سید ابوالاعلی مودویؒ
قریش کے سردار جب تضحیک، استہزاء اطماع تخویف اور جھوٹے الزامات کی تشہیر سے تحریک اسلامی کو دبانے میں ناکام ہوگئے تو انہوں نے ظلم و ستم، مار پیٹ اور معاشی دباؤ کے ہتھیار استعمال کرنے شروع کیے۔ ہر قبیلے کے لوگوں نے اپنے اپنے قبیلے کے نو مسلموں کو تنگ پکڑا اور طرح طرح سے ستا کر، قید کر کے بھوک پیاس کی تکلیفیں دے کر، حتی کہ سخت جسمانی اذیتیں دے دے کر انہیں اسلام چھوڑنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں خصوصیت کے ساتھ غریب لوگ اور وہ غلام اور سوالی جو قریش والوں کے تحت زیر دست کی حیثیت سے رہتے تھے، بری طرح پیسے گئے۔ مثلاً بلال، عامر بن مہر، ام عبیس، زبیرہ، عمار بن یاسر اور ان کے والدین وغیرہم، ان لوگوں کو مار مار کر ادھ موا کردیا جاتا، بھوکا پیاسا بند رکھا جاتا، مکے کی تپتی ہوئی ریت چلچلاتی دھوپ میں لٹا دیا جاتا اور سینے پر بھاری پتھر رکھ کر گھنٹوں تڑپایا جاتا۔ جو لوگ پیشہ ور تھے ان سے کام لے لیا جاتا اور اجرت ادا کرنے میں پریشان کیا جاتا۔ چنانچہ صحیحین میں حضرت خباب بن ارت کی یہ روایت موجود ہے کہ :
'' میں مکے میں لوہار کا کام کرتا تھا، مجھ سے عاص بن وائل نے کام لیا، پھر جب میں اس سے اجرت لینے گیا تو اس نے کہا کہ تیری اجرت نہ دونگا جب تک تو محمد کا انکار نہ کرے"
اسی طرح جو لوگ تجارت کرتے تھے ان کے کاروبار کو برباد کرنے کی کوششیں کی جاتیں اور جو معاشرے میں کچھ عزت کا مقام رکھتے ان کو ہر طریقے سے ذلیل و رسوا کیا جاتا۔ اسی زمانے کا حال بیان کرتے ہوئے حضرت خباب کہتے ہیں کہ ایک روز نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبے کے سائے میں تشریف فرما تھے۔ میں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا " یا رسول اللہ۔ اب تو ظلم کی حد ہوگئی ہے۔ آپ خدا سے دعا نہیں فرماتے ؟ " یہ سن کر آپ کا چہرہ مبارک تمتما اٹھا اور آپ نے فرمایا " تم سے پہلے جو اہل ایمان تھے ان پر اس سے زیادہ مظالم ہوچکے ہیں۔ ان کی ہڈیوں پر لوہے کی کنگھیاں گھسی جاتی تھیں، ان کے سروں پر رکھ کر آرے چلائے جاتے پھر بھی وہ اپنے دین سے نہ پھر تے تھے۔ یقین جانو کہ اللہ اس کام کو پورا کر کے رہے گا یہاں تک کہ ایک وقت وہ آئے گا کہ ایک آدمی صنعاء سے حضر موت تک بےکھٹکے سفر کرے گا اور اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا، مگر تم لوگ جلد بازی کرتے ہو" (بخاری)۔
یہ حالات جب ناقابل برداشت حد تک پہنچ گئے تو رجب 45 ہجری عام الفیل (شہ نبوی ) میں حضور نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ لوخرجتم الی ارض الحبشتہ فان بھا ملکا لایطیلم عندہ احد وھی ارض صد حتی یجعل اللہ لکم فرجا مما انتم فیہ ۔
'' اچھا ہو کہ تم لوگ نکل کر حبش چلے جاؤ۔ وہاں ایک ایسا بادشاہ ہے جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا اور وہ بھلائی کی سر زمین ہے۔ جب تک اللہ تمہاری اس مصیبت کو رفع کرنے کی کوئی صورت پیدا کرے، تم لوگ وہاں ٹھیرے رہو۔ ''
اس ارشاد کی بنا پر پہلے گیارہ مردوں اور چار خواتین نے حبش کی راہ لی۔ قریش کے لوگوں نے ساحل تک ان کا پیچھا کیا، مگر خوش قسمتی سے شعیبہ کے بندرگاہ پر ان کو بر وقت حبش کے لئے کشتی مل گئی اور وہ گرفتار ہونے سے بچ گئے۔ پھر چند مہینوں کے اندر مزید لوگوں نے ہجرت کی یہاں تک کہ 83 مرد گیارہ عورتیں اور 7 غیر قریشی مسلمان حبش میں جمع ہوگئے اور مکے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ صرف 40 آدمی رہ گئے۔
اس ہجرت سے مکے کے گھر گھر میں کہرام مچ گیا، کیونکہ قریش کے بڑے اور چھوٹے خاندانوں میں سے کوئی ایسا نہ تھا جس کے چشم و چراغ ان مہاجرین میں شامل نہ ہوں۔ کسی کا بیٹا گیا تو کسی کا داماد، کسی کی بیٹی گئی تو کسی کا بھائی اور کسی کی بہن۔ ابو جہل کے بھائی اور کسی کی بہن۔ ابو جہل کے بھائی سلمہ بن ہشام، اس کے چچا زاد بھائی ہشام بن ابی حذیفہ اور عیاش بن ابی ربیعہ اور اس کی چچا زاد بہن حضرت ام سلمہ، ابو سفیان کی بیٹی ام حبیبیہ۔ عتبہ کے بیٹے اور ہند جگر خوار کے سگے بھائی ابو حذیفہ۔ سہل بن عمرد کی بیٹی سلہلہ۔ اور اسی طرح دوسرے سردار قریش اور مشہور دشمنان اسلام کے اپنے جگر گوشے دین کی خاطر گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے تھے۔ اسی لئے کوئی گھر نہ تھا جو اس واقعہ سے متاثر نہ ہوا ہو۔ بعض لوگ اس کی وجہ سے اسلام دشمنی میں پہلے سے زیادہ سخت ہوگئے۔ اور بعض کے دلوں پر اس کا اثر ایسا ہوا کہ آخر کار وہ مسلمان ہو کر رہے۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) کی اسلام دشمنی پر پہلی چوٹ اسی واقعہ سے لگی۔ ان کی ایک قریبی رشتہ دار لیلی بنت حشمہ بیان کرتی ہیں کہ میں ہجرت کے لئے اپنا سامان باندھ رہی تھی، اور میرے شوہر عامر بن ربیعہ کسی کام سے باہر گئے ہوئے تھے۔ اتنے میں عمر (رض) آئے اور کھڑے ہو کر میری مشغولیت کو دیکھتے رہے کچھ دیر کے بعد کہنے لگے ''عبداللہ کی ماں، جارہی ہو'' ؟ میں نے کہا '' ہاں خدا کی قسم تم لوگوں نے ہمیں ستایا۔ خدا کی زمین کھلی پڑی ہے، اب ہم کسی ایسی جگہ چلے جائیں جہاں خدا ہمیں چین دے " یہ سن کر عمر کے چہرے پر رقت کے ایسے آثار طاری ہوئے جو میں نے کبھی ان پر نہ دیکھے تھے اور وہ بس یہ کہہ کر نکل گئے کہ " خدا تمہارے ساتھ ہو" ۔
ہجرت کے بعد قریش کے سردار سر جوڑ کر بیٹھے اور انہوں نے طے کیا کہ عبداللہ بن ابی ربیعہ (ابو جہل کے ماں جائے بھائی ) اور عمر و بن عاص کو بہت سے قیمتی تحائف کے ساتھ حبش بھیجا جائے اور یہ لوگ کسی نہ کسی طرح نجاشی کو اس بات پر راضی کریں کہ وہ ان مہاجرین کو مکہ واپس بھیج دے۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ نے (جو خود مہاجرین حبشہ میں شامل تھیں ) یہ واقعہ بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ قریش کے یہ دونوں ماہر سیاست سفیر ہمارے تعاقب میں حبش پہنچے۔ پہلے انہوں نے نجاشی کے اعیان سلطنت میں ہدیہ تقسیم کر کے سب کو اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ مہاجرین کو واپس کرنے کے لئے نجاشی پر بالاتفاق زور دیں گے۔ پھر نجاشی سے ملے اور اس کو بیش قیمت نذرانہ دینے کے بعد کہا کہ '' ہمارے شہر کے چند نادان لونڈے بھاگ کر آپ کے ہاں آ گئے ہیں قوم کے اشرف نے ہمیں آپ کے پاس ان کی واپسی کو درخواست کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ یہ لڑ کے ہمارے دین سے نکل گئے ہیں اور آپ کے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے ہیں بلکہ انہوں نے ایک نرالا دین نکال لیا ہے'' ان کا کلام ختم ہوتے ہی اہل دربار ہر طرف سے بولنے لگے کہ " ایسے لوگوں کو ضرور واپس کر دینا چاہیے، ان کی قوم کے لوگ زیادہ جانتے ہیں کہ ان میں کیا عیب ہے۔ انہیں رکھنا ٹھیک نہیں ہے۔ مگر نجاشی نے بگڑ کر کہا کہ " اس طرح تو میں انہیں حوالے نہیں کروں گا۔ جن لوگوں نے دوسرے ملک کو چھوڑ کر میرے ملک پر اعتماد کیا اور یہاں پناہ لینے کے لئے آئے ان سے میں بےوفائی نہیں کرسکتا پہلے میں انہیں بلا کر تحقیق کروں گا کہ یہ لوگ ان کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے " چنانچہ نجاشی نے اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے دربار میں بلا بھیجا۔
نجاشی کا پیغام پا کر سب مہاجرین جمع ہوئے اور انہوں نے باہم مشورہ کیا کہ بادشاہ کے سامنے کیا کہنا ہے۔ آخر سب نے بالاتفاق یہ فیصلہ کیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو تعلیم ہمیں دی ہے ہم تو وہی بےکم و کاست پیش کریں گے خواہ نجاشی ہمیں رکھے یا نکال دے۔ دربار میں پہنچے تو چھوٹتے ہی نجاشی نے سوال کیا کہ " یہ تم لوگوں نے کیا کیا کہ اپنی قوم کا دین بھی چھوڑا اور میرے دین میں بھی داخل نہ ہوئے، نہ دنیا کے دوسرے ادیان ہی میں سے کسی کو اختیار کیا ؟ آخر یہ تمہارا نیا دین ہے کیا ''؟ اس پر مہاجرین کی طرف سے جعفر بن ابی طالب نے ایک برجستہ تقریر کی جس میں پہلے عرب جاہلیت کی دینی، اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں کو بیان کیا، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا ذکر کر کے بتایا کہ آپ کیا تعلیمات پیش فرماتے ہیں، پھر ان مظالم کا ذکر کیا جو آنحضور کی پیروی اختیار کرنے والوں پر قریش کے لوگ ڈھا رہے تھے، اور اپنا کلام اس بات پر ختم کیا کہ دوسرے ملکوں کے بجائے ہم نے آپ کے ملک کا رخ اس امید پر کیا ہے کہ یہاں ہم پر ظلم نہ ہوگا۔ نجاشی نے یہ تقریر سن کر کہا کہ ذرا مجھے وہ کلام تو سناؤ جو تم کہتے ہو کہ خدا کی طرف سے تمہارے نبی پر اترا ہے۔ حضرت جعفر نے جواب میں سورۃ مریم کا وہ ابتدائی حصہ سنایا جو حضرت یحیی اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام سے متعلق ہے۔ نجاشی اس کو سنتا رہا اور روتا رہا یہاں تک کہ اس کی ڈاڑھی تر ہوگئی جب حضرت جعفر نے تلاوت ختم کی تو اس نے کہا کہ '' یقیناً یہ کلام اور جو کچھ عیسیٰ لائے تھے دونوں ایک ہی سر چشمے سے نکلے ہیں۔ خدا کی قسم میں تمھیں ان لوگوں کے حوالے نہ کروں گا "۔
دوسرے روز عمر و بن العاص نے نجاشی سے کہا کہ '' ذرا ان لوگوں سے بلا کر یہ تو پوچھیے کہ عیسیٰ بن مریم کے بارے میں ان کا عقیدہ کیا ہے۔ یہ لوگ ان کے متعلق ایک بڑی بات کہتے ہیں '' نجاشی نے پھر مہاجرین کو بلا بھیجا۔ مہاجرین کو پہلے سے عمرو ذکی کی چال کا علم ہوچکا تھا۔ انہوں نے جمع ہو کر پھر مشورہ کیا کہ اگر نجاشی نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں سوال کیا تو کیا جواب دو گے ؟ موقع بڑا نازک تھا اور سب اس سے پریشان تھے۔ مگر پھر بھی اصحاب رسول اللہ نے یہی فیصلہ کیا کہ جو کچھ ہوتا ہے ہوجائے ہم تو وہی بات کہیں گے جو اللہ نے فرمائی اور اللہ کے رسول نے سکھائی۔ چنانچہ جب یہ لوگ دربار میں گئے اور نجاشی نے عمرو بن العاص کا پیش کردہ سوال ان کے سامنے دہرایا تو جعفر بن ابی طالب نے اٹھ کر بلا تامل کہا کہ " ھو عبداللہ و رسولہ و روحہ وکلمتہ القاھا الی مریم العذراء البتول۔ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس کی طرف سے ایک روح اور ایک کلمہ ہیں جسے اللہ نے کنواری مریم پر القا کیا '' نجاشی نے سن کر ایک تنکا زمین سے اٹھایا اور کہا '' خدا کی قسم جو کچھ تم نے کہا ہے عیسیٰ اس سے تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں تھے ۔'' اس کے بعد نجاشی نے قریش کے بھیجے ہوئے تمام ہدیے یہ کہہ کر واپس کر دیے کہ میں رشوت نہیں لیتا اور مہاجرین سے کہا کہ تم بالکل اطمینان کے ساتھ رہو۔
-------------------------------------
(تفہیم القرآن ، جلد سوم ص 52، 53