انتخابی جمہوریت اور تحریک اسلامی ۔ پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن 
تاریخ اشاعت : دسمبر ۲۰۲۳
آج پاکستان جس نوعیت کے معاشی ، معاشرتی، سیاسی اور ابلاغی بحران سے گزر رہا ہے سابقہ سات دہائیوں میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔اس بحران کے گہرے اثرات ،ریاستی اداروں میں ہی نہیں بلکہ ایک عام شہری کی زندگی میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔وہ کوئی تاجر ہو یا سرکاری ملازم، طالب علم اور معلم ہو یا طبیب یا کاشت کار ذہنی کش مکش نے اسے ایک شدید ذہنی انتشار (confusion ) اور سماجی تقسیم (social polarization ) میں مبتلا کر دیا ہے۔خاندان کے افراد ہوں یا ایک بازار میں ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی روابط رکھنے والے دکاندار ،جامعات کے طلبہ و اساتذہ ہوں یا فنی ماہرین ہر جگہ ایک واضح تقسیم نظر آتی ہے، جس میں وقت گزرنے کے ساتھ کمی نظر نہیں آرہی۔ اس صورت حال پر بلاکسی تاخیر کے، سنجیدگی کے ساتھ غور اور اس کا حل نکالنے کی ضرورت ہے۔اگر اس بے چینی کو بڑھنے دیا گیا، جو پاکستان دشمن قوتوں کی خواہش ہے، تو یہ بین الصوبائی کش مکش کی حد تک جا سکتی ہے جو ملکی استحکام اور یک جہتی کے لیے زہر کی حیثیت رکھتی ہے۔

ملک میں polarization یا تقسیم کا ایک ردعمل، ایک گونہ مایوسی، نا اُمیدی اور فرار کی صورت نظر آتا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ہزارہا نوجوان جو آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں، ملک سے باہر حصولِ روزگار کی تلاش میں جا رہے ہیں۔یہ عمل ملک میں ذہنی افلاس اور نااُمیدی میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔حالیہ نگران حکومت اور اس سے قبل سیاسی اتحاد کی حکومت معیشت، سیاست، معاشرت، ابلاغ عامہ، ہر سطح پر سخت ناکام رہی ہے۔ عبوری حکومت نواز شریف کو دوبارہ برسرِ اقتدار لانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ برسرِ اقتدار طبقے کو شاید زمینی حقائق کا اندازہ نہیں ہے ۔ ابلاغ عامہ پر مکمل قابو پانے کے باوجود، سابق وزیر اعظم جیل میں ہونے کے باوجود رائے عامہ کے جائزوں میں دیگر جماعتوں سے آگے نظر آتے ہیں ۔

ملّی یک جہتی پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انتخابات اعلان کردہ تاریخ یعنی ۸فروری ۲۰۲۴ ء کو منعقد ہوں اور انھیں متنازعہ نہ بننے دیا جائے ۔ عوام کے فیصلے کا احترام کیا جائے اور اداروں کے احترام کو بحال ہونے کا موقع دیا جائے ۔ اداروں پر عدم اعتماد اور ان کے بارے میں یہ تاثر کے ان کی امداد و حمایت کے بغیر کوئی سیاسی جماعت کامیاب نہیں ہوسکتی، ملکی اداروں کی ساکھ کو تباہ کر دیتا ہے ، اس لیے اداروں کی ساکھ کی بحالی کے بغیر کوئی سیاسی عمل مطلوبہ نتائج نہیں پیدا کرسکتا۔ ان حالات میں جن چند اہم امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ان کا ذیل میں ذکر کیا جا رہا ہے۔

دستور کی بالادستی :موجودہ سیاسی حالات میں تحریک سے وابستہ افراد کے بیانیے میں دستور کی بالا دستی کو سرفہرست ہونا چاہیے۔ دستور کے دائرئہ کار میں رہتے ہوئے سیاسی جدوجہد کے ذریعے تبدیلیٔ قیادت ہماری تحریک کا معروف موقف ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تمام غیر دستوری ذرائع کو رَد کرتے ہوئے مثبت طور پر پُر امن دستوری جدوجہد ہی مطلوبہ نتائج پیدا کر سکتی ہے۔

اس وقت کچھ تحریکی کارکن ابلاغ عامہ کے منفی کردار اور ملک میں پھیلی ہوئی بے یقینی کے زیر اثر یہ سوچنے لگے ہیں کہ انتخابات کا کیا فائدہ ؟جو مراکز ِقوت کچھ عرصہ سے سیاسی تبدیلیاں لا تے رہے ہیں، ان کی غیر رسمی حمایت کے بغیر تحریک اسلامی سیاسی عمل میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔اس منفی فکر کو ذہنوں سے نکالنے کی ضرورت ہے اورپورے اعتماد کے ساتھ اس عزم کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی کوشش کے نتائج صرف اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے رب سے عبادات میں زیادہ کثرت اور انہماک کے ساتھ اللہ پر توکّل کرتے ہوئے ایسی حکمت عملی وضع کرنی چاہیے جو دستورِ جماعت میں درج طریقۂ کار سے پوری مطابقت رکھتی ہو۔

جو بنیادی حقوق ہمیں دستور دیتا ہے، ان کے احیا اور ان پر عمل کرتے ہوئے حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے، چاہے حکمت عملی کی بنا پر کسی سیاسی گروہ کو فائدہ پہنچے یا نقصان اور چاہے اس عمل میں تحریک کو ایک طویل عرصہ تبدیلی ٔقیادت کا انتظار کرنا پڑے۔

تحریکِ اسلامی اور اخلاقی سیاست:تحریک اسلامی کی ایک پہچان یہ ہے کہ تحریک اپنے نصب العین کے حصول کے لیے دستوری اور اخلاقی ذرائع کا استعمال کرتی ہے۔ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ تحریک اسلامی ایک اصولی اصلاحی جماعت ہے جو دین کے مکمل قیام کو ہی مسائل کے حل کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ اور ماضی کے انتشار اور عدم استحکام کا اصل سبب وہ اخلاقی بحران ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں سرایت کر گیا ہے،چنانچہ سیاست ہو یا معیشت و معاشرت، صالح اخلاق کی غیر موجودگی ہی فساد اور انتشار کا حتمی سبب ہے۔اس لیے اخلاقی انقلاب، تعمیر سیرت و کردار اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے احیا کے بغیر ملک و ملت نہ قرضوں سے نکل سکتا ہے اور نہ سیاسی شفافیت اور معاشرتی فلاح کا قیام ہو سکتا ہے۔اسلام اپنے قرآنی اور نبویؐ اخلاقی اصولوں ہی کے ذریعے باطل ،طاغوت و گمراہی ،شرک و لذت پرستی اور اقتدار پرستی پر غالب آیا ۔یہ اسلام کی اخلاقی برتری تھی جس نے اپنے سے بڑی عددی قوت رکھنے والے باغیانہ معاشروں کو زیر کیا اور وہ اسلام کی اخلاقی بر تری کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوئے۔

اسلامی اخلاق کا مقصد فرد، معاشرہ اور ریاست میں توحید ووحدانیت کا قیام ہے۔ گویا فرد کی زندگی کا ہر عمل توحید کا عکس ہو اور اس کا جسم اور دل و دماغ ہر معاملے میں وہی فیصلہ کرے جو خالق حقیقی کو خوش کرنے والا ہو۔معیشت کے میدان میں وہی سرگرمی اختیار کی جائے جو حلال اور نافع ہو اور ہر اس سرگرمی سے بچا جائے جو استحصالی سودی نظام، خود غرضی اور نفع خوری پر مبنی ہو۔ ہرمیدانِ عمل میں حاکمیت نہ عوام کی ہو، نہ پارلیمنٹ کی، نہ عدلیہ کی، نہ انتظامیہ کی بلکہ صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی ہو۔جس بات کو قرآن و سنت نے جائز قرار دیا ہو وہی سیاست، معیشت، معاشرت غرض یہ کہ ہر شعبہ کی زبان قرار پائے۔

جب بھی اللہ کی رضا کی جگہ کسی بیرونی طاقت کی غلامی اور حمایت کو اپنا رب بنایا جائے گا، اندرونی خلفشار اور طوائف الملوکی کی کیفیت کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہوگا۔آج ملک کے کئی صوبوں میں بیرونی دشمنوں کی مدد سے جو باغیانہ ماحول پیدا کیا جا رہا ہے اس کا حل صرف فوج کے استعمال سے نہیں ہو سکتا ۔ اصل چیز باہمی اعتماد کی بحالی اور مقامی مسائل پر خلوصِ نیت کے ساتھ مشاورت کے ذریعے دیرپا حل کا اختیار کرنا ہے ۔ بلاشبہہ مالی اور دیگر وسائل کی منصفانہ تقسیم نہ ہونے کا مسئلہ بھی اہم ہے لیکن اصل مسئلہ اخلاقی زوال اور اخلاص کے فقدان کا ہے۔یہ اخلاقی فساد اور افلاس صرف وہ تحریک ہی دُور کر سکتی ہے جس کی بنیاد رضائے الٰہی پر ہو ۔جو اپنے کارکنوں میں ایمان، تقویٰ، احسان اور ایثار و قربانی اور بے غرضی کی خوبیوں کی بنا پر ممتاز ہو۔ جس کے مخالفین بھی اس کی قیادت اور اس کے عام کارکن کے بارے میں یہ شہادت دیں کہ وہ مالی معاملات میں ایماندار ہیں، ان کا دامن بد معاملگی سے پاک ہے، وہ اپنے گھر میں اہل خانہ کے ساتھ محبت کا رویہ رکھتے ہیں، وہ اپنے مخالف کو بھی سخت زبان سے مخاطب نہیں کرتے، نہ کسی پر طنز و استہزا کے تیرچلاتے ہیں، نہ کسی کا نام بگاڑتے ہیں، نہ کسی کو چور اور بداخلاق کہتے ہیں بلکہ انبیا ؑ کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے ان کا ہر قول قولِ صادق ہے۔ایک عام شہری تحریک کے کارکن کے بارے میں یہ شہادت دینے پر آمادہ ہو کہ وہ حق کی حمایت کرتا ہے چاہے حق بات کہنے میں اس کے سیاسی مخالف کو فائدہ پہنچتا ہو۔

تحریک کے عام کارکن کی یہ اخلاقی برتری ہی تحریک کا سرمایہ اور اس کا بیانیہ ہے۔ یہ بیانیہ جتنا مضبوط ہوگا، تحریک کی جڑیں عوام میں اتنی ہی گہری ہوں گی۔اس کے مقابلے میں اگر تحریک کا عوام کی نگاہ میں تصور یہ ہو کہ یہ بھی ایک مسلکی جماعت ہے جو اسلام کے نام پر حصولِ اقتدار کی جدوجہد کر رہی ہے، تو چاہے تحریک کا ووٹ بینک وسیع ہو جائے، اس کی اکثریت اس کی کامیابی کی ضامن نہیں ہوسکتی۔ گویا تحریک کا بیانیہ اس کا وہ مخلصانہ اصولی اور اخلاقی عمل ہے جو خدمت خلق، اعلائے کلمۃ اللہ اور اخلاقی اصولوں کی سختی سے پیروی کرنے کی شکل میں عوام کے دل و دماغ میں پیوستہ ہو۔یہ اس لیے ضروری ہے کہ تحریک اسلامی ایک سیاسی یا محض ایک تبلیغی جماعت نہیں ہے بلکہ اخلاقی، اصلاحی اور اصولی تحریک ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ اقامت دین محض عبادات کا نام نہیں ہے بلکہ زندگی کے تمام اُمور میں اللہ کی اطاعت کو عملا ًنافذ کر دینے کا نام ہے۔

اب چند لمحات کے لیے اس کی جانب توجہ کی ضرورت ہے کہ اس وقت تک ملک کا منظرنامہ کیا ہے اور اس منظر نامہ میں تحریک کے کرنے کے کام کیا ہیں؟

یہ بات نقشِ دیوار کی طرح نمایاں ہے کہ ملک ایک بڑی مجموعی تبدیلی کا متقاضی ہے۔ یہ محض حکمرانوں کی تبدیلی نہیں چاہتا بلکہ نظم و نسق اور اداروں میں ایک بنیادی تبدیلی (strategic change)کی ضرورت ہے۔اصلاح، جزوی تبدیلی سے نہیں ہو سکتی۔ قومی اجماع اور قومی یک جہتی کے بغیر نئے چہروں کو لانا مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ ملک و ملت کو اس کے مقصد ِوجود کے پیش نظر ایک جامع اصلاحی عمل سے گزرنا ہو گا تاکہ ہر ادارہ اپنے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے وسیع تر قومی یک جہتی اور نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کا فریضہ انجام دے سکے۔

اصولی سیاست کا فروغ: تحریک کا بیانیہ عوام میں یہ احساس پیدا کرے کہ اس کا اصل مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہے جو ایک مجموعی عمل ہے۔ نماز بلاشبہہ اوّلین اہمیت رکھتی ہے، مگر تحریک کا ہدف محض نماز کا قیام نہیں ہے بلکہ زندگی سے دو رخی پر مبنی طرزِ عمل کو چھوڑ کر اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی حاکمیت کو نہ صرف مسجد بلکہ معاشی، معاشرتی ،قانونی ، ثقافتی ، تعلیمی اور سیاسی معاملات میں عملاً نافذ کرنے کا نام ہے ۔ ایک معمولی عقل رکھنے والا فرد بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ اگر اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ حاکمِ کل، خالقِ کائنات اور العزیز ہے، تو کیا یہ بات معقول ہو گی کہ اس کی حاکمیت کا مسجد میں تو اہتمام کے ساتھ ،اس کا نام بلند کیا جائے۔ اس کے برعکس پارلیمان میں قرآن و سنت کے خلاف بل پاس ہوتے رہیں؟ ملکی معیشت اور بین الاقوامی معاشی نظام کے سودی کاروبار میں شرکت جاری رہے بلکہ گریہ و زاری کر کے عالمی مہاجنی اداروں سے سودی قرض کے حصول کی درخواستیں کی جاتی رہیں تاکہ ملک پر جو قرضے ہیں صرف ان پر واجب سود کی ادائیگی کی جاسکے۔ یہ دو عملی اللہ کو راضی نہیں کرسکتی۔ رضائے الٰہی کا ایک ہی طریقہ ،ہرجگہ حاکمیت الٰہی کا قیام ہے۔

مثالی نمایندے: اصولی سیاست کا مطالبہ ہے کہ نہ صرف نظری طور پر بلکہ عملاً تحریک جس فرد کو ایوان نمایندگان کی کسی نشست کے لیے تجویز کرے وہ اپنی سیرت و کردار میں مثالی اوصاف رکھتا ہو۔ وہ اپنی علمی اور فنی قابلیت میں صاحب رائے ہو اور اس کا تعلق جس شہر سے ہو وہ وہاں پر عوامی فلاح کے کاموں کا تجربہ رکھتا ہو اور کسی کے دباؤ میں آکر یا کسی ذاتی منفعت کے لیے مفاہمت کا قائل نہ ہو۔ صرف بے غرض ،خلوصِ نیت اور آخرت میں جواب دہی کا احساس رکھنے والے امیدوار ہی تحریک کے نمایندے ہو سکتے ہیں۔یہاں یہ بات واضح ہو کہ ہمارا مقصود محض نشستوں کا حصول نہیں بلکہ صرف اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اس نشست کا استعمال ہونا چاہیے۔ حدیث شریف میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ نیت دین کی بنیاد ہے اور عہدے کی طلب کرنے والے کسی فرد کو موقع دینا سنت نبویؐ کے خلاف ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ سیکڑوں نمایندگان والی پارلیمنٹ میں ایسے تین چار افراد نےجو اپنے کردار کی بنا پر پہچانے جاتے ہوں، دوسری جماعتوں کی زیادہ تعداد پر اپنے اخلاقی اور اصولی موقف کی بنا پر کامیابی حاصل کی اور خصوصا ً ۱۹۷۳ء کے دستور کی مہم میں اور بعد میں سیاسی جدوجہد میں قلّت ِتعداد کے باوجود تحریک کے باصلاحیت، مخلص اور دیانت دار نمایندوں نے قومی سطح پر سیاسی فیصلوں کے باب میں کلیدی کردار ادا کیا۔اصل قوت، ایمان و کردار کی قوت ہے جو ہرمحاذ پر تحریک کو کامیاب کرتی ہے۔

معاشی فلاح و نجات:ملکی معیشت اور شہریوں کے معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ تحریک معاشی ماہرین کی مدد سے قرضوں سے نجات کا ایک قابل عمل منصوبہ قوم کے سامنے پیش کرے۔ اسے گلی گلی عام کرے ۔اس سلسلے میں بیرون ملک پاکستانیوں کو اپنا حصہ ڈالنے پر آمادہ کیا جائے اور ملک کے اندر سادگی اور اشیائے تعیش کے درآمد اور فروخت پر پابندی اور ملکی مصنوعات کے فروغ کے لیے تجارت اور زراعت دوست پالیسی قوم کے سامنے لائی جائے۔

جدید سائنسی ذرائع کا استعمال:آیندہ پانچ برسوں میں عالمی سطح پر مصنوعی ذہانت کے استعمال کے ذریعے صنعت و تجارت، تعلیم، ابلاغ عامہ اور معاشرت میں غیر معمولی تبدیلیوں کا امکان ہے۔تحریک کو ماہرین کی مدد سے مستقبل کے اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے بغیر کسی تاخیر کے حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے افراد کی کمی نہیں ہے جو جدید علوم سے پیشہ ورانہ واقفیت رکھتے ہیں اور بیرونِ ملک یا ملک میں موجود ہیں ، انھیں خصوصی دعوت پر ایک مجلس فکری میں مدعو کر کے ایک جامع معاشی منصوبہ کو قوم کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ ہم قرضوں کی معیشت سے نکل سکیں۔

نوجوان قیادت کی ہمت افزائی:ملک کی ۷۰ فی صد کے لگ بھگ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، جنھیں آیندہ ۵۰سال اس ملک میں فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہے۔ اس نعمت سے فائدہ اسی وقت اٹھایا جا سکتا ہے جب نوجوان تعلیم یافتہ افراد کو ایسی فکری غذا فراہم کی جائے جو ان امیں اعتماد ، پُر اُمیدی اور نظریہ پاکستان سے وابستگی پیدا کرنے کے ساتھ ان کی صلاحیتوں کو نشوو نما دے ۔اس غرض کے لیے نوجوانوں کے فکری حلقے، کھیلوں کے مقابلے اور اصلاحِ معاشرہ کے کاموں میں ان کی شرکت کے ذریعے ان کی قائدانہ صلاحیتوں کو جلا بخشی جائے، تاکہ وہ آیندہ ۱۰برس میں تحریک کو بالغ نظر ،تصورِ پاکستان کے محافظ فراہم کر سکیں۔اس غرض سے ملک کی تمام جامعات میں تحریری اور تقریری مقابلوں، یوتھ اسمبلیوں اور خصوصاً فلسطین اور کشمیر پر ابلاغی سرگرمیوں کا اہتمام کیا جائے، تو ایسے افراد کو باآسانی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ یہی نوجوان قیادت فراہم کریں گے۔

باحیا ثقافتی مہم: ملک کو درپیش سنگین اخلاقی خطرات میں سر فہرست ٹرانس جینڈر کے نام پر معاشرے میں بنیادی فساد و فحاشی پھیلانے کا عالمی منصوبہ شامل ہے جسے اقوام متحدہ کی سرپرستی میں مغرب و مشرق میں عالمی معاشی اہداف SDG's کی شکل میں ۲۰۰ سے اوپر ممالک پر مسلط کیا جا رہا ہے ۔اس فتنے کو حقوق انسانی کے نام پر پیش کیا جا رہا ہے تاکہ وہ افراد اپنی جنس کا تعین خود کرنے کا حق استعمال کرتے ہوئے خواتین کے غسل خانے میں یہ کہہ کر گھس جائیں کہ ان کے خیال میں وہ عورت ہیں، گو جسم مرد کا ہے۔ اسی طرح اَزدواجی نظام کو درہم برہم کرنے کے لیے ان کا یہ حق تسلیم کیا جائے کہ وہ پیدائشی طور پر جس جنس کے ساتھ پیدا ہوئے انہیں اس کی مخالف جنس کہلانے کا حق ہے اور وہ جس طرح چاہیں اپنی جنسی تسکین کر سکیں۔اس تصور کو بچوں کے کارٹون ،بزرگوں کے ٹی وی مباحثوں ،پارلیمنٹ میں ان کی نمایندگی، حتیٰ کہ عدلیہ اور تعلیمی اداروں اور فوج میں ان کی نمایندگی کے بہانے اخلاق کے تمام الہامی اصولوں کو نظر انداز کر کے ایک اندھی لذت پرست اقلیت کو اللہ کی مخلوق پر مسلط کر نے کے منصوبہ پر عمل کیا جا رہا ہے ۔ اس فتنے کی مخالفت نہ صرف ملک گیر بلکہ عالمی سطح پر کرنے کی ضرورت ہے، کہ تحریک ایک اصولی جماعت ہے اور اس کی بنا پر اگر انتخابات میں کچھ ووٹوں سے ہاتھ دھونے پڑیں تو اسے اس بات کو خوشی اور فخر سے برداشت کرنا چاہیے۔
نظام صدقات و انفاق فی سبیل اللہ: تحریک کو اپنی دستوری انتخابی مہم میں عوام کے سامنے ایک قابل عمل منصوبہ پیش کرنا چاہیے جسے ماہرین معاشیات تیار کریں اور جس میں اعداد و شمار کی مدد سے دکھایا جاسکے کہ اگر صرف زکوٰۃ،صدقات، قرضِ حسن اور انفاق فی سبیل اللہ کی مہم کو ایمانداری سے چلایا جائے اور زکوٰۃ کی رقوم کو قابل اعتماد ادارے وصول کریں اور تحقیق کی بنیاد پر مستحقین کو ان کا حق دیں، تو ملک کو درپیش معاشی مسائل کو بڑی حد تک حل کیا جاسکتا ہے اور ملک سے بے روزگاری، فاقہ کشی اور بہت سی اموات کو روکا جا سکتا ہے جو معاشی بدحالی کی بنا پر واقع ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب مدینہ اکنامکس ایک بڑی مفید پیش کش ہے، جو معاشی اصلاح کا ایک واضح نقشۂ کار پیش کرتی ہے۔

نوجوان رضاکاروں کی قوت:ملک میں نو عمر افراد کی ایک بڑی تعداد زندگی کے مقصد سے عدم آگہی ، صحیح رہنمائی اور صحیح تربیت نہ ہونے کی بنا پر بے راہ روی اور نشہ آور اشیا کے استعمال کی عادی بنتی جا رہی ہے ۔ان نوجوانوں کو اصلاح معاشرہ کے پروگرام میں بطور رضاکار شامل کر کے ان کی کونسلنگ اور ان کی قوت کارکردگی کو مثبت اور تعمیری کاموں میں لگا کر انھیں نشے اور دیگر اخلاقی خرابیوں سے بتدریج ایک نفسیاتی اور اسلامی حکمت عملی کے ذریعے نکال کر ایک بامقصد اور تعمیری زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھانے کی ضرورت ہے ۔ اس مقصد کو شہروں اور گاؤں میں نوجوانوں کے سوشل ورک کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ تعلیم ، صفائی، صحت اور امداد باہمی کی مہم کے ذریعے بنیادی مسائل کے حل میں ان کی امداد کی جا سکتی ہے ۔ یہی نوجوان تحریک کو نیا خون اور ولولہ فراہم کریں گے۔
دستوری جدوجہد ، ووٹ کی حیثیت:تحریک کو ووٹ کی شرعی اہمیت اور ووٹ کے ذریعے اپنی آزاد رائے کا استعمال کرنے پر عوامی مہم چلانی چاہیے تاکہ لوگ انتخاب کی اہمیت سے آگاہ ہوں۔ ان میں یہ اعتماد پیدا ہو کہ اگر وہ کسی صحیح اور سچے امیدوار کے لیے ووٹ کا استعمال کریں گے تو ان کا یہ عمل دنیا اور آخرت میں اجر کے حصول کا ذریعہ ہوگا ،اور پر امن اصلاحی تبدیلی میں مددگار ہوگا۔

دین و سیاست:  اس معاملے کو جہاں کہیں ضرورت ہو اٹھانا چاہیے کہ دین اور سیاست دو الگ دائرے نہیں ہیں۔ دین اور سیاست کے یک جا تصوّر سے عوام کو آگاہ کرنا ایک دینی فریضہ ہے ۔ یہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا عملی استعمال ہے ۔اس لیے پرانے نظام سے پیدا ہونے والی مایوسی کی جگہ پر اُمیدی کے ساتھ حق رائے دہی کو استعمال کیا جائے تاکہ ملک میں نظامِ عدل کے قیام کو یقینی بنایا جا سکے۔

صبر و تحمل اور قولِ حسن کا اہتمام:سیاسی مہم میں عموما ًعقل پر جذبات غالب آجاتے ہیں، اس لیے تحریک سے وابستہ افراد کو خصوصاً اپنے ایک ایک لفظ کو سوچ سمجھ کر اور قرآن و سنت کے بتائے ہوئے اصولوں یعنی حُسنِ ظن، قول معروف ،شہادت حق اور اکرام مسلم کے پیش نظر وہ اسلوب اختیار کرنا چاہیے جو تحریک کی اصل پہچان ہے۔ماضی کے تلخ تجربات کو نظر انداز کرتے ہوئے تحریکی کارکنوں کو اُمید کے چراغ روشن کرنے اور رضائے الٰہی کے لیے جدوجہد کرنے میں نتائج سے بے پرواہ ہونے کے جذبہ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ تحریک دیگر شعبوں اور تنظیموں سے ممتاز ہو۔ اس جدوجہد میں اللہ تعالیٰ کے حضور راتوں کے لمحات میں اور دن کی روشنی میں ہر لمحہ استعانت کی درخواست ، استقامت کی دعا اور دین کی سربلندی کی استدعا کرنا ایک انتہائی اہم کام ہے۔اسباب و وسائل کی اہمیت اپنی جگہ پر ہے لیکن اصل کامیابی دینے والا صرف اور صرف رب کریم ہے،اسی کی طرف رجوع کرنا اور اسی کی امداد طلب کرنا ہی تحریک کا شعار ہے۔

قومی انتخابات کا ناگزیر تقاضا: جماعت اسلامی وہ جماعت ہے جس نے اپنا مفصل منشور انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے پہلے ہی شائع کر دیا ہے۔ اس منشور میں جو پروگرام اور ہدف قوم کے سامنے رکھا گیاہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کی بنیاد اسلامی نظریۂ حیات ہے اور اس کی ریاست اور معاشرے کی تعمیر کا اصل ہدف اسلامی نظریے کی روشنی میں زندگی کے ہرشعبے کی تشکیل و تعمیر نو ہے۔ یہی بات پاکستان کے دستور میں صاف الفاظ میں کہی گئی ہے اور اس کا ہر رکن اسمبلی حلف اُٹھاتا ہے۔ گوبدقسمتی سے اس سے سب سے زیادہ غفلت اور انحراف حکومتوں اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں ہی نے کیا۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ ووٹر ۸فروری ۲۰۲۴ء کو منعقد ہونے والے انتخابات میں اپنا ووٹ بہت سوچ سمجھ کر استعمال کریں اور ایک ایسی قیادت کو منتخب کریں جو ملک و ملّت کی حقیقی اسلامی تشکیل کا عزم اور صلاحیت رکھتی ہو۔ آج اگر ووٹر اپنے اس حق کو ٹھیک ٹھیک استعمال نہیں کرتا تو حالات کو بدلنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔

اسلامی نظریے کی تشکیل ہی کا یہ پہلو بھی ہے کہ ملک میں ایک جمہوری اور عوام دوست اور عوام کا معتمدعلیہ نظام قائم ہو جس میں انفرادی آزادی، انسانی حقوق کی پاسداری اور معاشرتی فلاح کا پورا اہتمام ہو۔ اس امر کا بھی پورا لحاظ رکھا جائے کہ ملک کے عسکری ادارے اور اسٹیبلشمنٹ اپنی تمام توانائیاں ملک کی سیکورٹی پر مرکوز کریں اور سیاست میں مداخلت سے مکمل اجتناب کریں۔ اسی طرح ملک کے جن علاقوں میں غربت، وسائل کی عدم فراہمی اور قومی سطح پر احساسِ محرومی کا احساس ہے، ان کی شکایات کو دُور کیا جائے اور انھیں قومی دھارے میں واضح کردار ادا کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ اس کے ساتھ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ ملک میں معاشی اور سیاسی ہردواعتبار سے مکمل خودانحصاری (self-reliance) کی حکمت عملی اختیار کی جائے۔ عالمی بلاکس سے اپنے کو آزاد رکھا جائے اور سب کے ساتھ برابری کی بنیاد پر خارجہ اُمور کو طے کیا جائے۔ پاکستان کے لیے کشمیر کا مسئلہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی میں اسے مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہیے اور تحریک ِ آزادیٔ کشمیر کی ہرممکن مدد و معاونت کی جائے۔ عالمی سطح پر فلسطین کے مسئلہ اور اس کے منصفانہ حل کو بھی اُجاگر کرنے، اور خصوصیت سے اسرائیل کے مکمل عالمی معاشی بائیکاٹ کے لیے مؤثر کوشش کی جائے۔ان سب کے ساتھ ایک اہم مسئلہ ملک میں ہرسطح پر کرپشن کا سیلاب ہے جس نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ پاکستان میں عورتوں کو وہ تمام حقوق بلاکم و کاست دیئے جائیں، جو اسلام انھیں دیتا ہے، اور جن میں سے بیش تر سے وہ محروم ہیں۔ان تمام اُمور پر فوری توجہ وقت کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کا انحصار ۸فروری ۲۰۲۴ء کو ہونے والے الیکشن کے صاف و شفاف اور منصفانہ ہونے اور ووٹر کے اپنے حق کو صحیح صحیح استعمال کرنے پر ہے۔ ہم عوام سے اس فیصلہ کن مرحلے میں الیکشن میں بھرپور شرکت اور ووٹ کے استعمال کی اپیل کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں جماعت اسلامی کا کردار ملک گیر اور ہمہ پہلو ہونا چاہیے۔ اس کام کا مکمل نقشہ مرتب کیا جائے اور اس کو گھر گھر پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں میڈیا اور سوشل میڈیا دونوں کا بھرپور استعمال ازبس ضروری اور فیصلہ کن ہے۔