پولا روساس، عہدہ,بی بی سی نیوز ورلڈ، 30 اکتوبر 2024
’عرب کہاں ہیں؟ عرب کہاں ہیں؟‘
یہ وہ فقرہ ہے جو اسرائیلی بمباری سے تباہ حال عمارتوں کے ملبے سے زندہ بچ نکلنے والے، اپنے ہاتھوں میں مردہ بچے اٹھائے اور بے بسی سے کیمرے کے سامنے چیختے غزہ کے ہر شخص کے منھ سے ادا ہوتا ہے۔
غزہ کے باسی بار بار پوچھ رہے ہیں اور اس بات پر حیران ہیں کہ ان کے عرب ہمسایہ ممالک اسرائیلی بمباری کے خلاف ان کا دفاع کیوں نہیں کر رہے؟
گذشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سے تمام نظریں مشرق وسطیٰ پر لگی تھیں اور سب کے ذہن میں یہ سوال تھے کہ اسرائیل کی جانب سے ردعمل کتنا شدید اور طویل ہو گا؟ اور خطے کے عرب ممالک کے عوام اور حکومتیں کیا ردعمل دیں گی؟آج تک پہلے سوال کا کوئی حتمی جواب نہیں مل سکا: اسرائیلی بمباری نے غزہ کی پٹی میں تباہی برپا کر دی اور اب تک 42500 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں لیکن اس کے تھمنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
دوسرے سوال کے جواب کا کچھ حصہ واضح ہے، اگر کوئی یہ توقع رکھتا ہے کہ عرب دنیا کے دارالحکومتوں میں بڑے پیمانے پر احتجاج یا مظاہرے ہوں گے تو انھیں مایوسی ہو گی۔ اگرچہ عرب ممالک کی آبادی کی بڑی تعداد کی حمایت اور جذبات فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے ہیں لیکن ان ممالک میں مظاہروں کو محدود رکھا گیا۔
قاہرہ میں امریکی یونیورسٹی کے پولیٹکل سائنس کے پروفیسر ولید قاضیہ نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’جہاں تک عرب ممالک کی حکومتوں کا تعلق ہے تو ان کا ردعمل یا تو بہت کمزور یا مایوس کن رہا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اسرائیل پر روایتی تنقید یا قطر اور مصر کی حکومتوں کی جانب سے اس تنازعے میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کے علاوہ کسی نے بھی فلسطینیوں کا ساتھ نہیں دیا۔