لاہور کی قدیم مسجد دائی انگہ 1663ء



برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں نے بے شمار مساجد بنوائیں جس میں سے ایک دائی انگہ ہے جو لاہور ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر 1 کی دیوار کے ساتھ بنی ہوئی ہے۔

لاہور: (روزنامہ دنیا) یہ عالیشان مسجد شہنشاہ جہانگیر کے محل کی ایک خاتون دائی انگہ نے 1663ء میں تعمیر کروائی۔ اس خاتون کا اصل نام زیب النساء تھا۔ دائی انگہ نسلاً مغل تھیں، ہندوستان آنے سے پہلے شاہ طہماسپ کے دربار میں اس کی والدہ بھی ایک ممتاز عہدے پر فائز تھی۔ اس کا خاوند مراد خان، شہنشاہ جہانگیر کے عہد میں بیکانیر میں ایک عدالت کا افسر اعلیٰ تھا۔ اس دور میں دودھ پلانے والی عورت کو انگا کہا جاتا تھا، چنانچہ وہ بھی اسی نام سے مشہور ہوئی۔ دور شاہ جہانی میں اسے بہت عزت اور عروج حاصل تھا۔ مسجد کے ساتھ اس نے جائیداد بھی وقف کر رکھی تھی، تاکہ مسجد کی دیکھ بھال کا بہتر انتظام ہو۔ یہ مسجد مغلیہ دور اور اس کے بعد کے کچھ عرصہ تک بڑی مقبول اور بارونق رہی، مگر سکھوں کی حکومت کے دوران لاہور میں مسلمانوں کی شاہی عمارات کی جگہ کھنڈرات نظر آنے لگے۔ سکھوں نے بڑی بے دردی سے عمارتوں کا سنگ مرمر اور دیگر قیمتی پتھر و نادر اشیاء اتار لیں۔ مسلم یادگاریں، باغات، مساجد، مقبرے اور مزار سب اجڑ گئے ہر طرف ویرانی چھا گئی۔ ایسے میں یہ مسجد بھی کسمپرسی کی حالت میں رہی۔
مہاراجا رنجیت سنگھ کے زمانے میں یہاں بارود خانہ تھا۔ مسٹر ہنری کوپ، مہتمم لاہور نے حکومت برطانیہ سے اجازت لے کر اس کو کوٹھی بنا دیا جب سٹیشن بنا تو اس میں سٹیشن سپرنٹنڈنٹ کا دفتر قائم کیا گیا۔ منشی دین محمد فوق مرحوم نے نومبر 1901ء میں اپنے اخبار پنجہ فولاد میں اس کے خلاف آواز اٹھائی تو باقی مسلم پریس نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ اس طرح 1903ء میں لارڈ کرزن نے اس مسجد کو مسلمانوں کو واپس کر دیا۔ تین عالی شان محرابوں پر مشتمل یہ مسجد ٹائل ورک، اسلامی خطاطی اور گل بوٹوں سے مزین ہے۔ وسطی محراب کے اندرونی اور بیرونی جانب 23 مستطیل اور مربع حجم کے بیل بوٹے بالائی حصے میں کلمہ طیبہ اور دونوں جانب محرابوں میں اللہ کے پیارے نبی ﷺ کی مدح سرائی کی گئی ہے۔ مسجد کی اندرونی دیواروں پر ایک صدی قبل کانسی کے کام اور روغنی ٹائلوں کی گواہی تاریخ لاہور کے مصنف سید لطیف نے بھی دی ہے۔ شاہ جہاں کے عہد کی یہ یادگار مسجد اب کافی حد تک مکانوں میں گھر چکی ہے، تاہم اب بھی لاہور ریلوے سٹیشن سے صاف دکھائی دیتی ہے۔ مسجد کی عمارت بہت ہی خوبصورت ہے۔ اس پر بڑے عمدہ نقش و نگار ہیں۔ گلکاری اور پچی کاری کا بڑا نفیس کام دیکھنے کو ملتا ہے، بعض جگہ پتھر سے پتھر پر کام بھی نظر آتا ہے۔ اکثر جگہوں پر جہاں سے اصل پتھر کے نقش و نگار خراب ہو چکے ہیں، انہیں مختلف رنگوں سے قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

مسجد کے دروازوں پر قرآنی آیات اور درود شریف ﷺ تحریر کیا گیا ہے۔ اس کے تین محرابی دروازے سامنے اور دو پہلوؤں پر ہیں۔ مسجد کی بیرونی عمارت پر جیسا خوبصورت کام ہے، کبھی اس کے اندر بھی اتنا ہی پیارا کام تھا۔ اب اندرونی حصے میں سفید اور پیلے رنگ کی قلعی کی گئی ہے۔ مگر اب بھی کہیں کہیں نقش و نگار موجود ہیں۔ مسجد میں بہت سے قطعے لگائے گئے ہیں، جن پر نمازوں کے اوقات اور آیات قرآنی لکھی ہوئی ہیں۔ ایک دیوار پر اس مسجد کی ایک رنگین فریم شدہ بڑی خوبصورت تصویر بھی آویزاں ہے۔
نمازیوں کی سہولت کے لیے گرم پانی اور روم کولروں کا بھی اہتمام ہے۔ مسجد کے چار مینار تھے، مگر اب وہ چاروں مینار ختم ہو چکے ہیں، صرف اگلے میناروں کا پلیٹ فارم باقی ہے جس پر دو نئے مینار تعمیر کر دیے گئے ہیں۔ درمیانی گنبد کے دائیں اور بائیں دو چھوٹے چھوٹے مینار بھی بنائے گئے ہیں جو بہت بھلے معلوم ہوتے ہیں۔ بائیں جانب ایک حوض اور پرانا فوارہ مسجد کے حسن کو دوبالا کر رہے ہیں۔ مسجد میں ایک نہایت مختصر باغیچہ بھی ہے۔
(یہ تحریر روزنامہ دنیا میں شائع ہوئی)
- See more at: http://urdu.dunyanews.tv/index.php/ur/Pakistan/377035#sthash.qAuFCLTo.dpuf