مدرسۂ فراہی کے تصورِ نظم قرآن سے متعلق یہ سوال بہت اٹھایاجاتا ہے کہ یہ قرآن کے کلام میں موجود ہے یا خارج سے کلام الٰہی میں ڈالا جارہا ہے؟ ذیل کی سطور میں اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس سوال کا مختصراً جواب تو یہ ہے کہ مدرسۂ فراہی کا تصورِنظم قرآن خارجی نہیں، بلکہ یہ قرآن کے کلام ہی سے ماخوذ ہے۔اب اس کو تفصیل سے سمجھتے ہیں۔
|
مصنف: ساجد حمید |
مقدر مقدمات
مولانا فراہی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ قرآن فہمی میں رکاوٹ مقدر مقدمات کونہ سمجھنے میں ہے۔۱ یہی بات دراصل نظم قرآن کے تصورکا خلاصہ ہے۔پہلے مولانا کے اس جملے کو سمجھتے ہیں۔مقدر سے مراد وہ بات ہے جو کلام کے پس منظر میں موجود ہوتی ہے، مگر لفظوں میں بیان نہیں ہوتی۔ مقدمہ اس بات کو کہتے ہیں جس کی بنیاد پر باتیں کی جاتی ہیں۔ جیسے باپ کا بیٹے کو یہ کہنا کہ سچ بولو، یہ اس مقدمے پر قائم ہے کہ ’’سچ بولنا اچھائی ہے‘‘۔ یہ مقدمہ اگر موجود نہ ہو تو باپ کے اس حکم میں کوئی جان نہیں ہے۔ ’’سچ بولو‘‘کے اس جملے میں ’’سچ اچھا ہے‘‘ ایک مقدر مقدمہ ہے۔ہماری تمام باتیں مقدر مقدمات پر قائم رہتے ہوئے ہی کہی اور سمجھی جاتی ہیں۔انھیں عموماً بولا نہیں جاتا۔
جب بھی ہم کوئی بات کہتے ہیں تووہ معاشرے، عقل ، تجربے ، تصورات ، تہذیب اوردین وغیرہ میں موجود کچھ مقدمات (باتوں) پر قائم ہوتی ہے۔ مثلاً جب برصغیر پاک و ہند میں ایک بیوی اپنے شوہر کویہ آواز دیتی ہے کہ ’راستہ بدل لو، کالی بلی راستہ کاٹ گئی ہے‘ تو ’’راستہ بدل لو‘‘ جملے کا ’’کالی بلی راستہ کاٹ گئی ہے‘‘ سے کوئی تعلق اس وقت تک واضح نہیں ہوتا، جب تک کہ ہم یہ مقدر نہ کھولیں کہ ’کالی بلی کا راستہ کاٹنا منحوس سمجھا جاتا ہے‘۔ تو گویا دونوں جملوں کا ربط اس توہّم پر مبنی ایک مقدر تصور کے جاننے پر منحصر ہے۔ اسی طرح غالب نے جب یہ کہا کہ:
تو اس شعر کے دونوں مصرعوں کاباہمی تعلق ایک مقدر مقدمے پر قائم ہے، وہ مقدر مقدمہ سیدنا عیسیٰ کی مسیحائی ہے۔ اگر کوئی شخص اس مقدر سے واقف نہیں ہو گا تو شعرکا نہ مضمون سمجھ سکے گا اور نہ اس سے حظ اٹھا سکے گا، کیونکہ دونوں مصرعوں کا ربط ہی اُس پر نہیں کھلے گا۔
فراہی مکتبِ فکر انھی مقدرات کے کھولنے کونظم کلام کہتا ہے۔یہ مقدرات اگرچہ لفظوں میں موجود نہیں ہوتے، مگر کلام ان پر استوار ہوتا ہے۔ روز مرہ کی گفتگو ہو، یا علمی و تحقیقی مقالات ہوں، انھی مقدرات پر اپنے معنی پاتے، اور باتوں کو مربوط کرتے ہیں۔ان مقدرات کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ آفاقی مقدمات،جو تمام انسانوں کے تصورات میں موجود ہیں۔ مثلاً(ذہنی) سچ بولنا اچھائی ہے، (حسی) آسمان نیلا ہے۔ جیسے ’’گنبد نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا‘‘،میں گنبد نیلوفر ی سے مراد آسمان ہے۔
۲۔ علاقائی مقدمات، جو ایک علاقے میں تو موجود ہوں، مگر باقی دنیا ان سے ناواقف ہو ۔مثلاً اردو شعر کی روایت میں ستم زدہ عاشق کے رونے سے سیلاب آسکتے ہیں جس سے گھر اور بستیاں ویران ہو سکتی ہیں، جیسے:
گر یونہی روتا رہا غالب تو اے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں
غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفاں کیے ہوئے
یہ علاقائی مقدرات پھر دو قسم کے ہوتے ہیں:
۱۔ اس علاقے کے آفاقی، جیسے ہندوستان میں ذات پات میں برہمن کا تقدس اور شودر کا تذلل۔یا مثلاً برہمن کا غیب گو ہونا، غالب نے اس سے مضمون باندھا ہے:
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض!
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
۲۔ متکلم کے خود ساختہ مقدمات جسے وہ مقدار کی حیثیت سے استعمال کرے۔ جیسے علامہ اقبال کا تصورِ خودی، لیکن مقدر کے طور پر استعمال کے لیے شاعر کو اسے متعارف کرانا پڑتا ہے ۔اقبال نے اپنے اس تصور کا اپنی شاعری میں خوب تعارف کرایا ہے، کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ یہ تصور نیا ہے، لوگ اسے سمجھ نہیں سکیں گے، لہٰذا وہ مختلف پیرایوں سے اسے بیان کرتے ہیں، ہمارے عہد کے بعض شعرا نے علامتی شاعری کی ہے، لیکن وہ اپنی علامتوں کو متعارف نہ کراسکے، اس لیے علامتی شاعری ان کے حلقوں سے باہر نہ نکل سکی۔
اب اصول یہ سمجھیے کہ مقدرات دراصل وہ تصورات ہیں جو کلام میں کہی گئی باتوں میں مقدمات کا کردار ادا کرتے ہیں، جن پر معنی کا دارو مدار ہوتا ہے۔ یہ مقدرات جس قدر معروف ہوں گے اسی قدر کلام واضح دو ٹوک اور دلالت میں صریح ہوگا۔ لیکن بعض اوقات یہ مقدرات غیر اہل زبان کے ہاں مختلف ہونے کی وجہ سے رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ مثلاً اردو میں ’برسا ت کا دن‘ مضمون لکھنے کو دیا جائے تو یہ دل پسند اور خوب صورت وقت کا بیان ہو گا ، لیکن انگریزی کا rainy-day مصیبت کے لیے معروف ہے۔ اب جس کو اس کا پتا نہیں ہو گا،اس کے لیے اس جملے saving money for a rainy day کا مطلب ہوگا کہ پیسہ جمع کرکے برسات کے دنوں میں عیش کریں گے ، حالاں کہ انگریز یہ کہنا چاہتا ہے کہ میں ایمرجنسی کے لیے روپے جمع کررہا ہوں۔ لہٰذا غیر زبان کے بعض مقدرات نا معلوم ہونے کی وجہ سے کلام غیر مفہوم رہ سکتا ہے۔یہی وہ بات ہے جو مولانا فراہی نے لکھی ہے کہ کلام کے مقدر مقدمات کونہ سمجھنے کی وجہ سے قرآن فہمی میں رکاوٹ رہی ہے۔
مقدر کلام کے دروبست سے بھی پیدا ہوجاتا ہے۔۲ ہو سکتا ہے کہ وہ پہلے اہل زبان کے ہاں معروف نہ ہو، لیکن جب وہ معروف سے پھوٹا ہو گا تو فوراً سمجھ میں آئے گا، اور اگر معروف سے نہیں پھوٹا ہو گا تو مختلف فیہ ہو جائے گا، لہٰذا کلام مبہم یا زیادہ غور کا محتاج ہو جائے گا۔اسی عمل سے لسانی ارتقا ہوتا ہے اور الفاظ اپنے دامنِ معنی کو وسیع کرتے جاتے، اور بعض معانی کواپنے دامن سے نکال پھینکتے رہتے ہیں۔کلام کے دروبست سے پیدا ہونے والے مقدر کو ذیل کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں:
"میں کلاس میں داخل ہوا، طالب علم شور مچارہے تھے۔مجھے دیکھتے ہی سب احتراماًخاموش ہو کر اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے۔ پھر میں پڑھانے لگا۔"
اس کلام میں واحد متکلم کو آخری جملے نے استاد کی حیثیت دے دی ہے۔یہ مقدر کلام کے دروبست نے پیدا کیا ہے۔اب اگر میں اس کی شرح میں لکھ دوں کہ استاد نے ایسا کہاتو غلط نہ ہوگا۔اگر ایسا نہ کیا جائے تواوپر خط کشیدہ میں اور ’’احتراماً‘‘ اور ’’پڑھانے‘‘ کا ربط واضح نہیں ہوگا۔
مختصر یوں کہیے کہ ہمارے ذہنوں میں کچھ مانے اور جانے بوجھے تصورات ہوتے ہیں، جن کوذہن میں رکھ کر ہم بات کرتے ہیں، لیکن ان کو لفظوں میں نہیں بتاتے۔ایسی باتوں کو مقدرات کہتے ہیں، کلام کے معنی کا بڑا انحصار انھی کے علم و دریافت پر کھڑا ہوتا ہے۔عرب اپنے مزاج میں عجمیوں سے زیادہ مقدر مقدمات پر انحصار کرتے ہیں۔ان کے کلام کا یہ وصف ’خیر الکلام أقل و أدل‘، ان کے کلام کو دنیا سے ممتاز کرتا ہے۔قرآن بھی انھی کے اسلوب میں اترا ہے۔ ایسے کلام میں مقدرات کی تعداد زیادہ ہوجاتی ہے۔لہٰذا ایسا کلام اعلیٰ تر ذکاوت اور ژرف نگاہی کا تقاضا کرتا ہے۔ عجمیوں کا یہ مزاج نہیں تھا، اس لیے انھیں قرآن غیر مربوط دکھائی دیتارہا، کیونکہ دو جملوں کو جوڑنے والے مقدرات ان پر منکشف نہیں ہوئے تو وہ کلام کے ربط کونہ پاسکے۔
انھی مقدرات کے تحت تعلیل، تقابل، اصل، فرع، اعتراض اور استدراک وغیرہ کے تعلق کلام میں پیدا ہوتے اور معنی آفرینی کرتے ہیں۔
معنوی بندھن اور مقدرات
محذوف مقدرات کے بعد دوسری اہم چیز کلام کے معنی کے بندھن میں ان مقدرات کا کردارہے۔ درج ذیل مثال پر غور فرمائیں:
o ماں نے بیٹے سے کہا: بہت گرمی لگ رہی ہے۔
بیٹے کی طرف سے چند ممکنہ جوابات یہ ہوسکتے ہیں:
o امی، اے سی چلا لیں۔
o سورج نے تو جلانے کی قسم کھا رکھی ہے۔
o ہاں گرمی تو جانے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
یہ جوابات ماں کی بات سے واضح طور پر مربوط ہیں۔ کسی کو ان کے ربط سے انکار نہیں ہو گا۔ لیکن ماں کی اسی بات کہ بہت گرمی لگ رہی ہے کے جواب میں ذرا بیٹے کے ان جملوں پر توجہ دیجیے:
o امی، ابھی آیا۔
o امی، ذرا انتظار کریں ، نہار ہا ہوں۔
o اماں، فرج خراب ہے۔
یہ جوابات بظاہر غیر متعلق ہیں، لیکن ایک مقدر مفہوم پر منحصر ہیں، اس لیے بظاہر غیر متعلق ہوتے ہوئے بھی عین متعلق ہیں۔ ماں نے جب کہا کہ گرمی لگ رہی ہے تو بیٹے نے یہ سمجھا کہ والدہ کہہ رہی ہیں کہ آکر میرا پنکھا چلادو ، یا مجھے ٹھنڈا پانی دو۔ تینوں جملے اس مفہوم کو سامنے رکھ کر جواب میں کہنے ممکن ہیں ۔ اگر والدہ کے اس جملہ کہ گرمی لگ رہی ہے، میں یہ مقدر نہ مانا جائے کہ والدہ پنکھا چلانے یا ٹھنڈاپانی مانگ رہی ہیں تو یہ تینوں جواب غلط ہیں۔ بیٹے نے اس سادہ جملے میں مقدر معنی کو محسوس کیا ہے، اس لیے اس کے احساس کے مطابق اس نے نہایت متعلق باتیں کہی ہیں۔لیکن جو اس جملے کا یہ مقدر نہ سمجھے، وہ بیٹے کو بے وقوف سمجھے گا کہ کس طرح کے غیر متعلق جواب دیے جارہا ہے۔ لہٰذا مقدر مفاہیم دو باتوں کے درمیان بندھن کا کام کرتے ہیں، جو بظاہر مختلف یا غیر متعلق ہوتے ہیں۔
یہ بندھن کئی پہلوؤں سے ہو سکتا ہے۔ ہم یہاں چارعمومی طور پر ممکن مقدرات کو بطور مثال پیش کرتے ہیں۔
۱۔ مفہوم، جملہ جس بات کو کہنے کے لیے بولا گیا ہے۔ مثلاًماں نے بیٹے سے کہا: بہت گرمی لگ رہی ہے، کا جملہ موسم کی حالت کا پتا دے رہا ہے۔ (اس میں مقدر یہ ہے کہ والدہ صرف موسم پر تبصرہ کررہی ہیں)۔
۲۔ مدعا: جملہ جس بات کو سامع تک پہنچانا چاہتا ہے۔ مثلاً اس جملے میں ماں بیٹے کوکہنا چاہتی ہے کہ گرمی ہے پنکھا چلادیا جائے، یا ٹھنڈا پانی پینے کو دیا جائے وغیرہ۔ (اس میں مقدر یہ ہے کہ والدہ گرمی کا کہہ کر کچھ مطالبہ کررہی ہیں)۔
۳۔ نتائج: کہی گئی بات کے کچھ نتیجے نکلیں گے۔ مثلاًیہ کہ موسم خوشگوار نہیں ہے، باہر جانا آسان نہیں ہے ، ماں تکلیف میں ہے، وغیرہ۔ (اس میں مقدر یہ ہے کہ والدہ موسم کا کہہ کر کسی کام سے روکنا چاہتی ہیں، یا کچھ نتائج کی طرف اشارہ کرنا چاہتی ہیں)۔
۴۔ تقاضا: اس جملے کے کچھ تقاضے پیدا ہوں گے۔ مثلاً پنکھا فوراً چلنا چاہیے، ماں کی تکلیف زائل ہونی چاہیے، وغیرہ۔ (اس میں مقدر یہ ہے کہ مدعا پر عمل کیا جائے، نتائج کا خیال رکھا جائے ، دی گئی اطلاع کو پیش نظر رکھا جائے)۔ ]یہ اوپر کے تینوں مقدرات کا خیال رکھنا ہے[۔
یہ سارے معنی اس جملے کا ممکنہ حصہ ہیں جو ماں نے بیٹے سے کہا۔ اگرچہ بولے نہیں گئے۔اب اگلے جملے ان میں سے کسی کی رعایت کرتے ہوئے بولے جائیں تو وہ ایک ربط رکھتے ہوں گے خواہ وہ بظاہر غیر مربوط معلوم ہوتے ہوں۔
مثلاً بیٹا ماں کو کہے: اچھا میں پنکھا چلاتا ہوں، یا وہ کہے کہ ماں ، بجلی نہیں آرہی ہے، یا وہ کہے: ماں، میں نے کہا تھا ناکہ اس وقت باہر نہ جاؤ، واضح طور پر مربوط ہوں گے۔پہلا اور دوسرا جواب تقاضے کے پہلو سے ہے ، تیسرا نتائج کے اعتبار سے ہے ۔ لیکن اگر بیٹا ماں سے کہے کہ میں نہا رہا ہوں، تو یہ جملہ قدرے غیر متعلق لگ رہا ہے۔ لیکن وہ بھی مربوط ہے، تقاضے کے لحاظ سے وہ کہنا چاہتا ہے کہ میں نہا رہا ہوں آپ کا پنکھا فوراًنہیں چلا سکتا۔آپ کو کچھ انتظار کرنا ہوگا، یا خود اٹھ کر چلا لیں۔
اب غالب کے درج ذیل شعر پراس زاویۂ نگاہ سے غور کیجیے کہ اس نے کس طرح مقدرمقدمات سے دو مصرعوں کو مربوط بنایا ہے:
گھرہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
بحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا
ان دونوں مصرعوں کا دور دور تک کوئی باہمی تعلق نہیں ہے۔ لیکن اس میں ایک شاعرانہ اور دو مادی تجربے پر مبنی مقدمات مقدر ہیں ۔شاعرانہ مقدمہ یہ ہے کہ رونے سے اتنا پانی جمع ہوجاتا ہے کہ گھر غرقاب ہوجاتا ہے۔پہلے مصرعے میں یہی مقدر مقدمہ موجود ہے۔ اگر میں نہ روتا، یعنی گھر غرقاب نہ بھی ہوتا تو تب بھی ویران ہوتا۔ دوسرے مصرعے میں دومادی تجربے پر مبنی مقدر ات کو بطور دلیل بنایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ اگر سمندر سے پانی نکال دیا جائے تو باقی بیایاں ہی بچے گا۔دوسرا یہ کہ بیاباں ویران ہوتا ہے ۔ اب دونوں مصرعے نہایت مربوط ہیں، یعنی شاعر اپنے مخاطب سے کہتا ہے کہ تم مجھے کہہ رہے ہو کہ تمھارے رونے سے تمھارا گھر پانی میں غرقاب ہو کر ویران ہوگیا ہے، اگر تم نہ روتے تو گھر ویران نہ ہوتا، تو تمھاری بات درست نہیں، اس لیے کہ میرے نہ رونے سے گھر غرقاب نہ ہوتا تو تب بھی گھر ویران ہی ہوتا، اس لیے کہ یہاں اگرپانی نہ ہوتا تو ویران بیاباں ہوتا، کیونکہ بحر سے پانی نکال دیا جائے تو اس کے بعد بیاباں ہی نمودار ہوگا، آباد گھر تو برآمد نہیں ہوگا۔
لفظی مقدرات
باتوں اور جملوں کی طرح لفظ بھی مقدرات کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ جن چیزوں کے نام یا علامت ہیں، ان کے اوصاف و خصائص کویہ مقدرات کے طور پر اپنے جلو میں لیے کلام میں چلتے ہیں۔ مثلاً پانی کا لفظ، سیال ہونے، مشروب ہونے، آگ اور پیاس بجھانے والا ہونے، جیسے متعدد مقدرات اپنے ساتھ رکھتا ہے۔اردو محاورے ’آگ پانی کا کھیل‘ اور ’پانی میں آگ لگانا‘ میں پانی اور آگ کے وہ اوصاف مقدر کا کام کررہے ہیں جو دونوں کومادی دنیا میں یکجا نہیں ہونے دیتے۔
بسم اللہ میں صفاتِ رحمن و رحیم پر اسی زاویے سے غور کریں۔ برکت و سازگاری رحمت کا ایک مقدر مفہوم ہے۔ کھانا کھاتے ہوئے اس کا پڑھناطلب برکات و ساز گاری کے لیے ہے۔قرآن مجید کی سورتوں میں سرنامے کے طور پر اس کا استعمال رحمت اور ہدایت کے اس تعلق سے ہے جو سورۂ رحمن میں بتایا گیا ہے کہ ’اَلرَّحْمٰنُ، عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ‘۔ یہی چیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’رحمۃً للعالمین‘ کہنے میں پیش نظر ہے۔یعنی براہِ مہربانی و خیر خواہی صحیح بات کی طرف ہدایت رحمت کا ایک مقدر حصہ ہے۔ یہاں دیکھیے کہ کس طرح رحمت اپنے مقدر مفہومات سے معنی آفرینی اور ربط کا عمل سرانجام دے رہی ہے۔مولانا فراہی اور ان کے پہلی اور دوسری نسل کے تلامذہ انھی مقدرات کو پہچانتے اور معنی میں ربط تلاش کرتے ہیں۔یہ ہر گز خارج سے داخل کیے گئے تصورات نہیں ہیں۔
یوں مقدرات وہ بنیادی اکائی ہیں، جن پراجزاے کلام کا معنوی ربط قائم ہوتا ہے۔قرآن مجید نے انسانی فطرت، عرب سماج، دین ابراہیمی، عرب لسانی تصورات، اخلاقی حسن و قبح، انسان اور عربوں کے عقلی مسلمات،مادی تجربات، اور ظواہر کائنات وغیرہ پر مبنی مقدمات پر اپنے کلام کی معنویت کی بنیادیں استوار کی ہیں۔ ان کے بیچوں بیچ اس نے نئے الوہی ، اسلامی، اخلاقی اور حکمت الٰہیہ کے مقدمات کو بھی متعارف کراکے مقدرات کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اب قرآن مجید سے چندمثالیں دیکھتے ہیں۔
مولانا فراہی نے سورۂ نجم کی ایک آیت کے جملے: ’فَلَا تُزَکُّوْٓا اَنْفُسَکُمْ ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنِاتَّقٰی‘ (۵۳: ۳۲) پر لکھا ہے:
یعنی اپنے مزکی ہونے (یا پاکی داماں) کی حکایت اتنی نہ بڑھاؤ، کیونکہ اللہ جانتا ہے کہ تم میں سے کون متقی ہے۔ تو مولانا کہتے ہیں کہ اس سے یہ واضح ہوا کہ تزکیہ دراصل تقویٰ ہے۔۳ آیت کے خط کشیدہ الفاظ کا موازنہ کریں۔ مولانا کی مراد یہ ہے کہ ’تُزَکُّوْا‘ میں تقویٰ کا مفہوم مقدر تھا، تبھی اس پر یہ جملہ بولنا مربوط ہو گا کہ وہ متقیوں کو جانتا ہے۔ میں مولانا فراہی کا حوالہ اس لیے دے رہا ہوں تاکہ یہ واضح ہو کہ میں یہ بات اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا کہ نظم کلام کا داخلی جزو ہے، بلکہ اس تصور کے موجدِ اول نے یہی بات کہی ہے۔
اب ایک مجموعۂ آیات کو دیکھیے کہ مولانا نے اسے کیسے حل کیا ہے:
وَالسَّمَآءَ بَنَیْنٰھَا بِاَیْدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ. وَالْاَرْضَ فَرَشْنٰھَا فَنِعْمَ الْمٰھِدُوْنَ. وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ. فَفِرُّوْٓا اِلَی اللّٰہِ اِنِّیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ.(الذاریات۵۱: ۴۷۔۵۰)
’’آسمان کو ہم نے عظیم قدرت کے ساتھ بنایا ہے اور ہم بڑی وسعت رکھنے والے ہیں۔ اور زمین کو ہم نے بچھا دیا ہے، سو کیا خوب بچھانے والے ہیں۔ اور ہم نے ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں تا کہ تم یاددہانی حاصل کرو۔ اِس لیے دوڑو اللہ کی طرف، میں اُسی کی طرف سے تمھیں ایک کھلا خبردار کرنے والا ہوں۔‘‘
مولانا فراہی یہ کہتے ہیں کہ اس مجموعۂ آیات میں جوڑے جوڑے بنانے کا ذکر خدا کی قدرت اور حکمت پر دلالت کر رہا ہے، پھر اس دارفانی کے تتمہ۴ آخرت پر دلالت کررہا ہے، اور پھر اعمال کے لیے مجازات کے تتمہ پر دلالت کررہا ہے۔ ۵ مولانا کی بات کا مطلب یہ ہے کہ آسمان کے لیے ’بَنَیْنَا‘ (عمارت)کا لفظ اور زمین کے لیے ’فَرَشْنَا‘ (فرش یا زمین)کا لفظ بولا گیا ، پھر کہا گیا کہ ہم نے ہر چیز جوڑا جوڑا بنائی ہے۔ تو واضح ہوا کہ زمین و آسمان عمارت اور فرش ہونے کی وجہ سے جوڑا جوڑا ہوئے۔ گویا اگر کسی جگہ صرف عمارت تو ہو، مگر نیچے زمین نہ ہوتو گھر نہ بنا، اسی طرح فرش تو ہو، مگرعمارت نہ ہوتو تب بھی گھر نہ ہوا۔تو یوں گھر بنانے کے لیے آسمان اور زمین ایک دوسرے کے لیے تتمہ ہوئے۔ یعنی دونوں مل کر گھر تشکیل کرتے ہیں۔ پھر کلام آگے بڑھتا ہے اور کہتا ہے کہ ہر چیز کو جوڑے جوڑے اس لیے بنایا کہ تم ان سے یاددہانی حاصل کرو۔ مراد یہ کہ ہر چیز کو جوڑا اس لیے بنایا کہ تم اس کائنات پر اس زاویے سے نگاہ دوڑا کر ایک مخفی حکمت کو جانو کہ ہر چیز جوڑا جوڑا ہے۔ لیکن قرآن کی یاددہانی مادی نہیں، بلکہ روحانی ہے ۔ اس لیے کلام آگے بڑھا تو کہا کہ اللہ کی طرف لپکو۔اور اس لپکنے کی دعوت کو ’نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ‘ سے جوڑ کر ڈر انا قرار دیا۔ اب جب ہر چیز جوڑا ہے، اور جوڑے تذکیر کے لیے بنائے گئے، اس تذکیر سے نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ کی طرف بڑھو، ورنہ مارے جاؤ گے تو کلام منہ کھول کر اعلان کررہا ہے کہ چیزیں جوڑا جوڑا بنانے کے عمل میں کوئی خبردار ہونے کی چیز موجود ہے۔ اس سے مولانا فراہی نے یہ نتیجہ نکالا کہ وہ کون سا جوڑا ہے جس سے خبر دار ہونا چاہیے تو قرآن کے مضامین کی روشنی میں انھوں نے زمین کے فرش اور آسمان کے عمارت ہونے جیسے دو جوڑے نکالے ہیں۔ ایک یہ کہ اس دنیا کا ایک جوڑا ہونا چاہیے جو اس دنیا کے تتمہ کا کام کرے۔ اور دوسرے یہ کہ اعمال کا تتمہ ان کی جزا و سزا ہے۔ یہ دونوں جوڑے بلاشبہ تتمہ بھی ہیں، لیکن ساتھ ہی ’نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ‘ کی دعوت کا حصہ بھی ۔ اسے مختصراً یوں سمجھیے:
آسمان اور زمین مل کر اس دنیا کومکمل بناتے ہیں،
یہ اس اصول پر ہے کہ ہر چیز جوڑا جوڑا ہے، جن کے ملنے سے ایک یونٹ مکمل ہوتا ہے،
جوڑا جوڑا بنایا جاناایک نشان ہے جس سے نصیحت حاصل ہوتی ہے،
یہ نصیحت خدا کی طرف بڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔
لہٰذا جوڑوں کے اس اصول میں کوئی ایسی بات ہے جو خدا کی یاددہانی دلوں میں ڈالتی ہے۔
اب چیزوں پر غور کریں تو ہر چیز کا جوڑا ہے، مگر اس دنیا کا جوڑا نہیں ہے۔ یعنی یہ دنیا دارالعمل ہے، لیکن دار العمل دار الجزا کا تقاضا کرتا ہے۔تب جاکر اس کی نیکی بدی کے شعور والے انسا ن کی زندگی کی معنویت مکمل ہوتی ہے۔
تو اس دارالعمل کا جوڑا دار الجزا ہونا چاہیے، یعنی آخرت۔
یہ وہ شان دار استدلال ہے جو مولانا نے ان آیات کے نظم سے کشید کیا ہے۔ اسی کو مولاناکہتے ہیں کہ نظم حکمتِ قرآن کا دروازہ ہے۔
غرض یہ کہ لفظ، جملے، پیراگراف، سورتیں اور پھر ابواب اسی طرح کے مقدرات کے ساتھ مربوط ہو کر ایک شان دار مرتب کتاب کی صورت اختیار کرتے ہیں۔ اس مضمون کا تنگ ناے اس کی اجازت نہیں دیتا کہ ان تمام پہلوؤں پر بات ہو سکے۔ لیکن مذکورہ بالا اصول اور اس کی روشنی میں چند مثالیں امید ہے بات کو سمجھانے کے لیے مفید ہوں گی۔ اس اصول کی عملی تطبیق کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ مدرسۂ فراہی کے اکابرین کی تفاسیر کو پڑھا جائے۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ کا ’’مجموعہ تفاسیر‘‘، مولانا امین احسن صاحب اصلاحی رحمہ اللہ کی ’’تدبر قرآن‘‘ اور استاذی الجلیل غامدی صاحب دامت برکاتہ کی ’’البیان‘‘ اسی نظم کی دریافت پر مبنی تفاسیر ہیں۔ ان کا اس زاویے سے مطالعہ اس بات کو مزید واضح کرے گا کہ نظمِ قرآن خارج سے قرآن کے کلام میں نہیں ڈالا گیا ، بلکہ اس کے الفاظ و جمل کی دلالت اس طرف لے جاتی ہے۔وہ زاویہ یہ ہے کہ کلام کے مقدرات کو کھول کر مربوط کرنے کا نام نظم قرآن ہے۔ ان کے علاوہ فراہی صاحب کی ’’دلائل النظام‘‘ اصلاحی صاحب کی ’’مبادی تدبر قرآن‘‘ اوراستاذ گرامی کی ’’میزان‘‘ میں ’’اصول و مبادی‘‘ کا باب اور ’’البیان‘‘ کا ’’خاتمہ‘‘ بھی مفید مطلب ثابت ہوگا۔ لیکن مقدرات کے کھولنے اور نظم واضح کرنے کی عملی صورت بہرحال صرف تفاسیر ہی میں ملے گی۔
وہ تفاسیر، جو شانِ نزول، فلسفہ، منطق، تصوف اور اسلاف کی آرا پر مشتمل ہیں ، وہ دراصل خارج سے متن قرآن کی تفسیر کرنا ہے، جب کہ ہم پیروانِ مدرسۂ فراہی، اسی معنی کو قبول کرتے ہیں، جن کو قرآن کے الفاظ ،جمل اور سیاق و سباق وغیرہ اپنے معانی اور ان سے وابستہ مقدرات کے طور پر قبول کرتے ہوں۔ یہ اتنا محکم ضابطہ ہے کہ اس میں کسی مفسر کی غلطی پکڑنے اوراس کی تفسیر کی اصلاح و تصحیح کا باب ہمیشہ وا رہتا ہے۔ مثلاً اگر مولانا فراہی کسی مقدر کو غلط کھولیں اورکلام کسی اور مقدر کی طرف اشارہ کررہا ہو تو فکرفراہی کا ایک طالب علم بھی ان سے اختلاف کرکے اصلاح کر سکتا ہے ۔اسی بات کو استاذ گرامی یوں کہتے کہ قرآن کے شہرستان معانی کا ایک ہی دروازہ ہے، اور وہ لفظ ہے۔
لیکن جب معنیِ قرآن کا فیصلہ خارج سے ہونا ہو، اور ان لوگوں کے اقوال سے ہونا ہو، جنھیں امامت کا درجہ حاصل ہوتو پھر اصلاح و تصحیح کی کوئی گنجایش نہیں رہتی ۔ یہ مقام صرف رسولِ خدا کو حاصل ہے کہ ان کی بات سے چون و چرا نہ کیا جائے۔ آپ کے بعد یہ مقام کسی کو حاصل نہیں ہے۔اسی وجہ سے مدرسۂ فراہی سنتِ متواترہ کو قرآن کی حتمی تفسیر مانتا ہے۔ لیکن خبر آحاد کے بارے میں توقف اور غور وفکر کا قائل ہے، اس لیے کہ آپ سے ان کی نسبت کے ظن اور روایت بالمعنیٰ میں خطا کے امکان نے اس کا مقامِ معصومیت اس سے چھین لیا ہے۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ سنتِ متواترہ بھی لسانی تواتر کا حصہ ہے، یہ بھی خارج سے تفسیر نہیں ہے۔ جب قرآن ’اَقِمِ الصَّلٰوۃَ‘ کہتا ہے،توہم ’الصَّلٰوۃ‘ کے معنی پنجگانہ نماز صرف اس لیے نہیں کرتے کہ یہ سنت متواتر ہ میں آیا ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ عہدِ نزولِ قرآن سے تا حال ’الصَّلٰوۃ‘ کے لغت میں متواتر معنی یہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں !
____
۱ حجج القرآن ۲۷۔ واضح رہے کہ نظم کے داخلی ذرائع میں اور بھی پہلو ہیں، مگر یہاں صرف مقدرا ت پر بات کرنا پیش نظر ہے، اس لیے کہ یہ بنیادی چیز ہے۔
۲ آگے قرآن سے دی گئی مثالوں میں ’وَالسَّمَآءَ بَنَیْنٰہَا‘، والی آیات اسی نوع کی مثال ہے۔
۳ رسائل الامام الفراہی فی علوم القرآن ۱۱۸۔
۴ Complemental Halfوہ چیز جو کسی مجموعہ کو مکمل کرنے میں آدھا کردار ادا کرتی ہو یا کسی یونٹ کو مکمل کرتی ہو۔
۵ رسائل الامام الفراہی فی علوم القرآن ۱۱۹۔
بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت نومبر 2017