افغانستان اور طالبان لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
افغانستان اور طالبان لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

طالبان کا تین سالہ دور اور اقوام متحدہ کی رپورٹ ۔ ڈاکٹر محمد اقبال خلیل | اگست ۲۰۲۴ | اخبار اُمت


جب ۱۵؍ اگست ۲۰۲۱ء کو تحریکِ طالبان افغانستان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل کا انتظام سنبھالا تو یہ ایک محیرالعقول واقعہ تھا۔ اس سے پہلے کم و بیش پورے افغانستان پر ان کا قبضہ ہوچکا تھا ۔تمام بڑے شہر ،ایئرپورٹوں اور اہم عسکری تنصیبات پر وہ ’امارت اسلامی‘ کے جھنڈے گاڑ چکے تھے۔ نیٹو افواج اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ افغانستان سے رخصت ہوچکی تھیں۔ ساڑھے تین لاکھ افغانوں پر مشتمل فوج، جس کو امریکا نے اربوں ڈالر خرچ کر کے تیار اور بہترین اسلحے سے لیس کیا تھا، طالبان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔امریکی کٹھ پتلی صدر اشرف غنی سمیت اُن کی پوری کابینہ ملک سے فرار ہو گئی اور بغیر جنگ لڑے طالبان کابل میں داخل ہو گئے۔ گذشتہ تین سال میں ایک طویل عرصے کےبعد افغانستان میں امن و امان بحال رہا۔ ’داعش‘ تنظیم نے متعدد مقامات پر کئی خودکش حملے کیے، جس سے سیکڑوں جانیں ضائع ہوئیں۔ لیکن اب وہ سلسلہ بھی تھم چکا ہے۔ داعش کی بیش تر قیادت ملک سے باہر نکل گئی ہے اور دیگر ممالک میں سرگرمِ عمل ہے ۔

ترقیاتی اُمور:


گذشتہ تین برسوں میں امارت اسلامی کے نمایاں ترقیاتی اُمور یہ ہیں:

۱-ملک میں مکمل امن و امان کی بحالی، جنگ کا خاتمہ، عوام کا تحفظ ،شاہراؤں کی حفاظت۔

۲- حکومتی رٹ کا قیام، کابل کی مرکزی حکومت کا پورے افغانستان پر مکمل کنٹرول ہے۔ ملک کے ۳۴ صوبوں اور ۴۰۰ اضلاع میں ایک ہی حکومت ہے۔ تمام صوبوں کے والی، اور بڑے چھوٹے اضلاع کے حکام اس کے سامنے جواب دہ ہیں، اور اس کا حکم پورے ملک میں نافذ ہوتا ہے۔

۳- قانون کی بالادستی اور لاقانو نیت کے خاتمے کے بعد پورے ملک میں شرعی قوانین نافذ ہیں۔ عدالتیں قائم ہیں اور وہ روزمرہ کے مسائل اور تنازعات کا بروقت فیصلہ کرتی ہیں۔ عالمی ادارے نے کابل کو اس خطے کا سب سے محفوظ شہر قرار دیا ہے جہاں جرائم کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

۴- بدعنوانی اورکرپشن کا ہر سطح پر سد باب کردیا گیا ہے۔ رشوت ستانی ،بھتہ خوری، کمیشن وغیرہ جیسے مسائل جو گذشتہ حکومتوں میں عام تھے، ناپید ہیں۔ تمام حکومتی محصولات کی وصولی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ بجلی کے بل اور دیگر خدمات پر ادائیگی پوری طرح لی جاتی ہے، جس سے حکومت کو مستحکم بنانے میں بہت مدد ملی ہے ۔

۵- ملک میں اقتصادی ترقی، تجارت کے فروغ اور معاشی سرگرمیاں بڑے پیمانے پر جاری ہیں۔ افغان کرنسی کو عالمی بینک نےاس خطے کی مضبوط ترین کرنسی قرار دیا ہے۔ افغان تاجر بغیر کسی روک ٹوک کے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر آزادانہ طور پر کاروبار کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی کمپنیاں اور کاروباری افراد بھی افغانستان میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔

۶- ملک میں بلاامتیاز یکساں طور پر ترقیاتی کام زور و شور سے جاری ہیں ۔ پہلے سال چھوٹے پیمانے پر کاموں کا آغاز ہوا،لیکن اب پورے ملک میں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ شاہراؤں کی تعمیر ہو رہی ہے، ڈیم بن رہے ہیں اور سالانگ ٹنل کی تعمیرِ نو ہو چکی ہے۔ ۲۸۰کلومیٹر طویل قوش ٹپہ نہر بن رہی ہے، جو کہ شمالی صوبوں کی لاکھوں ایکڑ زمین کو سیراب کرے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام ترقیاتی کام خود انحصاری کی بنا پر کیے جا رہے ہیں۔ کوئی غیر ملکی قرضہ نہیں لیا گیا۔ بیرونی ممالک مثلاً چین اگر کسی منصوبے میں شریک ہے، تو وہ امداد کے طور پر کام کر رہا ہے۔

۷- مرکزی بینک اور دیگر مالیاتی ادارے ملک کی ترقی اور معاشی کنٹرول میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، خاص طور پر قیمتوں کے کنٹرول اور درآمدات و برآمدات پر نظر رکھتے ہیں اور جو اقدام ضروری ہے وہ کرتے ہیں۔ غیر ملکی کرنسی کی آمد اور خروج پر بھی دسترس ہے ۔ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود ملک میں بینکاری کا نظام جاری ہے اور سودی نظام کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔

افغان پولیس افسر اور طالبان کمانڈر کی دشمنی دوستی میں کیسے بدلی ؟

یماں بریز
طالبان کمانڈر بریگیڈؑ یئرحضرت محمود  اور
سابق افغان پولیس آفیسر ناصر خان سلیمان زئی
بی بی سی  افغانستان
10 جولائی 2024

’ہم اب بھائیوں کی طرح ہیں‘: افغان پولیس افسر اور طالبان کمانڈر کی دشمنی دوستی میں کیسے بدلی

20 سال تک یہ دونوں ایک دوسرے کے حریف تھے، ہر وقت مسلح اور قتل کرنے کو تیار۔

لیکن اب 50 سالہ طالبان کمانڈر حضرت محمد محمود اور ناصر خان سلیمان زئی، جو افغان پولیس میں اعلی عہدے پر فائز ہوا کرتے تھے، کابل کی پولیس اکیڈمی میں اکھٹے کام کرتے ہیں۔

چمکتے دمکتے یونیفارم میں ملبوس بریگیڈیئر محمود نے اپنے ساتھی کے ہمراہ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اب ہم بھائیوں کی طرح ہیں۔‘

یہ دو ایسے افراد کے درمیان حیران کن حد تک قربت کا تعلق بن چکا ہے جو کبھی ایک دوسرے کے دشمن ہوا کرتے تھے۔افغانستان میں دو دہائیوں کی خون ریزی کے بعد وہ ایک ہی یونیفارم پہنتے ہیں، ایک دفتر میں بیٹھتے ہیں، پولیس کے مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہیں اور روزانہ چائے کے وقفے میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر خوش گوار لمحات کا لطف اٹھاتے ہیں۔

افغانستان کے جغرافیے میں چھپا وہ راز جو اسے ’سلطنتوں کا قبرستان‘ بناتا ہے

ناربرٹو پریڈیس

بی بی سی منڈو سروس

افغانستان بڑی سلطنتوں کا قبرستان کیوں ہے؟ 
22 اگست 2021

اپ ڈیٹ کی گئی 24 دسمبر 2022آج سے ٹھیک 43 برس قبل یعنی 24 دسمبر 1979 کو سوویت افواج افغانستان میں داخل ہوئی تھیں۔ افغانستان کے جغرافیے اور یہاں بیرونی افواج کو ہونے والی شکستوں پر بی بی سی کی یہ تحریر پہلی مرتبہ اگست 2021 میں شائع ہوئی تھی جسے آج کے دن کی مناسبت سے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔

افغانستان میں آخر ایسی کیا بات ہے کہ اسے پوری دنیا ’سلطنتوں کے قبرستان‘ کے نام سے جانتی ہے؟ آخر امریکہ، برطانیہ، سوویت یونین سمیت دنیا کی تمام بڑی طاقتیں اسے فتح کرنے کی کوششوں میں کیوں ناکام ہوئیں؟

یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب افغانستان کی تاریخ اور اس کے جغرافیائی محل و وقوع میں پوشیدہ ہے۔

19 ویں صدی میں برطانوی سلطنت، جو اس وقت دنیا کی سب سے طاقتور سلطنت تھی، اس نے اپنی پوری طاقت سے اسے فتح کرنے کی کوشش کی۔ لیکن سنہ 1919 میں برطانیہ کو بالآخر افغانستان چھوڑ کر جانا پڑا اور افغانوں کو آزادی دینی پڑی۔

اس کے بعد سوویت یونین نے سنہ 1979 میں افغانستان پر حملہ کیا۔ اس کا ارادہ یہ تھا کہ سنہ 1978 میں بغاوت کے ذریعے قائم کی گئی کمیونسٹ حکومت کو گرنے سے بچایا جائے۔ لیکن انھیں یہ سمجھنے میں دس سال لگے کہ وہ یہ جنگ نہیں جیت پائیں گے۔

امريکى صدر جو بائيڈن کى طرف سے طالبان حکومت سے بات چيت کا اشارہ

بى بى سے اردو کے مطابق پير 19 سبتمبر 2022 کو طالبان نے ایک امریکی انجینیئر کو رہا کر دیا ہے جسے انھوں نے 2020 سے یرغمال بنا رکھا تھا جبکہ اس رہائی کے بدلے میں امریکہ نے سنہ 2005 سے اپنی حراست میں رکھے گئے ایک افغان قبائلی رہنما کو رہا کیا ہے۔

 امریکی بحریہ کے سابق افسر مارک فریرچ کو پیر کے روز کابل ہوائی اڈے پر امریکہ کے حوالے کیا گیا۔

بدلے میں طالبان کے اتحادی بشیر نورزئی کو طالبان کے حوالے کیا گیا ہے۔ نورزئی منشیات کی سمگلنگ کے جرم میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔

اس پر امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ امریکی انجینیئر کی رہائی کے بدلے میں ’مشکل فیصلے کرنے‘ پڑے ہیں۔

صدر بائیڈن نے جنوری (2022) میں کہا تھا: ’اگر طالبان چاہتے ہیں کہ اُن کی حکومت کو تسلیم کرنے پر غور کیا جائے تو انھیں مارک کو فوری طور پر رہا کرنا چاہیے۔ اس کے بغیر کوئی بات چیت نہیں ہو گی۔‘

60 سالہ مارک  فریرچ کو طالبان نے افغانستان پر اگست 2021 میں دوبارہ قبضے سے ایک سال قبل  يعنى 2020 میں اغوا کیا تھا۔  

مارک فريرچ اور بشير نورزئى

مارک فریرچ گذشتہ 10 سال سے سول انجینئر کے طور پر کابل میں رہ رہے تھے اور وہیں کام کرتے تھے۔

نورزئی طالبان کے بانی ملا عمر کے قریبی ساتھی اور دوست تھے اور انھوں نے 1990 کی دہائی میں طالبان کی پہلی حکومت کی مالی مدد کی تھی۔

نورزئی ہیروئن کی سمگلنگ کے الزام میں 17 سال تک امریکی حراست میں رہ چکے ہیں۔ استغاثہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے ملک کے جنوب میں طالبان کے روایتی گڑھ صوبہ قندھار میں افیون کی کاشت کا ایک وسیع آپریشن چلایا۔

طالبان نے افغانستان میں نئی عبوری حکومت کا اعلان کردیا

 عبوری حکومت اور کابینہ کے افراد

 منگل 7 ستمبر 2021 ، کابل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ طالبان کی نئی عبوری حکومت کے وزیراعظم محمد حسن اخوند ہوں گے جبکہ ملا عبدالغنی برادر ان کے نائب ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ ملا برادر عبدالغنی اور مولانا عبدالسلام دونوں مولانا محمد حسن کے معاون ہوں گے جبکہ ملا عمر کے صاحبزادے محمد یعقوب مجاہد عبوری وزیر دفاع ہوں گے۔ افغانستان کی عبوری حکومت میں اہم وزراتیں مندرجہ ذیل افراد کے پاس ہوں گی:

افغانستان میں امارات اسلامی کی عبوری حکومت کا اعلان

  • ملا محمد حسن اخوند وزیراعظم
  • ملا عبدالغنی نائب وزیراعظم
  • ملا یعقوب وزیردفاع سرپرست
  • سراج الدین حقانی وزیرداخلہ سرپرست
  • ملا امیر خان متقی وزیرخارجہ سرپرست
  • شیخ خالد دعوت ارشادات سرپرست
  • عباس ستانکزئی نائب وزیر خارجہ
  • ذبیح اللہ مجاہد وزیر اطلاعات مقرر
  • فصیح الدین بدخشانی افغانستان آرمی چیف
  • ملا ہدایت اللہ وزیر مالیات
  • محمد یعقوب مجاہد عبوری وزیر دفاع
  • اسد الدین حقانی عبوری وزیر داخلہ
  • ملا امیر خان متقی وزیر خارجہ
  • مولوی عبدالسلام حنفی ریاست الوزرا معاون

انہوں نے مزید  بتایا کہ اس کے علاوہ شیخ مولوی نور محمد ثاقب وزیر برائے حج و اوقاف، ملا نور اللہ نوری وزیر سرحد و قبائل، ملا محمد یونس اخوندزادہ وزیر معدنیات، حاجی ملا محمد عیسیٰ وزیر پیٹرولیم اور ملا حمید اللہ اخوندزادہ وزیر ٹرانسپورٹ ہوں گے۔ اور خلیل الرحمٰن حقانی وزارت مہاجرین اور تاج میر جواد ریاستی امور کے وزیر ہوں گے۔ اور  ملا عبدالطیف منصور کو وزارت پانی و بجلی، نجیب اللہ حقانی کو برقی مواصلات، عبدالباقی حقانی کو وزارت تعلیم، عبدالحق وثیق کو وزارت انٹیلی جنس کی ذمے داریاں دی گئی ہیں۔ 

افغان طالبان کون ہیں: طالبان کے عروج، زوال اور اب دوبارہ عروج کی داستان

 16 اگست 2021  ,  BBC URDU 

سنہ 2001 میں امریکہ کی قیادت میں غیر ملکی افواج کے افغانستان پر حملہ آور ہونے کے بعد ملک پر طالبان کی حکومت کے خاتمے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد سے وقت کے ساتھ ساتھ طالبان کی طاقت میں دوبارہ اضافہ ہوا اور اب غیر ملکی افواج کے انخلا کے آغاز کے چند ماہ بعد ہی اس گروپ نے پھر سے دارالحکومت کابل سمیت افغانستان کے بیشتر علاقے پر قبضہ کر لیا ہے اور ایک مرتبہ پھر افغانستان میں برسرِاقتدار آنے والے ہیں۔
افغان طالبان کون ہیں ؟ طالبان کے عروج و زوال کی داستان


افغانستان میں تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے طالبان جنگجوؤں نے گذشتہ دو ماہ میں جتنے علاقوں پر قبضہ کیا ہے اتنا وہ سنہ 2001 میں اقتدار سے علیحدہ کیے جانے کے بعد سے کبھی نہیں کر سکے تھے۔

طالبان نے دو دہائیوں پر محیط جنگ کے بعد مئی 2021 سے ایک مربوط طریقے سے دوبارہ افغان فوج کی چوکیوں، قصبوں، بڑے شہروں سے متصل دیہات اور صوبائی ہیڈکوارٹروں کو قبضے میں لینا شروع کیا اور اگست کے مہینے میں ان کی پیش قدمی میں ایسی تیزی آئی کہ عسکری ماہرین ہوں یا دفاعی تجزیہ کار وہ سب کے اندازوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے 15 اگست کو کابل میں داخل ہو چکے ہیں۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان سنہ 2018 میں براہ راست بات چیت کا آغاز ہوا تھا اور فروری 2020 میں دونوں فریقین کے درمیان دوحہ امن معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جس کے تحت امریکہ نے افغانستان سے انخلا کو یقینی بنانے جبکہ طالبان نے امریکی فوجیوں کو حملوں سے بچانے کی ذمہ داری لی تھی۔

افغانستان میں 20 سال تک لڑی جانے والی جنگ سے متعلق 10 اہم سوالوں کے جوابات

افغانستان میں دو دہائیوں تک لڑی جانے والی جنگ سے متعلق
10 اہم سوالوں کے جوابات
بی بی سی اردو ،  12 جولائی 2021

امریکہ نے نائن الیون کے واقعے کے بعد القاعدہ کے خاتمے کے
 لیے افغانستان پر حملہ کیا تھا ، بیس برسوں کی جنگ کے بعد امریکی فوج کا افغانستان سے انخلا ہو گیا ہے۔ کابل کے قریب بگرام کا فوجی اڈّہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے طالبان اور القاعدہ کے خلاف فوجی کارروائیوں کا مرکز تھا۔

امریکہ کی قیادت میں مغربی افواج افغانستان میں دسمبر سنہ 2001 میں داخل ہوئی تھیں، اور بگرام کے فوجی اڈے کو ایک بہت ہی بڑے اور جدید فوجی اڈے کے طور پر جس میں دس ہزار فوجیوں کو رکھنے کی گنجائش تھی، اس کی تعمیر بعد میں کی گئی۔

امریکی صدر جو بائیڈن کے گیارہ ستمبر تک افغانستان سے مکمل انخلا کے اعلان کے بعد اب امریکیوں نے یہ اڈہ خالی کر دیا ہے۔ اس دوران طالبان افغانستان بھر میں مختلف ضلعوں پر قبضہ کرتے ہوئے تیزی سے پیش رفت کر رہے ہیں۔

افغان طالبان اور امریکہ "امن معاہدہ " 2020 م

افغان طالبان اور امریکہ امن معاہدہ 2020م 
یاد رہے کہ ہفتہ 29 فروری 2020م  کو امریکہ اور افغان طالبان نے طویل عرصے سے جاری امن مذاکرات کے بعد ایک معاہدے پر دستخط کیے  جس کے تحت افغانستان میں گذشتہ 18 برس سے جاری جنگ کا خاتمہ ممکن ہو پائے گا۔

امن معاہدے پر دستخط کے بعد اب توقع ہے کہ اگلے مرحلے میں افغانستان کی حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کا آغاز ہو گا۔ جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اتحادی افواج افغانستان میں موجود اپنے دستے اگلے 14 ماہ میں نکال لیں گی بشرطیکہ طالبان اپنے وعدوں پر قائم رہیں۔

امریکہ نے نائن الیون کے واقعات کے چند ہفتوں بعد افغانستان پر حملہ کیا تھا جہاں شدت پسند گروپ القاعدہ موجود تھا۔

اس کے بعد سے اب تک 2400 سے زیادہ امریکی فوجی، ہزاروں طالبان جنگجو اور عام لوگ اس لڑائی میں ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اس وقت بھی 12000 اتحادی فوجی وہاں تعینات ہیں۔