مشرق وسطی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مشرق وسطی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

معصوم فلسطینیوں کا قتل عام ؛ اصل مجرم کون ہے ؟

فلسطینیوں کے قتل عام اور ان کے حقوق کی پامالی میں صرف اسرائیل ہی مجرم نہیں، بلکہ کئی دیگر ممالک بھی براہِ راست یا بالواسطہ اس جرم میں شریک ہیں۔

1. امریکہ

امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی اور عسکری و مالی مددگار ہے۔ ہر سال اربوں ڈالر کی فوجی امداد، جدید اسلحہ، اور اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف قراردادوں کو ویٹو کرکے، امریکہ اسرائیل کے جرائم میں برابر کا شریک ہے۔

2. یورپی ممالک (برطانیہ، فرانس، جرمنی وغیرہ)

  • برطانیہ وہ ملک ہے جس نے 1917 میں اعلانِ بالفور کے ذریعے یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کا منصوبہ بنایا، جو آج کے اسرائیلی ریاست کے قیام کا بنیادی سبب بنا۔
  • فرانس اور جرمنی اسرائیل کو جدید اسلحہ فراہم کرتے ہیں اور ہمیشہ اس کے حق میں عالمی فورمز پر کھڑے رہتے ہیں۔

3. عرب ممالک (سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر وغیرہ)

  • متحدہ عرب امارات اور بحرین جیسے ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے، جس سے اسرائیل کو مزید تقویت ملی۔
  • سعودی عرب بظاہر فلسطینیوں کی حمایت کرتا ہے، لیکن عملی طور پر اسرائیل کے خلاف کسی مضبوط اقدام سے گریز کرتا ہے۔
  • مصر نے غزہ کی سرحد بند کر رکھی ہے، جس سے محصور فلسطینیوں کو امداد نہیں مل پاتی۔

4. بھارت

بھارت اسرائیل کا قریبی اتحادی ہے اور اس سے جدید ترین اسلحہ خریدتا ہے۔ اس کے علاوہ، بھارتی حکمران نظریاتی طور پر بھی اسرائیل کے ہندو قوم پرست ایجنڈے کے حامی ہیں۔

5. اقوام متحدہ اور بین الاقوامی ادارے

اقوام متحدہ کے فیصلے زیادہ تر رسمی ہوتے ہیں اور فلسطینیوں کے حق میں پاس کی گئی قراردادوں پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ہمیشہ اسرائیل کو عالمی دباؤ سے بچاتے ہیں۔

نتیجہ

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اسرائیل کو مظلوم فلسطینیوں کے قتل عام کا لائسنس دینے والے یہی ممالک ہیں۔ اگر یہ طاقتیں اسرائیل کی حمایت چھوڑ دیں، تو شاید فلسطینیوں پر ظلم رک جائے۔

غزہ کی پٹی میں 15 ماہ کی جنگ سے کتنا نقصان ہوا اور بحالی میں کتنا وقت لگے گا؟

وژیول جرنلزم ٹیم

عہدہ,بی بی سی نیوز

غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے لیکن 15 ماہ سے جاری لڑائی اور جنگ کے ساحلی فلسطینی علاقے پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

اسرائیل کی جانب سے اس علاقے پر فضائی حملے اور زمینی کارروائی 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے غیر معمولی سرحد پار حملے کے جواب میں شروع ہوئے، حماس کے اس حملے میں تقریباً 1200 افراد ہلاک اور 251 کو یرغمال بنا لیا گیا۔

حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق جنگ کے دوران 46 ہزار 600 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حماس کی فوجی اور حکومتی صلاحیتوں کو تباہ کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔غزہ کے باسیوں کو اس بات کی امید ہے کہ تازہ ترین جنگ بندی بالآخر امن کا پیش خیمہ ثابت ہوگی تاہم اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اس جنگ میں ہونے والی تباہ کاری کے بعد بحالی میں کئی سال یا دہائیاں لگ سکتی ہیں۔

بی بی سی کی ان تصاویر کی مدد سے یہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ یہاں (غزہ) میں جنگ کے دوران زندگی کس تیزی سے تبدیل ہوئی۔

تباہی کیسے پھیلی

اسرائیلی انتظامیہ کی توجہ ابتدا میں شمالی غزہ پر مرکوز تھی، اسی مقام اور علاقے کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ حماس کے جنگجو انھیں گنجان آباد شہری آبادی کے درمیان چھپے ہوئے ہیں۔

سرحد سے صرف 2 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شمالی قصبہ بیت حنون اسرائیلی حملوں کا پہلا نشانہ بننے والے علاقوں میں سے ایک تھا۔ اس علاقے کو اسرائیلی فوج کی کارروائیوں سے بھاری نقصان پہنچا۔اسرائیل نے غزہ شہر اور شمال میں دیگر شہری مراکز پر بمباری جاری رکھی اور اکتوبر کے آخر میں زمینی حملہ شروع کرنے سے پہلے شہریوں کو اپنی حفاظت کو مدِنظر رکھنے کی خاطر اس علاقے کو خالی کرنے اور 'وادی غزہ' کے جنوب میں منتقل ہونے کا حکم دیا۔

شام میں اسد خاندان کے 50 سالہ دور کا ’ایک ہفتے میں‘ خاتمہ

بی بی سی اردو 

ایک ہفتہ قبل تک شام کے حکمران بشار الاسد کا تختہ اُلٹنا ناقابل تصور تھا۔ اس وقت باغیوں نے شمال مغربی شام میں ادلب کے گڑھ سے اپنی جارحانہ مہم شروع کی تھی۔

یہ شام کے لیے ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ بشار الاسد اپنے والد حافظ الاسد کی موت کے بعد 2000 میں اقتدار میں آئے تھے۔ ان کے والد نے 29 تک ملک پر حکمرانی کی تھی اور اپنے بیٹے کی طرح ملک پر آہنی کنٹرول رکھتے تھے۔

بشار الاسد کو وراثت میں ہی ایک ایسا ملک ملا جہاں حکومت کا کنٹرول سخت رہتا تھا اور ایسا سیاسی نظام تھا جس کے بارے میں ناقدین مخالفین کو دبانے کا الزام لگاتے تھے۔ کسی قسم کی اپوزیشن کو برداشت نہیں کیا جاتا تھا۔

پہلے یہ امید تھی کہ چیزیں مختلف ہوں گی، سب کام شفافیت سے ہوں گے اور ظلم کم ہوگا۔ مگر یہ توقعات دیر تک قائم نہ رہ سکیں۔اسد کو ہمیشہ ایک ایسے آدمی کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے اپنی حکومت کے خلاف 2011 میں پُرامن مظاہرین پر تشدد کر کے انھیں منتشر کیا۔ اس صورتحال نے خانہ جنگی کو جنم دیا جس میں پانچ لاکھ لوگ ہلاک ہوئے اور 60 لاکھ بے گھر۔روس اور ایران کی مدد سے اسد باغیوں کو کچل کر اپنے دور اقتدار کو وسعت دینے میں کامیاب رہے۔ روس نے اپنی فضائی طاقت استعمال کی جبکہ ایران نے شام میں اپنے فوجی معاون بھیجے۔ لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا حزب اللہ نے شام میں تربیت یافتہ جنگجو تعینات کیے۔

شام کی تاریخی حیثیت

شام یا لیونت (انگریزی: The Levant) مشرق وسطٰی کے ایک بڑے علاقے کے لیے استعمال ہونے والی ایک غیر واضح تاریخی اصطلاح ہے۔ یہ علاقہ مغرب میں بحیرہ روم، مشرق میں صحرائے عرب کے شمالی حصوں اور بالائی بین النہرین اور شمال میں کوہ ثور کے درمیان واقع ہے۔ لیونت میں کوہ قفقاز، جزیرہ نما عرب یا اناطولیہ کا کوئی حصہ شامل نہیں سمجھا جاتا۔

یہ اصطلاح انگریزی میں پہلی بار 1497ء میں استعمال ہوئی جس کا مطلب "وینیٹیا کے مشرق میں بحیرہ روم کی سرزمین" کو واضح کرنا تھا۔ لیونت قرون وسطٰی کی فرانسیسی زبان کے لفظ سے نکلا ہے جس کا مطلب "ابھرنا" ہے اور اس ضمن میں اس خطے کو ابھرتے سورج کا علاقہ سمجھا جا سکتا ہے اور اسے عربی کے لفظ مشرق کا متبادل سمجھا جا سکتا ہے یعنی وہ علاقہ جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے۔

19 ویں صدی کے سفرناموں میں یہ اصطلاح سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں مشرقی علاقوں کے لیے استعمال ہونے لگی۔

لیونتیائی باشندوں کی اصطلاح خاص طور پر اطالویوں کے لیے استعمال ہوتی ہے خصوصاً وینس اور جینووا، فرانسیسی اور دیگر جنوبی یورپی نسل کے باشندوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو صلیبی جنگوں، بازنطینی سلطنت اور عثمانی سلطنت کے ادوار میں ترکی یا بحیرہ روم کے مشرقی ساحلوں پر رہتے تھے۔ ان افراد کے آبا و اجداد دراصل بحیرہ روم کی بحری مملکتوں کے رہنے والے تاجر تھے۔

1920ء سے 1946ء تک فرانس کے زیر قبضہ سوریہ اور لبنان لیونت ریاستیں (بلاد شام) کہلاتے تھے۔

آج کل لیونت کی اصطلاح ماہرین آثار قدیمہ اور تاریخ دان خطے کی قبل از تاریخ، قدیم اور قرون وسطٰی کی تاریخ کے حوالے سے استعمال میں رہتی ہے خصوصاً جب وہ صلیبی جنگوں کا ذکر کرتے ہیں۔

عرب کہاں ہیں؟ فلسطین کے مسلم ہمسائے ماضی کی طرح اس کی حمایت کیوں نہیں کر رہے؟

پولا روساس،  عہدہ,بی بی سی نیوز ورلڈ،  30 اکتوبر 2024


’عرب کہاں ہیں؟ عرب کہاں ہیں؟‘

یہ وہ فقرہ ہے جو اسرائیلی بمباری سے تباہ حال عمارتوں کے ملبے سے زندہ بچ نکلنے والے، اپنے ہاتھوں میں مردہ بچے اٹھائے اور بے بسی سے کیمرے کے سامنے چیختے غزہ کے ہر شخص کے منھ سے ادا ہوتا ہے۔

غزہ کے باسی بار بار پوچھ رہے ہیں اور اس بات پر حیران ہیں کہ ان کے عرب ہمسایہ ممالک اسرائیلی بمباری کے خلاف ان کا دفاع کیوں نہیں کر رہے؟

گذشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سے تمام نظریں مشرق وسطیٰ پر لگی تھیں اور سب کے ذہن میں یہ سوال تھے کہ اسرائیل کی جانب سے ردعمل کتنا شدید اور طویل ہو گا؟ اور خطے کے عرب ممالک کے عوام اور حکومتیں کیا ردعمل دیں گی؟آج تک پہلے سوال کا کوئی حتمی جواب نہیں مل سکا: اسرائیلی بمباری نے غزہ کی پٹی میں تباہی برپا کر دی اور اب تک 42500 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں لیکن اس کے تھمنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔

دوسرے سوال کے جواب کا کچھ حصہ واضح ہے، اگر کوئی یہ توقع رکھتا ہے کہ عرب دنیا کے دارالحکومتوں میں بڑے پیمانے پر احتجاج یا مظاہرے ہوں گے تو انھیں مایوسی ہو گی۔ اگرچہ عرب ممالک کی آبادی کی بڑی تعداد کی حمایت اور جذبات فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے ہیں لیکن ان ممالک میں مظاہروں کو محدود رکھا گیا۔

قاہرہ میں امریکی یونیورسٹی کے پولیٹکل سائنس کے پروفیسر ولید قاضیہ نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’جہاں تک عرب ممالک کی حکومتوں کا تعلق ہے تو ان کا ردعمل یا تو بہت کمزور یا مایوس کن رہا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اسرائیل پر روایتی تنقید یا قطر اور مصر کی حکومتوں کی جانب سے اس تنازعے میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کے علاوہ کسی نے بھی فلسطینیوں کا ساتھ نہیں دیا۔

حماس کے کون کون سے سرکردہ رہنما اسرائیلی حملوں میں مارے گئے؟

بی بی سی اردو | 2 اگست 2024 


 احمد یاسین نے سنہ 1987 میں حماس کی بنیاد رکھی تھی

اسرائیل پر 7 اکتوبر کو ہونے والے حملے کے بعد حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ تاحال جاری ہے اور اس دوران اسماعیل ہنیہ سمیت حماس کے متعدد رہنما مارے جا چکے ہیں۔

حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ایران کے دارالحکومت تہران میں نئے ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے موجود تھے جب وہ ایک فضائی حملے میں مارے گئے۔

ایران نے اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد کی ہے تاہم اسرائیل کی جانب سے تاحال اس دعوے کی تردید یا تصدیق نہیں کی گئی۔

دوسری جانب اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ حماس کی عسکری سرگرمیوں کے سربراہ محمد الضیف کی گذشتہ ماہ غزہ کی پٹی میں ایک فضائی حملے میں ہلاکت کی تصدیق ہو گئی ہے۔

القسام بریگیڈ کے قائد محمد الضیف کو 13 جولائی کو خان یونس کے علاقے المواسی میں ایک عمارت پر حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا تاہم حماس نے ابھی تک ان کی موت کی بھی تصدیق نہیں کی۔

غزہ میں اسرائیل اور حماس سمیت دیگر فلسطینی مسلح دھڑوں کے درمیان جنگ اس وقت سے جاری ہے جب مولوی احمد یاسین نے سنہ 1987 میں حماس کی بنیاد رکھی تھی۔

اس تنظیم کے قیام کے بعد سے اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک محاذ آرائی شروع ہوئی جس نے تشدد، قتل و غارت اور خودکش حملوں کے سلسلے کو جنم دیا۔

حماس نے اسرائیل کے اندر درجنوں خودکش کارروائیاں کیں۔ پہلے انتفادہ کے دوران سینکڑوں اسرائیلی ہلاک ہوئے جو سنہ 1987 میں غزہ کی پٹی میں اس وقت شروع ہوا جب یہ علاقہ اسرائیلی کنٹرول میں تھا۔

یہ تحریک مغربی کنارے تک پھیل گئی اور سنہ 1993 میں اس وقت رُکی جب اوسلو معاہدے پر دستخط ہوئے۔

دوسرا انتفادہ سنہ 2000 میں سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون کے مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کے بعد شروع ہوا، یہ پہلے انتفادہ سے زیادہ خونی اور پرتشدد تھا، جس میں دونوں طرف کے تقریباً چار ہزار 200 افراد مارے گئے۔

فلسطینی مزاحمت کے ابھرنے کے بعد ہی سے اسرائیل نے فلسطینی دھڑوں کے کارکنوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا اور اس دوران حماس کے درجنوں رہنما قتل ہوئے۔

یہ کارروائیاں اسرائیل اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے درمیان امن مذاکرات کے دوران عارضی طور پر روک دی گئی تھیں۔

اسرائیل نے گذشتہ صدی میں نوے کی دہائی کے آغاز سے حماس کے رہنماؤں اور کارکنوں کو ختم کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر قاتلانہ کارروائیاں کی ہیں اور اس نے تحریک کے سیاسی اور فوجی حکام میں کوئی فرق نہیں کیا۔

اس رپورٹ میں حماس سے منسلک ان شخصیات کا ذکر ہے جنھیں قتل کیا گیا۔

اسماعیل ہنیہ


 اسماعیل ہنیہ کو 1997 میں شیخ احمد یاسین کے دفتر کا سربراہ مقرر کر دیا گیا تھا


ایران میں میں مارے جارنے والے اسماعیل عبدالسلام ہنیہ کو عبدالعبد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ وہ ایک فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ 2017 میں خالد مشعل کی جگہ حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ منتخب ہوئے تھے۔

پہلے انتفادہ کے دوران ایک احتجاجی مظاہرے میں شرکت کرنے کی بنا پر انھیں اسرائیل حکام نے گرفتار کر لیا تھا۔ 1988 میں حماس منظرِ عام پر آگئی اور اسماعیل ہنیہ کو چھ مہینے قید کی سزا ہو گئی۔

اس سے اگلے برس 1989 میں اسماعیل ہنیہ ایک مرتبہ پھر گرفتار کیے گئے اور انھیں مزید تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔ انھیں بعد میں حماس کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ غزہ سے بے دخل کیا گیا اور لبنان بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد اسماعیل ہنیہ تقریباً ایک برس تک جلا وطن رہے۔

اسماعیل ہنیہ: اعتدال پسند اور مفاہمت کے حامی فلسطینی لیڈرکی شہادت



بی بی سی اردو 31 جولائی 2024 ء  

فلسطین کی عسکری تنظیم حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ایران کے دارالحکومت تہران میں ایک حملے میں مارے گئے ہیں۔

حماس کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اسماعیل ہنیہ ایرانی صدر مسعود پیزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران میں موجود تھے جہاں انھیں نشانہ بنایا گیا۔ حماس کا کہنا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کو اسرائیل کی جانب سے نشانہ بنایا گیا ہے جس پر اب تک اسرائیل کی جانب سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

تہران میں ہونے والی یہ کارروائی اسرائیل کی جانب سے بیروت میں حملے کے چند گھنٹوں بعد سامنے آئی کہ جہاں ایران کے حمایت یافتہ لبنانی گروہ اور سیاسی تحریک حزب اللہ کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

اسماعیل ہنیہ ایک فلسطینی سیاست دان اور فلسطینی گروپ حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ رہے۔ وہ دسویں فلسطینی حکومت کے وزیراعظم بھی تھے۔

ان کے سخت بیانات کے باوجود سیاسی مبصرین و تجزیہ کار عام طور پر غزہ سے تعلق رکھنے والے سخت گیر رہنماؤں محمد دیف اور یحییٰ سنوار کے مقابلے میں انھیں اعتدال پسند شخص کے طور پر دیکھتے ہیں۔

بالفور اعلامیہ: سادہ کاغذ پر لکھے گئے 67 الفاظ جنھوں نے مشرق وسطیٰ کی تاریخ بدل ڈالی

بی بی سی اردو ۲نومبر ۲۰۲۳م 

ایک سادہ کاغذ پر لکھے 67 الفاظ نے مشرق وسطی میں ایک ایسے تنازع کا آغاز کیا جو اب تک حل نہیں ہو سکا۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازع کے دوران، جس میں 1400 اسرائیلی اور ساڑے آٹھ ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، بالفور اعلامیہ کے 106 سال بیت چکے ہیں۔ یہ ایک ایسی دستاویز تھی جس نے اسرائیل کو جنم دیا اور مشرق وسطی کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔

دو نومبر 1917 کو پہلی عالمی جنگ کے دوران لکھی جانے والی اس تحریر میں پہلی بار برطانوی حکومت نے فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک ریاست کے قیام کی حمایت کی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب سلطنت عثمانیہ کو شکست دینے کے بعد فلسطین پر برطانیہ کنٹرول حاصل کر چکا تھا۔

عرب اس دستاویز کو ’برطانوی دغا‘ سمجھتے ہیں کیوں کہ سلطنت عثمانیہ کو شکست دینے میں انھوں نے برطانیہ کا ساتھ دیا تھا۔ بالفور اعلامیہ کے بعد تقریباً ایک لاکھ یہودی فلسطین پہنچے تھے۔



اس اعلامیے میں کیا کہا گیا؟


یہ اعلامیہ اس وقت کے برطانوی سیکریٹری خارجہ آرتھر بالفور نے بیرن لیونیل والٹر روتھس چائلڈ کو بھجوایا تھا جو برطانیہ میں یہودی کمیونٹی کے ایک رہنما تھے۔

اس اعلامیہ میں لارڈ روتھس چائلڈ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا گیا:

گلوبل ساؤتھ کیا ہے؟

بی بی سی اردو 
11 جنوری 2023ء 

وائس آف دی گلوبل ساؤتھ: کیا ترکی، سعودی عرب اور انڈیا اپنا رخ بدل رہے ہیں؟

یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کے حوالے سے ترکی نے امریکہ کی ایک نہ سنی، انڈیا نے بھی روس سے تیل درآمد کرنا بند نہیں کیا، بائیڈن سعودی عرب کو الگ تھلگ کرنے کی بات کر رہے تھے لیکن اچانک خود ہی سعودی عرب پہنچ گئے۔ تو کیا یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ اب متوسط طاقت کہے جانے والے ممالک امریکی دباؤ میں آنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

ادھرانڈیا 12 اور 13 جنوری کو ’وائس آف دی گلوبل ساؤتھ‘ سمٹ منعقد کر رہا ہے جس میں اس نے 120 ممالک کو مدعو کیا ہے۔اس کانفرنس کی صدارت وزیراعظم نریندر مودی کریں گے۔ اس میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ اور سری لنکا کے صدر رانیل وکرماسنگھے سمیت کئی عالمی رہنما شرکت کر سکتے ہیں۔

انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے 2019 میں 25 اور 26 اکتوبر کو باکو، آذربائیجان میں ہونے والی نان الائنڈ موومنٹ کے 19ویں سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔ اس سے قبل 2016 میں وینزویلا میں منعقدہ 18ویں سربراہی اجلاس میں بھی انھوں نے شرکت نہیں کی تھی۔ ان سربراہی اجلاسوں میں ملک کے نائب صدر نے شرکت کی تھی۔ 2016 میں اس وقت کے نائب صدر حامد انصاری وینزویلا اجلاس میں انڈیا کی نمائندگی کررہے تھے اور 2019 میں اس وقت کے نائب صدر وینکیا نائیڈو باکو اجلاس میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ اس تحریک کے سربراہی اجلاس میں مودی کی عدم شرکت کو ایک فیصلہ کن قدم کے طور پر دیکھا گیا کیونکہ انڈیا اس کا بانی رکن تھا۔ 1961 میں اس کے سربراہی اجلاس کے آغاز کے بعد سے انڈیا کے تمام وزرائے اعظم نے اس میں شرکت کی ہے۔ نریندر مودی کا سربراہی اجلاس میں نہ جانا انڈیا کی خارجہ پالیسی میں نہرو دور کی وراثت میں تبدیلی کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن کیا ایسا ہے کہ نریندر مودی کی خارجہ پالیسی نان الائنمنٹ کے اصول سے دور ہو گئی ہے؟

کھیل سعودی عرب کے وژن 2030 کا ایک اہم پہلو

 کھیل سعودی عرب کے وژن 2030 کا ایک اہم پہلو

ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو قطر ورلڈ کپ کے دوران کئی بار فیفا کے سربراہ جی وی انفینٹینو کے ساتھ دیکھا گیا۔ سنہ 2016 میں محمد بن سلمان کے ’وژن 2030‘ کے تحت کھیلوں کو ترجیحات میں شامل کیا گیا تھا۔

اس کے بعد سعودی عرب میں کھیلوں کے حوالے سے بڑی تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں۔

وژن 2030 میں کھیلوں کے متعلق تین اہداف طے کیے گئے ہیں اور اس کے تحت سنہ 2030 تک کھیلوں میں عوام کی شرکت کو 40 فیصد تک بڑھانا، بیرون ملک سعودی کھلاڑیوں کی کارکردگی کو بہتر بنانا اور کھیلوں کی معیشت کو فروغ دینا ہے۔

فٹبال صحافی اوری لیوی کے مطابق رونالڈو کا سعودی عرب پہنچنا بڑی تبدیلی کی علامت ہے۔ انھوں نے محمد بن سلمان کی ایک ویڈیو ٹویٹ کی ہے جس میں سعودی ولی عہد کہہ رہے ہیں کہ مشرق وسطیٰ اب نیا یورپ بنے گا۔

ویڈیو میں ولی عہد کا کہنا ہے کہ ’اگلے پانچ سالوں میں سعودی عرب بالکل مختلف ہو جائے گا، بحرین بالکل مختلف ہو گا، کویت۔۔۔ یہاں تک کہ قطر بھی۔۔۔ ساتھ ہمارے اختلافات کے باوجود بھی۔۔۔ ان کی معیشت مضبوط ہے اور اگلے پانچ سالوں میں بالکل مختلف نظر آئیں گے۔ متحدہ عرب امارات، عمان، لبنان، اردن، مصر، عراق اور یہاں جو مواقع ہیں۔۔۔ اگر ہم اگلے پانچ سالوں میں کامیاب رہے تو بہت سے ممالک ہمارے نقش قدم پر چلیں گے۔‘

ولی عہد کا کہنا ہے ’اگلے 30 سالوں میں مشرق وسطیٰ میں نیا عالمی نشاۃ ثانیہ ہوگا۔ یہ سعودی کی جنگ ہے۔ یہ میری جنگ ہے اور میں اس لڑائی میں اس وقت تک مرنا نہیں چاہتا جب تک میں مشرق وسطیٰ کو دنیا کی قیادت کرتے ہوئے نہ دیکھوں۔ ہدف صد فیصد حاصل ہو کر رہے گا۔‘