جديد دور میں علماء اسلام کی اصل ذمہ داری

علماء کی ذمہ داری
"علما کے لیے اب یہ وقت نہیں ہے کہ وہ الہیات اور مابعد الطبیعیات اور فقہی جزئیات کی بحثوں میں لگے رہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب تھا یا نہ تھا؟ خدا جھوٹ بول سکتا ہے یا نہیں؟ رسولؐ کا نظیر ممکن ہے یا نہیں؟ ایصالِ ثواب اور زیارتِ قبور کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ آمین بالجہر و رفع یدین کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ مسجد میں منبر و محراب کے درمیان کتنا فاصلہ رکھا جائے؟ یہ اور ایسے ہی بیسیوں مسائل جن کو طے کرنے میں آج ہمارے پیشوایانِ دین اپنی ساری قوتیں ضائع کر رہے ہیں‘ دنیا کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور ان کے طے ہو جانے سے ہدایت و ضلالت کی اس عظیم الشان لڑائی کا تصفیہ نہیں ہوسکتا جو اس وقت تمام عالم میں چھڑی ہوئی ہے۔ آج اصلی ضرورت ان مسائل کے سمجھنے کی ہے جو ناخدا شناسی اور لا دینی کی بنیاد پر علم اور تمدن کے صدیوں تک نشو و نما پاتے رہنے سے پیدا ہوگئے ہیں۔ ان کی پوری پوری تشخیص کر کے اصول اسلام کے مطابق ان کا قابل عمل حل پیش کرنا وقت کا اصلی کام ہے۔ اگر علمائے اسلام نے اپنے آپ کو اس کام کا اہل نہ بنایا‘ اور اسے انجام دینے کی کوشش نہ کی تو یورپ اور امریکہ کا جو حشر ہوگا، سو ہوگا، خود دنیائے اسلام بھی تباہ ہو جائے گی، کیونکہ وہی مسائل جو مغربی ممالک کو درپیش ہیں تمام مسلم ممالک اور ہندستان میں پوری شدت کے ساتھ پیدا ہو چکے ہیں اور ان کاکوئی صحیح حل بہم نہ پہنچنے کی وجہ سے مسلم اور غیر مسلم سب کے سب ان لوگوں کے الٹے سیدھے نسخے استعمال کرتے چلے جارہے ہیں جو خود بیمار ہیں۔ اب یہ معاملہ صرف یورپ اور امریکہ کا نہیں بلکہ ہمارے اپنے گھر اور ہماری آئندہ نسلوں کا ہے۔"

"اسلام اپنے نام سے تو کوئی معجزہ نہیں دکھا سکتا۔ اس کے اصول اگر محض کتاب میں لکھے رہیں تو ان سے بھی کسی معجزے کا صدور ممکن نہیں۔ جس انتشار اور بے عملی کی حالت میں مسلمان اس وقت مبتلا ہیں‘ جو جمود ان کے علما پر طاری ہے اور جس زنانہ انفعال و تاثر کااظہار ان کی نئی تعلیم یافتہ نسلوں سے ہو رہا ہے‘ اس سے ہندستان کی روح کو فتح کرنا تو درکنار‘ یہ بھی توقع نہیں کی جا سکتی کہ اسلام کے نام لیوا خوداپنی جگہ ہی پر قائم رہ جائیں گے۔ انقلاب کے تیز رَو سیلاب میں کسی جماعت کا ساکن کھڑا رہنا غیر ممکن ہے، یا اس کو رو میں بہنا پڑے گا‘ یا پوری مردانگی کے ساتھ اٹھ کر سیلاب کا منہ پھیر دینا ہوگا۔ یہ دوسری صورت صرف اسی طرح رونما ہوسکتی ہے کہ اول تو عام مسلمانوں کی اخلاقی حالت درست کی جائے اور ان میں اسلامی زندگی کی روح پھونک دی جائے۔ دوسرے علمائے اسلام اور نئے تعلیم یافتہ مسلمان مل کر اصول اسلام کے مطابق زندگی کے جدید مسائل کو سمجھیں اور علمی و عملی دونوں صورتوں میں ان کواس طرح حل کرکے بتائیں کہ اندھے متعصبیں کے سوا ہر معقول انسان کو تسلیم کرنا پڑ جائے کہ ایک ترقی پذیر تمدن کے لیے اسلامی تہذیب کے سوا اور کوئی اساس صحیح اور بے عیب نہیں ہوسکتی۔"

"اگر میں صورتِ حالات کا غلط اندازہ نہیں کر رہا ہوں تو یہ حقیقت ہے کہ جو امتحان اس وقت مذہب کو درپیش ہے‘ اس سے وہ صرف اسی صورت میں کامیابی کے ساتھ گزر سکتا ہے جب کہ نوخیز نسل اس کے اندرونی نظم کی جانچ پڑتال کرکے اس امر کا پورا اطمینان کرلے کہ زندگی میں جن عملی مسائل اور جن پریشانیوں اور پیچیدگیوں سے اس کو سابقہ پڑ رہا ہے ان کا بہترین حل اس مذہب میں موجود ہے۔ شخصی مذہب کا دور اب گزر چکا ہے۔ محض جذباتی مذہب کی بھی اب کسی کو حاجت نہیں۔ اس قسم کے مذہب کا زمانہ بھی اب نہیں رہا جو فرد کو صرف اس حد تک تسلی اور سہارا دے سکتا ہو کہ اس کے اخلاقی طرز عمل کے لیے کچھ ہدایات دے دے اور ایک ایسی نجات کی امید دلا دے جس کا حال مرنے کے بعد ہی کھل سکتا ہے۔ موجودہ زمانے کا سائنٹیفک آدمی تو ہرچیز کو‘ حتیٰ کہ خود صداقت کو بھی بین نتائج کی کسوٹی پر پرکھ کردینا چاہتا ہے۔ اگر اس کو مذہب کا اتباع کرنا ہے تو وہ مطالبہ کرتا ہے کہ مذہب اس کو یہ بتائے کہ وہ اس کی زندگی کے عملی مسائل کا اپنے پاس کیا حل رکھتا ہے۔ بہت سے جنموں کے بعد آخر کار نروان حاصل ہونے کی امید‘ یا موت کے دروازے سے گزر جانے کے بعد آسمانی بادشاہت میں پہنچ جانے کی توقع ایسی چیز نہیں ہے کہ صرف اسی کی بنیاد پر وہ مذہب کو قبول کرے۔ اس کی فلسفیانہ جستجو کے لیے مذہب کو سب سے پہلے تو وہ کلید فراہم کرنی چاہیے جس سے وہ کائنات کے معمے کا کوئی قابلِ اطمینان حل پاسکے۔ پھر اسے ٹھیک ٹھیک سائنٹیفک طریقے پر علت اور معلول‘ سبب اور نتیجے کا بَیَّن تعلق ثابت کرتے ہوئے یہ دکھانا چاہیے کہ انسان ان طاقتوں کو کس طرح قابو میں لائے جو اس وقت بے قابو ہو کر نوعِ انسانی کو فائدہ پہنچانے کے بجائے تباہ کر دینے کی دھمکیاں دے رہی ہیں اور کس طرح وہ بے روزگاری‘ غیر معقول عدمِ مساوات‘ ظلم و ستم‘ معاشی لوٹ‘ جنگ‘ اور دوسری اجتماعی خرابیوں کا انسداد کرے اور افراد کی باہمی کشمکش اور خاندانی نظام کی برہمی کو کس طرح روکے جس نے انسان کی مسرتوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔"

"وہ درحقیقت اس وقت ایسے لیڈروں کی محتاج ہے جو قوت کے ساتھ اٹھ کر اس کی نگاہوں پر سے پردہ اٹھا دیں اور اسلام کی صراط مستقیم کا واحد راہِ نجات ہونا ثابت و مُبرہن کر دیں۔ ایک ایسی مجاہد و مجتہد جماعت اگر مسلمانوں میں پیدا ہو جائے تو مسلمان تمام دنیا کے پیشوا بن سکتے ہیں۔ ان کو وہی مقامِ عزت پھر حاصل ہوسکتا ہے، جس پروہ کبھی سرفراز تھے اور جس پر مغربی قوموں کو متمکن دیکھ کر آج ان کے منہ میں پانی بھرا چلا آرہا ہے، لیکن اگر اس قوم کے جمہور اسی طرح دون ہمتی و پست حوصلگی کے ساتھ بیٹھے رہے اگر اُس کے نوجوان یونہی غیروں کا پس خوردہ کھانے کو اپنا منتہائے کمال سمجھتے رہے،اگر اس کے علما اپنی اپنی پرانی فقہ و کلام کی فرسودہ بحثوں میں الجھے رہے‘ اگر ان کے لیڈروں اور سیاسی پیشواؤں کی ذلیل ذہنیت کا یہی حال رہا کہ لشکرِ اغیار کے پیچھے لگ چلنے کو مجاہدانہ عزیمت کا بلند ترین مرتبہ سمجھیں اور بیسویں صدی کے سب سے بڑے فریب میں اپنی قوم کو مبتلا کرنا کمال دانش مندی خیال کریں‘ غرض اگر اس قوم کے دست و پا سے لے کر دل و دماغ تک سب کے سب تعطل یا خام کاری ہی میں گرفتار رہیں اور اس کروڑوں کے انبوہ سے چند مردانِ خدا بھی جہاد اور اجتہاد فی سبیل اللہ کے لیے کمر باندھ کر نہ اٹھ سکیں تو پھر دنیا جس اسفل السافلین کی طرف جارہی ہے، اسی طبقۂ جہنم میں یہ قوم بھی دنیا کی دم کے ساتھ بندھی بندھی جاگرے گی اور غضبِ خداوندی ایک مرتبہ پھر پکارے گا: اَلاَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ [دور ہوئی ظالم قوم]۔"

(لارڈ لوتھین کا خطبہ - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی : ترجمان القرآن، محرم ۱۳۵۷ھ۔ مارچ ۱۹۳۸ء)