سیرت : روشنی کا سفر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
سیرت : روشنی کا سفر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

سیرت : روشنی کا سفر ( قسط ۵)

باب پنجم: اٹھو، اور خبردار کرو!

غارِ حرا سے واپسی کے بعد
نزولِ وحی کے بعد کچھ وقت ایسا تھا جیسے کائنات تھم سی گئی ہو۔ فرشتے خاموش تھے، آسمان پر ساکت سکوت تھا، اور محمد ﷺ انتظار میں تھے۔ نہ جبرائیلؑ آ رہے تھے، نہ کوئی نیا پیغام۔

یہ وقت آزمائش کا تھا۔ لیکن محمد ﷺ ڈٹے رہے، تنہائی میں، خاموشی میں، رب سے جڑے رہے۔

اور پھر… وہ لمحہ آیا۔

جبرائیلؑ دوبارہ نازل ہوئے۔
فضا ایک بار پھر لرز گئی۔
آسمانی حکم نازل ہوا:

"يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ
قُمْ فَأَنْذِرْ
وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ
وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ
وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ"
(سورۃ المدثر: 1–5)

اے چادر اوڑھنے والے!
اٹھو، اور لوگوں کو خبردار کرو۔
اپنے رب کی بڑائی بیان کرو۔
اپنے لباس کو پاک رکھو۔
اور گندگی سے دور رہو۔

سیرت : روشنی کا سفر ( قسط ۴)

باب چہارم: جبلِ نور کی خاموشی میں اُترتی روشنی

غارِ حرا کی طرف ایک تنہا سفر
مکہ کے بازار شور و غل سے بھرے ہوتے، قریش کی محفلوں میں قہقہے گونجتے، اور بتوں کے سائے میں لوگ اپنی دنیا بسائے ہوئے تھے۔ مگر ایک دل ایسا بھی تھا جو ان سب سے بیگانہ تھا۔ محمد ﷺ کا دل ان بتوں سے بیزار تھا، ان محفلوں سے خالی، اور اس معاشرے کے جھوٹ، ظلم، اور فریب سے دکھی۔

ان کا دل سچائی کی تلاش میں بے چین رہتا۔

اسی تلاش نے انہیں شہر سے دور، جبلِ نور کے ایک خاموش گوشے، غارِ حرا کی طرف کھینچنا شروع کیا۔

غار کی خاموشی، دل کا مکالمہ
یہ کوئی عام پہاڑ نہ تھا، اور نہ یہ غار عام تنہائی رکھتی تھی۔ یہاں ہر طرف خامشی تھی، مگر یہ خاموشی مردہ نہ تھی— یہ گویا سننے والی خاموشی تھی، سوالوں سے بھری ہوئی، آنکھیں بند کیے انتظار کرتی ہوئی۔

محمد ﷺ یہاں دنوں اور راتوں تک قیام فرماتے۔ کبھی پہاڑوں کو تکتے، کبھی آسمان کو۔ دل ہی دل میں اللہ کو پکارتے، مگر الفاظ زباں پر نہ آتے۔

وہ جانتے تھے کہ کوئی ذات ہے جو انہیں دیکھ رہی ہے، جو اس دنیا کے پردوں کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقتوں کی مالک ہے۔

وہ رات جس کا انتظار صدیوں نے کیا
رمضان کی ایک رات تھی— نہ کوئی غیر معمولی شور، نہ آسمان پر کوئی رنگین منظر۔ مگر کائنات کی دھڑکن کسی پوشیدہ ولولے سے بھر گئی تھی۔

سیرت : روشنی کا سفر ( قسط ۳)

باب سوم: مکہ کی گلیوں میں ایک سچا نوجوان

رات کے سائے میں چلنے والا ایک منفرد نوجوان

مکہ کی گلیاں رات کے سائے میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ ستارے ٹمٹما رہے تھے اور ٹھنڈی ہوا خاموشی سے پہاڑوں کے درمیان سے گزر رہی تھی۔ ان ہی گلیوں میں ایک نوجوان اکثر چپ چاپ چلتا دکھائی دیتا، نہ کسی سے الجھتا، نہ بے مقصد گفتگو کرتا۔ وہ بازاروں میں بھی جاتا، مگر اس کی آنکھوں میں کوئی لالچ نہ ہوتا۔ سوداگری کا ہنر اسے خوب آتا تھا، مگر جھوٹ، دھوکہ، یا ناپ تول میں کمی؟ یہ سب اس کے لیے اجنبی چیزیں تھیں۔

یہ محمد بن عبداللہ ﷺ تھے۔

سچائی کا تاجر

وقت گزرتا گیا، اور محمد ﷺ کی ایمانداری، سچائی اور دیانت داری کی شہرت پورے مکہ میں پھیلنے لگی۔ تاجر انہیں اپنا مال دے کر مطمئن رہتے کہ نہ تو یہ نقصان اٹھائیں گے، نہ کسی کو دھوکہ دیں گے۔ مکہ کے لوگ انہیں "الصادق" (سچ بولنے والا) اور "الامین" (امانت دار) کے ناموں سے یاد کرنے لگے تھے۔

یہ وہ دور تھا جب عرب کی تجارت کا مرکز شام اور یمن کے بازار تھے۔ قریش کے تاجر گرمیوں میں شام اور سردیوں میں یمن کا سفر کرتے۔ ان ہی دنوں مکہ کی ایک مالدار، سمجھدار اور نیک دل خاتون، حضرت خدیجہؓ کو ایک ایسے شخص کی تلاش تھی جو ان کے تجارتی قافلے کو دیانت داری سے لے جائے۔

سفرِ شام اور ایک انوکھا مشاہدہ

محمد ﷺ کو حضرت خدیجہؓ کا پیغام ملا کہ وہ ان کا سامانِ تجارت لے کر شام جائیں۔ یہ ایک سنہری موقع تھا، مگر ان کے لیے تجارت صرف مال کمانے کا ذریعہ نہیں تھی، بلکہ سچائی کو دنیا کے سامنے لانے کا ایک طریقہ بھی تھی۔

سیرت : روشنی کا سفر (قسط ۲)

 باب دوم: ایک یتیم کا بچپن

حلیمہ سعدیہ کا قافلہ

مکہ کی تپتی ہوئی زمین پر ایک قافلہ دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا تھا۔ اونٹوں کی گھنٹیوں کی ہلکی ہلکی آوازیں صحرا کی خاموشی میں گھل رہی تھیں۔ بنی سعد کے چرواہے اور عورتیں اپنے اپنے اونٹوں پر سوار تھیں، وہ سب کسی ایسے بچے کی تلاش میں تھے جسے وہ دودھ پلانے کے لیے لے جائیں، مگر مکہ کے خوشحال خاندانوں کے بچے پہلے ہی منتخب ہو چکے تھے۔

حلیمہ سعدیہ کے پاس ایک کمزور اونٹنی تھی، جو چلنے سے قاصر تھی، جبکہ ان کا نومولود بیٹا بھوک سے بلک رہا تھا۔ ان کے شوہر حارث بن عبدالعزیٰ نے افسوس سے کہا:

“حلیمہ، اس سال قحط نے سب کچھ برباد کر دیا ہے۔ ہمیں شاید خالی ہاتھ لوٹنا پڑے۔”

حلیمہ نے آسمان کی طرف دیکھا اور گہری سوچ میں ڈوب گئیں۔ مکہ پہنچنے پر انہیں ایک یتیم بچے کی خبر ملی، جس کی والدہ آمنہ تھیں اور والد عبداللہ کا انتقال ہو چکا تھا۔ یتیم ہونے کی وجہ سے کوئی اس بچے کو لینے پر تیار نہ تھا۔

حلیمہ کا فیصلہ

حلیمہ نے بچے کو دیکھا۔ وہ گہری نیند میں تھا، چہرے پر ایک نورانیت تھی جو عام بچوں سے مختلف تھی۔ ان کا دل پگھل گیا اور انہوں نے فیصلہ کر لیا:

“میں اس مبارک بچے کو لوں گی۔ شاید یہی ہمارے گھر میں برکت لے آئے۔”

سیرت : روشنی کا سفر (قسط ۱)

قاری کے نام چند کلمات

یہ کوئی عام سیرت کی کتاب نہیں، بلکہ ایک منفرد اور دلنشین بیانیہ ہے، جو آپ کو چودہ صدیاں پیچھے لے جائے گا۔ ہم نے اسلوب کی روایتی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے سیرتِ طیبہ ﷺ کو ایک جذباتی، مؤثر، اور کہانی نما انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

یہ محض ایک تاریخی بیان نہیں، بلکہ ایک ایسا تخلیقی سفر ہے جو آپ کو محسوس کرائے گا کہ جیسے آپ خود اس دور میں موجود ہیں، ان گلیوں میں چل رہے ہیں جہاں نبی اکرم ﷺ کے قدموں کے نشان ثبت ہوئے، ان آسمانوں کو دیکھ رہے ہیں جو آپ ﷺ کی پیدائش کی رات جگمگا اٹھے، اور ان لوگوں کے درمیان کھڑے ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اس نور کی کرنوں کو محسوس کیا۔

یہ ایک منفرد تخلیقی پراجیکٹ ہے، جس میں ہم سیرت کو محض معلومات کے لیے نہیں، بلکہ دلوں پر اثر ڈالنے کے لیے پیش کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ آپ اسے پڑھتے ہوئے اس مبارک سفر کا حصہ بنیں گے اور اس سے وہ روشنی اخذ کریں گے جو صدیوں سے قلوب کو منور کرتی آ رہی ہے۔