نئی نسل سے مکالمہ خورشید ندیم |
(تاریخ اشاعت : روزنامہ دنیا 20 فروری 2020)
خیال ہوا کہ اہلِ دانش کو اس جانب متوجہ کیا جائے۔ ان کے قلم اس موضوع کے لیے رواں ہوں اور ان کی خوش گفتاری اس کام آئے مگر 'یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے‘۔ لکھنے اور بولنے والوں کی اپنی ترجیحات ہیں۔ ان کے نزدیک کچھ دیگر موضوعات زیادہ توجہ طلب تھے۔ کسی نے اس موضوع کو اگر اہم جانا تو وہ سجاد میر تھے۔
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
پچھلی اور اگلی نسلوں کے مابین مکالمہ ناگزیر ہو چکا۔ نوجوان سرفروشی کی تمنا کے ساتھ نکلے تو ان کا جس طرح استقبال ہوا، ہمارے سامنے ہے۔ ان پر بغاوت کے مقدمات قائم ہوئے اور سماج لا تعلق رہا یا پس پردہ کچھ تلاش کرتا رہا۔ اُن کے اضطراب کو سمجھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہو ئی۔ ان سے کوئی مکالمہ نہ ہو سکا۔ ہر نئی نسل کو پچھلی نسل سے ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ اس کو سمجھا نہیں گیا۔ بد قسمتی سے ہماری نسل بھی اس دستورِ زمانہ کو بدل نہیں سکی۔
میں نے حسبِ توفیق ایک کوشش کی۔ اہل دانش نے پذیرائی بخشی اور نئی نسل کے ساتھ مکالے کی ایک بھرپور نشست کا انعقاد ہو سکا۔ نوجوانوں کی اس تحریک کے روحِ رواں عمار سے کہا گیا کہ وہ اپنا مقدمہ پیش کریں۔ انہوں نے نوجوانوں کی بے چینی کے اسباب بیان کیے۔ علی عثمان قاسمی بھی تھے جنہوں نے نئی کے مسائل کا عالمگیر نظریاتی پس منظر سامنے رکھا۔
یہ اصلاً سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت کے ظلم اور استبداد کے خلاف ایک عام آدمی کے دکھوں کا وہ مقدمہ ہے جسے انیسویں صدی میں مارکس اور اینجلز نے زبان دی۔ یہ نوجوان جب کہتے ہیں کہ 'سرخ سرخ لہرائے گا‘ تو دراصل خود کو اسی تاریخی عمل سے جوڑ دیتے ہیں۔ عمار نے اسے نئی نسل کے مسائل کے پسِ منظر میں نمایاں کیا۔ اس میں تعلیم اور تعلیمی اداروں کی زبوں حالی کا بطورِ خاص ذکر ہوا۔ بین السطور یہ بات سامنے آئی کہ آزاد منڈی کی جس معیشت کا بہت چرچا ہے اور ہر حکومت جس فارمولے میں شفا تلاش کرتی ہے، وہ ایک سعیٔ لا حاصل ہے۔ معالج ہی دراصل بیماری دینے والا ہے۔ وہ جسے آبِ شفا قرار دے کر لوگوں کی رگوں میں اتارتا ہے، دراصل قطرۂ زہر ہے۔
بات سے بات نکلتی گئی تو بحث نے ایک اور طرف کا رخ کیا۔ یہ نکتہ ابتدا ہی میں اٹھ گیا تھا کہ نوجوانوں کا یہ اضطراب دراصل سیاسی جماعتوں کی ناکامی ہے۔ سیاسی عمل، عوامی مسائل سے بے نیاز آگے بڑھ رہا ہے اور اس کا محور اشرافیہ کے اندر شراکتِ اقتدار کے نئے فارمولے کی تلاش ہے۔ اس سے عام آدمی، بالخصوص نئی نسل مایوس ہوئی ہے۔ یہ سول سوسائٹی ہے جو اس وقت اس کے جذبات کی ترجمانی کر رہی ہے۔ سرفروشی کی تمنا رکھنے والے یہ نوجوان، اسی سول سوسائٹی کے نمائندہ ہیں۔
سول سوسائٹی لیکن سرمایہ دارانہ نظام ہی کا تحفہ ہے۔ کیا ہیگل کی فلاسفی کے مطابق، یہ تھیسز سے جنم لینے والا اینٹی تھیسز ہے یا خود سرمایہ دارانہ نظام کی کوئی چال؟ پھر یہ کہ نوجوانوں کی یہ تحریک فکری طور پر لبرل ہے۔ ماضی میں لبرل ازم، سرخ و سبز کی نظریاتی کشمکش سے الگ ایک اندازِ نظر سمجھا جاتا تھا۔ اب ان کے مابین تطبیق کیسے ہو گی؟ یہ لبرل ازم کا سماجی حوالہ ہے۔ اس اصطلاح کا ظہور سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت کے تناظر میں ہوا لیکن یہاں اس کو بطور ایک سماجی فلسفہ دیکھا جا رہا تھا۔
یہ بات بھی اس مکالمے میں سامنے آئی کہ یہ تحریک نوجوانوں کے اضطراب کا واحد مظہر نہیں ہے۔ ملک کے طول و عرض میں، کہیں کم، کہیں زیادہ، بے چینی کی بہت سی لہریں اٹھ رہی ہیں۔ ہماری ریاست، سیاسی جماعتیں، میڈیا، اہلِ دانش، کو ئی بھی اسے مخاطب نہیں بنا رہا۔ اصلاً یہ سیاسی جماعتیں ہیں جن کے منشور میں ان مسائل کا تذکرہ ہونا چاہیے۔ پارلیمنٹ میں ان کی صدائے بازگشت سنی جانی چاہیے۔ جب ایسا نہیں ہو گا تو سیاسی جماعتوں اور عوام کا باہمی تعلق کمزور ہو گا اور یہ جمہوریت اور سیاسی نظم کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔
سماج، ریاست پر مقدم ہے۔ میرا خیال یہی ہے۔ ایک زندہ سماج وہی ہے جو متنوع فکری لہروں کو اپنے اندر سمو لینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس کی اجتماعی دانش اتنی مستحکم ہو کہ وہ تنوع کو ہم رنگی میں بدل سکتی ہو۔ اس لیے اگر اس کے اندر کوئی ایسی فکری لہر پیدا ہوتی ہے جو بظاہر اس کی نظری ساخت سے ہم آہنگ نہیں ہے تو وہ اس کو الگ کر کے پھینک نہیں دیتی بلکہ اس کے ساتھ فطری اصولوں پر معاملہ کرتا ہے۔
فطری اصول یہ ہے کہ اس لہر کو ابھرنے دیا جائے۔ اگر وہ اپنے اندر زندگی کا مادہ رکھتی ہے اور وقت کے تھپیڑوں کو سہہ لیتی ہے تو اسے ایک اثاثہ سمجھ کر قبول کر لیا جائے۔ اگر اس کے اندر بقا کی صلاحیت نہیں ہے، تو بھی وہ آپ کا مسئلہ نہیں۔ کچھ وقت کے بعد خود ہی دم توڑ دے گی۔ گھبرانا یا کسی ردِ عمل کا شکار ہو جانا، ایک سماج کی کمزوری کی علامت ہے۔ یہ اظہار ہے کہ اسے اپنی نظری قوت پر اعتماد نہیں۔
یہ صلاحیت صرف ایک جمہوری معاشرے ہی میں ہو سکتی ہے۔ جمہوریت میں مکالمہ ہوتا ہے۔ مکالمہ اسی وقت ہوتا ہے جب اختلافِ رائے ہو۔ فکری وحدت میں مکالمے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر ہوتی بھی ہے تو محض حکمتِ عملی کی سطح پر۔ اب کمیونسٹ پارٹی میں کیا مکالمہ ہو سکتا ہے؟ ایک سماج کا نظام ایک فکری جماعت کے نظم سے مختلف ہوتا ہے۔ جو نظری اختلاف، ایک فکری جماعت کے لیے بربادی کا پیغام ہے، وہ ایک سماج کی طاقت کا اظہار ہے۔
پاکستان میں چونکہ جمہوریت آگے نہیں بڑھ سکی، اس لیے یہاں جمہوری کلچر بھی پیدا نہیں ہو سکا۔ جس ملک میں ہر گروہ مقدس گائے ہو، وہ جانوروں کا ایک باڑا تو بن سکتا ہے، بوقلموں اور رنگارنگ پھولوں کا چمن نہیں۔ چمن کا حسن پھولوں کی تہذیب کا تقاضا کرتا ہے۔ کانٹ چھانٹ نہ ہو تو چمن اور جنگل کا فرق باقی نہیں رہتا، جمہوریت یہی خدمت سر انجام دیتی ہے۔ یہ محض ووٹ دینا نہیں۔ ووٹ کا عمل اگر نتیجہ خیز نہیں ہوتا تو اس کا مطلب ہے کہ سماج کو مزید تہذیب کی ضرورت ہے۔
میرے نزدیک اشتراکیت کے احیا کا اب کوئی امکان نہیں؛ تاہم میں اس فکر سے وابستہ لوگوں کی ہمت کی داد دیتا ہوں کہ وہ ناکام تاریخی تجربے کے بعد بھی، اشتراکیت ہی کو ایک متبادل فکری تصور کے طور پر پورے اعتماد کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔ اسلام پسند (Islamists) مجھے اس بحث میں کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ فکری سطح پر ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں۔ جو کچھ پیش کیا جا رہے، علم کی دنیا میں لوگ اس سے صرف حظ اٹھا سکتے ہیں۔ جیسے عالمگیر مذہبی ریاست یا کاغذ کی جگہ سونے کی کرنسی جیسی تجاویز۔ کچھ اسلام پسند طیب اردوان یا مہاتیر محمد کو اپنا آئیڈیل بنا کر پیش کرتے ہیں۔ گڈ گورننس کے سوا ترکی، ملائیشیا اور پاکستان کے نظاموں میں کوئی فرق نہیں۔ اسی طرح ترکی اور یورپین ریاستوں کا سیاسی نظم میں کوئی نظری فرق موجود نہیں۔
اگر مسلم معاشروں میں مکالمے کا کلچر آگے بڑھے تو اسلام پسندوں کو اس مکالمے کا حصہ بننا چاہیے۔ پاکستان میں اس وقت سماجی تقسیم کا عمل جس طرح گہرا ہو رہا ہے، اس میں مکالمہ ناگزیر ہے۔ اس وقت ہر گروہ اپنی شناخت کو برقرار رکھنے کی طفلانہ کوششوں میں مصروف ہے۔ کوئی یومِ حیا منا رہا اور کوئی ویلنٹائن ڈے۔ جس قوم کا فکری سرمایہ یہی کچھ ہو، اس کی تہی دامنی پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
اس وقت ہمیں قومی سطح پر مکالمے کی ضرورت ہے۔ اسی سے مسائل کا حل نکلے گا۔ مسائل سب کو معلوم ہیں۔ جس کے پاس جو حل ہے، وہ لے آئے اور میز پر رکھ دے۔ ایک مستحکم معاشرہ وہی ہے جو مختلف نظریاتی اور فکری لہروں کو اپنے اندر سمونے پر قادر ہو۔ مکالمہ اب ناگزیر ہے؛ طبقات کے مابین بھی اور نسلوں کے درمیان بھی۔ میں نے اہلِ دانش کو متوجہ کیا ہے کہ وہ اس جانب قوم کی راہنمائی کریں‘ لیکن 'یوں نہ تھا، میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے‘؛ تاہم 'دل ناامید نہیں ناکام ہی تو ہے‘ آج نہیں تو کل، شاید یہ ان کی ترجیحات میں شامل ہو جائے۔