علم الحدیث لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
علم الحدیث لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

سورج رکنے سے متعلق روایت کی تحقیق

دارالافتاء ، جامعہ العلوم الاسلامیہ 
علامہ محمد یوسف بنوری ٹاون ، کراچی 

سوال: 

دنیا میں وقت یا سورج کتنی مرتبہ رک گیا؟


 سنا ہے ایک مرتبہ معراج کے وقت. دوسری دفعہ بی بی فاطمہ کے سر پر دوپٹہ نہ ہونے کے وقت. تیسری دفعہ حضرت علی کرم اللہ کی نماز قضا ہونے کے وقت۔ اور چوتھی دفعہ بلال کے اذان نہ دینے کے وقت۔

کیا یہ صحیح روایت ہے؟ 

جواب

مذکورہ سوال میں  دو امور کے بارے میں پوچھا گیا ہے:

 ۱۔دنیا میں سورج یا وقت  کے رکنے کے بارے میں۔    ۲۔چار  واقعات میں سورج رکنے کے بارے میں ۔

سب سے پہلے یہ  واضح رہے کہ دنیا میں سورج کا رکنا یا واپس ہونا اس کا  تذکرہ حدیث  میں صرف تین مواقع پر آیا ہے:

۱۔  حضرت یوشع بن نون کے بارے میں ۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ۳۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں۔

۱۔ حضرت یوشع بن نون  علیہ السلام کے بارے  میں   حدیث:

"حدثنا محمد بن العلاء، حدثنا ابن المبارك، عن معمر، عن همام بن منبه عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " غزا نبي من الأنبياء، فقال لقومه: لايتبعني رجل ملك بضع امرأة، وهو يريد أن يبني بها؟ ولما يبن بها، ولا أحد بنى بيوتًا ولم يرفع سقوفها، ولا أحد اشترى غنمًا أو خلفات وهو ينتظر ولادها، فغزا فدنا من القرية صلاة العصر أو قريبًا من ذلك، فقال للشمس: إنك مأمورة وأنا مأمور، اللهم احبسها علينا، فحبست حتى فتح الله عليه، فجمع الغنائم، فجاءت يعني النار لتأكلها، فلم تطعمها فقال: إن فيكم غلولًا، فليبايعني من كل قبيلة رجل، فلزقت يد رجل بيده، فقال: فيكم الغلول، فليبايعني قبيلتك، فلزقت يد رجلين أو ثلاثة بيده، فقال: فيكم الغلول، فجاءوا برأس مثل رأس بقرة من الذهب، فوضعوها، فجاءت النار، فأكلتها ثم أحل الله لنا الغنائم، رأى ضعفنا، وعجزنا؛ فأحلها لنا".  (صحيح البخاري، أحلت لكم الغنائم: 4/ 86،ط.الأولى، 1422هـ .دار طوق النجاة) ( صحيح مسلم: باب تحليل الغنائم لهذه الأمة خاصة: 3/ 1366،دار إحياء التراث)

"حدثنا أسود بن عامر، أخبرنا أبو بكر، عن هشام، عن ابن سيرين، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الشمس لم تحبس على بشر إلا ليوشع ليالي سار إلى بيت المقدس". ( مسند أحمد ط الرسالة: مسند ابي هريرة رضي الله عنه:14/ 65ط:الأولى، 1421 هـ - 2001 م)

اور اس حدیث کو شیخین کے علاوہ  امام طحاوی ؒنے بھی شرح مشکل الآثار میں  ذکر کیا ہے۔ملاحظہ فرمائیں :

( شرح مشكل الاثار: باب بيان مشكل ما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في مسألته الله عز وجل أن يرد الشمس عليه بعد غيبوبتها 3/95 ط:  الأولى، موسسة الرسالة)

۲۔ رسو ل اللہ صلی اللہ کے لیے سورج رکنے کے بارے میں حدیث:

"وروى يونس بن بكير في زيادة المغازي روايته عن ابن إسحق لما أسري برسول الله صلى الله عليه وسلم وأخبر قومه بالرفقة والعلامة التي في العير، قالوا: متى تجئ؟ قال: يوم الأربعاء، فلما كان ذلك اليوم أشرفت قريش ينظرون وقد ولى النهار ولم تجئ، فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم فزيد له في النهار ساعة وفحبست عليه الشمس".

یہ حدیث  قاضی عیاضؒ نے  ’’ الشفاء‘‘ میں، علامہ قسطلانی ؒ نے  "المواهب اللدنية بالمنح المحمدية"میں اور  علامہ ابن العراقی ؒ نے ’’طرح التثریب في شرح التقریب‘‘  میں  یونس بن بکیر  کے حوالے  سے ذکر کی ہے۔  (الشفا بتعريف حقوق المصطفى - وحاشية الشمني (1/ 284) (المواهب اللدنية بالمنح المحمديةعلامه قسطلاني(المتوفی: 923هـ) 2/260)

(طرح التثريب في شرح التقريبابنالعراقي (المتوفى: 806هـ) 7/247)

علامہ طبرانی ؒ نے ’’ المعجم الاوسط‘‘ میں اسی طرح کی ایک اور روایت ذکر کی ہے جو اس حدیث کی تائید کر رہی ہے:

"حدثنا علي بن سعيد قال: نا أحمد بن عبد الرحمن بن المفضل الحراني قال: نا الوليد بن عبد الواحد التميمي قال: نا معقل بن عبيد الله، عن أبي الزبير، عن جابر: «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر الشمس فتأخرت ساعة من نهار».  لم يرو هذا الحديث عن معقل إلا الوليد، تفرد به: أحمد بن عبد الرحمن، ولم يروه عن أبي الزبير إلا معقل ". (المعجم الأوسط: باب من اسمه علي 4/ 224،دار الحرمين)

متن حدیث میں ہمارے تصرفات (حصہ چہارم )۔ ساجد حمید

 (گذشتہ سے پیوستہ)

حذف السیاق

یہ چوتھا تصرف ہے جوراویوں، محدثین اور مصنفینِ حدیث نے کیا ہے۔ حذف السیاق یہ ہے کہ حدیث کے بعض ایسے اجزا کا بیان نہ کرنا جو بات کا سیاق و سباق یا موقع محل تشکیل کرتے ہیں۔موقع محل کی بہت اہمیت ہے،یہ نہ ہو تو سادہ سے سادہ جملے بھی اپنے معنی کھو دیتے ہیں۔تصرفات کے نتیجے میں بہت سی احادیث کو ان کے سیاق و سباق سے محروم کردیا گیا ہے۔پچھلے تینوں تصرفات میں اس کی کچھ مثالیں گزری ہیں ۔سیاق و سباق کے کھو جانے سے کیا مسئلہ پیدا ہوتاہے، وہ ذیل کی مثال سے واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں:
جملہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیا بجھا کر سویا کرو۔
سیاق و سباق
سیاق و سباق نہ بتایا جائے تو 

معنی

رات کو دیا بجھانا کارِ ثواب ہو گا۔ شاید بعض علما سوتے وقت دیا جلانے کوحرام بھی کہہ دیں۔ آج کے زمانے میں بلب بھی بجھا کر سونا پڑے گا۔

سیاق و سباق

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وجہ بتائی کہ چوہا آئے گا، تیل کھانے کے لیے بتی کو لے جانا چاہے گا، جس سے گھر میں آگ لگ سکتی ہے۔ یہ سیاق و سباق معلوم ہو تو

معنی

اب یہ گناہ ثواب کا مسئلہ نہیں ، بلکہ عام زندگی کی ایک اچھی نصیحت ہے ۔ بلب اور چوہے کا تعلق وہ نہیں ہے، اس لیے بلب جلا کر سوسکتے ہیں۔
یہاں دیکھیے کہ سیاق و سباق کا نہ ہونا معنی میں کیا تبدیلی کردیتا ہے، اس لیے ضروری تھا کہ ہر ہر حدیث میں سیاق و سباق یا موقع محل بیان کیا جاتا، لیکن افسوس ایسا نہیں ہے۔ تقریباً تمام روایات کسی نہ کسی طریقہ میں اپنے سیاق و سباق سے محروم ہوکر روایت ہوئی ہیں۔ہم نے انضمام المتون والے تصرف کے تحت کچھ روایات کا ذکر کیا تھا، جن کا موقع محل یا سیاق وسباق کسی ایک روایت سے بھی معلوم نہیں ہوسکا۔ اس مضمون میں ہم جو روایت بطور مثال پیش کرنے جارہے ہیں، اس کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہے کہ تصرفات کے کئی مراحل سے گزر کر اس کا موقع محل چند طرق میں تو آیا ہے، لیکن اکثر میں نہیں۔آئیے سب سے پہلے موقع محل سے منقطع روایت کو دیکھتے ہیں:

عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ: أَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ: ہَلَکْتُ، قَالَ: ’’وَلِمَ؟‘‘ قَالَ: وَقَعْتُ عَلٰی أَہْلِيْ فِيْ رَمَضَانَ، قَالَ: ’’فَأَعْتِقْ رَقَبَۃً‘‘ قَالَ: لَیْسَ عِنْدِي، قَالَ: ’’فَصُمْ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ‘‘، قَالَ: لاَ أَسْتَطِیْعُ، قَالَ: ’’فَأَطْعِمْ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا‘‘، قَالَ: لاَ أَجِدُ، فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِیْہِ تَمْرٌ، فَقَالَ: ’’أَیْنَ السَّاءِلُ؟‘‘، قَالَ: ہَا أَنَا ذَا، قَالَ: ’’تَصَدَّقْ بِہٰذَا‘‘، قَالَ: عَلٰی أَحْوَجَ مِنَّا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ، فَوَالَّذِيْ بَعَثَکَ بِالحَقِّ، مَا بَیْنَ لاَبَتَیْہَا أَہْلُ بَیْتٍ أَحْوَجُ مِنَّا، فَضَحِکَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتّٰی بَدَتْ أَنْیَابُہُ، قَالَ: ’’فَأَنْتُمْ إِذًا‘‘.(بخاری، رقم ۵۳۶۸)

متن حدیث میں ہمارے تصرفات (حصہ سوم ) ۔ ساجد حمید

 (گذشتہ سے پیوستہ)

انضمام المتون

ایک حدیث کے متن کا دوسرے متن میں ضم کرنا یا پیوند لگانا تیسرا تصرف ہے، جو حدیث کے ساتھ برتا گیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ دو مختلف احادیث کے متون یا جملوں کو ملا کر ایک نئی حدیث بنا لی جاتی ہے۔اس میں دونوں جملے یا متن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوسکتے ہیں، مگران کے پیوندسے جو نئی بات بنتی ہے، وہ ہر گز ہر گز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں ہوتی۔ پہلے ہم ایک سادہ جملے سے اس بات کو سمجھتے ہیں، پھر احادیث کی مثالوں سے سمجھیں گے۔
ایک محقق کسی موقع پر کہے:
(بات نمبر ۱): ’’اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ خداے حقیقی کے سوا میں کسی خداکو نہیں مانتا۔ یہ خداؤں کو ماننے والے سب جھوٹے ہیں۔‘‘
یہی محقق کسی دوسرے موقع پر کہے:
(بات نمبر۲): ’’ملحدین کی اتنی بات درست ہے کہ خداؤں کا وہ تصور جو انسانوں نے اپنے اپنے تہذیبی شعور کے ساتھ تخلیق کیا ہے، وہ کسی طرح قابل قبول نہیں ہے۔‘‘
کوئی اخباری رپورٹراس محقق کی دونوں باتوں میں سے ٹکڑے لے کر پیوند لگا کرایک اور بات بنائے، اور کہے:
(بات نمبر۳ جو دونوں کا مجموعہ ہے) ’’ملحدین کی اتنی بات درست ہے کہ خداؤں کا وہ تصور جو انسانوں نے اپنے اپنے تہذیبی شعور کے ساتھ تخلیق کیا ہے، وہ کسی طرح قابلِ قبول نہیں ہے۔ (میں کسی خداکو نہیں مانتا، یہ خداؤں کو ماننے والے سب جھوٹے ہیں)۔‘‘
بلاشبہ، پہلی دونوں باتیں اسی آدمی کی تھیں، لیکن اب یہ تیسری پیوند شدہ عبارت اس آدمی کی ہرگز نہیں ہے، اگرچہ اجزا اسی کے کلام سے لیے گئے ہیں ۔ اس انضمامِ عبارت کے پیوند کو ہم نے بریکٹوں میں (...) کے نشان سے نمایاں کردیا ہے۔آپ اس پیوند کا نتیجہ دیکھ سکتے ہیں کہ کتنا سنگین ہو سکتا ہے۔ اوپر کی مثال میں واضح ہے کہ ایک موحد اور مومن آدمی ملحد بن گیا ہے۔ ذیل میں ایسی ہی مثالیں احادیث سے پیش کی جاتی ہیں۔جن میں خود دوسری حدیثوں میں حلال اور جائز رکھا گیا معاملہ ان حدیثوں میں حرام ہو گیا ہے۔

پہلی مثال

سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی یہ روایت دیکھیے:

...عبد اللّٰہ بن عمر فقال: أتَی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ضیف، فقال لبلال: ’’ائتنا بطعام‘‘، فذہب بلال فأبْدل صاعین من تمرٍ بصاع من تمر جیّد، وکان تمرہم دُوناً، فأَعجبَ النبيَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم التمرُ، فقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’من أین ہذا التمر؟‘‘، فأخبرہ أنہ أبدل صاعاً بصاعین، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’رُدَّ علینا تمرنا‘‘. (مسند احمد، رقم۴۷۲۸) 

متن حدیث میں ہمارے تصرفات (حصہ دوم ) ۔ ساجد حمید

 (گذشتہ سے پیوستہ)

تمہید

میں نے اس مضمون کا عنوان ’’متنِ حدیث میں علما کے تصرفات‘‘ باندھا تھا۔ لفظ ’تصرف‘ کے معنی معاملہ کرنا، الٹنا پلٹنا، استعمال میں لانا وغیرہ کے آتے ہیں۔ دورِ تدوین سے آج تک حدیث کے ساتھ ہم نے جو کچھ کیا ہے، تصرف ہی اس کے بیان کے لیے ایک اچھا لفظ ہے، لیکن بعض لوگوں نے میرا پہلا مضمون پڑھ کر یہ تاثر بیان کیا ہے کہ اس لفظ میں ایک سختی ہے، وہ یہ کہ اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ شایدعلما نے جانتے بوجھتے ایسا کیا ہے۔لغوی اعتبار سے یہ لفظ نہ منفی ہے اور نہ مثبت۔ان مضامین میں میرا مقصد علما کی تنقیص نہیں ہے، نہ میں نے اسے اس قسم کے کسی منفی مقصد کے لیے لکھا ہے ۔ اس لیے میں نے اس مضمون کا عنوان تبدیل کردیا ہے، اور عنوان میں سے ’علما‘ کا لفظ نکال دیا ہے۔

میں نے اپنے مضمون کی پہلی قسط اور اس قسط میں بھی یہی بات عرض کی ہے کہ یہ تصرفات بیان و حکایت کا فطری تقاضا ہیں، راویوں اور علما نے یہ جان بوجھ کر نہیں کیے۔ ’علما‘ کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا تھا کہ اس میں رواۃِ حدیث کے ساتھ ساتھ صوفیہ، محدثین ، فقہا، شارحین، مفسرین اور مصنفین سب شامل تھے، ان کے لیے علما ہی کی تعبیر سب سے زیادہ موزوں تھی۔بہرحال کسی بھی قسم کی غلط فہمی کو زائل کرنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ میں اس کے عنوان میں تبدیلی کردوں۔ اب یہ مضمون اسی عنوان سے چھپے گا تاآنکہ اس میں کسی قسم کی کوئی خطا سامنے آجائے۔

اس سلسلے کے مضامین کے دو حصے ہیں: ایک تصرفات کے بیان کا اور دوسرا مسئلے کی توجیہ کا۔ واضح رہے کہ یہ دوسرا حصہ میرے ان مضامین کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ اس دوسرے حصے، یعنی توجیہ و توضیح کے لیے ان مضامین میں میرا اصول یہ ہے کہ اگر میں مختلف درجے کی احادیث سے اخذ و استفادہ کروں گا، تو اس میں کوئی بھی حدیث حسن یا حسن لغیرہ کے درجے سے نیچے کی نہ ہو، یعنی یہ کہ ان احادیث کو میں اس اصول پر لوں کہ کم ازکم صحیح تر احادیث میں ان مضامین کی تائید اور بنیاد موجود ہو، اوریہ بھی میری کوشش ہوگی کہ اسی حدیث سے استشہاد کروں جسے کسی نہ کسی محدث نے قابلِ احتجاج قرار دیا ہو، میں اپنی راے پر اس کو منحصر نہیں کروں گا۔ البتہ تصرفات کے بیان میں صحیح و ضعیف کا امتیاز میرے خیال میں ضروری نہیں ہے،اس لیے کہ یہ بھی تصرف ہی کی ایک صورت ہے۔اور اس لیے بھی کہ ان ضعیف حدیثوں کو حدیث کی حیثیت نہ بھی دیں، ایک تاریخی دستاویزی حیثیت تو انھیں حاصل ہے ہی، اس لیے تصرف کے تحت تو اسے لایا جاسکتا ہے ۔مزید یہ کہ ضعیف روایات کا وجود اور ان کو کتابوں میں لکھنا بذات خود ایک تصرف ہے،یعنی باوجود ضعفِ سند کے اسے کسی مجموعۂ حدیث میں درج کرناوغیرہ اقوال رسول پر ایک تصرف ہی تو ہے۔ اسی طرح اس میں بھی شبہ نہیں ہے کہ امت کا ایک بڑا طبقہ ضعیف احادیث سے اخذو استفادہ کرتا ہے۔۱؂ جس مضمون پر ’’اشراق‘‘ کے اداریے میں تبصرہ ہوا، اس میں بحمد اللہ ایک بھی روایت اس اصول سے ہٹی ہوئی نہیں ہے، جسے میں نے اوپر بیان کیا ہے ۔

اسی طرح بعض احباب نے کہا کہ تمھارا مضمون جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے خاصا مشکل تھا، ان کی آسانی کے لیے میں نے حسب ضرورت مشکل الفاظ کے انگریزی مترادف دے دیے ہیں۔


متن حدیث میں لفظی و معنوی ادراج

تجزۂ حدیث کے بعد اگلا اہم تصرف ادراج ہے ۔ ادراج سے ہماری مراد راوی کا عمداً یا سہواً کلام نبوی میں اپنی بات شامل کرنا ہے۔اس سے دو قسم کی چیزیں متنِ حدیث میں شامل ہوئی ہیں:

ایک الفاظ ،یعنی راوی نے اپنے یا کسی اور راوی کے الفاظ و جمل کو اس طر ح سے بیان کردیا کہ وہ حدیث کے متن کا حصہ قرار پا گئے ۔

دوسری راے ، اس کی دو صورتیں ہیں، 

۱۔ ایک یہ کہ کسی صحابی یا راوی کی راے یا فتویٰ قول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر حدیث کی حیثیت پاگیا، قطع نظر اس کے کہ یہ عمل عمداً ہوا ہو یا سہواً۔

۲۔ دوسرے یہ کہ احادیث کا معتد بہ حصہ روایت بالمعنیٰ۲؂ کے طریقے پر منتقل ہوا ہے،اور فقیہ (prudent) سے فقیہ آدمی بھی جب کسی بات کو سمجھ کردوسروں کواپنے لفظوں میں سناتا ہے، تو وہ دراصل متکلم کا نہیں، بلکہ اپنا فہم آگے بیان کررہا ہوتا ہے ۔۳؂ 

متن حدیث میں علما کے تصرفات ۔ ساجد حمید

[یہ مضمون میری ایک تحریر کا جزوہے۔ جسے افادۂ عام کے لیے تحریرکے مکمل ہونے سے پہلے شائع کیا جارہا ہے تاکہ نقد و جرح کے عمل سے گزر جائے ۔ احادیث مبارکہ کے متون میں جو باتیں آئی ہیں، وہ اہل علم کے تصرفات کے نتیجے میں بہت حد تک بدل چکی ہیں۔یہ تحریر اس بات کی سعی ہے کہ متون حدیث کو ان تصرفات سے پاک کرکے دیکھا جائے۔اس تحریر میں ہر ایک تصرف کی چند مثالوں سے بات کو قابل فہم بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان تصرفات سے پاک کرنے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل بات کسی حد تک سامنے آجاتی ہے، جس پر پھر عقل ونقل کے اعتراض وارد کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ گویایہ دفاع حدیث کا ایک اسلوب ہے، جسے میں متعارف کرانا چاہتا ہوں۔ یہ مدرسۂ فراہی کا خاص طرز فکر ہے ۔ اس عمل سے چونکہ حدیث کی بنا پر بنی ہوئی ہماری پہلے سے موجود آرا تبدیل ہو جاتی ہیں، جس سے لوگوں کو توحش اوراجنبیت سی محسوس ہوتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اصل بات کی طرف لوٹنا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس اصل بات کی طرف جو ہمارے تصرفات سے پاک ہو۔یہ بلاشبہ ایک مشکل اور نازک کام ہے۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ کوتاہیوں ، خطاؤں، لغزشوں اور نفس کے بہکاووں سے بچائے، آمین۔ مصنف]

——۱——

حدیث کے ساتھ ہمارے تصرفات کی ایک اہم صورت متن حدیث کو اجزامیں بانٹنا ہے۔ اس کے لیے ہم اس مضمون میں تجزۂ حدیث اور تجزۂ کی اصطلاح استعمال کریں گے۔ تجزۂ کا یہ عمل کئی وجوہات سے ہوا ہے۔ مثلاً یہ کہ راوی نے ،فطری طور پر، برسر موقع، جتنی بات کی ضرورت تھی، اتنی بات بیان کی، باقی بات یا اس سے متعلق دیگر تفصیلات بیان نہیں کیں۔ مصنف محدثین نے اپنی کتاب کی موضوعاتی ترتیب کے لحاظ سے حدیث کا جتنا متن ایک موضوع سے متعلق تھا، وہ ایک جگہ لکھ دیا باقی دوسری جگہ، وغیرہ۔ اس عمل سے حدیث کے ٹکڑے مختلف ابواب میں بکھر گئے ، جس سے پوری بات ہمارے سامنے موجود نہ رہی، اور ہر ٹکڑا الگ الگ حیثیت سے مکمل بات کے طور پر لے لیا گیا۔ تجزۂ حدیث کی ایک مثال ذیل میں دی جاتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے درج ذیل حدیث جب اسبال ازار کے باب میں لکھی تو اس کے الفاظ یہ تھے:

ترکی میں حدیث کی تدوین جدید – جاوید احمد غامدی

حدیث سے متعلق کسی کام کو سمجھنے کے لیے اِس حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے کہ دین کا تنہا ماخذ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہے۔ آپ سے یہ دین دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے: ایک قرآن، دوسرے سنت۔ یہ بالکل یقینی ہیں اور اپنے ثبوت کے لیے کسی تحقیق کے محتاج نہیں ہیں۔ اِنھیں مسلمانوں نے نسلاً بعد نسلٍ اپنے اجماع اور تواتر سے منتقل کیا ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کی ہرنسل کے لوگوں نے بغیر کسی اختلاف کے پچھلوں سے لیا اور اگلوں تک پہنچا دیا ہے اور زمانۂ رسالت سے لے کر آج تک یہ سلسلہ اِسی طرح قائم ہے۔

پورا دین اِنھی دو میں محصور ہے اور اُس کے تمام احکام ہم اِنھی سے اخذ کرتے ہیں۔ اِس میں بعض اوقات کوئی مشکل پیش آجاتی ہے۔ پھر جن معاملات کو ہمارے اجتہاد کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے، اُن میں بھی رہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ اِس کے لیے دین کے علما کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے پیغمبر تھے، اِس لیے دین کے سب سے پہلے اور سب سے بڑے عالم، بلکہ سب عالموں کے امام بھی آپ ہی تھے۔ دین کے دوسرے عالموں سے الگ آپ کے علم کی ایک خاص بات یہ تھی کہ آپ کا علم بے خطا تھا، اِس لیے کہ اُس کو وحی کی تائید و تصویب حاصل تھی۔ یہ علم اگر کہیں موجود ہو تو ہر مسلمان چاہے گا کہ قرآن و سنت کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے اِسی سے رہنمائی حاصل کرے۔

ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہ علم موجود ہے اور اِس کا ایک بڑا حصہ ہم تک پہنچ گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ علم آپ کے صحابہ نے حاصل کیا تھا، لیکن اِس کو آگے بیان کرنا چونکہ بڑی ذمہ داری کا کام تھا، اِس لیے بعض نے احتیاط برتی اور بعض نے حوصلہ کر کے بیان کر دیا۔ اِس میں وہ چیزیں بھی تھیں جنھیں وہ آپ کی زبان سے سنتے یا آپ کے عمل میں دیکھتے تھے اور وہ بھی جو آپ کے سامنے کی جاتی تھیں اور آپ اُن سے منع نہیں فرماتے تھے۔ یہی سارا علم ہے جسے 'حدیث' کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سوانح کو جاننے کا سب سے بڑا ذریعہ یہی ہے۔ اِس سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا اضافہ نہیں ہوتا۔ یہ اُسی دین کی شرح و وضاحت اور اُس پر عمل کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کا بیان ہے جو آپ نے قرآن و سنت کی صورت میں اپنے ماننے والوں کو دیا ہے۔

حدیثِ نبوی ﷺ کے حوالہ نمبروں میں اختلاف کا مسئلہ -

 ڈاکٹر محمد عامر گزدر

کتبِ حدیث کے تمام اصلی مراجع عربی زبان میں ہیں جو زیادہ تر عرب دنیا سے شائع ہوتے ہیں۔صحیح بخاری ہو یا صحیح مسلم یا حدیث کی دوسری کوئی بھی کتاب؛ یہ سب کتب مختلف زمانوں میں متفرق شہروں اور پبلشرز کی خدمات سے عربی زبان میں بار با ر شائع ہوتی رہتی ہیں۔اِن اصل کتابوں کے مختلف ایڈیشنز میں احادیث کے نمبروں کا کچھ نہ کچھ فرق بھی قارئین کے سامنےآتا ہے۔

در اصل اِن کتابوں میں احادیث کو اِس طرح نمبر دینا خود ائمۂ محدثین کا کام نہیں ہے۔ بلکہ یہ خدمت بعد میں لوگوں نے پرنٹنگ پریس کے دور میں آکر اِن کتابوں کی طباعت کرتے ہوئے حدیثوں کا حوالہ دینے کے لیے قارئین کی سہولت کے پیش نظر انجام دی ہے۔ اِس کام میں بھی اہلِ علم کی مدد لی گئی ہے۔ کتابوں کی اشاعت کے لیے روایتوں کو گننے کے طریقوں میں علما کا طرزِ عمل مختلف ومتنوع رہا ہے۔ بعض حضرات کتاب میں وارد ہونے والی ہر ہر روایت کو بالترتیب شمار کرتے ہیں۔ بعض نے مکرر روایتوں کو شمار نہیں کیا۔ بعض مرسل احادیث کو بھی گنتی میں شمار کرتے ہیں، جب کہ دوسرے ایسا نہیں کرتے۔ بعض حضرات صرف مرفوع احادیث، یعنی نبی ﷺ کے قول وفعل کی روایتوں کو شمار کرتے چلے جاتے ہیں، جب کہ بعض موقوف ومقطوع روایتوں، یعنی صحابہ وتابعین کے آثار کو بھی گنتی میں شمار کرتے ہیں۔ چنانچہ اِسی بنا پر اصل مؤلفات کے مطبوعہ مختلف نسخوں میں احادیث کے نمبر ہمیں مختلف بھی ملتے ہیں۔

علم حدیث کی نوعیت اور اُس کی جمع و تدوین (۲)

سید منظور الحسن

 احادیث  اور صحابہ کے بعد کا زمانہ

صحابۂ کرام سے آگے یہ احادیث تابعین، تبع تابعین ، تبع تبع تابعین اور بعد کے محدثین کے سلسلۂ روایت سے ہم تک پہنچی ہیں۔ ۱۱؎

دوسری صدی ہجری میں، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے کم و بیش ایک سو سال بعد علما میں حدیث کی جمع و تدوین کا شوق نمایاں ہونا شروع ہو گیا۔چنانچہ انھوں نے احادیث کو حاصل کرنے کے لیے دور دراز کے سفر بھی کیے۔ لوگوں میں اس علمی رحلت کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔  ۱۲؎

حدیث کے طالب علموں کے یہ سفر جہاں اُن کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم سے اکتساب فیض کے شوق کو نمایاں کرتے ہیں، وہاں اِس حقیقت کو بھی واضح کرتے ہیں کہ محدثین کی یہ کاوشیں اصل دین کے حصول کے لیے نہیں تھیں۔ وہ اُن کے پاس قرآن و سنت کی صورت میں موجود تھا۔ ان کا مقصد ازدیادعلم تھا، دین کی تفہیم مزید تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر عمل، یعنی اسوۂ حسنہ سے فیض یاب ہونا تھا۔ اگر اصل دین کے حصول کو ان کاوشوں کا محرک سمجھا جائے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے رخصت ہونے کے سو ڈیڑھ سوسال تک مکمل دین یا اُس کی ضروری معلومات معاذ اللہ لوگوں تک نہیں پہنچ سکی تھیں۔ یہ ماننا، ظاہر ہے کہ قرآن مجید کےبھی خلاف ہے اور تاریخی شہادت کے بھی مطابق نہیں ہے۔

احادیث کی جمع و تدوین کا اہتمام

حکومت و ریاست کی سرپرستی میں احادیث کی جمع و تدوین کا کام سب سے پہلے حضرت عمر بن عبدالعزیز نے انجام دیا۔  وہ تابعی تھے اور خود بھی محدث تھے۔ اُن کا شمار حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے تلامذہ میں ہوتا ہے۔ وہ ۹۹ھ میں خلیفہ بنے اور اُنھوں نے مختلف علاقوں کے علما و محدثین کو احادیث جمع کرنے کےکام پر مامور کیا۔ اُنھیں ڈر تھا کہ کبار تابعین کی وفات سے حدیث کا علم ضائع نہ ہو جائے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جن شخصیات کو اس کام پر مقرر کیا ،اُن میں سب سے نمایاں نام ابن شہاب زہری کا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز صرف دو سال اقتدار میں رہنے کے بعد ۱۰۱ ھ میں وفات پا گئے۔ ۱۳؎

علم حدیث کی نوعیت اور اُس کی جمع و تدوین (۱)

سید منظور الحسن

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر وتصویب کے اخبارآحاد کو ’’حدیث‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ وہ روایات ہیں جو خبر واحد کے ذریعے سے اور روایت بالمعنیٰ کے طریقے پر  ہم تک پہنچی ہیں، یعنی لوگوں نے اِنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی سماعت کی حد تک سنا ہے ، اپنی یادداشت کی حد تک یاد رکھا ہے ، اپنے فہم کے مطابق سمجھا ہے ، اپنے الفاظ میں ترتیب دیا ہے اوراپنی صواب دید سے منتقل کیا ہے۔اِس طریقے سے حاصل ہونے والے علم کے بارے میں مسلم ہے کہ یہ درجۂ یقین کو نہیں پہنچتا۔ اِس سے ظن غالب یا قوی گمان حاصل ہوتا ہے، جسے یقینیات کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا ۔ درجۂ یقین کو وہی علم پہنچتا ہے جو اجماع و تواتر سے منتقل ہوا ہو۔ قرآن مجید اور سنت کا یہی معاملہ ہے۔ یہ  دونوں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع اور قولی و عملی تواتر سے ملے ہیں اور ہر دور میں مسلمانوں کے اجماع سے ثابت ہوتے ہیں۔ اِن کے مقابل میں احادیث کی روایات اخبار آحاد میں محصور ہیں، یعنی  نہ وہ صحابۂ کرام کے اجماع اور قولی تواتر سے ملی ہیں اور نہ ہر زمانے میں مسلمانوں کے اجماع سے ثابت ہوتی ہیں، لہٰذا اِن سے حاصل ہونے والے علم کو  اصل اور ضروری  قرار دینے کے بجاے بالعموم شرح و فرع تک محدود سمجھا جاتا ہے، یعنی اس کی نوعیت دین کی تفہیم و تبیین کی ہے۔ ۱؎

یہ علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کی روایات کی صورت میں موجود ہے۔انھیں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے متعدد صحابۂ کرام نے اپنی انفرادی حیثیت میں روایت کیا ہے اور علما اور محدثین کی ایک جماعت نے اسے مرتب کر کے آگے منتقل کیا ہے۔

احادیث اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم

احادیث کے بارے میں یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ زمانۂ نزول قرآن میں احادیث کو لکھنے اور جمع کرنے پر پابندی عائد رہی ہے۔ اِس کا مقصد کلام الہٰی کو بالکل متعین اور ممیز رکھنا تھا۔تاہم بعد ازاں یہ پابندی اٹھا لی گئی اور لوگ اپنی خواہش سے احادیث لکھنے اور جمع کرنےلگے۔ ۲؎

حدیث و سنت کی حجیت: جناب جاوید احمد غامدی کا موقف

سید منظور الحسن

[ یہ تحریر راقم کے ایم فل علوم اسلامیہ کے تحقیقی مقالے سے ماخوذ ہے۔ ’’حدیث و سنت کی حجیت پر مکتب فراہی کے افکار کا تنقیدی جائزہ‘‘ کے زیر عنوان یہ مقالہ جی سی یونیورسٹی لاہور کے شعبۂ عربی و علوم اسلامیہ کے تحت ۲۰۱۲ء - ۲۰۱۴ء کے تعلیمی سیشن میں مکمل ہوا۔]

    جناب جاوید احمد غامدی رسالت مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی اطاعت اور دین میں آپ کے مقام و مرتبے کے حوالے سے اُسی موقف پرقائم ہیں جس پرتمام علماے سلف کھڑے ہیں۔ چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کو کمال انسانیت کا مظہر اتم اور زمین پر خدا کی عدالت کہتے، آپ کی ہستی کو عقیدت اور اطاعت، دونوں کا مرکز مانتے اور آپ کے احکام کی بے چون و چرا تعمیل کو لازم قرار دیتے ہیں۔وہ دین کو آپ کی ذات میں منحصر سمجھتے اور اِس بنا پر آپ کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کو قیامت تک کے لیے حجت تسلیم کرتے ہیں۔ ماخذ دین کی بحث میں اُنھوں نے ’دین کا تنہا ماخذ‘ کی جو منفرد تعبیر اختیار کی ہے،اُس سے حصول دین کا سارا رخ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی طرف منتقل ہو گیا ہے اور آپ کے وجود پر دین کا انحصار رائج تعبیرات کے مقابلے میں زیادہ نمایاں اور زیادہ مرتکز ہو کر سامنے آیا ہے۔[1]   دین اسلام پر اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کا آغاز کرتے ہوئے اُنھوں نے لکھا ہے:

’’دین اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے جو اُس نے پہلے انسان کی فطرت میں الہام فرمائی اور اِس کے بعد اُس کی تمام ضروری تفصیلات کے ساتھ اپنے پیغمبروں کی وساطت سے انسان کو دی ہے۔ اِس سلسلہ کے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ چنانچہ دین کا تنہا ماخذ اِس زمین پر اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات والا صفات ہے۔‘‘[2]

علم حدیث کی نوعیت اور اُس کی جمع و تدوین (۳) ۔ سید منظور الحسن


احادیث کے رد و قبول کے معیارات

اِس پورے پس منظر میں علما و محدثین کی طرف سےجو بڑے اقدامات سامنے آئے، وہ یہ ہیں:

ایک یہ کہ بعض علمی گروہوں نے حدیث کو اصولی طور پر قبول کرنے سے انکار کیا۔ اس معاملے میں معتزلہ اور خوارج نمایاں تھے۔ تاہم امت نے مجموعی طور پر اس رویے کو رد کیا ، اور اپنی تاریخ میں حدیث کا انکار کرنے والوں کو کبھی پذیرائی نہیں بخشی۔

دوسرے یہ کہ احادیث چونکہ راویوں کی روایت پر مبنی تھیں، اس لیے ناگزیر تھا کہ اُن میں قابل اعتماد اور ناقابل اعتماد لوگوں کو الگ الگ کیا جائے۔ چنانچہ راویوں کے حالات زندگی کی تحقیق اور عیوب و محاسن کی تفتیش کا عظیم الشان کام شروع ہوا۔ اصطلاح میں اسے  ’اسماء الرجال‘ سے تعبیر کیا گیا۔ ۲۵؎

اسی ضمن میں موضوع اور جھوٹی حدیثوں کو چھانٹنے کا عمل بھی ساتھ ساتھ شروع ہوا اور جرح و تعدیل کے اصولوں کی بنا پر موضوع حدیثوں کے بے شمار مجموعے مرتب کیے گئے۔ ۲۶؎

تیسرے یہ کہ سند کے ساتھ ساتھ متن کی جانچ پڑتال کا کام بھی شروع کیا گیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ احادیث کو قرآن مجید، سنت ثابتہ اور عقل عام کی روشنی میں پرکھا جائے اور جو احادیث ان سے غیر مطابق ہوں، اُنھیں رد کر دیا جائے۔ اس ضمن میں اصول حدیث کی کتب تالیف کی گئیں۔

چوتھے یہ کہ اُن احادیث کو مجموعوں کی صور ت میں جمع کیا گیا جن کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متحقق اور قابل اطمینان تھی۔ چنانچہ امام بخاری، امام مسلم، امام احمد بن حنبل، امام ابو داؤد ، امام ترمذی، امام نسائی، امام ابن ماجہ اور متعدد محدثین نےاپنی تحقیقات اور اپنے اصولوں کی روشنی میں قابل اعتماد احادیث کے مجموعے ترتیب دیے۔