مشرق وسطی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مشرق وسطی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بالفور اعلامیہ: سادہ کاغذ پر لکھے گئے 67 الفاظ جنھوں نے مشرق وسطیٰ کی تاریخ بدل ڈالی

بی بی سی اردو ۲نومبر ۲۰۲۳م 

ایک سادہ کاغذ پر لکھے 67 الفاظ نے مشرق وسطی میں ایک ایسے تنازع کا آغاز کیا جو اب تک حل نہیں ہو سکا۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازع کے دوران، جس میں 1400 اسرائیلی اور ساڑے آٹھ ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، بالفور اعلامیہ کے 106 سال بیت چکے ہیں۔ یہ ایک ایسی دستاویز تھی جس نے اسرائیل کو جنم دیا اور مشرق وسطی کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔

دو نومبر 1917 کو پہلی عالمی جنگ کے دوران لکھی جانے والی اس تحریر میں پہلی بار برطانوی حکومت نے فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک ریاست کے قیام کی حمایت کی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب سلطنت عثمانیہ کو شکست دینے کے بعد فلسطین پر برطانیہ کنٹرول حاصل کر چکا تھا۔

عرب اس دستاویز کو ’برطانوی دغا‘ سمجھتے ہیں کیوں کہ سلطنت عثمانیہ کو شکست دینے میں انھوں نے برطانیہ کا ساتھ دیا تھا۔ بالفور اعلامیہ کے بعد تقریباً ایک لاکھ یہودی فلسطین پہنچے تھے۔



اس اعلامیے میں کیا کہا گیا؟


یہ اعلامیہ اس وقت کے برطانوی سیکریٹری خارجہ آرتھر بالفور نے بیرن لیونیل والٹر روتھس چائلڈ کو بھجوایا تھا جو برطانیہ میں یہودی کمیونٹی کے ایک رہنما تھے۔

اس اعلامیہ میں لارڈ روتھس چائلڈ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا گیا:

گلوبل ساؤتھ کیا ہے؟

بی بی سی اردو 
11 جنوری 2023ء 

وائس آف دی گلوبل ساؤتھ: کیا ترکی، سعودی عرب اور انڈیا اپنا رخ بدل رہے ہیں؟

یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کے حوالے سے ترکی نے امریکہ کی ایک نہ سنی، انڈیا نے بھی روس سے تیل درآمد کرنا بند نہیں کیا، بائیڈن سعودی عرب کو الگ تھلگ کرنے کی بات کر رہے تھے لیکن اچانک خود ہی سعودی عرب پہنچ گئے۔ تو کیا یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ اب متوسط طاقت کہے جانے والے ممالک امریکی دباؤ میں آنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

ادھرانڈیا 12 اور 13 جنوری کو ’وائس آف دی گلوبل ساؤتھ‘ سمٹ منعقد کر رہا ہے جس میں اس نے 120 ممالک کو مدعو کیا ہے۔اس کانفرنس کی صدارت وزیراعظم نریندر مودی کریں گے۔ اس میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ اور سری لنکا کے صدر رانیل وکرماسنگھے سمیت کئی عالمی رہنما شرکت کر سکتے ہیں۔

انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے 2019 میں 25 اور 26 اکتوبر کو باکو، آذربائیجان میں ہونے والی نان الائنڈ موومنٹ کے 19ویں سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔ اس سے قبل 2016 میں وینزویلا میں منعقدہ 18ویں سربراہی اجلاس میں بھی انھوں نے شرکت نہیں کی تھی۔ ان سربراہی اجلاسوں میں ملک کے نائب صدر نے شرکت کی تھی۔ 2016 میں اس وقت کے نائب صدر حامد انصاری وینزویلا اجلاس میں انڈیا کی نمائندگی کررہے تھے اور 2019 میں اس وقت کے نائب صدر وینکیا نائیڈو باکو اجلاس میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ اس تحریک کے سربراہی اجلاس میں مودی کی عدم شرکت کو ایک فیصلہ کن قدم کے طور پر دیکھا گیا کیونکہ انڈیا اس کا بانی رکن تھا۔ 1961 میں اس کے سربراہی اجلاس کے آغاز کے بعد سے انڈیا کے تمام وزرائے اعظم نے اس میں شرکت کی ہے۔ نریندر مودی کا سربراہی اجلاس میں نہ جانا انڈیا کی خارجہ پالیسی میں نہرو دور کی وراثت میں تبدیلی کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن کیا ایسا ہے کہ نریندر مودی کی خارجہ پالیسی نان الائنمنٹ کے اصول سے دور ہو گئی ہے؟

کھیل سعودی عرب کے وژن 2030 کا ایک اہم پہلو

 کھیل سعودی عرب کے وژن 2030 کا ایک اہم پہلو

ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو قطر ورلڈ کپ کے دوران کئی بار فیفا کے سربراہ جی وی انفینٹینو کے ساتھ دیکھا گیا۔ سنہ 2016 میں محمد بن سلمان کے ’وژن 2030‘ کے تحت کھیلوں کو ترجیحات میں شامل کیا گیا تھا۔

اس کے بعد سعودی عرب میں کھیلوں کے حوالے سے بڑی تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں۔

وژن 2030 میں کھیلوں کے متعلق تین اہداف طے کیے گئے ہیں اور اس کے تحت سنہ 2030 تک کھیلوں میں عوام کی شرکت کو 40 فیصد تک بڑھانا، بیرون ملک سعودی کھلاڑیوں کی کارکردگی کو بہتر بنانا اور کھیلوں کی معیشت کو فروغ دینا ہے۔

فٹبال صحافی اوری لیوی کے مطابق رونالڈو کا سعودی عرب پہنچنا بڑی تبدیلی کی علامت ہے۔ انھوں نے محمد بن سلمان کی ایک ویڈیو ٹویٹ کی ہے جس میں سعودی ولی عہد کہہ رہے ہیں کہ مشرق وسطیٰ اب نیا یورپ بنے گا۔

ویڈیو میں ولی عہد کا کہنا ہے کہ ’اگلے پانچ سالوں میں سعودی عرب بالکل مختلف ہو جائے گا، بحرین بالکل مختلف ہو گا، کویت۔۔۔ یہاں تک کہ قطر بھی۔۔۔ ساتھ ہمارے اختلافات کے باوجود بھی۔۔۔ ان کی معیشت مضبوط ہے اور اگلے پانچ سالوں میں بالکل مختلف نظر آئیں گے۔ متحدہ عرب امارات، عمان، لبنان، اردن، مصر، عراق اور یہاں جو مواقع ہیں۔۔۔ اگر ہم اگلے پانچ سالوں میں کامیاب رہے تو بہت سے ممالک ہمارے نقش قدم پر چلیں گے۔‘

ولی عہد کا کہنا ہے ’اگلے 30 سالوں میں مشرق وسطیٰ میں نیا عالمی نشاۃ ثانیہ ہوگا۔ یہ سعودی کی جنگ ہے۔ یہ میری جنگ ہے اور میں اس لڑائی میں اس وقت تک مرنا نہیں چاہتا جب تک میں مشرق وسطیٰ کو دنیا کی قیادت کرتے ہوئے نہ دیکھوں۔ ہدف صد فیصد حاصل ہو کر رہے گا۔‘