’میں 17 سال تک خاموش کیوں رہا‘

جب امریکی شہری جان فرانسس ایک نوجوان ہپی ہوا کرتے تھے تو اس وقت انھوں نے اپنی زندگی بدلنے والا ایک فیصلہ کیا: یہ فیصلہ تھا بولنا ترک کرنے کا۔ وہ 17 سال تک خاموش رہے اور بالآخر انھیں ایک دن احساس ہوا کہ انھیں کچھ کہنے کی ضرورت ہے۔
جان فرا نسس ۔۔۔۔ تب اور اب!
یہ سب ایک حادثے سے شروع ہوا۔ سنہ 1971 میں دو آئل ٹینکر ایک دوسرے سے ٹکرا گئے اور پانچ لاکھ گیلن سے زیادہ خام تیل کے بہنے سے سان فرانسسکو خلیج آلودہ ہو گئی۔

’میں نے اس کے بارے میں سنا اور اسے دیکھنا چاہتا تھا، لہٰذا میں اپنے چھوٹے سے قصبے انورنیس سے سان فرانسسکو چلا گیا۔ میں نے ساحل سمندر پر لوگوں کو چھوٹے گروپوں میں صفائی کرتے دیکھا۔ وہ پانی میں اترتے تھے اور تیل میں لپٹے ہوئے سمندری پرندوں، پیلیکن (ماہی خور)، بگلے اور کارمورینٹس کے ساتھ باہر آتے تھے۔‘

پرندوں اور لوگوں کو ان کی جان بچاتے دیکھ کر انھوں نے فیصلہ کیا کہ انھیں بھی کچھ کرنا چاہیے۔میں نے سوچا کہ میں اب کار نہیں چلاؤں گا۔ میں یقینی طور پر تھوڑا بہت ہپی تھا، اور میں نے فیصلہ کیا کہ میں یہی کروں گا۔‘

یاد رہے کہ یہ 1970 کی دہائی کا کیلیفورنیا تھا۔ ہر کوئی ہر جگہ گاڑی چلاتا تھا، اس لیے موٹر والی گاڑیوں کو یکسر ترک کرنا ایک جرات مندانہ اقدام تھا۔

’میں نے سوچا کہ سب میرے ساتھ چلیں گے، کیونکہ تیل کے بہنے سے لوگ بہت پریشان تھے کہ وہ ایسی باتیں کرنے لگے تھے کہ جیسے ’میں گاڑی چلانا چھوڑ دوں گا۔‘ لہٰذا میرے لیے ایسا کہنا واقعی کوئی عجیب بات نہیں تھی۔

’تاہم، جب میں نے ایسا کرنا شروع کیا تو وہ کہنے لگے کہ ’آپ یہ کس لیے کر رہے ہیں؟ یہ پاگل پن ہے! کچھ نہیں بدلنے والا۔‘

لیکن، جیسا کہ میری ماں نے مجھے کہا تھا کہ میں بہت ضدی ہوں، لہٰذا میں چلتا رہا۔‘

’جب میں یہ کر رہا تھا، میرے اندر کچھ ہونے لگا۔ میں اس سے لطف اندوز ہونے لگا۔ میں جہاں رہتا تھا میں نے وہاں رہنے کا لطف اٹھانا شروع کر دیا نہ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر شہر یا دکانوں پر جاتا اور نہ سستے داموں خریداری کرتا۔۔۔ میں اس جگہ کا حصہ بن گیا جہاں میں رہتا تھا۔‘

دنیا سکڑنے کے بجائے پھیلنے لگی

آہستہ آہستہ جان نے محسوس کیا کہ ان کی دنیا سکڑنے کے بجائے پھیل رہی ہے۔

’کیا یہ حیرت انگیز نہیں ہے! کیونکہ میں پہلے بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا، اس لیے میرے پاس اپنے اردگرد کو نوٹس کرنے کا بہت کم وقت تھا: گاڑی سے باہر نکلنے سے مجھے انسانی رفتار سے اپنے اردگرد کا تجربہ حاصل کرنے کا موقع ملا۔‘

لیکن ان کے اس فیصلے نے ایک تنازعہ بھی کھڑا کر دیا۔

’لوگوں نے مجھ سے بحث کرنا شروع کر دی کہ آیا کوئی اکیلا شخص فرق لا سکتا ہے۔‘

ڈرائیور ان پر تنقید کرتے کہ وہ انھیں برا محسوس کرا رہے ہیں یا وہ چاہتے ہیں کہ وہ برا محسوس کریں، اور پھر جان اپنا دفاع کرنے لگے۔۔۔ یہاں تک کہ وہ اپنی آواز سے ہی تھک گئے۔

ایک تحفہ

اپنی 27ویں سالگرہ کے موقع پر، جان جے آر آر ٹولکن کا ناول ’دی ہابٹ‘ پڑھ رہے تھے کہ انھیں اچانک ایک خیال آیا۔
’جن لوگوں نے اسے پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ جب ہابٹس کی سالگرہ ہوتی ہے تو وہ تحائف کی توقع نہیں رکھتے بلکہ وہ تحائف دیتے ہیں۔‘

چونکہ وہ ایک بہترین گفتگو کرنے والے تھے، اس لیے انھوں نے سوچا کہ دوسروں کے لیے ان کا بہترین تحفہ کیا ہو سکتا ہے: ’میں اس دن سے بات کرنا چھوڑ رہا ہوں۔‘

’تو میں ایک صبح اٹھا اور خاموش ہو گیا۔‘

ایک عام دن میں بہت سارے باتوں کے تبادلے ہوتے ہیں۔۔۔ آپ نے اپنے آپ کو بات کرنے سے کیسے روکا؟

’یہ بہت دلچسپ تھا، کیونکہ لوگوں کے پاس کہنے کے لیے بہت کچھ تھا، اور ان کی حیرت اور خوشی کے لیے، میں صرف سن رہا تھا۔‘

’میرے لیے یہ آنکھیں کھولنے والی بات تھی کیونکہ میں نے شاید پہلی بار سنا کہ لوگ کیا کہہ رہے تھے۔‘

’اس دن سے پہلے تک میں کیا کرتا تھا کہ جب وہ مجھ سے بات کرنا شروع کرتے تو میں سوچنا شروع کر دیتا کہ میں اس کا کیا جواب دوں گا، انھیں کیسے بتاؤں کہ وہ غلط ہیں اور میں صحیح ہوں۔‘

’اس 24 گھنٹے کی خاموشی کے عہد کے دوران میں نے محسوس کیا کہ میں پہلے کسی کی بات نہیں سن رہا تھا، اور اب جب کہ میں سن رہا ہوں، میں ممکنہ طور پر کچھ سیکھ سکتا ہوں۔‘
اور ان کے دوستوں نے کیا کہا: کیا انھوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی یا حوصلہ شکنی؟

’میری گرل فرینڈ پہلے تو بہت خوش تھی، لیکن تقریباً ایک ہفتے کے بعد وہ سننا چاہتی تھیں کہ یہ کب ختم ہو گا۔ اور بہت سے دوسرے لوگوں کا خیال تھا کہ میں تھوڑا پاگل ہو گیا ہوں۔‘

سو وہ بولے کیوں نہیں؟

’کیونکہ یہ اچھا لگتا تھا کیونکہ میں نے محسوس کیا کہ میں کچھ سیکھ رہا ہوں۔‘

’پہلے چند ہفتوں تک میرے ذہن میں بہت سی باتیں آئیں کہ مجھے کیا کہنا چاہیئے اور میں کب بات کرنا شروع کروں گا، یہاں تک کہ میں آخر کار اس نتیجے پر پہنچا کہ میں اسے ایک سال تک جاری رکھوں گا۔‘

’اور ایک مرتبہ جب میں نے فیصلہ کر لیا، سب کچھ آرام دہ ہو گیا اور میں خاموشی میں بس گیا، اور خاموشی مجھ میں بس گئی۔‘

یہ ایک خوبصورت جملہ ہے: ’خاموشی مجھ میں بس گئی۔‘ یہ کیسا محسوس ہوتا ہے؟

’اوہ، یہ حیرت انگیز ہے! یہ تقریباً ایسا ہی ہے جیسا کہ مجھے اس کام کے لیے منتخب کیا گیا تھا اور میں بہت شکر گزار تھا۔ یہ ایک تحفے کی طرح ہے۔ میں نے سوچنا شروع کیا کہ میں اپنی کمیونٹی کو تحفہ دے رہا ہوں اور یہ میرے لیے بھی ایک تحفہ ثابت ہوا۔‘

مشرق میں ایک سال

جان نے چپ رہنے کے لیے اپنے آپ کو ایک سال دیا تھا اور وہ امریکہ کے پیدل سفر پر نکل پڑے۔
جان نے اپنا سلیپنگ بیگ اپنی پیٹھ پر رکھا ہوا تھا اور اور ستاروں بھری رات میں کھلے آسمان کے نیچے رات گزارنے کا منصوبہ تھا جبکہ وہ راستے میں چھوٹے موٹے کام بھی کرتا جا رہا تھا۔

اس نے ایک قسم کی اشاروں کی زبان بنا لی تھی اور بہت زیادہ نقالی کا استعمال کر رہا تھا تاکہ اسے بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔

پیدل چلنے کے علاوہ جان پینٹ کرتا تھا اور بینجو بجاتا جو کہ اس کا مستقل ساتھی تھا۔

جب اس کی اگلی سالگرہ قریب آئی تو اس نے اپنے فیصلے کا از سر نو جائزہ لیا اور ایک سال تک کے لیے پھر خاموشی۔۔۔

17 سال گزر گئے اور اس دوران انھوں نے 'کیلیفورنیا سے اوریگون اور بیابان کا بہت سارا سفر کیا، بہت سارے ایکسپلوریشن کیے، جس میں وہ کبھی پیدل چلتے تو کبھی کسی سے لفٹ لے لیتے۔

وہ خاموشی سے تعلیم کی طرف بھی لوٹے تاکہ ڈگری حاصل کرسکیں۔


انھوں نے کہا: 'مجھے یاد ہے کہ میں رجسٹرار کے دفتر (ایش لینڈ میں سدرن اوریگون یونیورسٹی میں) گیا تھا اور میں انھیں یہ سمجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ میں بولتا نہیں ہوں اور میں پڑھنا چاہتا ہوں۔


'میں ان کے سامنے بیٹھ گیا اور روڈن کے 'دی تھنکر' کی طرح اپنا سر جھکا لیا اور پھر میں نے اپنی ہتھیلیوں کو جوڑ کر انھیں کھولا جیسے کہ یہ کوئی کتاب ہو اور میں نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ میں اسے پڑھ رہا ہوں۔'
جان نے اپنے اس عمل کو بار بار دہرایا یہاں تک کہ رجسٹرار نے کہا، 'تو کیا آپ سکول جانا چاہتے ہیں اور غور و فکر کرنا سیکھنا چاہتے ہیں؟

'میں نے ہامی بھرتے ہوئے سر ہلایا۔'

چکر پورا کرنا

انھوں نے بیچلر کی ڈگری حاصل کی اور پھر یونیورسٹی آف مونٹانا سے انوائرمنٹل سٹڈیز پروگرام میں ماسٹرز کی تعلیم کے لیے رابطہ کیا۔

انھوں نے لکھا کہ 'میں وہاں دو سالوں میں پہنچ سکتا تھا' اور پھر انھوں نے اپنی منزل کی طرف چلنا شروع کر دیا۔

جب وہ وہاں پہنچے تو ان کے پاس پیسے نہیں بچے تھے۔

’پروگرام ڈائریکٹر نے کہا: 'جان، کیا آپ پڑھنے کے لیے تیار ہیں؟' تو میں نے اپنی خالی جیب انھیں دکھائی تو انھوں نے کہا، 'اوہ، تمہارے پاس پیسے نہیں ہیں!' میں نے سر ہلایا تو انھوں نے کہا، 'کل آجاؤ۔‘

’اگلے روز اس نے مجھے 150 ڈالر دیے اور کہا کہ قرضے کے لیے دستخط کرو جو میں نے کر دیئے۔‘ اس نے کہا کہ ’تمام اساتذہ نے کہا ہے کہ وہ آپ کو اپنی کلاسوں میں مفت پڑھنے کی اجازت دیں گے۔‘
اس نے اپنی ماسٹر ڈگری مکمل کر لی جس کا تھیس تھا ’پلگرمیج اینڈ چینج ، وار، پیس اینڈ اینوائرنمنٹ۔‘

جان کا کہنا ہے کہ ’جب میں نے امریکہ کا پیدل ختم کیا تو میرے یہ خیالات پختہ ہو چکے تھے۔‘

اسی دوران جان نے یونیورسٹی آف وسکانسن، میڈیسن سے زمین کے وسائل کے موضوع پر اپنی پی ایچ ڈی بھی مکمل کر لی جس کا مقالہ تھا ’تیل کا بہنا اور اس کی خاموش واک کیسے شروع ہوئی۔‘

دروازے کھلنا شروع ہو گئے

اس کے بعد دروازے کھلنا شروع ہو گئے۔

اسے کہا گیا کہ وہ تیل کے بہنے پر امریکی حکومت کے مشیر بن جائیں اور اس کے حوالے سے ضوابط تحریر کریں۔

اقوام متحدہ اسے اپنا ماحولیات کا سفیر مقرر کرنا چاہتا تھا۔ یہ کسی ہیپی کے لیے کم کامیابی نہیں تھی جس نے ایک روز فیصلہ کیا تھا کہ وہ اب موٹر سے چلنے والے گاڑیوں میں نہیں بیٹھے گا اور بات کرنا بند کر دے گا۔

بہت ہی حیران کن

تقریباً دو عشروں بعد جان نے محسوس کیا کہ اب اس کے پاس کہنے کے لیے کچھ ہے اور اس نے اپنی ڈائری میں دوبارہ بولنے کی تاریخ مقرر کر دی: 2 جنوری 1990۔
میں نے دوبارہ بولنے کے لیے ارتھ ڈے کا انتخاب کیا کیونکہ میں ماحولیات کے بارے میں بات کرنا چاہتا تھا۔

ماحولیات کے بارے میں جو روایتی طور پر بات کی جاتی ہے وہ میرے لیے کچھ بدل گئی تھی۔ میں آب و ہوا کی تبدیلی، آلودگی جیسے باتوں کے ساتھ میں یہ اضافہ کرنا چاہتا تھا کہ ہم انسان ایک دوسرے سے کیسا برتاؤ کرتے ہیں۔

"یہ وہ چیز ہے جو میں نے اپنی پڑھائی کے دوران نہیں سنی تھی، لیکن یہ وہی ہے جو میں نے ملک بھر کے لوگوں کے ساتھ چلنے اور میل میلاپ کے دوران سیکھی۔

ماحول کی دیکھ بھال اور ایک دوسرے کی دیکھ بھال کے درمیان وہ کیا تعلق تھا جو آپ نے دریافت کیا؟

’کنکشن یہ تھا کہ چونکہ ہم ماحول کا حصہ ہیں، اس لیے ہم ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح برتاؤ کرتے ہیں، یہ پہلا موقع ہوتا ہے جہاں ہم ماحول کے ساتھ پائیدار طریقے سے برتاؤ کریں اور یہ معلوم کریں کہ پائیداری سے ہمارا کیا مطلب ہے۔‘

ماحولیات میرے لیے انسانی حقوق، شہری حقوق اور صنفی برابری کا درجہ رکھتا ہے کیونکہ وہ ہمارے اردگرد کا ماحول ہے۔

مثال کے طور پر یہ سوچیں کہ ہم یہ سوچے بغیر پانی کو آلودہ کرتے ہیں کہ نیچے رہنے والے لوگ اس پانی کو پیتے ہیں اور انھیں یہ پانی پھر صاف کرنا پڑتا ہے۔

دوسرے الفاظ میں اگر ہم ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے ہیں تو اس کا قوی امکان ہے کہ ہم ماحول کو بھی نقصان پہنچائیں گے، اور اگر ہم ماحول کو نقصان پہنچاتے ہیں تو اس کا قوی امکان ہے کہ ہم ایک دوسرے کو بھی نقصان پہنچائیں گے۔
یہ وہ پیغام تھا جو جان دوسروں تک پہنچانا چاہتے تھے جس کے لیے وہ سترہ برس کی خاموشی کو توڑنے پر تیار تھے۔

جان فرانسس کی آواز

اتنے لمبے عرصے بعد جب آپ حاضرین کے سامنے آئے جن میں آپ کے خاندان کے لوگ اور دوست بھی تھے جن کے ساتھ آپ اتنے برسوں سے بات نہیں رہے تھے، تو ان کے سامنے بولنے کا تجربہ کیسا تھا؟

واشنگٹن ڈی میں ایک ہوٹل نے میرے لیے ایک چھوٹی سے تقریب کا انتظام کیا جس میں میرے دوستوں اور خاندان کو مدعو کیا گیا۔ کچھ میڈیا کے لوگ بھی آ گئے، جیسے نیشنل جیوگرافک، لاس اینجلس ٹائمز۔

پہلے نے تھوڑا سا بینجو بجایا پھر میں نے کہا ’یہاں آنے کا شکریہ۔‘ یہ سن کر میری ماں اپنی کرسی سے اچھل پڑی اور کہا ’ہیلولا جان اب پھر بول رہا ہے۔‘ میں نے سوچا کہ یہ کتنی زبردست بات ہے کہ میری ماں اتنی خوش ہے۔

چونکہ میں نے اس عرصے تک اپنی آواز نہیں سنی تھی، مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ میں جو سوچ رہا وہ لفظوں میں کون ادا کر رہا ہے۔

میں اتنا حیران ہوا کہ میں نے ہنسنا شروع کر دیا اور میرا باپ مجھے دیکھ کر کہہ رہا ہے، ’ہاں ، یہ یقیناً دیوانہ ہے۔‘

اس طرح لفظوں کی ادائیگی اور کاریں اس کی زندگی میں واپس آئیں۔

کچھ بھی ہو میں پیدل چل رہا ہوتا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ میں قیدی بن چکا ہوں اور میرے پاس قیدخانے کی چابیاں ہیں اور میں کسی بھی وقت آزاد ہو سکتا ہوں۔

’اب میں ہائبرڈ کار چلاتا ہوں‘

کیا ان ایام کو یاد کرتے ہیں جب آپ بولتے نہیں تھے اور صرف پیدل چلتے تھے؟

ہاں، چلتا تو میں اب بھی ہوں۔ درحقیقت میں اگست میں افریقہ میں واک کر رہا ہوں۔ کئی بار تو میں پورا پورا دن بولتا نہیں ہوں، سترہ برس کی خاموشی اور 22 برس تک پیدل سفر میری زندگی کا حصہ ہے۔ وہ ختم نہیں ہو سکتا۔

آپ دوسروں کو کوئی مشورہ دیں گے کہ وہ بھی یہ کریں؟

’میں یہ ہی مشورہ دوں گا کہ دوسروں کو سنیں۔‘