے۔ یہ دونوں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع اور قولی و عملی تواتر سے ملے ہیں اور ہر دور میں مسلمانوں کے اجماع سے ثابت ہوتے ہیں۔ اِن کے مقابل میں احادیث کی روایات اخبار آحاد میں محصور ہیں، یعنی نہ وہ صحابۂ کرام کے اجماع اور قولی تواتر سے ملی ہیں اور نہ ہر زمانے میں مسلمانوں کے اجماع سے ثابت ہوتی ہیں، لہٰذا اِن سے حاصل ہونے والے علم کو اصل اور ضروری قرار دینے کے بجاے بالعموم شرح و فرع تک محدود سمجھا جاتا ہے، یعنی اس کی نوعیت دین کی تفہیم و تبیین کی ہے۔ ۱؎
یہ علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کی روایات کی صورت میں موجود ہے۔انھیں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے متعدد صحابۂ کرام نے اپنی انفرادی حیثیت میں روایت کیا ہے اور علما اور محدثین کی ایک جماعت نے اسے مرتب کر کے آگے منتقل کیا ہے۔
احادیث اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم
احادیث کے بارے میں یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ زمانۂ نزول قرآن میں احادیث کو لکھنے اور جمع کرنے پر پابندی عائد رہی ہے۔ اِس کا مقصد کلام الہٰی کو بالکل متعین اور ممیز رکھنا تھا۔تاہم بعد ازاں یہ پابندی اٹھا لی گئی اور لوگ اپنی خواہش سے احادیث لکھنے اور جمع کرنےلگے۔ ۲؎
حدیث و سنت کی حجیت: جناب جاوید احمد غامدی کا موقف
سید منظور الحسن
[ یہ تحریر راقم کے ایم فل علوم اسلامیہ کے تحقیقی مقالے سے ماخوذ ہے۔ ’’حدیث و سنت کی حجیت پر مکتب فراہی کے افکار کا تنقیدی جائزہ‘‘ کے زیر عنوان یہ مقالہ جی سی یونیورسٹی لاہور کے شعبۂ عربی و علوم اسلامیہ کے تحت ۲۰۱۲ء - ۲۰۱۴ء کے تعلیمی سیشن میں مکمل ہوا۔]
جناب جاوید احمد غامدی رسالت مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی اطاعت اور دین میں آپ کے مقام و مرتبے کے حوالے سے اُسی موقف پرقائم ہیں جس پرتمام علماے سلف کھڑے ہیں۔ چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کو کمال انسانیت کا مظہر اتم اور زمین پر خدا کی عدالت کہتے، آپ کی ہستی کو عقیدت اور اطاعت، دونوں کا مرکز مانتے اور آپ کے احکام کی بے چون و چرا تعمیل کو لازم قرار دیتے ہیں۔وہ دین کو آپ کی ذات میں منحصر سمجھتے اور اِس بنا پر آپ کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کو قیامت تک کے لیے حجت تسلیم کرتے ہیں۔ ماخذ دین کی بحث میں اُنھوں نے ’دین کا تنہا ماخذ‘ کی جو منفرد تعبیر اختیار کی ہے،اُس سے حصول دین کا سارا رخ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی طرف منتقل ہو گیا ہے اور آپ کے وجود پر دین کا انحصار رائج تعبیرات کے مقابلے میں زیادہ نمایاں اور زیادہ مرتکز ہو کر سامنے آیا ہے۔[1] دین اسلام پر اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کا آغاز کرتے ہوئے اُنھوں نے لکھا ہے:
’’دین اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے جو اُس نے پہلے انسان کی فطرت میں الہام فرمائی اور اِس کے بعد اُس کی تمام ضروری تفصیلات کے ساتھ اپنے پیغمبروں کی وساطت سے انسان کو دی ہے۔ اِس سلسلہ کے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ چنانچہ دین کا تنہا ماخذ اِس زمین پر اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات والا صفات ہے۔‘‘[2]
علم حدیث کی نوعیت اور اُس کی جمع و تدوین (۳) ۔ سید منظور الحسن
احادیث کے رد و قبول کے معیارات
اِس پورے پس منظر میں علما و محدثین کی طرف سےجو بڑے اقدامات سامنے آئے، وہ یہ ہیں:
ایک یہ کہ بعض علمی گروہوں نے حدیث کو اصولی طور پر قبول کرنے سے انکار کیا۔ اس معاملے میں معتزلہ اور خوارج نمایاں تھے۔ تاہم امت نے مجموعی طور پر اس رویے کو رد کیا ، اور اپنی تاریخ میں حدیث کا انکار کرنے والوں کو کبھی پذیرائی نہیں بخشی۔
دوسرے یہ کہ احادیث چونکہ راویوں کی روایت پر مبنی تھیں، اس لیے ناگزیر تھا کہ اُن میں قابل اعتماد اور ناقابل اعتماد لوگوں کو الگ الگ کیا جائے۔ چنانچہ راویوں کے حالات زندگی کی تحقیق اور عیوب و محاسن کی تفتیش کا عظیم الشان کام شروع ہوا۔ اصطلاح میں اسے ’اسماء الرجال‘ سے تعبیر کیا گیا۔ ۲۵؎
اسی ضمن میں موضوع اور جھوٹی حدیثوں کو چھانٹنے کا عمل بھی ساتھ ساتھ شروع ہوا اور جرح و تعدیل کے اصولوں کی بنا پر موضوع حدیثوں کے بے شمار مجموعے مرتب کیے گئے۔ ۲۶؎
تیسرے یہ کہ سند کے ساتھ ساتھ متن کی جانچ پڑتال کا کام بھی شروع کیا گیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ احادیث کو قرآن مجید، سنت ثابتہ اور عقل عام کی روشنی میں پرکھا جائے اور جو احادیث ان سے غیر مطابق ہوں، اُنھیں رد کر دیا جائے۔ اس ضمن میں اصول حدیث کی کتب تالیف کی گئیں۔
چوتھے یہ کہ اُن احادیث کو مجموعوں کی صور ت میں جمع کیا گیا جن کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متحقق اور قابل اطمینان تھی۔ چنانچہ امام بخاری، امام مسلم، امام احمد بن حنبل، امام ابو داؤد ، امام ترمذی، امام نسائی، امام ابن ماجہ اور متعدد محدثین نےاپنی تحقیقات اور اپنے اصولوں کی روشنی میں قابل اعتماد احادیث کے مجموعے ترتیب دیے۔