سائنس اینڈ ٹیکنالوجی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
سائنس اینڈ ٹیکنالوجی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

مصنوعی ذہانت: انسانی عظمت کا مظہر یا پر خطر چیلنج؟ – ایک قرآنی تجزیہ

ہم جس عہد میں جی رہے ہیں، وہ ٹیکنالوجی، علم، اور رفتار کا عہد ہے۔ مصنوعی ذہانت (AI) اس تیز رفتاری کا نقطۂ عروج بن چکا ہے۔ آج ایک فرد واحد لاکھوں صفحات، خیالات، تحقیق، اور گفتگوؤں سے چند لمحوں میں فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ بعض لوگ اس ترقی سے خوفزدہ ہیں کہ AI انسان کو مغلوب نہ کر دے، مگر ایک فکر رکھنے والا مؤمن جانتا ہے کہ AI، انسان کی عقل، سعی، اور الٰہی عطا کردہ علم کا ہی مظہر ہے — نہ کہ اس کا نعم البدل۔

قرآن کا انسان: عقل، علم، اور خلافت کا پیکر

قرآن انسان کو محض مٹی کا پتلا قرار نہیں دیتا بلکہ اسے ایسی مخلوق کہتا ہے جسے علم، شعور، عقل، اور روح سے ممتاز کیا گیا۔ ارشادِ ربانی ہے:

﴿لَقَدْ خَلَقْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ فِيٓ أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ﴾
"یقیناً ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیا۔" (التين: 4)

﴿وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيٓ آدَمَ وَحَمَلْنَـٰهُمْ فِي ٱلْبَرِّ وَٱلْبَحْرِ وَرَزَقْنَـٰهُم مِّنَ ٱلطَّيِّبَـٰتِ وَفَضَّلْنَـٰهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًۭا﴾
"اور ہم نے بنی آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی و تری میں سوار کیا، اور پاکیزہ رزق دیا، اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں برتری دی۔" (الإسراء: 70)

انسان کو علم کی فضیلت: AI اسی علم کا عکس

اللہ تعالیٰ نے انسان کو دیگر مخلوقات پر فضیلت علم کی بنیاد پر دی۔ ارشاد ہوتا ہے:

﴿وَعَلَّمَ آدَمَ ٱلْأَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى ٱلْمَلَـٰٓئِكَةِ فَقَالَ أَنۢبِـُٔونِى بِأَسْمَآءِ هَـٰٓؤُلَآءِ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ﴾
"اور (اللہ نے) آدم کو تمام نام سکھا دیے، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: اگر تم سچے ہو تو ان کے نام بتاؤ۔" (البقرة: 31)

یہ آیت انسان کی ادراکی، لسانی، اور سیکھنے کی صلاحیت کا اعلان ہے، اور یہ صلاحیت ہی AI کی تخلیق کا سرچشمہ بنی۔

یوال نوح حراری سے ایک فکری گفتگو اور اس پر تبصرہ

 یوال نوح حراری ایک اسرائیلی مؤرخ، مفکر، اور فلسفی ہیں، جنہوں نے تاریخ، انسانیت، اور مستقبل کے حوالے سے غیر معمولی شہرت پائی ہے۔ وہ عبرانی یونیورسٹی یروشلم میں تاریخ کے پروفیسر ہیں اور ان کی تحریریں انسانی تہذیب، مصنوعی ذہانت، ڈیجیٹل دنیا، اور ارتقائی نفسیات جیسے موضوعات کو گہرائی سے چھوتی ہیں۔

یوال نوح حراری

حراری کی تین عالمی شہرت یافتہ کتابیں:

  1. Sapiens: A Brief History of Humankind – انسانی تاریخ کا ارتقائی جائزہ

  2. Homo Deus: A Brief History of Tomorrow – انسان کا مستقبل اور مصنوعی ذہانت کی حکمرانی

  3. 21 Lessons for the 21st Century – اکیسویں صدی کے فکری، اخلاقی، اور سماجی چیلنجز

وہ مذہب، قوم پرستی، سرمایہ داری، اور ڈیجیٹل کنٹرول جیسے موضوعات پر تنقیدی اور فکری انداز میں گفتگو کرتے ہیں، اور ان کا انداز تحریر سادہ مگر فکری طور پر گہرا ہوتا ہے۔ ان کے بقول:

"کہانیوں اور افسانوں کی طاقت نے انسان کو جانوروں سے ممتاز کیا، اور یہی کہانیاں آج بھی دنیا پر حکومت کر رہی ہیں۔"

آئیے اب ہم یوال نوح حراری کے خیالات، فلسفے، اور دنیا کے بارے میں ان کے وژن پر مبنی ایک فرضی مگر حقیقت پر مبنی مکالمہ ترتیب دیتے ہیں۔ اس مکالمے کا اسلوب ایسا ہو گا گویا کوئی معروف دانشور یا صحافی ان کا انٹرویو کر رہا ہو، اور ان کے خیالات انہی کی زبان سے سامنے آ رہے ہوں — جیسے کسی عالمی فکری ٹاک شو کا سیگمنٹ ہو۔


 یوال نوح حراری سے ایک فکری گفتگو

عنوان: "انسان، ڈیٹا، اور مستقبل کا خدا: یوال نوح حراری کی زبانی"

میزبان: حراری صاحب، آپ کی کتاب Sapiens نے انسانی تاریخ کو نئے زاویے سے پیش کیا۔ آپ کا بنیادی نظریہ کیا ہے کہ انسان باقی جانوروں سے کیسے مختلف ہوا؟

ہماری زمین کی ساخت کیسی ہے ؟

زمین ایک پیچیدہ اور متحرک نظام ہے جس کی ساخت اور سیسمولوجیکل خصوصیات ہمیں نہ صرف زمین کی تشکیل اور ارتقاء کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں بلکہ زلزلوں اور دیگر قدرتی مظاہر کے پیچھے موجود سائنسی عمل کو بھی واضح کرتی ہیں۔ ذیل میں اس نظام کے اہم پہلوؤں کی تفصیل دی جا رہی ہے:

1. زمین کی پرتیں اور ساخت

  • قشر (Crust):
    زمین کی بیرونی سطح جو ٹھوس چٹانوں پر مشتمل ہے۔ یہ پرت نسبتاً پتلی ہے اور مختلف جغرافیائی خصوصیات جیسے پہاڑ، میدانی علاقے اور سمندری تہہ پر محیط ہے۔

  • مینٹل (Mantle):
    قشر کے نیچے واقع، مینٹل جزوی طور پر پگھلا ہوا مادہ ہے جو آہستہ آہستہ اپنی حرکات کے ذریعے زمین کی سطح میں تبدیلیاں لاتا ہے۔ یہ پرت زلزلوں اور آتش فشانی سرگرمیوں میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

  • نیوکلیس (Core):
    نیوکلیس دو حصوں پر مشتمل ہے: بیرونی نیوکلیس جو مائع اور اندرونی نیوکلیس جو ٹھوس ہے۔ یہ پرت زمین کے مقناطیسی میدان کی تشکیل میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔

اگر سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہو تو ہمارے نظام زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟

اگر سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہو، جیسا کہ حدیثِ نبوی ﷺ میں ایک بڑی قیامت کی نشانی کے طور پر ذکر کیا گیا ہے، تو یہ زمین کے موجودہ فزیکل، ماحولیاتی، اور سوشل سسٹمز پر انتہائی گہرے اور ناقابلِ تصور اثرات مرتب کرے گا۔ آئیے اس ممکنہ تغیر کے سائنسی اور سماجی پہلوؤں کا تجزیہ کرتے ہیں:

1. سائنسی اور ماحولیاتی اثرات:

(الف) زمین کی گردش میں بنیادی تبدیلی

  • سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ممکنہ طور پر زمین کی محوری گردش کی سمت میں تبدیلی یا الٹاؤ کی نشاندہی کرتا ہے۔

  • یہ تبدیلی زمین کے مقناطیسی میدان میں بڑے پیمانے پر خلل پیدا کرے گی، جو مواصلاتی نظام، برقی آلات، اور جی پی ایس پر انحصار کرنے والے نیویگیشن سسٹمز کو تباہ کر سکتی ہے۔

(ب) دن اور رات کے معمولات میں زبردست خلل

  • موجودہ دن رات کے چکر میں شدید بے ترتیبی ہوگی، جس سے موسمیاتی نظام درہم برہم ہو جائے گا۔

  • درجہ حرارت میں غیر معمولی تبدیلیاں متوقع ہیں، کیونکہ زمین کا ماحولیاتی توازن بگڑ جائے گا۔

(ج) موسمی تبدیلیاں اور قدرتی آفات

  • موسموں کا حساب کتاب بدل جائے گا، اور زراعت پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

  • سمندری طوفان، زلزلے، اور سونامی جیسے قدرتی مظاہر شدت اختیار کر سکتے ہیں کیونکہ زمین کا اندرونی توازن متاثر ہوگا۔

2. معاشرتی، تکنیکی، اور اقتصادی اثرات:

(الف) ہوائی اور بحری نیویگیشن

  • ہوائی جہازوں، بحری جہازوں اور زمینی سفر کے تمام نیویگیشن سسٹمز کو ازسرِ نو ترتیب دینا پڑے گا کیونکہ جی پی ایس اور کمپاسز کی سمتیں تبدیل ہو جائیں گی۔

  • مقناطیسی شمال اور جغرافیائی شمال کے درمیان تعلق متاثر ہوگا، جس سے سفری راستے اور نیویگیشن کے اصول مکمل طور پر بدل جائیں گے۔

(ب) بنکنگ سسٹم اور تجارتی امور

  • عالمی وقت کے نظام (UTC) کو مکمل طور پر نئے سرے سے ترتیب دینا پڑے گا، کیونکہ ٹائم زونز کی ترتیب بدل جائے گی۔

  • اسٹاک مارکیٹ، بینکنگ اوقات، اور دیگر مالیاتی نظام متاثر ہوں گے کیونکہ عالمی معیشت ایک مستحکم وقت کے نظام پر منحصر ہے۔

مقناطیس کی دریافت

 مقناطیس کی دریافت ایک قدیم اور دلچسپ تاریخ رکھتی ہے۔ سب سے پہلے انسان نے مقناطیس اور اس کی کشش کو قدرتی طور پر موجود "لوڈ اسٹون"(1) (Lodestone) یا "چمک پتھر" کی مدد سے دریافت کیا، جو قدرتی طور پر مقناطیسی صلاحیت رکھتا ہے۔

قدیم دور میں مقناطیس کی دریافت اور استعمال

1. قدیم یونان (600 ق م)

  • سب سے پہلے یونانی فلسفی "تھلیز آف ملیٹس" (Thales of Miletus) نے 600 قبل مسیح میں مشاہدہ کیا کہ لوڈ اسٹون لوہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔

  • وہ اسے ایک قدرتی خاصیت سمجھتے تھے اور اس پر غور و فکر کرتے رہے، لیکن اسے سائنسی انداز میں بیان نہ کر سکے۔

2. چین (تقریباً 200 ق م)

  • چینیوں نے سب سے پہلے مقناطیس کو سمت معلوم کرنے کے لیے استعمال کیا۔

  • قدیم چینی قطب نما (Magnetic Compass) 200 قبل مسیح میں استعمال ہونے لگا، جو سمندری جہازوں کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوا۔

  • چینی لوگ "مقناطیسی پتھر" کو ایک چمچ کی شکل میں تراش کر پانی میں رکھتے، جس کا دستہ ہمیشہ جنوب کی طرف اشارہ کرتا۔

3. ہندوستان اور عرب دنیا

  • ہندوستانی اور عربی کتب میں بھی مقناطیس کا ذکر ملتا ہے۔

  • ابن سینا (980-1037) نے اپنی کتاب "کتاب الشفا" میں مقناطیس کی کشش کے اصولوں پر بحث کی۔

  • عرب بحری جہاز راہنمائی کے لیے مقناطیسی پتھر کا استعمال کرتے تھے۔

ڈیپ سیک اور چیٹ جی پی ٹی کے درمیان موازنہ: دوڑ میں کون آگے؟


گراہم فریزر
عہدہ,ٹیکنالوجی رپورٹر
29 جنوری 2025
چین نے مصنوعی ذہانت کی اپنی ایپ ڈیپ سیک کو لانچ کیا کیا کہ دنیا بھر کی مالیاتی منڈیوں میں ہلچل پیدا ہو گئی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسے امریکی ٹیک انڈسٹری کے لیے ’خطرے کی گھنٹی‘ کہنے پر مجبور ہو گئے۔

ڈیپ سیک کا دعویٰ ہے کہ اس کی مصنوعی ذہانت کا ماڈل آر-1 ان کے حریفوں کے ماڈل کی لاگت کے مقابلے میں انتہائی کم لاگت میں تیار کیا گیا ہے۔ اس دعوے نے پوری صنعت کے مستقبل کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں اور اس کی وجہ سے دنیا کی کچھ بڑی کمپنیوں کی قدر میں کمی بھی واقع ہوئی ہے۔

ڈیپ سیک لانچ ہونے کے صرف ایک ہفتے بعد امریکہ میں سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جانے والی مفت ایپ بن گئی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ پہلے سے مستحکم اور بظاہر بہت زیادہ مہنگے اپنے امریکی حریفوں جیسے اوپن اے آئی، چیٹ جی پی ٹی، اور گوگل کے جیمنائی کے مقابلے میں کہاں کھڑی ہے۔

لکھنے میں معاونت

جب آپ چیٹ جی پی ٹی سے پوچھتے ہیں کہ اس کے استعمال کی سب سے بڑی وجوہات کیا ہیں تو وہ ان وجوہات میں لوگوں کی لکھنے میں مدد کا دعوی کرتا ہے۔
یہ اپنے استعمال کرنے والوں کے لیے ایک مددگار فارمیٹ میں معلومات اکٹھا کرنے، ان کا خلاصہ پیش کرنے سے لے کر بہت سارے موضوع پر بلاگ پوسٹ لکھنے تک کا آلہ بن گيا ہے۔

اس طرح یہ بہت سے لوگوں کے لیے ان کے دفتری کاموں میں معاون ساتھی بن گيا ہے۔

سکاٹ لینڈ کی فٹبال ٹیم کے ایک قابل فخر پرستار کے طور پر میں نے چیٹ بوٹس سے ’تاریخ کے بہترین سکاٹش فٹبال کھلاڑیوں کے خلاصہ پر مبنی ایک بلاگ پوسٹ کا مسودہ تیار کرنے‘ کا کہا۔ ایسا ہی میں نے چیٹ جی پی ٹی اور ڈیپ سیک سے کہا کہ وہ سکاٹش فٹبال کے بہترین کھلاڑیوں کا خلاصہ پیش کریں۔ڈیپ سیک نے سیکنڈوں میں جواب دیا اور چوٹی کے دس بہترین کھلاڑیوں کی فہرست تیار کر دی جس میں لیورپول اور سیلٹک کے کینی ڈالگلش کو پہلے نمبر پر رکھا گيا تھا۔ اس نے ان کھلاڑیوں کے بارے میں یہ معلومات بھی فراہم کی کہ وہ کون سی پوزیشن سے کھیلتے ہیں اور ان کے کلب کون کون سے ہیں جبکہ کہ ان کی نمایاں کارکردگیوں کا خلاصہ بھی پیش کیا۔

لیپ ٹاپ کو ہر وقت بجلی پر لگانا یا بیٹری پر چلانا، آخر بہتر کیا ہے؟



بی بی سی اردو 
۲۵ مارچ ۲۰۲۱ ء 

 لیپ ٹاپ کا استعمال کرنے والے ایک عام سوال اکثر پوچھتے ہیں کہ اس کی بیٹری لائف کو کیسے بڑھایا جائے یا کم از کم اس کے بار بار ختم ہونے کو کیسے کم کیا جائے۔

حالانکہ تمام بیٹریاں وقت گزرنے کے ساتھ خراب ہوتی ہیں لیکن بہت سے لیپ ٹاپ استعمال کرنے والے صارفین یہ سوال کرتے ہیں کہ جس طرح ہم انھیں استعمال کرتے ہیں کیا اس میں تبدیلی سے ان کی کارکردگی میں کوئی فرق آ سکتا ہے یعنی یہ زیادہ دیر تک قابل استعمال رہیں۔

اگر ایسا ہے تو ہم بیٹریوں کو کیسے استعمال کریں؟ کیا ہم انھیں ہر وقت سو فیصد چارج رکھیں یا ان کے چارجنگ لیول کے مطابق انھیں بجلی کے پلگ سے لگاتے اور ہٹاتے رہیں۔

بی بی سی منڈو نے اس سلسلے میں چند ٹیکنالوجی ماہرین سے بات کی ہے کہ بیٹریاں استعمال کرنے کا بہترین طریقہ کار کیا ہے۔بیٹری لائف

موبائل فونز اور لیپ ٹاپ کمپیوٹرز کی بیٹریاں زیادہ تر لیتھیم سے تیار کردہ ہوتی ہیں۔

ٹیکنالوجی کمپنی لینووو کی آئرلینڈ اور برطانیہ میں چیف ٹیکنالوجی آفیسر ایشلی رولف کا کہنا ہے کہ ’بیٹری لائف کی ٹیکنالوجی ہر نسل کے ساتھ بہتر سے بہتر ہوتی گئی ہے۔ دس سال پہلے لیپ ٹاپ بیٹریوں کی کارکردگی چند سو مرتبہ چارج کرنے کے بعد کم ہونا شروع ہوجاتی تھی۔‘

‘لیکن اب لیپ ٹاپ بیٹریوں کی کارکردگی عمومی طور پر تین سے پانچ برس تک کام کرتی ہے جس دوران اس کو پانچ سو سے ایک ہزار مرتبہ چارج کیا جا سکتا ہے۔‘

نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں توانائی کی ٹیکنالوجی کے ایک محقق کینٹ گریفتھ نے بی بی سی ورلڈ کو بتایا کہ ’آپ چاہتے ہیں کہ بیٹری آپ کو چارج کے مطابق ہر حد تک زیادہ سے زیادہ توانائی دے اور تین سے پانچ سال تک کام کرے۔'

اس توازن کو کیسے حاصل کیا جائے؟

ٹیکنالوجی کمپنی لینووو کے رولف کا کہنا ہے کہ ’اپنے لیپ ٹاپ کو ہر وقت بجلی کے ساتھ لگائے رکھنا اور بیٹری کو ہر وقت سو فیصد چارج رکھنا بالکل محفوظ اور عام بات ہے۔‘

انھوں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’لینووو یا دیگر کمپنیوں کے تیارکردہ لیپ ٹاپ کمپیوٹروں میں ایسے سینسرر اور کنٹرول لاجک کا استعمال کیا جاتا ہے جس سے یہ یقینی بنایا جا سکے کہ لیپ ٹاپ کی بیٹری اوور چارج یا زیادہ گرم نہ ہو۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’تاہم بیٹری کو ہر وقت چارج پر رکھنا اور سو فیصد رکھنے سے اس کی لائف میں کچھ کمی ہو جاتی ہے۔‘

کرپٹو کرنسی اور مصنوعی ذہانت سمیت سال 2025 میں ٹیکنالوجی کی دنیا میں کیا کچھ ہو گا؟

 

بی بی سی اردو 
6 جنبوری 2025 ء 

سنہ 2024 میں بٹ کوائن 100،000 ڈالر سے تجاوز کر گیا اور مصنوعی ذہانت سے آراستہ ڈیوائسز اور ایپس ہماری جیبوں اور فونز میں داخل ہو رہی ہیں، اب اس نئے سال میں ٹیکنالوجی کی دنیا میں ہمارے لیے کیا کچھ ہو گا؟

بی بی سی ٹیکنالوجی آف بزنس ایڈیٹر بین مورس اور بی بی سی ٹیکنالوجی ایڈیٹر زوئی کلین مین نے آنے والے سال کے ٹاپ ٹرینڈز کا جائزہ لیا ہے۔

بین مورس، بی بی سی کے ٹیکنالوجی بزنس کے ایڈیٹر

جیسے جیسے 2022 اختتام کو پہنچا کرپٹو کرنسی کے کاروبار کے لیے یہ مایوس کن تھا۔ اس کی معروف ترین فرموں میں سے ایک ایف ٹی ایکس صارفین کے آٹھ ارب ڈالر کے فنڈز کے ساتھ دیوالیہ ہو گئی تھی۔مارچ 2024 میں کمپنی کے شریک بانی سیم بینکمین فریڈ کو صارفین اور سرمایہ کاروں کو دھوکہ دینے کے جرم میں 25 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

اس سکینڈل نے پورے شعبے میں اعتماد کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ایسا لگتا تھا کہ کرپٹو کرنسیاں ایک خاص پروڈکٹ ہی رہیں گی، جس میں نسبتاً محدود ترقی ہو گی۔

لیکن صرف چند ماہ بعد اس صنعت میں ایک بار پھر امید جاگی۔ اس پرجوش ترقی کی لہر کے پیچھے پانچ نومبر کے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی تھی۔ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کرپٹو کرنسی کے شعبے کے لیے زیادہ سازگار ہوں گے اور اب تک ایسا لگتا ہے۔

دسمبر کے اوائل میں نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی) کے سابق کمشنر پال ایٹکنز کو وال سٹریٹ ریگولیٹر کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے کے لیے نامزد کریں گے۔

ایٹکنز کو، وال سٹریٹ ریگولیٹر کے چیئرمین کے عہدے سے سبکدوش ہونے والے سربراہ گیری جینسلر کے مقابلے میں کہیں زیادہ کرپٹو کرنسی کے حامی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

اس اعلان نے ایک بٹ کوائن کی قیمت ایک لاکھ ڈالر تک بڑھانے میں مدد کی۔

سٹینڈرڈ چارٹرڈ میں ڈیجیٹل اثاثوں کی تحقیق کے عالمی سربراہ جیفری کینڈرک کہتے ہیں کہ ’ٹرمپ کی جیت کے بعد آپ تصور کر سکتے ہیں کہ 2025 میں آپ کو فعال ضابطے ملے گا۔ کچھ منفی ضوابط کو ختم کر دیا جائے گا جس کے بعد بینکوں اور دیگر اداروں کو شامل ہونے کی اجازت ملے گی۔‘

دنیا آج سے 30 سال بعد 2055 میں کیسی ہوگی؟



گراہم فریزر
عہدہ,ٹیکنالوجی رپورٹر
2 جنوری 2025
یہ سنہ 1995 کی بات ہے جب بی بی سی کے ’ٹوماروز ورلڈ‘ پروگرام یعنی مستقبل کی دنیا پر مبنی پروگرام میں یہ پیش گوئی کرنے کا فیصلہ کیا گیا کہ 30 سال بعد سنہ 2025 میں دنیا کیسی ہوگی۔

اگرچہ یہ شو اب نشر نہیں کیا جاتا ہے لیکن سنہ 1995 میں اس وقت کے سب سے مشہور سائنسدانوں میں سے ایک پروفیسر سٹیفن ہاکنگ نے پیش گوئی کی تھی کہ ’2025 تک ہم بڑی تبدیلیوں کی توقع کر سکتے ہیں۔‘

پروگرام کی ٹیم کو ان کی پیش گوئی سے اتفاق ہے کیونکہ اس دوران ہولوگرام سرجری سے لے کر دنیا کو متحیر کر دینے والی متعدد اختراعات ہوئیں۔

ایسے میں کچھ ماہرین کی مدد سے اور تین دہائیوں کے درمیان ہونے والی اختراعات کی روشنی میں ہم یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ’ٹوماروز ورلڈ‘ نامی پروگرام میں جو پیش گوئی کی گئی تھی اس میں سے کتنی سچ ثابت ہوئی ہیں۔

2005 ’سائبر سپیس فسادات‘

سنہ 1995 میں ورلڈ وائڈ ویب نے حقیقت کا روپ دھار لیا تھا اور اس پیش رفت کے بارے میں ’ٹوماروز ورلڈ‘ میں یہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ یہ مستقبل میں مصیبت لائے گی۔

اس میں یہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ ’بزنس بیرنز‘ اور بینک سنہ 2000 تک انٹرنیٹ کا کنٹرول سنبھال لیں گے، وہ ایک ’سپر نیٹ‘ قائم کریں گے اور اس تک سب کی رسائی نہیں ہوگی۔

اس کی وجہ سے ہیکنگ ہوگی، وائرس پھیلائے جائیں گے، یہاں تک کہ فسادات بھی ہو سکتے ہیں۔

ہمارا سورج ایک ’تنہا خانہ بدوش‘ ہے لیکن کیا اس کا کوئی جڑواں بھائی بھی تھا؟

بی بی سی اردو 
تاریخ اشاعت : ۲۹ دسمبر ۲۰۲۴ء 

ہماری کہکشاں میں بہت سے ستارے جوڑوں کی شکل میں موجود ہیں مگر ہمارا سورج اس فہرست میں شامل نہیں۔ تاہم اب سائنسدان ایسے ثبوت تلاش کر رہے ہیں کہ شاید اس کا بھی کوئی ساتھی تھا۔

سوال یہ ہے کہ وہ کہاں گیا؟

ہمارا سورج ایک تنہا خانہ بدوش کی مانند ہے۔ یہ چکر لگاتے ہوئے تقریباً ہر 230 لاکھ سال بعد ہمیں کہکشاں کے سفر پر لے جاتا ہے۔

سورج کے قریب ترین موجود ستارہ پروگزیما سینٹوری ہے جو کہ اس سے چار اعشاریہ دو نوری سالوں کے فاصلے پر ہے۔ یہ اتنا دور ہے کہ اس کو سورج تک پہنچنے کے لیے اب تک کی تیز ترین خلائی گاڑی بھی دی جائے تو اسے 7000 سال سے زیادہ عرصہ درکار ہو گا۔ہم جہاں کہیں اپنی کہکشاں میں دیکھتے ہیں ہمارے نظام شمسی کے مرکز میں موجود سورج ایک عجیب چیز معلوم ہوتا ہے۔ بائنری ستارے یعنی وہ ستارے جو کہکشاں کے گرد چکر لگاتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ سختی کے ساتھ جوڑے کے طور پر جڑے ہوتے ہیں اور عام سے نظر آتے ہیں۔

حال ہی میں ماہرین فلکیات نے ایک ایسے ہی جوڑے کا پتا لگایا جو غیر معمولی طور پر بلیک ہول کے بہت قریب چکر لگا رہا تھا اور یہ ہماری کہکشاں (ملکی وے) کے قلب میں ہے۔

سوئی کی نوک سے بھی چھوٹا مکھی کا دماغ جہاں سے ملنے والے رازوں نے سائنسدانوں کو حیرت میں مبتلا کیا

پلب گھوش  ( نامہ نگار برائے سائنس، بی بی سی) 


وہ پیروں کے بل چل سکتی ہیں، اُڑ سکتی ہیں، اور نر مکھی تو مادہ مکھی کا دل جیتنے کے لیے پیار بھرے گیت بھی گا سکتی ہے۔ اور یہ سب کچھ ایک ایسے دماغ کی مدد سے ممکن ہوتا ہے جو سوئی کی نوک سے بھی چھوٹا ہوتا ہے۔

پہلی بار سائنسدانوں نے تحقیق کے دوران مکھی کے سوئی کی نوک سے بھی چھوٹے دماغ میں موجود ایک لاکھ 30 ہزار خلیوں کی شکل، مقام اور حتیٰ کہ مکھی کے دماغ میں موجود پانچ کروڑ سے زیادہ ’کنکشنز‘ یعنی رابطوں کی غیر معمولی نشان دہی کی ہے۔

یہ کسی بھی بالغ کیڑے (حشرات) کے دماغ کا کیا گیا اب تک کا سب سے تفصیلی سائنسی جائزہ ہے جسے ماہرین نے انسانی دماغ کو سمجھنے کے عمل میں ایک بڑی پیش رفت قرار دیا ہے۔ مکھی کے دماغ پر تحقیق کرنے والی ٹیم کے سربراہ کا دعویٰ ہے کہ اس سائنسی جائزے سے ’سوچنے کے عمل سے متعلق مزید تفصیلات معلوم ہوں گی۔‘

دنیا کے وہ پانچ ’سمارٹ‘ شہر جہاں ٹیکنالوجی اور دیگر سہولیات زندگی آسان بنا رہی ہیں

لنڈسے گیلوے 
بی بی سی | 20 جولائی 2024

ماحولیاتی تبدیلی اور بڑھتی گرمی کے ساتھ ساتھ شہروں کے لیے اپنے باسیوں کو ایک محفوظ مستقبل مہیا کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن وہیں کچھ شہروں میں ایسے اقدامات لیے گئے ہیں جن کی وجہ سے وہاں رہنے والوں کو اپنا مستقبل روشن دکھائی دے رہا ہے۔

’سمارٹ سٹی‘ کہلائے جانے والے یہ شہر باقیوں کے لیے مثال قائم کر رہے ہیں۔

انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار منیجمنٹ ڈیویلپمنٹ (آئی ایم ڈی) بہترین معیارِ زندگی مہیا کرنے والے دنیا کے بہترین شہروں کی فہرست تیار کرتا ہے۔ اس فہرست کو تیار کرتے ہوئے ہر شہر کی معیشت اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ یہ فہرست ’سمارٹ سٹیز اِنڈیکس‘ کہلاتی ہے۔

اس سال آئی ایم ڈی نے اپنی پانچویں فہرست ’سمارٹ سٹیز اِنڈیکس 2024‘ شائع کی ہے جس کے لیے 142 شہروں کے باسیوں کا انٹرویو لیا گیا ہے۔

ان انٹرویوز میں لوگوں سے ان کے شہر میں دستیاب صحت اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات، سکیورٹی، ترقی کے مواقع، دیگر سرگرمیوں اور گورننس کے حوالے سے ان کی رائے لی گئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سال جنوبی امریکہ یا افریقہ کا ایک بھی شہر چوٹی کے 20 شہروں کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔ ان 20 شہروں میں سے 17 یورپ یا ایشیا میں واقع ہیں ہیں۔

یہ جاننے کے لیے کہ کیا چیز ان شہروں کو باقی جگہوں سے بہتر اور ’سمارٹ‘ بناتی ہے، ہم نے کچھ شہروں کے باسیوں سے بات کی۔

کینبرا، آسٹریلیا


انڈیکس میں آسٹریلیا کا دارالحکومت کینبرا تیسرے نمبر پر ہے۔ یہ اس فہرست میں شامل تین غیر ایشیائی یا یورپین شہروں میں سے ایک ہے۔

کینبرا کو اس کی صاف آب و ہوا اور ہریالی کے لیے امتیازی نمبرز ملے ہیں۔ اس کے علاوہ اس شہر کو یہاں بسنے والی اقلیتوں کو برابری کے سلوک اور ہم آہنگی کے احساس کی وجہ سے بھی سراہا گیا۔

تاہم یہ بات برائیڈن کیمپ بیل اور ڈیوڈ کیمپ بیل کے لیے حیران کن نہیں۔ یہ دونوں کینبرا میں واقع ایک کنسلٹنسی فرم ’برینڈ ریبیلین‘ کے بانی ہیں۔

ڈیجیٹل جنریشن اور سکرین ٹائم: آج کی نسل اپنے والدین کے مقابلے میں کم ذہین کیوں ہے؟

28 مئ 2024 بی بی سی اردو 

’ڈیجیٹل کریٹن فیکٹری‘ فرانسیسی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ میں تحقیق کے ڈائریکٹر اور فرانسیسی نیورو سائنسدان مائیکل ڈیسمرگٹ کی تازہ ترین کتاب کا عنوان ہے جس میں انھوں نے ٹھوس اعداد و شمار کے ساتھ اس چیز پر روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح ڈیجیٹل آلات بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی نشوونما کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔
ڈیجیتل جنریشن

بی بی سی نیوز منڈو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ’ہم اپنے بچوں کے ساتھ جو کر رہے ہیں کوئی بھی بہانہ ہمیں اس کا جواز نہیں دیتا، ہم ان کے مستقبل اور نشوونما کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔‘

ثبوت واضح ہیں: کچھ عرصے سے آئی کیو (انٹیلی جنس کوشینٹ) ٹیسٹ اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ نئی نسلیں پچھلی نسلوں کے مقابلے میں کم ذہین ہیں۔

مائیکل ڈیسمرگٹ نے ایک وسیع پیمانے پر کی گئی سائنسی اشاعت کا مجموعہ تیار کیا ہے اور امریکہ میں میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا جیسے مشہور تحقیقی مراکز میں کام کیا ہے۔

ان کی کتاب فرانس میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بن گئی ہے۔ ہم آپ کے ساتھ ان کے انٹرویو کے اقتباسات شئیر کر رہے ہیں۔

وہ پانچ سوال جن کا جواب سائنس آج تک نہیں دے سکی

 بی بی سی اردو 
۱۴ جنوری ۲۰۲۴

دنیا میں کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں جو قدرت کے راز جاننے سے زیادہ دلچسپ ہیں اور ان کے بارے میں جاننا صرف ذہین لوگوں کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ یہ وہ لطف ہے جو ہر کسی کو میسر ہے۔

اس وقت کے بارے میں سوچے جب آپ نے کسی پہیلی کا جواب تلاش کر لیا ہوں کیونکہ اکثر ایسی کسی پہیلی کے جواب کی تلاش میں لوگ بہت جدوجہد کرتے ہیں۔ایسے ہی آج سائنسی تحقیق نے جہاں بے پناہ ترقی کر لی ہے لیکن اب بھی چند ایسے سوال ہیں جن کے جواب تلاش نہیں کیے جا سکے ہیں۔

ان میں سے کچھ سوال ہمیشہ سے تھے اور کچھ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے علم میں اضافے کے بعد سامنے آئے ہیں۔ یہ بالکل ویسے ہی ہیں جیسے آپ کسی چیز کے بارے میں جتنا جانتے جاتے ہیں آپ کو لگتا ہے کہ آپ اس متعلق اتنا ہی کم جانتے ہیں۔

لہٰذا سائیکل کس طرح سیدھی رہتی ہے سے لے کر ناقابل فہم نایاب پرائم نمبرز تک ایسے نامعلوم سوالات کا ایک وسیع سمندر ہے۔

یہ بہت اچھی بات ہے، انسان کے پاس سوالات کبھی ختم نہیں ہونے چاہیے، اور وہ صرف اس لیے نہیں کہ اس سے جواب ملنے کی امید رہتی ہے بلکہ یہ انسانی ذہن کی جبلت ہے جیسا کہ فلسفی تھامس ہابز نے کہا تھا کہ سوال انسانی دماغ کی حرص ہے۔

لیکن قدرت کے ان ان گنت سوالوں میں سے کون سے پانچ سوال ایسے ہیں جو ہمیشہ سے انسان کے لیے ایک کسوٹی بنے رہے ہیں۔

 

1.    کائنات کس چیز سے بنی ہے؟

 

کائنات بذات خود سوالوں کا ایک گڑھ اور ذریعہ ہے جیسا کہ اس کے وجود سے پہلے کیا تھا، کیا یہ لامحدود، بہ پناہ اور لامتناہی ہیں، کیا یہ منفرد ہے اور ایسے بہت سے سوالات۔

مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ سائنسدان آج تک اس کائنات کے صرف پانچ فیصد حصے کے متعلق جان سکے ہیں۔ اگرچہ یہ جاننا بھی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

صحت کی حفاظت کے لیے کون سے طبی ٹیسٹ کروانے ضروری ہیں؟

بی بی سی اردو ۱۸ اگست ۲۰۲۳
صحت کی حفاظت کے لیے کون سے ٹیسٹ کروانے چاہئیے۔

مشہور مقولہ ہے کہ احتیاط، علاج سے کہیں بہتر ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی اس پر عمل بھی کرتے ہیں اور کیا ہمیں اپنی صحت کی کوئی فکر بھی لاحق رہتی ہے؟

آج کے دور میں 30 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے اولاد خاندانی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانا شروع کر دیتی ہے۔ اس کے ساتھ اُن پر کام کا بوجھ بھی ہوتا ہے۔ اس طرح کے مشکل حالات میں ہمارے لیے اپنی صحت پر توجہ دینے کے لیے وقت نکالنا ایک مشکل معاملہ بن جاتا ہے۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ 30 سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد آپ کو اپنے جسم کا خیال رکھنا شروع کر دینا چاہیے۔

اپنے جسم پر توجہ دے کر ہم ان بیماریوں سے بچ سکتے ہیں جو عمر بڑھنے اور ہمارے طرز زندگی میں تبدیلی کی وجہ سے ہمیں لاحق ہو سکتی ہے۔

ماہرین کے مطابق 30 کی دہائی میں طرز زندگی کی بیماریاں جیسے دل کی بیماری، ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، موٹاپا اور کینسر کا خطرہ ہوتا ہے۔ کھانے پینے کی عادات میں تبدیلی اور جسم کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہم ایسی بیماریوں کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔

10 وہ ملازمتیں جن میں سنہ 2023 اور 2027 کے درمیان ترقی کی سب سے زیادہ صلاحیت ہے۔


مستقبل کی وہ دس نوکریاں جو آپ کی تقدیر بدل سکتی ہیں ۔
بی بی سی اردو
اشاعت : 6 جون 2023 م

مستقبل میں جن ملازمتوں کی سب سے زیادہ مانگ ہو گی وہ پہلے ہی ہمارے آس پاس موجود ہیں۔

ماہرین کا اندازہ ہے کہ ماضی کے اس خدشے کے باوجود کہ ٹیکنالوجی میں ترقی ملازمتیں ختم کر دے گی، آنے والے برسوں میں متعدد نئے مواقع ہمارے سامنے ہوں گے۔

ورلڈ اکنامک فورم کی مینیجنگ ڈائریکٹر اور سینٹر فار نیو اکانومی اینڈ سوسائٹی کی سربراہ سعدیہ زاہدی نے کہا کہ ’ہم سب نے دیکھا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں کیا ہو رہا ہے اور اسے مختلف صنعتوں میں کتنی تیزی سے اپنایا جا رہا ہے۔‘

اگلے پانچ سال میں سب سے زیادہ ترقی حاصل کرنے کے لیے ممکنہ طور پر جن دو پیشوں کی سب سے زیادہ مانگ ہو گی ان میں مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ سرِ فہرست ہیں تاہم ڈبلیو ای ایف کے مطابق ایسے دیگر مواقع بھی سامنے آ رہے ہیں۔

مثال کے طور پر ماحولیاتی پائیداری کے ماہرین یا زرعی آلات کے آپریٹرز کی خدمات ایسی ملازمتیں ہیں جن کی اگلے پانچ سال میں سب سے زیادہ مانگ ہو گی۔

یہ تخمینے سوئس تنظیم نے 803 بڑی کمپنیوں کے تفصیلی سروے کی بنیاد پر لگائے ہیں جو دنیا کے تمام خطوں کی 45 معیشتوں میں ایک کروڑ 10 لاکھ سے زیادہ افراد کو ملازمت دیتی ہیں۔

آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا ’مصنوعی ذہانت‘ کیا ہے ؟


کیا مصنوعی ذہانت بقائے  انسانیت کے لیے خطرہ ہوسکتی  ہے ؟ 

برطانیہ کے معروف سائنس دان سٹیون ہاکنگ نے کہا ہے کہ سوچنے کی صلاحیت رکھنے والی مشینوں کی تیاری بقائے انسانی کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔

انھوں نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا ’مصنوعی ذہانت‘ کے بارے میں ایک سوال پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مکمل مصنوعی ذہانت نسلِ انسانی کے خاتمے کی دستک ثابت ہو سکتی ہے۔‘

اے ایل ایس نامی دماغی بیماری میں مبتلا ماہرِ طبیعیات پروفیسر سٹیون ہاکنگ گفتگو کے لیے جس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں وہ بھی آرٹیفیشل انٹیلیجنس یا مشینی و مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر ہی تیار کی گئی ہے۔

سٹیون ہاکنگ بات چیت کے لیے امریکی کمپنی انٹیل کا بنایا ہوا نظام استعمال کرتے ہیں جس کی تخلیق میں برطانوی کمپنی سوئفٹ سے تعلق رکھنے والے مشینوں کے ماہرین بھی شامل تھے۔

پروفیسر ہاکنگ کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت اب تک جو شکل اختیار کر چکی ہے وہ اپنا لوہا منوا چکی ہے تاہم انھیں ڈر ہے یہ ترقی کسی ایسی تخلیق پر منتج نہ ہو جو ذہانت میں انسان کے ہم پلہ یا پھر اس سے برتر ہو۔

انھوں نے کہا ’یہ نظام اپنے طور پر کام شروع کر دے گا اور خود ہی اپنے ڈیزائن میں تیزی سے تبدیلیاں لائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’انسان جو اپنے سست حیاتیاتی ارتقا کی وجہ سے محدود ہے اس نظام کا مقابلہ نہیں کر سکے گا اور پیچھے رہ جائے گا۔‘

جینیئس یا نابغہ افراد میں کونسی خصوصیات ہوتی ہیں؟

ڈیوڈ رابسن : عہدہ,بی بی سی ، فیوچر، 20 نومبر 2022

سنہ 1920 کے عشرے کے آخر میں ایک محنت کش گھرانے کا نوجوان جس کا عرفی نام ’رِٹی‘ تھا، نیو یارک کے علاقے راکوے میں اپنے گھر پر زیادہ تر وقت اپنی ’لیبارٹری‘ میں گزارتا تھا۔ اس کی تجربہ گاہ کیا تھی محض لکڑی کا ایک پرانا کھوکھا، جس میں کئی شیلف تھے اور اسی کھوکھے میں رٹی نے ایک بیٹری، بجلی کے بلب کا ایک سرکٹ، کچھ سوئچ اور ایک ریزسٹرلگا رکھا تھا۔

رِٹی کو اپنی ایجادات میں سے ایک پر سب سے زیادہ ناز تھا۔ یہ ایک چور الارم تھا اور اس کے والدین جب بھی اس کی لیبارٹری میں آتے تو الارم بج اٹھتا اور رٹی کو معلوم ہو جاتا ہے کوئی اس کے کمرے میں داخل ہو گیا ہے۔

اپنے اردگرد کی قدرتی دنیا کا مطالعہ کرنے کے لیے رٹی ایک خوردبین استعمال کرتا تھا، اور بعض اوقات دوسرے بچوں کو کرتب دکھانے کے لیے اپنی کیمسٹری کٹ باہر گلی میں بھی لے جاتا تھا۔

رٹی کے ابتدائی تعلیمی ریکارڈ میں کوئی خاص بات نہ تھی۔

اسے ادب کے مضامین اور غیر ملکی زبانیں پڑھنے میں دقت پیش آتی تھی حالانکہ مبینہ طور پر بچپن میں ذہانت یا آئی کیو کے ٹیسٹٹ میں اُس کا سکور 125 کے قریب تھا جو کہ اوسط سے زیادہ تھا لیکن کسی بھی طرح اس سکور کا شمار ’جینیئس‘ میں نہیں ہو سکتا تھا۔

ریاضی دان محمد ابن موسیٰ الخوارزمی

 بی بی سی اردو 

15 ستمبر 2020ء 

ریاضی دان محمد ابن موسیٰ الخوارزمی، جن کے کام کو ’خطرناک‘ اور ’جادو‘ گردانا گیا

ریاضی دان محمد ابن موسی الخوارزمی

بی بی سی ریڈیو تھری کی خصوصی سیریز ’سنہرا اسلامی دور‘ کی اِس قسط میں لکھاری اور براڈ کاسٹر جم الخلیل ہمیں الخوارزمی کی بارے میں بتا رہے ہیں۔ محمد ابن موسیٰ الخوارزمی ایک فارسی ریاضی دان، ماہر فلکیات، نجومی، جغرافیہ نگار اور بغداد کے بیت الحکمت سے منسلک ایک سکالر تھے۔ اس دور میں بیت الحکمت سائنسی تحقیق اور تعلیم کا ایک معروف مرکز تھا اور سنہرے اسلامی دور کے بہترین دماغ یہاں جمع ہوتے تھے۔ الخوارزمی فارس میں 780 عیسوی کے آس پاس پیدا ہوئے اور وہ اُن پڑھے لکھے افراد میں شامل تھے جنھیں بیت الحکمت میں خلیفہ المامون کی رہنمائی میں کام کرنے کا موقع ملا جو خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹے تھے۔ بی بی سی اردو نے ریڈیو پر نشر ہونے والی اس سیریز کا ترجمہ کیا ہے۔

’فرض کریں کہ ایک شخص بیماری کی حالت میں دو غلاموں کو آزاد کرتا ہے۔ اُن میں سے ایک غلام کی قیمت 300 درہم اور دوسرے کی 500 درہم ہوتی ہے۔ جس غلام کی قیمت 300 درہم تھی وہ کچھ عرصے میں وفات پا جاتا ہے اور اپنے ورثا میں صرف ایک بیٹی چھوڑتا ہے۔ پھر اُن غلاموں کا مالک بھی وفات پا جاتا ہے اور ان کی وارث بھی اُن کی اکلوتی بیٹی ہوتی ہے۔ وفات پانے والا غلام 400 درہم مالیت کی جائیداد چھوڑ ترکے میں چھوڑ جاتا ہے۔ تو اب ہر کسی کے حصے میں ترکے میں سے کتنا حصہ آئے گا؟‘