علوم القرآن لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
علوم القرآن لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

فراہی مکتبہ فکر کورس ( کلاس 12 ) ۔ ڈاکٹر ساجد حمید


 

فراہی مکتبہ فکر کورس (کلاس 11 ) ۔ ڈاکٹر ساجد حمید


 

فراہی مکتبہ فکر کورس (کلاس 10 ) ۔ ڈاکٹر ساجد حمید


 

فراہی مکتبہ فکر کورس ( کلاس 9 ) ۔ ڈاکٹر ساجد حمید


 

فراہی مکتبہ فکر کورس ( کلاس 8 ) ۔ ڈاکٹر ساجد حمید


 

فراہی مکتبہ فکر کورس ( کلاس 7 ) ۔ ڈاکٹر ساجد حمید


 

فراہی مکتبہ فکر کورس ( کلاس 6) ۔ ڈاکٹر ساجد حمید


 

فراہی مکتبہ فکر کورس ( کلاس 5) ۔ ڈاکٹر ساجد حمید


 

فراہی مکتبہ فکرکورس ( کلاس 4 ) ۔ ڈاکٹر ساجد حمید


 

فراہی مکتبہ فکر کورس (کلاس 3) ۔ ڈاکٹر ساجد حمید


 

فراہی مکتبہ فکر کورس (کلاس 2) ۔ ڈاکٹر ساجد حمید


 

مقدرات کے مبنیٰ و معاونین ۔ ساجد حمید

مبنیٰ ۱؂


مقدر مقدمات کا استعمال تمام زبانوں میں سماجی، ذہنی، لسانی اور اخلاقی مبانی پر منحصر رہتے ہوئے ہوتا ہے۔ یعنی مقدرات ہمارے تسلیم شدہ مقدمات پرمبنی ہوتے ہیں۔ مقدرات کے یہ مبنیٰ ہم نے عرض کیا تھا کہ آفاقی (universal) بھی ہوتے ہیں اور علاقائی (local) بھی۔ ہمارا مطلب یہ ہے کہ مقدرات کبھی الل ٹپ نہیں ہوتے، بلکہ وہ ہمارے اکتسابی و جبلی علم و تصورات پر قائم ہوتے ہیں۔ آفاقی تصورات تمام انسانوں کے مشترکہ محسوسات اور مشترکہ جبلی امور پر قائم ہوتے ہیں ۔
مصنف: ساجد حمید

مثلاً، ہماری علمی فطرت میں تقابل و موازنہ ایک عمومی طرز تجزیہ و فکر ہے۔ بلکہ حکما اسے ایک جملے میں یوں بیان کرتے ہیں کہ ’تعرف الأشیاء بأضدادہا‘۔ مردوعورت، زمین وآسمان، ظلمت و نور، گھٹیا و اعلیٰ اسی طرح کے تقابل کا بیان ہیں۔ تقابل کے طریقے کا مطلب یہ ہے کہ دو چیزیں باہم مقابلے و موازنے میں لائی جائیں، خواہ متضاد ہوں خواہ ہم آہنگ۔ مثلاً قلم وقرطاس تحریر کے میدان میں دو ہم آہنگ مقابل ہیں، جب کہ آگ اور پانی عام زندگی میں دو متضاد مقابل ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ ہماری فطرت کا علمی شعبہ دیگرطریقوں کے ساتھ ساتھ موازنے کے طریقے پر بھی چیزوں کو سمجھتا ہے ۔اسی سے زبان و کلام میں تقابل کا اسلوب جنم لیتا ہے۔ہر بولنے والا اس جبلت کے سہارے پر چیزوں کو مقابل میں پیش کرتا اور بلاتبصرہ ہماری جبلت کو دعوتِ موازنہ دے دیتا ہے ۔ اسی طرح تمام مقدرات ایسے ہی مسلّم مقدمات اور طریقوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ غوروفکر کے طریقے کی طرح زبان میں بھی تقابل ایک بین الالسنۃ مانا ہوا لسانی اسلوب ہے۔ صنعتِ تضاد ۲؂ کی اصطلاح اسی طرح کے ایک اسلوب کو بیان کرتی ہے۔

درج ذیل سطور میں ہم قرآن سے چند مثالیں دیکھیں گے اور کوشش کریں گے کہ ان کے اندر کے مقدمات کی لسانی اور علمی و فکری بنیادیں واضح کریں۔
پہلی مثال

قرآن نے کلمۂ طیبہ کو شجرِ طیبہ سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا ہے:
کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُھَا فِی السَّمَآءِ.(ابراہیم ۱۴: ۲۴)
’’شجر طیبہ کے مانند جس کی جڑ — استقرار پائے ہوئے ہے اور جس کی شاخ آسمان میں — ہے۔‘‘

ترجمہ میں خالی جگہوں پر غور کریں۔ جڑیں کہاں استقرار پائے ہوئے ہیں، مذکور نہیں ہے۔ تمام انسان اپنے تجربات سے جانتے ہیں کہ ہر درخت کی جڑیں زمین میں گڑی ہوئی ہوتی ہیں۔یہ آفاقی حسی مشاہدہ ہے جو مقدر کا کردار ادا کررہا ہے۔ لہٰذا اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔دوسری خالی جگہ میں بھی غور کریں کہ درخت کا تنااور شاخیں آسمان میں بلند ہوتی ہیں۔ بالکل معلوم و معروف بات ہے۔ لہٰذا بیان نہیں کیا۔ اب اسی آیت کے مفہوم کو میں یوں لکھوں تو غلط نہیں ہوگا:
شجر طیبہ کے مانند جس کی جڑ زمین میں استقرار پائے ہوئے ہے اورجس کی شاخ آسمان میں اٹھی ہوئی ہے۔

تعددِ معنی اور دلالتِ لسانی ۔ ڈاکٹر ساجد حمید

زبان اپنے معنی کی ادائیگی میں کامیاب ہے یا نہیں ، اس کا فیصلہ عالم عمل میں ہونا چاہیے، نہ کہ مجرد عالمِ عقل میں۔ صدیوں سے ہم افلاطون کے طرزِ فکر کے اسیر ہیں۔اس کا منہج یہ تھا کہ ہماری عقل علم کاماخذِ کُل ہے اورہمارا حسی تجربہ، یعنی ہمارے حواس خطا کار ہیں۔ اس طرز فکر نے صدیوں تک انسان کو علوم میں ترقی سے روکے رکھا۔انسان کی اس طرز فکر میں جو ترقی ہوئی، وہ ایک طرف اہل فلسفہ کی عقلی موشگافیاں تھیں اور دوسری طرف تصوف کی وجدانی خود فریبیاں۔ علم اسی میدان میں پھنسا رہا، اور اقبال کے الفاظ میں اس دانشِ برہانی نے حیرت کے سوا ہمیں کچھ عطا نہیں کیا۔

اس منہج کی تاثیر اور گرفت اتنی زیادہ تھی کہ کوئی حتمی سے حتمی چیز بھی جب اس کے معیار پر پوری نہ اتری تو بے وقعت قرار پائی۔ مثلاً ان کے مطابق وحی محض ظاہریت اورمعیار میں پست ٹھیری، تجربات پر مبنی علم محض دنیوی اور سفلی سے شاید کچھ بڑا درجہ پا کر علم آلی قرار پایا۔ لہٰذا، نہ فہمِ وحی کے لیے ذہین عناصرآگے بڑھے اور نہ مادی علوم کے لیے۔ لہٰذا امت کے بڑے اذہان فلسفہ و تصوف کی بھینٹ چڑھ کر خانقاہوں اور فلسفیانہ مدارس کی روح و رواں بن کر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وحی پر اعتماد کرنے والے بے وزن ٹھیرے۔پھرامام رازی وغیرہ نے وحی کو اس معیار پر پورا دکھانے کے لیے ’’التفسیر الکبیر‘‘ جیسی تفاسیر لکھی۔ بالکل اسی طرح، جس طرح ہمارے عہد میں سرسید وغیرہ نے قرآن کو سائنس کے میعار پر دکھانے کے لیے تفسیر یں لکھیں۔

عقلی منہج اور حقیقتِ واقعہ


افلاطونی طرز فکر کا اصل طریقہ یہ ہے کہ حقائقِ واقعہ (ground realities) سے ہٹ کر خالص ذہنی بنیادوں پر ایک نظریہ بنائیں گے اور پھر اسی کے نتائج و عواقب عقل کی بھٹی سے کشید کرکے دکھائیں گے۔ مثلاً ایک عقلی مقدمہ قائم ہوگا، کہ کوئی چیز عدم سے وجود میں نہیں آسکتی۔تو سوال پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ کہاں سے آئے؟ جواب آیا کہ چیزیں دو قسم کی ہیں: ایک واجب الوجود (necessary being)اور ایک حادث یا ممکن الوجود (contingent)۔ واجب الوجودوہ ہے جو بس از خود ہے ، اس کا کوئی آغاز نہیں ہے اور اس کا وجود ہی حقیقی وجود ہے ۔ ممکن الوجود وہ ہے جو اصلاً نہیں ہے، مگر وجود میں آ سکتا ہے۔ جب یہ عقلی مقدمات مان لیے گئے تو سوال پیدا ہوا کہ کائنات ممکن الوجود ہے کہ واجب الوجود؟ ایک گروہ نے اپنے خیال میں اسے واجب الوجود مانا اور دوسرے نے حادث۔جس نے حادث مانا، اس کے نزدیک یہ حقیقی وجود نہیں تھا۔ لہٰذا ہر چند کہیں کہ ہے ،نہیں ہے کی صورت پیدا ہوگئی۔چنانچہ کائنات کا ہونا محض خواب، واہمہ یا عکس و تجلی قرار پایا، یعنی ایک ٹھوس حقیقی دنیا اس عقلی فریب میں بے وجود قرار پائی۔چنانچہ صدیوں بعد ڈیکارٹ نے منوایا کہ کم از کم اپنے آپ کے ہونے کو تو مانا جائے۔ ڈیکارٹ نے ذاتِ خویش کی موجودگی اندھوں کو نہیں منوائی تھی، بلکہ ان دانا و بینا لوگوں کومنوائی تھی جو فلاسفر کہلاتے اور ذہین ترین عناصر سمجھے جاتے ہیں۔۱؂ اگر آپ اس پر سوال اٹھائیں گے کہ حضور،حقیقت واقعہ تو یہ ہے کہ یہ دنیا موجود ہے، کیا آپ کو دکھائی نہیں دیتی ؟ آپ کس طرح کی باتیں کررہے ہیں! تو یہ افلاطونی طرز کا فلسفی آپ کو ظاہر پرست اور عقلی اعتبار سے پست قرار دے دے گا۔کبھی آپ کو کہے گا کہ یہ حواس کا دھوکا ہے اور کبھی آپ کو کہے گا کہ آپ کی عقل اتنی بالیدہ نہیں ہے کہ ہماری بات سمجھ سکیں، وغیرہ۔ایسا وہ اس لیے کہتے ہیں کہ اپنے عقلی موشگافی کے سوا ان کے پاس ہوتا ہی کیا ہے ۔۲؂

لسانی میدان میں بھی یہی حرکت ہوئی۔ حقیقی دنیا میں اس کی دلالت دیکھنے کے بجاے ، کچھ اسی طرح کے عقلی مقدمات قائم کرلیے گئے۔پھر ان سے کچھ تصورا ت کشید کیے گئے۔ حالاں کہ عملی میدان میں زبان ان نظریات کو ویسے ہی جھٹلاتی ہے، جیسے کائنات کو واہمہ قرار دینے والوں کو کائنات کا وجود جھٹلاتا ہے۔

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں؟ غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے؟
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں؟ ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے؟

غالب کے اشعار کا یہی وہ تحیر ہے جسے اقبال نے حیرت کی فراوانی کہا ہے:

ہے دانش برہانی حیرت کی فروانی

جس طرح وہم کا مریض اپنے وہم کو حقیقی سمجھ رہا ہوتا ہے، بالکل اسی طرح فلسفی اپنے عقلی وہموں کو حق سمجھ رہا ہوتا ہے اور حقیقی باتوں کو وہم۔گویا کچھ لوگوں کی آنکھوں اور حواس کو وہم لاحق ہوتا ہے تو کچھ کی عقلوں کو ۔افلاطون کو لاکھ قائل کرلیں کہ جناب آپ کا عالم امثال آپ کے ذہن کی اختراع ہے اور بس! لیکن وہ اپنے نظریے کوترک نہیں کرے گا، کیونکہ اس کی عقلی تُک بندیوں نے یہی سجھایا ہے۔ وہ عقل کے اس فریب سے باہر نہیں نکلے گا۔ایسے فلسفیوں کو دنیا بھر کی مانی ہوئی موجود چیزیں غیرموجود اور غیر موجود چیزیں موجود لگتی ہیں۔

تعارف ادارہ علوم القرآن شبلی باغ ، علی گڑھ اور مجلہ علوم القرآن ششماہی


ادارہ علوم القرآن


قرآن مجید خالق کائنات کی طرف سے انسانیت کے لیے آخری صحیفہ ہدایت اور رہتی دنیا تک کے لیے رب العالمین کی مرضیات کا ترجمان ہے۔ قرآن کریم کی اس عظمت اور اللہ تعالیٰ کے اس عظیم احسان کی صحیح شکر گذاری کا تقاضا ہے کہ ہماری فکر و نظر کا محور و مرکز یہی کتاب الہی ہو اور عملی زندگی کے ہر گوشہ میں یہ نور مبین ہمارے لیے حقیقی مشعل راہ ہو۔ قرآنی حقائق و معارف سے فیض یاب ہونے اور اس کے متعین کردہ خطوط پر انفرادی و اجتماعی زندگی کی تعمیر کے لیے ناگزیر ہے کہ اس پر غور و فکر کا سلسلہ بغیر کسی انقطاع کے جاری رہے اور اس کی تعلیم و تشریح کا آوازہ برابر بلند ہو تا رہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ مسلمان کسی دور میں بھی اس احساس سے خالی نہیں رہے، لیکن کتاب اللہ کی عظمت اور اس کی اساسی حیثیت کا تقاضا ہے کہ نگاہیں ہر وقت اس کی طرف متوجہ رہیں، مختلف انداز اور مختلف پہلوؤں سے اس سے ربط و تعلق کو ہمیشہ تازہ و استوار رکھا جائے اور قرآنی علوم و معارف کی توسیع و اشاعت کے لیے ہر ممکن کوشش جاری رہے۔
اس احساس کے پیش نظر اللہ تعالی کی توفیق و مدد سے ۱۹۸۴ میں ادارہ علوم القرآن کا قیام عمل میں آیا۔

ہیڈ آفس کا سنگ بنیاد


ادارہ علوم القرآن کا قیام ۱۹۸۴ میں عمل میں آیا مگر اس وقت ادارہ کے پاس کوئی مستقل عمارت نہیں تھی لہذا ادارہ جزء وقتی طور پر مختلف مقامات پر رہا۔ ادارہ کے دائرہ کار اور اس کے اغراض و مقاصد مستقل اس بات کے متقاضی تھے کہ ادارہ کی کوئی ذاتی عمارت ہو تا کہ یکسوئی کے ساتھ اس کے اغراض و مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکے لہٰذا ۲۴ / اکتوبر ۲۰۰۷ کو شیلی باغ، علی گڑھ میں ادارہ علوم القرآن کے ہیڈ آفس کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اور سرسید نگر ، علی گڑھ اس عارضی مقام سے اپنی نئی جگہ پر منتقل ہوا۔

ادارہ کے مقاصد اور دائرہ کار


۱۔  اسلام کے دستور اساسی قرآن کریم کو محور بناکر امت اور انسانیت کو درپیش مسائل کا حل پیش کرنا۔

۲۔  قرآن وسنت کی روشنی میں علوم دینیہ کی تجدید اور علوم جدیدہ کی تطہیر۔

۳۔  قرآن کریم سے متعلق اہم موضوعات پر علمی وتحقیقی کام۔
 

دائرہ کار


۱۔  قرآنی افکار وعلوم کی اشاعت کے لیے ایک معیاری رسالہ کا اجرا ۔

۲۔   قرآنیات سے متعلق اہم موضوعات پر علمی وتحقیقی کتابوں کی تیاری اور اشاعت کا اہتمام۔

۳۔  علوم اسلامیہ بالخصوص قرآنیات سے متعلق ایک وسیع  لائبریری کا قیام۔

۴۔  قرآنیات پر مطالعہ وتحقیق کے لیے طلبہ کی تربیت ونگرانی اور اس مقصد کے حصول کے لیے وظائف ودیگر سہولیات کی فراہمی۔

۵۔  قرآنیات سے متعلق کانفرنس، سیمینار، درس کی مجالس اور مذاکرات کا اہتمام۔

۶۔  علوم اسلامیہ کے مراکز اور ہم مقصد اداروں سے تعاون ورابطہ۔

قرآنیات کی لائبریری

کسی بھی علمی مرکز اور ادارہ کے لیے لائبریری و کتب خانے رگِ جاں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے پیش نظر ادارہ علوم القرآن کے ساتھ ہی اس کی لائبریری کا قیام بھی عمل میں آیا۔ شروع ہی سے یہ کوشش رہی ہے کہ یہ لائبریری قرآنیات کے ساتھ مختص ہو اور اسے قرآنی علوم سے متعلق کتابوں کا ایک ایسا مخزن بنایا جائے جس میں اس اہم موضوع پر مطالعہ و تحقیق کے لیے مختلف زبانوں میں بہترین مواد فراہم ہو سکے اور یہ قرآنیات پر ایک حوالہ (Reference) لائبریری کا کام دے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس جہت میں کوششیں بار آور ہو رہی ہیں۔ اس وقت اس کی لائبریری میں علوم اسلامیہ بالخصوص قرآنیات پر اردو، عربی و انگریزی کتابوں کا اچھا خاصا ذخیرہ دستیاب ہے۔

میراث کے بارے میں قرآن مجید کے اصولی احکام (سورۃ النساء آیات ۱۱۔۱۲ کی روشنی میں )

        1-        اگر میت کے ذمہ قرض ہو تو سب سے پہلے میت کے ترکہ میں سے وہ ادا کیا جائے گا، پھر وصیت پوری کی جائے گی، اور اس کے بعد وراثت تقسیم ہوگی۔  اگر  میت  اپنی وصیت میں کوئی ناجائز کرے، یا اپنے اختیار  کو غلط طور پر اس طرح استعمال کرے جس سے وارثین میں سے کسی کے جائز حقوق متاثر ہوتے ہوں تو اس کے لیے  حکم یہ ہے کہ خاندان کے لوگ باہمی رضامندی سے اس کی اصلاح کرلیں یا قاضی شرعی سے مداخلت کی درخواست کی جائے اور وہ وصیت کو درست کردے۔

       2-         میراث کے معاملہ میں یہ اولین اصولی ہدایت ہے کہ مرد کا حصہ عورت سے دوگنا ہے۔

       3-        اگر   میت کا کوئی بیٹا  نہ ہو بلکہ صرف بیٹیاں  ہوں ، خواہ  دو  بیٹیاں ہوں یا دو سے زیادہ ،  تو میت کے کل ترکہ کے دو تہائی 2/3حصہ ان لڑکیوں میں تقسیم ہوگا، باقی ایک تہائی  1/3 حصہ دوسرے وارثوں میں۔اگر میت کی صرف ایک بیٹی ہو تو اس کو  کل میراث کا آدھا حصہ ملے گا۔  لیکن اگر میت کا صرف ایک بیٹا ہو تو اس پر اجماع ہے کہ دوسرے وارثوں کی غیر موجودگی میں وہ کل مال کا وارث ہوگا، اور دوسرے وارث موجود ہوں تو ان کا حصہ دینے کے بعد باقی سب مال اسے ملے گا۔

       4-         میت  کے والدین میں سے ہر ایک کو  کل میراث کا  چھٹا  1/6 حصہ ملے گا  اگر میت کی کوئی اولاد  ہو ۔ خواہ میت کی وارث صرف بیٹیاں ہوں، یا صرف بیٹے ہوں، یا بیٹے اور بیٹیاں ہوں، یا ایک بیٹا ہو، یا ایک بیٹی۔اور اگر اس کی کوئی اولاد نہ ہو  اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں کو  ایک تہائی  1/3 حصہ ملے گا  اور باقی  2/3 حصہ  والد کو ملے گا ۔  ہاں اگر اس کے کئی بھائی بھی ہوں تو اس کی ماں کو چھٹا  1/6 حصہ ملے گا۔  ( بھائی بہن ہونے کی صورت میں ماں کا حصہ 1/3 کے بجائے 1/6 کردیا گیا ہے۔ اس طرح ماں کے حصہ میں سے جو حصہ لیا گیا ہے وہ باپ کو ملے گا۔ کیونکہ اس صورت میں باپ کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ یہ واضح رہے کہ میت کے والدین اگر زندہ ہوں تو اس کے بہن بھائیوں کو حصہ نہیں پہنچتا۔)

       5-        اگر بیوی   فوت ہوجائے خواہ ایک ہو یا ایک سے زیادہ ،   اگر اس کی یا ان کی کوئی اولاد نہ ہو تو شوہر کو آدھا حصہ ملے گا ۔ اگر  بیوی کی کوئی اولاد ہو تو  شوہر کو  میراث کا چوتھا 1/4  حصہ ملے گا ۔  اور اسی طرح اگر شوہر فوت  ہوجائے تو  چوتھا 1/4  حصہ بیوی کو ملے گا  اگر شوہر کی کوئی  اولاد نہ ہو۔ اگر اولاد ہو تو بیوی کو  آٹھواں  1/8حصہ ملے گا ۔ اگر بیوی  ایک سے زیادہ ہوں تو یہ  1/4 یا 1/8 حصہ سب بیویوں میں برابری کے ساتھ تقسیم ہوگا۔

       6-         اگر میت  خواہ مرد ہو یا عورت ایسا ہو کہ نہ اس کے والدین زندہ ہوں اور نہ کوئی اولاد (جس کو کلالہ کہتے ہیں)  اگر اس کا ماں شریک بھائی یا بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک  کو چھٹا 1/6حصہ ملے گا۔  باقی 5/6 یا 2/3جو بچتے ہیں ان میں اگر کوئی  وارث موجود ہو تو اس کو حصہ ملے گا۔ اگر سگے بھائی بہن، یا  وہ سوتیلے بھائی بہن جو باپ کی طرف سے  ہوں،   تو جیسے پہلے ذکر ہوا ہے کہ  اس طرح کے بھائی کو  بہن کے مقابلے  میں دوگنا حصہ ملے گا ۔

اعجازِ قرآن ۔ ایک مختصر جائزہ

محمد حسنین
ماہنامہ الشریعہ 
علوم قرآن کے تمام مباحث پر قرن اول سے اب تک ہر پہلو اور ہر زاویہ سے بحث کی جاتی رہی ہے لیکن پھر بھی ان کا حق ادا نہ ہو سکا اور اب بھی وہ تشنہ معلوم ہوتے ہیں۔ دوسرے مباحث کی طرح ’’اعجاز قرآن‘‘ کا موضوع بھی ابتدا ہی سے زیر بحث رہا ہے۔ اگرچہ ابتدائی صدیوں میں متکلمین کے کلامی مباحث یا مفسرین کی تفسیروں کے ضمن میں اس کا تذکرہ ہوتا تھا، لیکن بہت جلد اس موضوع پر مستقل تالیفات وجود میں آنے لگیں۔ چنانچہ کوئی صدی ایسی نہیں ملتی جس میں اعجاز قرآن کے موضوع پر پائے جانے والے علمی سرمایہ میں اضافہ نہ ہوا ہو۔

اعجاز قرآن کے مسئلہ کو شروع شروع میں مستقل بحث و تحقیق کا موضوع نہیں بنایا گیا، بلکہ اسے دیگر ان مسائل کے ساتھ شامل رکھا گیا جن میں اس زمانے میں زبردست کلامی بحثیں ہوتی تھیں اور ان کے سلسلہ میں اسلامی فرقوں کے درمیان باہم اختلاف تھا، خاص طور پر ان مسائل کے ساتھ جو نبوت اور معجزہ سے متعلق تھے۔ تیسری صدی ہجری میں اسلامی معاشرہ میں اعجاز قرآن کے بارے میں مختلف اقوال تھے جن کی وجہ سے اسلامی فرقوں میں کشمکش کی نازک صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔ ہر فرقہ کے لوگ اعجاز قرآن کے بارے میں اپنی رائے کا اثبات اور اپنے مخالفین کی آواز کا ابطال کرتے تھے۔ اس قسم کی کتابوں میں ابن قتیبہ کی ’’تاویل مشکل القرآن‘‘ ابوالحسن اشعری کی ’’مقالات الاسلامیین‘‘ جاحظ کی ’’حجج النبوۃ‘‘ اور ابوالحین خیاط کی ’’الانتصار‘‘ قابل ذکر ہیں۔ ہر صدی میں ’’اعجاز قرآن‘‘ پر لکھی جانے والی تالیفات کے مصنفین نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ اعجاز قرآن پر جو کچھ لکھ رہے ہیں، وہ حرفِ آخر ہے، لیکن اگلی صدی نے ان کے اس دعویٰ پر خط نسخ کھینچ دیا۔

معجزہ
معجزہ کی حقیقت پر بات کرتے ہوئے علامہ جلال الدین السیوطی ؒ المتوفی ۹۱۱ھ ؁ رقمطراز ہیں کہ 

’’اعلم أنَّ المعجزۃ أمر خارق للعادۃ ، مقرون بالتحدی، سالم من المعارضۃ‘‘ ۱؂
ترجمہ’’ معجزہ ایسے خارق عادت امر کو کہتے ہیں جس کے ساتھ تحدی بھی کی گئی ہو اور وہ معارضہ سے سالم رہے۔‘‘
جہاں تک معجزہ کی اقسام کا تعلق ہے حضرات علماء نے اس کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ 

۱۔ حسی معجزہ 

۲۔ عقلی معجزہ

قوم بنی اسرائیل کے اکثر معجزات کا تعلق حسی معجزات سے تھا جس کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ قوم بڑی کند ذہن اور کم فہم تھی جبکہ امت محمدیہ کے زیادہ تر معجزات عقلی ہیں جس کا سبب اس امت کے افراد کی ذکاوت اور ان کے عقل کا کمال ہے اور دوسرا سبب یہ ہے کہ شریعت محمدیہ چونکہ آخری اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے، اس لحاظ سے بھی اس کو عقلی معجزہ دیا گیا تاکہ اہل بصیرت اسے ہر وقت اور ہر زمانہ میں دیکھیں۔۲؂

نظم قرآن کیا خارج سے ماخوذ ہے؟ ڈاکٹر ساجد حمید

مدرسۂ فراہی کے تصورِ نظم قرآن سے متعلق یہ سوال بہت اٹھایاجاتا ہے کہ یہ قرآن کے کلام میں موجود ہے یا خارج سے کلام الٰہی میں ڈالا جارہا ہے؟ ذیل کی سطور میں اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس سوال کا مختصراً جواب تو یہ ہے کہ مدرسۂ فراہی کا تصورِنظم قرآن خارجی نہیں، بلکہ یہ قرآن کے کلام ہی سے ماخوذ ہے۔اب اس کو تفصیل سے سمجھتے ہیں۔
مصنف: ساجد حمید

مقدر مقدمات


مولانا فراہی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ قرآن فہمی میں رکاوٹ مقدر مقدمات کونہ سمجھنے میں ہے۔۱؂ یہی بات دراصل نظم قرآن کے تصورکا خلاصہ ہے۔پہلے مولانا کے اس جملے کو سمجھتے ہیں۔مقدر سے مراد وہ بات ہے جو کلام کے پس منظر میں موجود ہوتی ہے، مگر لفظوں میں بیان نہیں ہوتی۔ مقدمہ اس بات کو کہتے ہیں جس کی بنیاد پر باتیں کی جاتی ہیں۔ جیسے باپ کا بیٹے کو یہ کہنا کہ سچ بولو، یہ اس مقدمے پر قائم ہے کہ ’’سچ بولنا اچھائی ہے‘‘۔ یہ مقدمہ اگر موجود نہ ہو تو باپ کے اس حکم میں کوئی جان نہیں ہے۔ ’’سچ بولو‘‘کے اس جملے میں ’’سچ اچھا ہے‘‘ ایک مقدر مقدمہ ہے۔ہماری تمام باتیں مقدر مقدمات پر قائم رہتے ہوئے ہی کہی اور سمجھی جاتی ہیں۔انھیں عموماً بولا نہیں جاتا۔

جب بھی ہم کوئی بات کہتے ہیں تووہ معاشرے، عقل ، تجربے ، تصورات ، تہذیب اوردین وغیرہ میں موجود کچھ مقدمات (باتوں) پر قائم ہوتی ہے۔ مثلاً جب برصغیر پاک و ہند میں ایک بیوی اپنے شوہر کویہ آواز دیتی ہے کہ ’راستہ بدل لو، کالی بلی راستہ کاٹ گئی ہے‘ تو ’’راستہ بدل لو‘‘ جملے کا ’’کالی بلی راستہ کاٹ گئی ہے‘‘ سے کوئی تعلق اس وقت تک واضح نہیں ہوتا، جب تک کہ ہم یہ مقدر نہ کھولیں کہ ’کالی بلی کا راستہ کاٹنا منحوس سمجھا جاتا ہے‘۔ تو گویا دونوں جملوں کا ربط اس توہّم پر مبنی ایک مقدر تصور کے جاننے پر منحصر ہے۔ اسی طرح غالب نے جب یہ کہا کہ:

ابن  مریم  ہوا  کرے    کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

تو اس شعر کے دونوں مصرعوں کاباہمی تعلق ایک مقدر مقدمے پر قائم ہے، وہ مقدر مقدمہ سیدنا عیسیٰ کی مسیحائی ہے۔ اگر کوئی شخص اس مقدر سے واقف نہیں ہو گا تو شعرکا نہ مضمون سمجھ سکے گا اور نہ اس سے حظ اٹھا سکے گا، کیونکہ دونوں مصرعوں کا ربط ہی اُس پر نہیں کھلے گا۔

فراہی مکتبِ فکر انھی مقدرات کے کھولنے کونظم کلام کہتا ہے۔یہ مقدرات اگرچہ لفظوں میں موجود نہیں ہوتے، مگر کلام ان پر استوار ہوتا ہے۔ روز مرہ کی گفتگو ہو، یا علمی و تحقیقی مقالات ہوں، انھی مقدرات پر اپنے معنی پاتے، اور باتوں کو مربوط کرتے ہیں۔ان مقدرات کی دو قسمیں ہیں:

۱۔ آفاقی مقدمات،جو تمام انسانوں کے تصورات میں موجود ہیں۔ مثلاً(ذہنی) سچ بولنا اچھائی ہے، (حسی) آسمان نیلا ہے۔ جیسے ’’گنبد نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا‘‘،میں گنبد نیلوفر ی سے مراد آسمان ہے۔

۲۔ علاقائی مقدمات، جو ایک علاقے میں تو موجود ہوں، مگر باقی دنیا ان سے ناواقف ہو ۔مثلاً اردو شعر کی روایت میں ستم زدہ عاشق کے رونے سے سیلاب آسکتے ہیں جس سے گھر اور بستیاں ویران ہو سکتی ہیں، جیسے:

گر یونہی روتا رہا غالب تو اے اہل   جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں
غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے
بیٹھے ہیں ہم  تہیہ  طوفاں  کیے   ہوئے

یہ علاقائی مقدرات پھر دو قسم کے ہوتے ہیں:

۱۔ اس علاقے کے آفاقی، جیسے ہندوستان میں ذات پات میں برہمن کا تقدس اور شودر کا تذلل۔یا مثلاً برہمن کا غیب گو ہونا، غالب نے اس سے مضمون باندھا ہے:

دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض!
اک برہمن  نے کہا ہے کہ یہ  سال   اچھا   ہے

۲۔ متکلم کے خود ساختہ مقدمات جسے وہ مقدار کی حیثیت سے استعمال کرے۔ جیسے علامہ اقبال کا تصورِ خودی، لیکن مقدر کے طور پر استعمال کے لیے شاعر کو اسے متعارف کرانا پڑتا ہے ۔اقبال نے اپنے اس تصور کا اپنی شاعری میں خوب تعارف کرایا ہے، کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ یہ تصور نیا ہے، لوگ اسے سمجھ نہیں سکیں گے، لہٰذا وہ مختلف پیرایوں سے اسے بیان کرتے ہیں، ہمارے عہد کے بعض شعرا نے علامتی شاعری کی ہے، لیکن وہ اپنی علامتوں کو متعارف نہ کراسکے، اس لیے علامتی شاعری ان کے حلقوں سے باہر نہ نکل سکی۔

اب اصول یہ سمجھیے کہ مقدرات دراصل وہ تصورات ہیں جو کلام میں کہی گئی باتوں میں مقدمات کا کردار ادا کرتے ہیں، جن پر معنی کا دارو مدار ہوتا ہے۔ یہ مقدرات جس قدر معروف ہوں گے اسی قدر کلام واضح دو ٹوک اور دلالت میں صریح ہوگا۔ لیکن بعض اوقات یہ مقدرات غیر اہل زبان کے ہاں مختلف ہونے کی وجہ سے رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ مثلاً اردو میں ’برسا ت کا دن‘ مضمون لکھنے کو دیا جائے تو یہ دل پسند اور خوب صورت وقت کا بیان ہو گا ، لیکن انگریزی کا rainy-day مصیبت کے لیے معروف ہے۔ اب جس کو اس کا پتا نہیں ہو گا،اس کے لیے اس جملے saving money for a rainy day کا مطلب ہوگا کہ پیسہ جمع کرکے برسات کے دنوں میں عیش کریں گے ، حالاں کہ انگریز یہ کہنا چاہتا ہے کہ میں ایمرجنسی کے لیے روپے جمع کررہا ہوں۔ لہٰذا غیر زبان کے بعض مقدرات نا معلوم ہونے کی وجہ سے کلام غیر مفہوم رہ سکتا ہے۔یہی وہ بات ہے جو مولانا فراہی نے لکھی ہے کہ کلام کے مقدر مقدمات کونہ سمجھنے کی وجہ سے قرآن فہمی میں رکاوٹ رہی ہے۔

مقدر کلام کے دروبست سے بھی پیدا ہوجاتا ہے۔۲؂ ہو سکتا ہے کہ وہ پہلے اہل زبان کے ہاں معروف نہ ہو، لیکن جب وہ معروف سے پھوٹا ہو گا تو فوراً سمجھ میں آئے گا، اور اگر معروف سے نہیں پھوٹا ہو گا تو مختلف فیہ ہو جائے گا، لہٰذا کلام مبہم یا زیادہ غور کا محتاج ہو جائے گا۔اسی عمل سے لسانی ارتقا ہوتا ہے اور الفاظ اپنے دامنِ معنی کو وسیع کرتے جاتے، اور بعض معانی کواپنے دامن سے نکال پھینکتے رہتے ہیں۔کلام کے دروبست سے پیدا ہونے والے مقدر کو ذیل کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں:

"میں کلاس میں داخل ہوا، طالب علم شور مچارہے تھے۔مجھے دیکھتے ہی سب احتراماًخاموش ہو کر اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے۔ پھر میں پڑھانے لگا۔"

اس کلام میں واحد متکلم کو آخری جملے نے استاد کی حیثیت دے دی ہے۔یہ مقدر کلام کے دروبست نے پیدا کیا ہے۔اب اگر میں اس کی شرح میں لکھ دوں کہ استاد نے ایسا کہاتو غلط نہ ہوگا۔اگر ایسا نہ کیا جائے تواوپر خط کشیدہ میں اور ’’احتراماً‘‘ اور ’’پڑھانے‘‘ کا ربط واضح نہیں ہوگا۔

مختصر یوں کہیے کہ ہمارے ذہنوں میں کچھ مانے اور جانے بوجھے تصورات ہوتے ہیں، جن کوذہن میں رکھ کر ہم بات کرتے ہیں، لیکن ان کو لفظوں میں نہیں بتاتے۔ایسی باتوں کو مقدرات کہتے ہیں، کلام کے معنی کا بڑا انحصار انھی کے علم و دریافت پر کھڑا ہوتا ہے۔عرب اپنے مزاج میں عجمیوں سے زیادہ مقدر مقدمات پر انحصار کرتے ہیں۔ان کے کلام کا یہ وصف ’خیر الکلام أقل و أدل‘، ان کے کلام کو دنیا سے ممتاز کرتا ہے۔قرآن بھی انھی کے اسلوب میں اترا ہے۔ ایسے کلام میں مقدرات کی تعداد زیادہ ہوجاتی ہے۔لہٰذا ایسا کلام اعلیٰ تر ذکاوت اور ژرف نگاہی کا تقاضا کرتا ہے۔ عجمیوں کا یہ مزاج نہیں تھا، اس لیے انھیں قرآن غیر مربوط دکھائی دیتارہا، کیونکہ دو جملوں کو جوڑنے والے مقدرات ان پر منکشف نہیں ہوئے تو وہ کلام کے ربط کونہ پاسکے۔

انھی مقدرات کے تحت تعلیل، تقابل، اصل، فرع، اعتراض اور استدراک وغیرہ کے تعلق کلام میں پیدا ہوتے اور معنی آفرینی کرتے ہیں۔

معنوی بندھن اور مقدرات


محذوف مقدرات کے بعد دوسری اہم چیز کلام کے معنی کے بندھن میں ان مقدرات کا کردارہے۔ درج ذیل مثال پر غور فرمائیں:

o ماں نے بیٹے سے کہا: بہت گرمی لگ رہی ہے۔

بیٹے کی طرف سے چند ممکنہ جوابات یہ ہوسکتے ہیں:

o امی، اے سی چلا لیں۔
o سورج نے تو جلانے کی قسم کھا رکھی ہے۔
o ہاں گرمی تو جانے کا نام ہی نہیں لے رہی۔

یہ جوابات ماں کی بات سے واضح طور پر مربوط ہیں۔ کسی کو ان کے ربط سے انکار نہیں ہو گا۔ لیکن ماں کی اسی بات کہ بہت گرمی لگ رہی ہے کے جواب میں ذرا بیٹے کے ان جملوں پر توجہ دیجیے:

o امی، ابھی آیا۔
o امی، ذرا انتظار کریں ، نہار ہا ہوں۔
o اماں، فرج خراب ہے۔

یہ جوابات بظاہر غیر متعلق ہیں، لیکن ایک مقدر مفہوم پر منحصر ہیں، اس لیے بظاہر غیر متعلق ہوتے ہوئے بھی عین متعلق ہیں۔ ماں نے جب کہا کہ گرمی لگ رہی ہے تو بیٹے نے یہ سمجھا کہ والدہ کہہ رہی ہیں کہ آکر میرا پنکھا چلادو ، یا مجھے ٹھنڈا پانی دو۔ تینوں جملے اس مفہوم کو سامنے رکھ کر جواب میں کہنے ممکن ہیں ۔ اگر والدہ کے اس جملہ کہ گرمی لگ رہی ہے، میں یہ مقدر نہ مانا جائے کہ والدہ پنکھا چلانے یا ٹھنڈاپانی مانگ رہی ہیں تو یہ تینوں جواب غلط ہیں۔ بیٹے نے اس سادہ جملے میں مقدر معنی کو محسوس کیا ہے، اس لیے اس کے احساس کے مطابق اس نے نہایت متعلق باتیں کہی ہیں۔لیکن جو اس جملے کا یہ مقدر نہ سمجھے، وہ بیٹے کو بے وقوف سمجھے گا کہ کس طرح کے غیر متعلق جواب دیے جارہا ہے۔ لہٰذا مقدر مفاہیم دو باتوں کے درمیان بندھن کا کام کرتے ہیں، جو بظاہر مختلف یا غیر متعلق ہوتے ہیں۔

یہ بندھن کئی پہلوؤں سے ہو سکتا ہے۔ ہم یہاں چارعمومی طور پر ممکن مقدرات کو بطور مثال پیش کرتے ہیں۔

۱۔ مفہوم، جملہ جس بات کو کہنے کے لیے بولا گیا ہے۔ مثلاًماں نے بیٹے سے کہا: بہت گرمی لگ رہی ہے، کا جملہ موسم کی حالت کا پتا دے رہا ہے۔ (اس میں مقدر یہ ہے کہ والدہ صرف موسم پر تبصرہ کررہی ہیں)۔

۲۔ مدعا: جملہ جس بات کو سامع تک پہنچانا چاہتا ہے۔ مثلاً اس جملے میں ماں بیٹے کوکہنا چاہتی ہے کہ گرمی ہے پنکھا چلادیا جائے، یا ٹھنڈا پانی پینے کو دیا جائے وغیرہ۔ (اس میں مقدر یہ ہے کہ والدہ گرمی کا کہہ کر کچھ مطالبہ کررہی ہیں)۔

۳۔ نتائج: کہی گئی بات کے کچھ نتیجے نکلیں گے۔ مثلاًیہ کہ موسم خوشگوار نہیں ہے، باہر جانا آسان نہیں ہے ، ماں تکلیف میں ہے، وغیرہ۔ (اس میں مقدر یہ ہے کہ والدہ موسم کا کہہ کر کسی کام سے روکنا چاہتی ہیں، یا کچھ نتائج کی طرف اشارہ کرنا چاہتی ہیں)۔

۴۔ تقاضا: اس جملے کے کچھ تقاضے پیدا ہوں گے۔ مثلاً پنکھا فوراً چلنا چاہیے، ماں کی تکلیف زائل ہونی چاہیے، وغیرہ۔ (اس میں مقدر یہ ہے کہ مدعا پر عمل کیا جائے، نتائج کا خیال رکھا جائے ، دی گئی اطلاع کو پیش نظر رکھا جائے)۔ ]یہ اوپر کے تینوں مقدرات کا خیال رکھنا ہے[۔

یہ سارے معنی اس جملے کا ممکنہ حصہ ہیں جو ماں نے بیٹے سے کہا۔ اگرچہ بولے نہیں گئے۔اب اگلے جملے ان میں سے کسی کی رعایت کرتے ہوئے بولے جائیں تو وہ ایک ربط رکھتے ہوں گے خواہ وہ بظاہر غیر مربوط معلوم ہوتے ہوں۔
مثلاً بیٹا ماں کو کہے: اچھا میں پنکھا چلاتا ہوں، یا وہ کہے کہ ماں ، بجلی نہیں آرہی ہے، یا وہ کہے: ماں، میں نے کہا تھا ناکہ اس وقت باہر نہ جاؤ، واضح طور پر مربوط ہوں گے۔پہلا اور دوسرا جواب تقاضے کے پہلو سے ہے ، تیسرا نتائج کے اعتبار سے ہے ۔ لیکن اگر بیٹا ماں سے کہے کہ میں نہا رہا ہوں، تو یہ جملہ قدرے غیر متعلق لگ رہا ہے۔ لیکن وہ بھی مربوط ہے، تقاضے کے لحاظ سے وہ کہنا چاہتا ہے کہ میں نہا رہا ہوں آپ کا پنکھا فوراًنہیں چلا سکتا۔آپ کو کچھ انتظار کرنا ہوگا، یا خود اٹھ کر چلا لیں۔

اب غالب کے درج ذیل شعر پراس زاویۂ نگاہ سے غور کیجیے کہ اس نے کس طرح مقدرمقدمات سے دو مصرعوں کو مربوط بنایا ہے:

گھرہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
بحر گر  بحر  نہ   ہوتا   تو   بیاباں    ہوتا

ان دونوں مصرعوں کا دور دور تک کوئی باہمی تعلق نہیں ہے۔ لیکن اس میں ایک شاعرانہ اور دو مادی تجربے پر مبنی مقدمات مقدر ہیں ۔شاعرانہ مقدمہ یہ ہے کہ رونے سے اتنا پانی جمع ہوجاتا ہے کہ گھر غرقاب ہوجاتا ہے۔پہلے مصرعے میں یہی مقدر مقدمہ موجود ہے۔ اگر میں نہ روتا، یعنی گھر غرقاب نہ بھی ہوتا تو تب بھی ویران ہوتا۔ دوسرے مصرعے میں دومادی تجربے پر مبنی مقدر ات کو بطور دلیل بنایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ اگر سمندر سے پانی نکال دیا جائے تو باقی بیایاں ہی بچے گا۔دوسرا یہ کہ بیاباں ویران ہوتا ہے ۔ اب دونوں مصرعے نہایت مربوط ہیں، یعنی شاعر اپنے مخاطب سے کہتا ہے کہ تم مجھے کہہ رہے ہو کہ تمھارے رونے سے تمھارا گھر پانی میں غرقاب ہو کر ویران ہوگیا ہے، اگر تم نہ روتے تو گھر ویران نہ ہوتا، تو تمھاری بات درست نہیں، اس لیے کہ میرے نہ رونے سے گھر غرقاب نہ ہوتا تو تب بھی گھر ویران ہی ہوتا، اس لیے کہ یہاں اگرپانی نہ ہوتا تو ویران بیاباں ہوتا، کیونکہ بحر سے پانی نکال دیا جائے تو اس کے بعد بیاباں ہی نمودار ہوگا، آباد گھر تو برآمد نہیں ہوگا۔
لفظی مقدرات

باتوں اور جملوں کی طرح لفظ بھی مقدرات کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ جن چیزوں کے نام یا علامت ہیں، ان کے اوصاف و خصائص کویہ مقدرات کے طور پر اپنے جلو میں لیے کلام میں چلتے ہیں۔ مثلاً پانی کا لفظ، سیال ہونے، مشروب ہونے، آگ اور پیاس بجھانے والا ہونے، جیسے متعدد مقدرات اپنے ساتھ رکھتا ہے۔اردو محاورے ’آگ پانی کا کھیل‘ اور ’پانی میں آگ لگانا‘ میں پانی اور آگ کے وہ اوصاف مقدر کا کام کررہے ہیں جو دونوں کومادی دنیا میں یکجا نہیں ہونے دیتے۔

بسم اللہ میں صفاتِ رحمن و رحیم پر اسی زاویے سے غور کریں۔ برکت و سازگاری رحمت کا ایک مقدر مفہوم ہے۔ کھانا کھاتے ہوئے اس کا پڑھناطلب برکات و ساز گاری کے لیے ہے۔قرآن مجید کی سورتوں میں سرنامے کے طور پر اس کا استعمال رحمت اور ہدایت کے اس تعلق سے ہے جو سورۂ رحمن میں بتایا گیا ہے کہ ’اَلرَّحْمٰنُ، عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ‘۔ یہی چیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’رحمۃً للعالمین‘ کہنے میں پیش نظر ہے۔یعنی براہِ مہربانی و خیر خواہی صحیح بات کی طرف ہدایت رحمت کا ایک مقدر حصہ ہے۔ یہاں دیکھیے کہ کس طرح رحمت اپنے مقدر مفہومات سے معنی آفرینی اور ربط کا عمل سرانجام دے رہی ہے۔مولانا فراہی اور ان کے پہلی اور دوسری نسل کے تلامذہ انھی مقدرات کو پہچانتے اور معنی میں ربط تلاش کرتے ہیں۔یہ ہر گز خارج سے داخل کیے گئے تصورات نہیں ہیں۔

یوں مقدرات وہ بنیادی اکائی ہیں، جن پراجزاے کلام کا معنوی ربط قائم ہوتا ہے۔قرآن مجید نے انسانی فطرت، عرب سماج، دین ابراہیمی، عرب لسانی تصورات، اخلاقی حسن و قبح، انسان اور عربوں کے عقلی مسلمات،مادی تجربات، اور ظواہر کائنات وغیرہ پر مبنی مقدمات پر اپنے کلام کی معنویت کی بنیادیں استوار کی ہیں۔ ان کے بیچوں بیچ اس نے نئے الوہی ، اسلامی، اخلاقی اور حکمت الٰہیہ کے مقدمات کو بھی متعارف کراکے مقدرات کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اب قرآن مجید سے چندمثالیں دیکھتے ہیں۔

مولانا فراہی نے سورۂ نجم کی ایک آیت کے جملے: ’فَلَا تُزَکُّوْٓا اَنْفُسَکُمْ ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنِاتَّقٰی‘ (۵۳: ۳۲) پر لکھا ہے:

یعنی اپنے مزکی ہونے (یا پاکی داماں) کی حکایت اتنی نہ بڑھاؤ، کیونکہ اللہ جانتا ہے کہ تم میں سے کون متقی ہے۔ تو مولانا کہتے ہیں کہ اس سے یہ واضح ہوا کہ تزکیہ دراصل تقویٰ ہے۔۳؂ آیت کے خط کشیدہ الفاظ کا موازنہ کریں۔ مولانا کی مراد یہ ہے کہ ’تُزَکُّوْا‘ میں تقویٰ کا مفہوم مقدر تھا، تبھی اس پر یہ جملہ بولنا مربوط ہو گا کہ وہ متقیوں کو جانتا ہے۔ میں مولانا فراہی کا حوالہ اس لیے دے رہا ہوں تاکہ یہ واضح ہو کہ میں یہ بات اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا کہ نظم کلام کا داخلی جزو ہے، بلکہ اس تصور کے موجدِ اول نے یہی بات کہی ہے۔

اب ایک مجموعۂ آیات کو دیکھیے کہ مولانا نے اسے کیسے حل کیا ہے:

وَالسَّمَآءَ بَنَیْنٰھَا بِاَیْدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ. وَالْاَرْضَ فَرَشْنٰھَا فَنِعْمَ الْمٰھِدُوْنَ. وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ. فَفِرُّوْٓا اِلَی اللّٰہِ اِنِّیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ.(الذاریات۵۱: ۴۷۔۵۰)

’’آسمان کو ہم نے عظیم قدرت کے ساتھ بنایا ہے اور ہم بڑی وسعت رکھنے والے ہیں۔ اور زمین کو ہم نے بچھا دیا ہے، سو کیا خوب بچھانے والے ہیں۔ اور ہم نے ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں تا کہ تم یاددہانی حاصل کرو۔ اِس لیے دوڑو اللہ کی طرف، میں اُسی کی طرف سے تمھیں ایک کھلا خبردار کرنے والا ہوں۔‘‘

مولانا فراہی یہ کہتے ہیں کہ اس مجموعۂ آیات میں جوڑے جوڑے بنانے کا ذکر خدا کی قدرت اور حکمت پر دلالت کر رہا ہے، پھر اس دارفانی کے تتمہ۴؂ آخرت پر دلالت کررہا ہے، اور پھر اعمال کے لیے مجازات کے تتمہ پر دلالت کررہا ہے۔ ۵؂ مولانا کی بات کا مطلب یہ ہے کہ آسمان کے لیے ’بَنَیْنَا‘ (عمارت)کا لفظ اور زمین کے لیے ’فَرَشْنَا‘ (فرش یا زمین)کا لفظ بولا گیا ، پھر کہا گیا کہ ہم نے ہر چیز جوڑا جوڑا بنائی ہے۔ تو واضح ہوا کہ زمین و آسمان عمارت اور فرش ہونے کی وجہ سے جوڑا جوڑا ہوئے۔ گویا اگر کسی جگہ صرف عمارت تو ہو، مگر نیچے زمین نہ ہوتو گھر نہ بنا، اسی طرح فرش تو ہو، مگرعمارت نہ ہوتو تب بھی گھر نہ ہوا۔تو یوں گھر بنانے کے لیے آسمان اور زمین ایک دوسرے کے لیے تتمہ ہوئے۔ یعنی دونوں مل کر گھر تشکیل کرتے ہیں۔ پھر کلام آگے بڑھتا ہے اور کہتا ہے کہ ہر چیز کو جوڑے جوڑے اس لیے بنایا کہ تم ان سے یاددہانی حاصل کرو۔ مراد یہ کہ ہر چیز کو جوڑا اس لیے بنایا کہ تم اس کائنات پر اس زاویے سے نگاہ دوڑا کر ایک مخفی حکمت کو جانو کہ ہر چیز جوڑا جوڑا ہے۔ لیکن قرآن کی یاددہانی مادی نہیں، بلکہ روحانی ہے ۔ اس لیے کلام آگے بڑھا تو کہا کہ اللہ کی طرف لپکو۔اور اس لپکنے کی دعوت کو ’نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ‘ سے جوڑ کر ڈر انا قرار دیا۔ اب جب ہر چیز جوڑا ہے، اور جوڑے تذکیر کے لیے بنائے گئے، اس تذکیر سے نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ کی طرف بڑھو، ورنہ مارے جاؤ گے تو کلام منہ کھول کر اعلان کررہا ہے کہ چیزیں جوڑا جوڑا بنانے کے عمل میں کوئی خبردار ہونے کی چیز موجود ہے۔ اس سے مولانا فراہی نے یہ نتیجہ نکالا کہ وہ کون سا جوڑا ہے جس سے خبر دار ہونا چاہیے تو قرآن کے مضامین کی روشنی میں انھوں نے زمین کے فرش اور آسمان کے عمارت ہونے جیسے دو جوڑے نکالے ہیں۔ ایک یہ کہ اس دنیا کا ایک جوڑا ہونا چاہیے جو اس دنیا کے تتمہ کا کام کرے۔ اور دوسرے یہ کہ اعمال کا تتمہ ان کی جزا و سزا ہے۔ یہ دونوں جوڑے بلاشبہ تتمہ بھی ہیں، لیکن ساتھ ہی ’نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ‘ کی دعوت کا حصہ بھی ۔ اسے مختصراً یوں سمجھیے:

آسمان اور زمین مل کر اس دنیا کومکمل بناتے ہیں،
یہ اس اصول پر ہے کہ ہر چیز جوڑا جوڑا ہے، جن کے ملنے سے ایک یونٹ مکمل ہوتا ہے،
جوڑا جوڑا بنایا جاناایک نشان ہے جس سے نصیحت حاصل ہوتی ہے،
یہ نصیحت خدا کی طرف بڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔
لہٰذا جوڑوں کے اس اصول میں کوئی ایسی بات ہے جو خدا کی یاددہانی دلوں میں ڈالتی ہے۔

اب چیزوں پر غور کریں تو ہر چیز کا جوڑا ہے، مگر اس دنیا کا جوڑا نہیں ہے۔ یعنی یہ دنیا دارالعمل ہے، لیکن دار العمل دار الجزا کا تقاضا کرتا ہے۔تب جاکر اس کی نیکی بدی کے شعور والے انسا ن کی زندگی کی معنویت مکمل ہوتی ہے۔

تو اس دارالعمل کا جوڑا دار الجزا ہونا چاہیے، یعنی آخرت۔

یہ وہ شان دار استدلال ہے جو مولانا نے ان آیات کے نظم سے کشید کیا ہے۔ اسی کو مولاناکہتے ہیں کہ نظم حکمتِ قرآن کا دروازہ ہے۔

غرض یہ کہ لفظ، جملے، پیراگراف، سورتیں اور پھر ابواب اسی طرح کے مقدرات کے ساتھ مربوط ہو کر ایک شان دار مرتب کتاب کی صورت اختیار کرتے ہیں۔ اس مضمون کا تنگ ناے اس کی اجازت نہیں دیتا کہ ان تمام پہلوؤں پر بات ہو سکے۔ لیکن مذکورہ بالا اصول اور اس کی روشنی میں چند مثالیں امید ہے بات کو سمجھانے کے لیے مفید ہوں گی۔ اس اصول کی عملی تطبیق کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ مدرسۂ فراہی کے اکابرین کی تفاسیر کو پڑھا جائے۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ کا ’’مجموعہ تفاسیر‘‘، مولانا امین احسن صاحب اصلاحی رحمہ اللہ کی ’’تدبر قرآن‘‘ اور استاذی الجلیل غامدی صاحب دامت برکاتہ کی ’’البیان‘‘ اسی نظم کی دریافت پر مبنی تفاسیر ہیں۔ ان کا اس زاویے سے مطالعہ اس بات کو مزید واضح کرے گا کہ نظمِ قرآن خارج سے قرآن کے کلام میں نہیں ڈالا گیا ، بلکہ اس کے الفاظ و جمل کی دلالت اس طرف لے جاتی ہے۔وہ زاویہ یہ ہے کہ کلام کے مقدرات کو کھول کر مربوط کرنے کا نام نظم قرآن ہے۔ ان کے علاوہ فراہی صاحب کی ’’دلائل النظام‘‘ اصلاحی صاحب کی ’’مبادی تدبر قرآن‘‘ اوراستاذ گرامی کی ’’میزان‘‘ میں ’’اصول و مبادی‘‘ کا باب اور ’’البیان‘‘ کا ’’خاتمہ‘‘ بھی مفید مطلب ثابت ہوگا۔ لیکن مقدرات کے کھولنے اور نظم واضح کرنے کی عملی صورت بہرحال صرف تفاسیر ہی میں ملے گی۔

وہ تفاسیر، جو شانِ نزول، فلسفہ، منطق، تصوف اور اسلاف کی آرا پر مشتمل ہیں ، وہ دراصل خارج سے متن قرآن کی تفسیر کرنا ہے، جب کہ ہم پیروانِ مدرسۂ فراہی، اسی معنی کو قبول کرتے ہیں، جن کو قرآن کے الفاظ ،جمل اور سیاق و سباق وغیرہ اپنے معانی اور ان سے وابستہ مقدرات کے طور پر قبول کرتے ہوں۔ یہ اتنا محکم ضابطہ ہے کہ اس میں کسی مفسر کی غلطی پکڑنے اوراس کی تفسیر کی اصلاح و تصحیح کا باب ہمیشہ وا رہتا ہے۔ مثلاً اگر مولانا فراہی کسی مقدر کو غلط کھولیں اورکلام کسی اور مقدر کی طرف اشارہ کررہا ہو تو فکرفراہی کا ایک طالب علم بھی ان سے اختلاف کرکے اصلاح کر سکتا ہے ۔اسی بات کو استاذ گرامی یوں کہتے کہ قرآن کے شہرستان معانی کا ایک ہی دروازہ ہے، اور وہ لفظ ہے۔

لیکن جب معنیِ قرآن کا فیصلہ خارج سے ہونا ہو، اور ان لوگوں کے اقوال سے ہونا ہو، جنھیں امامت کا درجہ حاصل ہوتو پھر اصلاح و تصحیح کی کوئی گنجایش نہیں رہتی ۔ یہ مقام صرف رسولِ خدا کو حاصل ہے کہ ان کی بات سے چون و چرا نہ کیا جائے۔ آپ کے بعد یہ مقام کسی کو حاصل نہیں ہے۔اسی وجہ سے مدرسۂ فراہی سنتِ متواترہ کو قرآن کی حتمی تفسیر مانتا ہے۔ لیکن خبر آحاد کے بارے میں توقف اور غور وفکر کا قائل ہے، اس لیے کہ آپ سے ان کی نسبت کے ظن اور روایت بالمعنیٰ میں خطا کے امکان نے اس کا مقامِ معصومیت اس سے چھین لیا ہے۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ سنتِ متواترہ بھی لسانی تواتر کا حصہ ہے، یہ بھی خارج سے تفسیر نہیں ہے۔ جب قرآن ’اَقِمِ الصَّلٰوۃَ‘ کہتا ہے،توہم ’الصَّلٰوۃ‘ کے معنی پنجگانہ نماز صرف اس لیے نہیں کرتے کہ یہ سنت متواتر ہ میں آیا ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ عہدِ نزولِ قرآن سے تا حال ’الصَّلٰوۃ‘ کے لغت میں متواتر معنی یہی ہیں۔


یہ بھی پڑھیں !

کلام کی ایک اہم خوبی: مقدرات ۔ ڈاکٹر ساجد حمید 

فراہی مکتبہ فکر کورس (کلاس :۱۔ ۱۲)  ۔  ڈاکٹر ساجد حمید 


____


۱؂ حجج القرآن ۲۷۔ واضح رہے کہ نظم کے داخلی ذرائع میں اور بھی پہلو ہیں، مگر یہاں صرف مقدرا ت پر بات کرنا پیش نظر ہے، اس لیے کہ یہ بنیادی چیز ہے۔
۲؂ آگے قرآن سے دی گئی مثالوں میں ’وَالسَّمَآءَ بَنَیْنٰہَا‘، والی آیات اسی نوع کی مثال ہے۔
۳؂ رسائل الامام الفراہی فی علوم القرآن ۱۱۸۔
۴؂ Complemental Halfوہ چیز جو کسی مجموعہ کو مکمل کرنے میں آدھا کردار ادا کرتی ہو یا کسی یونٹ کو مکمل کرتی ہو۔
۵؂ رسائل الامام الفراہی فی علوم القرآن ۱۱۹۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت نومبر 2017