سیرت : روشنی کا سفر ( قسط ۶)

شعب ابی طالب — صبر کی گھاٹی

ایک تنگ گھاٹی… پہاڑوں میں گھری ہوئی… تیز دھوپ، خشک زمین، بھوکے پیاسے لب، اور آنکھوں میں امید کی نمی۔
یہ شعب ابی طالب تھا—جہاں پیغمبرِ رحمت ﷺ اور ان کے چاہنے والے محصور کر دیے گئے۔

یہ صرف معاشی بائیکاٹ نہ تھا، یہ دل توڑنے، بھوک سے مارنے، آواز دبانے، اور ایک پیغامِ حق کو ختم کرنے کی آخری کوشش تھی۔
لیکن… یہیں سے صبر کی وہ داستان شروع ہوئی جو قیامت تک ایمان والوں کو طاقت دے گی۔

 کفار کی آخری چال

جب قریش نے دیکھا کہ محمد ﷺ کی دعوت مکہ کی گلیوں، حج کے قافلوں، اور غیر ملکی مہمانوں تک پہنچ رہی ہے—
اور جب انہوں نے محسوس کیا کہ حبشہ کی سرزمین پر بھی پناہ مل گئی،
اور جب ابو طالب ہر موقع پر اپنے بھتیجے کے لیے ڈھال بنے کھڑے رہے…

تو دارالندوہ میں ایک اور فیصلہ ہوا:

"ہم محمد کو نہ مار سکیں، نہ خاموش کرا سکیں—اب بنی ہاشم کو ہی جھکا دیں۔ ان کو سماجی، معاشی، اور ازدواجی طور پر بائیکاٹ کر دو!"

تحریر شدہ معاہدہ:

کفارِ مکہ نے کعبہ کے اندر ایک تحریری معاہدہ لٹکایا، جس میں یہ اعلان تھا:

"جب تک محمد کو ہمارے حوالے نہ کیا جائے،
ہم بنی ہاشم سے کوئی نکاح نہیں کریں گے،
نہ ان سے خرید و فروخت،
نہ کوئی بات چیت،
نہ میل جول!"

یہ معاہدہ منہوس سیاہی میں لکھا گیا، اور کعبہ کی دیوار سے لٹکا دیا گیا۔

محصور زندگی:

بنی ہاشم کو مجبوراً شعب ابی طالب میں پناہ لینا پڑی۔
یہ ایک تنگ پہاڑی گھاٹی تھی، جہاں نہ پانی، نہ غذا، نہ کوئی سہولت۔

دن کے وقت سورج کی تپش جسم جھلساتی،
اور رات کو سردی اور بھوک کی شدت روح تک کو لرزا دیتی۔

چھوٹے چھوٹے بچے بلک بلک کر روتے، مائیں خود بھوکی رہ کر دودھ کے قطرے تلاش کرتیں، مرد کھجور کی گٹھلیاں چوس کر گزارہ کرتے۔

حضرت خدیجہؓ، جو مکہ کی رئیسہ تھیں، اب ایک چٹان کے سائے میں بیٹھی اپنے شوہر کو دیکھتی رہتیں—
وہ محمد ﷺ جن کی محبت میں وہ سب کچھ چھوڑ چکی تھیں۔

ابو طالب، جو سردارِ قریش تھے، خود نگران بن کر ہر رات نبی ﷺ کا بستر بدلتے، تاکہ دشمن دھوکہ نہ دے سکیں۔

پہاڑوں میں گونجتی دعا:

رات کے سناٹے میں محمد ﷺ کی آواز بلند ہوتی:

"اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَشْكُو إِلَيْكَ ضَعْفَ قُوَّتِي..."
"اے اللہ! میں تیرے سامنے اپنی کمزوری اور بے بسی کا اعتراف کرتا ہوں…"

یہ صدائیں پہاڑوں سے ٹکرا کر آسمانوں تک پہنچتی رہیں۔

محبت اور اتحاد کا نمونہ:

یہ وہ لمحہ تھا جب:

  • حضرت خدیجہؓ نے اپنی تمام دولت راہِ خدا میں لٹا دی؛

  • ابو طالب نے اپنی سرداری کو داؤ پر لگا دیا؛

  • اور کمزور مسلمانوں نے بھوک سے بلکتے ہوئے بھی ایمان نہ چھوڑا۔

یہ شعب ابی طالب تھا، جہاں صبر، وفا، اور توکل نے ایمان کی بنیادیں مزید مضبوط کر دیں۔

معجزہ: معاہدے کا کھایا جانا

تین سال گزر چکے تھے… مکہ بھی تھک چکا تھا، اور دلوں میں رحم جنم لے رہا تھا۔

تب ایک معجزہ رونما ہوا!

نبی کریم ﷺ نے ابو طالب کو خبر دی:

"اے چچا! اللہ نے معاہدہ لکھنے والے صحیفے کو دیمک کے حوالے کر دیا ہے۔
سوائے اللہ کے نام کے، باقی سب کچھ مٹا دیا گیا ہے۔"

ابو طالب دارالندوہ پہنچے، قریش کو بلایا، اور کہا:

"اگر محمد جھوٹا ہو، تو ہم سے اسے لے لو۔
مگر اگر یہ بات سچ ہو، تو تمہیں اپنا معاہدہ توڑنا ہوگا۔"

قریش کعبہ میں داخل ہوئے… اور حیران رہ گئے!

واقعی… صرف "بسمک اللہم" باقی رہ گیا تھا… باقی سب لفظ مٹ چکے تھے!

محاصرہ ختم، مگر قربانیاں باقی

قریش کے کچھ نرم دل افراد نے محاصرہ توڑنے کی حمایت کی—
اور یوں شعب ابی طالب کا محاصرہ ختم ہو گیا۔

لیکن…

  • حضرت خدیجہؓ کی صحت بگڑ چکی تھی،

  • ابو طالب کمزور ہو چکے تھے،

  • اور رسول اللہ ﷺ کا دل ٹوٹ چکا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ اس سال کو نبی ﷺ نے "عام الحزن" یعنی غم کا سال کہا۔

سوچنے کے لیے سوالات:

  1. کیا ہم ایمان کے بدلے دنیاوی آرام کو ترجیح تو نہیں دے رہے؟

  2. حضرت خدیجہؓ اور ابو طالب کی قربانیوں سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟

  3. آج کے دور میں اگر حق کے راستے پر شعب ابی طالب آ جائے، تو ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟

اگلی قسط :

طائف کے پتھروں میں چھپی اذیت… اور غارِ حرا میں چھپی روشنی!
نبی ﷺ کی آنکھوں سے بہتے آنسو، اور آسمانوں سے آنے والا تسلی کا پیغام…

انتظار کیجیے!