دنیا ایک بار پھر تاریخ کے اُس موڑ پر کھڑی ہے جہاں انصاف، حقوقِ انسانی، اور تہذیبِ انسانی کے دعوے دار بے نقاب ہو چکے ہیں۔ غزہ کی سرزمین پر بہنے والا ہر قطرۂ خون، صرف ایک انسانی المیہ نہیں بلکہ مغربی اخلاقی بیانیے کی شکست کا اعلان ہے۔ اور اس بحران میں، امریکہ کا کردار سب سے زیادہ متنازع، منافقانہ اور غیر اخلاقی نظر آ رہا ہے۔
مگر اس پوری صورتحال میں دو بڑی طاقتیں – چین اور روس – ایک خاص طرزِ سکوت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے: کیا یہ خاموشی بزدلی ہے؟ یا حکمت؟ اور کیا واقعی یہ دونوں طاقتیں امریکہ کی زوال پذیر قیادت کے بعد دنیا کو ایک نئے عالمی نظام کی طرف لے جا سکتی ہیں؟
امریکہ: آزادی اور انصاف کا منافقانہ علمبردار
امریکہ جو خود کو عالمی "مسیحا"، جمہوریت کا پرچم بردار، اور حقوقِ انسانی کا محافظ کہتا ہے، اس وقت فلسطینی نسل کشی پر اسرائیل کا غیر مشروط حامی بنا کھڑا ہے۔
-
ہزاروں بچوں کی شہادت،
-
اسپتالوں، اسکولوں اور امدادی قافلوں پر حملے،
-
اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو ویٹو کرنا،
یہ سب کچھ دنیا کو بتا رہا ہے کہ امریکی اخلاقیات کی بنیاد طاقت، مفاد اور نسل پرستی پر کھڑی ہے۔
جہاں یوکرین پر روسی حملے کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کہہ کر روس پر سخت پابندیاں عائد کی گئیں، وہیں اسرائیل کے کھلے مظالم پر امریکہ کی "خاموش حمایت" نے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
چین اور روس کی خاموشی حکمت عملی یا اخلاقی کمزوری؟
🔸 چین کی حکمتِ عملی:
چین نے ہمیشہ اپنی خارجہ پالیسی میں عدم مداخلت کا اصول اپنایا ہے۔ وہ بظاہر اس جنگ میں غیر جانب دار ہے، لیکن:
-
سفارتی سطح پر امریکہ کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے،
-
فلسطینی عوام کی مدد کا اعلان کرتا ہے،
-
اور عالمی برادری سے انصاف کی اپیل کرتا ہے۔
بظاہر یوں لگتا ہے کہ چین دراصل امریکہ کو اخلاقی میدان میں کمزور کرنے کے لیے وقت کا انتظار کر رہا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ براہ راست تصادم کے بجائے خاموش سفارت کاری سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
🔸 روس کی مجبوری و حکمت:
روس پہلے ہی یوکرین کے محاذ پر مغرب سے برسرِ پیکار ہے۔ وہ اسرائیل کے ساتھ کچھ اسٹریٹیجک تعلقات بھی رکھتا ہے (خصوصاً شام کے محاذ پر)، لیکن اس کے باوجود روسی میڈیا اور سفارت کاری میں فلسطین کے حق میں بیانیہ نمایاں ہے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ روس یہ جنگ سفارتی سطح پر امریکہ کے خلاف ایک اور اخلاقی محاذ کے طور پر استعمال کر رہا ہے، مگر عسکری یا براہِ راست مداخلت سے گریزاں ہے۔
عالمی طاقت کا توازن: کیا واقعی تبدیلی ممکن ہے؟
موجودہ عالمی منظرنامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے:
-
امریکہ کی اخلاقی ساکھ تباہ ہو رہی ہے،
-
یورپ میں دوہرا معیار عوامی سطح پر بے نقاب ہو چکا ہے،
-
مسلم دنیا اور ترقی پذیر اقوام امریکہ سے شدید مایوس ہو چکی ہیں،
اس خلا کو BRICS جیسا اتحاد، اور چین-روس جیسی طاقتیں پر کرنے کی تیاری میں ہیں۔ وہ دنیا کو بتا رہے ہیں کہ انصاف، باہمی احترام، اور اقتصادی توازن پر مبنی ایک متبادل عالمی نظام ممکن ہے۔
مسلم دنیا کی بیداری اور نئے امکانات
یہ جنگ صرف امریکہ یا اسرائیل کے خلاف نہیں، بلکہ پوری مسلم امہ کے ضمیر کے امتحان کا وقت بھی ہے۔ اب وہ لمحہ آ چکا ہے جب مسلم دنیا کو:
-
مغربی بیانیے سے آزاد ہونا ہوگا،
-
اپنی سفارتی اور اقتصادی طاقت کو یکجا کرنا ہوگا،
-
اور نئی عالمی صف بندی میں باعزت مقام حاصل کرنا ہوگا۔
ایک ابھرتی ہوئی عالمی بیداری
امریکہ کی فلسطینیوں پر ظلم کی حمایت نے اسے اخلاقی طور پر عریاں کر دیا ہے۔ چین اور روس اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر ایک متبادل عالمی ترتیب کے معمار بننے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ خاموشی وقتی ہو سکتی ہے، مگر اس کے پیچھے دانش، حکمت اور عالمی طاقت کے توازن کو بدلنے کا منصوبہ چھپا ہے۔
اگر دنیا نے اس موقع کو پہچان لیا، تو ممکن ہے کہ ہم آئندہ دہائی میں ایک ایسا عالمی نظام دیکھیں جہاں طاقت کا مرکز نہ صرف تبدیل ہو، بلکہ نئے اخلاقی اصولوں پر استوار ہو۔
یہ بھی پڑھیں !