تاریخ عالم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
تاریخ عالم لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

سقوط غرناطہ: ابوعبداللہ وہ مسلمان حکمران جنھوں نے ’جنت کی کنجیاں‘ مسیحی بادشاہوں کے حوالے کیں

وقارمصطفیٰ | بی بی سی اردو | 15 جولائی 2024

ابو عبد اللہ محمد سنہ 1459 میں سپین کے الحمرا محل میں پیدا ہوئے تو نجومی نے پیش گوئی کی کہ وہ بڑے ہو کر مسلم غرناطہ کے حکمران بنیں گے، لیکن آخری۔
سقوط غرناطہ 

آٹھویں صدی کی ابتدا سے اگلے 300 سال تک سپین میں علم و ایجاد کو فروغ دیتی اموی خلافت رہی، پھر 40 سال تک سپین چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا رہا۔

مراکش سے آنے والے مرابطون نے انھیں متحد کر کے 1086 سے1147 تک چلایا۔ ان کے بعد موحدون نے شمالی افریقہ اورسپین کے بڑے حصے پر حکومت قائم کی۔

تیرھویں صدی میں عرب کے بنو خزرج قبیلے کے نصر خاندان کے محمد اول نے جب غرناطہ سنبھالا تب تک مسلم سپین کا رقبہ کافی سمٹ چکا تھا۔

نصریوں نے مراکش کے مرینوں کے ساتھ اتحاد بھی قائم کیا۔ ان کے دور میں غرناطہ اسلامی ثقافت کا مرکز رہا جس میں علم، دست کاری اورسرامکس کو فروغ ملا۔ 14ویں صدی میں نصری اپنے فن تعمیر کے لیے مشہورتھے۔ الحمرا اسماعیل اول اور محمد پنجم کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔

سوا دو سو سال سے حکومت کرتے اسی خاندان کے سلطان ابوالحسن علی کے ہاں، تاریخ میں بوعبدل کہلاتے، ابوعبداللہ کی پیدائش ہوئی تھی۔

خاندانی جھگڑے اور سوتن کا حسد

ایلزبتھ ڈریسن اپنی کتاب ’دی مورز لاسٹ سٹینڈ‘ میں بتاتی ہیں کہ ابوالحسن علی، جنھیں مولائے حسن بھی کہا جاتا تھا، کے دور میں غرناطہ کو اندرونی اور بیرونی دباؤ اور سیاسی خلفشار کا سامنا تھا۔

ریکونکوِسٹا کے نام سے جانے جاتے تقریباً آٹھ صدیوں پر محیط مہمات کے ایک سلسلے میں پندرہویں صدی کے اواخر میں تیزی آ گئی۔ ان مہمات سے مسیحی سلطنتوں کا مقصد مسلمانوں کے زیرِاثر آیبیرین علاقوں پر دوبارہ حکومت کرنا تھا، جنھیں اجتماعی طور پر الاندلس کہا جاتا تھا۔

کیا دنیا میں واقعی آٹھ ارب افراد موجود ہیں؟

اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق دنیا کی موجودہ آبادی 8.2 ارب ہے جو چند برسوں میں 10.8 ارب تک پہنچ جائے گی۔

11 جولائی کو شائع ہونے والی ’ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس‘ نامی اس رپورٹ کے مطابق ’دنیا میں لوگوں کی کل تعداد 2080 کی دہائی میں اپنے عروج پر ہو گی اور اس کے بعد آہستہ آہستہ کم ہونے لگے گی۔‘

رپورٹ میں مزید پیشگوئی کی گئی ہے کہ حالیہ برسوں میں پیدا ہونے والے لوگ اوسطاً 73.3 سال تک زندہ رہیں گے۔

واضح رہے کہ یہ عمر سنہ 1995 میں پیدا ہونے والوں کی عمر کے مقابلے میں 8.4 سال زیادہ ہے۔

اقوام متحدہ تقریباً نصف صدی سے اپنے ارکان ممالک میں ہونے والی مردم شماری، ان ملکوں میں شرح پیدائش اور اموات اور دیگر ڈیموگرافِک سروے کو جمع کر کے عالمی آبادی کا تخمینہ لگاتا ہے لیکن کیا ہم ان اعدادوشمار پر یقین کر سکتے ہیں؟

دنیا کی کل آبادی کا پتا لگانا آسان نہیں‘

ماہر آبادیات (ڈیموگرافر) جیکب بژاک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’دنیا میں لوگوں کی کل تعداد کا پتا لگانا آسان نہیں اور اس میں کمی بیشی کی گنجائش بھی موجود ہے۔‘

برطانیہ کی یونیورسٹی آف ساؤتھ ہیمپٹن کے پروفیسر بژاک نے بتایا کہ دنیا کی کل آبادی کے بارے میں آپ یقینی طور پر ایک ہی بات کر سکتے ہیں اور وہ یہ کہ اس میں شک کی کافی گنجائش ہے۔

واشنگٹن میں ’پاپولیشن ریفرنس بیورو‘ نامی تحقیقی تنظیم سے منسلک ماہر ڈاکٹر ٹوشیکو کنیڈا نے زور دیا کہ ہمارے پاس دنیا کی کل آبادی کے بارے میں جاننے کے لیے ’جادو کا کوئی چراغ موجود نہیں۔‘

تاہم اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ صرف اندازوں کی مدد سے ہی دنیا کی آبادی کا پتا لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ڈاکٹر کنیڈا نے بتاہا کہ ’یہ بہت پیچیدہ کام ہے۔ ہمیں اپنے تجربے، علم اور اپنے پاس موجود ہر چھوٹی سے چھوٹی معلومات کے بارے میں سوچنا ہوتا ہے۔‘

اس کے علاوہ مسلسل ان تخمینوں کو اپ ڈیٹ بھی کیا جاتا ہے۔ جیسے ایک دہائی پہلے اقوام متحدہ نے جو پیشگوئی کی تھی، اس کے برعکس اس نے اب کہا ہے کہ سنہ 2100 تک دنیا کی آبادی چھ فیصد کم ہو گی۔

تاہم ان تبدیلیوں کے باوجود آبادی سے متعلق اعدادوشمار حکومت اور پالیسی بنانے والوں کے لیے بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ وہ ان اعداد و شمار کے مطابق مستقبل کے لیے فیصلہ سازی کرتے ہیں۔

اس پس منظر میں اقوام متحدہ کے تارہ ترین اعداد و شمار ہمیں کیا بتاتے ہیں؟

مزید تین دہائیوں تک آبادی میں اضافہ ہو گا‘

سنہ 2024 کے ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس کے مطابق دنیا میں ہر چار افراد میں سے ایک شخص ایسے ملک میں رہتا ہے جس کی آبادی پہلے سے ہی اپنے عروج پر ہے۔

تاہم 126 ممالک اور علاقوں میں مزید تین دہائیوں کے لیے آبادی میں اضافہ دیکھنے میں آئے گا اور ان میں دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ممالک شامل ہیں جیسے انڈیا، انڈونیشیا، نائجیریا، پاکستان اور امریکہ۔

اس رپورٹ میں ایک اور قابلِ ذکر بات سامنے آئی ہے کہ دنیا میں عمر کا دورانیہ پھر سے بڑھ رہا ہے جبکہ یہ شرح کورونا کی وبا کے دوران تھوڑی کم ہوئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق ’موت کی شرح میں مزید کمی کے نتیجے میں سال 2054 میں عالمی سطح پر لوگوں کی عمر اوسطاً 77.4 سال ہونے کا امکان ہے۔‘

امیگریشن کی وجہ سے آبادی میں اضافہ

دنیا کے مختلف حصوں میں آبادی میں اضافہ بہت مختلف نظر آتا ہے۔ اگلے 30 سال میں انگولا، سینٹرل افریقی ریپبلک، کانگو، نائجر اور صومالیہ جیسے ممالک میں پیدائش کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو گا۔

پیشگوئی ہے کہ ان ممالک کی آبادی دگنی ہو جائے گی۔

پروفیسر بژاک نے بتایا کہ ’لوگوں میں نقل مکانی کا رجحان بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے دنیا میں آبادی دوبارہ سے تقسیم ہو رہی ہے لیکن زیدہ تر ممالک ترک وطن لوگوں کو گنتی میں شامل نہیں کرتے اور اگر کرتے ہیں تو دہائی میں صرف ایک مرتبہ جب وہ مردم شماری کرتے ہیں۔ اس میں بھی وہ باریکی میں نہیں جاتے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’کچھ ممالک ہیں جو آبادی کے لیے مخصوص رجسٹرز استعمال کرتے ہیں لیکن ایسے بہت کم ممالک ہیں، ان میں سے زیادہ تر ممالک ترقی یافتہ ہیں جسیے یورپ اور شمالی امریکہ کے ممالک اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ۔‘

پروفیسر بژاک نے مزید وضاحت کی کہ کچھ ممالک متبادل طریقوں سے یہ اعداد و شمار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

’اس کی ایک مثال موبائل فونز میں مقام پتا لگانے والی ٹیکنالوجی ہے تاہم اس طریقہ کار کو ابھی مزید بہتر ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اس کی مدد سے حاصل کیے اعداد و شمار کو صحیح طریقے سے سمجھ سکیں۔‘

ڈاکٹر کنیڈا نے بتایا کہ نقل مکانی کے عمل کو جانچنا اچھا عمل ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ یہ شرح پیدائش سے زیادہ تیزی سے بدل سکتا ہے۔

’میں یہ کبھی نہیں سوچ سکتا کہ کسی ملک کی شرح پیدائش صفر ہو سکتی ہے تاہم وہ ممالک جہاں کم سے کم شرح پیدائش ہو، وہاں بھی آبادی اتنی تیزی سے نہیں بدلتی تاہم جنگ یا قدرتی آفات کی وجہ سے ہونے والی نقل مکانی کے بعد آبادی راتوں رات بدل سکتی ہے۔‘

اقوام متحدہ کے پاپولیشن ڈویژن کی کلیئر مینوزی کہتی ہیں کہ دنیا میں لوگوں کی تعداد پتا لگانے کے لیے بین الاقوامی نقل مکانی پر انحصار کرنا اتنا بھی صحیح نہیں۔

انھوں نے کہا کہ اکیلے نقل مکانی ’دنیا کی آبادی میں زیادتی یا کمی کا باعث نہیں ہوتی اور اسے اس پرانے مسئلے کا حل نہیں سمجھنا چاہیے۔ اصل میں مسئلہ ڈیموگرافِک تبدیلی کا ہے۔‘

مردم شماری کیوں اہمیت رکھتی ہے؟

مردم شماری کے ذریعے آبادی کا پتا لگانے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ تاریخ 4000 قبل مسیح میں شروع ہوئی جب میسوپوٹیمیا (جو تقریباً موجودہ عراق ہے) میں بابلی سلطنت نے پہلی مردم شماری کی۔

اس وقت سے اب تک مردم شماری کی ٹیکنالوجی میں کافی تبدیلیاں آ چکی ہیں لیکن یہ کام ابھی بھی اتنا آسان نہیں۔

ڈاکٹر کنیڈا کہتے ہیں کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک سمیت تمام ممالک کو ’چیلنجز کا سامنا ہے جیسے لوگوں کا حکومت پر بڑھتا ہوا عدم اعتماد اور پرائیوسی سے متعلق خدشات۔‘

’اعداد و شمار جمع کرنے پر خرچ ہونے والے ہر ڈالر پر 32 ڈالر کا فائدہ‘

ڈاکٹر کنیڈا نے کہا کہ اعدادوشمار جمع کرنے والی تنظیموں کے بجٹ میں کٹوتیوں کے بعد مسئلہ اور سنگین ہو گیا ہے کیونکہ آبادی کے اعداد و شمار جمع کرنا ایک پیچیدہ کام ہے اور اس میں بہت خرچہ آتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہ مسئلہ ہے جبکہ ترقی پذیر اور غریب ممالک میں یہ مزید بڑا چیلنج ہے تاہم اقوام متحدہ کے مطابق ’ڈیٹا کے اس نظام کو بہتر کرنے میں جو ایک ڈالر خرچ ہوتا ہے اس کے نتیجے میں 32 ڈالر معاشی فوائد کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔‘

اقوام متحدہ تجویز کرتا ہے کہ دنیا کے سب سے کمزور طبقے کے اعداد و شمار جمع کرنے کو ترجیح دینی چاہیے۔ 
ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس کی یہ تازہ ترین رپورٹ اقوام متحدہ کے آبادی سے متعلق 28ویں ایڈیشن کا حصہ ہے۔ اس میں سنہ 1950 سے لے کر سنہ 2023 کے دوران مختلف ممالک کی تقریباً 1700 مردم شماریوں کے اعدادوشمار شامل ہیں۔


یونیورسٹی آف واشنگٹن کے ’انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ میٹرکس اور ایویلوئیشن‘ (آئی ایچ ایم ای) اور آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کی ’آئی آئی اے ایس اے وٹگنسٹائین‘ نامی تنظیموں نے عالمی آبادی کے اس تخمینے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔

فری میسنز سے جڑی تنظیم نائٹس ٹیمپلر کی تاریخ اور فرانس میں ان کی باقیات

ایڈیسن نیوجنٹ
بی بی سی، پیرس
31 جولائی 2019
پیرس کے علاقے ماریز میں آج بھی پہلی صلیبی جنگ کے دوران وجود میں آنے والی پراسرار جنگجوؤں کی تنظیم نائٹس ٹیمپلر کی باقیات خوبصورت گلیوں کے بیچ و بیچ آسانی سے مل سکتی ہے۔ ایک زمانے میں یہ علاقہ یورپ میں ان کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔

تنظیم کی علامتی نشان
معروف فلم ’انڈیانا جونز‘ سے لے کر ’دی ڈاونشی کوڈ‘ تک، ہمارے جدید تخیل میں نائٹس ٹیمپلر کے افسانوی کردار چھائے ہوئے ہیں لیکن ان کرداروں کے پس پشت کئی صدیوں پر محیط ایک ایسی داستان ہے جو ایک سے زیادہ براعظموں پر پھیلی ہوئی ہے۔

یہ کہانی فرانس کے دارالحکومت پیرس پر اختتام پذیر ہوئی جہاں نائٹس ٹیمپلر کے آخری برسوں کی نشانیاں مل سکتی ہیں۔ لیکن یہ نشانیاں صرف انھیں نظر آتی ہیں جو انھیں ڈھونڈنے نکلتے ہیں۔

نائٹس ٹیمپلر کون تھے؟

نائٹس ٹیمپلر کی کہانی 1099 میں پہلی صلیبی جنگ کے دوران شروع ہوتی ہے جب یورپ سے تعلق رکھنے والے مسیحی فرقے رومن کیتھولک کی افواج نے مسلمانوں سے یروشلم چھین لیا۔ نتیجے میں یورپ کے زائِرِین بڑی تعداد میں اس 'مقدس زمین' میں بس گئے۔

لیکن کئی لوگوں کو مسلمانوں کے قبضے والے علاقوں سے گزرتے ہوئے لوٹ مار یا قتل کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔

ان حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سنہ 1118 کے آس پاس فرانسیسی کمانڈر ہیوز ڈے پیانز نے اپنے علاوہ آٹھ فوجیوں پر مشتمل ایک فوجی دستہ تشکیل دیا جس کا نام پوور نائٹس آف کرائسٹ آف دی ٹیمپل آف سولومن رکھا گیا۔ یہ گروہ بعد میں نائٹس ٹیمپلر کہلایا۔

نائٹس ٹیمپلر اعلیٰ سطحی کمانڈرز یا نائٹس تھے جن کا ہیڈکوارٹرز یروشلم کے مقدس ماؤنٹ ٹیمپل پر بنایا گیا۔ ان کا بنیادی مقصد شہر میں مسیحی زائِرِین کی حفاظت کرنا تھا۔

اگر افسانوی کہانیوں کو مانا جائے تو یہ نائٹس ٹیمپلر کے ہی کچھ اراکین تھے جنھوں نے 14ویں صدی کے دوران فرانس سے بھاگ کر برطانیہ میں فری میسن نامی تنظیم شروع کی۔

الیومناٹی: تاریخ کی ’پراسرار ترین‘ خفیہ تنظیم کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

ایما سلیٹری
بی بی سی ہسٹری
21 جون 2021

الیومناٹی نام کی ایک خفیہ اور حقیقی سوسائٹی کا قیام 245 برس قبل ہوا تھا اور اسی نام کو ایک افسانوی تنظیم کے لیے بھی استعمال کیا گیا، جس کا برسوں سے سازشی مفروضوں سے تعلق جوڑا اور سمجھا جاتا ہے۔
الیومناٹی کا علامتی نشان

کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک خفیہ، مگر پراسرار عالمی تنظیم ہے جس کا مقصد دنیا پر قبضہ کرنا ہے اور یہ دنیا میں ہونے والے بڑے انقلاب اور نامی گرامی افراد کے قتل میں ملوث ہے۔

لیکن الیومناٹی حقیقت میں کون تھے اور کیا وہ واقعی میں دنیا پر قابو پا چکے تھے؟ اس پراسرار سوسائٹی کے بارے میں ان 12 سوالات کی مدد سے جانیے کہ اُن کا مقصد کیا تھا اور اِس تنظیم میں کون لوگ شامل تھے۔

اصل الیومناٹی کیا تھی؟

الیومناٹی ایک خفیہ سوسائٹی تھی جس کا قیام باوریا (موجودہ جرمنی) میں ہوا تھا۔ سنہ 1776 سے سنہ 1785 تک چلنے والی اس سوسائٹی سے منسلک افراد خود کو ’پرفیکٹبلسٹس‘ کہتے تھے۔

اسلام سمیت مختلف مذاہب میں دجال کا تصور کیا ہے؟

وقار مصطفیٰ
عہدہ,صحافی و محقق
31 مار چ 2024
سوشل میڈیا پریہودی اور مسیحی روایات کے مطابق اینٹی کرائسٹ یا ضدِ مسیح اور اسلامی روایات کی رو سے مسیح الدجال مختصراً دجال کے آنے پر بحث کی جا رہی ہے۔ اب ہر کوئی دجال کے بارے میں روایات اور اقوال شیئر کر ہا ہے۔ ہم نے سوچا کہ کیوں نہ اس بحث کا پس منظر جان لیا جائے۔

دجال پر تاریخی حوالہ جات، علما اور ماہرین کی رائے جاننے سے قبل ایک نظر اس پر دوڑاتے ہیں کہ آخر دجال کا قصہ شروع کہاں سے ہوتا ہے؟

چھٹی صدی قبلِ مسیح کے اواخر میں بنی اسرائیل (یہودی مذہب کے ماننے والے) بابل کے حکم ران بخت نصر سے شکست، ہیکلِ سلیمانی کی تباہی اور جلا وطنی سے ایسے مایوس ہوئے کہ ماننے لگے کہ خدائے بنی اسرائیل ’یہواہ‘ نے ان سے منھ موڑ لیا ہے اور ان کا مقدس ترین عبادت خانہ تباہ ہونا اور ارضِ موعودہ (پرامِزڈ لینڈ) سے نکلنا سزا ہے۔

اس فکر کے جواب میں یہ سوچ پنپی کہ یہواہ بنی اسرائیل سے ہمیشہ کے لیے ناراض نہیں ہوئے بلکہ وہ وقتی سزا کے بعد ایک طاقت ور بادشاہ ’مسیح‘ کے ذریعے انھیں دوبارہ عروج عطا کریں گے۔

یہودی عقیدے کے مطابق حضرت داؤد کی اولاد میں ایک عظیم بادشاہ نمودارہوگا جو بنی اسرائیل کے ان طاقت ور بادشاہ اور نبی کی طرح کہ جن پر زبور نازل ہوئی تھی، یہودیوں کی حکومت پھر سے دنیا پر قائم کرے گا۔

سید محمد وقاص کی تحقیق ہے کہ یہ عقیدہ جلا وطنی کے دوران آنے والے نبی حضرت دانیال سے منسوب ایک صحیفے پر مبنی ہے۔

موجودہ بائبل کے عہد نامہ قدیم کے حصہ ’انبیا‘ (عبرانی میں نیویم) میں شامل صحیفہ دانیال میں لکھا ہے: ’رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے سامنے کوئی کھڑا ہے جو انسان جیسا دکھائی دیتا ہے۔ وہ آسمان کے بادلوں پر آرہا تھا۔ وہ قدیم بادشاہ (خدائے یہواہ) کے پاس آیا تھا۔ اسے اس کے سامنے لے آیا گیا تھا۔ وہ شخص جو کہ انسان کی مانند دکھائی دے رہا تھا، اس کو سلطنت، حشمت اور سارا علاقہ سونپا گیا۔ سبھی قومیں اور ہر زبان کے گروہ اس کی خدمت کریں گے۔ اس کی حکومت ہمیشہ قائم رہے گی۔‘

قدیم دنیا میں سب سے پرانی مذہبی آبادی

بی بی سی اردو نیوزاشاعت ۱جولائی ۲۰۲۴

نپور شہر عراق میں واقع ایک قدیم تہذیب کی باقیات ہے جس کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ سات ہزار سال پہلے قائم ہونے والی یہ آبادی قدیم دنیا میں سب سے پرانی مذہبی آبادی تھی۔


بغداد سے 200 کلومیٹر جنوب میں واقع یہ مقام اب وقت کے ہاتھوں کھنڈرات کی شکل میں ہی موجود ہے جہاں سیاحوں کا گزر کم ہی ہوتا ہے۔

لیکن ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔ ایک زمانہ تھا جب ابھی وقت کا تصور بھی تازہ تازہ ہی تھا اور نپور دنیا کے روحانی مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ دور دراز علاقوں سے زائرین میسوپوٹامیا کے اس مقدس شہر پہنچا کرتے جہاں سمیری تہذیب کے بادشاہ تک دنیا کے قدیم خداؤں کو پوجا کرتے۔

قدیم سمیری شہری، جو موجودہ وسطی عراق کے باسی تھے، ہی جدید تہذیب کے موجد بھی مانے جاتے ہیں جنھوں نے سب سے پہلے شہر آباد کیے اور زراعت کا آغاز کیا۔ پہیہ، تحریر، حساب حتی کہ 60 منٹ پر محیط گھنٹے کی ایجاد کا سہرا بھی اسی تہذیب کو دیا جاتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ مورخوں کے مطابق منظم مذہب اور زیارت کا تصور بھی یہی پیدا ہوا۔

وقت کے ساتھ سمیری تہذیب تو قصہ پارینہ ہوئی جس کی جگہ نئی تہزیبوں نے لی اور ان کے خدا بھی مختلف تھے۔ ہزاروں سال کا سفر کرنے کے بعد میسوپوٹامیا عراق بن گیا جہاں اب اسلام مرکزی مذہب کی حیثیت رکھتا ہے۔

تاہم اگرچہ اب خدا بدل چکے ہیں لیکن جدید عراق میں بھی زیارت کا تصور اتنا ہی اہم ہے جتنا نپور کے قدیم مقدس شہر میں ہوا کرتا تھا۔

نپور کے کھنڈرات سے مغرب میں 100 کلومیٹر کے فاصلے پر نجف اور کربلا کے مقدس مانے جانے والے شہر ہیں جو شیعہ مسلمانوں کی زیارت کے اہم منزل ہیں۔ ان شہروں کا سفر کرنے والے اس خطے کی طویل اور افسانوی تاریخ سمیت جدید عراق سے بھی واقف ہوتے ہیں۔

نپور: جہاں سمیری تہذیب کے مطابق ’خدا پیدا ہوا‘


قدیم سمیری تہذیب میں نپور کو جنت اور زمین کے درمیان رابطے کا مقام مانا جاتا تھا۔ سب سے پہلی تصویر میں نظر آنے والی پہاڑی ’انلل‘ کا گھر سمجھا جاتا تھا جو سمیری تہذیب کا سب سے اہم خدا اور کائنات کا حکمران مانا جاتا تھا۔

اگرچہ نپور خود سیاسی طاقت کا مرکز نہیں تھا لیکن اس شہر پر کنٹرول اہم سمجھا جاتا تھا کیوں کہ انلل ہی دوسری شہری ریاستوں کے حکمرانوں کو بادشاہت کا اختیار سونپنے کا مجاز تھا۔ اس روحانی اہمیت کی وجہ سے ہی خطے سے زائرین یہاں کا رخ کرتے۔

سمیری تہذیب تکنیکی اعتبار سے مہارت رکھتی تھی اور منظم مذہب کے علاوہ دنیا کا سب سے پہلا تحریر کا نظام بھی انھوں نے ہی تیار کیا۔

ماہرین آثار قدیمہ نے نپور سے 30 ہزار مٹی کی بنی تختیاں برآمد کی ہیں تاہم زیادہ تر کھنڈرات کو اب تک کھود کر تفصیلی جائزہ نہیں لیا گیا۔

اس تصویر میں ایسے برتنوں کے ٹکڑے دیکھے جا سکتے ہیں جو وسیع و عریض کھنڈرات میں پھیلے ہوئے ہیں اور شاید یہی بات نپور کو محسور کن بناتی ہے کیونکہ اس مقام کا انسانی ترقی سے بہت گہرا تعلق ہے جو شاید دنیا میں کہیں اور موجود ہوتا تو سیاحوں سے بھرپور ہوتا۔

لیکن عراق کے ایک صحرا کے کونے پر موجود اس جگہ پر ہوا، مٹی، ریت اور چند قابل شناخت دیواروں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

زیارت کی طویل تاریخ

نپور کے سات ہزار سال بعد بھی مشرق وسطی کے اس خطے میں زیارت کا تصور مضبوط ہے۔ ہر دن ہزاروں شیعہ مسلمان دنیا بھر سے کربلا اور نجف پہنچتے ہیں۔


نظر بد‘ کی پُراسرار طاقت پر لوگوں کو اندھا یقین کیوں ہے؟

کوین ہرجیتائی
بی بی سی فیچرز

قدیم مصر میں تحفظ، شاہی طاقت اور اچھی صحت کی علامت عین حورس (آئی آف حورس) سے لے کر امریکی ماڈل جیجی حدید تک ہزاروں برسوں سے آنکھ نے انسانی تخیل پر اپنی گرفت برقرار رکھی ہوئی ہے۔


جب دنیا کی پُراسرار شیطانی قوتوں سے بچنے کی بات آتی ہے تو شاید 'نظرِ بد' سے زیادہ جانی پہچانی اور تسلیم کی جانی والی چیز اور کوئی نہیں۔

اسے ظاہر کرنے والی اور اس سے بچنے کے لیے مؤثر سمجھے جانے والے ٹوٹکوں کا ہر جگہ استعمال کیا جاتا ہے۔ نیلے رنگ کی آنکھ کی تصویر نہ صرف استنبول کے بازاروں میں، بلکہ ہوائی جہازوں کے اطراف سے لے کر مزاحیہ کتابوں کے صفحات تک میں ہر جگہ دکھائی دیتی ہے۔

گذشتہ دہائی میں ایسی تصویریں اکثر فیشن کی دنیا میں نمودار ہوتی رہی ہیں۔ امریکی ماڈل کِم کارڈیشین نے متعدد مواقع پر کھیلوں کے کڑے اور ہیڈ پیس کے ساتھ تصاویر بنوائی ہیں جس میں یہ علامت (شیطانی آنکھ) موجود ہے۔ جبکہ جیجی حدید نے آئی لو نامی جوتوں کا برانڈ متعارف کروا کر سنہ 2017 میں اس رجحان کو مزید فروغ دیا۔