’’طوفان الاقصیٰ‘‘ کا پس منظر اور پیش منظر۔ مولانا زاھد الراشدی

طوفان الاقصی کا پس منظر اور پیش منظر۔ مولانا زاھد الراشدی
مقام / زیر اہتمام:
دارالعلوم نقشبندیہ امینیہ، ماڈل ٹاؤن، گوجرانوالہ
تاریخ بیان:
۶ نومبر ۲۰۲۳ء

عالمی ادارہ تنظیم الاسلام کے زیر اہتمام مسئلہ فلسطین پر تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کے مشترکہ اجتماع سے گفتگو کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں عالمی ادارہ تنظیم الاسلام، محترم مولانا پیر محمد رفیق احمد مجددی اور مولانا سعید احمد صدیقی کا شکرگزار ہوں کہ فلسطینی تنظیم حماس کے ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ آپریشن کے بعد بیت المقدس اور غزہ کی صورتحال کے حوالے سے مجھے اس اجتماع میں حاضری اور کچھ باتیں عرض کرنے کا موقع دیا۔ ہر طرف غم کا ماحول ہے لیکن ان بچوں کو سامنے دیکھ کر خوشی کا اظہار کرنا چاہوں گا کہ یہ ہماری مستقبل کی قیادت ہے، اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائیں۔ ابھی محترم مولانا سعید احمد صدیقی امتِ مسلمہ کی بات کر رہے تھے تو میرے ذہن میں ایک حدیث مبارکہ آ گئی وہ عرض کر دیتا ہوں۔

حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کہتے ہیں کہ غزوۂ خندق کے موقع پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ’’اکتبوا لی من تلفظ بالاسلام‘‘ یعنی کلمہ پڑھنے والوں کی تعداد معلوم کرو کتنی ہے۔ یہ پہلی مردم شماری تھی جو غزوہ خندق کے موقع پر ہوئی تھی۔ جب مسلمان گنے گئے تو چھوٹے بڑے ملا کر پندرہ سو کے لگ بھگ تھے۔ حضرت حذیفہ بن الیمانؓ نے رپورٹ اس طرح پیش کی کہ یا رسول اللہ! جب ہم تین سو تیرہ تھے تو کافر ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے تھے، آج تو ہم پندرہ سو ہیں۔ اس پر ہم ذرا غور کریں کہ آج دنیا میں کتنے مسلمان ہیں اور ان کی کیا حالت ہے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ ایمان ہو تو پندرہ سو دنیا پر حاوی ہو جاتے ہیں، اور ایمان کمزور ہو تو وہی ہوتا ہے جو آج ہمارا حال ہے۔

آج کا سوال یہ ہے کہ حماس نے اسرائیل پر حملے کا اقدام کیوں کیا اور اس سے فائدہ کیا ہوا ہے؟ میرے خیال میں انہوں نے اس سے تین اہداف حاصل کیے ہیں:پہلا یہ کہ حماس نے ۷ اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ اس ماحول میں کیا کہ چند بڑے مسلم ممالک کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے حوالے سے مذاکرات چل رہے تھے اور خاصی پیشرفت ہو رہی تھی۔ مگر حماس کے حملے نے اس منصوبہ کو روک دیا ہے اور اب تک اس پر اسرائیلی ردعمل کے نتیجے میں دس ہزار کے لگ بھگ فلسطینی قربان ہو چکے ہیں۔ اتنے بڑے منصوبہ کو روکنے کے لیے اتنی بڑی قربانی کی ضرورت تھی ورنہ آج صورتحال مختلف ہوتی۔ اس حوالے سے میں حماس کو خراجِ عقیدت پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے بروقت جراتمندانہ قدم اٹھایا ہے۔

یہ کہا جاتا تھا کہ اسرائیل ناقابلِ تسخیر قوت ہے اور اسرائیل کا دفاعی نظام اتنا مضبوط ہے کہ اس پر کوئی حملہ کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ حماس کے طوفان الاقصیٰ آپریشن سے یہ مغالطہ بھی دور ہو گیا ہے۔ اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کو اس وقت شدید پریشانی لاحق ہے کہ اسرائیل سے بھی لڑا جا سکتا ہے اور اس کے ناقابل تسخیر ہونے کا تصور پاش پاش ہو کر رہ گیا ہے۔ درمیان میں یہ بات عرض کروں گا کہ اس طرح کے سوالات اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ نئی نسل اپنی تاریخ سے واقف نہیں ہے۔ ہم نے صلاح الدین ایوبیؒ اور نور الدین زندگیؒ کا نام سن رکھا ہے لیکن ان کی زندگی کے بارے میں ہم نہیں جانتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ریاستی نظامِ تعلیم میں ہماری نئی نسل کو دانستہ طور پر اپنے ماضی سے بے خبر رکھا گیا ہے، جبکہ ہمارے دینی مدارس میں بھی یہ ذوق نہیں ہے اور ہماری غفلت ہے کہ ہم اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔

تیسرا یہ کہ اب نوبت یہاں تک آ گئی تھی کہ ہماری ایک بڑی شخصیت نے کہہ دیا تھا کہ یہ فلسطین میں اسرائیل اور حماس کے دو گروہوں کا جھگڑا ہے۔ میرے خیال میں حماس نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ دو گروہوں کا جھگڑا نہیں ہے، اور یہ صرف فلسطین کا جھگڑا بھی نہیں ہے، بلکہ یہ جھگڑا جکارتہ کا ہے، استنبول، لاہور، قاہرہ، لندن اور واشنگٹن کا جھگڑا ہے۔ اسرائیل کی بمباری کے نتیجے میں دس ہزار سے متجاوز شہداء ایک بار پھر اس مسئلہ کو عالمی منظر پر لے آئے ہیں اور اب یہ مسئلہ فلسطین کا نہیں رہا بلکہ یہ عالم عرب اور عالم اسلام کے مسئلہ کے طور پر دنیا کے سامنے آیا ہے۔ فلسطینی عوام نے قربانی دے کر عالمی رائے عامہ کو ایک بار پھر فلسطین اور بیت المقدس کے عالمی تنازعہ کی طرف متوجہ کر لیا ہے۔ بڑے کام قربانی کے بغیر نہیں ہوتے، اور جب مسلم حکومتیں کچھ نہ کریں تو عوام کی قربانی ہی سے مقصد حاصل ہوتا ہے۔

اس صوتحال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اس حوالے سے تین دائرے ہیں:پہلا دائرہ یہ ہے کہ مسلم حکمران رسم پوری کرنے کےلیے ہی کہیں اکٹھے ہو جائیں۔ عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) والے مل بیٹھیں۔ مجھ سے ایک دوست نے پوچھا کہ اکٹھے بیٹھ کر وہ کیا کریں؟ میں نے عرض کیا کہ چائے پئیں، گپ شپ کریں اور آخر میں تھوڑی دیر مراقبہ کر کے اپنے دل سے پوچھیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا ’’فاستفت قلبک‘‘ اپنے دل سے پوچھو۔ میرا ان حکمرانوں سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ کچھ دیر کے لیے مل بیٹھیں، کھانے اور چائے کے بعد تھوڑی دیر سر نیچا کر کے اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے دل سے پوچھیں کہ کیا کرنا ہے؟ میں نے کہا کہ آپ ان حکمرانوں سے مایوس ہوں گے لیکن میں ان کے دل سے مایوس نہیں ہوں۔

دوسرا دائرہ عوامی بیداری کا ہے اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس مسئلہ پر دنیا بھر میں آواز بلند ہو رہی ہے۔ اس سلسلہ کو اور زیادہ منظم کرنے کی اور مزید پھیلانے کی ضرورت ہے۔ جتنی زیادہ آواز بلند ہو گی اتنا ہی فلسطینی مسئلہ کو تقویت ملے گی اور حماس کا حوصلہ بڑھے گا۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم فلسطینی مسلمانوں کی حمایت کریں اور انہیں حوصلہ دلائیں۔ گزشتہ دنوں حماس کے نمائندہ ڈاکٹر خالد صاحب کا پیغام ملا کہ جب آپ لوگ جلوس نکالتے ہیں، سڑکوں پر آتے ہیں تو ہمارا حوصلہ بڑھتا ہے کہ ہم اکیلے نہیں ہیں بلکہ لاہور، جکارتہ اور استنبول وغیرہ ہمارے ساتھ ہیں۔ ان مظاہروں، سیمیناروں اور پروگراموں نے فلسطین اور حماس کو حوصلہ دیا ہوا ہے کہ ہمارے مسلمان بھائی ہماری پشت پر ہیں۔ ہم اس سیاسی جنگ میں اپنا کردار ادا کریں، باہمی تقسیم چھوڑ کر فلسطین کی حمایت کے حوالے سے مذہبی، سیاسی یا سماجی جو پارٹی بھی کام کر رہی ہے اس کے ساتھ شریک ہوں، اور جو کچھ بھی ہم کر سکتے ہیں اس سے دریغ نہ کریں۔

تیسرا دائرہ اپنے مظلوم بھائیوں، بہنوں اور بچوں تک امداد پہنچانے کا ہے۔ جو بھی قابلِ اعتماد ذرائع ہوں ان کے ذریعے فلسطینی مسلمانوں کی جتنی بھی مدد کر سکیں ہمیں کرنی چاہیے۔ اللہ رب العزت فلسطینیوں کی غیبی نصرت و مدد کے ساتھ انہیں اس جہاد میں کامیابی سے ہمکنار فرمائیں، اور ہمیں اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا ارحم الراحمین۔