اسلام اور جدیدیت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
اسلام اور جدیدیت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

مولانا وحید الدین خان : سیرت و کردار


 مولانا وحیدالدین خان صاحب اپنے کردار کے بارے میں ایک جگہ لکھتے ہیں:

"اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں امت مسلمہ کے احیاءکی تحریک باہمی سطح پر چل رہی ہے۔ اس میں امت کے تمام درد مند افراد شریک ہیں۔ میں نے اپنے مطالعے میں پایا کہ احیاءملت کی یہ تحریکیں ننانوے فیصد کی حد تک اسی پہلو پر چل رہی ہے جس کو آپ اسلام کا عملی پہلو کہہ رہے ہیں۔ آپ دیکھیں تو ان میں سے کوئی نماز اور روزہ اور حج جیسے اسلامی اعمال کا نظام قائم کرنے میں مصروف ہے۔ کسی نے اسلام کی سماجی پہلووں پر اپنی توجہ لگا رکھی ہے، کوئی اسلام کے سیاسی ڈھانچے کو زندہ کرنا چاہتا ہے۔ کوئی مسجد اور مدرسے کے نظام کو قائم کرنے میں مصروف ہے ، کوئی مسلمانوں کے خاندانی نظام کو اسلامی احکام پر تشکیل دینا چاہتا ہے۔ کوئی ملی مسائل، یا کمیونٹی ورک کے میدان میں محنت کر رہا ہے وغیرہ۔ لیکن میں نے اپنے تجربہ میں پایا کہ عصری اسلوب میں اسلام کی اسپرٹ کو جگانے کا کام کوئی نہیں کررہا ۔ اس لئے ہم نے اپنے آپ کو اس چھوٹے ہوئے کام میں لگا دیا ہے۔ گویا کہ ہمارا مشن احیاءملت کے مجموعی کام میں ایک تتمّہ (Supplement) کی حیثیت رکھتا ہے۔ موجودہ حالات میں یہی چیز ممکن اور قابل عمل ہے۔ احیاءملت کا موجودہ کام جو عالمی سطح پر انجام پا رہا ہے۔ اس کی حیثیت ایک پراسس (Process) کی ہے، اس پر اسس میں ساری تحریکیں اور سارے اجزائے ملی شریک ہیں۔ ہمارا مشن بھی اس پراسس کا ایک حصہ ہے ، یہ پراسس گویا کہ ایک بلا اعلان تقسیم کار کا معاملہ ہے۔ اس پراسس کے مختلف اجزاءمیں کوئی ایک بھی ساری ملی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتا اور نہ کر رہا ہے۔ ہر ایک کسی ایک پہلو سے ملت کی خدمت انجام دے رہا ہے، ہر ایک کو اپنی نیت اور اپنے اخلاص کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے یہاں انعام ملے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ملت کے اندر تنقید نہیں ہونی چاہیئے، حقیقت یہ ہے کہ دوسری ضرورتوں کی طرح تنقید بھی ملت کی ایک ناگزیر پر ضرورت ہے، تنقید حدیث کے الفاظ میں (المومن مرآة المومن) ایک مومن دوسرے مومن کے لئے آئینہ ہے کے اصول کی تکمیل ہے علمی تنقید ہمیشہ ذہنی ارتقاءکا ذریعہ ہوتی ہے۔ اگر علمی تنقید کا طریقہ ختم کیا جائے تو اس کے نتیجے میں صرف یہی نہیں ہو گا کہ علمی تنقید باقی نہیں رہے گی، بلکہ ذہنی ارتقاءکا عمل رُک جائے گا۔ اس کے نتیجے میں ذہنی جمود پید اہو جائے گا جو کسی گروہ کے لئے سم قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔" (بحوالہ الرسالہ مارچ 2007، 142-3

خدا سے متعلق الحاد کے 10 سوالات (حصہ پنجم ) ۔ جاوید احمد غامدی


اس پروگرام میں درج ذیل سوالات کے جوابات دیے گئے ہیں:

1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑسے خواب میں حضرت اسمٰعیل ؑ کو ذبح کرنے کا مطالبہ کیوں کیا؟
2۔ کیا قربانی کی حقیقت سمجھانے کے لیے حضرت ابراہیم ؑکو خواب دکھایا گیا؟
3۔ کیا عمل کا امتحان انبیا کے لیے انسانوں کی نسبت زیادہ سخت ہوتا ہے؟
4۔ کیا قربانی کی حقیقت خواب کے علاوہ کسی اور ذریعے سے نہیں سمجھائی جا سکتی تھی؟
5۔ کیا حضرت اسمٰعیل ؑ بالکل بچے تھے جب حضرت ابراہیم ؑنے انھیں مکہ میں چھوڑا؟

ڈاکٹر فضل الرحمٰن کے بنیادی افکار

محمد یونس قاسمی

ڈاکٹر فضل الرحمن کے بنیادی افکار
ڈاکٹر فضل الرحمان 21 ستمبر 1919 کو پاکستان میں پیدا ہوئے۔ حفظ قرآن اور دیگر ابتدائی تعلیم  اپنے گھر اورمقامی سکول سے حاصل کی۔ 1942 میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے عربی  ادب میں امتیازی نمبروں کے ساتھ ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ آکسفرڈ یونیورسٹی  میں  Avecena's Psychology  پر شاندار مقالہ لکھا  جس پر انہیں  1949 میں  ڈی فل  کی ڈگری  سے نوازا گیا۔ وہ 1950-1958 تک ڈرہم یونیورسٹی میں فارسی زبان  اور اسلامی فلسفہ کے استاذ رہے۔ 1958 میں وہ مونٹریال کی میک گل یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر مقرر ہوئے، جہاں وہ 1961 تک  علمی خدمات انجام دیتے رہے۔

1962 میں انہیں پاکستان میں سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ ( موجودہ ادارہ تحقیقات اسلامی ) کا ڈائریکٹرجنرل  نامزد کیا گیا جہاں انہوں نے 1968 تک  اسلام کو اس کے بنیادی اصولوں کے لحاظ سے عقلی اور لبرل انداز میں بیان کرنے، عالمگیر بھائی چارے، برداشت اور سماجی انصاف جیسے اسلامی اصولوں پر زور دینے، جدید دنیا کی فکری و سائنسی ترقی میں اسلام کے متحرک کردار کوسامنے لانے، سائنس ، ثقافت اور فکر ونظر کے شعبوں میں اسلام کی خدمات پر تحقیق کو فروغ دینے اور اسلامی تاریخ ، فلسفہ ، قانون اور فقہ میں تحقیق کا دائرہ بڑھانے جیسے اہم امور  کے حوالے سے خدمات انجام دیں۔  1969 میں انہیں شکاگو یونیورسٹی میں اسلامی فکر کا پروفیسر مقرر کیا گیا اور 1987 میں شکاگو یونیورسٹی نے پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن کو  ان کی شاندار علمی  شراکت کے اعتراف میں  ہیرالڈ ایچ سوئفٹ کے  اعزاز سے نوازا۔ 26 جولائی 1988 کو پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن دل کی سرجری کی پیچیدگیوں  کے باعث 68 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔

پروفیسرڈاکٹر فضل الرحمن کا کام چار دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ انہوں نے دس کتابیں لکھیں،درجنوں جرائد کے لیے مقالات لکھے،بہت سارے انسائیکلوپیڈیا کے لیے مضامین اور کئی کتابوں کے جائزے (Book reviews)لیے۔اس سارے کام کو دیکھتے ہوئے  ان کے فکری فریم ورک کو چار چیزوں میں تقسیم کرکے سمجھا جاسکتا ہے۔