تاریخِ اسلام کا زریں باب جب بغداد کی گلیوں میں سانس لیتا تھا، تو اُس کے علمی و فکری ارتقاء کی سب سے عظیم علامت "مدرسہ مستنصریہ" کی صورت میں ظاہر ہوا۔ عباسی خلیفہ المستنصر باللہ کے دور میں 625ھ / 1227ء میں اس عظیم علمی ادارے کی بنیاد رکھی گئی، جو 631ھ / 1234ء میں مکمل ہوا۔ اس کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ اسلامی دنیا کا وہ پہلا ادارہ تھا جہاں تمام سنی مکاتب فکر (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کی تعلیم ایک ہی جگہ پر دی جاتی تھی۔
![]() |
مدرسہ مستنصریہ |
اس مدرسہ نے نہ صرف فقہی علوم کو پروان چڑھایا بلکہ طب، فلسفہ، منطق، ریاضی، فلکیات، ادب، اور لغت جیسے علوم کی بھی سرپرستی کی۔ مستنصریہ میں ایک ایسا کتب خانہ قائم ہوا، جس کی بنیاد خلیفہ نے خود رکھی اور ابتدا میں 80 ہزار کتب فراہم کیں۔ بعد ازاں، یہ ذخیرہ چار لاکھ کتب تک جا پہنچا، جو اسلامی تہذیب کی علمی شان کا مظہر تھا۔
یہی وہ ادارہ تھا جس نے نظام الملک طوسی کے مدرسہ نظامیہ کو علمی اعتبار سے پیچھے چھوڑ دیا۔ 248 فقہاء اور 300 یتیم بچوں کی تعلیم و کفالت اس ادارے میں کی جاتی تھی۔ یہاں گھڑیال بھی نصب کیا گیا تھا جو صلوٰۃ کے اوقات اور دن و رات کے گھنٹے بتانے والا ایک حیرت انگیز آلہ تھا۔
سقوط بغداد اور مستنصریہ کی بقا
1258ء میں جب ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا اور عباسی خلافت کو نیست و نابود کر دیا، تو بیشتر تعلیمی و ثقافتی ادارے صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔ مگر مستنصریہ کا مدرسہ ایک معجزاتی انداز میں اس تباہی سے محفوظ رہا۔ گویا یہ عمارت علم کے تحفظ کی علامت بن کر کھڑی رہی۔ بعد ازاں 795ھ / 1393ء میں اس کا الحاق مدرسہ نظامیہ سے کر دیا گیا جس کے باعث اس کے نادر کتب کا ذخیرہ منتشر ہو گیا اور علم کا وہ سرمایہ جو صدیوں میں جمع ہوا تھا، رفتہ رفتہ گم ہو گیا۔
خلافتِ عثمانیہ کا رویّہ: عظمت کی بندش یا توسیع؟
جب 940ھ / 1534ء میں سلطان سلیمان اول کی سربراہی میں بغداد سلطنت عثمانیہ کا حصہ بنا، تو ظاہری طور پر ایک اسلامی خلافت کا تسلسل قائم رہا، لیکن افسوس کہ اس عظیم مدرسے کو بند کر دیا گیا۔ کتب خانہ کا تمام ذخیرہ استنبول منتقل کر دیا گیا اور یہ علمی چراغ جس نے بغداد کو روشن رکھا تھا، گل کر دیا گیا۔
یہ وہ لمحہ تھا جب خلافتِ عثمانیہ نے بجائے اس کے کہ علم کے اس مرکز کو مزید وسعت دیتی، اسے عملاً ختم کر کے مرکزِ خلافت (استنبول) کے لیے نایاب کتب کو منتقل کرنا ہی کافی سمجھا۔ اگرچہ ان کتب کی حفاظت ایک مثبت عمل تھا، لیکن ایک علمی مرکز کو غیر فعال کر دینا — ایک تہذیبی جرم کے مترادف تھا۔ سلطنت عثمانیہ، جو اپنے آپ کو اسلامی وحدت کا نمائندہ سمجھتی تھی، اس باب میں وحدتِ علم کی قاتل بن گئی۔
موجودہ دور میں مستنصریہ
وقت نے کروٹ لی اور 1927ء میں اس مدرسہ کو دوبارہ جدید خطوط پر استوار کیا گیا۔ 1963ء میں اسے جامعۃ المستنصریہ کا حصہ بنایا گیا جو آج بھی قائم ہے۔ اگرچہ جدید عمارتیں اور جامعات علم کا کام سرانجام دے رہی ہیں، مگر مستنصریہ کی اصل علمی، روحانی اور تہذیبی شان ابھی تک مکمل طور پر بحال نہیں کی جا سکی۔
مدرسہ مستنصریہ صرف ایک عمارت نہیں، بلکہ اسلامی تہذیب کی علمی روایت کا نشان ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں علم، وحدت اور خدمت یکجا ہو گئے تھے۔ آج جب مسلم دنیا علم و دانش کی نئی تلاش میں ہے، تو مستنصریہ جیسے ادارے ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم نے ایک زمانے میں وقت کو بھی قابو میں کر رکھا تھا — گھڑیالوں سے لے کر علوم کے خزانے تک۔