قدیم مذاہب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
قدیم مذاہب لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اسلام سمیت مختلف مذاہب میں دجال کا تصور کیا ہے؟

وقار مصطفیٰ
عہدہ,صحافی و محقق
31 مار چ 2024
سوشل میڈیا پریہودی اور مسیحی روایات کے مطابق اینٹی کرائسٹ یا ضدِ مسیح اور اسلامی روایات کی رو سے مسیح الدجال مختصراً دجال کے آنے پر بحث کی جا رہی ہے۔ اب ہر کوئی دجال کے بارے میں روایات اور اقوال شیئر کر ہا ہے۔ ہم نے سوچا کہ کیوں نہ اس بحث کا پس منظر جان لیا جائے۔

دجال پر تاریخی حوالہ جات، علما اور ماہرین کی رائے جاننے سے قبل ایک نظر اس پر دوڑاتے ہیں کہ آخر دجال کا قصہ شروع کہاں سے ہوتا ہے؟

چھٹی صدی قبلِ مسیح کے اواخر میں بنی اسرائیل (یہودی مذہب کے ماننے والے) بابل کے حکم ران بخت نصر سے شکست، ہیکلِ سلیمانی کی تباہی اور جلا وطنی سے ایسے مایوس ہوئے کہ ماننے لگے کہ خدائے بنی اسرائیل ’یہواہ‘ نے ان سے منھ موڑ لیا ہے اور ان کا مقدس ترین عبادت خانہ تباہ ہونا اور ارضِ موعودہ (پرامِزڈ لینڈ) سے نکلنا سزا ہے۔

اس فکر کے جواب میں یہ سوچ پنپی کہ یہواہ بنی اسرائیل سے ہمیشہ کے لیے ناراض نہیں ہوئے بلکہ وہ وقتی سزا کے بعد ایک طاقت ور بادشاہ ’مسیح‘ کے ذریعے انھیں دوبارہ عروج عطا کریں گے۔

یہودی عقیدے کے مطابق حضرت داؤد کی اولاد میں ایک عظیم بادشاہ نمودارہوگا جو بنی اسرائیل کے ان طاقت ور بادشاہ اور نبی کی طرح کہ جن پر زبور نازل ہوئی تھی، یہودیوں کی حکومت پھر سے دنیا پر قائم کرے گا۔

سید محمد وقاص کی تحقیق ہے کہ یہ عقیدہ جلا وطنی کے دوران آنے والے نبی حضرت دانیال سے منسوب ایک صحیفے پر مبنی ہے۔

موجودہ بائبل کے عہد نامہ قدیم کے حصہ ’انبیا‘ (عبرانی میں نیویم) میں شامل صحیفہ دانیال میں لکھا ہے: ’رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے سامنے کوئی کھڑا ہے جو انسان جیسا دکھائی دیتا ہے۔ وہ آسمان کے بادلوں پر آرہا تھا۔ وہ قدیم بادشاہ (خدائے یہواہ) کے پاس آیا تھا۔ اسے اس کے سامنے لے آیا گیا تھا۔ وہ شخص جو کہ انسان کی مانند دکھائی دے رہا تھا، اس کو سلطنت، حشمت اور سارا علاقہ سونپا گیا۔ سبھی قومیں اور ہر زبان کے گروہ اس کی خدمت کریں گے۔ اس کی حکومت ہمیشہ قائم رہے گی۔‘

قدیم دنیا میں سب سے پرانی مذہبی آبادی

بی بی سی اردو نیوزاشاعت ۱جولائی ۲۰۲۴

نپور شہر عراق میں واقع ایک قدیم تہذیب کی باقیات ہے جس کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ سات ہزار سال پہلے قائم ہونے والی یہ آبادی قدیم دنیا میں سب سے پرانی مذہبی آبادی تھی۔


بغداد سے 200 کلومیٹر جنوب میں واقع یہ مقام اب وقت کے ہاتھوں کھنڈرات کی شکل میں ہی موجود ہے جہاں سیاحوں کا گزر کم ہی ہوتا ہے۔

لیکن ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔ ایک زمانہ تھا جب ابھی وقت کا تصور بھی تازہ تازہ ہی تھا اور نپور دنیا کے روحانی مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ دور دراز علاقوں سے زائرین میسوپوٹامیا کے اس مقدس شہر پہنچا کرتے جہاں سمیری تہذیب کے بادشاہ تک دنیا کے قدیم خداؤں کو پوجا کرتے۔

قدیم سمیری شہری، جو موجودہ وسطی عراق کے باسی تھے، ہی جدید تہذیب کے موجد بھی مانے جاتے ہیں جنھوں نے سب سے پہلے شہر آباد کیے اور زراعت کا آغاز کیا۔ پہیہ، تحریر، حساب حتی کہ 60 منٹ پر محیط گھنٹے کی ایجاد کا سہرا بھی اسی تہذیب کو دیا جاتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ مورخوں کے مطابق منظم مذہب اور زیارت کا تصور بھی یہی پیدا ہوا۔

وقت کے ساتھ سمیری تہذیب تو قصہ پارینہ ہوئی جس کی جگہ نئی تہزیبوں نے لی اور ان کے خدا بھی مختلف تھے۔ ہزاروں سال کا سفر کرنے کے بعد میسوپوٹامیا عراق بن گیا جہاں اب اسلام مرکزی مذہب کی حیثیت رکھتا ہے۔

تاہم اگرچہ اب خدا بدل چکے ہیں لیکن جدید عراق میں بھی زیارت کا تصور اتنا ہی اہم ہے جتنا نپور کے قدیم مقدس شہر میں ہوا کرتا تھا۔

نپور کے کھنڈرات سے مغرب میں 100 کلومیٹر کے فاصلے پر نجف اور کربلا کے مقدس مانے جانے والے شہر ہیں جو شیعہ مسلمانوں کی زیارت کے اہم منزل ہیں۔ ان شہروں کا سفر کرنے والے اس خطے کی طویل اور افسانوی تاریخ سمیت جدید عراق سے بھی واقف ہوتے ہیں۔

نپور: جہاں سمیری تہذیب کے مطابق ’خدا پیدا ہوا‘


قدیم سمیری تہذیب میں نپور کو جنت اور زمین کے درمیان رابطے کا مقام مانا جاتا تھا۔ سب سے پہلی تصویر میں نظر آنے والی پہاڑی ’انلل‘ کا گھر سمجھا جاتا تھا جو سمیری تہذیب کا سب سے اہم خدا اور کائنات کا حکمران مانا جاتا تھا۔

اگرچہ نپور خود سیاسی طاقت کا مرکز نہیں تھا لیکن اس شہر پر کنٹرول اہم سمجھا جاتا تھا کیوں کہ انلل ہی دوسری شہری ریاستوں کے حکمرانوں کو بادشاہت کا اختیار سونپنے کا مجاز تھا۔ اس روحانی اہمیت کی وجہ سے ہی خطے سے زائرین یہاں کا رخ کرتے۔

سمیری تہذیب تکنیکی اعتبار سے مہارت رکھتی تھی اور منظم مذہب کے علاوہ دنیا کا سب سے پہلا تحریر کا نظام بھی انھوں نے ہی تیار کیا۔

ماہرین آثار قدیمہ نے نپور سے 30 ہزار مٹی کی بنی تختیاں برآمد کی ہیں تاہم زیادہ تر کھنڈرات کو اب تک کھود کر تفصیلی جائزہ نہیں لیا گیا۔

اس تصویر میں ایسے برتنوں کے ٹکڑے دیکھے جا سکتے ہیں جو وسیع و عریض کھنڈرات میں پھیلے ہوئے ہیں اور شاید یہی بات نپور کو محسور کن بناتی ہے کیونکہ اس مقام کا انسانی ترقی سے بہت گہرا تعلق ہے جو شاید دنیا میں کہیں اور موجود ہوتا تو سیاحوں سے بھرپور ہوتا۔

لیکن عراق کے ایک صحرا کے کونے پر موجود اس جگہ پر ہوا، مٹی، ریت اور چند قابل شناخت دیواروں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

زیارت کی طویل تاریخ

نپور کے سات ہزار سال بعد بھی مشرق وسطی کے اس خطے میں زیارت کا تصور مضبوط ہے۔ ہر دن ہزاروں شیعہ مسلمان دنیا بھر سے کربلا اور نجف پہنچتے ہیں۔