مطالعۂ انسان لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مطالعۂ انسان لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ایلون مسک: دنیا کے امیر ترین شخص کی کامیابی کے ’چھ‘ راز کون سے ہیں؟

ایلون مسک کی کامیابی کے چھ اہم راز کون سے ہیں ؟
بی بی سی کا نمائندہ جسٹن روالٹ نے 11جون 2021 کو ایک رپوٹ شائع کی ہے، اس میں انہوں نے انکشاف کیاہے کہ ایلون مسک کی کامیابی کے چھ اہم راز ہیں، جو ایمازون کے بانی جیف بیزوس کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کے سب سے امیر شخص بن گئے ہیں۔

الیکٹرک کار کمپنی کے حصص کی قیمت میں اضافے کے بعد ’ٹیسلا‘ اور ’سپیس ایکس‘ کے مالک کی دولت کی مجموعی مالیت 185ارب ڈالر کو عبور کر چکی ہے۔

تو ایلون مسک کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ آئیے اس رپوٹ میں جائزہ لیتے ہیں ۔ 

1. صرف اور صرف پیسے کمانے کے بارے میں مت سوچیں

یہ رول کاروبار کے بارے میں ایلون مسک کے رویے کے مرکزی خیال کا عکاس ہے۔
جب میں نے 2014 میں ان سے انٹرویو لیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں جانتے کہ وہ کتنے امیر ہیں۔

انھوں نے کہا ’ایسا نہیں ہے کہ کہیں نقدی کا ڈھیر پڑا ہو۔ یہ صرف اتنی سی بات ہے کہ میرے پاس ٹیسلا، سپیس ایکس اور سولر سٹی میں ووٹوں کی ایک خاص تعداد ہے اور مارکیٹ میں ان ووٹوں کی اہمیت ہے۔‘

ایلون مسک دولت کمانے کے شوقین افراد کے خلاف نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں دولت کے پیچھے ضرور دوڑیے ’بشرطیہ کہ یہ اخلاقی اور اچھے انداز میں ہو‘ لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ چیز (دولت) ان کی آگے بڑھنے میں حوصلہ افزائی نہیں کرتی۔
یقینی طور پر ان کا یہ طرزِ عمل کام کر رہا ہے۔

ان کی الیکٹرک کاروں کی کمپنی، ٹیسلا نے خاص طور پر عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ گذشتہ سال کے دوران اس کمپنی کے حصص میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی قیمت 700 ارب ڈالر سے زیادہ تک پہنچ چکی ہے۔

اور آپ صرف ایک کمپنی ٹیسلا کی مالیت کے ذریعے فورڈ، جنرل موٹرز، بی ایم ڈبلیو، ووکس ویگن اور فیاٹ کرسلر جیسی کمپنیاں خرید سکتے ہیں، اور اس کے باوجود آپ کے پاس فراری خریدنے کے لیے رقم بچ جائے گی۔

ہم سوتے کيوں ہيں؟

 سائنسدان اب بھی واضح طور پر یہ بات نہیں جانتے مگر یہ واضح ہے کہ نیند دماغ کو یادداشت مضبوط بنانے میں مدد دیتی ہے اور مزاج، توجہ اور اندرونی نظام کی بہتری کے لیے ضروری ہے۔

اس کے علاوہ نیند دماغ کو اپنے آپ کو صاف کرنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔

اچھی نیند کے لیے مشورے

خود کو دن میں مصروف اور متحرک رکھ کر تھکائیں مگر جیسے جیسے سونے کا وقت قریب آنے لگے تو سرگرمیاں سست کر دیں

دن کے وقت سونے سے گریز کریں

رات کے وقت کا اچھا معمول بنائیں اور یہ یقینی بنائیں کہ آپ کا بیڈ روم آرامدہ اور نیند کے لیے سازگار ہے۔ موٹے پردے یا سیاہ بلائنڈز، کمرے کا آرامدہ ٹمپریچر اور بستر ضروری ہیں جبکہ بستر میں سمارٹ فون وغیرہ کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔

نیند کے وقت سے پہلے کیفین یا الکوحل کا استعمال بند کر دیں

اگر آپ نہ سو پائیں تو زبردستی نہ کریں اور نہ ہی پریشان ہوں۔ بلکہ اٹھ جائیں اور کتاب پڑھنے جیسا کوئی سکون آور کام کریں اور جب نیند کا غلبہ محسوس ہو تو واپس بستر پر لوٹ جائیں

آگر آپ رات کی شفٹوں میں کام کرتے ہیں تو نائٹ شفٹ شروع ہونے سے پہلے ایک مختصر نیند لے لیں۔ اگر آپ رات کی شفٹوں سے ہٹ رہے ہیں تو دن میں تھوڑا سا آرام کر لیں تاکہ دن گزر جائے اور پھر اس شام جلدی سونے چلے جائیں۔

خوراک اور صحت

پکوانوں کی تاریخ 

پکوانوں کی تاریخ کے بارے میں تحقیق کرنے والے مختلف ممالک کے سائنسدان، ذائقوں کے ماہرین اور پکوانوں کے قدیم ترین نسخے پڑھنے کے ماہرین مل کر دنیا کے قدیم ترین پکوانوں کو دوبارہ تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

خوراک اور صحت
لیکن یہ آسان کام نہیں ہے۔ کیونکہ سائنسدانوں کے ہاتھ لگنے والے ہزاروں برس پرانے نسخے بہت مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر ’دنبے کا سٹو‘ پکانے کے لیے لکھا طریقہ محض اس میں استعمال ہونے والی اشیا کی فہرست جیسا معلوم ہوتا ہے۔ ’گوشت استعمال ہوتا ہے۔ پانی تیار کیجیے۔ باریک دانوں والا نمک ڈالیے۔ سوکھا جُو ڈالیے۔ پیاز اور تھوڑا دودھ۔، پیاز اور لہسن کچل کر ڈالیں۔‘

تاہم اس طریقہ کار کو لکھنے والے سے یہ کیسے پوچھا جائے کہ کون سی چیز کب ڈالنی ہے؟ اسے لکھنے والا تو چار ہزار برس قبل انتقال کر چکا ہے۔چند بین الاقوامی محققین، پکوانوں کی تاریخ کے ماہرین اور کھانا پکانے کے نسخے پڑھنے کے ماہرین مل کر دنیا کے چار قدیم ترین پکوانوں کو دوبارہ اسی طرح تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے گوژکو بارژامووچ کہتے ہیں ’یہ اسی طرح ہے جیسے کسی پرانے گانے کو دوبارہ بنانا۔ کوئی ایک نوٹ پوری دھن بدل سکتا ہے۔‘

یہ ترکیبیں تختیوں پر لکھی ہیں جو ییل یونیورسٹی کے محکمہ آثار قدیمہ میں بابل کی تہذیب کی کلیکشن سے حاصل کی گئی ہیں، تاکہ ذائقے کے ذریعے اس تہذیب کو بہتر سمجھا جا سکے۔

ورلڈ فورڈ ڈے : بھوک کے اصل محرکات کیا ہیں؟

16 اکتوبر کو ہر سال خوارک کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ اس دن سے پہلے بی بی سی نے دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے چار لوگوں سے بات کی جنھوں نے شدید بھوک کا تجربہ کیا، اور ان سے پوچھا کہ وہ کیسے زندہ بچ گئے۔

ورلڈ فورڈ ڈے : بھوک کے اصل محرکات کیا ہیں؟

بی بی سی کے رپورٹرسوامی ناتهن ناتاراجن کے مطابق دنیا کے قحط زدہ خطے جہاں عوام چوہے کا گوشت، ہڈیاں، مٹی اور کھالیں کھا کر پیٹ بھرنے پر مجبور ہیں۔

قحط، غربت، جنگ، بیماری۔۔۔ ایسے بہت سے عوامل ہیں جو ہمارے کھانے پینے کے عمل کو یکسر تبدیل کر سکتے ہیں۔

غیر معمولی حالات میں مایوسی کا شکار لوگ زندہ رہنے کے لیے کیچڑ، کیکٹس کے پھل، پھول، چوہے، ضائع شدہ ہڈیاں یا جانوروں کی کھال کا سہارا لیتے ہیں۔

شدید بھوک، غذا اور غذائیت کی کمی دنیا کے کئی حصوں میں روزمرہ کا چیلنج ہے اور اس کا پیمانہ واقعی بہت بڑا ہے: اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ ’ہر رات تقریباً 82 کروڑ افراد بھوکے سوتے ہیں‘ اور ’34 کروڑ شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہے ہیں۔‘

ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ دنیا میں اس وقت پہلے سے کہیں زیادہ بھوک ہے۔

یہ اس ’بڑے پیمانے پر بھوک کے بحران کا ذمہ دار چار عوامل کو ٹھراتا ہے: تنازع، المناک ماحولیاتی تبدیلیاں، کووڈ 19 وبائی امراض کے معاشی نتائج اور بڑھتے ہوئے اخراجات۔

سنہ 2022 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈبلیو ایف پی کے ماہانہ آپریٹنگ اخراجات سنہ 2019 کی اوسط سے 73.6 ملین امریکی ڈالر زیادہ ہیں جو کہ ایک حیران کن 44 فیصد اضافہ بنتا ہے۔

آپریٹنگ اخراجات پر اب جو اضافی خرچ کیا جاتا ہے اس سے پہلے ایک ماہ کے لیے چالیس لاکھ لوگوں کو کھانا کھلایا جاتا تھا۔

رپورٹ کے مطابق صرف پیسہ ہی بحران کو ختم نہیں کرے گا: جب تک تنازعات کو ختم کرنے کے لیے سیاسی عزم اور گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کا عزم نہ ہو تو ’بھوک کے اصل محرکات بلا روک ٹوک جاری رہیں گے۔‘

نظر بد‘ کی پُراسرار طاقت پر لوگوں کو اندھا یقین کیوں ہے؟

کوین ہرجیتائی
بی بی سی فیچرز

قدیم مصر میں تحفظ، شاہی طاقت اور اچھی صحت کی علامت عین حورس (آئی آف حورس) سے لے کر امریکی ماڈل جیجی حدید تک ہزاروں برسوں سے آنکھ نے انسانی تخیل پر اپنی گرفت برقرار رکھی ہوئی ہے۔


جب دنیا کی پُراسرار شیطانی قوتوں سے بچنے کی بات آتی ہے تو شاید 'نظرِ بد' سے زیادہ جانی پہچانی اور تسلیم کی جانی والی چیز اور کوئی نہیں۔

اسے ظاہر کرنے والی اور اس سے بچنے کے لیے مؤثر سمجھے جانے والے ٹوٹکوں کا ہر جگہ استعمال کیا جاتا ہے۔ نیلے رنگ کی آنکھ کی تصویر نہ صرف استنبول کے بازاروں میں، بلکہ ہوائی جہازوں کے اطراف سے لے کر مزاحیہ کتابوں کے صفحات تک میں ہر جگہ دکھائی دیتی ہے۔

گذشتہ دہائی میں ایسی تصویریں اکثر فیشن کی دنیا میں نمودار ہوتی رہی ہیں۔ امریکی ماڈل کِم کارڈیشین نے متعدد مواقع پر کھیلوں کے کڑے اور ہیڈ پیس کے ساتھ تصاویر بنوائی ہیں جس میں یہ علامت (شیطانی آنکھ) موجود ہے۔ جبکہ جیجی حدید نے آئی لو نامی جوتوں کا برانڈ متعارف کروا کر سنہ 2017 میں اس رجحان کو مزید فروغ دیا۔

بچے کو سمارٹ فون کس عمر میں دینا چاہیے؟

کیلی اوکس
بی بی سی، فیوچر

یہ مخمصہ جدید دور کا ہے۔ کیا اپنے بچوں کو سمارٹ فون دینا چاہیے یا جب تک ممکن ہو انھیں اس سے دور رکھا جائے؟

اگر آپ ماں باپ ہیں اور یہ سوچ رہے ہیں کہ بچے کو سمارٹ فون دینا ایسا ہے جیسے اسے ایک ایسی پوٹلی تھما دی جائے جس کے ذریعے دنیا بھر کی تمام برائیاں کُھل کر آپ کے بچے کے سامنے آ جائیں گی اور آپ کے بچے کی پوری زندگی متاثر ہو جائے گی، تو آپ کو معاف کیا جا سکتا ہے۔

بچوں پر سمارٹ فونز اور سوشل میڈیا کے ممکنہ بُرے اثرات کے حوالے سے آئے روز شائع ہونے والی حیران کن شہ سرخیاں کسی بھی ماں باپ کو قائل کرنے کے لیے کافی ہیں کہ بچوں کو سمارٹ فون بالکل نہیں دینا چاہیے۔

بظاہر بہت سی مشہور شخصیات بھی جدید دور کے اس مسئلے سے دوچار ہیں کہ بچوں کو سمارٹ فون دیا جائے یا نہیں۔ مثلاً معروف گلوکارہ میڈونا کا کہنا تھا کہ انھیں پچھتاوا ہے کہ انھوں نے اپنے بچوں کو 13 برس کی عمر میں فون استعمال کرنے کی اجازت کیوں دی۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر انھیں معلوم ہوتا تو وہ ایسا نہ کرتیں۔

دوسری جانب، شاید یہ بھی سچ ہے کہ خود آپ کے پاس سمارٹ فون موجود ہے اور آپ اسے اپنی زندگی کا ایک ضروری حصہ سمجھتے ہیں۔ ای میلز اور آن لائن شاپنگ سے لے کر ویڈیو کال اور اپنے بچوں کی تصویروں تک، آپ ہر چیز اپنے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ اور اگر آپ کے بچوں کے ہم جماعت اور دوست، تمام سمارٹ فونز خرید رہے ہیں تو اگر آپ کے بچوں کے پاس فون نہ ہوا تو وہ اس کسی چیز سے محروم ہونے جیسا محسوس کریں گے۔

’میں 17 سال تک خاموش کیوں رہا‘

جب امریکی شہری جان فرانسس ایک نوجوان ہپی ہوا کرتے تھے تو اس وقت انھوں نے اپنی زندگی بدلنے والا ایک فیصلہ کیا: یہ فیصلہ تھا بولنا ترک کرنے کا۔ وہ 17 سال تک خاموش رہے اور بالآخر انھیں ایک دن احساس ہوا کہ انھیں کچھ کہنے کی ضرورت ہے۔
جان فرا نسس ۔۔۔۔ تب اور اب!
یہ سب ایک حادثے سے شروع ہوا۔ سنہ 1971 میں دو آئل ٹینکر ایک دوسرے سے ٹکرا گئے اور پانچ لاکھ گیلن سے زیادہ خام تیل کے بہنے سے سان فرانسسکو خلیج آلودہ ہو گئی۔

’میں نے اس کے بارے میں سنا اور اسے دیکھنا چاہتا تھا، لہٰذا میں اپنے چھوٹے سے قصبے انورنیس سے سان فرانسسکو چلا گیا۔ میں نے ساحل سمندر پر لوگوں کو چھوٹے گروپوں میں صفائی کرتے دیکھا۔ وہ پانی میں اترتے تھے اور تیل میں لپٹے ہوئے سمندری پرندوں، پیلیکن (ماہی خور)، بگلے اور کارمورینٹس کے ساتھ باہر آتے تھے۔‘

پرندوں اور لوگوں کو ان کی جان بچاتے دیکھ کر انھوں نے فیصلہ کیا کہ انھیں بھی کچھ کرنا چاہیے۔میں نے سوچا کہ میں اب کار نہیں چلاؤں گا۔ میں یقینی طور پر تھوڑا بہت ہپی تھا، اور میں نے فیصلہ کیا کہ میں یہی کروں گا۔‘

یاد رہے کہ یہ 1970 کی دہائی کا کیلیفورنیا تھا۔ ہر کوئی ہر جگہ گاڑی چلاتا تھا، اس لیے موٹر والی گاڑیوں کو یکسر ترک کرنا ایک جرات مندانہ اقدام تھا۔

سافٹ سکلز کيا ہے؟

اپنا کام مؤثر انداز میں کرنے کے لیے آپ کو ’ہارڈ سکِلز‘ کی ضرورت ہوتی ہے یعنی وہ خصوصی مہارت اور علم جس کے ذریعے آپ اپنی ذمہ داری نبھا سکیں۔
سافٹ سکلز کيا ہے؟


مگر دنیا بھر میں اب کام کاج کے طریقے بدل رہے ہیں اور ممکنہ طور پر ’سافٹ سکِلز‘ بھی اتنے ہی اہم ہو سکتے ہیں جتنے کہ ہارڈ سکِلز۔


یہ ہنر اکثر اوقات اتنے نمایاں نہیں ہوتے: مثال کے طور پر وہ ذاتی خصوصیات اور رویہ جو کسی شخص کو ایک اچھا لیڈر یا ٹیم کا رکن بناتے ہیں۔


خاص طور پر ایسے وقت میں جب گھروں سے کام کرنا معمول بنتا جا رہا ہے، جہاں کئی لوگوں کا مل کر ایک کام کرنا اور نت نئے طریقوں سے یہ کام انجام دینا بالکل مختلف روپ اختیار کر چکا ہے، وہاں کمپنیاں زیادہ متنوّع اور کامیاب ٹیمیں بنانے کے لیے اس طرح کی خصوصیات کی اہمیت کو سمجھنے لگی ہیں۔


ماہرین کے مطابق نتیجتاً اب کمپنیاں ملازمت کے امیدواروں کے سافٹ سکِلز کو بھی اتنے ہی غور سے پرکھتی ہیں جتنا کہ ان کی واضح تکنیکی صلاحیتوں اور تجربے کو۔

رشتے اور محبت: مخالف مزاج کے افراد میں محبت اور جسمانی کشش قدرے کم کیوں ہوتی ہے؟

جیسیکا کلین

بی بی سی اردو تاریخ اشاعت : 12 مارچ 2022 ء

ایک عرصے سے لوگ یہ کہتے آئے ہیں کہ 'مخالف مزاج کے افراد ایک دوسرے کی جانب کشش رکھتے ہیں۔' جیسا کہ کم گو شخص، کھل کے اظہار کرنے والے شخص کی جانب کھچ سکتا ہے، یا ایک لائق طالب علم کو آوارہ لڑکا بھی پسند آ سکتا ہے۔ دنیا بھر کے معاشروں میں اس مقبول خیال کو برسوں سے مانا جاتا ہے۔


اگرچہ بہت سے افراد کا یہی ماننا ہے کہ مخالف مزاج رکھنے والے ایک دوسرے کو پسند کرتے یا ان کی جانب راغب ہوتے ہیں اور بعض افراد تو اپنی زندگیوں سے اس کی مثال بھی نکال لائے گے مگر سائنسدان نے برسوں کی تحقیق کے دوران اس خیال کو رد کیا ہے۔


برے تعلقات اور رشتوں کے معاملات کو حل کرنے کے ماہر کیلیفورنیا میں مقیم ماہر نفسیات رامانی درواسولا کہتے ہیں کہ 'تحقیق اس بارے میں بہت واضح ہے کہ یہ بات درست نہیں ہے۔'


ان کا کہنا ہے کہ 'ایسے افراد جن کی ایک جیسی دلچسپیاں ہوں، ایک جیسا مزاج ہو ان کے درمیان تعلق قائم ہونے یا ڈیٹ کرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔'


درحقیقت مختلف مقالوں میں بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ دوستوں اور محبت کے ساتھیوں کے ایک جیسے خیالات، اقدار اور مشاغل ہوتے ہیں۔


لوگ ایک جیسی جسمانی خصوصیات رکھنے والوں کی جانب کشش محسوس کرتے یا بھروسہ کرتے ہیں اور بعض اوقات تحقیق سے بھی پتا لگتا ہے کہ ایک جیسی شخصیت کے حامل افراد میں بھی تعلق قائم ہوتا ہے۔

کم عمر میں تعلیم شروع کرنا بہتر ہے یا نسبتاً زیادہ عمر میں؟

ملیسا ہوجنبوم

بی بی سی اردو  7 مارچ 2022ء

میں سات سال کی تھی جب میں نے پڑھنا سیکھنا شروع کیا جیسا کہ میرے سکول میں معمول تھا۔ میری بیٹی ایک معیاری انگریزی سکول میں پڑھتی ہے جہاں تعلیم چار سال کی عمر سے شروع ہوتی ہے۔

اس عمر میں اپنی بچی کو حروف کو یاد کرتے ہوئے اور الفاظ کو سنتے ہوئے دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہماری تعلیم کا تجربہ کتنا مختلف تھا۔

ہم اس عمر میں درختوں پر چڑھنا اور چھلانگ لگانا سیکھ رہے تھے۔ میں سوچتی ہوں کہ کیا اسے ایک ایسا آغاز مل رہا ہے جو اسے زندگی بھر کام آنے والے فوائد فراہم کرے گا؟ یا کیا اس پر ممکنہ طور پر مناسب مقدار سے زیادہ تناؤ اور دباؤ ہے، اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب اسے اپنی آزادی اور بے فکری کا مزا لینا چاہیے؟

یا پھر کیا میں یوں ہی بہت زیادہ پریشان ہو رہا ہوں، اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم کس عمر میں پڑھنا لکھنا شروع کرتے ہیں؟ٹر، بی بی سی ریل

اس میں کوئی شک نہیں کہ زبان اپنی تمام تر شکلوں میں، خواہ وہ لکھنا، بولنا، بلند آواز سے پڑھنا یا گانا ہو ہماری ابتدائی نشوونما میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔

بچے اس زبان میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں جو رحم مادر میں سنتے ہیں۔ والدین کی اس بات کے لیے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ان کے پیدا ہونے سے پہلے ہی بلند آواز سے پڑھ کر سنائیں۔

شواہد سے پتا چلتا ہے کہ بچوں سے کتنا کم یا کتنا زیادہ بات کی جاتی ہے اس بات کا اس کی مستقبل کی تعلیمی کامیابیوں پر دیرپا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

کتابیں اس بھرپور لسانی تجربات کا خاص طور پر اہم پہلو ہیں، کیونکہ تحریری زبان میں اکثر روزمرہ کی بولی جانے والی زبان سے زیادہ وسیع اور زیادہ باریک اور مفصل الفاظ شامل ہوتے ہیں۔

وقت کی غربت‘ کا مشکل چکر

وقت کی غربت‘ کا مشکل چکر جس کا شکار اکثر والدین ہیں

وقت کی غربت‘ کا مشکل چکر 
5 فروری 2022  (bbc urdu)


اپنے لیے وقت، اپنے بچوں کے ساتھ گزارنے کے لیے وقت یا اپنے گھر کے کاموں کے لیے وقت۔۔۔ آپ کسی بھی بچوں والے شخص سے بات کریں گے تو ایک مسئلے کی کوئی نہ کوئی شکل سامنے آئے گی، کہ وقت ناکافی ہے۔


‘وقت کی غربت‘ کے نام سے جانی جانے والی صورتحال کی تعریف بہت سادہ ہے جس میں لوگوں کو متواتر یہی لگے کہ کرنے کو بہت کچھ ہے اور اس کے لیے وقت ناکافی ہے اور وقت کی غربت بڑھ رہی ہے۔

تحقیق کے مطابق زیادہ تر لوگ متواتر وقت کے تناظر میں غریب ہوتے ہیں اور یہی وقت کی غربت کافی شدید ہو سکتی ہے اور اس کے دیر پا اثرات میں قدرے ابتر جسمانی صحت اور قدرے کم پیداواری صلاحیت شامل ہیں۔

مگر یہ مسئلہ والدین میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ برطانیہ میں سنہ 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق جن لوگوں کے بچوں کی عمر 14 سال سے کم ہے، ان کے پاس اوسطً ہر ہفتے 14 گھنٹے فارغ ٹائم کم ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق کسی اور کی بنیادی دیکھ بھال کرنے والوں، خاص کر کم آمدنی والی ماؤں، ان لوگوں میں وقت کا دباؤ زیادہ ہوتا ہے۔

مگر اس کی اہمیت یہ ہے کہ جو لوگ وقت کی غربت میں مبتلا ہوتے ہیں وہ عموماً سماجی اور معاشی غربت کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا نے معاملات زیادہ بگاڑ دیے ہیں تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ اس امتزاج کو کم کرنے کے طریقے ہیں۔

وقت کی غربت کے اہم ترین اثرات


ہم ایک ایسے دور میں رہتے ہیں جہاں پیداواری صلاحیت کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ‘آل ویز آن‘ کی اصطلاح ایک ایسے کلچر کی عکاسی کرتی ہے جہاں کام اکثر ہماری ذاتی زندگی میں مداخلت کر رہا ہوتا ہے۔ بچے پالنا زیادہ مشکل ہوتا جا رہا ہے اور ہمارے دوست، شوق اور دلچسپیاں 24 گھنٹے ساتوں دن ہمارے فون پر صرف ایک کلک یا سوائپ دور ہیں۔

گفتگو کے پانچ گُر جو آپ کی سماجی زندگی سنوار سکتے ہیں


ڈیوڈ رابسن
بی بی سی ورک لائف
گفتگو کے پانچ گر


مصنفہ اور ناول نگار ریبیکا ویسٹ اپنی کہانیوں کے ایک مجموعے ’دی حارش وائس‘ میں لکھتی ہیں کہ دو طرفہ گفتگو جیسی کوئی چیز موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک دھوکہ ہے اور اصل میں یہ خود کلامی کا عمل ہے جو کہ دونوں طرف سے چل رہا ہوتا ہے۔

ان کے مطابق ہمارے الفاظ دوسرے شخص کے لفظوں کے اوپر سے گزر رہے ہوتے ہیں اور کوئی معنی خیز گفتگو نہیں ہو رہی ہوتی۔
ہر شخص کو زندگی میں کبھی نہ کبھی ایسا ضرور محسوس ہوا ہوگا۔ چاہے پھر وہ آپ کی کافی بنانے والی بیریسٹا ہو یا پھر آپ کسی قریبی دوست سے مل رہے ہوں۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم ایک تعلق بنا سکیں لیکن پھر ہم گفتگو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے خیالات آپس میں نہیں ملتے۔

کووڈ کی وجہ سے بھی ان احساسات میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک لمبے عرصے تک اکیلے رہنے کے بعد ہماری سماجی رابطوں کی ضرورت میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اور ایسے میں یہ بات اور بھی مایوس کن ہے کہ ہمارے اور دوسروں کے درمیان اب بھی ایک خلا موجود ہے۔ حالانکہ ایک دوسرے سے ملنے پر پابندی بھی ختم ہوچکی ہے۔

دنیا میں کتنا سونا ہے ؟

دنیا میں کتنا سونا ہے ؟
 سونا (Gold) ایک عنصر اور دھات کا نام ہے۔ جو اپنی خصوصیات کی وجہ سے انتہائی مہنگا ہے۔ اس کا ایٹمی نمبر 79 ہے۔ قیمتی دھات ہونے کی وجہ سے یہ صدیوں سے روپے پیسے کے بدل کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔ یہ دولت کی علامت ہے، اس کے سکے بنائے جاتے ہیں، زیورات میں استعمال ہوتا ہے، یہ چٹانوں میں ذروں یا پتھروں جیسی شکل میں ملتا ہے، یہ نرم چمکدار اور پیلے رنگ کی دھات ہے جسے کسی بھی شکل میں ڈھالا جاسکتا ہے۔

زیادہ تر دھاتیں چاندی یا ایلومینیئم کی طرح سفید ہوتی ہیں لیکن صرف سونے اور سیزیئم کا رنگ نمایاں پیلا ہوتا ہے جبکہ تانبا واضح گلابی رنگ کا ہوتا ہے۔

خالص سونا بے حد نرم دھات ہے جس سے بنے زیور بڑی آسانی سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس لیے سونے میں کوئی دوسری دھات ملائی جاتی ہے تاکہ زیورات پائیدار ہوں۔ سونے میں دوسری دھاتیں ملانے سے سونے کا رنگ بھی بدل جاتا ہے اور زیورات کی قیمت بھی کم ہو جاتی ہے۔

کائنات کے سب سے اہم سوالوں میں سے ایک حل کے قریب

پال رنکون ، سائنس ایڈیٹر بی بی سی نیوز

16 اپريل 2020

نو سال کے ڈیٹا کا جائزہ لینے کے بعد سائنسدانوں کو پتا چلا ہے کہ نیوٹرینوز اور اینٹی نیوٹرینوز اپنی خصوصیات تبدیل مختلف طریقے سے کرتے ہیں

ستارے، کہکشائیں، سیارے سبھی کچھ جو آج وجود میں ہے کائنات کی ایک انوکھی خصوصیت کی وجہ ہے۔

اس خصوصیت کی نوعیت آج تک سائنسدانوں کے لیے ایک معمہ ہے جس کے تحت ’میٹر‘ یعنی مادہ ’اینٹی میٹر‘ پر حاوی ہے۔

اب جاپان میں ایک تجربے کے نتائج سے اس معاملے کو سلجھانے میں مدد ملے گی جو کہ سائنس میں دورِ حاضر کے سب سے بڑے سوالات میں سے ایک ہے۔

تندرستی کے پانچ ٹوٹکے جو 400 سال بعد بھی کارآمد ہیں

بی بی سی اردو ، 10 مئی 2021 

رابرٹ برٹن کی کتاب دی اناٹومی آف میلنکولی، جس میں کلینیکل ڈپریشن کی وجوہات اور علاج کے بارے میں بات کی گئی ہے، انھوں نے ڈیموکریٹس جونیئر کے فرضی نام سے لکھی تھی ۔ 

تندرستی کے پانچ ٹوٹکے جو 400 سال بعد بھی کار آمد ہیں 
جب بات تندرستی کے ٹوٹکوں سے متعلق کتابوں کی ہو تو آپ شاید سوچتے ہوں کہ جتنی زیادہ نئی کتاب ہو تو اتنا ہی بہتر ہے۔ لیکن سنہ 1620 میں لکھی جانے والی ایک کتاب 'دی اناٹومی آف میلنکولی' اگر آپ کی نظر سے گزرے تو آپ کی یہ سوچ تبدیل ہو جائے گی۔ اس غیر معمولی کتاب نے انسانی فطرت کو سمجھنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا اور یہ کتاب آج بھی حیرت انگیز طور پر جدید ہے.

دی ’اناٹومی آف میلنکولی‘ یا ’اداسی کا علم‘ کے مصنف روبرٹ برٹن ہیں جنھوں نے یہ کتاب سنہ 1621 میں لکھی تھی۔ انسانی فطرت اور حالات کے بارے میں ان کی سمجھ اتنے برس گزر جانے کے باوجود آج بھی قابلِ عمل اور جدید ہے۔

برٹن ایک برطانوی راہب اور سکالر تھے۔ انھوں نے قدیم یونانی فلسفے اور 17ویں صدی میں علم طب پر ہونے والے کام کو اپنی کتاب میں سمو دیا۔ ان کی کتاب میں دو ہزار سال کے علمی کام سے استفادہ حاصل کیا گیا ہے۔

ذہین ترین لوگوں کی عادات کے بارے میں پروفیسرکریگ رائٹ کے خیالات

ڈاکٹر کریگ رائٹ  نے اپنی زندگی میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ ماضی اور حاضر دور کے ذہین ترین لوگوں کو سمجھنے میں گزارا ہے۔

ذہین ترین لوگوں کے بارے میں 
پروفیسرکریگ رائٹ کے خیالات

اپنی تین کتابوں میں انھوں نے ایسی شخصیات میں 14 مشترکہ عادات کا تعین کیا ہے۔ اس فہرست میں ان افراد کے ٹیلنٹ یا خاص ہنر کو شامل نہیں کیا گیا بلکہ روزمرہ کی عام عادات کو حصہ بنایا گیا ہے۔ جب کہ ذہانت کے جائزہ کيلئے ’آئی کیو کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔‘  کریگ رائٹ کے مطابق ذہین افراد میں مندرجہ ذیل 14 عادات پائی گئی ہیں:

1- کام کے آداب۔

2- لچک، یعنی مشکلات سے گھرنے کے باوجود جلد بحالی۔

3-نیا کام۔

4-بچے جیسا تخیل۔

5- ختم نہ ہونے والا تجسس۔

6-جنون۔

7-اردگرد کے ماحول سے الگ تخلیقی صلاحیت۔

8-بغاوت کا جذبہ۔

9-ایسی سوچ جو حد پار کر دے۔

10-باقی لوگوں سے مختلف عمل یا سوچ۔

11-تیاری۔

12-بار بار ایک چیز کے بارے میں سوچنا۔

13-آرام۔

14-توجہ۔

-------------

 ذہین شخص کون ہے؟ پروفیسر رائٹ کے مطابق ہر کسی کے لیے اس کی تعریف مختلف ہوسکتی ہے۔ لیکن ان کے مطابق اس کا مطلب ہے کہ ’ذہین فرد میں ذہانت کی غیر معمولی قوت ہوتی ہے۔ ان کے کارناموں سے وقت کے ساتھ معاشرے میں اچھی یا بُری تبدیلی واقع ہوتی ہے۔‘ ان کے نزدیک  زیادہ ذہین وہ ہے جس کے کارناموں نے بڑے پیمانے پر لوگوں کو طویل دورانیے تک متاثر کیا ہے۔  

غیر معمولی ذہانت کے مالک افراد کی مشترکہ 14 عادات ۔

 دنیا کے عظیم موسیقاروں میں سے ایک لوڈویگ وین بیتھوون کو ریاضی میں جمع کے سوال حل کرنے میں مشکل پیش آتی تھی اور انھوں نے کبھی ضرب یا تقسیم کرنا نہیں سیکھا تھا۔

ہسپانوی پینٹر پابلو پیکاسو کو حروف کی سمجھ نہیں تھی اور والٹ ڈزنی کلاس روم میں خواب خرگوش میں پائے جاتے تھے۔ برطانوی مصنفہ کو تو سکول ہی جانے نہیں دیا گیا مگر ان کے بھائیوں نے کیمبرج سے تعلیم حاصل کی۔

چارلس ڈارون کی سکول کی کارکردگی اتنی بُری تھی کہ ان کے والد انھیں خاندان کے لیے باعثِ شرمندگی سمجھتے تھے۔

 ایلبرٹ آئن سٹائن کو اپنے دور میں فزکس کے امتحان میں چوتھے نمبر پر آنے کا اعزاز حاصل ہے، ہاں مگر جماعت میں طالب علم صرف پانچ ہی تھے۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج کے تعلیمی معیار پر ان میں سے شاید کوئی بھی پورا نہ اتر پاتا۔ مگر یہ تمام لوگ تاریخ میں ذہین یا جینیئس مانے جاتے ہیں کیونکہ آرٹس اور سائنس کے میدانوں میں ان کی خدمات عظیم ہیں۔

آج کے دور کی بھی کئی معروف شخصیات جیسے بِل گیٹس، باب ڈیلن اور اوپرا ونفری نے ہائی سکول کی تعلیم مکمل نہیں کی مگر اس کے باوجود اپنے اپنے شعبوں میں بے انتہا کامیاب رہے۔

ڈاکٹر کریگ رائٹ کا کہنا ہے کہ ’آئی کیو کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔‘ انھوں نے اپنی زندگی میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ تاریخ اور حاضر دور کے ذہین ترین لوگوں کو سمجھنے میں گزارا ہے۔

اپنی تین کتابوں میں انھوں نے ایسی شخصیات میں 14 مشترکہ عادات کا تعین کیا ہے۔ اس فہرست میں ان افراد کے ٹیلنٹ یا خاص ہنر کو شامل نہیں کیا گیا بلکہ روزمرہ کی عام عادات کو حصہ بنایا گیا ہے۔

پروفیسر رائٹ کے مطابق ذہین شخص کون ہے، ہر کسی کے لیے اس کی تعریف مختلف ہوسکتی ہے۔ لیکن ان کے مطابق اس کا مطلب ہے کہ ’ذہین فرد میں ذہانت کی غیر معمولی قوت ہوتی ہے۔ ان کے کارناموں سے وقت کے ساتھ معاشرے میں اچھی یا بُری تبدیلی واقع ہوتی ہے۔‘

رائٹ سمجھتے ہیں کہ زیادہ ذہین وہ ہے جس کے کارناموں نے بڑے پیمانے پر لوگوں کو طویل دورانیے تک متاثر کیا ہے۔

انھوں نے کئی برسوں تک ییل یونیورسٹی میں ’جینیئس کورس‘ پڑھایا ہے۔ کئی طالب علم ان کے خیالات سے متفق نہیں ہوتے جب وہ بتاتے ہیں کہ امریکی گلوکارہ لیڈی گاگا جینیئس ہیں جبکہ اولمپکس میں سب سے زیادہ سونے کے تمغے جیتنے والے سوئمر مائیکل فیلپس جینیئس نہیں ہیں۔

وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ پہلی کلاس میں کئی طلبہ جینیئس بننے کے لیے ہاتھ کھڑے کرتے ہیں اور آخر میں ان کی تعداد بہت کم وہ جاتی ہے۔

بی بی سی نے ان سے ایک انٹرویو میں مزید جاننے کی کوشش کی ہے۔

سوال: رائل سپینش اکیڈمی کے مطابق جینیئس سے مراد غیر معمولی ذہنی قابلیت یا نئی ایجادات کی صلاحیت رکھنا ہے۔ کیا آپ اس تعریف سے مطمئن ہیں؟

جواب: یہ تعریف محدود ہے۔ میرے خیال میں اس سے مراد ایسے افراد ہیں جو جینیئس بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن ابھی جینیئس ہوتے نہیں۔

یہ تعریف دینے والی ادبی شخصیات چاہتی ہیں کہ آپ اپنا ذہن استعمال کریں اور نئے خیالات کو تشکیل دیں۔ یعنی تخلیق کاروں کے لیے یہ خیالات بدلتے رہتے ہیں۔

ہم اس پر بحث کر سکتے ہیں اور میرے ذہن میں آئن سٹائن آتے ہیں جو فرض کریں کہ کسی جزیرے پر تنہا ہیں۔ وہاں وہ اپنا فارمولا (ای = ایم سی سکوئر) سوچ سکتے ہیں، وہ تھیوری آف جنرل ریلٹیوٹی اور مزید بہت کچھ سوچ سکتے ہیں۔ لیکن اس دوران وہ کسی سے رابطہ نہیں کر پاتے اور ہمیں کبھی کسی آئن سٹائن کی خبر ہی نہیں ہوتی۔

اکیڈمی کی تعریف کے مطابق آئن سٹائن اب بھی جینیئس ہوں گے لیکن میری تعریف کے مطابق ایسا نہیں ہوگا کیونکہ وہ دنیا میں کوئی تبدیلی نہیں لائے ہوں گے۔

سوال: تو آپ کو کیا لگتا ہے کہ جینیئس کون ہوتا ہے؟

جواب: میں اپنی کتاب میں بتا چکا ہوں کہ آئی کیو یعنی ذہانت کے معیار کو ضرورت سے زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔

کسی عام آئی کیو ٹیسٹ میں ایسی صلاحیت جانچی جاتی ہے جو انسان کو وراثت میں ملی ہوتی ہے۔

کئی دہائیوں کے لیے ان عظیم شخصیات کے بارے میں مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ وہ ذہین تھے لیکن آئی کیو ٹیسٹ میں ان کے سکور غیر معمولی طور پر زیادہ نہیں تھے، جیسے 200 میں سے 140 یا 150 کا سکور۔

میں نوبیل انعام جیتنے والوں کی بھی مثال دیتا ہوں کہ ان میں سے کچھ کے آئی کیو سکور 115 یا 120 تھے۔

آئی کیو کے علاوہ ایسے کئی عناصر ہیں جو یہ طے کرتے ہیں کہ طویل دورانیے تک کوئی کیسے اپنی مہارت سے دنیا کو بدل سکتا ہے۔

میں نے قریب 13، 14 اور 16 سال کی عمر کے تین نوجوانوں کے ساتھ پانچ سنہرے دن گزارے ہیں۔ ان تینوں کی تعلیمی کارکردگی اچھی ہے اور وہ ایسے امتحانات کے لیے تیاری کر رہے ہیں جن کی مدد سے وہ بہتر تعلیمی اداروں میں جا سکتے ہیں۔

میں نے انھیں بتایا کہ شاید نوٹس کی اتنی اہمیت نہیں اور انھیں دنیا کا مطالعہ کرنا چاہیے، مختلف سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہیے، غلطیاں کرنی چاہییں اور گِر کر دوبارہ اٹھنا چاہیے۔

لیکن ان کے والدین (میرا بیٹا اور اس کی اہلیہ) نے بتایا کہ میں انھیں غلط پیغام دے رہا ہوں اور مجھے انھیں بہتر کارکردگی پر ابھارنا چاہیے۔

تو اب یہ والدین مجھے غلط صحبت سمجھتے ہیں۔

مگر سچ یہ ہے کہ آج کل نوجوانوں پر بہت دباؤ ہے اور شاید لوگوں کی قابلیت جانچنے کے لیے موجود طریقۂ کار ٹھیک نہیں۔

سوال: اپنے بچوں کو جینیئس بنانے یا خود بننے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

جواب: میرے خیال سے سب سے اہم چیز کوشش ہے۔ لیکن سخت محنت کے لیے کیا درکار ہوتا ہے؟

کیونکہ کوشش خود سے وجود میں نہیں آتی بلکہ یہ اندرونی قوت سے بیرونی طور پر واقع ہوتی ہے۔

جنون پیدا ہونے سے سخت محنت کا حوصلہ ملتا ہے اور اس کی بنیاد محبت ہوسکتی ہے یا ذہن میں کسی چیز کا بار بار خیال آنا۔

میں کہوں گا کہ اپنے جنون کو شہہ دینا اہم ہے۔

ایک اور چیز جو میں نے عظیم ذہنوں میں دیکھی وہ یہ ہے کہ وہ خود میں ایک سکالر یا محقق ہوتے ہیں اور انھیں مختلف شعبوں کا علم ہوتا ہے۔

اپنی کتاب کے ایک باب میں، میں نے لکھا ہے کہ آپ کو لومڑی اور ہیج ہاگ میں فرق دیکھنا چاہیے۔ لومڑی کو مختلف چیزوں کا علم ہوتا ہے جبکہ ہیج ہاگ صرف ایک چیز کے بارے میں جانتا ہے۔

تو آپ کس طرح کے انسان ہیں: جو ہزاروں میل سفر کرے یا ہزاروں میل نیچے گِرے؟

مختلف تجربات ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ الگ الگ چیزوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔ جبکہ دوسری قسم کے لوگ کم تجربات کی وجہ سے محض کچھ ہی چیزوں کے بارے میں سوچ پاتے ہیں۔

بچوں کی پرورش کے دوران یہ اہم ہے کہ آپ انھیں مختلف قسم کے تجربات دیں۔ اگر انھیں سائنس پسند ہے تو آپ انھیں ناول پڑھنے کا کہیں۔ اگر انھیں سیاست میں دلچسپی ہے تو آپ انھیں پینٹنگ کرنا سکھائیں۔

وہ والدین جو اپنے بچوں کو صرف ایک طرح کی سرگرمیوں میں شریک کر رہے، جیسے اولمپکس کا سوئمر بنانے کی کوشش یا فزکس میں نوبیل انعام دلوانے کی کوشش، وہ غلط ہیں۔

ہمیں یہ معلوم نہیں ہوسکے گا کہ ان کا جنون کیا ہے، جب تک یہ مختلف تجربات سے نہیں گزر جاتے۔

جیسے ایک قول ہے کہ اگر آپ اپنے کام سے محبت کرتے ہیں تو آپ کو زندگی میں ایک دن بھی یہ کام محسوس نہیں ہوگا۔

سوال: جدید دور میں ذہین شخصیات کون سی ہیں اور کس مثال پر طالب علم حیران ہوتے ہیں؟

جواب: ایلون مسک ایک جدید دور کے جینیئس ہیں جنھوں نے بظاہر اپنے دیوانے پن میں مختلف شعبوں میں عظیم کارنامے سرانجام دیے ہیں جیسے ٹیسلا اور سپیس ایکس جیسی کمپنیوں کا قیام۔

ان کی مثال ایک سکالر کی سی ہے جو ایک ہی وقت میں مختلف شعبوں میں انقلاب لا رہا ہے۔

لیکن غیر متوقع جینیئس افراد میں کانیے ویسٹ، ڈولی پارٹن اور لیڈی گاگا جیسے نام ہیں۔ ان ناموں پر کچھ لوگ سر ہلا کر نفی میں جواب دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ میں مذاق کر رہا ہوں۔

ڈولی پارٹن ایک دلچسپ مثال ہے کیونکہ وہ بہت ذہین ہیں مگر انھیں سیلی بلانڈ (احمق شخص) سمجھا جاتا ہے۔ یہ ان کی طاقت ہے۔

انھوں نے خود کے لیے ایک عظیم کمپنی بنائی ہے اور وہ تفریح کی صنعت میں کامیاب کاروباری خاتون کے طور پر ہر کسی کے لیے ایک مثال ہیں۔ وہ ایسے گانے گاتی اور لکھتی ہیں جو جدید دور میں کافی پذیرائی حاصل کرتے ہیں۔

تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ڈولی پارٹن کی کافی اہمیت ہے، خاص کر امریکہ میں غریب سفید فام خواتین کے لیے۔ ان کی موسیقی کئی افراد کی زندگیوں کو متاثر کرتی ہے۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ یہ اثر کب تک قائم رہتا ہے۔

لیکن یہاں سوئمر مائیکل فیلپس کی بھی مثال ہے جنھوں نے اولمپکس میں سب سے زیادہ گولڈ میڈل جیتے ہیں۔

فرانس میں کسی نے ماضی کے یونان کی نوعیت کے اولمپکس شروع کیے اور اس میں سوئمنگ کا کھیل شامل کیا۔ یہاں سو اور دو سو میٹر کی ریس ہوتی ہے اور فری سٹائل، بیک سٹروک، بریسٹ سٹروک اور بٹر فلائی جیسے ہنر آزمائے جاتے ہیں۔

مائیکل سوئمنگ پول میں داخل ہوتے ہیں اور دوسروں کی نسبت زیادہ تیزی سے تیر سکتے ہیں۔

لیکن مستقبل میں کوئی ان سے بھی تیز تیر سکے گا کیونکہ اس کے لیے جسم کی خاص بناوٹ درکار ہے، آہستہ آہستہ غذائی عادات بہتر ہو رہی ہیں اور ٹریننگ سے مزید بہتر نتائج مل سکتے ہیں۔

لیکن اس مثال کے لیے سپینش اکیڈمی کی مثال درست ہے: یہاں کوئی ذہانت کے عنصر نہیں۔ یہ کسی جانور کی طرح ہے جو پنجرے میں تیز سے تیز تر کرتب دکھا سکتا ہے۔

میرے خیال سے کسی جینیئس کو اس سے بہتر کام کرنا چاہیے۔

سوال: ییل کے طلبہ آپ کی کلاس پڑھ کر جینیئس کیوں نہیں بننا چاہتے؟

جواب: عظیم ذہنوں کے ساتھ یہ مسئلہ پیش آتا ہے کہ وہ اکثر اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے کافی تباہ کن ہوتے ہیں کیونکہ وہ جنون سے اتنے بھرے ہوئے ہوتے ہیں کہ وہ ایک ہی چیز کے بارے میں بار بار سوچتے ہیں۔

ان کی توجہ صرف اپنے ذہنی مقصد کو پورا کرنے کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا کو بدل سکتے ہیں۔ وہ کسی چیز کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں اور ان کے مطابق صرف وہ ہی ایسا کر سکتے ہیں۔

ان لوگوں کے بہت سارے خواب ہوتے ہیں جن سے وہ خود پر اور اپنے اردگرد لوگوں پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ وہ دوسرے کے لیے مشکل رویہ اختیار کر سکتے ہیں اور انھیں کمتر سمجھ سکتے ہیں۔

تو ان کے لیے کام کرنا اچھا نہیں بھی ہوسکتا ہے۔

جیف بیزوس، ایلون مسک اور بِل گیٹس اس کی مثالیں ہیں۔

جینیئس کورس کے دوران لوگ خود سے پوچھ سکتے ہیں کہ ’کیا میں واقعی یہ کرنا چاہتا ہوں؟ کیا میں بڑے پیمانے پر لوگوں کے لیے دنیا کو بدلنا چاہتا ہوں یا محض اپنے اردگرد کا ماحول؟ تاکہ میرے قریبی لوگ بہتر محسوس کر سکیں۔۔۔‘

اور میری کتاب کا بھی عنوان یہی ہے۔ اس کتاب کا راز یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ کسی معنی خیز انداز میں دنیا کو تبدیل کرنے والے نہیں ہیں۔

تاہم اس سے ہم عملی طور پر اہم چیزیں سیکھ سکتے ہیں، جیسے لوگوں سے اپنے تعلقات کیسے رکھے جاسکتے ہیں اور اپنی پیداوار یا تخلیقی صلاحیت کیسے بہتر کی جاسکتی ہے۔

کیونکہ جینیئس افراد اپنے جنون میں پہلے سے مبتلا ہوتے ہیں اور وہ کبھی بھی اُڑان بھر سکتے ہیں۔

دریں اثنا ہم باقی لوگ اس سے یہ موقع حاصل کر سکتے ہیں کہ اپنی زندگیاں کیسے گزارنی ہیں اور کیسے اس میں تبدیلی لانی ہے۔

کریگ رائٹ کے مطابق ذہین افراد میں مندرجہ ذیل 14 عادات پائی گئی ہیں:

کام کے آداب۔

لچک، یعنی مشکلات سے گھرنے کے باوجود جلد بحالی۔

نیا کام۔

بچے جیسا تخیل۔

ختم نہ ہونے والا تجسس۔

جنون۔

اردگرد کے ماحول سے الگ تخلیقی صلاحیت۔

بغاوت کا جذبہ۔

ایسی سوچ جو حد پار کر دے۔

باقی لوگوں سے مختلف عمل یا سوچ۔

تیاری۔

بار بار ایک چیز کے بارے میں سوچنا۔

آرام۔

توجہ۔

مہاتير محمد کی لمبي عمر کا راز

مہاتیر محمد کی لمبی عمر کا راز  
موجودہ دنیاکے معمرترین منتخب حکمران رہنے والے ڈاکٹر مہاتیر محمد آخرکار اپنی بہترین صحت اورلمبی عمر کاراز منظرِعام پر لاکر دنیاکو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔  ۹۴سالہ مہاتیرمحمدکے بارے میں پوری دنیامیں حیرت واستعجاب کا مظاہرہ کیا جارہا تھا۔ 

مہاتیر محمد ۱۹۶۴ء میں سیاست میں آنے سے پہلے اپنی آبائی ریاست کیدہ میں ایک معالج کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ انہوں نے حال ہی میں ملائیشیا کے ممتازترین اخبار ’’نیوسٹریٹ ٹائمز‘‘ میں دومضامین کے ذریعے بتایا کہ ان کی صحت کا راز کھانے پینے اوربودوباش پر کنٹرول کرنے کی عادات کو پختہ کرنے میں پوشیدہ ہے۔ 

مہاتیرمحمد نے اپنے مضامین میں بتایا کہ یہ بات ایک آفاقی حقیقت کے طورپر تسلیم کی جاتی ہے کہ اچھی صحت کے لیے اصول یہ اپنایاجاناچاہیے کہ زندہ رہنے کے لیے کھایاجائے نہ کہ کھانے کے لیے زندہ رہاجائے۔

 ڈاکٹرمہاتیرمحمد نے مزیدبتایاکہ موٹاپا جو چربی کی زیادتی کے باعث جنم لیتا ہے، وہ انسانی صحت کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ ایک اچھی صحت کے لیے کھانے کی مقدار میں ایک چوتھائی یا ایک تہائی تک کمی کرکے موٹاپے اورچربی کی زیادتی پر قابوپایاجاسکتاہے۔ اسی طرح چاول اورتیل دار غذاؤں سے بھی پرہیز کرکے اس مشکل کوختم کیاجاسکتاہے۔