پاکستانی نوجوان انٹرنیٹ پر پیسے کیسے کما سکتے ہیں؟

 فری لانسنگ کیا ہے؟

ٹیکنالوجی کی زبان میں فری لانسنگ سے مراد انٹرنیٹ پر کسی بھی ملک میں موجود ایک فرد یا کمپنی کے لیے کام کے عوض پیسے وصول کرنا ہے۔

پاکستان میں لوگ انٹرنیٹ کے ذریعے پیسے کئی طریقوں سے کما سکتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک طریقہ ای کامرس یعنی آن لائن کاروبار ہے جبکہ دوسرا طریقہ کونٹینٹ یعنی ایسا مواد لکھنا، تصاویر یا ویڈیوز بنانا جو لوگوں میں مقبولیت حاصل کر سکے۔

اسی طرح فری لانسنگ ایک تیسرا ذریعہ ہے جو پاکستان کے نوجوانوں میں تیزی سے پذیرائی حاصل کر رہا ہے۔ ایمن کے مطابق: ’ایک اچھا انٹرنیٹ اور لیپ ٹام موجود ہو تو آپ کہیں سے بھی فری لانسنگ کر سکتے ہیں۔‘

آمنہ کمال پاکستان کے فری لانسنرز کی ترتیب کرنے والے ایک حکومتی ادارے ڈیجی سکلز سے منسلک ہیں۔ وہاں وہ ہر عمر کے لوگوں کو اس حوالے سے تربیت دیتی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ: ’ایک زمانے میں کام کرنے کا طریقہ مختلف ہوتا تھا۔ پہلے پڑھائی کے بعد لوگ نوکریاں تلاش کرتے تھے۔

’اب یہ بدلتا جا رہا ہے اور لوگوں کو جسمانی طور پر کسی دفتر میں موجود ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ ورچوئلی (یعنی عدم موجودگی میں کمپیوٹر کے ذریعے) کام کر سکتے ہیں۔

پاکستان میں فری لانسنگ کی مارکیٹ کتنی بڑی ہے؟

2018 کی ایک رپورٹ میں ورلڈ بینک اور فری لانسنگ کی ویب سائٹس کے ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان میں 60 ہزار سے زیادہ فری لانسرز موجود ہیں۔ تاہم یہ محظ ایک محتاط اندازا ہے۔

اس کے بعد 2019 کی ایک رپورٹ میں پاکستان کی فری لانسنگ مارکیٹ کا جائزہ لیا گیا تھا۔ ’دی گلوبل گِگ اکنامی انڈیکس‘ کے نتائج کے مطابق پاکستان میں فری لانسنگ کی آمدنی میں 2018 کے مقابلے 42 فیصد اضافہ دیکھا گیا تھا۔

اس صنعت میں نمایاں ترقی کی بدولت دنیا کے 10 بڑے ممالک میں پاکستان چوتھے نمبر پر آیا تھا۔ اس فہرست میں امریکہ پہلے نمبر پر تھا جبکہ انڈیا ساتویں اور بنگلہ دیش آٹھویں نمبر پر تھا۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں فری لانسنرز میں اضافے کی وجہ نوجوانوں کی بڑی تعداد ہے۔

’پاکستان میں 70 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر کی ہے۔ تکنیکی اعتبار سے تعلیم کے فروغ نے پاکستان کے نوجوانوں کو گِگ اکانمی میں حصہ لینے میں مدد کی ہے۔‘

آن لائن ادائیگیوں کی سروس پیونیئر سے منسلک محسن مظفر کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ کی رسائی اور فور جی کی مدد سے اب پاکستانی فری لانسرز دنیا بھر سے کام حاصل کر سکتے ہیں جس کی مثال پہلے نہیں ملتی۔

فری لانسنگ کی اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 57 فیصد سے زیادہ فری لانسرز 25 سے 34 سال کے ہیں۔

ورلڈ بینک کی دسمبر 2018 کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ، انڈیا، بنگلہ دیش، اور فلپائن کے ساتھ ساتھ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں فری لانسنگ کے ذریعے کام کرنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔

فری لانسنگ میں کیا کیا کام کیا جا سکتا ہے؟

ویسے تو فری لانسنگ میں آپ ہر ممکن (اور جائز) کام کر سکتے ہیں۔ تاہم اس شعبے میں تجربہ رکھنے والی ایمن بتاتی ہیں کہ ’فری لانسنگ میں آپ ڈیٹا انٹری کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ لکھنے میں اچھے ہیں تو کسی کی ویب سائٹ، بلاگ یا فیشن پر تحریر لکھ سکتے ہیں۔

’سپریڈ شیٹس، ایم ایس ورڈ یا آفس سے متعلق کوئی کام، بنیادی گرافک ڈیزائنگ یا سوشل میڈیا پوسٹ بنانے کا کام اس وقت فری لانسنگ میں کافی چل رہا ہے۔‘

ایمن کے مطابق اس وقت فری لانسنگ کی ڈیمانڈ جن شعبوں میں ہیں ان میں ڈیجیٹل مارکیٹنگ بھی ہے۔ ’اس میں سوشل میڈیا مارکیٹنگ اور ایفلیٹ مارکیٹنگ آ جاتی ہیں۔ ’

وہ بتاتی ہیں سافٹ ویئر اور ایپ بنانے کے کام کی پاکستان سمیت دنیا بھر میں کافی طلب ہے اور اسے پورا کرنے کے لیے نوجوان اس قسم کے ہنر سیکھ سکتے ہیں تاکہ مستقبل میں نوکریاں تلاش کرنے کے بجائے ان کے پاس ایک تبادل ذریعہ آمدن موجود ہو۔

فری لانسرز کس طرح پیسے کماتے ہیں؟

ڈیجی سکلز کی ٹرینر آمنہ کمال نے بی بی سی کو بتایا کہ: ’کمپیوٹرز کی مدد سے لوگ ایسی صلاحیتیں سیکھ سکتے ہیں جن کی بدولت اب یہ ضروری نہیں کہ وہ کسی ایک کمپنی یا ملک میں کام کریں۔‘

’ان چند سکلز (صلاحیتوں) میں گرافک ڈیزائن، ویب سائٹ بنانا، ایس ای او (سرچ انجن اوپٹیمائزیشن)، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، سوشل میڈیا، ای کامرس اور تصانیف لکھنا شامل ہے۔‘

فری لانسر ایمن سروش بتاتی ہیں کہ اس نوعیت کے بنیادی ہنر سیکھ کر انٹرنیٹ کے ذریعے پیسے کمائے جا سکتے ہیں کیونکہ ’فری لانسنگ کے لیے کچھ ایسی ویب سائٹس موجود ہیں جہاں آپ اپنا اکاؤنٹ بنا کر کام ڈھونڈ سکتے ہیں۔‘

پاکستان میں اکثر فری لانسرز فائیور ( Fiverr) اور اپ ورک ( Upwork) سمیت ایسی کئی ویب سائٹس پر کام تلاش کرتے ہیں۔ یہاں اپنی پروفائل بنانے کے بعد لوگوں کی جانب سے فراہم کردہ ضروریات پر پورا اترنا ہوتا ہے۔

کام مکمل ہونے پر یہ ویب سائٹس کام دینے والے سے پیسے وصول کرتی ہے، اپنی کٹوتی کرتی ہے اور کام کرنے والے کو پیسے ادا کر دیتی ہے۔ لیکن بعض لوگ اعتماد بحال ہونے پر تیسرے فریق کو شامل نہ کرتے ہوئے باہمی سطح پر لین دین کر لیتے ہیں۔

فری لانسنگ میں کتنے پیسے کمائے جا سکتے ہیں؟

لوگ فری لانسنگ میں کتنے پیسے کما سکتے ہیں، اس حوالے سے ایمن نے بتایا کہ اس کا انحصار ایک شخص کی صلاحیت، ہنر مندی، کام کی نوعیت اور وقت کے دورانیے پر ہوتا ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ: ’جب کام کے عوض پیسے ڈالرز میں ملتے ہیں تو اس کی قدر کافی زیادہ ہوتی ہے۔‘

اس بات سے آمنہ کمال بھی اتفاق کرتی ہیں۔ ’فری لانسنگ کا ایک فائدہ یہ ہے کہ آپ روپے میں نہیں بلکہ ڈالر میں پیسے کماتے ہیں۔۔۔ جب لوگ باہر سے پیسے کماتے ہیں تو اس سے انفرادی اور ملکی فائدہ ہوتا ہے۔'

آمنہ نے بتایا کہ ملک میں نوکریوں کی کمی ہے اور انٹرنیٹ پر فری لانسنگ کے ذریعے پیسے کمانے کا طریقہ ایک متبادل کے طور پر نوجوانوں کے لیے موجود ہے۔ انھوں نے اس پہلو کی طرف بھی روشنی ڈالی کی بعض لوگوں نے فری لانسنگ کی مدد سے اپنی خود کی کمپنیاں قائم کر لی ہیں۔

ایمن کے مطابق ’مختلف ویب سائٹس پر ایک کام کے لیے چند ڈالرز سے ریٹ بڑھتا بڑھتا ہزاروں ڈالرز تک بھی جا سکتا ہے۔’

لیکن کیا انٹرنیٹ پر پیسے کمانا اتنا ہی آسان ہے؟

پاکستان سمیت کئی ممالک میں لوگ اپنی صلاحیتیں استعمال کر کے انٹرنیٹ پر پیسے کمانا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ بہت مشکل ہے کہ کوئی شخص فوراً اس میں کامیاب ہوجائے۔

تاہم آمنہ پرامید ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ: ’ہمارے کام کرنے کی صلاحیت ایک وسیلہ ہے۔ پاکستان میں ایسے باصلاحیت لوگ موجود ہیں جو یہاں بیٹھے بیٹھے اپنے ہنر اور کام سے باہر کی دنیا سے پیسے کما سکتے ہیں۔‘

آمنہ کے مطابق پاکستانی لوگ اپنے ملک کے علاوہ پوری دنیا کے فری لانسرز سے مقابلہ کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ وقت پر معیاری کام کریں تاکہ اپنی اچھی پروفائل بنا سکیں۔

’اچھے فری لانسر کے اندر صلاحیتیں ہونے کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ وہ سب سے منفرد کام پیش کریں اور وقت کی پابندی کریں۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ انٹرنیٹ پر ان کی پروفائل مضبوط ہو جائے گی اور مختلف کلائنٹس ان سے بار بار کام لیں گی جو کہ پیسے کمانے کا ایک مستقل ذریعہ بن جائے گا۔‘

دوسری طرف فری لانسرز کے مطابق پاکستان میں بیرون ممالک سے پیسوں کی ادائیگی کے بھی کچھ موجود مسائل ہیں کیونکہ پے پال کی سروس ملک میں تاحال متعارف نہیں کرائی گئی۔

تاہم فری لانسرز پیسے وصول کرنے کے لیے اس کے متبادل طریقے استعمال کر رہے ہیں۔

ایمن سروش نے بتایا کہ: ’اس وقت سب سے اہم مسئلہ ادائیگیوں کا ہے جن کا سامنا پاکستان میں فری لانسر کر رہے ہیں۔ اس کمی کو دور کرنے کے لیے ہمارے پاس کچھ متبادل بھی ہیں جن کے ذریعے آپ اپنی ادائیگیاں وصول کرسکتے ہیں۔‘

ملین ڈالر سوال: پاکستانی صارفین انٹرنیٹ پر پیسے کیسے کما سکتے ہیں؟

پاکستانی انٹرنیٹ صارفین اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ آن لائن پیسے کیسے کمائے جا سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب اتنا آسان نہیں اور اسے سمجھنے کے لیے ہمیں پہلے یہ سمجھنا پڑے گا کہ انٹرنیٹ کام کیسے کرتا ہے اور اس پر کمائی کے بنیادی ذرائع کیا ہیں؟

اس ساری گتھی کو سلجھانے کے لیے ہم نے دو اقساط پر مشتمل مضامین تیار کیے ہیں جن میں ہم نے انٹرنیٹ پر کمائی کے دو بنیادی ذرائع پر ماہرین اور صارفین دونوں سے بات کی ہے اور اپنے قارئین کے سامنے ایسی صورتحال رکھی ہے جس کے بعد ان کو آگاہی حاصل ہو کہ انٹرنیٹ پر کمائی کس طرح کی جا سکتی ہے۔

انٹرنیٹ پر کمائی کے دو بنیادی ذرائع ہیں

پہلا کونٹینٹ کے ذریعے کمائی ہے۔ کونٹینٹ سے مراد ایسا ملٹی میڈیا مواد ہے جسے دیکھنے، پڑھنے یا سننے کے لیے لوگ کسی پلیٹ فارم پر آئیں جو اس کے بدلے میں کونٹینٹ بنانے والے کو پیسے ادا کرے۔ یہ کونٹینٹ ویڈیو، تصاویر، آڈیو، بلاگنگ یا وی لاگنگ جیسا کوئی بھی تخلیقی کام ہوسکتا ہے جس کی مارکیٹ میں مانگ ہو۔

دوسرا کمائی کا ذریعہ ای کامرس یا انٹرنیٹ کے ذریعے خرید و فروخت ہے۔ جہاں پر آپ کو بغیر کسی دکان، فیکٹری یا اس قسم کے کاروباری ڈھانچہ بنائے بغیر آن لائن اشیاء کی خرید و فروخت کا موقع ملتا ہے۔

جس میں روایتی کاروبار کی طرح آپ چیزیں فروخت کے لیے آن لائن رکھتے ہیں، جنھیں طلب رکھنے والے صارفین خریدتے ہیں اور آپ کو کارڈ یا کیش آن ڈلیوری کے ذریعے اس کی قیمت ادا کرتے ہیں۔

اس مضمون میں ہم کونٹینٹ کے ذریعے کمائی کے آپشن پر بات کریں گے اور اسے سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ ایک تخلیق کار کیسے آن لائن پیسے کما سکتا ہے۔

ڈیجیٹل آبادی کتنی ہے؟

ڈیجیٹل سٹریٹجسٹ بدر خوشنود کہتے ہیں ’پاکستان میں اس وقت چھ کروڑ انٹرنیٹ صارفین ہیں‘ جو چند مہینے پہلے کا سرکاری ڈیٹا ہے۔ ’اس میں سے تقریبا ساڑھے تین، پونے چار کروڑ لوگ اس وقت صرف فیس بک پر ہیں۔ جن میں سے پچاس فیصد جنریشن زیڈ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سنہ 1990 کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔‘

اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ صرف پاکستان کے اندر آپ کی مارکیٹ کتنی بڑی ہے۔ اس میں آپ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اردو زبان سمجھنے والے پاکستانیوں کو شامل کرلیں تو مارکیٹ بہت بڑی ہو جاتی ہے۔

کونٹینٹ کے ذریعے کمائی

بدر خوشنود کہتے ہیں ’ایڈور ٹائزر ان کو پیسے دیتے ہیں جن کے پاس ٹریفک ہوتی ہے۔ اب اگر آپ اس چیز کو سمجھ جائے کہ لوگ کس چیز کو پسند کر رہے ہیں۔‘

اس کے مطلب ہے کہ ہمیں انٹرنیٹ پر موجود صارفین کی ضررورت اور طلب کو جاننے کی ضرورت ہے کہ وہ کس قسم کا مواد پڑھنا، سننا، دیکھنا یا خریدنا چاہتے ہیں۔

مگر وہ مواد یا کونٹینٹ کیا ہے؟

یہ جاننے کے لیے ہم نے رخ کیا ضلع سیالکوٹ کے چھوٹے سے گاؤں کنگڑا کا جہاں ہم یوٹیوب پر دیہی زندگی کے بارے میں چینل چلانے والے وی لاگر مبشر صدیق سے ملنے کے لیے گئے۔

مبشر صدیق کے چینل کا نام ’ولیج فوڈ سیکریٹ‘ ہے اور ان کے نو لاکھ سے زیادہ سبسکرائبرز ہیں۔ ان کے چینل پر بڑی تعداد میں لوگ ان کی ویڈیوز دیکھنے کے لیے آتے ہیں جن میں پنجاب کی سادہ دیہی زندگی کو دکھایا گیا ہے۔ ان کی سب سے مقبول ویڈیو کو پچپن لاکھ سے زیادہ مرتبہ دیکھا جاچکا ہے۔

مبشر بہت سادہ انسان ہیں اور شاید ان کی یہی سادگی ان کے دیکھنے والوں کو پسند آتی ہے۔

جب ہم نے ان سے اس چینل کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بڑی سادگی سے کہا ’یوٹیوب پر کھانا پکانے کا میرا چینل ہے۔ میری تعلیم جو ہے وہ میٹرک ہے، اور وہ بھی میں نے تھرڈ ڈویژن میں کی ہوئی ہے۔ اور میں ڈسٹرکٹ سیالکوٹ کے بالکل ایک چھوٹے سے گاؤں کا رہنے والا ہوں۔‘

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ مبشر جس گاؤں میں رہتے ہیں وہاں انٹرنیٹ بھی باقاعدگی سے دستیاب نہیں اور انھیں اپنی ویڈیوز گاؤں سے ایک اور جگہ جا کر آپ لوڈ کرنی پڑتی ہیں۔

تو جیسا کہ مبشر صدیق نے دیہی زندگی کو اپنی بنیادی پیشکش کے طور پر اپنایا ویسے ہی آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ آپ دکھانا کیا چاہتے ہیں۔ کیا آپ معاشیات کے اوپر لکھنا چاہتے ہیں یا سیر و سیاحت پر وی لاگنگ کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کو یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آپ کس پلیٹ فارم کے لیے کیا کام کرنا چاہتے ہیں۔

یو ٹیوب پر بڑی تعداد میں لوگ ویڈیو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ اور چونکہ وہ ویڈیو دیکھنے کے لیے آتے ہیں اس لیے درمیانے سے طویل دورانیے کی ویڈیوز یوٹیوب پر بہتر کام کرتی ہیں۔

یہی بات اگر فیس بک کے بارے میں کی جائے تو وہاں مختصر دورانیے کی ویڈیوز زیادہ بہتر کارکردگی دکھاتی ہیں۔ فیس بک پر ایڈ بریکس فی الحال پاکستان کے اندر دستیاب نہیں۔

فیس بک پر مالی فائدہ حاصل کرنے کے لیے آپ کو دو مہینے کے اندر کم از کم تین منٹ کی ویڈیوز پر 30ہزار ویوز حاصل کرنا ہوگی اور آپ کے پیج کے کم از کم 10 ہزار فالورز ہوں۔

اس حوالے سے فیس بک کا ایک بہت مشہور پیج ناس ڈیلی تھا جس کے کروڑوں فینز تھے اور ان کی ایک منٹ کی ویڈیوز کو کروڑوں کے حساب سے لوگوں نے دیکھا ہے۔

پلیٹ فارمز جو پیسے دیتے ہیں؟

آن لائن کونٹینٹ کے ذریعے پیسے کمانے کے لیے تین بڑے پلیٹ فارمز ہیں۔ یوٹیوب، فیس بک اور ورڈ پریس یا بلاگنگ۔

گوگل اس لحاظ سے مارکیٹ میں سب سے نمایاں ہیں کیونکہ اس کے دو بڑے پلیٹ فارمز کے ذریعے کمائی کی جا رہی ہے۔ ایک یوٹیوب جسے دنیا کا سب سے بڑا ویڈیو سرچ انجن کہا جاتا ہے۔ دوسرا گوگل ایڈز جنھیں مختلف بلاگز پر لگا کر اشتہارات کی مد میں کمائی کی جاسکتی ہے۔

یوٹیوب پر بنیادی طور پر ویڈیوز شائع کی جاتی ہیں جنھیں دیکھنے کے لیے ایک بہت بڑی تعداد میں لوگ یوٹیوب پر موجود ہیں۔ بلاگ پر تحریر یا تصویر کی شکل میں مختلف معلومات شائع کی جاتی ہیں جن کے ساتھ گوگل یا دوسرے اشتہارات لگتے ہیں جن کے ذریعے پیسے کمائے جاتے ہیں۔

یہ نظام کام کیسے کرتا ہے؟

اگر آپ ایسا مواد بنانا شروع کریں جس پر ٹریفک آتی ہے تو ٹریفک ملے گی تو ایڈورٹائزر خود چل کر آپ کے پاس آئے گا۔ یہ ایڈورٹائزر گوگل یا فیس بک آپ کے پاس لے کر آئے گا۔

بدر خوشنود کہتے ہیں کہ ’یہ ایک پورا نظام بن جاتا ہے۔ کیونکہ ایڈورٹائزر کو قارئین چاہیے۔ قارئین کو اچھا مواد چاہیے۔‘

اس کا مرحلہ وار طریقہ بدر خوشنود کی زبانی کچھ یوں ہے۔

آپ کو اپنے مواد کے لیے پلیٹ فارم چاہیے ہوگا۔ وہ یوٹیوب چینل ہو سکتا ہے، فیس بک پیج ہو سکتا ہے۔ ویڈیو، آڈیو یا تصویری بلاگ ہوسکتا ہے یا سادہ تحریروں پر مشتمل بلاگ ہوسکتا ہے۔ تو سب سے پہلے آپ کو اپنے مواد کی اشاعت کے لیے ایک ڈیجیٹل اثاثہ بنانا پڑے گا۔ اگر ویب سائٹ ہے تو اس کے لیے ڈومین کے ساتھ آپ کو ہوسٹنگ خریدنی پڑے گی جس پر آپ کے ویب سائٹ قائم ہو گی۔

ویب سائٹ کی صورت میں اس کے بعد آپ کو ایک پروگرام اپلائی کرنا پڑے گا جو گوگل کا ایک پروگرام ہے، گوگل ایڈ سینس۔ مختصراً یہ کہ آپ نے ایڈ سینس اپلائی کرنا ہے۔

جب آپ اپنے پلیٹ فارم پر مواد ڈالنا شروع کریں گے تو ایک خاص وقت کے بعد آپ کی ویب سائٹ پر ایک خاص حد تک جب کچھ سو یا کچھ ہزار لوگ آنا شروع ہو جائیں گے۔ تو آپ گوگل ڈاٹ کام کے ایڈسینس پر جا کر اپلائی کر سکتے ہیں۔ اور یوں آپ کو اپنی ٹریفک کے مطابق آپ کو معاوضہ ملنا شروع ہو جائے گا۔

یوٹیوب پر ایڈورٹائزر پیسے دیتے ہیں، جن میں وہ ویڈیوز پر اشتہارات دیتے ہیں۔ اور 45 فیصد یوٹیوب والے رکھتے ہیں، اور 55 فیصد ویڈیو بنانے والے کو دیتے ہیں۔

لوگ کیا دیکھنا چاہتے ہیں؟

یہ سوال ہم نے بدر خوشنود سے پوچھا جنھوں نے فوراً ہی کہا ’ملین ڈالر سوال ہے یہ ویسے۔‘

بدر نے مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’اس کا سب سے آسان اور سائنٹیفک طریقہ یہ ہے کہ گوگل کے کچھ مفت اور تھرڈ پارٹی ٹولز ہیں جو آپ استعمال کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر گوگل ٹرینڈز ایک ٹول ہے۔ وہاں جا کر آپ دیکھ سکتے ہیں کہ لوگ دنیا میں کیا چیز مانگ رہے ہیں، کیا چیز ڈھونڈ رہے ہیں۔‘

لیکن یہ سب تحقیق بدر کی مطابق ’آپ کو چھ مہینے پہلے کرنی ہو گی۔ اور اس کے مطابق مواد ابھی سے بنانا ہے تا کہ آپ سرچ انجنز کی درجہ بندی میں آ جائیں۔ جب رزلٹ پیجز میں آئیں گے تو آپ کے پاس خود بخود ٹریفک آئے گی۔‘

بدر نے تاکید سے کہا کہ ’مواد کیا بنانا ہے یا کیا نہیں یہ سب سائنٹیفک بنیاد پر ہونا چاہیے نہ کہ مفروضوں یا ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر۔ سائنٹیفک ڈیٹا ہے جو آپ کو بتائے گا کہ لوگ کیا پڑھ رہے ہیں اور سرچ کر رہے ہیں۔ اس کے مطابق اگر آپ مواد بنائیں گے تو آپ کی کامیابی کا راستہ کم ہو جاتا ہے۔‘

کتنے پیسے ملتے ہیں؟

اس کا اندازہ پیش کرتے ہوئے بدر نے بتایا کہ ’دس لاکھ ویوز پر آپ سو ڈالرز سے لے کر ہزار ڈالرز تک کما سکتے ہیں۔‘ اور یہ کمائی ایک بار نہیں ہوتی کیونکہ لوگ سالوں تک ان ویڈیوز کو دیکھتے رہتے ہیں۔

جب ہم نے یہی سوال مبشر صدیق سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ ’الحمد اللہ میری جو ماہانہ کمائی ہے، ہر مہینے اوسطاً تین لاکھ ہے۔ تین لاکھ سے کبھی پچیس ہزار اوپر ہو جاتی ہے، کبھی پچیس ہزار نیچے ہو جاتی ہے۔‘

ٹاپ ٹپس

ہم نے بدر خوشنود اور مبشر صدیق دونوں سے پوچھا کہ وہ ہمارے قارئین کو بہترین ٹپس کیا دیں گے تو ان کی ٹپس کچھ ہوں ہیں۔

بدر خوشنود

ڈیجیٹل تعلیم کے لیے ’یوٹیوب ایک بہت بڑا وسیلہ ہے۔ مفت مواد ہے، بہت سارا مواد ہے۔ ہم نے ان معلومات کو علم اور علم کو حکمت میں بدلنا ہے۔ مگر ہم نے یہ خود کرنا ہے۔ اس لیے وقت ضائع کرنے کی بجائے اگر ہم معلومات کو علم اور علم کو حکمت میں تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے۔ تو میرے خیال میں ہم نا صرف خود سیکھ سکتے ہیں۔ بلکہ آنے والی نئی نسل کو بہت کچھ سکھا سکتے ہیں۔‘

مبشر صدیق

مبشر کہتے ہیں کہ ’شروع کے چھ مہینے میں ویڈیوز کے بالکل بھی ویوز نہیں ہوتے تھے۔ دن میں دو، چار، دس ویوز۔ صرف بیس پچیس ویوز تک جا کر ویڈیوز رک جاتی تھی۔ لیکن جیسے ہی دو چار ویڈیوز وائرل ہوئیں، الحمداللہ ساری ویڈیوز کے ویوز آنا شروع ہوگئے۔‘


اور سیکھنے کے اہمیت کی بارے میں کہتے ہیں ’جب تک زندگی ہے آپ کی، تب تک آپ سیکھتے ہیں۔ سیکھنا نا چھوڑیں، غلطیوں سے سیکھیں۔ آنے والی ہر ویڈیو کو، آنے والے ہر دن کو پہلے دن سے بہتر بناتے جائیں۔ تو انشااللہ آپ کامیاب ہو جائیں گے۔‘

ای کامرس: آپ انٹرنیٹ پر اپنا کاروبار کیسے کر سکتے ہیں؟

پیسے وصول کرنے کے بھی کئی طریقے ہیں۔ یہ کارڈ کے ذریعے بھی ممکن ہے اور موبائل بینکنگ کا استعمال بھی ہو سکتا ہے اور اگر یہ سب نہیں تو کیش آن ڈیلیوری یعنی ڈیلیوری کے وقت قیمت وصول کرنے کا آپشن تو کہیں نہیں گیا۔

یہ کیسے ممکن ہے؟

اس سوال کا جواب مشکل نہیں اور اسے سمجھنے کے لیے ہمیں کاروبار کے اس جدید طریقے کو سمجھنا ہو گا۔

سکوپ کیا ہے؟

ڈیجیٹل سٹریٹجسٹ اور پاکستان میں گوگل کے سابق نمائندے بدر خوشنود کہتے ہیں کہ 'ایک چھوٹا کاروبار، ون مین شو، اگر اچھے طریقے سے منصوبہ بندی کرے تو کم از کم مہینے میں لاکھ، دو لاکھ یا اس سے زائد قیمت کی مصنوعات آن لائن فروخت کر سکتا ہے۔'

یہ تو بات تھی ماہر کی مگر ہم نے ملاقات کی اسلام آباد میں لویزا بشارت سے جنہوں نے چار سال کی ڈگری کرنے کے بعد حسب معمول ایک دفتر میں ملازمت شروع کی مگر جلد ہی ان کو احساس ہوا کہ یہ کام ان کے بس کا نہیں اور ان کی قسمت میں اپنا کام کرنا لکھاہے۔

لویزا کہتی ہیں کہ ’مجھے اس کا نتیجہ جو ملا ہے وہ نسبتاً میرے پرانے کام سے زیادہ بہتر تھا۔ اس طرح سے کہ کم وقت میں مجھے اس سے زیادہ منافع ہوا ہے۔'

دوسرے لفظوں میں صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک کی نوکری سے بہتر پیسہ وہ اپنے آن لائن کاروبار کے ذریعے کما رہی ہیں جس میں وہ اپنی مرضی اور خوشی سے بغیر کسی دباؤ کے وقت صرف کرتی ہیں۔

اگر آپ ایک سال قبل سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں کم از کم چھ سو سے سات سو ملین ڈالرز کی آن لائن ٹرانزیکشن ہوئی ہیں۔

بدر خوشنود کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال 'انڈسٹری کا جو تخمینہ ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس سال ایک ارب ڈالر کی سیل سے زیادہ کر جائیں گے۔'

کامیاب آن لائن بزنس کیسے چلا سکتے ہیں؟

آپ جب کوئی بھی دکان یا کاروبار کھولتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو لوگوں کو بتانا پڑتا ہے کہ آپ کا یہ کاروبار فلاں جگہ پر کھلا ہے اور اس میں کیا کیا دستیاب ہے۔

اس مقصد کے لیے آپ سڑکوں پر اشتہارات لگواتے ہیں گھروں میں پمفلٹس تقسیم کرواتے ہیں یا اگر آپ کے پاس زیادہ پیسہ ہے تو ٹی وی یا ریڈیو پر اشتہارات بھی چلوا دیتے ہیں۔

بالکل اسی طرح آن لائن ای کامرس کی ویب سائیٹ کھول کر آپ دنیا بھر کے لوگوں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ سب سے پہلے آپ ایک ڈومین خریدتے ہیں جو کہ آپ کی ویب سائٹ ہے۔ اگر آپ یہ سب نہیں کرنا چاہتے تو سادہ سا حل یہ ہے کہ آپ فیس بک پر اپنا پیج بنائیں اور اس کے ذریعے فیس بک پر موجود صارفین تک رسائی حاصل کریں۔ فیس بک آن لائن کاروبار کرنے والوں کے لیے پہلے سے تیار شدہ پیجز کی سہولت فراہم کرتا ہے۔

فیس بک پر اپنا ای کامرس کا کاروبار شروع کرنے کا مطلب ہے کہ آپ ایک مشہور شاپنگ سینٹر میں اپنی دکان کھول رہے ہیں جہاں پر ایک بڑی تعداد میں لوگ موجود ہیں یا آتے جاتے ہیں اور آتے جاتے وہ آپ کے کاروبار کو بھی دیکھ سکتے ہیں جسے فیس بک کی زبان میں امپریشن کہتے ہیں۔

آپ نے اپنی ویب سائٹ یا سوشل میڈیا پیج بنا لیا اب اگلا مرحلہ ہے اس پر آپ کیا مصنوعات پیش کریں گے۔ آپ لویزا بشارت کی طرح صابن کی فروخت کرنا چاہتے ہیں یا کپڑے بیچنا چاہتے ہیں یا آپ کے خیال میں آپ کے پاس بہت ہی منفرد چیز ہے جو آپ تیار کرکے بیچ سکتے ہیں۔

فروخت کے بعد وصولی کے ممکنہ طریقے

اس مقصد کے لیے آن لائن بہت سارے بنے بنائے پلیٹ فارمز موجود ہیں بس آپ کو ماہانہ فیس ادا کرنی ہو گی۔ ایس کرنے سے نہ صرف اشیاء کی نمائش بہتر کرنے میں مدد ملتی ہے بلکہ پیسوں کی وصولی کا بھی ایک بنا بنایا نظام ملتا ہے۔

ان مشہور پلیٹ فارمز میں شاپیفائی اور وو کامرس بہت مشہور ہیں۔ مگراس کے علاوہ بہت سارے دوسرے پلیٹ فارمز بھی دستیاب ہیں جن کو استعمال کر کے آپ باآسانی اپنی اشیاء کو آن لائن فروخت کر سکتے ہیں۔

اور اگر یہ نہیں تو فیس بک تو بہرحال موجود ہے ہی جس نے یہ کام بہت آسان کر دیا ہے۔ یہ نا صرف آپ کو پیسوں کی لین دین کا نظام فراہم کرتا ہے بلکہ آپ کی مصنوعات کی بہتر انوینٹری یعنی کے ان کی مقدار اور تعداد کے بارے میں بھی آپ کو مدد فراہم کرتا ہے۔ یعنی یہ آپ کے ساتھ دوکان پر موجود مددگار کے طور پر کام سرانجام دیتا ہے۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ ویب سائٹ اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق بنوائی اس کے بعد اس میں آن لائن پیمنٹ کا نظام بھی بنوائیں۔

پیسے کیسے آئیں گے؟

یہ سب سے اہم سوال ہے کیونکہ آپ یہ سارا کام پیسے کمانے کے لئے ہی تو کر رہے ہیں۔

پیسے وصول کرنے کا سب سے آسان طریقہ کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے یعنی آن لائن پیمنٹ ہے تاہم مسئلہ یہ ہے کہ کہ بہت بڑی تعداد میں لوگوں کے پاس ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ نہیں۔

آپ گاہکوں سے پیسے اپنے اکاؤنٹ میں بھی وصول کرسکتے ہیں جس کے لیے انہیں آن لائن بینکنگ یا اے ٹی ایم سے رقم آپ کے اکاؤنٹ میں منتقل کرنا ہوگی۔

ایک اور طریقہ موبائل کے ذریعے رقم کی وصولی کا ہے۔ موبائل کمپنیاں اپنے کریڈٹ کے نظام کے ذریعے پیسوں کے لین دین کا نظام چلا رہی ہیں جیسا کہ پاکستان میں ٹیلی نار کا نظام 'ایزی پیسہ' ہے یا جیز کا نظام 'جیز کیش' ہے۔

کیش آن ڈیلیوری

دنیا بھر میں بہت سارے لوگ آن لائن شاپنگ کرنے سے کتراتے ہیں۔ جو چیز وہ آرڈر کرنا چاہتے ہیں وہ اس شکل اور رنگ یا کوالٹی میں نہیں ڈلیور کی جاتی جیسی ویب سائٹ پر موجود تصویر میں نظر آتی ہے۔ اور پاکستان میں جہاں ڈیجیٹل لٹریسی بہت کم ہے ایسی لوٹ مار کے واقعات بہت زیادہ ہیں اور ان کی دادرسی کا کوئی مناسب اور موثر نظام موجود نہیں۔

آپ نے پیسے ادا کر دیے تو وہ واپس مشکل سے ہی ملیں گے۔

پاکستان میں کیش آن ڈلیوری کا نظام بہت مقبول ہے۔ جس میں آپ اپنے گاہکوں سے آرڈر وصول کریں ان کا دیا گیا آرڈر پیک کریں اور اسے ایک ڈیلیوری یا کورئیر کمپنی کے ذریعے گاہک تک پہنچائیں۔ گاہک اسے وصول کر کے رقم ڈلیوری یا کورئیر کمپنی کو ادا کرے گا جو اس میں سے اپنے واجبات کاٹ کر آپ کو آپ کی رقم ادا کر دیں گے۔

اس مقصد کے لیے آپ کو ان کورئیر کمپنیز کے ساتھ کیش آن ڈلیوری کا اکاؤنٹ کھولنا پڑے گا۔ یہ ایک بہت سادہ سا عمل ہے جس میں آپ ڈیلیوری کمپنی کے پاس جاکر انہیں اپنا بینک اکاؤنٹ نمبر دیتے ہیں اور اپنا پتا ان کو فراہم کرتے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر وہ آپ سے آپ کے آرڈر وصول کرتے ہیں۔ جن پر رسید چسپاں ہوتی ہے۔ جس میں آپ نے ڈیلیور کی جانے والی اشیاء کی قیمت اور ڈلیوری کے چارجز شامل کیے ہوتے ہیں۔ بہت سارے آن لائن کاروبار کرنے والے ڈیلیوری کی قیمت اشیاء کی قیمت میں شامل کرکے بتاتے ہیں جب کہ بہت سارے لوگ قیمت علیحدہ بتاتے ہیں اور ڈلیوری کے چارجز علیحدہ بتاتے ہیں۔

پاکستان پوسٹ بھی کیش آن ڈلیوری کی سہولت فراہم کرتا ہے اس کے علاوہ ٹی سی ایس کورئیرز، لیپرڈز کورئیرز اور ایم این پی کورئیرز نمایاں کمپنیاں ہیں جو یہ سروس فراہم کرتی ہیں۔ حال ہی میں مشہور ٹرانسپورٹ کمپنی ڈیوو نے بھی کیش آن ڈلیوری کا نظام شروع کیا۔

ای کامرس کون شروع کر سکتا ہے؟

ای کامرس ہر وہ شخص شروع کر سکتا ہے جس کے پاس کچھ نہ کچھ فروخت کرنے کے لیے موجود ہے ۔

بدر خوشنود کہتے ہیں کہ 'خاص طور پر چھوٹے کاروبار جو اپنی مصنوعات ایک دوکان میں رکھ کر بیٹھے ہوئے ہیں مگر وہ اس کو فروخت نہیں کر پا رہے اور ان کے پاس ذخیرہ پڑا ہوا ہے تو ای کامرس گاہکوں تک پہنچنے کا تیز ترین ذریعہ ہے ۔'

و ہ کہتے ہیں کہ 'اس کی بنیاد پر ترقی کر جا سکتی ہے ۔اور اس کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس کے لیے آپ کو کوئی دوکان ہی نہیں چاہیے۔ آپ کو صرف پراڈکٹ بنانی ہے، کوالٹی کا خیال رکھنا ہے۔ اور صحیح گاہکوں کو ٹارگٹ کرنا ہیں۔'

ڈیجیٹل مارکیٹنگ کیسے ہو؟

مارکیٹ میں دوکان کے مقابلے میں ایک شاپنگ سینٹر میں دوکان کا موازنہ سمجھنے کے بعد اب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کیسے فیس بک ایک بہت بڑا پلیٹ فارم ہے جس پر پاکستان سے پونے چار کروڑ لوگ موجود ہیں۔ دوسری جانب گوگل بھی ایک بہت بڑا پلیٹ فارم ہے جس پر آپ اشتہار بازی کر سکتے ہیں۔

بالکل اسی طرح جیسے آپ ایک دوکان کے لیے بینرز، پوسٹرز یا پمفلٹس وغیرہ چھپواتے ہیں بالکل اسی طرح آپ فیس بک اور گوگل پر اپنی اشیا کی تشہیر کر سکتے ہیں۔

اس ڈیجیٹل یا سوشل میڈیا مارکیٹنگ کا فائدہ یہ ہے کہ آپ اپنے صارفین کو محدود کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ اپنی مصنوعات کو صرف پشاور، لاہور اور کراچی میں فروخت کرنا چاہتے ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ وہ صرف ان خواتین تک پہنچے جن کی عمر بیس سے چالیس سال کے درمیان ہوں تو یہ ممکن ہے ۔

رہنما اصول کیا ہیں؟

اس معاملے میں سب سے بڑا رہنما اصول یہ ہے آپ اپنے پیغام کو کتنا موثر بنا سکتے ہیں۔ اس کو ایسا ہونا چاہیے کہ اگر انٹر نیٹ پر آپ خود یہ دیکھ رہے تو یہ آپ کو بھلا لگے۔

اس کے بعد باری آتی ہے مختلف لوگوں کی جو اس کام میں بہت ترقی کر چکے ہیں۔

ان سب کی متفقہ رائے ہے کہ آپ کی تصاویر بہت خوبصورت ہونی چاہیے بے شک آپ ایک مگ بیچ رہے ہیں یا ایک چمچ بیچ رہے ہیں۔

مگر تصویر حقیقت پسندانہ ہونی چاہیے جس کو دیکھ کر گاہک کوالٹی، رنگ اور سائز کے بارے میں ایک حقیقت پسندانہ رائے قائم کر سکے۔

سب سے بڑا چیلنج

بدر خوشنود کہتے ہیں کہ 'ہمارا تعلیمی نظام بہت ہی ناکارہ ہے ایمانداری سے کہتا ہوں کہ میں یہیں سے پڑھا ہوں۔ پاکستان کے سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں سے پڑھا ہوں۔ ہم ایک بہت دقیانوسی اور روایتی سسٹم سے گزر رہے ہیں۔'

اگر کسی صارف نے، نئے کاروبار کرنے والے یا پرانے کاروبار کرنے والے نے ای کامرس پر اپنے کاروبار کو لانا ہو تو وہ بنیادی معلومات اور تکنیکی معاونت کہاں سے حاصل کرے؟

بدر خوشنود کہتے ہیں کہ 'اس کو بھی حل کرنے کے کچھ طریقے ہیں کہ لوگ کیسے اس کو بہتر کر سکتے ہیں۔ وفاقی حکومت کا ایک پروگرام ڈجی سکِلز اور حکومت پنجاب کا ای روزگار۔ آپ وہاں جا کر آن لائن بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔'

اس کے علاوہ بدر نے تجویز دی کہ 'ایک سرٹیفیکیشن جو ہر کسی کو میں تجویز کروں گا کہ ضرور اس کے بارے میں پڑھیں وہ گوگل اینالیٹکس ہے۔' اس کے مدد سے ایک کاروبار اپنی ویب سائٹ بہتر کر سکتا ہے۔

اور گوگل اور یوٹیوب ایک بہت بڑا وسیلہ ہے بلکہ معلومات کا خزانہ ہیں جہاں ہر موضوع اور ٹول کے بارے میں معلومات ہیں اور بہت سارے سوالوں کے جوابات ہیں۔ اور یہ مفت مواد ہے۔'

ٹاپ ٹپس

ہم نے بدر خوشنود اور لویزا بشارت دونوں سے پوچھا کہ وہ ہمارے قارئین کو بہترین ٹپس کیا دیں گے تو ان کی ٹپس کچھ ہوں ہیں۔

تو لویزا بشارت کی جانب سے یاد رکھنے والا مشورہ یہ ہے کہ 'ابتدا میں جب آپ کوئی بھی کام شروع کرتے ہیں تو آپ کو اس طرح سے رسپانس نہیں ملتا۔ لیکن وہ تمام لوگ جو اس طرح کا کام کر رہے ہیں میرا ان کو یہی پیغام ہے۔ کہ وہ اس چیز میں بالکل بھی نہ ہچکچائیں، بالکل بھی اپنا اعتماد نہ کھوئیں۔ اپنے کام میں لگے رہیں، اس کو کرتے رہیں۔ کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ آپ کو ایک اچھا رسپانس ملتا ہے۔ آپ فوراً اس سے مایوس نہ ہوں۔ آپ متواتر اس پر کام کرتے رہے تو آپ کو نتیجہ ضرور ملے گا۔'

جبکہ بدر خوشنود کہتے ہیں ’اور بدر خوشنود کا مشورہ کچھ یوں ہے کہ "ای کامرس کا مطلب صرف آن لائن سٹور بنانا نہیں ہے۔ ای کامرس کے مکمل فوائد حاصل کرنے کے لیے آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ آپ کو کاروبار کے جو روایتی طریقے ہیں ان کو دوبارہ سے بنانا اور اپنے ای کامرس کاروبار کے ساتھ چلانا پڑے گا۔ مثال کے طور پر سپلائی چین مینجمنٹ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور کسٹمر سروس وغیرہ‘۔

پاکستانی نوجوان انٹری لیول پر ہی ایک لاکھ روپے تنخواہ کن شعبوں میں حاصل کر سکتے ہیں؟

پاکستان میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پڑھے لکھے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بیرون ممالک منتقل ہونے اور نوکریاں تلاش کرنے میں اپنی توانیاں صرف کرتی ہے کیونکہ ان کے مطابق ملک میں رہتے ہوئے ایک تو نوکریوں کے مواقع کم ہیں اور دوسرا جو نوکریاں ہیں بھی ان میں دی جانے والی ابتدائی تنخواہیں انتہائی کم ہیں۔

یہ بات شاید کسی حد تک درست بھی ہو سکتی ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں نوکریوں کے مواقع کم ہیں اور پڑھے لکھے نوجوانوں میں ان نوکریوں کو حاصل کرنے کا مقابلہ انتہائی سخت، تو اسی دوران آجر نئے بھرتی ہونے والے نوجوانوں کا استحصال کرتے ہوئے انھیں کم تنخواہیں آفر کریں۔

ایک ایسے وقت میں جب ڈاکٹرز، انجینیئرز، وکلا اور دیگر معروف روایتی پیشوں میں ایک شخص کو معاشی طور پر مضبوط ہونے میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں، وہیں حیرت انگیز طور پر پاکستانی جاب مارکیٹ میں ایسے شعبے بھی موجود ہیں جہاں قابل لوگوں کے لیے آغاز میں ہی بہتر تنخواہیں حاصل کرنے کے مواقع موجود ہوتے ہیں۔

مگر کیا ایسا بھی ممکن ہے کہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ابتدائی چند ماہ میں ہی یعنی انٹری لیول پر ہی ایک شخص ایک لاکھ روپے ماہانہ کی تنخواہ حاصل کرنے لگے۔

میٹرک سے لے کر گریجویشن میں داخلے تک، اکثر نوجوانوں کے لیے یہ سوال اہم ہوتا ہے کہ انھیں کون سے مضامین کا انتخاب کرنا چاہیے، جو ناصرف اُن کے شوق سے مطابقت رکھتے ہوں بلکہ مستقبل میں ان کی اور ان کے خاندان کی زندگیوں میں مالی استحکام کا باعث بھی بن سکیں۔

آپ نے اکثر ہاؤس جاب کرنے والے کسی نوجوان ڈاکٹر کو یہ شکایت کرتے سُنا ہو گا کہ وہ 60 سے 70 ہزار روپے کے لیے 12 گھنٹے کی شفٹ کرنے پر مجبور ہیں اور اس میں بھی اوقات کار کا رونا الگ، یعنی ایک روز صبح کی شفٹ ہے تو اگلے ہی روز آدھی رات کی اور بعض اوقات 16، 18 گھنٹوں پر محیط طویل شفٹ بھی۔

تو کیا ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی شعبے کے فریش گریجویٹ کو شروع میں ہی ایک لاکھ روپے یا اس سے زیادہ کی ماہانہ تنخواہ ملتی ہو۔

پاکستان میں ہیومن ریسورس کے شعبے سے وابستہ سعیدہ ہدیٰ کہتی ہیں کہ پاکستان میں نئے فارغ التحصیل افراد کے لیے انٹری لیول (ابتدائی برسوں) میں سب سے اچھی تنخواہیں انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور ایسے دیگر غیر روایتی شبعوں میں ہیں جن کے بارے میں پاکستان میں کچھ سال قبل تک اتنی آگاہی موجود نہیں تھی۔

’ہم نے آئی ٹی میں اکثر ایسے فریش گریجویٹس دیکھے ہیں جن کے پاس کام کی مہارت ہے اور ضروری سرٹیفیکیشنز بھی۔ وہ ایم بی اے یا دیگر ڈگریاں کرنے والوں سے زیادہ تنخواہیں کما رہے ہوتے ہیں۔ آپ کے پاس ہنر ہونا چاہیے، باقی سب شعبوں کا اپنا اپنا سکوپ ہے۔‘

سعیدہ ہدیٰ ’ریموٹ بیس‘ نامی ایک کمپنی کے لیے کام کرتی ہیں۔ یہ کمپنی پاکستان میں ’سیلیکون ویلی کلائنٹس‘ کے لیے لوگوں کو بھرتی کرتی ہے۔

اپنے تجربے کی بنیاد پر وہ بتاتی ہیں کہ ’گرافک اور سٹوری بورڈ ڈیزائنرز سے لے کر پروگرامرز اور ڈیویلپرز تک، آئی ٹی میں سبھی کی تنخواہیں قدرے بہتر ہیں۔ بعض لوگ شروع ہی میں ماہانہ ایک لاکھ روپے سے زیادہ بھی کما لیتے ہیں۔‘

ہدیٰ سمیت کئی ایچ آر مینیجرز کا یہ تجربہ رہا ہے کہ پاکستان میں دیگر شعبوں کے مقابلے آئی ٹی میں نئے آنے والوں کی تنخواہیں اکثر زیادہ ہوتی ہیں۔

’ہم نے ایسے بھی امیدوار دیکھے ہیں جنھوں نے اچھے تعلیمی اداروں سے ایم بی اے کر رکھا ہے مگر وہ آغاز میں 30 ہزار ماہانہ سے زیادہ نہیں کما پاتے۔‘

اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ اگر کسی شخص نے کراچی میں سرسید یونیورسٹی یا کہیں اور سے اپنا گریجویشن مکمل کیا ہے اور ڈگری کے ساتھ سرٹیفیکیشن بھی حاصل کی ہے، چونکہ آج کل محض ڈگری ناکافی ہے، تو کمپنیاں تمام ضروری آزمائشوں کے بعد باآسانی اچھی تنخواہیں دے رہی ہیں۔

اُن کے مطابق اوسط درجے کے ادارے بھی ان ہنر مندوں کو آغاز میں 50 سے 80 ہزار دے دیتے ہیں۔

اُدھر ہیومن ریسورس (ایچ آر) کے شعبے سے منسلک ماہ نور طائی بتاتی ہیں کہ اگر موجود جاب مارکیٹ ٹرینڈ دیکھا جائے تو آئی ٹی میں سافٹ ویئر انجینیئرز اور پروگرامرز زیادہ ڈیمانڈ میں ہیں جن کی اوسط ابتدائی تنخواہ 60 سے 70 ہزار ہوتی ہے مگر اچھی کمپنیاں ایک لاکھ روپے تک بھی دے دیتی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ فنانس میں چارٹرڈ اکاؤنٹنگ کے شعبے (سی اے اور اے سی سی اے) کی طلب زیادہ ہے۔ ’اگر آپ اے سی سی اے یا سی اے فائنلسٹ ہوں تو آپ کی ابتدائی تنخواہ ایک لاکھ روپے سے اوپر ہو سکتی ہے۔‘

جب ہم نے ماہ نور سے پوچھا کہ مینجمنٹ یا ان کی اپنی ایچ آر کی فیلڈ سے متعلق اُن کی کیا رائے ہے تو انھوں نے ہنستے ہوئے بتایا کہ اُن کے شعبے میں ابتدائی تنخواہیں کم ہوتی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’ایک عرصے تک مارکیٹنگ والوں کو ابتدائی طور پر 20 سے 30 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی۔۔۔ یہ وہ شعبے ہیں جن کی مانگ وقت کے ساتھ کم ہو گئی ہے، حتیٰ کہ ان کی مینجمنٹ کی پوزیشنز جیسے ایڈمنسٹریٹیو مینیجر یا ایچ آر مینیجر، ان کو بھی اکثر ایک لاکھ روپے سے کم تنخواہ دی جاتی ہے۔‘

ان کی رائے ہے کہ میڈیسن اور لا کے شعبوں میں مہنگی تعلیم کے باوجود انٹری لیول پر اچھی تنخواہیں نہیں۔ ’پاکستان میں ڈاکٹر اور وکیل متعدد امتحانات اور کئی سال کی محنت کے بعد اچھی سیلری تک پہنچ پاتے ہیں۔‘

ماہ نور نے بتایا کہ ان کی نظر میں ’زیادہ تر بے روزگار لوگ ڈاکٹر اور انجینیئر ہیں۔ میرے لنکڈ اِن پر اتنے انجینیئر ہیں جو بے چارے نوکریاں تلاش کر رہے ہیں اور انھیں نوکریاں نہیں مل رہیں یا اس تنخواہ پر نہیں مل رہیں جو وہ چاہتے ہیں۔‘

ماہ نور کے خیال میں بعض شعبوں میں انٹری لیول پر تنخواہیں اس لیے بھی کم ہوتی ہیں کیونکہ ان کے فریش گریجویٹ پیشہ ورانہ اعتبار سے اتنے تیار نہیں ہوتے۔ ’جیسے تعمیری شعبے میں انجینیئر، آرکیٹیک اور ڈیزائنرز۔۔۔ انھیں پاکستانی تعلیمی اداروں میں جو پڑھایا جاتا ہے اور جو پیشہ ورانہ کام ہے، اس میں بڑا واضح فرق ہوتا ہے جو فیلڈ میں پہنچ کر ہی سمجھ آتا ہے۔‘

انھوں نے زور دیا کہ طلبا پہلی نوکری سے قبل ایسے ہنر سیکھ کر اپنا معیار بہتر بنا سکتے ہیں جس کی بنیاد پر انھیں بہتر تنخواہوں کی پیشکش ہو سکتی ہے۔

نوکریاں کم نہیں بلکہ ٹیلنٹ کی کمی ہے‘

مگر یہ ضروری نہیں کہ کوئی اچھی کمپنی زیادہ مانگ والے شعبے کے ہنر مند شخص کو بغیر سوچے سمجھے فوراً ایک لاکھ روپے کا چیک تھما دے۔

جیسے ہدیٰ کا کہنا ہے کہ زیادہ تنخواہوں کے لیے ان پروفیشنلز کو گریجویشن کے ساتھ ساتھ سرٹیفیکیشنز درکار ہوتی ہیں جن کے ذریعے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں سی وی پر درج کردہ مذکورہ کام آتے ہیں۔ یہ سرٹیفیکیشنز گوگل جیسی بڑی کمپنیاں جاری کرتی ہیں جن میں کسی مخصوص مہارت کے لیے امیدوار کی ٹریننگ اور آزمائش کی جاتی ہے۔

سیدہ ہدیٰ بتاتی ہیں کہ کئی نوجوان بیرون ملک کمپنیوں کے لیے پاکستان سے ہی کام کر لیتے ہیں جنھیں مارکیٹ کمپیٹیٹو (مقامی طور پر اچھی سمجھی جانے والی) تنخواہوں کے مقابلے قریب 40 فیصد بہتر پیسے، مراعات اور آگے بڑھنے کے مواقع ملتے ہیں۔

ہم اکثر سنتے ہیں کہ پاکستان میں لوگ زیادہ ہیں مگر نوکریاں کم۔ تو کیا لوگوں کو نوکریوں پر بھرتی کرنے والے اس سے اتفاق کرتے ہیں؟

ہدیٰ کی رائے میں پاکستان میں آئی ٹی کے بعض مخصوص شعبوں میں مہارت رکھنے والے افراد کی ’بہت قلت‘ ہے۔ ’مختلف جاب پورٹلز پر آسامیاں لگا کر امیدوار تو مل جاتے ہیں لیکن جسے کام آتا ہو، ایسے لوگ بہت کم ملتے ہیں۔‘

’امیدوار کم ہوتے ہیں مگر پاکستان میں کئی آئی ٹی کمپنیاں قائم ہو گئی ہیں۔ جسے بھی اچھی آفر ملتی ہے تو کمپنی بدل لیتا ہے۔ اس وجہ سے نئے لوگ ڈھونڈنے میں بہت دِقت ہوتی ہے۔‘

جبکہ ماہ نور کہتی ہیں کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں لمز اور آئی بی اے جیسے بڑے تعلیمی اداروں کے طلبا کو انٹری لیول پر سِکس فیگر تنخواہیں دے رہے ہوتے ہیں مگر اس سے پہلے سے موجود دیگر شعبے کے ملازمین کے ساتھ ان کا پے گیپ (تنخواہ میں تفاوت) بہت بڑھ جاتا ہے اور اس سے ’ان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔‘

آئی ٹی کی مثال دیتے ہوئے ہدیٰ بتاتی ہیں کہ یہاں سیلز اور ایڈمن کی تنخواہیں عموماً کم ہوتی ہیں تو ظاہر ہے آئی ٹی کے فریش گریجویٹ کو لاکھ روپے ماہانہ ملنے پر تنخواہوں میں فرق پیدا ہوتا ہے۔

سب سے زیادہ تنحواہیں آئی ٹی کے کن شعبوں میں؟

پاکستان میں سافٹ ویئر ہاؤسز کی ایسوسی ایشن ’پاشا‘ نے اس حوالے سے 2021 میں ’سیلری سروے‘ جاری کیا تھا جس میں 175 کمپنیوں نے حصہ لیا اور 12 ہزار سے زیادہ ملازمین کے سیلری ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا، یعنی یہ دیکھا گیا کہ کس شعبے کے ملازمین کو کتنی تنخواہیں ملتی ہیں۔

تو آئی ٹی کے شعبے میں کن ملازمین کو کم تجربہ رکھنے کے باوجود سِکس فیگر یا (کم از کم ایک لاکھ) تنخواہ ملتی ہے؟

اس رپورٹ کے مطابق محض ایک سال کا تجربہ رکھنے والے (انٹری لیول) پروگرامر، جن کی مہارت مخصوص شعبوں میں ہو، کو زیادہ سے زیادہ ایک سے دو لاکھ کے بیچ سٹارٹنگ سیلری مل سکتی ہے۔

اس میں بتایا گیا کہ 2021 کے دوران آئی او ایس، فرنٹ اینڈ، بیک اینڈ اور جاوا سمیت دیگر اقسام کے پروگرامرز جن کی مانگ زیادہ تھی، انھیں زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ روپے کی ابتدائی تنخواہ ملی۔

اسی طرح تکنیکی رولز میں سافٹ ویئر آرکیٹیک، ڈیٹا مائنر اور ڈیٹا سائنسدان، تھری ڈی اینیمیٹر، سسٹمز ایڈمنسٹریٹر اور کوالٹی انشورنس کے شعبے میں کم کرنے والے نئے لوگوں کو ایک لاکھ کے قریب جبکہ نیٹ ورک سکیورٹی انجینیئرز کو دو لاکھ روپے تک کی تنخواہیں بھی دی گئیں۔

سیلری سروے میں بتایا گیا ہے کہ تعلیم کی سطح اور معیاری یونیورسٹی کے علاوہ کمپنیاں اس بات پر سب سے زیادہ انحصار کرتی ہیں کہ ایک نئے شخص کو اپنے ہنر پر کتنی گرفت حاصل ہے۔

اگرچہ سروے کے مطابق انٹری لیول کی اوسط تنخواہیں محض 50 یا 60 ہزار ہیں تاہم بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں یا ایسے سٹارٹ اپس جن میں بھاری بھرکم غیر ملکی سرمایہ کاری کی گئی ہو، میں تنخواہوں کی شرح بہتر ہے۔

سروے میں بتایا گیا کہ بڑی تنخواہوں میں نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ ایمرجنگ سائنسز (فاسٹ)، نسٹ، لمز، آئی بی اے اور جی کی جیسے تعلیمی ادارے سرفہرست تھے جن کے طلبہ کو ترجیح ملی۔

آن لائن پیسے کمانے والے پاکستانی نوجوان: مہنگی تعلیم کے بغیر بھی انٹرنیٹ کے ذریعے پیسے کمائے جاسکتے ہیں!

زاہد رحیم نے جب نوشہرہ سے اسلام آباد آکر بطور آفس بوائے کام کیا تو اس دوران انھوں نے دیکھا کہ ان سے بہتر پوسٹ پر کام کرنے والے افراد نسبتاً کم کام کرتے ہیں اور زیادہ پیسے کماتے ہیں۔

ان کے لیے انٹرمیڈیٹ کے بعد اپنی تنخواہ کے بل پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا مشکل تھا تو انھوں نے اس کی جگہ آئی ٹی کے شعبے میں ہنر سیکھنے کے لیے شارٹ کورسز کر لیے۔

آج 26 سالہ زاہد ایک سافٹ ویئر ہاؤس میں اپنے بقول ایک ایسی نوکری کر رہے ہیں جس میں عزت اور پیسے زیادہ ہیں لیکن یومیہ کام کا دورانیہ کم۔

پاکستان میں اعلیٰ تعلیم ہر گزرتے سال کے ساتھ مہنگی ہوتی جا رہی ہے اور ملک میں بیروزگاری ایک بڑا مسئلہ خیال کیا جاتا ہے۔ ایسے میں کئی لوگ زاہد کی طرح، بذریعہ انٹرنیٹ یا شارٹ کورسز، ہنر سیکھ کر پیسے کمانے کے ’ڈیجیٹل راستے‘ تلاش کر رہے ہیں۔

زاہد اپنے تجربے سے یہ بات بڑے وثوق سے کہتے ہیں کہ مہنگی ڈگری یا کم تعلیم کے باوجود پاکستان میں لوگ آئی ٹی کے ہنر سیکھ کر آن لائن کام کے ذریعے پیسے کمائے جاسکتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ 'میں نے دیکھا کہ اس تنخواہ پر میں آگے نہیں پڑھ سکوں گا۔ اس لیے میں نے پڑھائی چھوڑ دی اور اُسی جگہ ریسیپشنسٹ کی نوکری جاری رکھی۔

'میں نے سیکھنا چاہا کہ مجھ سے بہتر پوسٹوں پر لوگوں کے پاس کیا ہنر ہیں تو مجھے لگا کہ اگر میں یہ ہنر سیکھ لوں تو میرے لیے (کم) تعلیم کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔

'میں نے ہنر سیکھنے کا فیصلہ کیا اور نیشنل ٹریننگ بیورو سے ویب اینڈ گرافک ڈیزائننگ کا شارٹ کورس کیا۔ اس سے میرے امتحان کے دن ہی مجھے نوکری مل گئی۔'

زاہد کا کہنا ہے کہ اس ہنر کی بدولت کسی بھی سافٹ ویئر ہاؤس میں اُن کی قدر اور عزت بڑھ گئی۔

'میں نے پھر مائیکرو سافٹ کے مزید سافٹ ویئر سیکھ کر اپنے ہنر بڑھانے کی کوشش کی۔۔۔ چیزیں بدلتی رہیں۔ میں اچھے پیسے کمانے کے لیے اپنے ہنر بڑھاتا رہا۔'

جب وہ انٹر پاس تھے تب وہ ہفتے میں چھ دن آٹھ گھنٹے نوکری کرنے کے بعد بھی بہت کم ہی پیسے کما پاتے تھے۔ لیکن اب ان صلاحیتوں کی بنیاد پر انھیں کم گھنٹے کام کرنے کے باوجود نسبتاً زیادہ پیسے ملتے ہیں۔

آفس بوائے کی نوکری کے بعد زاہد اب مصنوعی ذہانت کے شعبے سے منسلک ہیں اور ڈیٹا لیبلنگ ٹیکنیشن کے طور پر کام کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ڈیٹا لیبلنگ کا کام پاکستان میں عام نہیں لیکن اس کے باوجود وہ اس کی نوکری کر رہے ہیں کیونکہ عالمی سطح پر اس ہنر کی قدر ہے اور انٹرنیٹ کے ذریعے مقامی لوگوں کو اچھے پیسے کمانے کا موقع مل جاتا ہے۔

'مارکیٹ میں صرف ہنر یا سکل کام آتی ہے۔ جتنی تیزی سے دنیا بدل رہی ہے، اگر میں اسی ہنر تک محدود رہا اور روزانہ کی بنیاد پر خود کو اپ ڈیٹ نہ کیا تو شاید تین سال بعد میں مارکیٹ سے غائب ہو جاؤں۔'

وہ سمجھتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم کی ڈگری ضروری ہے لیکن پاکستان میں ایک بڑی تعداد میں لوگ اس کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتے اور یہ ایسے لوگوں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہوسکتی ہے جو ریسرچ کرنا چاہتے ہوں یا کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں۔

'اگر کوئی صرف نوکری کے لیے پڑھ رہا ہے تو میں کہوں گا کہ آپ اس کے ساتھ ایسے منفرد ہنر ضرور سیکھیں۔۔۔ ڈگری میں بھی لوگ ہنر ہی سیکھتے ہیں تاکہ پیسے کما سکیں۔ اگر آپ ڈگری میں کوئی ہنر نہیں سیکھتے تو یہ صرف ایک کاغذ کا ٹکرا ہے۔'

اب تک انھوں نے ویب ڈیزائننگ اور ای کامرس کے علاوہ کئی شعبوں کے ہنر سیکھے ہیں تاکہ کسی بھی سافٹ ویئر کمپنی میں یہ کام کر سکیں۔

زاہد کی انہی صلاحیتوں کی بدولت ایک مرتبہ وہ 'نوکری سے نکالے جانے سے بچ گئے تھے۔'

وہ کہتے ہیں کہ ایک دفتر میں ایسے حالات پیدا ہوگئے تھے کہ 'دو، تین گھنٹے بعد میری نوکری ختم ہو رہی تھی۔ اسی دوران میرے باس کو ایک کام پڑ گیا جو کسی کو نہیں آ رہا تھا اور خوش قسمتی سے صرف مجھے آتا تھا۔

'میں اپنے باس کے پاس گیا، وہ کام کیا اور اس کے بعد مزید دو سال وہاں نوکری کی۔'

ہنر سیکھ کر خود کے لیے کام کرنے کا فیصلہ

ایک وقت تھا جب لائبہ اظہر سمجھتی تھیں کہ آن لائن پیسے کمانا ’شاید کوئی جعلی سکیم ہوتی ہے۔‘ لیکن اب وہ پچھلے پانچ برسوں سے خود فری لانسر ہیں اور اپنی ویب ڈیزائننگ کی کمپنی سے لاکھوں روپے ماہانہ کما لیتی ہیں۔

23 سالہ لائبہ بھی انھی لوگوں میں سے ہیں۔ انھوں نے فری لانسنگ میں اس وقت دلچسپی لینا شروع کی جب یونیورسٹی میں انھوں نے اپنے اردگرد لوگوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے پیسے کماتے دیکھا۔

یونیورسٹی میں سافٹ ویئر انجینیئرنگ کے چوتھے سمسٹر کے دوران انھوں نے فری لانسنگ کے ذریعے اپنے تعلیمی اخراجات خود برداشت کرنے کا فیصلہ کیا۔

لائبہ فری لانسنگ کرنے کے لیے ویب سائٹ ڈیزائننگ سیکھنا چاہتی تھیں کیونکہ یہ ان کی ڈگری کا حصہ نہیں تھا۔ اس کے لیے انھوں نے گوگل اور یوٹیوب کو اپنا استاد بنا لیا۔

'مجھے اپنے ساتھیوں سے پتا چلا کہ فائیور (فری لانسنگ پلیٹ فارم) پر اکاؤنٹ بنا کر آن لائن کام کیا جاسکتا ہے۔'

اکثر فری لانسرز کی طرح انھوں نے ڈگری میں جو کچھ پڑھا، فری لانسنگ میں اس سے مختلف کام کیا۔

'ہم یہ نہیں کہتے کہ ڈگری چھوڑ دیں۔ بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس طرح کے ہنر سیکھیں جن کی مدد سے آپ (نوکری کے علاوہ) آن لائن پیسے کما سکتے ہیں۔'

'اپنے پہلے آرڈر میں مجھے ورڈ پریس کی ویب سائٹ بنانا تھی جو 25 ڈالر (قریب چار ہزار روپے) کا پراجیکٹ تھا۔ میرے لیے اس وقت وہ بہت بڑی بات تھی۔

'لیکن اب میری کمپنی کی آمدن پانچ سے چھ لاکھ روپے ہے۔'

وہ کہتی ہیں کہ فری لانسنگ کی پہلی شرط کوئی ہنر سیکھنا ہے، جیسے ایس سی او، ڈیجیٹل مارکٹنگ، گرافک ڈیزائننگ اور ویب ڈیزائننگ۔

'آج کل ہر بندے کو اپنی ویب سائٹ اور برانڈنگ چاہیے تاکہ اپنی حریف کمپنی سے بہتر کارکردگی کر سکیں۔۔۔ لوگ اپنی دلچسپی کے تحت کوئی ہنر سیکھ کر فری لانسنگ کر سکتے ہیں۔'

وہ کہتی ہیں کہ فائیور، اپ ورک اور فری لانسر ڈاٹ کام جیسی ویب سائٹس پر لوگ اپنے ہنر کے مطابق کام اور کلائنٹس ڈھونڈ سکتے ہیں۔

لائبہ کے مطابق لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی پراجیکٹ حاصل کر سکتے ہیں۔ شروعات میں انھیں اپنا پورٹ فولیو بنانا ہوتا ہے تاکہ یہ ثابت ہوسکے کہ انھیں کام آتا ہے۔ ان کے مطابق اگر کلائنٹ کو آپ کا کام پسند آئے گا تو وہ ضرور آپ کو کام دے گا۔

وہ اپنے کام کے ساتھ ہر عمر کے لوگوں کو فری لانسنگ سکھاتی بھی ہیں۔ ان سے اکثر ایسے لوگ رابطہ کرتے ہیں جنھیں لگتا ہے کہ گھر بیٹھ کر پیسے کمانا آسان ہے۔ یا ایسے لوگ جن کے پاس نوکریاں نہیں ہیں۔

'میری کافی دوستوں نے انجینیئرنگ کی ڈگری حاصل کی ہے لیکن ان کے پاس نوکری نہیں۔ اس کی وجہ سے وہ فری لانسنگ سے ہی اپنا گھر چلا رہی ہیں۔

'جیسے ہی لوگ گریجویٹ (فارغ التحصیل) ہوتے ہیں تو انھیں فوری طور پر پیسے کمانا ہوتے ہیں تاکہ اپنی فیملی کی مالی مدد کر سکیں۔ ایسے میں فری لانسنگ سے وہ جلد اس قابل ہوجاتے ہیں کہ پیسے کما سکیں۔'

ان کے مطابق آن لائن پیسے کمانے کے لیے ہنر سیکھنے کا شوق اور صبر ضروری ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے 2016 میں فری لانسنگ شروع کی اور 'صرف 11 ماہ میں 20 ہزار ڈالر (یعنی 20 لاکھ روپے سے زیادہ) کما لیے تھے۔'

اس وقت ان کے مطابق دنیا میں فری لانسنگ کے اعتبار سے مقابلہ کم تھا لیکن اب یہاں بھیڑ بڑھ گئی ہے اور اتنا کام ڈھونڈا آسان نہیں۔ لیکن قسمت کبھی کبھار آپ کو حیران بھی کر سکتی ہے۔

'میں نے ایک مرتبہ صرف 24 گھنٹوں میں 1800 ڈالر (یعنی ڈھائی لاکھ روپے کے قریب) کمائے تھے۔'

اب وہ اپنے کام میں اس قدر ماہر ہوچکی ہیں کہ بعض اوقات ان کے پاس اتنا آن لائن کام بُک ہوتا ہے کہ انھیں یہ چھوڑ کر کسی اور کو دینا پڑتا ہے۔ 'جیسے کل ہی مجھے 500 ڈالر (قریب 80 ہزار روپے) کا کام مل رہا تھا لیکن میرے پاس اتنا کام پہلے سے تھا کہ میں یہ نہیں کرسکتی تھی۔'

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ روز اتنے پیسے کما سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ فری لانسنگ کا سیزن ہوتا ہے۔ 'ہوسکتا ہے آپ کو کسی دن بہت زیادہ کام کر لیں اور کسی دن آپ کو کوئی کام نہ ملے۔'

لائبہ کا کہنا ہے کہ ڈگری کے بعد کسی نوکری کے مقابلے فری لانسنگ میں آپ کی آمدن بدلتی رہتی ہیں۔ یہ سب اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کتنا کام کرتے ہیں اور آپ کو گھنٹوں کے حساب سے کتنے پیسے ملتے ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ فری لانسنگ کے کئی فوائد ہیں لیکن کچھ نقصان بھی ہیں، جیسے بعض لوگ جھانسہ دے کر کام کے بدلے پیسے نہیں دیتے۔ تاہم اکثر اچھے پلیٹ فارمز پر ادائیگیوں کا نظام بہتر ہوتا ہے اور آپ کو ان کی فیس ادا کرنے کے بعد اپنے کام کے بدلے پیسے ضرور مل جاتے ہیں۔

ان کے مطابق خواتین کے لیے گھر بیٹھ کر پیسے کمانا یعنی ورک فرام ہوم آمدن کا اچھا ذریعہ ہوسکتا ہے۔

'ہمارے معاشرے میں اکثر لڑکیوں کو باہر کام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اس لیے وہ اس میں گھر بیٹھ کر پیسے کما سکتی ہیں۔۔۔ اس کے لیے ہنر کے ساتھ آپ کو گھر میں لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ چاہیے ہوتا ہے۔'

وہ خود ورک فرام ہوم سے متعلق اپنی مثال دیتی ہیں کہ 'ہاؤس وائف ہوتے ہوئے میرا ایک پاؤں کچن میں ہوتا ہے، اور دوسرا دفتر کے کاموں میں۔' ان کے مطابق وہ گھر سے کام کرنے کی بدولت دونوں میں توازن برقرار رکھ پاتی ہیں۔

’لاکھوں روپے آن لائن کمانے پر بھی لوگ بے روزگار سمجھتے رہے‘

ذاکر احمد شاہ آن لائن ٹریننگ پروگرام ڈیجی سکلز میں ورڈ پریس سکھاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اس سرکاری منصوبے کے ذریعے 120 ممالک میں موجود لوگ انٹرنیٹ سے متعلق آن لائن کورسز کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔

29 سالہ ذاکر نے بتایا ہے کہ ان کے پاس فری لانسنگ اور آئی ٹی سے متعلق دوسرے ہنر سیکھنے کے لیے ساتویں اور آٹھویں جماعت کے بچوں سے لے کر 60 یا 65 سال کے ریٹائرڈ افراد آتے ہیں۔

وہ فری لانسر کیسے بنے، اس پر ان کا کہنا تھا کہ 'یونیورسٹی میں میرے دوستوں نے مجھے ویب سائٹس کے لنک دیے (جہاں فری لانسنگ کا کام ملتا تھا)۔ میں نے ویسے ہی اکاؤنٹ بنایا اور مجھے پانچ ڈالر فی گھنٹے کے حساب سے کام مل گیا۔

'مجھے اس میں ویب سائٹ کی سٹائلنگ کرنی تھی۔ لیکن مجھے تو یہ نہیں آتا تھا۔۔۔ وہاں ایک انڈین مینیجر نے مجھے سمجھایا کہ یہ کام ایسے ہوگا۔ میں نے یونیورسٹی میں اس سے متعلق سیکھا تھا تو میں نے یہ کام کر دیا۔

'میں نے چار گھنٹے میں اس کا کام کردیا اور مجھے 20 ڈالر ملے جو کہ اس وقت کافی زیادہ تھے۔ وہاں سے میرا سفر شروع ہوا۔

'اب میری ماہانہ آمدن چھ، سات لاکھ روپے ہوجاتی ہے۔ کچھ ایسے بھی مہینے آتے ہیں جن میں میری ایک مہینے میں آمدن 20 لاکھ روپے یا اس سے بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔۔۔ فری لانسنگ کے علاوہ اب بھی ڈیجیٹل مارکیٹنگ، کنسلٹنسی اور اس طرح کی دوسری سروسز فراہم کر رہا ہوں۔'

ذاکر بتاتے ہیں کہ ان کی یونیورسٹی کی ڈگری سے زیادہ انھیں ایسے ہنر سیکھنے سے فائدہ پہنچا جن کی اس دوران طلب رہی اور آن لائن اچھے پیسے ملتے رہے۔

روزگار کمانے کا یہ طریقہ شاید بہت سے لوگوں کے لیے غیر معمولی ہوتا ہے۔ اسی لیے انھیں اس طرز عمل میں رکاوٹوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔

'میں 2012 سے فری لانسر کے طور پر کام کر رہا ہوں۔ کافی پیسے بھی کما لیتا ہوں۔ لیکن گھر والے اور دیگر لوگ مجھے اس کے باوجود کہتے رہے کہ نوکری ڈھونڈ لو۔

'وہ مجھے بے روزگار سمجھتے تھے۔ انھیں لگتا تھا کہ اس کے پاس کوئی کام نہیں ہے اور یہ کمپیوٹر پر بیٹھ کر صرف وقت ضائع کر رہا ہے۔ ان کے لیے یہ ناقابل یقین تھا کہ کوئی گھر بیٹھ کر بھی کام کرسکتا ہے۔'

وہ زیر تعلیم نوجوانوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ سوشل میڈیا کو بھی آن لائن آمدن کا ذریعہ بنا سکتے ہیں۔

'لوگ ٹک ٹاک یا سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرنے کی جگہ انھیں سیکھ کر بھی ان سے پیسے کما سکتے ہیں۔۔۔ آپ ویڈیوز بنا سکتے ہیں، لوگوں کی ویڈیوز یا یوٹیوب اور فیس بُک پر ان کی پروفائل مینج کر سکتے ہیں، ٹک ٹاک پر کوئی تشہیری مہم چلا سکتے ہیں۔'

ان کے مطابق 'دو طرح کے ہنر ہوتے ہیں۔ ایک جو ایک کا کچن چلائے اور دوسرا جو آپ شوق کے لیے کریں۔ جب تک کچن نہ چل رہا ہو، آپ شوق کو نہیں اپنا سکتے۔'

وہ اپنے طلبہ کو سکل بیسڈ لرننگ یعنی ہنر سکھاتے ہیں تاکہ وہ روزگار کما سکیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی انھیں اکثر کال کر کے بتاتے ہیں کہ انھیں بھی فری لانسنگ یا دوسرے ہنر سیکھنے ہیں۔

'ایک مرتبہ ہمیں سندھ سے ایک ٹرینی لڑکی نے فون کر کے بتایا کہ ان کے والد 20 ہزار روپے تنخواہ پر پوسٹ ماسٹر کی نوکری کرتے ہیں اور اب میں نے ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد 30 ہزار روپے کمائے ہیں۔

'وہ گھر کے اخراجات میں والد کا ہاتھ بٹا کر کافی خوش تھیں۔'

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں کئی لوگوں کے پاس ایسے وسائل نہیں کہ وہ لاکھوں روپے کی ڈگریاں کر سکیں۔

'ڈگری اگر آپ کر سکتے ہو تو یہ کافی اچھی چیز ہے۔ لیکن اگر آپ کے پاس ڈگری نہیں ہے تو کوئی بات نہیں۔ آپ ایسے ہنر سیکھ سکتے ہیں کہ اپنا گھر چلا سکیں۔‘

ذاکر زور دیتے ہیں کہ نوجوان یوڈیمی، ڈیجی سکلز، یوٹیوب یا گوگل جیسے پلیٹ فارمز سے ایسی سکلز حاصل کر سکتے ہیں جس سے وہ اپنے اور اپنے خاندان کا پیٹ پال سکیں۔