ورلڈ فورڈ ڈے : بھوک کے اصل محرکات کیا ہیں؟

16 اکتوبر کو ہر سال خوارک کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ اس دن سے پہلے بی بی سی نے دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے چار لوگوں سے بات کی جنھوں نے شدید بھوک کا تجربہ کیا، اور ان سے پوچھا کہ وہ کیسے زندہ بچ گئے۔

ورلڈ فورڈ ڈے : بھوک کے اصل محرکات کیا ہیں؟

بی بی سی کے رپورٹرسوامی ناتهن ناتاراجن کے مطابق دنیا کے قحط زدہ خطے جہاں عوام چوہے کا گوشت، ہڈیاں، مٹی اور کھالیں کھا کر پیٹ بھرنے پر مجبور ہیں۔

قحط، غربت، جنگ، بیماری۔۔۔ ایسے بہت سے عوامل ہیں جو ہمارے کھانے پینے کے عمل کو یکسر تبدیل کر سکتے ہیں۔

غیر معمولی حالات میں مایوسی کا شکار لوگ زندہ رہنے کے لیے کیچڑ، کیکٹس کے پھل، پھول، چوہے، ضائع شدہ ہڈیاں یا جانوروں کی کھال کا سہارا لیتے ہیں۔

شدید بھوک، غذا اور غذائیت کی کمی دنیا کے کئی حصوں میں روزمرہ کا چیلنج ہے اور اس کا پیمانہ واقعی بہت بڑا ہے: اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ ’ہر رات تقریباً 82 کروڑ افراد بھوکے سوتے ہیں‘ اور ’34 کروڑ شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہے ہیں۔‘

ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ دنیا میں اس وقت پہلے سے کہیں زیادہ بھوک ہے۔

یہ اس ’بڑے پیمانے پر بھوک کے بحران کا ذمہ دار چار عوامل کو ٹھراتا ہے: تنازع، المناک ماحولیاتی تبدیلیاں، کووڈ 19 وبائی امراض کے معاشی نتائج اور بڑھتے ہوئے اخراجات۔

سنہ 2022 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈبلیو ایف پی کے ماہانہ آپریٹنگ اخراجات سنہ 2019 کی اوسط سے 73.6 ملین امریکی ڈالر زیادہ ہیں جو کہ ایک حیران کن 44 فیصد اضافہ بنتا ہے۔

آپریٹنگ اخراجات پر اب جو اضافی خرچ کیا جاتا ہے اس سے پہلے ایک ماہ کے لیے چالیس لاکھ لوگوں کو کھانا کھلایا جاتا تھا۔

رپورٹ کے مطابق صرف پیسہ ہی بحران کو ختم نہیں کرے گا: جب تک تنازعات کو ختم کرنے کے لیے سیاسی عزم اور گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کا عزم نہ ہو تو ’بھوک کے اصل محرکات بلا روک ٹوک جاری رہیں گے۔‘