تاریخ دعوت وعزیمت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
تاریخ دعوت وعزیمت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

تخت و تقدس: حضرت سلیمانؑ کی سلطنت، حکمت اور بندگی کا قرآنی منظرنامہ

 آسمان کے نیلے گنبد تلے، بادیہ کی گرم ہواؤں میں ایک پرندہ پرواز کر رہا تھا۔ وہ ہدہد تھا، ایک ننھا مسافر، مگر اپنے مشاہدے میں بے مثال۔ وہ سلیمانؑ کے لشکر کا ایک ادنیٰ سپاہی تھا، مگر اپنی پرواز میں آزاد اور اپنی نگاہ میں گہرا۔ وہ بادشاہ سلیمانؑ کی جانب سے زمین کی سلطنتوں کا حال معلوم کرنے پر مامور تھا، اور اسی جستجو میں وہ ایک ایسی سرزمین پر جا پہنچا جو حیرت انگیز شان و شوکت کی حامل تھی۔ یہ سبا کی سلطنت تھی، اور اس کی ملکہ بلقیس، جس کا جاہ و جلال اپنی مثال آپ تھا۔

ہدہد نے ایک ایسی قوم کو دیکھا جو سورج کی پرستش کرتی تھی۔ وہ حیران ہوا کہ کس طرح ایک دانش مند حکمران اور اس کی رعایا روشنی کے دھوکے میں حقیقت سے منہ موڑ چکی تھی۔ اس نے فوراً سلیمانؑ کی بارگاہ میں واپسی کا قصد کیا۔ جب وہ سلیمانؑ کی خدمت میں پہنچا، تو سر جھکایا اور عرض کیا:

"میں نے وہ کچھ دیکھا ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ میں سبا کی ایک عظیم سلطنت سے آیا ہوں جہاں ایک عورت حکمرانی کر رہی ہے۔ اسے ہر چیز دی گئی ہے، ایک عظیم تخت بھی رکھتی ہے۔ میں نے اسے اور اس کی قوم کو سورج کو سجدہ کرتے پایا، جبکہ شیطان نے ان کے اعمال انہیں خوشنما بنا دیے ہیں اور وہ سیدھے راستے سے روک دیے گئے ہیں۔"

سلیمانؑ نے غور سے سنا، پھر فرمایا:

"ہم دیکھیں گے آیا تم نے سچ کہا یا تم جھوٹے ہو۔ میرا یہ خط لے جا اور ان کے پاس ڈال دے، پھر دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔"

ہدہد برق رفتاری سے سبا پہنچا اور خط محل کے اندر جا گرایا۔ ملکہ بلقیس تخت پر براجمان تھی، اس نے خط اٹھایا اور بلند آواز میں پڑھا:

"بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ سُلَیْمٰنَ کی طرف سے ہے اور یہ کہ تم میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرو اور مسلم ہو کر میرے پاس آ جاؤ۔"

خاموش گواہ

 پیش لفظ 

آج نماز فجر کے بعد جب میں نے  سورۃ غافر کی وہ آیت پڑھی، جس میں ایک مردِ مومن اپنے دل کی روشنی کو زبان کی جرأت میں ڈھالتا ہے، تو مجھے یوں لگا جیسے وقت تھم گیا ہو۔ جیسے صدیاں پیچھے پلٹ کر مجھے ایک لمحے میں کھینچ لائیں — وہاں، فرعون کے ایوان میں، ساز و رقص کی گونج میں، خوف اور غرور کی بُو میں، ایک آدمی خاموشی سے کھڑا ہے۔ بولنا چاہتا ہے، ڈرتا ہے، پھر بول پڑتا ہے — اور وقت گواہ بن جاتا ہے۔

میں دیر تک سوچتا رہا: کیا ہم میں سے ہر ایک کے اندر ایک مردِ مومن چھپا ہوا ہے؟ وہ جو سچ جانتا ہے مگر مناسب لمحے کا انتظار کرتا ہے؟ اور کیا سچ کی سب سے خوبصورت صدا وہی نہیں جو ظلم کی گونج میں گم ہو کر بھی تاریخ کا چراغ بن جاتی ہے؟

یہ ناولچہ — خاموش گواہ — میرے دل کے ایک گہرے گوشے سے نکلی ہوئی تحریر ہے۔ یہ فقط ایک تاریخی بیان نہیں، بلکہ میرے احساس کا وہ عکس ہے جو میں نے قرآن کی تلاوت کے دوران محسوس کیا۔ جب میں نے مردِ مومن کی باتیں پڑھیں، تو مجھے لگا جیسے وہ مجھ سے مخاطب ہے — جیسے کہہ رہا ہو:
"ڈرو مت، کہو سچ، چاہے تمہیں اکیلا ہی کیوں نہ بولنا پڑے۔"

میں نے اس داستان کو افسانوی روپ دیا، مگر دل میں اس کی حقیقت کی روشنی برابر جلتی رہی۔ میں چاہتا ہوں کہ قاری نہ صرف اسے پڑھے، بلکہ محسوس کرے — یوں جیسے وہ خود ایوانِ فرعون میں کھڑا ہو، یا خاموش گواہ کی زبان سے بول رہا ہو۔

یہ پیش لفظ نہیں، ایک دعائیہ عرض ہے:
اے اللہ! ہمیں بھی اُن لوگوں میں شامل فرما جو سچ بولتے ہیں، چاہے وقت کے فرعونوں کی تلواریں ہماری طرف ہی کیوں نہ اٹھی ہوں۔ آمین۔

احمد طیب 

۷ اپریل ۲۰۲۵ 

واہ کینٹ 

سیرت : روشنی کا سفر (قسط ۱)

قاری کے نام چند کلمات

یہ کوئی عام سیرت کی کتاب نہیں، بلکہ ایک منفرد اور دلنشین بیانیہ ہے، جو آپ کو چودہ صدیاں پیچھے لے جائے گا۔ ہم نے اسلوب کی روایتی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے سیرتِ طیبہ ﷺ کو ایک جذباتی، مؤثر، اور کہانی نما انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

یہ محض ایک تاریخی بیان نہیں، بلکہ ایک ایسا تخلیقی سفر ہے جو آپ کو محسوس کرائے گا کہ جیسے آپ خود اس دور میں موجود ہیں، ان گلیوں میں چل رہے ہیں جہاں نبی اکرم ﷺ کے قدموں کے نشان ثبت ہوئے، ان آسمانوں کو دیکھ رہے ہیں جو آپ ﷺ کی پیدائش کی رات جگمگا اٹھے، اور ان لوگوں کے درمیان کھڑے ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اس نور کی کرنوں کو محسوس کیا۔

یہ ایک منفرد تخلیقی پراجیکٹ ہے، جس میں ہم سیرت کو محض معلومات کے لیے نہیں، بلکہ دلوں پر اثر ڈالنے کے لیے پیش کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ آپ اسے پڑھتے ہوئے اس مبارک سفر کا حصہ بنیں گے اور اس سے وہ روشنی اخذ کریں گے جو صدیوں سے قلوب کو منور کرتی آ رہی ہے۔

مکی و مدنی زندگی: نبوی دعوت کے دو ادوار کا تقابلی جائزہ

رسول اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ کو بنیادی طور پر دو ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے: مکی اور مدنی دور۔ یہ دونوں ادوار اپنے حالات، چیلنجز، اور معاشرتی حالات کے اعتبار سے نہایت مختلف تھے، تاہم ہر دور نے اسلام کی دعوت اور تشکیلِ امت میں ایک خاص اور منفرد کردار ادا کیا۔ اس مقالے میں ہم نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مکی اور مدنی زندگی کا ایک تقابلی جائزہ پیش کریں گے تاکہ ان دونوں ادوار میں درپیش مشکلات، تبدیلیوں، اور اسلامی اصولوں کے نفاذ کے مراحل کو سمجھا جا سکے۔

اس نقشہ میں نبی ﷺ کی مکی اور مدنی زندگی
کے واقعات نمایا ں ہیں


مکی زندگی: جاہلی معاشرے میں دعوتِ حق

1. ماحول اور حالات

مکی دور کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام کو ایک ایسے معاشرے میں رہنا پڑا جو جاہلیت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس دور کے نمایاں خد و خال درج ذیل تھے:

  • مشرکانہ عقائد، بت پرستی اور مذہبی جمود

  • ظلم و استبداد، غلامی، اور طبقاتی تقسیم

  • سودی معیشت اور اخلاقی بے راہ روی

  • قبائلی عصبیت اور انتقام کی روایت

  • عورتوں کی حق تلفی اور بچیوں کا قتل

ایسے ماحول میں نبی اکرم ﷺ نے توحید کا پیغام پیش کیا، جو قریش کے سرداروں کے مفادات کے خلاف تھا، اسی وجہ سے ان کی شدید مخالفت ہوئی۔

احیائے اسلام کی تحریکیں عہد بعہد ۔ جاوید احمد غامدی



 ٹائم اور موضوعات کی فہرست

0:03 | خارجی تحریک
51:56 | شیعہ تحریک
2:04:07 | تصوف کی تحریک
2:58:19 | تحریک خلافت
3:34:02 | جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون کی تحریک
4:13:02 | امت مسلمہ کی موجودہ صورت حال
5:44:12 | المورد کا تعارف اور موجودہ صورت حال
7:01:08 | خلافت یا جمہوریت
7:27:37 | ہماری دینی ذمہ داریاں
8:36:26 | سوال و جواب